اتنا اچانک کیوں بلایا مجھے۔وہ اطمینان سے اپنے کمرے میں داخل ہوۓ جہاں عرفان پہلے سے موجود تھا۔وہ
واہ جاوید صاحب کیا چال کھیلی ہے آپ نے (اس نے تالی مارتے ہوۓ کہا) “بغل میں چھری اور منہ میں رام رام” کر دیا نا جدا ہمکو اب کیوں ہمدردیاں جتا رہے ہیں مجھ سے جشن منائیں اپنی جیت کا۔
(تو اس کمینی سے اتنی جلدی سب اگل دیا، ایک دن نہ برداشت کر سکی سختیاں ڈرپوک بزدل)انہیں یہ امید نہیں تھی کہ کومل ایک دن میں ہی سب سچ اگل دے گی)
اگر اسکا رہنا یہاں برداشت نہیں ہو رہا تھا تو ایک بار پاپا صرف ایک بار مجھے بتا دیتے میں اسے لے کر ہمیشہ کے لیے کہیں دور چلا جاتا ایسا تو نہ کرتا،
کیا جواب دونگا میں اس کے بہن بھائیوں کو، وہ بھراۓ ہوۓ لہجے میں کہہ رہ تھا اور جاوید صاحب کے پاس اسکے کسی سوال کا کوئی جواب نہیں تھا وہ ایک بڑی غلطی کر چکے تھے۔
یہ غریب اور چھوٹے لوگ آپ جیسے امیروں سے بہتر ہوتے ہیں وہ اپنی اولاد کی خوشیوں کے لیے خود کو ہی فنا کر دیتے ہیں مگر آپ بڑے لوگ اپنی خوشیوں کے لیے اولاد کا گلا گھونٹ دیتے ہیں فنا کر دیتے ہیں انہیں۔ وہ بلند آواز میں چیخا مسز جاوید جو دروازے کے باہر کھڑی انکی باتیں سن رہی تھی سہم گئی۔
لیکن ایک بات میری کان کھول کر سن لیں اگر میری بیوی کو کچھ ہوا بلکہ ذرا سی بھی خراش آئی تو میں آپکو کبھی معاف نہیں کروں گا نہ کبھی آپکو چہرہ دیکھوں گا۔اسکے لہجے میں چٹانوں جیسی سختی آگئی تھی۔
آپ باپ کہلانے کے بھی لائق نہیں۔ وہ آخری بات کہتا جھٹکے سے دروازے کھول کر باہر نکل گیا۔اس کے بعد مسز جاوید جو دروازے کی سائڈ پر کھڑی تھی وہ اندر گئی۔
ہو گئی تسلی مل گئی خوشی۔ یہ گھٹیا کھیل کھیلتے ہوۓ ایک بار بھی بیٹے کی خوشی نظر نہیں آئی۔ اور وہ کومل اسے تو ۔۔۔۔۔
دروازے پر ہونے والی دستک سے انکی بات بیچ میں ہی رہ گئی۔مسز جاوید نے دروازہ کھولا، سامنے صغراں کھڑی تھی۔
وہ بی بی صاحب پولیس آئی ہے گیٹ پر کھڑی ہے صاحب کو بلا رہی ہے۔ وہ یہ سب کہہ کے ہانپتے ہوۓ واپس چلی گئی۔
جائیے پولیس آپکا استقبال کر رہی ہے مگر ایک بات یاد رکھنا اگر میرے بیٹے کو کچھ ہوا تو میں کبھی آپکو معاف نہیں کروں گی۔وہ حقارت سے کہتی باہر نکل گئی۔
(آپ باپ کہلانے کا لائق نہیں)سست روی سے گیٹ کی طرف بڑھتے ہوۓ ایک ہی بات ان کے ذہن میں گونج رہی تھی۔پولیس نے انہیں عرفان کی اجازت سے گرفتار کر لیا تھا۔۔
وہاں نہ پھول کھلتے ہیں
نہ ہی موسم بدلتے ہیں
وہاں پر کچھ نہیں ہوتا
جہاں پر تم نہیں ہوتے
یہاں تو ہر سوغات
آسانی سے ملتی ہے
میرا بس دل نہیں لگتا
جہاں پر تم نہیں ہوتے
یہاں تو لوگ صدیوں کو بھی
لمحوں میں بدلتے ہیں
میرا اک پل نہیں کٹتا
جہاں پر تم نہیں ہوتے
سبب رونے کا وہ پوچھیں
تو اتنا کہہ دینا
مجھے ہنسنا نہیں آتا
جہاں پر تم نہیں ہوتے
انکل نے بہت برا کیا خیر تم پریشان مت ہو سب ٹھیک ہو جاۓ گا کل پولیس وہاں چھاپہ مارے گی دعا کرو بس۔کمال نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی۔ (وہ اسوقت کمال کے گھر اس کے کمرے میں بیٹھا تھا)
ان شأالــــلـــــہ۔اس نے صدقِ دل سے کہا۔
تانیہ ان دونوں کے لیے چاۓ بنا کر لائی اور پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گئی۔
کچھ لمحات خاموشی میں کٹ گئے۔
عدیل سے بات ہوئی تھی تمہارے بارے میں پوچھ رہا تھا۔میں نے اسے کچھ نہیں بتایا، کمال کی آواز نے سکوت توڑا۔
شکر ہے نہیں بتایا وہ دور بیٹھا کیا کرتا پریشان ہونے کے علاوہ۔
اب آگے کا کیا فیصلہ ہے؟ تانیہ نے کہا
کیا فیصلہ کرنا ہے بس وہ مل جاۓ تو سب فیصلے خود بخود ہو جائیں گے۔
میری زندگی رک سی گئی ہے اس کے بغیر میری دھڑکنیں تھم سی گئی ہیں کچھ اچھا نہیں لگتا بس دعا کرو اسکے ملنے کی جلد خبر مل جاۓ ورنہ۔ کچھ توقف بعد اس نے بات مکمل کی۔یہ جو چلتا پھرتا وجود ہے یہ بھی جل کر بھسم ہو جاۓ گا۔
چلتا ہوں۔وہ اٹھ کھڑا ہوا
یہ چاۓ ، اب تو ٹھنڈی ہو چکی ہے رکو میں اور بنا کر۔۔۔۔
(رہنے دو) وہ ہاتھ سے اشارہ کرتا چلا گیا۔حلق میں پھنسے آنسوؤں کے گولے سے اسکی آواز بھی نہیں نکل رہی تھی۔گاڑی میں بیٹھ کر وہ کافی دیر ڈیش بورڈ پر سر رکھ کر روتا رہا۔۔
اس لڑکی کو ٹھکانے لگوایا کہ نہیں۔زاہد صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا تھا۔چند دن پہلے وہ کسی گینگ سے ملنے گیا تھا اور اب غیر حاضری کے دنوں کی شبنم سے رپورٹ لے رہا تھا۔
لگوا دیا تھا۔شبنم بھی اسکے ساتھ والے سنگل صوفے پر بیٹھی تھی۔
اور وہ دوسری لڑکیاں ؟
ان کا نشہ جب بھی ٹوٹتا ہے میں انہیں انجکشن لگا دیتی ہوں اور نئی پنچھی کو نشہ آور ادویات اور انجکشن دونوں دیتی ہوں۔
گڈ، کل شام کو ان سب کو یہاں سے لے کر دوسرے اڈہ پر جانا ہے اور وہاں سے آگے اسمگلنگ ہو گی۔اس نے سگار سلگایا۔
مگر تم نے کہا تھا یہاں سے ہی اسم۔۔۔۔
یہاں پر کبھی بھی چھاپہ پڑ سکتا ہے پولیس والوں نے بہت سختی کر دی ہے یہاں سے نکلنا ضروری ہے۔
اس نے سگریٹ نیچے پھینک کر جوتے سے مسلا۔
یہاں پر آدمی بھی کم ہیں اور ہتھیار بھی، پولیس آسانی سے پکڑ لے گی فائرنگ کیے بغیر۔
اور اگر آج پولیس چھاپہ مار دے تو؟ شبنم نے سوال کیا۔
ہزار بار بتا چکا ہوں کیا کرنا ہے پھر وہی سوال کرتی ہوں۔زاہد نے اپنی موٹی سرخ آنکھوں سے اسے گھورا
ہاں یاد آ گیا سوری۔ شبنم نے فوراً معذرت کی وہ جب سے اس گینگ میں شامل ہوئی تھی زاہد کو اس کا حصہ دیکھا تھا اور ساتھ کام بھی کرتی تھی مگر اسے زاہد کی سرخ آنکھوں اور کرخت لہجے سے کبھی کبھی خوف آتا تھا۔۔
اگلے دن صبح زاہد کو خبر ملی کہ ان کے بڑے اڈے پر پولیس نے حملہ کر دیا ہے وہ ہانپتا ہوا شبنم کے پاس آیا
شبنم بڑے اڈے پر پولیس نے چھاپہ مار دیا ہے اور گینگ کا چیف فرار ہو گیا۔ہو سکتا ہے ادھر بھی پولیس نے گھیرا ڈال رکھا ہو تم تیار رہنا ہمیں یہاں سے نکنا ہو گا۔
شبنم بھی گھبرا گئی۔
ان لڑکیوں کا کیا کرنا ہے؟
اگر پولیس نے ادھر کا رخ نہ کیا تو ان کو یہاں سے اسمگل کر دیں گے ورنہ قتل کر کے تہ خانے کے دوسرے حصے میں پھینک دو۔
میں ابھی پت۔۔۔۔۔
سر پولیس یہاں آچکی ہے اور چاروں طرف سے گھیراؤ ڈال رہی ہے۔زاہد کے آدمی نے اسکی بات کاٹ کر کہا۔
کیاااا۔
ان سب کو جان کے لالے پڑ گئے تھے وہ جانتے تھے کہ اگر وہ پولیس کے ہاتھ لگ گئے تو انکا کیا حال ہوگا کسطرح کا سلوک کیا جاۓ گا۔
سب کو میرے پاس بلاؤ۔زاہد کے آرڈر پر وہ باہر کیطرف بھاگا۔
تھوڑی دیر بعد اسکے ساتھ اسکے ساتھی بھی تھے۔
ہم دونوں یہاں سے نکل رہے ہیں۔اور تم لوگ ان لڑکیوں کو ٹھکانے لگا کر فرار ہو جانا۔
اوکے سر۔
ایک بات ذہن می رکھنا تم میں سے اگر کوئی پکڑا گیا تو چاہے پولیس تمہاری چمڑی ادھیڑ دے زبان نہیں کھولنی۔
جی سر۔ان میں سے ایک نے کہا باقی سب نے سر ہاں۔میں ہلاۓ۔
عرفان پولیس کے ساتھ دوسری گاڑی میں تھا۔جب دشمن کے ایک اڈے پر حملے اور کامیابی کے بعد تلاشی لی گئی تو وہاں سے نو لڑکیاں ملی جن میں فائزہ نہیں تھی۔عرفان نے ہر جگہ بار بار فائزہ کو ڈھونڈا مگر وہ ہوتی تو ملتی۔اس کی ہمت ٹوٹتی جا رہی تھی وہ خود کو تسلی دیتا شاید کہ انہوں نے دوسری جگہ اسے چھپا رکھا ہو۔
کچھ لوگ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے مگر کچھ لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
زاہد اور شبنم اڈہ سے فرار ہونے کے باوجود پکڑے گئے تھے اور باقی لوگ کچھ زخمی ہو گئے تھے اور کچھ بچ گئے تھے۔
اڈے کی جب تلاشی لی گئی تو منشیات اور اوزار جو اسمگل کیا جاتا تھا وہ برآمد ہوا۔عرفان ہر جگہ فائزہ کو تلاش کر رہا تھا اور جب وہ تہ خانے کی طرف بڑھا تو ایک پل کے لیے کانپ گیا اسقدر خوفناک سا کھنڈر وہ کانپتے وجود کے ساتھ دروازہ کھول کر نیچے اترنے لگا پولیس آفیسر نے اسکی لزرتی ٹانگوں کو دیکھ کر اسکے ساتھ جانا مناسب سمجھا۔
وہ بزدل یا ڈرپوک نہیں تھا مگر وہ فائزہ کو کھونے سے ڈرتا تھا۔
اگر وہ نہ ملی تو۔۔۔۔۔ اس سے آگے وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا دل لرزنے لگتا تھا اسکا۔
وہ دونوں تہ خانے میں پہنچے۔
تہ خانے میں عجیب سی بدبو پھیلی ہوئی تھی وہ دونوں پہلے حصے میں تلاشی لے کر دوسرے حصے کیطرف بڑھے۔
پردے کے پاس اوندھے منہ پڑا وجود۔
عرفان نے جلدی سے اسے سیدھا کیا ناک سے خون بہہ رہا تھا۔اسے فرش پر چھوڑ کر وہ آگے بڑھا۔
وہ دونوں کافی دیر وہاں دوسرا وجود تلاش کرتے رہے عرفان کی سانس رک رہی تھی وہ گہرے گہرے سانس لینے لگا۔
یہاں آپکو کوئی آہٹ سی محسوس ہوئی ہے؟ پولیس آفیسر نے کہا۔
ن نہیں۔
وہ چوکنا ہو کر ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا جب ایک بار پھر کراہنے کی آواز آئی۔
عرفان کی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھی۔
یہاں سے آواز آئی ہے؟ وہ جلدی سے وہاں پہنچا۔کاٹھ کباڑ کے پیچھے کونے میں دو لڑکیاں پڑی تھی جن میں ایک کراہ رہی تھی اور دوسری بے ہوش پڑی تھی۔۔
فائزہ کو دیکھ کر اسکی حالت غیر ہو رہی تھی وہ بے آواز رو رہا تھا۔
کتنے وعدے کیے تھے اس نے فائزہ کیساتھ کہ وہ اسے خوش رکھے گا اسکا ساتھ دے گا مگر آج اسکی وجہ سے وہ اس حال کو پہنچی تھی۔اسے جاوید صاحب سے حد سے زیادہ نفرت محسوس ہوئی تھی۔۔۔
ان سب لڑکیوں کو ہسپتال شفٹ کر دیا گیا تھا۔عرفان نے سب کو فائزہ کے مل جانے کی خوشخبری سنائی تھی۔
اسوقت ہسپتال میں عرفان کے سب رشتےدار موجود تھے۔وہ ہسپتال کے کوریڈور میں پریشانی سے ٹہل رہا تھا۔
عرفان بیٹھ جاؤ کب تک اسطرح ٹہلتے رہو گے۔مسز جاوید نے کہا۔
تھک جاؤ گے بیٹا۔
وہ ان کی بات سنی ان سنی کرتا ٹہلتا رہا۔
امی آپ لوگ گھر چلی جائیں کافی رات ہو گئی ہے۔اس نے کچھ دیر بعد مسز جاوید سے کہا
کمال تم ماما کو انکے گھر ڈراپ کر دو۔اور عائزہ کو اپنے گھر لے جانا وہاں تانیہ ساتھ ہو گی۔میں اور ولید بھائی ادھر ہی ہیں اتنے لوگوں کو ڈاکٹرز روم میں نہیں جانے دیتے اور باہر سردی ہے۔فائزہ کے بارے میں کال کر کے بتا دوں گا۔عرفان نے کمال سے مخاطب ہو کر کہا۔
کمال نے اسکی بات بغیر کچھ کہے مان لی۔
چلیں آنٹی۔وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
تانیہ تم عائزہ کو ساتھ لے آؤ۔کمال نے تانیہ سے کہا
اپنا خیال رکھیے گا اور آپی کی طبیعت کے بارے میں کال کر کے بتائیے گا۔وہ یہ کہتی تانیہ کے ساتھ چلنے لگی۔
میں بہت شرمندہ ہوں آپ سے۔ان چاروں کے جانے کے بعد وہ ولید کے ساتھ بنچ پر بیٹھتے ہوۓ گویا ہوا۔
کس بات پر؟ تمہیں شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔اس میں تمہاری کیا غلطی ہے یہ سب تو اسکی قسمت میں لکھا تھا۔ وہ اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوۓ بولا۔
میں نے ایک فیصلہ کیا ہے۔
کیسا فیصلہ ؟ ولید نے سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھا۔
میں اب مزید ایک۔۔۔۔۔۔
موبائل پر ہونے والی رنگ ٹون سے اسے اپنی بات روکنی پڑی۔وہ ولید سے ایکسیوز کرتا اٹھ کھڑا ہوا ماہی کی کال تھی وہ فائزہ کے بارے میں پوچھ رہی تھی اور ہسپتال نہ آنے کے لیے معذرت کر رہی تھی۔اس سے بات کر کے وہ دوبارہ ولید کے پاس آکر بیٹھا۔
سوری دوست تھی فائزہ کا پوچھ رہی تھی۔اس نے ولید کو کہا
ہاں تو میں کہہ رہا تھا میں اب پاپا کے گھر رہنے کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا۔
کمال کے فادر کا ایک چھوٹا سا فلیٹ ہے جو خالی پڑا ہے۔وہی شفٹ ہو جاؤں گا جب تک اپنے گھر کا مسلہ حل ہوتا اور انہی کے آفس جاب کروں گا۔
میرا گھر ہے نا۔مانا کہ چھوٹا ہے مگر وہاں کے رہنے والے لوگوں کے دل کشادہ ہیں۔تمہیں کہیں باہر گھر ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں تھی۔
مجھے معلوم ہے۔مگر اچھا بھی تو نہیں لگتا بیوی کے گھر رہنا۔
ہاں یہ بھی ٹھیک ہے۔وہ دونوں پھر اپنی اپنی سوچوں۔میں گم ہوگئے ۔
صبح اسے ہوش آیا تھا مگر نشہ آور ادویات کا اثر مکمل طور پر ختم نہیں ہوا تھا اور بخار بھی ہو رہا تھا
ایک ہفتہ ہسپتال میں بھرپور دیکھ بھال کے بعد اسے گھر بھیج دیا گیا تھا وہ اسے اپنے گھر نہیں ولید کے گھر لے آیا تھا۔
عائزہ ہر وقت اسکے ساتھ چپکی بیٹھی رہتی۔اسکا بہت خیال رکھتی تھی۔
جب سے وہ ہسپتال سے آئی تھی عرفان سے اسکی کوئی بات چیت نہیں ہوئی تھی۔دن کو عائزہ اسکے پاس ہوتی اور رات کو وہ دوا کے زیرِ اثر سو رہی ہوتی۔
وہ اس سے نظریں چراتا پھر رہا تھا باپ نے نظریں ملانے کے قابل کہاں چھوڑا تھا۔وہ صوفے پر گردن جھکاۓ بیٹھا سوچوں میں غرق تھا جب عائزہ نے پاس آکر چٹکی بجائی۔
عرفان بھائی آپ دل ہی دل میں مجھے کوس رہے ہوں گے کہ میں آپ دونوں کے بیچ کباب مین ہڈی بنی ہوئی ہوں۔اس لیے میں آپ دونوں بیٹھیں میں جا رہی ہوں باہر۔ وہ مسکراتی ہوئی باہر نکل گئی۔
یہ بہنیں بھی کتنی عجیب ہوتی ہیں بہن سے لڑتی ہیں ضد کرتی ہیں۔مگر جب بہن کو کوئی دکھ ہو تو گھنٹوں بیٹھ کر روتی ہیں ان کا درد اپنا درد سمجھتی ہیں۔
عائزہ کے باہر جانے کے بعد وہ اسکے پاس آکر بیٹھا
اب کیسی طبیعت ہے؟
ٹھیک ہوں۔اسے عرفان سے کوئی گلہ نہیں تھا اسکی نظروں میں وہ کل بھی سچا تھا اور آج بھی۔
وہ عرفان کو خاموش اور نظریں چراتا دیکھ کر اس کے نزدیک آئی اور اسکے گلے لگ گئی۔
وہ اسے کیساتھ لگ کر گزرے دنوں کا غبار نکال رہی تھی۔
چپ ہو جاؤ نا اب۔کچھ توقف کے بعد عرفان نے کہا۔
وہ اس سے الگ ہوئی اور دوپٹے سے آنسو پونچھے۔ناک سرخ ہو گئی تھی۔
بس یہ آخری بار تھی اب تمہیں کوئی نہیں رلاۓ گا۔نہ میں اب کوئی اور منافقت برداشت کر سکتا ہوں۔
پاپا کہاں ہیں؟ اس نے جاوید صاحب کے بارے میں پوچھا۔
جیل میں۔انکا نام سن کر اسکے اندر تک کڑواہٹ گھل گئی تھی۔
میں نے انکو معاف کر دیا ان کو رہائی دلا دو۔اس نے نظریں جھکا کر کہا جانتی تھی عرفان تیش میں آجاۓ گا۔
کیااا تم ۔۔۔۔۔ اس نے مزید کچھ بولنے سے پہلے ہی اسکے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ لیا
پلیز میری بات ٹالیے گا مت۔
تمہاری اس سے پہلے کوئی بات ٹالی ہے جو اب ٹالوں گا۔اس نے نرمی سے کہا
تھینک یو۔اس نے مسکرا کر اس کے کندھے پر سر رکھا۔
لگتا ہے نشہ آور دوا کا اثر ابھی زائل نہیں ہوا۔اس کو بار بار اپنے قریب آتے دیکھ کر عرفان نے شرارت سے کہا۔
آپ بھی نا۔اس نے ہلکا سا مکہ اس کی کمر پر مارا اور وہ قہقہ لگا کر ہنس پڑا۔
شام کے ساۓ پھیل رہے تھے جب کمال ، تانیہ اور ماہی تینوں فائزہ کو دیکھنے گھر آگئے۔
عائزہ نے ان سب کو فائزہ کے پاس بٹھایا اور خود کچن میں چاۓ بنانے چلی گئی۔ولید بھی آچکا تھا اپنے کمرے میں فریش ہونے کے لیے گیا تھا۔
کسی تکلف کی کوئی ضرورت نہیں ہے عائزہ۔ ماہی کچھ دیر فائزہ کے پاس بیٹھ کر کچن کی طرف عائزہ کو دیکھنے آئی۔
ارے کیسا تکلف؟ چاۓ ہی تو بنا رہی ہوں۔
عائزہ کچھ منگوانا ہے؟ ماہی کی پشت سے کچھ فاصلے پر آواز ابھری۔عائزہ کے بولنے سے پہلے ماہی بول اٹھی۔
کسی چیز کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اوکے میں کمال کے پاس بیٹھتا ہوں۔ولید کمال سے مل۔کر باہر چلا گیا تھا۔ماہی جب روم میں آئی تو وہ کہیں بھی نہیں تھا۔
کسے ڈھونڈ رہی ہو ماہی؟ عرفان کی نظروں نے اسے پکڑ لیا
ولید بھائی کو تو نہیں ڈھونڈ رہی۔وہ شرارت سے اسے دیکھ رہا تھا وہ اس کے اسطرح کہنے پر بوکھلا گئی۔
مجھے منہ پھٹ کہتی تھی دیکھو کس طرح سرعام تمہارا بھونڈا پھوڑ رہا ہے۔کمال نے ماہی کو دیکھتے ہوۓ کہا۔
یہاں سب دوست بیٹھے ہیں کمال بھائی۔فائزہ نے بھی اپنے شوہر کا ساتھ دیا۔
تانیہ ان سب کی باتوں پر قہقہے لگا رہی تھی۔ماہی بے چاری شرم سے پانی پانی ہو گئی تھی۔
وہ اٹھ کر ماہی کے پاس آیا اور سرگوشی میں کہا۔
کوئی ایسی ویسی بات ہے تو مجھے بتاؤ میرے سالے صاحب ہیں آج ہی تمہارے پلو سے باندھ دوں گا۔
جی نہیں میں تو تم سے ۔۔۔۔۔ اس کے منہ سے جلدی میں کچھ اور ہی نکلنے لگا تھا اس نے ہاتھ منہ پر رکھ لیا۔
میں تو تم سے خود ایسا کہنے والی تھی۔ یہی بات ہے نا ماہی۔کمال نے اسکی بات کے آگے ٹکڑا لگایا۔اسے سب چھیڑ رہے تھے وہ زچ ہو کر باہر بھاگی مگر بد قسمتی سے اندر آتے ولید سے ٹکرا گئی۔
اسکا سر ولید کی ٹھوڑی سے لگا تھا وہ ٹھوڑی پکڑ کر بیٹھا تھا اور وہ سر پکڑ کر۔
(پہاڑی تودا)دل ہی دل میں اس نے ولید کو نک نام بھی دے دیا۔اور باقی سب ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہا تھے۔
عائزہ جو ٹرالی میں ان کے لیے چاۓ اور باقی لوازمات سجا کر لا رہی تھی ان سب کو ہنستے اور ولید اور ماہی کو ٹھوڑی اور سر مسلتے دیکھ کر حیران ہوئی۔
کیا ہوا ہے آپ سب کو؟ وہ ٹیبل پر چاۓ رکھتے ہوۓ بولی۔
سنو گی تو کھڑے کھڑے بے ہوش ہو جاؤ گی۔کمال آج شرارت کے موڈ میں تھا۔
وہ آپکی دوست نہیں ہے مائنڈ کر جاۓ گی۔تانیہ نے اسکے کان میں سرگوشی کی۔
اوہ۔ کمال نے اسے ولید اور ماہی کے ٹکرانے کی کہانی بتائی۔
وہ لپک کر انکے پاس پہنچی۔
کہاں لگی بھائی۔
اب ٹھیک ہوں ان سے پوچھ لو۔اس نے ماہی کیطرف اشارہ کیا۔وہ یہی سوچ رہا تھا سب ٹکر کی وجہ اسے ہنس رہے ہیں اصل وجہ اسے معلوم نہیں تھی۔
سب نے معنی خیزی سے ایک دوسرے کیطرف دیکھا۔
ماہی اٹھ کر باہر چلی گئی۔
پولیس نے انکو عرفان کے کہنے پر رہا کر دیا تھا وہ گھر تو آۓ تھے مگر کسی کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔
گھر میں خاموشی کا راج تھا مسز جاوید انہیں دیکھ کر ہی اپنے کمرے میں بند ہو گئی تھی۔
کدھر ہیں سب لوگ؟ جاوید صاحب نے صغراں سے پوچھا
بی بی جی چھوٹے صاحب کیطرف گئی ہیں وہ آۓ تھے آج اپنا ضروری سامان لے گئے تھے یہاں سے۔
صغراں نے تفصیل بتائی۔
وہ کچھ سوچتے ہوۓ اپنے کمرے میں آگئے۔
سب کچھ کھو دیا تم نے۔ اس وقت کمرے میں وہ اکیلے کھڑے ضمیر کے ساتھ لڑ رہے تھے۔
منع کیا تھا تجھے مگر تو کہتا تھا میری عزت کم ہو جاۓ گی۔آج دیکھ اپنی اولاد کو انا کے ہاتھوں کھو دیا کیا ملا۔لوگ بھی تعجب سے دیکھ رہے ہیں کہ اس مظلوم پر ظلم کیا۔
وہ بیڈ پر بیٹھ کر رونے لگے۔
عرفان بیٹا معاف کر دو اپنے پاپا کو۔غلطی ہو گئی مجھ سے آنکھوں پہ بندھی کھل گئی ہے آجاؤ بیٹا تمہارے پاپا کتنے تنہا ہیں۔ وہ عرفان کو مخاطب کر کے رو رہے تھے۔
کتنی قابلِ ترس حالت تھی ان کی۔مگر کس کو ترس آتا ان پر۔جو کسی پر رحم کرتا ہے اسی پر رحم کیا جاتا ہے۔