“السلام علیکم! نغمہ آپا امی کہاں ہیں ؟” بسمہ ابھی ابھی سکول سے فارغ ہو کر گھر آئی تھی اپنا پرس اور کچھ پیپرز جو آج اس نے چیک کرنے تھے ایک کمرے میں رکھ کر حسبِ عادت وہ ماں اور اپنے مشترکہ کمرے میں آئی جہاں انکی ملازمہ نغمہ انکے کمرے کی صفائی کر رہی تھی ۔ ماں کو وہاں نہ پا کر ان سے استفسار کرنے لگی
“بیٹا انہیں یہاں کچھ گھبراہٹ ہو رہی تھی اس لیے باہر پارک میں کچھ دیر کے لیے گئی ہیں۔” نغمہ نے سلام کا جواب دینے کے بعد شفقت سے اسے بتایا
“اوکے میں انہیں لے کر آتی ہوں آپ کھانا لگائیں تب تک۔” آج کالج میں اسے اتنا وقت نہیں ملا تھا کہ لنچ کر سکے اس لیے اب اسے زوروں کی بھوک لگی تھی اپنی مخصوص مسکراہٹ سے انہیں کہتی وہ مین گیٹ کی طرف بڑھ گئی۔
بہار کا موسم تھا باہر دھوپ میں ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا کا اپنا ہی کچھ الگ انداز اور مزہ تھا جو سب کو اپنے سحر میں جگھڑ لیتا تھا
یہ تھی بسمہ سیف ۔۔۔ اپنی ماں عالیہ کے ساتھ تن تنہا اس تین مرلے کے گھر میں رہتی تھی ۔۔۔ تین سال پہلے وہ بی اے میں تھی جب اسکے والد کا انتقال ہو گیا۔۔۔ سیف صاحب کی پینشن سے انکے اخراجات پورے نہیں ہو رہے تھے ۔۔۔ پیسوں کی قلت اور ماں کی بیماری کو پیشِ نظر رکھتے وہ خضر صاحب (جو کہ ایک مشہور بزنس مین تھے انہوں نے اپنا ایک ادارہ بنایا تھا جہاں ایسے بچوں کو تعلیم دی جاتی جن کے والدین زیادہ فیس ادا نہیں کر سکتے تھے) کے سکول میں بطورِ ٹیچر جاب کر رہی تھی۔
__________
خضر صاحب سکول سے فری ہو کر اپنے کسی دوست کے ہاں چلے گئے تھے جب سے انکا بیٹا فرانس سے پڑھ کر واپس آیا تھا انہیں آفس کی فکر نہیں رہی تھی اس نے آتے ہی اتنے اچھے سے سب بزنس مینج کر لیا تھا ۔۔۔۔ رات کے تقریباً دس بجے کے قریب ان دونوں کی گاڑیاں گھر کے گیراج میں پارک ہوئیں دونوں ایک ہی وقت گھر آئے تھے جہاں انکی لاڈلی طُوبہ انکا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔ دونوں فریش ہو کر ڈائیننگ ٹیبل پر موجود تھے ۔۔۔ خاموش بیٹھی طُوبہ نے اپنے بابا اور لالہ کو دیکھا جو ڈنر کرتے ہوئے بھی کسی بزنس میٹینگ پر بات کر رہے تھے انکے خاموش ہوتے ہی اس نے خود کو بات کرنے کے لیے تیار کیا ۔
“لالہ مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔ ”
“تم نے کب سے اجازت لینی شروع کر دی۔” اویس نے ابرو اچکا کر پوچھا
“جب سے آپ نے مجھے نظر انداز کرنا شروع کر دیا ہے ۔” طُوبہ نے ناک سکیڑی
“میں نے کب نظر انداز کیا اپنی گڑیا کو ؟” اویس نے حیرت سے اس سے پوچھا
“جب سے آپ ولایت سے واپس آئیں ہیں ہمیشہ مصروف رہتے ہیں پہلے جب آپ یہاں تھے تو ہم دونوں کتنا انجوائے کرتے تھے لیکن آج کل آپ کو بس کام کام کام یا کام کی فکر ان دو چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں دیکھ رہا۔” طُوبہ نے منہ بنایا
“گڑیا اگر میں کام نہیں کروں گا تو یہ بزنس کون سنبھالے گا ؟؟” اویس نے سوال کیا
“لالہ میری دوست کہتی ہے یہ انسان کی فطرت ہے کہ انسان سکونِ دل کے لیے اتنی دولت اور عزت کماتا ہے لیکن آخر میں انکی فکر میں اپنے سکون کو تباہ کر بیٹھتا ہے جبکہ اللہ نے ہمیں دل دیا اور سکون اپنے پاس رکھا اور فرمایا سکون صرف اللہ کی یاد میں ہے۔” طُوبہ نے اپنی بیسٹی کی بات دہرائی جس پر اویس نے اسے کچھ حیرت سے دیکھا
“لالہ دیکھیں اس نے کتنی صحیح بات کی ہے میں نے آپ کو خود دیکھا ہے آپ رات کو بھی بیٹھے اپنا کام کر رہے ہوتے ہیں جبکہ ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے ۔۔۔ عزت شہرت پھر بھی آپ اسکی فکر میں خود کا سکون کیوں برباد کر رہے ہیں؟؟” طُوبہ نے اسکی حیرت کو دیکھ کر کہا
“بالکل درست کہتی ہیں آپکی دوست ۔۔۔”
“اویس میں بھی کچھ دنوں سے دیکھ رہا ہوں تم رات کو جلدی نہیں سوتے جس وجہ سے کمزور نظر آ رہے ہو ۔۔۔ جتنا تم ایزیلی کام سنبھال سکتے ہو اتنا کر لیا کرو باقی سب دیکھنے کے لیے خالد ہے۔” خضر صاحب نے طُوبہ سے متفق ہوتے اپنے بیٹے سے کہا
“لیکن بابا کچھ دن تو ایسے ہی لگیں گے جیسے ہی سب ہینڈل کر لوں گا جلدی سو جایا کروں گا۔” اویس نے پیشانی کو ذرا دبا کر کہا اسے صبح سے سر میں کچھ درد محسوس ہو رہا تھا
“بس لالہ میں کچھ نہیں سن رہی آپ کیا اپنے پورے آفس کے اسٹاف کا کام بھی خود کرتے ہیں؟؟ اور کیا سارا اسٹاف وہاں مکھیاں مارنے کو رکھا ہوا ہے ؟ حد ہو گئی ہے لیکن اب بس بہت ہوا کل سے آپ مجھے اپنے دو گھنٹے دے رہے ہیں۔” طُوبہ نے خفگی کا مظاہرہ کرتے کہا
“اوکے میری ماں آپکا حکم سر آنکھوں پر۔” اویس نے سر کو ہلکا سا خم دے کر کہا جس پر طُوبہ کھلکھلا دی
“آپ کو پچھلے دو ماہ مجھے اگنور کرنے کے سزا میں ایک اور حکم سنایا جاتا ہے۔” طُوبہ نے ایک ادا سے سزا دینے کا کہا اویس نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا
“لالہ پلیز شادی کر لیں میں اکیلی گھر میں بور ہو جاتی ہوں سکول سے فارغ ہو کر جب گھر آتی ہیں تو بابا خود یا تو اخبار پکڑ کر بیٹھ جائیں گے یا اپنے کسی دوست کے پاس چلے جائیں گے صدا کے بورنگ بابا ۔” طُوبہ نے گہرا سانس لے کر خارج کیا
“شریر لڑکی۔” خضر صاحب نے اسے گھورا
“لالہ پلیز میں اب آپکی شادی کروانا چاہتی ہوں آپ بتائیں ناں ۔” طُوبہ نے باپ کی گھوری پر مسکراہٹ دبائی اور دوبارہ اپنے بھائی کی طرف متوجہ ہو گئی
“نیکی اور پوچھ پوچھ۔”اویس شاید سنجیدہ نہیں تھا
“لالہ ایم سیریس۔” طُوبہ نے آنکھیں گھومائیں
“تو مائی ڈئیر گڑیا شادی کے لیے ایک عدد لڑکی کا ہونا لازم ہوتا ہے۔” اویس نے سانس خارج کرتے سنجیدگی سے کہا البتہ آنکھوں میں اتنی سنجیدگی نہیں تھی
“تو کیا آپ فرانس میں وہاں اکیلے ایسے ہی رہے ہیں (بھائی کی گھوری پر فوراً زبان کو دانتوں تلے دبایا) میرا مطلب ہے وہاں کوئی پسند نہیں آئی۔” طُوبہ نے کچھ حیرت سے پوچھا
“نہیں میں ان کاموں میں ذرا نکما ہوں اور مجھ بے چارے کو ویسے بھی کون پسند کرے گی۔” اویس نے مسکراہٹ دبا کر کہا
“ویری فنی لالہ کتنی لڑکیاں آپکی پرسنیلٹی پر لٹوں ہیں میں خود گواہ ہوں پانچ سال پہلے آپکے لیے لڑکیاں مجھ سے دوستی کرنے پر تلی ہوئیں تھیں اور اب تو ماشاءاللہ آپ اور زیادہ ہینڈسم ہو گئے ہیں۔” طُوبہ نے اپنے بھائی کو دیکھا جو اس وقت عام حلیے میں بھی بہت پیارا لگ رہا تھا
“دیکھ رہے ہیں بابا اپنی لاڈلی کو ہر چیز پر نظر ثانی رہتی ہے میڈم کی اور اب میری بڑی ماں بن کر شادی کے مشورے بھی دے رہی ہے۔” اویس نے تُوبہ کی بات پر مسکراہٹ دبا کر خضر صاحب کو دیکھا ۔۔۔ بلاشبہ طُوبہ اپنی دوستوں والی بات سچ کہہ رہی تھی یہ وہ بھی جانتا تھا
“بھئ میں اپنی لاڈلی کے ساتھ ہوں مجھے بھی لگتا ہے اب تمہیں شادی کر لینی چاہیے۔” خضر صاحب نے تُوبہ کے حق میں ووٹ دیا جس پر وہ خوش ہو گئی ۔۔۔ اویس نے کندھے اچکا دیے
“اوکے پھر ڈن رہا میں کل سے ہی اپنی بھابھی ڈھونڈنا شروع کرتی ہوں دیکھ لیجیے گا میں آپکے لیے دنیا کی بیسٹ لڑکی ڈھونڈوں گی جو ورلڈز بیسٹ بھابھی ہو گی۔” طُوبہ نے خوشی اور جوش سے کہا جس پر دونوں باپ بیٹے مسکرا دیے۔
______________
“نغمہ آپا آدھے گھنٹے بعد یہ دوائی امی کو وقت پر دے دیجیے گا آج امی کو چیک اپ کے لیے کلینک بھی لے کر جانا ہے کوشش کروں گی جلدی آ جاؤں ۔” فجر کی نماز کے بعد بسمہ نے ناشتہ بنایا اور اس وقت ناشتہ کرتے دوائی نغمہ کی طرف بڑھائی اور جوس کا گلاس لبوں سے لگا لیا
نغمہ کو ان کے ساتھ رہتے دو سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا تھا بسمہ نے اسے اپنی ماں کی دیکھ بھال کے لیے رکھا تھا جاب کی وجہ سے سارا دن انکا خیال نہیں رکھ سکتی تھی تبھی اسے نغمہ ملی ۔۔۔ اسکا خاندان ایک ٹرین حادثے میں تباہ ہو گیا تھا اس شہر میں وہ اکیلی تھی ۔۔۔ اس نے پیسوں کی زیادہ ڈیمانڈ نہیں کی تھی بس جو اسکے نصیب میں ہو وہ روٹی کپڑا اور رہنے کے لیے ایک عدد چھت اس لیے وہ انہیں کے گھر میں رہتی ۔۔۔ بسمہ نے یہ سوچا کہ اللہ ہر انسان کی روزی کسی نہ کسی طریقے سے ان تک پہنچاتا ہے اگر وہ انہیں رکھ لیں گے تو جو انکے نصیب کا ہو گا اللہ اسے بھی عطا کر دے گا وہ تو صرف شاید ذریعے ہے بنی تھی اسکے لیے ۔۔۔ بسمہ کی اپنی کوشش ہوتی تھی کہ وہ زیادہ نہیں تو کچھ کام خود بھی کیا کرے اس لیے صبح اور رات کا کھانا ہمیشہ وہ خود بناتی اور رات کے برتن دھو کر وہ اپنے سکول ورک میں بزی ہو جاتی ۔۔۔ گھر میں صرف دو کمرے تھے ایک میں عالیہ بیگم کے ساتھ بسمہ اور دوسرے میں نغمہ سوتی تھی ۔۔۔ بسمہ باپ کی وفات کے بعد سے اپنی ماں کے ساتھ ایک کمرے میں ہی تھی
اس پورے وقت میں عالیہ بیگم اپنی بیٹی کو دیکھتی رہیں جو اس وقت گلابی سادہ فراک کے ساتھ سفید چوڑیدار پاجامہ اور سفید دوپٹہ سلیقے سے سر پر اوڑھے بہت پیاری لگ رہی تھی ۔۔۔ وہ زیادہ حسین تو نہ تھی لیکن صاف شفاف رنگت پر عام نین نقوش اور کالے گھنے لمبے بال جنہیں زیادہ تر وہ چٹیا یا جوڑے میں مقید رکھتی تھی اپنی سادگی میں وہ کمال تھی ۔۔۔لیکن پھر کیوں اسکے تایا زاد نے اسے اپنانے سے انکار کر دیا صرف اس لیے کہ باپ فوت ہو گیا ہے تو اب اسے جہیز نہیں ملے گا۔
“امی”
بسمہ کی آواز پر اسے اپنی سوچوں سے واپس آنا پڑا انہوں نے فوراً اسکی طرف دیکھا
“کیا ہوا امی ؟؟ آپ کچھ کھا کیوں نہیں رہیں؟ ” بسمہ نے ماں کو کہیں کھوئے دیکھ کر پوچھا
“ہاں بس کھا رہی ہوں۔” عالیہ بیگم نے نوالا توڑتے آہستہ سے کہا
“اوکے امی میں چلتی ہوں دعاؤں میں یاد رکھیے گا اللّٰہ حافظ” ناشتے سے فارغ ہو کر بسمہ نے اپنا پرس اٹھایا اور ماں کی صبیح پیشانی کو چوم کر سکول کے لیے روانہ ہو گئی۔
_____________
“گڈ مارننگ لالہ۔ ” بھائی کو سیڑھیوں سے اترتے دیکھ کر طُوبہ نے خوشگوار موڈ میں کہا
“گڈ مارننگ گڑیا۔” اویس ہلکی سی مسکان لبوں پر سجائے خضر صاحب کے ساتھ والی کرسی پر آ کر بیٹھ گیا
تینوں نے خاموشی سے ناشتہ کیا
“اوکے بابا میں آفس کے لئے نکلتا ہوں۔” اویس چیئر تھوڑی سی پیچھے کو سرکا کر اٹھا اور باپ کو خدا حافظ کہہ کر طُوبہ کی طرف مڑا جو تیار اسے ہی دیکھ رہی تھی
“خدا حافظ لالہ” طُوبہ اویس کے سینے سے لگی تو اس نے اسکا گال تھپکا جس پر تُوبہ چونکی
“لالہ آپکو تو بخار ہے۔” طُوبہ نے اسکا ہاتھ تھام کر دوبارہ چیک کیا
“اویس” خضر صاحب نے بھی قدرے حیرت سے اسے دیکھا
“بابا بس تھوڑا سا ہے میں میڈیسن لے لوں گا آپ دونوں فکر نہ کریں ” اویس نے انہیں اپنے لیے پریشان ہوتا دیکھ کر مسکرا کر کہا
“تم آج آفس سے چھٹی کر لو اور خالد کو کال کر کے ہینڈل کرنے کو کہہ دو۔” خضر صاحب کافی پریشان ہو گئے تھے
“بابا آج بہت ضروری میٹینگ ہے میں کہہ رہا ہوں ناں میڈیسن لے لوں گا اور دیکھ لیجیے گا آدھے گھنٹے تک بالکل ٹھیک ہو جاؤں گا۔ ویسے بھی یہ ہلکی پھلکی بیماریوں سے ہم مردوں کو گھبرانا نہیں چاہیے۔” اویس نے انہیں زیادہ پریشان دیکھ کر بات کو کچھ اس موڑ پر لے آیا
“لالہ یاد سے میڈیسن لے لیجیے گا اور پلیز آج جلدی واپس آ جائے گا۔ ” طُوبہ نے متفکر ہوتے کہا
“اوکے میری جان۔” اویس انہیں الوداع کہتا آفس کے لیے نکل گیا۔
طُوبہ اپنے عزیز بھائی کے لیے دعا کرتی خضر صاحب کے ساتھ روانہ ہو گئی۔
______________
“باجی باہر کچھ مہمان آپ سے ملنے آئے ہیں۔” عالیہ بیگم دوائی لینے کے بعد اپنے کمرے میں آ گئی تھی جب نغمہ نے اسے مہمانوں کی اطلاع دی ۔۔۔ انہیں کافی حیرت ہوئی تھی کیونکہ کافی عرصے سے انکے گھر کوئی مہمان نہیں آیا تھا
“السلام علیکم بھائی صاحب۔” باہر اپنے جھیٹھ ظفر اور جیٹھانی زاہدہ کو دیکھ کر انہوں نے حیرت پر قابو پا کر سلام کیا
“وعلیکم السلام بھابھی کیسی ہیں؟؟” ظفر صاحب نے انکے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا
“میں بالکل ٹھیک ہوں بھائی صاحب۔” وہ زاہدہ کی طرف ملنے کو مڑی جس نے مروتاً انہیں گلے سے لگا لیا اور پھر دوبارہ بیٹھ گئیں
نغمہ انکے لیے چائے لے آئی اور انکے آگے رکھ دی۔ چائے کے ساتھ حال احوال کے بعد ظفر صاحب گلہ کھنکھار کر بولے
“بھابھی ہم اپنے بیٹے کے لیے بسمہ کا ہاتھ مانگنے آئے ہیں۔” انکی بات پر عالیہ بیگم نے بے یقینی سے سر اٹھا کر انہیں دیکھا کچھ دیر کے لیے وہ کچھ بول ہی نہ سکیں
“بھائی صاحب یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں پہلے کی بات اور تھی لیکن اب عباس شادی شدہ ہے اور آپ۔۔۔ ” عالیہ بیگم سے آگے کچھ بولا ہی نہیں گیا
“تو کیا ہوا عالیہ ۔۔۔ یہ تو ہمارا ظرف ہے کہ ہم یتیم لڑکی کو بنا جہیز کے اپنا رہے ہیں ۔۔۔ شازیہ اپنے ساتھ جہیز لے کر آئی تھی لیکن اسکی قسمت میں ماں بننا نہیں لکھا تھا ۔۔۔ بسمہ ہماری اپنی ہے اس لیے ہم نے اسکے بارے میں سوچا یقین کرو اگر اس نے ہمیں خوشخبری دے دی تو اسے اس گھر میں شازیہ سے زیادہ درجہ دیا جائے گا ۔۔۔ شازیہ بھی کبھی کچھ نہیں کہہ گی۔ ” ظفر صاحب کے بولنے سے پہلے زاہدہ نے تیکھے لہجے میں ایسے کہا جیسے بسمہ کوئی معذور ہو اور وہ اسے اپنا کر ان پر احسان کر رہی ہوں وہ بھی کسی کی سوتن بنا کر۔۔۔ جبکہ انکے اگر کہنے پر عالیہ بیگم نے غصہ اپنے اندر اتارا اس “اگر” کے پیچھے چھپی بات سے وہ آگاہ ہو گئیں تھیں کہ اگر بسمہ سے بھی ناامیدی ہوئی تو وہ تیسری شادی سے بھی گریز نہیں کریں گے۔
“معاف کریے گا بھابھی لیکن میں اپنی بیٹی کو اب اس آگ میں نہیں جھونکوں گی ۔۔۔ اللہ نے اسے اس دنیا میں بھیجا ہے تو یقیناً اسکی قسمت میں کوئی بہترین انسان لکھا ہو گا ” عالیہ نے اپنے غصے کو ضبط کرتے نہایت نرمی سے کہا تھا
“کیا مطلب ہے تمہارا عالیہ کہ میرا عباس اچھا نہیں ؟؟” زاہدہ بیگم نے کاٹ دار لہجے میں ماتھے پر بل ڈالے پوچھا
“بھابھی میرا کہنا کا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا۔ ” عالیہ بیگم کی آواز دھیمی ہو گئی تھی ۔۔۔ انکا بلڈ پریشر لو ہو رہا تھا انکی باتیں سن کر۔
“بھابھی بسمہ کے لیے ابھی تک کوئی رشتہ نہیں آیا اب آپ ساری عمر تو اسے بیٹھا کر نہیں رکھ سکتیں اکیس سال کی ہو گئی ہے وہ اگر مرد کا سہارا نہ ہو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے اس بات کو بھی آپ اچھے سے سمجھتی ہیں اس لیے بھابھی آپکے پاس دو دن کا وقت ہے سوچ سمجھ کر جواب دیجیے گا۔۔۔ اور ہمیں جواب ہر صورت ہاں میں ہی چاہیے ۔۔۔ امید کرتے ہیں آپ ہمیں اپنا مانتی ہوں گی تو ہمارے حق میں جواب دیں گی۔۔ چلو زاہدہ” ظفر صاحب نے سخت لہجے میں عالیہ بیگم کو اپنے سخت الفاظ سے منجمد کر کے زاہدہ کو چلنے کا کہا اور وہ دونوں وہاں سے چلے گئے ۔۔۔ پیچھے عالیہ بیگم اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئیں
“یہ کیسے اپنے تھے ؟؟ جنہیں آج اپنے مفاد کے لیے انکی یاد آئی تھی وہ بھی تقریباً تین سالوں بعد ۔۔۔”
عالیہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی تھی اور سیف کا صرف ایک ہی بھائی تھا جس کا ایک بیٹا اور تین بیٹیاں تھیں سیف کی وفات سے پہلے بسمہ کا رشتہ اپنے تایا زاد کے ساتھ طے تھا جب باپ فوت ہو گیا تو انہوں نے منہ موڑ لیا بقول تائی کے انکا اکلوتا بیٹا ہے سیف کی وجہ سے کچھ امید تھی کہ وہ اپنی اکلوتی بیٹی کو جہیز میں بہت کچھ دے گا لیکن اب وہ نہیں رہا تو کوئی امید بھی نہیں ہے سوائے اس تین مرلے کے گھر کے وہ بھی اس وقت تک نہیں جب تک عالیہ بیگم حیات ہیں ۔۔۔ اس لیے انہوں نے ان سے سارے تعلق توڑ کر اپنے بیٹے کی شادی اپنی پسند سے کہیں اور کر دی تھی اور واپس پلٹ کر انکی خبر لینا بھی ضروری نہیں سمجھا انہیں یہ ڈر لاحق تھا کہ کہیں اب انہیں انکے خرچے نہ اٹھانے پڑ جائیں۔
عالیہ بیگم کا سر بھاری ہونے لگا اور انکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ۔۔۔
____________