To see a World in a Grain of Sand
And a Heaven in a Wild Flower,
Hold infinity in the palm of your hand
And Eternity in an hour.
– William Blake, Auquries of Innocence
اس واقعے کے بعد کشیپ صاحب اپنی انجینئری میں اتنا مصروف ہوگئے کہ انھیں دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ ابھی کچھ دنوں قبل وہ اپنی ’’کینچلی‘‘ اتارنے کی خاطر کس قدر بے تاب تھے۔ جوہر اور ان کا آمنا سامنا اب شاذ و نادر ہی ہوتا تھا۔ اگر کبھی ہو بھی جاتا تو دونوں سر جھکائے ایک دوسرے کے پاس سے گذر جاتے ۔ ایسا نہیں ہے کہ کشیپ صاحب اپنی آرزوؤں کی قید سے رِہا ہو چکے تھے ، صرف اتنا تھا کہ وہ کوئی خطرہ مولنا نہیں چاہتے تھے۔ جب تک جوہر کے ساتھ ان کی دوستی تھی، ان کے حوصلے کو زبان میسر تھی لیکن اب انھوں نے خود کو بے دست و پا چھوڑ دیا تھا؛ زیادہ سے زیادہ وہ کسی مناسب موقع کے منتظر تھے۔
اس دن جب انھیں آفس کی کار نے لنچ کے لیے ان کے بنگلے پر ڈراپ کیا تو اس ’موقع‘ کی تمہیدی گنگناہٹ ان کے کانوں میں رس گھول گئی جو جوہر کے بنگلے سے آ رہی تھی۔ ان کے قدموں میں زنجیر پڑگئی۔ پلٹ کر پڑوس کی طرف دیکھا اور جلوۂ حسن سے ان کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔ شاید وہ مسز جوہر تھیں۔ انھیں یاد آیا کہ آج فرائڈے ہے اور جوہر کی بیوی اسی دن پونے سے گھر واپس آتی ہے۔ وہ اس وقت دھلے ہوئے کپڑے اپنے بنگلے کے لان میں سکھا رہی تھی اور ساتھ ساتھ گنگنا بھی رہی تھی۔کشیپ صاحب کے دماغ میں پہلی بات جو آئی وہ یہ تھی کہ جوہر سے انھوں نے جھگڑ ا کر کے کہیں اپنے پاؤں پر کلہاڑی تو نہیں مار لی؟ وہ اپنے خیالوں میں گم لان میں رکھے پھاؤڑے سے جا ٹکرائے اور منھ کے بل زمین بوس ہو گئے لیکن فوراً اٹھ کھڑے ہوئے۔ کھڑے ہوتے ہوئے انھوں نے ایک عدد خود کو گالی دینے کی فراخ دلی دکھائی اور چور نظروں سے جوہر کے بنگلے کی طرف دیکھا جہاں جوہر کی بیوی گنگناتے ہوئے کپڑے سکھانے میں مصروف تھیں۔ کشیپ صاحب نے اطمینان کی سانس لی اور اس بار انھوں نے اپنی پڑوسن کا بغور مشاہدہ کیا۔ وہ شاید ابھی ابھی نہا کر نکلی تھیں، اس کے بھیگے ہوئے بال کھلے تھے اور ہوا میں لہرا رہے تھے۔ بغیر آستین کے بلاؤز اور کمر کے نیچے بندھی ساڑی میں وہ غضب کی لگ رہی تھی۔ اس پر مزید یہ کہ آسمان سے بوندا باندی بھی شروع ہوگئی۔ لیکن وہ بدستور لان میں ہی کھڑی رہی۔ شاید اسے مزہ آ رہا تھا۔ اس نے اپنا گلابی چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا۔ بارش کی بوندیں اس کے چکنے گالوں پر پھسلنے لگی۔ کشیپ صاحب کو اپنے دل کی دھڑکنوں کا شور بارش کی ٹپ ٹپ سے زیادہ محسوس ہوا۔ وہ جلدی سے اپنا ہاتھ دل پر رکھ کر اسے قابو کرنے کی ناکام کوشش کرنے لگے لیکن صرف دل بے قابو ہوتا تو کوئی بات تھی ، یہاں تو پورا جسم ہی اینٹھنے لگا تھا۔ اچانک ایک چھ سالہ لڑکی دوڑتے ہوئے جوہر کے بنگلے سے باہر آئی ۔ کشیپ صاحب نے اندازہ لگایا کہ یہ جوہر کی بیٹی ہوگی جو اپنی ماں کے ساتھ بارش میں کھیلنے کے لیے اس سے ضد کررہی تھی۔لیکن کشیپ صاحب کو اب تک یقین نہیں ہو رہا تھا کہ اتنی خوب صورت عورت جوہر جیسے گھامڑ کی بیوی ہو سکتی ہے لیکن ان کے اس شک کی تردید بھٹ صاحب کی آواز نے کردی جو اس وقت ان کی پڑوسن سے مخاطب تھے۔
’’کب آئیں مسز جوہر؟‘‘
’’کل شام کو ۔‘‘
بھٹ صاحب نے حسب عادت اپدیش دینا شروع کردیا؛ ’’میں کہتا ہوں، اب یہیں رہ جائیے۔ یہ پونہ ۔ممبئی آنے جانے کا چکر ختم کیجیے مسز جوہر!‘‘
’’آپ پونہ جیسی salary ممبئی میں دلوا دیجیے، میں رک جاؤں گی۔‘‘
بھٹ صاحب شاید جلدی میں تھے، اس لیے نکل گئے۔ جوہر کی بیوی جانے کے لیے مڑی تو اس کی نظر کشیپ صاحب پر پڑی۔ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے سے کشیپ صاحب شرمندہ ہو گئے۔ مسز جوہر نے سر کی جنبش اور ایک خوب صورت مسکراہٹ کے ساتھ انھیں سلام کیا۔ کشیپ صاحب نے فوراً نظریں گھما لیں جیسے وہ کسی اور چیز کو دیکھنے میں مصروف ہوں۔ ان کی نظر بنگلے کے قریب سے گذرتی اس جوان لڑکی پر پڑی جو کمر کے کافی نیچے جینس پہنتی تھی اور جس پر بھٹ صاحب نے ریمارکس پاس کیے تھے ، نتیجتاً بعد میں اس کے بوائے فرینڈ نے ان کی پٹائی کی تھی۔ کشیپ صاحب نے بھی اسے ان دیکھا کرنا چاہا لیکن وہ مسکراتی ہوئی ان کے بنگلے کے پاس رک گئی اور انھیں براہ راست مخاطب کیا؛ ’’انٹی لائن دے رہی ہے سر، grab it ‘‘
لڑکی نے کشیپ صاحب کو آنکھ مارتے ہوئے کہا اور نکل گئی۔ کشیپ صاحب بالکل بوکھلا گئے، پلٹے اور جوہر کی بیوی کی طرف دیکھا جو زمین پر جھکی ہوئی کچھ کر رہی تھیں۔ ان کا چوڑا چکلا کولہا کشیپ صاحب کے بالکل سامنے تھا ۔ کشیپ صاحب کے پورے جسم میں جیسے ڈھیروں چیونٹیوں نے ایک ساتھ اچانک رینگنا شروع کردیا۔ ان کا دھیان ان کے آفس کی کار کے ہارن سے ٹوٹا۔ ڈرائیور ان سے پوچھ رہا تھا؛ ’’لنچ ہو گیا سر؟‘‘
’’ہاں۔ بس ابھی آئے۔‘‘
کشیپ صاحب بنگلے کے اندر جاتے ہوئے مسز جوہر پر آخری نظر ڈالنا نہیں بھولے جو اپنے بنگلے کے اندر جا رہی تھی۔ کشیپ صاحب نے ایک زور دار سانس چھوڑی جسے اب تک انھوں نے اندر ہی قید کر رکھا تھا۔
کشیپ صاحب تقریباً دوڑتے ہوئے گھر سے باہر نکلے، ان کے ہاتھوں میں کچھ کیلے نظر آ رہے تھے جو شاید ان کے لنچ کے متبادل تھے۔ ڈرائیور نے جوں ہی کار اسٹارٹ کیا، ایک بار پھر کشیپ صاحب کی نظر مسز جوہر پر پڑی ۔ جوہر کے بنگلے کے سامنے ایک آم کا ٹھیلا کھڑا ہوا تھا اور وہ اپنی بیٹی کے ہمراہ اپنے پسندیدہ آموں کو چن رہی تھی۔
’’گاڑی روکیے ذرا۔‘‘ کشیپ صاحب کے اس اچانک حکم پر ڈرائیور نے حیرت سے کشیپ صاحب کی طرف پلٹ کر دیکھا جو پچھلی سیٹ کی کھڑکی کے رنگین گلاس سے باہر دیکھ رہے تھے۔ اس وقت وہ ایک آم اٹھا کر اسے سونگھ رہی تھی لیکن کشیپ صاحب کا تصور اڑان بھرتا چلا گیا۔ انھیں محسوس ہوا جیسے اس نے اپنی مخروطی انگلیوں کے درمیان ایک آم اٹھایا اور اپنی خوب صورت اٹھی ہوئی ناک کے قریب لا کر گہری سانس کے ساتھ اسے سونگھنا شروع کردیا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں، پھر اس کے گلابی ہونٹ ایک دوسرے سے کپکپاتے ہوئے رفتہ رفتہ جدا ہوئے اور موتی جیسے دانتوں کی مدد سے اس نے آم کا رس چوسنا شروع کردیا۔ کشیپ صاحب کی ریڑھ میں سہرن دوڑ گئی۔ وہ بڑبڑائے؛ ’’یہ جوہر قسم سے بہت بڑا چورن ہے۔ راجدھانی گھر پر ہے اور سسرا جنتا میل میں بکنگ ڈھونڈتا ہے۔‘‘
’’سر ! چلیں؟‘‘
ڈرائیور کی آواز نے انھیں زمین پر لا پٹکا، خشمگیں آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے انھوں نے اثبات میں صرف سر ہلاتے ہوئے کہا؛ ’’ہاں! ڈاک یارڈ۔‘‘
’’ڈاک یارڈ؟‘‘ ڈرائیور نے حیرت سے پوچھا۔
کشیپ صاحب نے اسے جواب دینا ضروری نہیں سمجھا، وہ اپنے ہی خیالوں میں گم تھے۔
’’لنچ تو آج ہم نے بھی نہیں کیا۔ ایک روٹی ایکسٹرا ہے کیا؟‘‘ جوہر جو ڈاک یارڈ کی ایک چھوٹی سی پہاڑی پر تنہا بیٹھا ہوا اپنی ٹفن سے لنچ کر رہا تھا، اس نے چونک کر آواز کی طرف دیکھا۔ کشیپ صاحب ایک دوستانہ مسکراہٹ کے ساتھ سامنے کھڑے تھے۔ جوہر کا منھ کھانے سے بھرا ہوا تھا اور کچھ تو حیرت سے بھی کھلا رہ گیا تھا۔ پل بھر کے لیے تو وہ روٹی چبانا بھی بھول گیا۔ حیرت کی وادیوں سے بھٹکتا ہوا وہ جب ڈاک یارڈ کی پہاڑی پر لوٹا تو اس نے اپنا ٹفن کشیپ صاحب کی طرف کھسکا دیا۔ کشیپ صاحب نے بھی چپ چاپ کھانا شروع کردیاجس میں ان کے اندازے کے مطابق مسز جوہر کا لمس شامل تھا۔ دونوں کے درمیان بہت دیر تک خاموشی رہی، بالآخر کشیپ صاحب ہی نے پہل کی۔
’’آپ کو تو شاید یاد بھی نہیں ہوگا کہ ہم لوگوں کا کبھی جھگڑا بھی ہوا تھا۔‘‘
’’یاد کیوں نہیں ہوگا۔‘‘ جوہر نے حقیقت بیانی سے کام لیا۔
کشیپ صاحب کے لیے یہ جملہ غیر متوقع نہیں تھا، اس لیے انھوں نے برا نہیں مانا بلکہ وہ ایسی سچویشن کے لیے ذہنی طور پر تیار تھے؛ ’’کیوں کہ اکثر ایک brilliant scientific mind کی ہارڈ ڈسک میں arbitrary اور insignificant data کے لیے کافی اسپیس نہیں ہوتی۔‘‘
کشیپ صاحب کی حکمت عملی نے اپنا کام کرنا شروع کردیا تھا؛ جوہر نے پہلی بار نظر بھر کر کشیپ صاحب کی طرف دیکھا اور بالآخر ایک دوستانہ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آ کر رک گئی؛ ’’دراصل اس دن کے بہت سے details تو میری میموری سے ڈیلیٹ بھی ہوچکے ہیں۔‘‘
’’ہمیں بھی ایسا ہی لگا تھا، اسی لیے تو ہم سب کام چھوڑ کر آپ سے ملنے یہاں آگئے۔ ہم نے کہا اس بیہودہ دن کے سارے details آپ کی میموری سے ڈیلیٹ ہو جائیں، اس سے پہلے ہم آپ کو سوری بول دیں، نہیں تو آپ سوچیں گے کہ یہ کشیپ، میرا پڑوسی، میرا دوست، مجھے سوری کیوں بول رہا ہے۔‘‘ کشیپ صاحب نے سارے تیر ایک ساتھ جوہر کی طرف روانہ کردیے۔
’’تو آپ نے realize کیا نا ، کہ اس دن…‘‘
شڑاپ۔کوئی اور دن ہوتا تو کشیپ صاحب ’realize ‘جیسے ذلت آمیز لفظ کی چابک برداشت نہ کرتے لیکن انھوں نے اس درد کو بھی اندر ہی اندر پی لیا؛ ’’ہاں! ہم نے realize کیا کہ آپ بالکل صحیح تھے۔ ہم لوگ reputed انسٹی ٹیوٹ کے well-qualified انجینئرس ہیں، کسی ایری غیری یونیورسٹی کے ڈپلوما ہولڈر نہیں۔ اس کے علاوہ ہم لوگ Happy married, family personہیں…ہمارے ٹسٹ کے variables بازارو عورتوں جیسے سستے کیسے ہو سکتے ہیں؟‘‘
جوہر ان کی طرف تحسین آمیز نظروں سے دیکھ رہا تھا؛ ’’یہ سب آپ نے realise کیا؟‘‘
کشیپ صاحب گرم لوہے پر آخری چوٹ لگائی؛ ’’ہاں! آپ سوچیے کہ پچھلے کچھ دنوں میں involuntarily جو ہم لوگوں سے غلطیاں ہو گئیں، ایسی غلطیاں voluntarily کرنے والے کسی انسان کو آپ اپنے گھر پر انوائٹ کرنا پسند کریں گے؟ اپنے بیوی بچوں سے interactکروانا پسند کریں گے؟
جوہر فکرمند نظر آ رہا تھااور کشیپ صاحب اپنے پھینکے ہوئے جال کا حشر دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔
’’غلطی کہاں ہوئی ،سمجھ گیا۔ ہم اپنے لوجیکل اور reasonable left brain کو بالکل نظر انداز کر کے ، instinctive and emotional right brain پر پوری طرح depend ہو گئے تھے؛ ہے نا؟‘‘
’’واہ! کیا precise fault پکڑی ہے آپ نے۔ آپ کی اسی insight کے تو ہم قائل ہیں جوہر صاحب۔‘‘ کشیپ صاحب نے تعریفی نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا۔
’’تھینک یو۔‘‘
مچھلی کانٹا نگلنے ہی والی تھی؛ ’’آپ پلیز آج گھر آئیے شام کو…intellectual discussion کریں گے اور ساتھ میں ڈنر بھی۔ بیگن کا بھرتا، گھی کے تڑکے کے ساتھ دال اور ستّو کی پوری۔ کیا کہتے ہیں؟‘‘
مچھلی پھڑپھڑانے لگی ، لیکن اس نے ا چانک دانہ کانٹا نگلنے سے انکار کردیا؛ ’’آج تو possible نہیں ہو پائے گا۔ وائف پونے سے آگئی ہے۔‘‘
کشیپ صاحب کی مشکل مزید آسان ہوگئی، انھیں ایک سنہرا موقع مل گیا تھا جسے وہ کسی قیمت پر گنوانا نہیں چاہتے تھے؛ ’’اچھا؟ بھابھی جی آ گئی ہیں؟ تو انھیں بھی لے آئیے…اب دیکھیے گھر کی عورتوں والی بات تو ہمارے کھانے میں آئے گی نہیں لیکن کوشش کریں گے۔ ابھی ہمارے کچن میں بھی سامان کم ہے، برتن ورتن بھی کام چلاؤ پڑے ہیں، مگر کیا ہے کہ آپ لوگ ساتھ رہیں گے تو اکیلا پن نہیں کھلے گا۔‘‘
بالآخر مچھلی نے دانہ نگل ہی لیا اور کانٹا بھی۔
’’اس سے تو اچھا یہ ہوگا کہ آپ ہمارے یہاں ڈنر کر لیں‘‘ جوہر نے درمیان میں ہی بات روک لی اور اپنی جیب سے موبائل فون نکالنے لگا؛ ’’میں ذرا ایک منٹ وائف سے…‘‘
کشیپ صاحب نے اسے آگے بولنے کا موقع کہاں دیا؛ ’’what time?‘‘
جوہر کی سمجھ میں کچھ نہ آیا، وہ ٹکر ٹکر کشیپ صاحب کا منھ تاکنے لگا۔کشیپ صاحب نے اپنی بات دہرائی؛ ’’ڈنر! کب کرتے ہیں؟‘‘
’’یہی…آٹھ، ساڑھے آٹھ بجے۔‘‘ جوہر کسمپرسی میں بدبدایا۔
’’او کے۔ تو ٹھیک آٹھ بجے ہم آپ کے یہاں آ رہے ہیں۔ اور ہاں!‘‘کشیپ صاحب نے اس پورے ڈرامے کو آخری ٹچ دینے کے لیے جوہر کو اپنے گلے لگا لیا؛ ’’ایک بار پھر تھینک یو! جوہر صاحبyou are outstanding ۔‘‘
اتنا جلدی سب کچھ ہو گیا تھا کہ جوہر سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ خوشی کا اظہار کرے یا جھنجھلاہٹ کا؛ وہ صرف اپنے موبائل کو غیر ارادی طور پر تکے جا رہا تھا ، جب کہ کشیپ صاحب کے ہونٹوں پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ رقص کر رہی تھی۔
کشیپ صاحب نے اس دن آفس دوبارہ جانے کا خطرہ نہیں اٹھایا۔ انھیں ڈر تھا کہ کہیں اوپر سے اوور ٹائم کا آرڈر نہ آ جائے، اس لیے حفظ ماتقدم کے تحت انھوں نے بیماری کا بہانہ بنا کر آدھے دن کی چھٹی لے لی۔ لیکن چھٹی لینے کا نقصان یہ ہوا کہ ان سے وقت کاٹے نہیں کٹ رہا تھا۔ انھوں نے خود کو مصروف رکھنے کی کافی کوشش کی اور اس چکر میں انھوں نے اپنے مزاج کے خلاف پورے بنگلے کی صفائی تک کر ڈالی۔ لیکن وقت تھا کہ چیونٹی کی چال چل رہا تھا۔ پھر انھوں نے اپنے گندے کپڑے خود ہی دھو ڈالے جو عموماً دھوبی دھویا کرتا تھا۔ لیکن اب بھی شام کے چھ ہی بجے تھے۔ انھوں نے دیوار گھڑی پر تنقیدی نظر ڈالی ۔ اسے دیوار سے اتار کر دیکھا کہ چل بھی رہی ہے یا نہیں۔ کہیں بیٹری کی مدت نہ ختم ہو گئی ہو لیکن انھیں مایوسی ہوئی ، کیوں کہ وہ بالکل صحت مند تھی جس کی تصدیق ان کی کلائی کی گھڑی نے کردی۔
سات بجے ان کا صبر جواب دے گیا۔ انھوں نے سوچا کہ تیار ہونے میں بھی وقت لگے گا، چنانچہ تیاری شروع کردی۔ ان کا اندازہ درست ثابت ہوا، کیوں کہ تیار ہونے میں واقعی ایک گھنٹہ لگ گیا۔ آفس جانے کے لیے تو وہ مشکل سے پندرہ منٹ میں تیار ہوجاتے تھے لیکن دیار محبوب میں حاضری دینے اور آفس جانے میں کافی فرق ہوتا ہے۔ سو انھوں نے کوئی کور کسر نہیں چھوڑی، اس دھج سے نکلے کہ اگر وہ کمر کے نیچے جینس پہننے والی لڑکی انھیں دیکھ لیتی تو وہ بھی ایک بار اپنے بوائے فرینڈ کی جگہ ان کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو جاتی۔
جوہر نے دروازہ کھولا تھا، اس نے کشیپ صاحب کو خوش آمدید کہا۔ کشیپ صاحب نے مسکراتے ہوئے ان کی طرف آم کا ایک بکس بڑھا دیا۔
’’ارے اس کی کیا ضرورت تھی؟‘‘
’’ضرورت نہیں بھئی، گفٹ ہے۔ ہمارے ایک کنڑیکٹر رتنا گری کے ہیں، وہ آج دے گئے…بولے ، صاحب آم تو بہت کھائے ہوں گے آپ نے، لیکن ہمارے رتنا گری کے ’ہاپوس ‘ جیسے نہیں۔‘‘کشیپ صاحب بول بھی رہے تھے اور چور نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھتے بھی جا رہے تھے، پورا اسٹیڈیم خالی تھا۔
’’میرو خوش ہو جائے گی…she loves hapus‘‘ جوہر نے بڑے پیار سے کہا۔
’’میرو؟‘‘ کشیپ صاحب نے پوچھا۔
’’میری وائف۔ ویسے نام تو مرینالنی ہے، لیکن سالا یہ نام مجھے ان کی کمر درد کی ٹیوب “Volini“جیسا لگتا ہے۔ میں نے کہا بھئی ہم میرو سے کام چلا لیں گے۔‘‘
میرو؟ کشیپ صاحب کی نظروں کے سامنے سے ممبئی کی مشہور “Meru cabs” فراٹے بھرتی گذر گئی۔ وہ دل ہی دل میں سوچ رہے تھے کہ دیکھو اس الو کے پٹھے کو؛ بیوی کو نام بھی دیا تو ٹیکسی کا۔‘‘
’’ارے آپ کیا سوچنے لگے کشیپ صاحب!‘‘ جوہر کی آواز نے انھیں چونکا دیا۔
’’کچھ نہیں۔ بس دیکھ رہے تھے کہ عورت کے آتے ہی گھر کی رنگت کیسے بدل جاتی ہے۔ ایسا لگ ہی نہیں رہا ہے کہ یہ وہی گھر ہے جہاں ہم نے پارٹی کی تھی۔‘‘
’’پارٹی؟‘‘ میرو کچن سے باہر آ چکی تھی؛ ’’تو میرے پیچھے خوب پارٹیاں ہوئی ہیں یہاں؟‘‘
جوہر صاحب اس اچانک افتاد پر بوکھلا گئے؛ ’’پارٹی نہیں ڈارلنگ، بالٹی۔ کشیپ صاحب پہلی بار ہمارے یہاں اپنی بالٹی لے کر آئے تھے…پانی نہیں آ رہا تھا ان کے یہاں۔‘‘جوہر نے فوراً بات بدلتے ہوئے کشیپ صاحب کا تعارف اپنی بیوی سے کرادیا۔ دونوں کے درمیان نمستے کا تبادلہ ہوا۔ کشیپ صاحب حسن بے پناہ کو اپنے اتنے قریب دیکھ کر خود کو بمشکل سنبھالنے میں لگے ہوئے تھے لیکن میرو پر سے نظریں ہٹانا ان کے لیے ناممکن سا ہوگیا تھا۔ میرو نے بھی آج کی ڈنر پارٹی کے لیے خود کو بطور خاص تیار کیا تھا۔
’’ڈنر میں تھوڑا سا ٹائم ہے ، تب تک آپ کچھ لیں گے؟‘‘ میرو نے اپنے بالوں کی گستاخ لٹوں کو پیچھے کی طرف کرتے ہوئے پوچھا۔
’’جی؟‘‘ کشیپ صاحب سننے کی کوشش کر رہے تھے لیکن ان کے کانوں میں شو ں شوں کی آواز یںآ رہی تھیں جیسے بانس کے جنگلوں سے ہوا تیزی سے گذر رہی ہو۔
’’کچھ لیں گے؟‘‘ ایک بار پھر میرو نے دہرایا۔
کشیپ صاحب نے لپ اسٹک لگے ان ہونٹوں کی حرکت کو غور سے دیکھا تو انھیں محسوس ہوا کہ وہ انھیں ترغیب دے رہے ہوں،’ ’کچھ لیں گے ؟‘‘
’’ہم تو کچھ دینا چاہتے ہیں آپ کو۔‘‘ کشیپ صاحب کے دل کی بات بے ساختہ زبان پر آگئی۔
میرو نے اپنی بھویں اٹھا کر ان کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تو کشیپ صاحب نے اپنے لائے ہوئے آم کے بکس کی طرف اشارہ کر دیا جو وہیں پاس ہی میں پڑا تھا۔ میرو کی آنکھیں چمکنے لگیں۔
’’اوہ آم! تھینک یو سو مچ۔ سونو آج آم کے لیے ضد کررہی تھی…مارکیٹ جانے کی فرصت نہیں ملی…یہاں انکلیو میں جو بیچنے آتے ہیں، ایسے دام بولتے ہیں کہ…‘‘
’’کھول کے دیکھیے نا! رتنا گری کے بیسٹ ہاپوس ہیں۔‘‘ کشیپ صاحب بچھ گئے۔
میرو نے جوہر کی طرف دیکھا تو اس نے اشارے سے اجازت دی۔ میرو کی خوب صورت انگلیاں جس کے ناخن بڑے اور سلیقے سے ترشے ہوئے تھے، بکس کھول رہے تھے لیکن کشیپ صاحب کو ان کا لمس اپنے جسم پر محسوس ہورہا تھا ۔
’’رتنا گری کے ہی بیسٹ ہوتے ہیں۔ پتلی کھال، چھوٹا بیج، بہت لذیذ۔‘‘
کشیپ صاحب کو پل بھر کے لیے لگا کہ میرو اپنے بارے میں بات کررہی ہے لیکن جب میرو کے ہاتھوں میں آم انھوں نے دیکھا تو فوراً بولے؛ ’’سونگھ کر دیکھیے! کہتے ہیں اس کی خوشبو میں جادو ہوتا ہے۔‘‘
پھر شروع ہوگئی کشیپ صاحب کے اسی تصور کی اڑان جس نے آج صبح دور سے دیکھ کر ہی پَر تول لیے تھے۔ پتہ نہیں وہ اڑتے ہوئے کہاں سے کہاں نکل گئے، میرو کی آواز انھیں واپس لے آئی۔
’’بیئر؟‘‘
کشیپ صاحب نے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا۔ میرو فریج سے ایک بیئر لے آئی لیکن اس سے پہلے کہ وہ کشیپ صاحب کے لیے گلاس بھرتی، انھوں نے یاد دلایا؛ ’’بس ایک گلاس۔‘‘
’’انھوں نے تو ایک مہینے سے چھوڑی ہوئی ہے۔آپ کو اکیلے ہی پینی ہوگی۔‘‘ میرو نے کشیپ صاحب کا گلاس بھرتے ہوئے کہا۔ کشیپ صاحب نے جوہر کی طرف دیکھا تو اس نے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔ لگتا ہے جوہر جیسا لنگور میرو جیسی حور کا شوہر ہونے کی قیمت ادا کررہا تھا، کشیپ صاحب سوچ رہے تھے۔ ڈنر ٹیبل پر بھی میرو کھانا پروستے وقت کشیپ صاحب سے کہہ رہی تھی؛ ’’آپ کے اس انکلیو میں آنے کی سب سے زیادہ خوشی مجھے ہوئی ہے۔‘‘
کشیپ صاحب ایک خوشگوار حیرت کے ساتھ اس کا منھ تکنے لگے۔ میرو نے وضاحت کرتے ہوئے کہا؛ ’’کم سے کم ان پر کوئی نظر رکھنے والا تو آ گیا۔ نہیں تو مجھے یہی ڈر رہتا ہے کہ یہاں سے میں گئی اور وہاں یہ میری کوئی سوت لے آئے۔‘‘
’’آپ جیسی بیوی ہو تو کوئی چورن ہی ہوگا جو سوت کے بارے میں سوچے گا۔‘‘ کشیپ صاحب کے منھ سے بے ساختہ نکلا؛ بولنے کے بعد انھیں ڈر لگا کہ کہیں جوہر اسے اپنے اوپر حملہ نہ سمجھ لے لیکن وہ احمق تو کشیپ صاحب کے اس جملے کو اپنی معصومیت کا ثبوت بنا کر اپنی بیوی کے سامنے پیش کر رہا تھا ؛ ’’سن لیا؟ ان کو تو کشیپ صاحب شک کرنے کی بیماری ہے اور کچھ نہیں۔‘‘
’’لو میں پلاؤ تو کچن میں ہی بھول گئی۔‘‘
میرو کرسی سے اٹھنے کی کوشش کرنے لگی لیکن کمر پکڑ کر دوبارہ وہیں بیٹھ گئی۔ اس نے جوہر کی طرف بے چارگی سے دیکھا؛ ’’آپ لے آئیں گے پلیز۔ اسٹوو کے پاس ہی رکھا ہے۔‘‘
جوہر تعمیل حکم میں کچن کی طرف چلا گیا۔ اس وقت غنیمت کے کشیپ صاحب بہت دیر سے منتظر تھے ۔
’’کمر میں درد ہے؟‘‘ کشیپ صاحب کے پاس وقت بہت کم تھا۔
’’جی! آج صبح سے ہی…‘‘
’’لگتا ہے ہفتے بھر کی کسر ایک ہی رات میں جوہر صاحب…‘‘ کشیپ صاحب نے جان بوجھ کر جملہ ادھورا ہی چھوڑ دیا اور میرو کی طرف دیکھنے لگے جو ان ہی کی طرف سخت نظروں سے دیکھ رہی تھی؛ ’’کھانا کھائیے مسٹر کشیپ! خالی پیٹ پئیں گے تو اور چڑھے گی۔‘‘
کشیپ صاحب ہربڑا کر رہ گئے۔ اسی وقت جوہر بھی پلاؤ کے ساتھ لوٹ آیا۔وہاں ایک پراسرار خاموشی دیکھ کر اس کا حیران ہونا فطری تھا؛ ’’کیا ہوا؟‘‘
اس سے پہلے کہ میرو کچھ بولتی، کشیپ صاحب نے صفائی پیش کردی؛ ’’ہم کہہ رہے تھے کہ ایک تو بھابھی جی کی کمر میں درد ہے، اوپر سے آپ نے ان پر ہمارے ڈنر کا لوڈ ڈال دیا۔‘‘
’’یہ درد بھی ان کا پالا ہوا ہے ۔ ارے باقی کے دن وہ چھوکرا آتا ہے نا یہاں کھانا بنانے، صاف صفائی کرنے…میں کہتا ہوں اسی سے کام کروا لیا کرو…لیکن نہیں، آتے ہی اس کی چھٹی کردیتی ہیں۔ کہتی ہیں، اس کی نظر گندی ہے۔ ایک تو ان عورتوں کو آدمیوں کی نظریں analyze کرنے کی بہت بری بیماری ہوتی ہے۔‘‘
کشیپ صاحب نے قدرے مطمئن ہو کر تھوک نگلا ۔ پھلوں کی ٹوکری کے پاس انھیں ایک ریلوے ٹکٹ پڑا ہوا نظر آیا تو انھیں موضوع بدلنے کا موقع مل گیا۔
’’اچھا تو آپ ٹرین سے سفر کرتی ہیں؟ ٹکٹ وغیرہ کی کبھی پرابلم ہو تو بتائیے گا۔‘‘
میرو نے صرف اپنا سر ہلانے پر اکتفا کیا۔ کشیپ صاحب نے دل ہی دل میں اپنی جلد بازی پر خود کو کوسا۔ کھانا خاموشی سے ختم ہوا۔ میرو برتن سمیٹ کر کچن کی طرف چلی گئی اور پتہ نہیں وہ واقعی مصروف ہو گئی یا خواہ مخواہ مصروفیت کی نذر ہوگئی۔ بہرحال، اب وہاں کشیپ صاحب کے لیے کچھ نہ تھا۔ تھوڑی دیر تک وہ جوہر سے گفتگو کرتے رہے اور میرو کی ایک جھلک دیکھنے کا انتظار کرتے رہے، پھر مایوس ہو کر انھوں نے اجازت طلب کی جو انھیں آسانی سے مل گئی۔
کشیپ صاحب کو باہر چھوڑنے کے لیے جب جوہر کے ساتھ میرو بھی آئی تب بھی اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔ باہر بوندا باندی ہو رہی تھی۔ جوہر نے انھیں چھاتے کی پیش کش کی لیکن کشیپ صاحب نے معذرت کر لی۔ وہ بارش میں بھیگتے ہوئے اپنے بنگلے تک پہنچے اور پلٹ کر جوہر کے گھر کی طرف دیکھا جس کا دروازہ بند ہوچکا تھا۔ وہ کچھ دیر تک وہیں کھڑے ہو کر اس بند دروازے کو دیکھتے رہے جس کے پیچھے وہ اپنا جسم چھوڑ آئے تھے۔
رات بھر انھیں الٹے سیدھے خواب ستاتے رہے ۔ کبھی میرو ان کی بانہوں میں ہوتی تو کبھی وہ اس کے چوڑے چکلے کولھے پر چٹکی لے رہے ہوتے۔ پوری رات انھوں نے سوتے جاگتے گذاری۔ فریج میں رکھی پانی کی کئی بوتلیں ان کے حلق کی نذر ہوچکی تھیں لیکن کمبخت پیاس تھی کہ بجھ نہیں پا رہی تھی۔ ان کا پورا جسم پھنکنے لگا تھا؛ پتہ نہیں یہ بارش میں بھیگنے کا نتیجہ تھا یا اندر کی گرمی باہر ابل آئی تھی۔ دن چڑھے تک کمبل میں لپٹے اور monkey cap لگائے سوتے رہے۔ موبائل کی مسلسل گھنٹی نے انھیں آنکھ کھولنے پر مجبور تو کردیا تھا لیکن انھوں نے موبائل اٹھانا تو درکنار اس کی طرف دیکھنا تک گوارا نہ کیا۔ شاید وہ جانتے تھے کہ یہ کس کا فون ہوگا۔ وہ آنکھیں بند کیے گھنٹی کے بند ہونے کا انتظار کرتے رہے لیکن فون کرنے والا بھی ڈھیٹ تھا۔ چار و ناچار انھوں نے جھنجھلا کر فون اٹھایا، حسب توقع دوسری طرف ان کی بیوی ہی تھی۔
’’کیا ہے؟ گاڑی پہنچ گئی؟ پلیٹ فارم سے باہر نکلیے اور ٹیکسی اسٹینڈ پہ پہنچ کر ٹیکسی والے سے بات کروائیے…ہم ایڈرس سمجھا دیں گے…‘‘
دوسری طرف سے شاید کچھ کہا گیا تھا جس پر کشیپ صاحب کی جھنجھلاہٹ بڑھ گئی ، ان کی آواز اونچی ہوگئی ؛ ’’اررے…بھیگ گئے تھے کل بارش میں، طبیعت خراب ہے اس لیے نہیں آئے۔ کیوں بھیگے کا کیا مطلب؟ رومانٹک گانے کی شوٹنگ کررہے تھے سری دیوی کے ساتھ، اس لیے بھیگ گئے۔‘‘انھوں نے غصے سے فون کاٹ دیا اور ایک زور دار چھینک ماری۔
کشیپ صاحب کے دل و دماغ میں اس وقت بھی میرو بسی ہوئی تھی جب وہ اپنے بنگلے کے گیٹ پر کھڑے فون پر ٹیکسی ڈرائیور کو اپنا پتہ سمجھا رہے تھے ، وہ بیچ بیچ میں جوہر کے بنگلے کی طر ف بھی نظر ڈال لیتے لیکن ہر بار ان کی نظریں مایوس لوٹتیں۔ اپنی بیوی کے پہنچنے سے قبل وہ میرو کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے چین تھے لیکن افسوس، ٹیکسی پہلے پہنچ گئی۔
’’ہائے، ہائے! پھر سے اتنا بڑا گھر دے دیا۔ اس کی تو صاف صفائی میں ہی پورا دن نکل جائے گا۔ موئے ریلوے والوں کو اپنے افسروں کی بیویوں سے کوئی دشمنی ہے کیا؟‘‘ یہ کشیپ صاحب کی بیوی سمن کا بنگلے پر پہلا تاثر تھا۔ کشیپ صاحب بھلا ایسے بیہودے سوال کا جواب کیا دیتے۔ شاید سمن کو بھی ان کے جواب کی پروا نہیں تھی، وہ اپنے آٹھ سالہ بیٹے پنکو اور چار سالہ بیٹی پنکی کو گھڑکنے میں لگ گئی جنھوں نے آتے ہی بنگلے کے لان میں دھما چوکڑی شروع کردی تھی۔ بے چارے کشیپ صاحب کسی ٹنڈ منڈ درخت کی طرح وہیں کھڑے رہے جس پر بہار آنے سے پہلے خزاں نے ہلّہ بول دیا تھا۔ وہ دل ہی دل میں سوچ رہے تھے کہ ایک کامیاب آدمی کے پیچھے کون سی عورت ہوتی ہے، یہ تو مجھے نہیں پتہ۔ لیکن ایک ناکام آدمی کے پیچھے کون سی ہوتی ہوگی ، یہ میں جانتا ہوں؛ اس کی دھرم پتنی اور کون۔ آپ کے 70mm سنیما اسکوپ سپنوں کو ایک جھٹکے میں ٹی۔وی کا کوئی گھٹیا reality showبنا دیتی ہے۔
اس reality show کو نہ صرف کشیپ صاحب تصور کر رہے تھے بلکہ اپنی کھلی نظروں سے دیکھ بھی رہے تھے ، حتیٰ کہ اس میں عملی طور پر شریک بھی تھے۔ اس BIG FLOP شو کی اینکر ان کی بیوی سمن تھیں جن کا تکیہ کلام ’’ہائے ہائے‘‘ تھا۔ اس شو کی شروعات سامان سے لدے ایک ٹرک سے ہوئی جو کشیپ صاحب کے بنگلے کے سامنے پہنچ کر رک گیا۔ سمن کی ہائے ہائے بیک گراؤنڈ اسکور بھی پورے منظر پر overlap کرتی رہی۔
’’ہائے ہائے!یہ ہماری مرادآباد والی کلسی پچک کیسے گئی؟ ڈریسنگ ٹیبل کا شیشہ کہاں گیا؟ یہ کتابوں والا بکسا بھیگا کیسے؟ ہائے ہائے…‘‘
پھر اس منظر نامے میں کچھ نئے رنگروٹوں کی انٹری ہوتی ہے۔ بھٹ صاحب اور جوہر، سمن کو خوش آمدید کہتے ہیں اور اپنی مدد پیش کرتے ہیں۔ ہائے ہائے۔
کشیپ صاحب، بھٹ صاحب اور جوہر دوسرے نوکروں کے ساتھ سمن کی رہنمائی میں بنگلے میں سامان لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہائے ہائے کی صدائیں گونجتی رہیں؛ ’’ہاے ہائے! پلنگ کا سرہانہ دکھن کی طرف کس نے کردیا؟ کھسکائیے اسے، اتر میں کردیجیے…ارے ارے! گھڑی پچھم کی طرف کیوں لگا رہے ہیں، گھر میں جھگڑا کروائیں گے کیا؟‘‘
بھٹ صاحب معذرت کرتے ہوئے باہر نکل گئے، ان کے پیچھے پیچھے جوہر بھی آؤٹ ہوگیا۔ ایک ایک کرکے اس شو سے سارے کنڈیڈیٹ eliminate ہوتے گئے۔
’’ہائے، ہائے! ایک بھی باتھ روم میں انڈین لیٹرن نہیں ہے، جیجی آئیں گی تو پریشان ہو جائیں گی۔ اور اتنا بڑا ٹب کاہے لگا دیے ہیں غسل خانے میں…بچے پانی بھر کے کھیل رہے تھے… کوئی ڈوب گیا تو؟‘‘
کشیپ صاحب کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس عورت کو کیسے ہینڈل کریں۔
’’اور آخر میں بچتا ہے…اس شو کا winner اور لائف کا loser؛ ان کا پتی…مسٹر بگ فلاپ۔‘‘پتہ نہیں یہ آواز کہاں سے آرہی تھی، شاید خود کشیپ صاحب کے دماغ میں ہی گونج رہی تھی۔
کشیپ صاحب نہ تو ہمت ہارے تھے اور نہ ہی ان کی قسمت اتنی بری تھی کہ ان کے سپنوں پر فل اسٹاپ لگ جاتا۔اس دن جب وہ اپنی فیملی کے ساتھ ایک سپر مارکیٹ میں شاپنگ کرتے ہوئے دل ہی دل میں کڑھ رہے تھے کہ اچانک وہ جوہر اور میرو سے جا ٹکرائے۔ یہ ملاقات اتنی اچانک اور غیر متوقع تھی کہ پہلے تو وہ کچھ بول ہی نہ پائے۔ آفس میں ڈیڈ لائن اور گھر میں گیس لائن، سیور لائن، فون لائن، الیکٹرک لائن اور کبھی کبھی چھٹی ہو تو بیوی کی شاپنگ لسٹ کی لائن گننے کا ریزلٹ یہ ہوا کہ ہر چار منٹ میں جس کا خیال دل میں آتا تھا، جو ہر چار دن میں ان کے گھر سے چار قدم دور رہنے آتی تھی، اس سے چار ہفتے بعد اس طرح کسی شاپنگ سینٹر میں ملاقات ہوجائے تو اسی طرح کا ردعمل ہونا فطری تھا۔ کشیپ صاحب اتنے ترسے ہوئے تھے کہ ان کا دل کیا کہ سارے احتیاط قریب رکھے ڈسٹ بین میں ڈال کر وہ میرو کو اپنے سینے سے لگا لیں ؛ وہ اپنے خیالوں میں گم اس خطرناک ارادے کو پورا کرنے کے لیے آگے بڑھے بھی لیکن عین وقت پر میرو ، سمن کی طرف مسکراتے ہوئے بڑھ گئی اور چار و ناچار انھیں جوہر کو گلے لگانا پڑا۔ جوہر، کشیپ صاحب سے شکایت کرتا رہا کہ وہ انھیں بھول گئے ہیں، بھابھی کو بھی ان کے گھر نہیں بھیجا وغیرہ وغیرہ۔ کشیپ صاحب ہوں ہاں میں جواب دیتے رہے لیکن ان کا مرکز نگاہ تو میرو تھی ۔ ان کے دل و دماغ کی عجب کیفیت تھی؛ وہ سوچ رہے تھے کہ پہلی بار دیکھا تھا تو گلابی ساڑی میں تھی، ڈنر والے دنmaroon suit میں اور آج لال ٹاپ… سبھی سرخ رنگ کے مختلف شیڈ…the color of seduction…کس کو seduce کرنا چاہتی ہے؟کیا اس کو پتہ تھا کہ ہم سپر مارکیٹ میں ملنے والے ہیں۔ کچھ تو ہے کشیپ صاحب! دل کی encrypted language پبلک پلیس میں ڈی کوڈ نہیں ہو سکتی۔
’’کل سب ساتھ چلتے ہیں Arbian Sea اپنی catamaran لے کر… اسی بہانے اپنی فیملی کی outing بھی ہو جائے گی…کیا خیال ہے مسٹر کشیپ؟‘‘جوہر نے پوچھا۔
کشیپ صاحب بھلا کیوں انکار کرتے۔ سالا کوئی نہ کوئی تو موقع ملے گا اتنے رومانٹک سفر میں جب وہ میرو کو اپنے دل کی سنا سکیں ؛اشاروں کنایوں میں سہی ۔
لیکن موقع ملنا اتنا آسان تو نہ تھا؛ کشیپ صاحب بھی جانتے تھے۔ جوہر کے catamaran(چوبی جہاز/کشتی) میں ان کی بیوی میرو کے ساتھ بیٹھی گفتگو کررہی تھی۔ کم بخت نے آج بھی سرخ پھولوں والی ساڑی پہنی ہوئی تھی۔ ان کے بچوں کے ساتھ جوہر کوئی بورڈ گیم کھیل رہا تھا اور وہ خود dock پر کھڑے ہوکر بیئر پی رہے تھے اور کچھ اس طرح پوز کررہے تھے جیسے وہ کیپٹن کے ساتھ مصروف ہوں۔ لیکن سچ تو یہ تھا کہ وہ صرف کسی موقع کے منتظر تھے۔ انھوں نے دل ہی دل میں ارادہ کرلیا تھا کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے، وہ آج کچھ کر کے رہیں گے۔اور یہ موقع انھیں بالآخر مل ہی گیا۔ انھوں نے دیکھا کہ میرو کوئی چیز لینے کے لیے dock کے پیچھے گئی، وہ بھی اپنی جگہ سے ہلے۔
’’ریڈ کلر آپ کو بہت سوٹ کرتا ہے۔‘‘
میرو مسکرائی جو ایک بڑے سے آئس بکس میں کولڈ ڈرنک تلاش کر رہی تھی۔ کشیپ صاحب نے پھر کہا؛ ’’نو…رئیلی…بہت gaarjeus (gorgeous) لگ رہی ہیں آپ اس ساڑی میں۔‘‘
’’آپ کو اتنی اچھی لگی تو میں اسے سمن دیدی کو دے دیتی ہوں۔ پھر آپ آرام سے انھیں admireکیجیے گا۔‘‘ سالی نے دانت کاٹ لیا لیکن کشیپ صاحب بھی کہاں اتنی جلدی ہمت چھوڑنے والے تھے، انھوں نے برجستہ پوچھا؛ ’’ساڑی تو دے دیں گی لیکن بیوٹی؟‘‘
میرو کا چہرہ پل بھر کے لیے سخت ہوا لیکن پھر وہ نارمل نظر آنے لگی، اس نے کشیپ صاحب کے ہاتھوں سے بیئر کی ٹن لی اور سمندر میں پھینک دیا۔
’’لگتا ہے، آج پھر آپ نے اپنے کوٹے سے زیادہ لے لی ہے۔‘‘میرو جانے کے لیے مڑی لیکن کشیپ صاحب نے اسے آواز دی؛ ’’ایک منٹ سنیے تو…‘‘
میرو نے پلٹ کر کشیپ صاحب کی آنکھوں میں اپنی آنکھیں ڈال دیں؛ ’’مسٹر کشیپ میں آپ کے پڑوسی کی بیوی ہوں، آپ کی سالی نہیں۔ آپ نشے میں ہیں، پلیز ریلنگ پکڑے رہیے ورنہ گر جائیں گے۔‘‘
میرو چلی گئی اور کشیپ صاحب نے سچ مچ ریلنگ کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ وہ بڑا بڑا رہے تھے؛ ’’میرو جی تو میرو پربت پر براجمان ہیں بابو۔ وہاں تک مونو ریل کیسے لے جائیے گا؟ two track railکا ایکسپرٹ اگر مونو ریل چلائے گا تو بہت چانس ہے کہ ایسے ہی ریلنگ میں کانپتا نظر آئے۔ لیکن یہاں تو two track rail بھی سیف نہیں ہے۔ دوسرا ٹریک پہلے ہی سے risky ہے، اوپر سے نشانے پہ وائف بھی اس کی ہے۔‘‘