اُس کے ارد گرد بہت سارے بچے جمع ہو گئے۔ اس نے بچوں کو مخاطب کیا ’’بولو بچو! آج کیسی کہانی سنو گے؟‘‘
’’انکل! ایسی کہانی جس میں خوب سارے جانور ہوں۔ شیر ہوں، بھیڑیا ہو، چیتے ہوں۔‘‘
’’ہاں کہانی انکل! ایسی ہی کوئی کہانی— جس میں اڈونچر ہو، سسپنس ہو، ہارَر اور تھرل ہو۔‘‘
’’انتل! انتل جس میں للائی بی او۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ آج میں ایسی ہی کہانی سناتا ہوں:
کسی جنگل میں بہت سارے جانور تھے۔ ان میں بھیڑیں بھی تھیں۔ بھیڑوں کے ریوڑ جنگل میں چاروں طرف جگہ جگہ بکھرے پڑے تھے۔ بھیڑوں کو جنگل کے کچھ جانور پسند نہیں کرتے تھے اور ان کے خلاف اپنے دل میں میل رکھتے تھے۔ ان سے نفرت کرتے تھے۔
’’پسند کیوں نہیں کرتے تھے انکل؟‘‘
’’پسند نہ کرنے کی کئی وجہیں تھیں۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ ان جانوروں کے خیال میں بھیڑیں باہر سے آئی تھیں۔‘‘
’’یا سچ مچ بھیڑیں باہر سے آئی تھیں؟‘‘
’’کہتے تو یہی ہیں کہ بھیڑوں کے سکڑ دادا باہر سے آئے تھے مگر انھوں نے اس جنگل کو ہی اپنا گھر بنا لیا تھا۔ بہت سی بھیڑوں کو تو اس بات کا پتہ بھی نہیں تھا۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ بھیڑیں بچے بہت پیدا کرتی تھیں اور جنگل میں جگہ جگہ ان کے ریوڑوں کے پھیلے رہنے سے ان جانوروں کو کودنے پھاندنے اور بھاگنے دوڑنے میں رکاوٹ پیدا ہوتی تھی۔
بھیڑوں کا رہن سہن اور کھانے پینے کا طریقہ دوسرے جانوروں سے الگ تھا۔ نفرت کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔
ایک اور وجہ یہ تھی کہ جنگل کا راجا شیر بھیڑوں پر مہربان تھا۔ یہ اور بات تھی کہ شیر کی مہربانیاں صرف ان چند بھیڑوں تک محدود تہیں جن کے بال زیادہ گھنے اور سفید تھے۔ بھیڑوں کی بہت بڑی تعداد تو ایسی تھی کہ جن کے بدل پر بال تھے ہی نہیں اور جن پر تھے بھی وہ کافی چھدرے اور نُچے کھچے تھے۔ اور ان کے پیٹوں میں گڈھے بھی تھے۔
’’گڈھے!‘‘ کئی بچے ایک ساتھ چونکے۔
’’ہاں گڈھے۔‘‘
’’مگر بھیڑوں کے پیٹ میں گڈھے کیوں تھے۔‘‘ ایک نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’اس لیے کہ انھیں پیٹ بھر چارہ نہیں ملتا تھا اور چارہ نہ ملنے سے ان کے پیٹ اندر تک دھنس گئے تھے اور دھنسے ہوئے خالی پیٹ گڈھوں کی طرح دکھائی دیتے تھے۔‘‘
’’اوہ! اور انھیں چارہ کیوں نہیں ملتا تھا؟‘‘ اسی بچے نے پھر سوال کیا۔
’’اس لیے کہ جنگل کی بہت سی چراگاہوں میں انہیں گھسنے نہیں دیا جاتا تھا۔‘‘
’’چراگاہوں میں انھیں گھُسنے کیوں نہیں دیا جاتا تھا؟‘‘
’’کامران! تم بہت سوال کرتے ہو۔ کہانی سننے دو۔ آگے کیا ہوا انکل؟‘‘ ایک دوسرے بچے نے گھورتے ہوئے ٹوکا۔
بھیڑوں سے نفرت کرنے والے جانور شیر سے بھی جلتے تھے۔ شیر سے جلنے کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ شیر بھیڑوں پر مہربان تھا بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ شیر جنگل کا خیال کم اور اپنا زیادہ کرتا تھا۔ اس کی من مانی دن بدن بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ جنگل کی ہر ایک چیز پر صرف اپنا حق سمجھتا تھا۔ اگر وہ کسی جانور کو اپنا شکار بناتا تو اسے اپنا پیدائشی حق سمجھتا وہ جب چاہتا دہاڑتا اور اپنی دہاڑ سے جنگل کے کونے کونے میں دہشت پھیلا دیتا مگر کسی دوسرے جانور کی غرّاہٹ اسے پسند نہیں تھی۔ جب بھی کوئی جانور ذرا بھی اونچی آواز میں بولتا تو اس کی مونچھیں تن جاتیں۔ غصے سے اس کا منہ پھیل جاتا اور اس کے نکیلے دانت باہر نکل آتے۔
شیر سے دشمنی رکھنے والے جانور ہمیشہ شیر سے بدلہ لینے اور اس کو نیچا دکھانے کی تاک میں لگے رہتے مگر کامیابی نہ ملنے پر وہ اپنا غصہ بھیڑوں پر اتارتے تھے۔ کبھی بھیڑوں کے بچے پکڑ لے جاتے۔ کبھی بوڑھی بھیڑوں کو مار گراتے۔ کبھی مادہ بھیڑوں کے تھنوں کو بھنبھوڑ ڈالتے اور کبھی کبھی ریوڑوں پر ہلآ بول کر انھیں اتنا دوڑاتے کہ بہت سی بھیڑیں آپس میں ٹکرا ٹکرا کر کچل جاتیں۔
شیر سے ان کی دشمنی بڑھتی گئی۔ بڑھتی گئی اور یہاں تک جا پہنچی کہ انھوں نے ایک دن شیر کے خلاف بہت سارے جانوروں کو جمع کر لیا۔ ان میں سے ایک نے اپنی گردن اٹھا کر بھیڑ کو مخاطب کیا اور نہایت ہی اثر دار اور غصے سے بھری آواز میں کہا:
’’ساتھیو! شیر کی من مانی برداشت سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ ہمیں اس کے خلاف مل جل کر کچھ کرنا چاہیے۔ یوں بھی اس جنگل پر اس کو راج کرتے ہوئے کافی عرصہ ہو چکا ہے۔ اب کسی دوسرے کو موقع ملنا چاہیے۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
’’پھر یہ ہوا کہ آپس میں رائے مشورہ کر کے ان میں سے کچھ جانور شیر کے پاس گئے اور بہت ہی گمبھیر لہجے میں بولے :
’’معاف کیجیے گا، ہمیں آپ پر بھروسہ نہیں رہا۔ اب ہم اپنا راجا کسی اور کو بنانا چاہتے ہیں۔‘‘
شیر نے بہت ہی ضبط اور دھیرج کے ساتھ ان کی بات سنی اور ایک ایک کو گھورتے ہوئے پوچھا:
’’کیا جنگل کے سبھی جانوروں کی رائے ہے؟‘‘
شیر کے اس سوال پر ان میں سے کچھ تو سہم کر خاموش ہو گئے مگر کچھ جانوروں نے زور دے کر جواب دیا:
’’ہاں جنگل کے سبھی جانور چاہتے ہیں کہ ان کا راجا کسی دوسرے کو بنایا جائے۔‘‘
ان کا جواب سن کر شیر بڑی نرمی سے اطمینان بھرے لہجے میں بولا:
’’مگر میری جانکاری کے مطابق سبھی جانور ایسا نہیں چاہتے، پھر بھی میں آپ لوگوں کو مایوس نہیں کروں گا۔ میں اس بات کے لیے تیار ہوں کہ آپ اپنا راجا پھر سے چن لیجیے۔ شرط صرف یہ ہے کہ میدان میں میں بھی اتروں گا۔‘‘
جانوروں نے شیر کی شرط بخوشی مان لی۔ اب طے یہ کرنا تھا کہ شیر کے مقابل میدان میں اتارا کسے جائے۔ پوچھ تاچھ کرنے اور ٹوہ لینے پر پتہ چلا کہ یوں تو جنگل کا ہر ایک جانور راجا بننا چاہتا تھا مگر باگھ، بھیڑیا، تیندوہ اور بھالو اپنے کو اس عہدے کا حقدار سمجھتے تھے۔ ایک ساتھ یہ چاروں تو راجا بن نہیں سکتے تھے، اس لیے فیصلہ یہ ہوا کہ چاروں ہی میدان میں اتریں۔ جو جیت جائے گا، اسے جنگل کا راجا بنا دیا جائے گا۔
اس فیصلے کے ساتھ باگھ، تیندوہ، بھیڑیا اور بھالو چاروں جنگل میں گھوم گھوم کر تمام چھوٹے بڑے جانوروں سے ملنے لگے۔
یہ چاروں امیدوار باری باری سے بھیڑوں کے پاس بھی پہنچے اور اپنے اپنے دانتوں کو چھپاتے ہوئے بہت ہی میٹھی آواز میں بولے :
’’ہم اگر راجا ہو گئے تو تمہارے لیے جنگل کی ساری چراگاہیں دکھول دیں گے۔ کوئی روک ٹوک نہیں ہو گی۔ ہمارے راج میں تم پر کوئی حملہ نہیں کرے گا۔ تمہارا ایک بچہ بھی نہیں مارا جائے گا۔‘‘
ان کی چکنی چپڑی باتیں سن کر بھیڑوں کے ریوڑ سے کچھ بھیڑیں گردن اچکا اچکا کر ان کی طرف دیکھنے لگیں۔
اُدھر شیر نے بھی جنگل کے جانوروں کو اپنے پاس بلا کر ان سے ملنا شروع کر دیا تھا۔ ایک دن اس نے زیادہ گھنے اور سفید بالوں والی بھیڑوں کو بھی اپنے کچھار میں بلایا اور نہ جانے ان کے کانوں میں کیا کہا کہ جب وہ کچھار سے باہر نکلیں تو ان کی آنکھیں ہرنوں کی طرح چمک رہی تھیں۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
ایک دن جنگل کے سبھی جانور ایک بڑی سی وادی میں جمع ہوئے۔ راجا بننے کی شدید خواہش رکھنے والے امیدوار — شیر، باگھ، تیندوہ، بھیڑیا اور بھالو، پانچوں جانوروں کے ہجوم سے ہٹ کر پانچ کناروں پر جا کھڑے ہوئے۔
جنگل کے ڈھنڈورچی نے چیخ چیخ کر بھیڑ کو مخاطب کیا:
’’سنو! سنو! اے جنگل کے سمجھدار اور ہوشیار باسیو! تمہارے ہونے والے راجا تمہارے سامنے کھڑے ہیں۔ انھیں دیکھو! اور اپنی اپنی پسند کے راجا کے خیمے کی طرف بڑھ جاؤ؟‘‘
ڈھنڈورچی کا اعلان سنتے ہی جانور اپنے اپنے جھنڈ سے نکل کر پانچوں امیدواروں کے پاس پہنچنے لگے۔ زیادہ سفید اور گھنے بالوں والی بھیڑیں دور دور تک پھیلے ہوئے اپنے ریوڑ سے نکل کر شیر کی طرف بڑھیں۔ بس پھر کیا تھا۔ ان کے پیچھے پیچھے بھیڑوں کا سارا ریوڑ بھی شیر کے پاس پہنچ گیا۔
شام تک جانوروں کا سارا ہجوم پانچ حصوں میں بنٹ گیا۔ ایک ایک حصے کی گنتی شروع ہوئی۔ شیر کے پاس جمع ہوئے جانوروں کی تعداد سب سے زیادہ نکلی۔ شیر جیت گیا اور پھر سے جنگل کا راجا بن بیٹھا۔
باگھ، تیندوہ، بھیڑیا اور بھالو، اپنی ہار سے بہت دُکھی ہوئے۔ اور کافی شرمندہ بھی، ان سب نے اپنی ہار کا ذمہ دار بھیڑوں کو ٹھہرایا۔ باگھ اور بھیڑا تو مارے غصے کے بھیڑوں کے یوڑ پر جگہ جگہ ٹوٹ پڑے۔ زخمی بھیڑیں بد حواس ہو کر گرتی پڑی، لنگڑاتی، روتی، پیٹتی شیر کے پاس پہنچیں۔ شیر نے ان کا رونا دھونا سن کر دہاڑتے ہوئے للکارا۔
’’خبردار! اب اگر کسی نے ان پر حملہ کیا تو اس کا انجام برا ہو گا مگر شیر کی دہاڑ اور دھمکی کے با وجود حملے نہیں رُکے۔
کچھ دنوں بعد تیندوا اور بھالو دونوں ایک ساتھ مل کر بھیڑوں کے پاس آئے اور بہت ہی اعتماد اور بھروسہ کے ساتھ پیار بھری آواز میں ہمدردی جتاتے ہوئے بولے :
’’گھبراؤ نہیں، ہم تمہاری حفاظت کریں گے۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمہارے واسطے جنگل کی دوسری چراگاہیں بھی کھلوا دیں گے۔‘‘
تیندوا اور بھالو کی نرم ملازم باتیں سن کر بھیڑیں جگالی کرنے لگیں جیسے ان کے سوکھے معدوں سے بہت سی ہری ملائم پتیاں نکل کر ان کے منہ میں آ گئی ہوں۔ ان کے سر ہلنے لگے۔ دُمیں بھی ہلنے لگیں اور ان کے پاؤں بھی آگے پیچھے ہونے لگے۔
گرگٹوں کے ذریعہ شیر تک جب یہ خبر پہنچی تو گھبرا کر فوراً اس نے اپنی صلاح کار لومڑی کو طلب کیا۔
لومڑی نے اپنی آنکھیں نچا نچا کر خبر کی گمبھیرتا سے شیر کو آگاہ کیا۔ شیر نے بنا دیر کیے اپنے پالتو درندے جنگل کے کونے کونے میں دوڑا دیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے باگھ اور بھیڑے کے بہت سارے حمایتی بندی بنا کر گپھاؤں میں قید کر دیے گئے۔
باگھ اور بھیڑیے شیر کی اس چالبازی پر اس درجہ جھلّا اٹھے کہ وہ شیر کو اس کی اس حرکت کا مزا چکھانے کے لیے آپس میں مل گئے۔ انھوں نے بہلا پھُسلا کر گیدڑ، سانپ اور بندروں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا۔
شیر سے مقابلہ کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ سب نے اپنے اپنے مورچے سنبھال لیے۔ گیدڑوں کی باقاعدہ بیٹھکیں ہونے لگیں۔ ’’ہواں ہواں‘‘ نکلنے لگا۔ دور دراز کے گیدڑ بھی اس کورس میں شامل ہو گئے۔
گیدڑوں نے اپنی بھپکیوں سے بھیڑوں کو ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا۔ سانپ اپنے بلوں سے نکل کر بھیڑوں کے سامنے لہرا لہرا کر اپنا پھن پھیلانے لگے۔ ان کی پھنکاریں بھیڑوں کے کانوں میں گھس کر ان کے دلوں کو دہلانے لگیں۔ بندر بھیڑوں کے ریوڑوں کے آس پاس کے پیڑوں پر چڑھ کر دانت کچکچانے لگے۔ قلابازیاں کھانے کے بہانے بھیڑوں کی پیٹھوں پر دھم دھم کودنے لگے۔ باگھ اور بھیڑیوں نے اپنے اپنے حملے تیز کر دیے۔
بھیڑیں دائیں بائیں، وپر نیچے، اندر باہر ہر طرف سے مار کھانے لگیں۔ جگہ جگہ ان کے بچے کچلے اور ڈسے جانے لگے۔ بوڑھی بھیڑیں اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے لگیں۔ نوجوان بھیڑیں لنگڑانے لگیں اور مادہ بھیڑیں اپنے تھنوں کی نوچ کھسوٹ کے درد سے کراہنے لگیں۔
تنگ آ کر بہت سی بھیڑیں شیر کے کچھار میں پہنچیں۔ شیر سے رو رو کر اپنا دکھڑا سنایا۔ خون رِستے ہوئے اپنے زخم دکھائے۔ اور گڑگڑا کر بولیں:
’’ہم سے اب اور نہیں سہا جاتا۔ ہماری حالت پر ترس کھائیے اور کسی طرح اِن درندوں سے ہمیں بچائیے۔‘‘
بھیڑوں کا حال دیکھ کر شیر نے غرّاتے ہوئے اپنے شیروں کو حکم دیا کہ وہ حملہ روکنے کا جتن کریں مگر اس کے باوجود باگھ، بھیڑیے اور ان کے ساتھیوں کے حملے نہیں رُکے۔
’’پھر کیا ہوا انکل؟‘‘
بھیڑیں شیر سے نا امید اور مایوس ہو کر رحم طلب نگاہوں سے دوسرے جانوروں کی طرف دیکھنے لگیں۔ زیادہ گھنے اور سفید بالوں والی بھیڑیں بھی نہ جانے کیوں اس بار ان کے ساتھ ہو گئیں۔
یہ دیکھ کر بھیڑیں ان کی طرف دیکھنے لگی ہیں، باگھ اور ساتھیوں نے حملے روک دیے۔ اب بھیڑیں بے خوف ہو کر اطمینان کی سانس لینے لگیں۔ ان کے زخم بھرنے لگے مگر کچھ دنوں کے بعد اچانک ایک روز رات کے سنّاٹے میں ان پر حملہ ہو گیا۔
اس حملے میں بہت ساری بھیڑیں مر گئیں۔ اور ہزاروں کی تعداد میں بُری طرح زخمی ہو گئیں۔ بھیڑوں کے ریوڑ میں کہرام مچ گیا۔ ان کی چیخ و پکار سے سارا جنگل دہل اٹھا۔ ان کے دکھ میں شریک ہونے اور ان سے ہمدردی جتانے جنگل کے کونے کونے سے جانور پہنچنے لگے۔
اپنا سارا کام کاج چھوڑ کر جنگل کا راجا شیر بھی ان کے پاس پہنچا۔ بھیڑوں کی حالت دیکھتے ہی شیر کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ رو رو کر اس نے بھیڑوں کا حال پوچھا۔ آگے بڑھ کر ان کے زخموں پر مرہم رکھا۔ ہمدردی کے بول بول کر ڈھارس بندھائی۔ ہر طرح کا دلاسا دیا۔ اور اپنے کارندوں سے کہہ کر ان کے آگے ہر نرم چارے کے ڈھیر لگوا دیے۔ صرف یہی نہیں کہ شیر نے بھیڑوں کے غم میں آنسو بہائے، ان کے لیے مرہم پٹی اور چارہ پانی کا بندوبست کیا بلکہ ان کی تسلی کے لیے بہت سے گیدڑ، بندر، سانپ اور کچھ باگھ اور بھیڑیے پکڑ کے بند کر دیے۔
شیر کے آنسوؤں اور اس کی چارہ گری کے جذبے سے بھیڑیں پسیج گئیں۔ شیر کے خلاف ان کید لوں میں بیٹھا ہوا میل دھُل گیا اور وہ پھر سے شیر کی طرف دیکھنے لگیں۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
جس رات بھیڑوں کے ریوڑ پر حملہ ہوا تھا، اس رات کئی نوجوان بھیڑیں جاگ رہی تھیں۔ ان کی آنکھوں نے حملہ کرنے والوں کو پہچان لیا تھا۔
’’حملہ کرنے والے کون تھے؟‘‘
’’اوں ہوں۔ یہ نہیں بتاؤں۔ آخر سسپنس بھی تو ہونا چاہیے نا۔‘‘
’’ہاں، سسپنس تو چاہیے۔ آگے؟‘‘
’’ان نوجوان بھیڑوں نے جب دوسری نوجوان بھیڑوں کو یہ بتایا کہ اس رات ان پر حملہ کرنے والے کون تھے تو ان کی آنکھیں حیرت سے پھیلی رہ گئیں۔ مگر بوڑھی بھیڑوں کو یقین نہیں آیا۔
اس حادثے کے بعد نوجوان بھیڑوں کو شدت کے ساتھ احساس ہو گیا کہ جنگل میں رہنا ہے تو اپنے بچاؤ کے لیے خود ہی کوئی راستہ ڈھونڈنا ہو گا۔
’’انکل! کیا کوئی راستہ انھیں ملا؟‘‘
’’ہاں، ملا۔ ایک دن دو نوجوان بھیڑیں کسی بات پر آپس میں جھگڑ رہی تھیں کہ اچانک انھیں اپنے جسموں پر پڑی چوٹوں کے درد کی ٹیس سے محسوس ہوا کہ ان کے پاس کوئی بڑی کار آمد چیز موجود ہے۔ دونوں آپ کی لڑائی کو بھول کر ایک دوسرے کے سروں کی طرف دیکھنے لگیں۔
کچھ دیر کے بعد دونوں کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
’’ان کے سروں میں کیا تھا انکل؟‘‘
’’سسپنس۔‘‘
’’سوری انکل! آگے؟‘‘
ان دونوں نے پہلے نوجوان اور بعد میں بوڑھی بھیڑوں سے اپنے اپنے سروں کی طرف دیکھنے کو کہا۔ اپنے سروں کو دیکھ کر ان سب کی آنکھیں بھی چمک اٹھیں۔ سب کی سب اپنی رگوں میں ایک عجیب طرح کی راحت محسوس کرنے لگیں۔ مگر ایک دن ایک تجربہ کار بوڑھی بھیڑ نے نوجوانوں کو مخاطب کیا:
’’ہم نے اپنے سروں کو تو دیکھ لیا مگر جب تک اپنے پیروں کو نہیں دیکھیں گے ہمارے یہ سر کچھ نہیں کر سکیں گے۔‘‘
بوڑھی بھیڑ کی بات سن کر نوجوان بھیڑوں کی نگاہیں اپنے پیروں کی طرف مڑ گئیں۔ پیروں کو دیکھ کر تجربہ کار بھیڑ کی بات ان کی سمجھ میں آ گئی۔ اور وہ اپنے پیروں کی طرف دھیان دینے لگیں۔
جنگل میں راجا کو ہٹانے کی ہوا ایک بار پھر چل پڑی۔ جانور پھر سے ایک وادی میں جمع ہوئے۔ امیدوار کناروں پر کھڑے ہو گئے۔
ڈھنڈورچی کا اعلان سنتے ہی جانور اپنے اپنے جھنڈ سے نکل کر امیدواروں کی طرف بڑھنے لگے۔ زیادہ سفید اور گھنے بالوں والی بھیڑیں اپنے ریوڑ کی اگلی صف سے نکل کر آگے بڑھیں مگر کوئی بھی بھیڑ ان کے پیچھے نہیں گئی۔
یہ دیکھ کر تمام جانور بھونچکا رہ گئے۔ وادی پر سنّاٹا چھا گیا۔ ایک ایک جانور بھیڑوں کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگا۔
تب اگلی صف سے ایک نوجوان بھیڑ آگے نکل کر خاموشی کے سینے کو چیرتی ہوئی بولی:
’’ہمیں اس طرح آپ حیرت سے کیوں دیکھ رہے ہیں۔ ہم کوئی اجنبی نہیں ہیں بلکہ وہی بھیڑیں ہیں جو برسوں سے اس جنگل میں آپ کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ فرق صرفا تنا ہے کہ اب ہم نے اپنی چال بدل لی ہے۔ اور ہمیں یہ احساس ہو گیا ہے کہ ہمارے سروں میں بھی بہت کچھ ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی جنگل کے تمام جانوروں کی نگاہیں بھیڑوں کے پیروں اور سروں کی طرف مرکوز ہو گئیں۔
دور دور تک بھیڑیں فوجیوں کی طرح پاؤں سے پاؤں ملائے سر اٹھائے کھڑی تھیں اور ان کی آنکھیں بھی آج ہرنوں کی طرح چمک رہی تھیں۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
’’پھر کیا؟—کہانی ختم، پیسہ ہضم۔‘‘
بچے چہ می گوئیاں کرتے ہوئے اپنے گھروں کی طرف چل دیے۔ اور وہ اپنا بھونپو سنبھالے گھر آ کر بستر پر دراز ہو گیا۔
کہانی کے جانور کہانی سے نکل کر اس کے اندر داخل ہو گئے۔
کوئی دہاڑنے لگا۔
کوئی غرّانے
کسی نے پھنکارنا شروع کیا
کسی نے ہواں ہواں کرنا
اور کوئی دھم دھم کودنے لگا
البتہ بھیڑیں اس کے اندر نہ آ سکیں
وہ کہانی ہی میں سہمی ہوئی پڑی رہیں۔
٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...