احمد کہاں جا رھے ھو
احمد اپنی گاڑی کی چابی گماتے ھوئے باہر جانے لگا تھا کہ باہر سے آ تے فروز(فضا کا شوہر) نے اچانک کہا
ارے کچھ نہیں بھائی
وہ بس کچھ کام ھے ابھی آ تا ھوں
اور ھاں بھائی
آپ سے ایک بات کرنی تھی
کیونکہ اب میری سٹڈیز کمپلیٹ ھو چکی ھے تو میں سوچ رھا ھوں کہ آ فس میں آنا شروع کر دو
آ خر کب تک آپ اکیلے سب کچھ سنبھالتے رہیں گے پہلے تو چلیں میں پڑھ رھا تھآپر اب تو فری ھوں
اس لئے انشاللہ کل سے میں آ فس کو بھی ٹائم دوں گا
احمد نے مسکرا کر کہآجبکہ فروز کچھ دیر تک تو کچھ نہ بولا اور پھر لمبا سا سانس لینے کے بعد بولا
ارے احمد ابھی کچھ سال انجوائے کرو ابھی تمہاری عمر ہی کیا ھے پھر تو ساری عمر کام ہی کرنا ھے اس لئے ابھی تم رہنے دو میں سنبھال لوں گا
فروز پھیکی سے مسکراہٹ اپنے چہرے پر سجا کر بولا
یہ کیا بات ھوئی بھائی
اب تک انجوائے ہی تو کیا ھے اب مجھے میری ذمہ داریاں پوری کرنی چاہیے اور ویسے بھی میں کوئی بچہ نہیں ھوں 22 سال کوئی چھوٹی سی عمر نہیں ھوتی اور اب تو کچھ ماہ بعد 23 کا ھو جاؤں گا
اس لئے میں کل ضرور آ فس آؤں گا اور میرے خیال میں آپ کو اس سے کوئی پروبلم نہیں ھونی چاہیے
سو ابھی مجھے لیٹ ھو رہا ھے تو پھر بات کریں گے
اللّٰہ حافظ
احمد کہ کر چلا گیآجبکہ فروز غصے سے اپنے کمرے کی طرف چل پڑا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حور عشا کی نماز پڑھ کر جیسے ہی بیڈ پر سونے کے لئے لیٹی تو اچانک نظر کھلی ہوئی کھڑکی پر پڑی
اف یہ کس نے کھول دی
اب اسے بھی میں ہی بند کرو
حور منہ بنا کر اٹھی اور پھر جیسے ہی کھڑکی بند کرنے لگی تو اس کی نظر سامنے کھڑے ہوئے احمد پر پڑی
حور کی تو آ نکھیں حیرت سے پھٹنے والی ھو گئیں
احمد مسلسل حور کو دیکھ رھا تھا اور پھر حور کی حیرت کو دیکھ کر مسکرانے لگا
یہ میرآپیچھا کرتے ھوئے یہاں تک آ گیا آج تو اس کی خیر نہیں ابھی بتاتی ھوں اسے
احمد کی مسکراہٹ نے حور کو مزید غصہ دلا دیا تھا اس لیے وہ بغیر کچھ سوچے سمجھے گھر سے باہر جانے لگی
کہاں جا رہی ھو حور
اور وہ بھی اس وقت
حور اچانک مزمل صاحب کی آ واز پر رک گئی
کہیں نہیں بابا وہ میں تو بس چیک کرنے آئی تھی کہ دروازہ اچھے سے لوک تو ھے
تو اب مجھے نیند آی ھے تو گڈ نائٹ
حور نے جلدی سے کہا اور اپنے کمرے میں چلی گئی
اف حور پاگل ھو تم
بابا کیا سوچ رہے ھوں گے
اور یہ سب اس گنڈے کی وجہ سے ھوا ھے
دیکھتی ھوں ابھی تک ھے یہاں پر یا نہیں
حور نے کہ کر جیسے ہی کھڑکی دوبارہ کھول کر دیکھا تو وہاں پر کوئی بھی نہیں تھا
بچ گیا آج تو میرے ہاتھوں سے مگر اگلی دفعہ پکا اس کا قتل کرنا ھے میں نے
سائیکو سا
پیچھے ہی پڑ گیا ہے
لیکن اس سائیکو کا علاج بھی میں ہی کروں گی
حور یہ ہی سب سوچتے سوچتے سو گئی
اس بات سے انجان کہ وہ بھی رانا احمد ھے جو اپنے دوستوں کے لئے اتنا سب کچھ کر سکتا ھے تو اپنی محبت کے لئے کیا کچھ نہیں کرے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح پھر جب حور یونی کے اندر جانے لگی تو اسے پھر احمد وہاں کھڑا نظر آیا
مسئلہ کیا ھے تمہارا
کیوں پیچھا کر رہے ہو میرا
حور غصے سے احمد کے پاس گئ اور بولی
بری بات
بات کرنے کی تمیز نہیں ہے تمہیں بڑا ھوں تم سے
آپ کہ کر بات کرتے ھیں
بہت بد تمیز ھو تم لیکن فکر نہیں کرو تمہیں میں ہی سیدھا کروں گا
احمد نے منصوعی سا ڈانٹتے ہوئے کہا
آپ اور وہ بھی تم جیسے سائیکو گنڈے کو
تمہیں پتہ ہے میں انسان کو دیکھ کر اسے اتنی ہی عزت اور اہمیت دیتی ھوں جس کے وہ قابل ھوتا ھے
اور تمہاری اہمیت میرے نزدیک دو کوڑی کی بھی نہیں ھے
اور یہ میری لاسٹ وارننگ ھے اگر دوبارہ تم میرے آ س پاس بھی نظر آ ے
تو انجام بہت برا ھو گا تمہارا
حور نے انگلی اٹھا کر وارننگ دی اور جانے لگی کہ اچانک احمد نے حور کا ہاتھ پکڑ لیا
نام کیا ھے تمھارا
احمد نے جیب سے سگریٹ نکال کر پینے لگا
ھاتھ چھوڑو میرا
حور غصے سے بولی
نام بتاؤ
احمد نے سرخ آ نکھوں کے ساتھ حور کو دیکھآجو کہ اس کے غصے کو کنٹرول کرنے کی علامت تھی
ایک پل کے لئے تو حور بھی ڈر گئی مگر بھی خود کو ریلیکس کرتے ہوئے بولی
ھاتھ چھوڑو میرا تکلیف ھو رہی ھے مجھے
نام بتاؤ چھوڑ دوں گا
ورنہ مجھے کوئی پرابلم نہیں ہے اس طرح کھڑے رہنے میں
احمد نے ایک گہرا کش لے کر دھواں حور کے منہ پر چھوڑا
حور کے تو سہی معنوں میں اعصاب سلب ھو گئے تھے
پہلے تو حور اپنا ھاتھ چھڑوانے کی کوشش کرتی رہی پھر تھک ہار کر بولی
حور
بتا دیا نام
اب جان چھوڑو میری
حور نے دانت پیستے ہوئے کہا
حور
اچھا نام ھے بالکل تمہارے جیسا
اور ھاں حور
تمیز سے بات کیا کرو میرے ساتھ مجھے بدتمیز لوگوں سے سخت نفرت ھے
اور رہ گئی تمہیں چھوڑنے کی بات تو وہ تو میں کبھی نہیں کروں گا لیکن فلحال کے لیے تم جاؤ تمہارا لیکچر مس ھو جائے گا
یہ کہ کر احمد نے حور کا ھاتھ چھوڑ دیآجبکہ حور اپنا ھاتھ سہلاتے ھوئے بغیر کچھ کہے جلدی سے یونی کے اندر چلی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ھاے سائیکو نے ھاتھ توڑ دیا میرا
وحشی نا ھو تو
ایسے کون پکڑتا ھے ھاتھ کو
ھاے میرا نازک ھاتھ
حور نے گھر میں آ کر تو کسی کو نہیں بتایا تھا اس بارے میں مگر تب سے اپنے ھاتھ کو ہی دیکھ دیکھ کر احمد کو کوسے جا رہی تھی
میں بھی چھوڑوں گی نہیں تمہیں
اس سے زیادہ تکلیف دوں گی
سمجھتا کیا ھے خود کو
آپ کہ کر بلاؤ
ہنہ
لیکن اب کل ٹیسٹ ھے میں لکھوں گی کیسے اتنا درد ھو رھا ھے
اللّٰہ ہی پوچھے تمہیں سائیکو گنڈے
تم کیا سمجھتے ھو کہ میں ڈر گئی ھوں تم سے
اب دیکھنا میں تمہارے ساتھ کرتی کیا ھوں
لیکن فلحال تو کوئی بہانہ سوچنآپڑے گا کہ کل چھٹی کر سکوں
ھاں یہ ٹھیک ہے
حور نے آگے کآپلان ترتیب دیا اور شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ سو گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح احمد جلدی سے تیار ھوا اور حور کو ایک نظر دیکھنے کے لیے یونی پہنچ گیا
مگر پھر کافی دیر انتظار کرنے کے بعد بھی جب حور نہ آئی تو خراب موڈ کے ساتھ آ فس چلا گیا کیونکہ آج اس نے آ فس جانے کا سوچا ھوا تھا تاکہ جلد سے جلد بزنس سنبھالے اور پھر شادی بھی تو کرنی ھے
آ فس میں بھی احمد کا دل نہ لگا تو گھر آ کر سگریٹ لگائی اور حور کے بارے میں سوچنے لگا
آج حور یونی کیوں نہیں آئی
کہیں طبیعت تو خراب نہیں ہے
یا ھو سکتا ھے کہ ھاتھ میں درد ھو مگر پھر یونی کیوں نہیں آئی
ایک تو فون نمبر ہی لے لیتا حور کا
خیر اس کے گھر جا کر دیکھتا ھوں
احمد سوچتے ھوئے اٹھا اور حور کے گھر کی طرف جانے لگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح ابھی حور سوچ ہی رہی تھی کہ بخار کا بہانہ بنائے گی کہ صبا بیگم کمرے میں داخل ھوئیں
حور بیٹے آج آپ یونی نہ جاؤ آپ کہ پھپھو آ رہی ہیں حمزہ کے ساتھ
اور انھوں نے سپیشل کہا کہ آپ کو یونی نہ بھیجوں
لیکن مامآپھپھو یوں اچانک
میرا مطلب ہے کہ آج تک وہ خود تو کبھی ہمارے گھر نہیں آئیں ہمیشہ ہم ہی ان سے ملنے جاتے تھے
اور انھیں مجھ سے ایسا کیا کام ھے کہ مجھے یونی نہیں جانے دیا
حور نے اپنی حیرانگی ظاہر کی
بیٹے یہ تو مجھے نہیں پتہ
خیر جب وہ آئیں گی تو پتہ چل جائے گا البتہ آپ فریش ھو جاؤ میں نے ناشتہ لگا دیا ھے
جی ٹھیک ہے ماما
صبا بیگم کہ کر واپس چلی گئیں تو حور بھی اٹھ کر تیار ھونے لگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد دس منٹ سے حور کے گھر کے باہر موجود تھا مگر اسے حور نظر نہیں آ رہی تھی
یار حور
ایک جھلک ہی دیکھا دو
پتہ نہیں وہ روم میں ھے بھی یا نہیں اگر ھوتی تو نظر آجاتی کیونکہ روم کی کھڑکی تو کھلی ھے
لیکن اگر وہ روم میں نہیں ھے تو پھر کہاں ھے
ابھی احمد یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ اسے حور باتھروم سے باہر نکل کر اپنے بالوں کو ٹاول سے رگڑتی ھوئی نظر آئی
احمد بنآپلکیں جھپکاے حور کو دیکھے جا رھا تھا
ریڈ کلر کے کپڑوں میں وہ واقع میں حور لگ رہی تھی
حور کو اچانک احساس ھوآجیسے کوئی اسے دیکھ رہا ھو تو اس کی نظر کھلی ھوئی کھڑکی پر پڑی
یہ رضوانہ (ملازمہ) بھی نآپتہ نہیں اسے کیا مسئلہ ہے کھڑکی کھول دیتی ھے
ٹھیک ہے اگر صفائی کرنے کے لئے کھولتی بھی ھے تو بعد میں بند تو کر دیا کرے
ابھی پوچھتی ھوں اسے جا کر
حور خود سے ہی باتیں کرتے ہوئے کھڑکی کے پاس جیسے ہی گئی تو اس کی نظر باہر کھڑے احمد پر پڑی
یہ یہاں
تو یہ تھآجو مجھے گھور رہا تھا
ٹھرکی سائیکو
حور نے ترچھی نگاہوں سے احمد کو دیکھا اور پھر زور سے کھڑکی بند کر دی
جب کہ حور کے اس طرح منہ بنا کر کھڑکی بند کر دینے سے احمد نے زور کا قہقہہ لگایا
چلو شکر ھے میڑم کی طبیعت تو ٹھیک ہے
اب مجھے بھی چلنا چاہیے کیونکہ آ نکھوں کو تو ٹھنڈک مل ہی گئی ھے
احمد نے مسکرا کر کہا اور گاڑی میں بیٹھ گیا
تو اچانک حور کے گھر کے باہر ایک گاڑی رکتے دیکھ کر حیران ھو گیا
اور رک کر گاڑی سے اترنے والوں کو دیکھنے لگا
لیکن حمزہ کو باہر نکلتا دیکھ کر احمد کو عجیب سی جلن ھوئی
یہ کون ھے
کوئی رشتےدار
مطلب یہ میری حور سے بھی ملے گا باتیں بھی کرے گا
بس حور اب جلد سے جلد تمہیں اپنے پاس لانا ھو گا
میں یہ باکل بھی برداشت نہیں کر سکتا ہوں کہ کوئی ایرا غیرا تمہیں دیکھے بھی
احمد نے سلگتے ہوئے دماغ کے ساتھ گاڑی سٹارٹ کی اور تیزی سے چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...