اُچھلے وہ اس لیے تھے کہ گھنٹی بجانے کا انداز انسپکٹر جمشید کا تھا… وہ دروازے کی طرف دوڑے اور ایک جھٹکے سے دروازہ کھول دیا… انہوں نے دیکھا ان کے والد دروازے میں کھڑے مسکرا رہے تھے… ان کے چہرے پر ایک تھکی تھکی مسکراہٹ تھی, وہ کافی تھکے ماندے سے لگ رہے تھے… اتنے میں بیگم جمشید بھی آ گئیں…
“کہو بھئی…….. تم سب ٹھیک ٹھاک تو ہو؟”
“اُف…. ابا جان… آپ کہاں تھے؟ ہم آپ کے لیے کس قدر پریشان تھے…” محمود نے کہا…
“میں سمگلروں کے پیچھے بہت دور نکل گیا تھا…” وہ
بولے…
“لیکن ابا جان! نیو لائٹ ہوٹل کے کمرے میں جو لاش پولیس کو ملی, وہ کس کی تھی؟” فاروق نے پوچھا…
“ایک سمگلر کی…. وہ مجھے قتل کرنے آیا تھا لیکن پھر خود میرے ہاتھ سے مارا گیا… اس کے قبضے سے مجھے کچھ کام کی چیزیں مل گئیں اور میں ان چیزوں کی وجہ سے سمگلروں کا کامیاب تعاقب کر سکا…… خدا کے فضل سے میں ایک بہت بڑے گروہ کو گرفتار کرانے میں کامیاب ہو گیا ہوں اور اس کے فوراً بعد گھر کے لیے روانہ ہو گیا تھا, ساری رات کے سفر کے بعد ایک دم صبح سویرے تمہارے پاس پہنچ گیا…… ارے مگر تم دروازے پر ہی کیوں کھڑے ہو
گئے……… اندر کیوں نہیں چلتے؟”
“بات دراصل یہ ہے ابا جان کہ ہم نے بھی ادھر ایک عدد کارنامہ انجام دیا ہے…”
“کیا مطلب؟” وہ چونکے…
“اندر چلیے……. ابھی بتاتے ہیں…” فرزانہ نے پرجوش لہجے میں کہا…
ابھی انہوں نے اندر جانے کے لیے قدم اٹھائے ہی تھے کہ اپنے بائیں طرف انہوں نے بیگم شیرازی کی آواز سنی…
“ارے…….. یہ تو بھائی صاحب ہیں….. خدا کا شکر ہے, آپ آ گئے بھابھی اور بچے کتنے پریشان تھے اور پھر رات بھر تو یہ اور بھی مصیبت میں مبتلا رہے ہیں… کیوں محمود……… کیا مجرم گرفتار ہو چکا ہے؟”
“جی ہاں…..” محمود کے منہ سے نکلا اور پھر اس کا دل بیٹھنے لگا…….. اب وہ انہیں کس طرح بتا دیتا کہ مجرم خود ان کا شوہر ہے….
“چلو……. میں بھی اندر چل کر اسے دیکھوں جس نے رات بھر تم لوگوں کا ناک کی دم کیے رکھا…”
“اوہو, یہ میں کہا سن رہا ہوں…” انسپکٹر جمشید بولے….
“آنٹی آپ آرام کریں……… مجرم کو دیکھ کر کیا کریں گی…” فرزانہ نے یہ سوچ کر کہا کہ ان کے اندر جانے کی صورت میں وہ ان سے کس طرح نظریں ملائیں گے……. انہوں نے تو ان سے ان کا شوہر چھین لیا تھا اور وہ بھی ان کی مدد
سے……
“کیوں بھئی…….. تم لوگ مجھے اندر کیوں نہیں لے جانا چاہتے…. میں مجرم کو دیکھ کر ڈر تو نہیں جاؤں گی…”
“یہ بات نہیں آنٹی…”
“آیئے بھابھی…….. آیئے…” انسپکٹر جمشید بولے…
اب انہیں کیا معلوم تھا کہ وہ کس لیے بیگم شیرازی کو اندر لے جانے سے ہچکچا رہے ہیں…
آخر وہ سب اندر داخل ہوئے… محمود, فاروق اور فرزانہ بھی اب اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے تھے… اندر پہنچتے ہی بیگم شیرازی کی نظر اپنے شوہر پر پڑی… ان کی حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا…
“سرتاج….. آپ یہاں….. یہاں آپ کا کیا کام؟”
شیرازی کے منہ سے ایک لفظ نہ نکل سکا, اب تو بیگم شیرازی اور بھی حیران ہوئیں… ادھر انسپکٹر جمشید بھی کچھ کم حیران نہیں تھے… انہوں نے اکرام سے پوچھا…
“یہ سب کیا ہے اکرام؟”
اب اکرام کو شروع سے آخر تک ساری کہانی سنانا پڑی…….. کہانی کے آخر میں جب اس نے یہ بتایا کہ نقاب الٹنے کے بعد نقاب پوش شیرازی صاحب ثابت ہوئے تو بیگم شیرازی نے ایک دلدوز چیخ ماری اور ان کے منہ سے نکلا…
“نہیں…..”
پھر ان کی سسکیاں گونج اٹھیں….. سب چپ چاپ انہیں دیکھتے رہے, شیرازی بھی کچھ نہ بولے… آخر بیگم شیرازی نے کہا…
“اگر یہ سمگلر ہیں تو انہوں نے ملک اور قوم کو نقصان پہنچایا ہے…….. اور ملک اور قوم کو نقصان پہنچانے والا میرا شوہر نہیں ہو سکتا….. لے جایئے انہیں اور قانون کے مطابق عمل کیجیے…” یہ کہتے وقت ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے… اور ان کا گلا رندھ گیا…
شیرازی کو ہتھکڑیاں لگا دی گئیں…… اکرام اسے لے کر جانے ہی لگا تھا کہ محمود کو کچھ خیال آیا, اس نے کہا…
“ذرا ٹھہریے انکل! میں ان سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں…”
“کن سے؟” اکرام نے پوچھا…
“شیرازی صاحب سے…”
“ضرور پوچھو…” اکرام نے کہا… محمود شیرازی کی طرف مڑا…
“آپ کو معلوم تھا کہ اس گھر میں ہمارے ساتھ فرزانہ بھی رہتی ہے پھر آپ نے اس کے متعلق کیوں نہیں پوچھا؟”
“میں خود کیسے پوچھ سکتا تھا, البتہ ہم اسی کو تلاش کرتے پھر رہے تھے اور اسی لیے بار بار آ رہے تھے, پائیں باغ میں بھی ہم نے اسے تلاش کیا تھا… درختوں کی شاخوں پر بھی لائٹیں ماری تھیں, لیکن یہ ہمیں کہیں نظر نہ آئی… فرزانہ کی وجہ سے ہی تو ہم یہاں سے گئے نہیں تھے… ورنہ پہلی تلاش کے بعد ہی یہاں سے چلے جاتے…” انہوں نے
بتایا…
“ہوں……. ٹھیک ہے…… اب آپ انہیں لے جا سکتے ہیں
انکل…”
اکرام کے ماتحت جب شیرازی کو لے گئے تو وہ ان کے ساتھ شاہد کے گھر پہنچا, وہاں انہیں شاہد کی لاش ہی ملی… اکرام نے فون کے ذریعے پولیس کو اطلاع دی اور واپس چل پڑے…
دوسرے دن کے اخبارات نے محمود, فاروق,فرزانہ اور بیگم جمشید کی تصاویر شائع کیں اور ان کے رات بھر کے کارنامے کی پوری تفصیل بڑی بڑی سرخیوں سے شائع کی….
……………………………………