سائنس کی موجودہ مرتب کردہ تاریخ زیادہ تر یورپی نظر سے لکھی گئی ہے۔ بدقسمتی سے، یہ ایسا تاثر دیتی ہے کہ قدیم یونان سے یورپی سائنسی انقلاب کے درمیان کی تاریخ میں فکری خلا رہا تھا۔ چین اور ہندوستان میں آریا بھٹ، براہم گپتا، ژانگ ہینگ، سو سونگ جیسے عظیم نام رہے ہیں۔ لیکن اسلامک گولڈن ایج کو اس میں ایک خاص حیثیت اس لئے حاصل ہے کہ یہاں پر مشرق و مغرب سے لائے گئے کام یکجا ہوئے اور آگے بڑھائے گئے۔
سادہ لوح خیالات میں ایک نقطہ نظر یہ رہا ہے کہ عباسیوں نے محض علوم کا ترجمہ کیا تھا۔ ایسے مورخین نشاندہی کرتے ہیں کہ بغداد میں ترجمے کی تحریک زوروں پر تھی اور اس دوران اس میں کچھ ترامیم کی گئیں۔ یہاں پر کوپرنیکس، کیپلر اور گلیلیو کے وقت جیسا کوئی انقلاب نہیں آیا۔
یہ نقطہ نظر نہ صرف غلط ہے بلکہ اس کو سمجھنا اہم ہے کہ یہاں پر ہوا کیا تھا۔ جہاں پر الخوارزمی جیسے عظیم ذہنوں کی کامیابیاں اجاگر کی جاتی ہیں، وہاں پر اس سے اہم یہ چیز کہ اس وقت اور جگہ کے بارے میں کیا خاص تھا۔ کونسے اجزا تھے جو اکٹھے ہوئے تھے اور اس انقلاب کی وجہ بنے تھے۔ کیا یہ محض اتفاق تھا؟ یا کوئی پیچیدہ سیاسی، مذہبی، سماجی، علاقائی اسباب تھے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمے کی تحریک کا ایک براہِ راست اثر مامون اور ان کے ہم عصروں میں سائنس کی دلچسپی کا پیدا ہونا تھا۔ لیکن اس کا ایک اور نتیجہ نکلا تھا جو کہ انقلابی تھا۔ اس نے سائنسی تحقیق کرنے کے طریقے کو بنیادی طور پر بدل ڈالا۔
جو کام مامون کے دور میں ہوا، وہ علم کی دنیا میں نیا تھا۔ دنیا بھر سے سائنس کی روایات کو اکٹھا کرنے کا ایک نتیہ یہ نکلا کہ بغداد کے سکالرز کے پاس ایک وسیع ورلڈ ویو تھا۔ ایسا اس سے پہلے نہیں ہوا تھا۔ مثلاً، ہندوستان، یونان، فارس میں فلکیات کی اپنی روایات تھیں۔ کاسمولوجی کے اپنے ماڈل تھے۔ پیمائشوں کے اپنے سیٹ تھے، جو ایک دوسرے سے متفق نہیں تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ سب ٹھیک نہیں تھے۔ اور ظاہر ہے کہ الگ بننے والے یہ سائنسی کلچر بھی تنہا نہیں بنے تھے۔ خیالات کے تبادلے ہوئے تھے اور مختلف وجوہات کی بنا پر ہوئے تھے۔ یونانیوں نے مصریوں سے طب کا علم لیا تھا، بابل سے ریاضی اور فلکیات کا۔ اور جب سکندرِ اعظم نے وسطی ایشیا کو فتح کیا تو ہندوستان سے خیالات اور سائنسی علم کا دو طرفہ تبادلہ ہوا تھا۔ دوسری اور تیسری صدی قبلِ مسیح میں علماء بابل سے یونان کی سمت گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن بغداد میں سکالر علم کو نئے سرے سے شروع کر رہے تھے۔ ان کے پاس اکٹھا کیا گیا علم دیکھنے کے لئے کھلے ذہن اور تازہ آنکھیں تھیں۔ سوال کئے جا سکتے تھے۔ شکوک اٹھائے جا سکتے تھے۔ الگ ذرائع سے آنے والے علم میں اختلافات طے کرنا تھے۔ نئی پیمائشیں کرنا تھیں۔ یہ ایسا کام نہیں تھا جو اکا دکا لوگ کر سکیں۔ اور مامون اس بارے میں بے صبرے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نویں صدی کی دوسری دہائی میں مامون نے بغداد میں رصدگاہ قائم کرنے کا حکم دیا۔ بطلیموس کی کتاب “المجسطی” (Almagest) کو عربی میں ترجمہ کیا گیا تھا۔ یہاں پر اس کام کی پڑتال ہونی تھی۔
بطلیموس کو درست طور پر تاریخ کے بہترین سائنسسدانوں میں سے سمجھا جاتا ہے۔ سائنس پر ان کا اثر ڈیڑھ ہزار سال تک رہا۔ ہم ان کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ سوائے اس کے، کہ وہ سکندریہ میں سن 121 سے 151 کے درمیان رہے تھے۔ ان کی کتاب کی پہلی دو جلدیں اجرامِ فلکی کی حرکات، پر، اگلی چار سورج اور چاند پر ہیں، ساتویں اور آٹھویں جلد ستاروں کی تفصیلی فہرست ہے۔ جبکہ نویں سے بارہویں جلد سیاروں کی تھیوری پر ہیں۔
یہ تاریخ کی ایک اہم کتاب ہے۔ مامون کی رصد گاہ میں یونانی مشاہدات کو چیک کئے جانا تھا۔
یہ رصد گاہ ریاست کی فنڈنگ سے ہونا والا سائنس کا پہلا بڑا پراجیکٹ تھا۔ جدید سائنس میں ہزاروں کثیرالقومیت سائنسدانوں کو اربوں ڈالر کے پراجیکٹ دیکھتے ہیں۔ جینوا میں سرن لارج ہیڈرون کولائیڈر ایک ایسا پراجیکٹ ہے۔
مامون نے بھی ریاضی دانوں، آسٹرونومر، جغرافیہ دان اکٹھے کئے تھے۔ اور ایسے کئی پراجیکٹ کئے گئے تھے جو کسی ایک شخص کے لئے کرنا ناممکن تھا۔
ریاست کی طرف سے فنڈ کئے گئے بڑے پراجیکٹ جو خالصتاً سائنس کے لئے ہی کئے گئے ہوں، عباسی دور کی جدت تھی۔
سند ابنِ علی ایک ذہین سائنسدان تھے جنہوں نے المجسطی کا معالعہ کیا تھا اور بغداد میں الجواہری کے ساتھ سائنس پر کام کرنے آئے تھے۔
ایک سینئیر ماہرِ فلکیات یحیٰی ابن المنصور تھے۔ رصدگاہ کا راجیکٹ 828 میں ان تینوں کو دیا گیا۔ اس کیلئے الشمسیہ کے علاقے کا انتخاب کیا گیا۔ کچھ مورخین نے ممتحن رصدگاہ کہا ہے لیکن عام طور پر اسے شمسیہ کہا جاتا ہے۔ اس میں کس قسم کے آلات تھے؟ اس کا اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ اس میں پیتل کے مقیاس والی دھوپ گھڑیاں ہوں گی۔ ان کے سائے کی مدد سے سورج کی بلندی کا معلوم کیا جاتا ہو گا۔ آسٹرولیب ہوں گے۔ اور سب سے اہم mural quadrant ہو گا۔ اس میں ایک چوتھائی دائرے کی شکل کا آلہ ایک ٹیوب کے ساتھ ہوتا ہے جو آسمان پر کسی شے کی precise جگہ کی پیمائش کرتا ہے۔
یہاں پر کام کرنے والوں میں الجواہری اور الخوارزمی جیسے بڑے نام تھے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...