باہر آکر میراج نے فون نکالا سمارٹ فون کا لیٹسٹ ماڈل کا فون اس کی رعب دار شخصیت پر اور جچ رہا تھا
رنگ جا رہی تھی مگر کوئ اٹھا نہیں رہا تھا میراج کو اس طرح کی بد احتیاطی دیکھ کر شدید غصہ آیا
ایک بار پھر نمبر ملایا جواب ندارد
غصے سے گاڑی کے بونٹ پر زور سے ہاتھ مارا
فون تو سنبھالتا نہیں اور اس معذور کو کیسے سنھبالے گا اور پھر زارا کا کیا کرے گا
میراج پریشانی سے سوچنے لگا ایک خیال کے تحت میراج نے ایک میسج لکھا اور سینڈ کر دیا
اندر گاؤں کے بڑے بوڑھے بیٹھے تھے میراج اس وقت کوئ بے پروائی نہیں کرنا چاہتا تھا
فون واپس رکھ کر اندر کی جانب قدم بڑھادیئے
……………..😍
ہلکی ہلکی آہوں کی آواز نے زارا کی آنکھیں کھول دی
زارا نے غور کیا کوئ مرد تھا تکلیف میں ضبط کرنے کی کوشش میں کراہ رہا تھا
زارا جلدی سے اٹھ بیٹھی سامنے چارپائ پر قاسم چہرہ خون سےتر تھا
تکلیف سے مٹھیاں بینچ کر آنکھیں بند کیۓ بیٹھا تھا
زارا آہستہ سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی کشمش میں تھی جاؤں پاس یا نہیں مگر قاسم کی حالت دیکھ کر پاس جانا مناسب سمجھا
ہولے ہولے چلتی قاسم کے سر پر پہنچ گئی کیا میں مدد کرسکتی ہوں سائیں دھیمے لہجے میں کہا کہیں اونچی آواز سے تکلیف نا ہو
اتنی تکلیف کے باوجود قاسم نے آنکھیں کھول کر دیکھا زارا قاسم کے پاس کھڑی تھی
قاسم تو زارا کو دیکھ کر ہی سارا درد بھول گیا
جی کرو قاسم نے بھی نرمی سے کہا اور دھیرے سے مسکرا دیا
زارا تھوڑا اور پاس آئ قاسم کو خوشگوار سا احساس ہوا
آپ کے پاس رومال ہے زارا نے اردگرد دیکھا تو کوئ چیز نہ ملی خون صاف کرنے کے لیے
باہر میری گاڑی میں رکھا ہے اور ٹشو بھی ہے قاسم نے محبت سے چور لہجے کہا
زارا کو اپنے لیۓ فکرمند ہوتا دیکھ کر قاسم کی سوئ محبت پھر سے جاگ گئی وہ تو یہ بھی بھول گیا کہ آج اسکا نکاح ہے یاد رہا تو صرف زارا کا ساتھ
اچھا میں لے آتی ہوں آپ ادھر ہی بیٹھے رہیں قاسم کو اٹھتا دیکھ کر زارا نے جلدی سے قاسم کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دباؤ ڈالا بیٹھے رہنے کا اشارہ تھا
قاسم کی تو مانو مراد بھر آئ وہ میٹھی نظروں سے زارا کی پشت دیکھنے لگا
زارا گاڑی میں بیٹھ کر رومال نکالا ساتھ ٹشو بھی لے لیۓ ابھی نکلنے ہی لگی تھی جب گاڑی میں پڑا فون روشن ہوا
زارا موبائل کو اگنور کر کے واپس گودام پر آئ
قاسم اسہی حالت میں بیٹھا تھا ماتھے پر چوٹ لگی تھی مگر خون بہنے کی وجہ سے پورا چہرہ بھر گیا تھا
ہتھلی قاسم کی ٹھوڈی کے نیچے رکھ کر زارا نے قاسم کا چہرہ اوپر اٹھایا
زارا کے اس طرح کرنے سے قاسم کی آنکھیں ڈائریکٹ زارا کی آنکھوں سے جاملیں زارا نے جلدی نے آنکھیں جھکا لیں
ڈبے میں سے ٹشو نکال کر زارا نے آہستہ آہستہ ہلکے ہاتھ سے خون صاف کرنے لگی
اس طرح کرنے سے زارا کی نازک سی انگلیوں کا لمس قاسم کے چہرے پر محسوس ہورہا تھا
زارا کو خود کے اتنے پاس دیکھ کر قاسم اندر تک سرشار ہوا
…………..😍🙈😍
نکاح کی دعا کے بعد سب کو مٹھائ کے بڑھے ٹوکرے دیۓ
ملازمین جو قاسم کے چوبارے پر کام کرتے تھے اور جو نکاح کے انتظام کرنے والے تھے سب کو بھر بھر کے پیسے دیۓ
دلہن کو گاڑی میں بیٹھایا شفا کے دل میں کوئ ارمان نہ تھا شادی کو لے کر اسے اپنی حالت کا پتہ تھا اس لیئے سوچا ہی نا تھا
گاڑی حویلی کے راستے پر ڈالتے ہوئے میراج نے گردن موڑ کر گھونگٹ میں بیٹھی شفا کو دیکھا اس وقت دونوں کی حالت ایک سی بے چین تھی
……………..😍🙈😍
میراج نے چوبارے پر آتے ہی نکاح کے پیپرز پر اپنا نام اور شفا کا نام لکھوایا اور پھر خاموشی سے نکاح ہوگیا
پیپرز جب شفا نے دیکھے تو قاسم کی جگہ میراج کا نام دیکھ کر حیران ہوئ مگر ظاہر نا کیا
سائن کر تو لیئے مگر شدت سے رونا آیا قاسم نے شفا کو معذور سمجھ کر اس سے خود نکاح کرنے کے بجائے کسی اورسے کروادی
اب گاڑی میں بیٹھی سوچ ہی رہی تھی کہ اچانک فائرنگ کرنے کی آواز آئی
شفا سہم گئی میراج نے رخ موڑ کردیکھا تو شفا ڈرئ سہمی سی بیٹھی تھی
ریلیکس نکاح کی وجہ سے فائرنگ ہو رہی ہے میراج نے دھیرے سے شفا کے گود میں پڑے ہاتھ کو پکڑا
شفا کرنٹ کھا کر ہاتھ پیچھے کیا
میراج نے شفا کا گریز دیکھ کر ہاتھ پیچھے کرلیا میراج کو غصہ بھی آیا مگر شفا کے بارے میں سوچ کر دبا گیا
……………..😍🙈😍
زخم پر رومال لپیٹ کر زارا نے پیچھے سے باندھنے کے لئے اور پاس ہوگئ قاسم کے بازوں سے زارا مس ہوگئ تو جلدی سے پیچھے ہٹی قاسم بھی شرمندہ ہوگیا
میں خود باندھ لوں گا قاسم نے دونوں ہاتھ پیچھے لے جاتے ہوئے کہا
زارا نے اثبات میں سر ہلایا اتنی دیر میں میراج کا ملازم بھی آگیا
سائیں ڈاکٹر بابو تو شہر گیا ہےآپ……. وہ ابھی کچھ بول ہی رہا تھا جب دیکھا خون صاف ہوچکا ہے اور زخم پر پٹی (رومال) بھی لگ گیا
اچھا تم جاؤ میں اب چلتا ہوں ملازم کو بول کر قاسم اٹھنے لگا جب اس کی نظر زارا کے اداس چہرے پہ پڑی
تم بھی ساتھ چلو گی گھر چھوڑ دوں قاسم نے اپنائیت سے کہا
شام ہوچکی تھی زارا نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا گھر کا سن کر آنکھیں بھر آئیں اسے رہ رہ کر شفا کا خیال آرہا تھا
کیا ہوا تم اداس کیوں ہوگئ گھر کا نام سن کر قاسم نے اس کی بھیگی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے کہا
زارا کا ضبط جواب دے گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
زارا کو روتا دیکھ کر قاسم کے ہاتھ پاؤں پھول گئے
ارے تم رو کیوں رہی ہو شش, چپ ہو جاؤ کیا ہوا مجھے بتاؤ قاسم ہمدردی سے کہتا چپ کروانے کی غرض سے زارا کے پاس آیا
آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے قاسم نے آہستہ سے زارا کے دونوں ہاتھوں کو نیچے کیا اس طرح روتے دیکھ کر قاسم کا کلیجہ کٹ کے رہ گیا
قاسم نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کے پوروں سے زارا کے آنسو صاف کیۓ اور چہرہ اوپر کیا زارا نے جیسے ہی سامنے دیکھا تو دونوں کی نظریں ملیں قاسم نے ٹرانس کی کیفیت میں زارا کے گرد بازوں پھیلا دۓ ہاتھوں کو کمر کے پیچھے لے جا کر ہلکا سا دباؤڈالا
بھوک اور پیاس سے نڈھال زارا سیدھا قاسم کے سینے سے آ لگی
قاسم نے زارا کو خود سے لگاۓ پیار سے سر پر ہاتھ رکھا
بتاؤ میں سن رہاہوں.. قاسم نے مخمور لہجے میں کہا
اور زارا پٹر پٹر بولتی گئی سب بول کر زارا کا دل ہلکا ہوا تو اسے عجیب محسوس ہوا اور پھر ڈھیروں شرم نے آگہرا
……………..😍🙈😍