٭٭ فلسطینی تحریک انتفاضہ کے تین سال مکمل ہوگئے۔ افسوسناک ہلاکتوں کے اعدادو شمار۔
(اخباری خبر)
٭٭دہشت گرد ایریل شیرون جب سے بر سر اقتدار آیا ہے اس نے اسرائیلی سرکار کی جانب سے حکومتی دہشت گردی کی انتہا کر دی ہے۔نہتے مظلوم فلسطینیوں پر وحشیانہ حملے کرنے کے باوجود گزشتہ تین سال کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کے اعدادو شمارے سامنے آئے ہیں تو معلوم ہوا ہے فلسطینیوں نے نہتے ہوتے ہوئے بھی جدید تر اسلحہ سے حملہ آور اسرئیلیوں کو سخت مقابلہ دیا ہے۔تین سال کے عرصہ میں 2477 فلسطینی شہید ہوئے جبکہ ان کی جدوجہد کے نتیجہ میں 1866 اسرائیلی ہلاک ہوئے۔شہید ہونے والے فلسطینی پہلے ہی جان ہتھیلی پر لئے پھر رہے تھے۔ جبکہ اسرائیلیوں کی دنیا سے محبت اور دنیا داری کو ساری دنیا بخوبی جانتی ہے۔فلسطینی شہیدوں، مجاہدوں اور مہاجروں کو سلام اور ان کی کامیابی کے لئے تہہ دل سے امنڈتی ہوئی دعائیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ پاک فوج کرائے کے لئے نہیں ہے۔کسی کے کہنے پر عراق نہیں بھیجی جائے۔
(چوہدری شجاعت حسین)
٭٭پاکستان کی فوجی سیاست کی زائیدہ مسلم لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شجاعت کا یہ سبق دہرایا ہے۔لیکن ساتھ ہی اپنی مخصوص منمناہٹ میں یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ”فوج ایک قومی ادارہ ہے،اسے بھیجنے سے اگر عراق میں امن قائم ہو جائے یا وہاں کے لوگوں کو فائدہ پہنچے تو ٹھیک ہے۔مسلمانوں کی بقا کے لئے فوج کو بھیجا جا سکتا ہے۔“ یوں انہوں نے اپنی ساری شجاعت کو ایک ہی سانس میں بیلینس کر لیا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ عراق میں امریکہ ویت نام جیسی صورتحال سے دوچار ہونے لگا ہے۔اسی لئے اب پاکستانی فوجیوں کو مروانے کے لئے عراق بھجوانا چاہتا ہے۔کسی حیلے اور کسی بہانے سے عراق میں فوج بھیجنا پاکستان کے قومی مفاد کے خلاف سنگین غلطی ہو گی۔اور اس کے بعد اس میں کوئی شک نہیں رہے گا کہ ہمارے جرنیلوں نے اپنی فوج کو کرائے کی فوج سے بھی کمتر سطح پر گرادیا ہے۔کیونکہ پھر یہ محض کرائے کے فوجی نہیں بلکہ مفت کی بیگار کرنے والے فوجی ہوں گے۔ قومی غیرت کا ذرا سا بھی احساس ہو تو انڈیا کے طرزِ عمل سے ہی سبق سیکھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ امریکہ میں وزیر اعظم میر ظفراﷲ جمالی کے وفد میں شامل وزیروں شوکت عزیز، نوریز شکور اور صحافیوں کی تلاشی لی گئی۔ (اخباری خبر)
٭٭ تلاشی کا یہ ”عزت آمیز“سلوک سرکاری وفد کے نیویارک سے واشنگٹن جاتے ہوئے کیا گیا۔لگتا ہے یہ ساری تلاشی پی پی پی کے نام نہاد پیٹریاٹ نوریز شکور کی وجہ سے لی گئی ہے۔ برطانیہ میں فیصل صالح حیات جیسے پیٹریاٹ گئے تو ان کی ائر پورٹ پر جامہ تلاشی لی گئی۔ اب نوریز شکور ہی کی وجہ سے شوکت عزیز جیسے بھلے آدمی اور خود امریکہ کے پسندیدہ آدمی کو بھی تلاشی کی خواری سے گزرنا پڑا۔وزیر اعظم جمالی شکر کریں کہ انہیں اس اذیت سے نہیں گزرنا پڑا۔ عراق میں پاکستانی فوجی منگوانے کے چکر میں ابھی امریکیوں نے ان کا لحاظ کر لیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ امریکہ کی نئی قرارداد کو بھی اقوام متحدہ کی تائید نہیں مل رہی۔روس،فرانس،جرمنی اپنے اصولی موقف پر قائم۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے بھی اسے اقوام متحدہ کے لئے ناقابلِ عمل قرار دے دیا۔
٭٭جب سے عراق میں امریکی فوجیوں نے عراقیوں کے ہاتھوں مرنا شروع کیا ہے تب سے امریکہ مسلسل کوشش کر رہا ہے کہ اقوام متحدہ سے کوئی قرارداد منظور کراکے دوسرے ملکوں کی فوج کو عراق میں مروایا جائے اور اپنی فوج وہاں کم کی جائے۔لیکن چونکہ امریکہ کا ”آئل مافیا“تیل کے ذخائر پر اپنا قبضہ رکھنا چاہتا ہے اسی لئے امریکہ کی قرارداد بار بار واپس ہو رہی ہے۔غالباً اب چوتھی بار امریکہ ترمیم کر کے قرادادلایا ہے لیکن اسے بھی منظور نہیں کیا جا رہا۔یہ تو ابھی سفارتی پسپائی ہے ،صدر بُش اور ان کے حواریوں کی وجہ سے ابھی امریکہ کو اس کے عوام کو اور بھی بہت سی رسوائیاں اور خواریاں ملیں گی۔۔۔۔۔۔ اور اب تازہ ترین خبر یہ ہے کہ ایک اورترمیم شدہ امریکی قرارداد منظور ہو گئی ہے لیکن یہ ایسی قرارداد ہے جس کی منظوری کے موقعہ پر ہی روس،فرانس اور جرمنی ہی نہیں پاکستان نے بھی کہہ دیا ہے کہ اس کی بنیاد پر عراق میں فوج نہیں بھیجیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ پولینڈ کے فوجیوں کی طرف سے عراق سے فرانسیسی ساختہ میزائل ملنے کا الزام۔
(اخباری خبر)
٭٭پولینڈ یورپ کا ایک بھوکا ننگا ملک ہے۔اسی لئے امریکی اشارے پر اس کی فوج بھاڑے کے ٹٹو کی طرح عراق جا پہنچی تھی۔عین اس وقت جب فرانسیسی صدر یارک شیراک نے روم میں یورپی یونین کانفرنس کے موقعہ پر امریکہ کی نئی قراداد کو ایک بار پھر مایوس کن قرار دیا۔ امریکہ کے پولینڈ سے منگائے فوجیوں نے فرانسیسی میزائل ملنے کا شوشہ چھوڑ دیا ہے۔یہ لازماً امریکی سازش کے تحت ہوا ہے۔لیکن امریکہ کو اچھی طرح معلوم ہونا چاہئے کہ فرانس یا جرمنی جیسے ملک ایران ،لیبیااور شام نہیں ہیں ۔یہاں اس قسم کا ڈرامہ امریکہ کو افغانستان اور عراق سے بہت مہنگا پڑے گا۔بہتر ہوگا امریکی آئل مافیا اور ان کے فرمانبردار موجودہ حکمران عقل سے کام لیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ دسہرہ کے موقعہ پر دہلی میں جنرل پرویز مشرف کو راون قرار دے کر ان کا پتلا جلایا گیا۔
(اخباری خبر)
٭٭ دونوں ممالک کے انتہا پسند اپنی نفرت کا اظہار دوسروں کے پتلے جلا کر ہی کرتے ہیں ۔تاہم جنرل پرویز مشرف کو راون قرار دینا دہلی کے انتہا پسند وں کی بے وقوفی ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے کسی سیتا کو اغوا نہیں کیا۔ الٹا کشمیر سے لیکرگجرات تک انتہا پسند ہندوؤں نے کتنی ہی مسلمان خواتین کے ساتھ راون سے بھی زیادہ شرمناک سلوک کیا ہے۔ ہندوستان کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ وہ ہر سال دسہرہ کے موقعہ پر راون کا پتلا جلاتے ہیں اوراصل راون ہمیشہ بچ نکلتا ہے۔اسی لئے تو بھارت دیش کلجگ میں پہنچا ہوا ہے کہ سیتا ہرن کرنیوالا راون ہی رام مندر کا ناٹک کر رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ گجرات میں ہزاروں دلتوں نے ہندو دھرم چھوڑ کر بدھ مت اختیار کر لیا۔(اخباری خبر)
٭٭گجرات ہندوستان کا پہلا صوبہ ہے جہاں تبدیلیٔمذہب پر پابندی کا قانون لاگو کیا گیا تھا۔اس کے باوجود اسی صوبہ میں ایک بڑے اجتماع میں جمع ہو کر ہزاروں دلت ہندوؤں نے اپنا فرسودہ دھرم ترک کرکے بدھ مت کو قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔ہندو دھرم کا نظام ایسا ہے کہ یہ لوگ چاہیں بھی تو چھوت چھات کی لعنت سے نجات نہیں پا سکتے ۔جبکہ برہمن طبقے ویسے بھی نہیں چاہتے کہ یہ نظام تبدیل ہو۔اسی لئے اس نظام سے تنگ آئے ہوئے نچلے طبقوں نے اس لعنت سے نجات کی دوسری راہ نکال لی ہے۔ مختلف انتہا پسند ہندو جماعتوں نے پہلے سے دھمکی دے رکھی تھی کہ اس تقریب کو درہم برہم کردیا جائے گا۔لیکن تقریب کامیابی کے ساتھ مکمل ہوئی۔ آل انڈیا بدھسٹ ایسوسی ایشن سنگ پریے نے تبدیلیٔمذہب کے قانون کے حوالے سے وضاحت کی ہے کہ اس کا اطلاق بدھ مت پر نہیں ہوتا کیونکہ وہ ہندو دھرم کا حصہ ہے۔یہ بہت اچھی ترکیب ہے۔اگر یہ لوگ عزت کے ساتھ اپنے دھرم میں بھی نہیں رہنے دیں ،اور دوسرا مذہب بھی اختیار کرنے پر بدمعاشی دکھائیں تو پھر انکا یہی علاج تھا کہ خود کو انکا حصہ اور انکے اندر قرار دے کر ان کے مظلوم طبقات کی مدد کی جائے۔یہ تاریخی عمل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ طالبان منشیات کے پیسوں سے ہتھیار خرید رہے ہیں (واشنگٹن ٹائمز کی رپورٹ)
٭٭ امریکی ماہرین کے انٹرویوز پر مبنی ایک رپورٹ میں واشنگٹن ٹائمز نے بتایا ہے کہ طالبان منشیات کے پیسوں سے ہتھیار خرید کر امریکہ کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں ۔یہ رپورٹ امریکی مذموم عزائم کی کامیابی کے لئے ایک فرضی کہانی بھی ہو سکتی ہے کیونکہ طالبان نے اپنے دور میں افیون کی کاشت پر اتنی موثر پابندی عائد کی تھی کہ عالمی اداروں نے بھی اس کا اعتراف کر لیا تھا۔طالبان کے جاتے ہیں ڈرگ اسمگلرز کی موج ہو گئی۔افغانستان میں پھر سے افیون کی کاشت ہونے لگی اور یہ سب کچھ امریکہ کے چہیتے شمالی اتحاد اور وار لارڈز کی جانب سے ہو رہا ہے۔امریکہ افغانستان پر غیرقانونی اور جارحانہ حملے کے بعد سے اب تک وہاںامن و امان بحال کرنے کی اپنی ہر ذمہ داری میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔اس لئے اب اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے اس قسم کے حیلے بہانے بنائے جارہے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ اپنے دفاع میں دشمن پرکسی بھی طرح حملہ کرنے کا حق حاصل ہے۔
(اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون)
٭٭شام پر بمباری کرنے کے بعد ایریل شیرون نے اس کا جواز دیتے ہوئے ”جنگل کے قانون“کا اپنے الفاظ میں اعادہ کیا ہے۔یہ وہی قانون ہے جس کی بنیاد پر امریکہ دنیا بھر میں دنددناتاپھر رہا ہے۔یعنی جس کے پاس طاقت ہے وہ جب چاہے کسی کمزور سے اپنے لئے خطرہ محسوس کرے اور کسی عالمی یا اخلاقی دائرے کا لحاظ کئے بغیر اس پر کسی بھی طرح حملہ کردے۔ ثابت ہوا کہ انسان کی ترقی کا اایک قدم جتنا آگے جا رہا ہے دوسرا قدم اسی طرح ازمنۂقدیم کی طرف جا رہا ہے۔اب تو ایسا لگتا ہے جیسے اخلاق،تہذیب،قانون وغیرہ سب منافقانہ لبادے ہیں اصل کھیل صرف طاقت کا ہے اور
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
عالمِ اسلام اس وقت جرمِ ضعیفی کی سزا بھگت رہا ہے۔تاہم ایک خدائی طریق کار بھی ساتھ ساتھ چلتا آرہا ہے۔جب ظلم کی انتہا ہو جاتی ہے تو ظلم کے پورے نظام کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے۔میں اپنی پہلے سے کہی ہوئی بات پھر دہرا رہا ہوں کہ اگر واقعی شام کو عالمی جنگ کا مرکز بنا لیا گیا تو یہ پوری دنیا کی تباہی ثابت ہوگا۔عالمی ایٹمی جنگ ہو جائے گی۔
٭٭ سات اکتوبر ۲۰۰۳ءکو افغانستان پر امریکی حملے کے دو سال مکمل ہو گئے۔امریکی میڈیا پر معنی خیز خاموشی طاری رہی ۔ (اخباری رپورٹس)
٭٭ سات اکتوبر ۲۰۰۱ءکو دنیا کی اس وقت کی سب سے بڑی ظاہری قوت،امریکہ نے دنیا کے سب سے کمزور اور بے سروسامان ملک پر حملہ کردیا تھا۔اپنے قاہرانہ سازو سامان کے ساتھ افغانستان کے پہاڑوں کا سرمہ بنا دینے والے امریکہ نے بڑے طمطراق سے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ لیکن یہ قبضہ سانپ کے منہ میں چھپکلی کی طرح بُش انتظامیہ کے حلق میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ اب اسے نگلنا بھی مشکل اور اگلنا بھی مشکل۔اسی لئے امریکہ اب طالبان سے ہی خفیہ مذاکرات کا چکر چلا کر اس مصیبت سے نکلنے کے رستے تلاش کر رہا ہے۔بظاہر امریکہ نے افغانستان پر ”عظیم الشان فتح“ حاصل کی تھی۔اس فتح کے دو سال پورے ہونے پر اسکا جشن منایا جاناچاہئے تھا۔لیکن اس بار سات اکتوبر کو امریکی پریس اور امریکی انتظامیہ سب نے معنی خیز خاموشی اختیار کئے رکھی۔حیرت ہے اپنی اتنی بڑی فتح کا جشن منانے سے امریکہ نے گریز کر لیا۔ شاید یہ فتح امریکہ کیلئے خاصی تکلیف دہ ہو گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ دہلی میں ہندوستانی صدر مملکت کے چار محافظوں کی جانب سے کالج کی ایک طالبہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی۔۔۔”لڑکی سے صدر کے محافظوں کی زیادتی فوج پر سیاہ داغ ہے“انڈین آرمی کے سربراہ کا بیان۔
٭٭یہ بہت ہی افسوسناک سانحہ ہوا ہے۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انڈیا سمیت جنوبی ایشیا میں محافظ ہی اصل لٹیرے بنے ہوئے ہیں ۔بھارتی فوج کے سربراہ نے بجا طور پر اس سانحہ کو ہندوستانی فوج کے لئے داغ قرار دیا ہے۔بھارتی وزیر دفاع چمن لال گپتا نے کہا ہے کہ اس واقعہ سے ہمارا سر شرم سے جھک گیا ہے۔لیکن اس واقعہ کو فوج کیلئے بدنما داغ قرار دینے ، اور شرم سے سرکو جھکانے والوں سے یہ پوچھنے کو دل چاہتا ہے کہ کیا گزشتہ دس بارہ سال سے کشمیری خواتین کے ساتھ بھارتی فوج کی اس سے بڑھ کر شرمناک وارداتوں پر بھی انہیں بد نما داغوں کا کوئی احساس ہوتا ہے اور شرم سے ان کا سر جھکتا ہے یا نہیں ؟ان داغوں کی تعداد تو اتنی زیادہ ہے کہ وہاں ہندوستانی فوج کا چہرہ دکھائی دینے کے بجائے صرف داغ ہی داغ دکھائی دیتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ نئی دہلی میں فلم فیسٹیول سے واپس آتے ہوئے سوئٹزر لینڈ کی سفارتکار کے ساتھ کار میں جنسی زیادتی کا سانحہ۔زیادتی کے الزام میں پانچ پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا۔
(اخباری خبر)
٭٭ لگتا ہے بھارت کی فوج کے جوانوں کی دلیرانہ وارداتوں سے متاثر ہو کر پولیس نے بھی اپنی زیادتیوں کا سلسلہ تھانوں کی حدود سے بڑھا کر نہ صرف سرِ عام کر دیا ہے بلکہ اس کا دائرۂکار غیرملکیوں تک بڑھا دیا ہے ۔ لیکن شاید یہ غیر ملکی واردات پولیس کے اہلکاروں کو مہنگی پڑے۔فوج کی بات اور ہے اس کو تو سات خون بھی معاف ہوتے ہیں ۔پولیس کو ویسے تھانے کی حد کے اندر تو ہر قسم کے مکمل اختیار حاصل ہوتے ہیں اور ان کا بھیانک استعمال وہ کرتے ہی رہتے ہیں ۔پھر انہیں غیر ملکی سفارتکار کے پیچھے لگنے کی کیا ضرورت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ امریکی امداد کے رحم و کرم پر رہنے والے دنیا کے ۶۸ممالک نے امریکہ سے تحریری معاہدہ کر لیا ہے جس کی رُو سے یہ ممالک امریکہ کے فوجیوں،صحافیوں،شہریوں، تاجروں وغیرہ کے خلاف نہ تو جنگی جرائم کا کوئی مقدمہ چلا سکیں گے اور نہ ہی انہیں جنگی جرائم کی کسی عدالت میں پیش کر سکیں گے۔ (اخباری خبر)
٭٭ یہ بہت ہی افسوسناک معاہدہ ہوا ہے۔اس سے امریکیوں کو اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کے لئے باقاعدہ تحفظ مل جائے گا۔اگر امریکی کسی گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں تو ان کے خلاف مقدمہ کیوں نہ چلنا چاہئے؟اگر چھوٹ دینی ہے تو پھر ساری دنیا کو چھوٹ دے دی جائے اور جنگل کے زمانے میں چلے جائیے۔یہ معاہدہ آنے والے وقت میں چھوٹے اور کمزور ممالک پر امریکہ کے بے جا دباؤکے ساتھ خود امریکہ کے مجرمانہ کردار کی توثیق کرے گا۔کیونکہ جس نے جرائم نہیں کئے اسے کسی آؤٹ آف دی وے استثنا کی کیا ضرورت تھی؟اور اگر جرائم کئے تھے تو اسے دھونس کے بل پر کیسے تحفظ دے دئیے۔بظاہر یہ امریکی قوت کا فاتحانہ اظہار ہے لیکن آنے والے وقت میں یہی معاہدہ امریکی کردار کی اصلیت کو ظاہر کرے گا۔اس سے جینیٹک انجینئرنگ اپنے بعض نظریات کی توثیق کرے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ اگر منتخب وزیر اعظم کو پھانسی لگ سکتی ہے تو جنرلوں پر بغاوت کے مقدمے بھی بنیں گے۔
(جاوید ہاشمی)
٭٭ مسلم لیگ نون کے صدر مخدوم جاوید ہاشمی موجودہ حالات میں بہتر سیاست کر رہے ہیں ۔تاہم بعض اوقات وہ جنرلز کے بارے میں بیان دیتے ہوئے اس انتہا تک چلے جاتے ہیں جہاں میاں نواز شریف کبھی نہیں جاتے۔یوں بھی میاں صاحب کو آج فوج نرمی دکھا دے تو وہ آج پھر فوج کے ساتھ نیاز مندی اختیار کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔تاہم جاوید ہاشمی کے مذکورہ بیان نے بہت سے زخم ہرے کر دئیے ہیں ۔پاکستان میں جس منتخب وزیر اعظم (ذوالفقار علی بھٹو)کو جنرل ضیاع الحق نے پھانسی لگوایا تھا،اس کے ساتھ تب موجودہ نون لیگ والے سارے بڑے شامل تھے۔بلکہ ان میں سے بعض تو پھانسی کو حق بجانب قرار دینے کے لئے منہ میں کف بھر بھر کر بھٹو کے خلاف زہر اگلتے تھے۔ اگر اس قسم کے سیاستدان اپنے ذاتی مفادات میں اندھے ہو کر انصاف کا اتنا بڑا خون نہ کرتے تو آج مکافاتِ عمل کے چکر میں نہ آئے ہوتے۔ جہاں تک جنرل پرویز مشرف کا تعلق ہے،ان کے ایل ایف او کے تئیں رویے سے شدید اختلاف کے باوجود میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان کی اقتدار میں آمد کا سارا قصور میاں نواز شریف کے سر جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ملائیشیا میں دسویں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد۔روسی صدر کی شرکت اور تقریر۔
(اخباری رپورٹس)
٭٭ یہ کانفرنس بلی کی گردن میں گھنٹی باندھنے کی اسکیم کی طرح غور کرتی رہی ہے۔ بے شک ہمارے جنرل پرویز مشرف اور مہاتیر محمد کانفرنس کے روحِ رواں بنے رہے۔دھواں دھار اور دل کو لبھانے والی تقریریں بھی ہوئیں ۔سنجیدہ اور اہم تجاویز بھی سامنے آئیں ۔لیکن روسی صدر کی موجودگی کے باوجود بلی کی گردن میں گھنٹی باندھنے کا کوئی واضح فیصلہ نہیں ہو سکا۔اور تو اور عراق سے امریکی فوجوں کے انخلا کے لئے جو حتمی ٹائم ٹیبل کے مطالبہ پر مبنی قرارداد پیش کی گئی تھی ، اسے بھی خاموشی کے ساتھ واپس لے لیا گیا۔ اس میں شک نہیں کہ عالمِ اسلام نے گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ تک امریکہ کی محبت میں سوویت یونین دشمنی کا جو رویہ اپنایا تھا اب اسی کی قیمت چکانا پڑرہی ہے اور بڑی ذلت کے ساتھ چکانا پڑ رہی ہے۔تاہم یہ کانفرنس کوئی موثر فیصلہ نہ کرپانے کے باوجود اپنے اثرات مرتب کرے گی۔آنے والے اچھے دن ابھی دور سہی لیکن اچھے دن ضرور آئیں گے۔امریکہ کی فرمانبرداری کرنے والوں نے اس کے زہریلے اثرات کا احساس تو کیا اور اس زہر کا تریاق ڈھونڈنے کا ارادہ تو کر لیا ۔یہ تبدیلی بھی خوش آئند ہے۔
٭٭ ججوں اور جرنیلوں کے گوشوارے بھی جمع کرائے جائیں ۔متحدہ اپوزیشن کا مطالبہ۔
(اخباری خبر)
٭٭ اگرچہ یہ مطالبہ اس ردِ عمل کے طور پر سامنے آیا ہے کہ الیکشن کمیشن اراکین اسمبلی سے اپنے اثاثوں کے گوشوارے جمع کرانے پر اصرار کر رہا ہے۔تاہم یہ حقیقت ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے بر سر اقتدار آتے ہی اپنے اثاثے ظاہر کرنے کا اعلان کیا تھا۔اس لئے بلا امتیاز صرف سیاستدانوں کے ہی نہیں ، عدلیہ کے ججوں،فوج کے اعلیٰ افسران،بیوروکریسی کے افسران وغیرہ سب کے اثاثوں کے گوشوارے با ضابطہ طور پر جمع کرائے جائیں ۔قوم کو ان سے باخبر رکھا جائے تاکہ پتہ چل سکے کہ ملک کی دولت لوٹنے والے در اصل کون ہیں اور پروپیگنڈہ کن کے خلاف ہوتا ہے ۔لیکن بات وہی ہے چور بھلا چوروں کو کیسے پکڑ سکتے ہیں ۔یہاں تو آویکا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔اگر ہماری عدلیہ اور فوج سمیت کوئی ایک ادارہ بھی لوٹ مار کی کرپشن سے پاک ہوتا تو ایسے مطالبہ پر خود بڑھ کر اپنے افسران کے اثاثوں کو کھلے عام پیش کر دیتا۔اﷲ اس ملک کے عوام کے حال پر رحم کرے۔
٭٭