بادشاہاں نوں عشق اُجاڑ دیندا
ناں تخت رہندے ناں تاج رہندے
جہیڑا پھُل کِھلدا آخر سُک جاندا
کدے حُسن دے نئیں سدا راج رہندے
روگی عشق دا کدے نئیں ٹھیک ہوندا
لوکی جھلے نے کردے علاج رہندے
آج حویلی میں سناٹا معمول سے کہیں زیادہ تھا۔ فضا میں خوف سے بھری فرماں برداری کا تاثر گھلا ہوا تھا۔ ہر سو ہو کا عالم تھا۔ حویلی کے دروبام سے خاموشی یوں چپکی ہوئی تھی جیسے ذرا سی جنبش قیامت بھرپا کر دے گی۔ اس کے دل کا حال بھی کچھ مختلف نہ تھا۔ وہ ویران نظروں سے وسیع و عریض رقبے پر پھیلی ہوئی حویلی کی دیواروں کو دیکھ رہی تھی۔ اس کی ہر سانس اسے آنے والے طوفان سے آگاہ کر رہی تھیں ایسا طوفان جسے اس نے خود بلایا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ آج کے بعد بابا سائیں اس پر حویلی کے دروازے بند کر دینے والے تھے بغاوت کرنے والوں پر بابا سائیں زندگی تنگ کر دیتے تھے باغیوں کو جینے کا حق نہیں ہوتا گھٹ گھٹ کر مرنا ہی انکی تقدیرمیں لکھ دیا جاتا ہے۔ اور وہ تو تھی بھی ایک لڑکی…
حویلی کی تاریخ میں کسی عورت کو ایسی آزادی نہیں ملی تھی جیسی آزادی اس کے پاس تھی۔ حویلی کی اونچی اونچی دیواریں جن کے پار کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی یہاں تک کہ اس کی ماں نے بھی محض چند بار ہی حویلی سے باہر قدم رکھا تھا۔ بابا سائیں کے اصول سب کے لئے پتھر پر لکیر تھے مگر اس کے لئے سب بدل دیا گیا تھا کیوں کہ سب کے پاس عبدالباری نہیں ہوتا نا! اس کے پاس اسکا “باری” تھا جو اسکے لئے سب سے لڑ سکتا تھا۔ جہاں لڑکی کے پیدا ہوتے ہی اسکے پاؤں میں اصولوں کی بیڑیاں پہنا دی جاتی تھیں وہاں پیدا ہوتے ہی عبدالباری نے اسے پھولوں کی پازیب پہنائی تھی۔ پہلی دفعہ جب باری کی انگلی تھام کر اس نے باہر کی دنیا دیکھی تھی اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے پھولوں کی نازک پنکھڑیوں کو چھوا تھا انکی خوشبو کو اپنے اندر بسا لیا تھا۔ دنیا اسکے لئے ایک خواب تھی وہ خواب جو باری نے اسکی آنکھوں میں سجایا تھا۔ اسکی ہر خواہش “عبدالباری” تھا جب سے اس نے اپنی آنکھیں کھولی تھیں تو باری کا چہرہ دیکھا تھا اس نے تو بس باری کو سوچا تھا اسے عبدالباری کے سوا آتا ہی کچھ نا تھا…
اور اب! وہ اپنے ہاتھوں سے عبدالباری کو آزاد کر آئی تھی۔ اپنی اولین محبت جس نے نا جانے کب عشق کی راہوں پر اپنے قدم رکھے تھے آج وہ کھو بیٹھی تھی اپنے باری کو ہار بیٹھی تھی اپنے ہاتھوں سے ہر وہ دروازہ بند کر دیا تھا جو باری کی طرف جاتا تھا۔ باری کو کھو دینے کے خیال سے ہی اسکی روح کانپ گئی تھی اگر وہ جسم کا حصہ ہوتا تو الگ بات تھی مگر وہ تو اسکی روح میں تحلیل ہو چکا تھا اب کیسے ممکن تھا کہ وہ دونوں الگ ہو جاتے؟ یہ فیصلہ بھی تو اسکا اپنا تھا اس نے اپنی راہیں الگ کر لی تھی۔
صحرا کی خشک زمین نے تر ہونا شروع کر دیا تھا۔ اسکی آنکھوں میں ساون آ ٹھہرا تھا اور دل کی بنجر زمین بھیگنے لگی تھی۔
“باری!” ہونٹ پھڑپھڑائے اسکا نام پکارا گیا۔ “باری! میری آنکھیں ترس گئیں ہیں اور اب یہ آنکھیں جنہوں نے تمہارے سوا کبھی کسی کو نہیں دیکھا تھااب شاید…”
بات ادھوری چھوڑ دی گئی تھی اسکے ہونٹوں نے انکار کر دیا تھا کہ وہ کہہ سکیں کہ باری اب میری آنکھیں کبھی تمھیں نہیں دیکھ سکیں گی۔
بائیں باغ کی طرف آتے عبدالباری کی نظروں نے اسے دیکھ لیا تھا۔ اسے جیسے ہی خبر ملی تھی وہ شہر سے بھاگا بھاگا آیا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا وہ کملی جو ہر کام اس سے پوچھ کر کرتی تھی وہ اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ اکیلے کر لے گی۔ کیا اسکی کملی اتنی بڑی ہو گئی ہے کہ وہ اپنے فیصلے خود کر سکے۔ وہ اسکی زندگی سے دور جانا چاہتی تھی مگر کیوں؟ اب وہ اپنے ہر سوال کا جواب چاہتا تھا۔
******************
زینیہ لاؤنج میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی کہ حنایہ بھی وہاں آگئی۔ پہلے تو اس نے سوچا ٹی وی بند کر دے کیوں کہ حنایہ کے سوال جواب اکثر اسے مشکل میں ڈال دیتے تھے مگر فلم ایسے موڑ پر تھی کہ وہ اسے بیچ میں چھوڑنا نہیں چاہتی تھی آج عبدالصمد گھر پر نہیں تھے ورنہ ان کی موجودگی میں ٹی وی جیسی خرافات بند ہی رہتی تھی۔ یہ وہ ہی جانتی تھی اس نے انہیں کیسے منایا تھا ورنہ اسکے شوہر کو اسکا ٹی وی دیکھنا بلکل پسند نہیں تھا۔ مگر وہ زینیہ ہی کیا جو شوہر کو بلیک میل نہ کرے۔
“کیا دیکھ رہی ہیں آپی؟” حنایہ نے اسکے پاس بیٹھتے ہوۓ پوچھا۔ ساتھ ہی اس نے سامنے پڑی فرائز کی پلیٹ اٹھا لی۔
“فلم دیکھ رہی ہوں۔”
“چوڑیاں؟” حنایہ نے جوش اور خوشی سے اپنی بہن کو دیکھا۔
“نہیں میری کملی ہر فلم چوڑیاں نہیں ہوتی!” زینیہ نے دانت پیس کر کہا۔
“مجھے کملی نہ کہنا دوبارہ!”
حنایہ نے منہ بنا لیا غلطی اس کی بھی نہ تھی اس نے اس فلم کے علاوہ کوئی فلم نہ دیکھی تھی۔ اور اسے پسند بھی بہت آئی تھی چند سال پہلے وہ حویلی میں اس فلم کا پنجابی گانا “کملی دا ڈھولا” گاتی ہوئی نظر آتی تھی۔ عبدلباری نے تب سے اس کا نام کملی رکھ دیا تھا اس نے گانا تو چھوڑ دیا مگر اس نام سے اسکی جان اب تک نہ چھوٹی تھی۔
حنایہ خاموشی سے بیٹھی فرائز کھانے لگی۔ وہ فلم کی کہانی میں الجھتی جا رہی تھی۔ اور اسی الجھن میں وہ دھڑادھڑ فرائز پر فرائز کھاتی جا رہی تھی۔
“آگے کیا ہو گا آپی؟ کیا وہ اسے چھوڑ کر شہر چلا جائے گا؟”
“پتا نہیں کملی!”
زینی نے پلیٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا مگر پلیٹ خالی تھی۔اس نے تیسری بار زینیہ کی طرف خالی پلیٹ بڑھائی تو اس نے غصے سے اسے گھورا۔
“بھوکی نہ ہو تو!”
“آپی بنا لائیں نا!”
اس نے بیچاری سی شکل بنا کر زینیہ کو دیکھا تو وہ خون کے گھونٹ پیتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔ وہ فرائز لے کر آئی تو حیرت انگیز منظر اسکا منتظر تھا۔ ٹی وی لاؤنج کی حالت ہی بدل گئی تھی حنایہ زور و شور سے رونے میں مصروف تھی اور اسکے پاس ٹشو پپرز کا پہاڑ پڑا تھا۔ اور اسکے ایک ہاتھ میں ٹشو اور دوسرے میں ڈوپٹے کا پلو تھا۔
“اب کیا ہو گیا کملی؟”
زینیہ نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا تو اس نے جھٹ سے اسکے ہاتھ سے پلیٹ پکڑ لی۔
“آپی! وہ اسے چھوڑ کے چلا گیا۔ اس نے ایسا کیوں کیا؟” حنایہ نے اپنے روتے ہوۓ پوچھا۔
“کملی!”
“پہلے تو کملی کہنا بند کریں۔” اس نے گیلا ٹشو بہن کی طرف پھینکا۔
“اچھا اچھا! نہیں کہتی اب” زینیہ نے اسکے پاس بیٹھتے ہوۓ ٹی وی بند کر دیا۔”دیکھوں یہ ایک فلم ہے اور اس میں کچھ بھی سچائی نہیں ہے۔”
“نہیں باری کہتے ہیں فلم میں سچ دیکھایا جاتا ہے۔” حنایہ نے اپنی بھیگی آنکھوں سے بہن کو دیکھا۔”باری جھوٹ نہیں بولتے!”
اسکی بات پر زینیہ نے اپنا سر پیٹ لیا اور اس وقت کو کوسنے لگی جس وقت اس نے ٹی وی لگایا تھا۔
“حنایہ دیکھو ! اس ہیرو کو شہر پسند آگیا تو وہ ہمیشہ کے لئے وہاں چلا گیا۔ اب فرض کرو…” زینی اسے سمجھانے کے لئے الفاظ تلاش کرنے لگی مگر حنایہ کی سوئی ایک ہی جگہ اٹک چکی تھی اور بہت ہی غلط جگہ اٹکی تھی۔
“باری بھی تو شہر میں پڑھتے ہیں اگر انہیں بھی شہر پسند آگیا تو؟” حنایہ کی آنکھوں میں خوف تھا جسے دیکھ کر کچھ دیر کے لئے زینیہ بھی گھبرا گئی تھی۔ “اگر بب… باری بھی ہم سب کو چھوڑ کر چلے گئے تو؟”
زینیہ کو اپنی کہی گئی بات پر پچھتاوا ہو رہا تھا اسے سوچنا چاہیے تھا کہ وہ کیا بول رہی ہے اور کس کے سامنے بول رہی ہے۔”عبدالباری بھائی نہیں جائیں گے۔”
“وہ بھی تو چلا گیا نہ؟”
“میں بتا رہی ہوں نا! بھائی وہاں پڑھنے جاتے ہیں اور… اور…” اسے سمجھانے کے لئے اس کے پاس الفاظ نہیں تھے۔
“آپ سچ کہہ رہی ہیں؟”
“ہاں بلکل سچ اس بار بھائی آئیں تو بے شک پوچھ لینا”
حنایہ اس کے پاس زیادہ دیر نہیں بیٹھی اسکا ذہن ابھی بھی اسی بات میں الجھا تھا کہ شہر جا کر لوگ واپس نہیں آتے۔ اپنے کمرے میں آ کر بھی وہ یہی سب سوچتی رہی۔
“شہر میں تو سب کچھ اچھا ہوتا ہے وہاں کے لوگ ،گھر جیسے فلم میں تھا۔ شہر میں باری کو بھی سب کچھ اچھا لگتا ہو گا اس بار آئیں گے تو میں نہیں جانے دوں گی اس بار میں باری سے کہہ دوں گی اور وہ ضرور مان جائیں گے۔” وہ بیڈ پر بیٹھی پلاننگ کرنے لگی۔
***************
آج اسکی زندگی کا وہ دن تھا جس دن کا انتظار ہر لڑکی کو ہوتا ہے۔ آج اسکی شادی تھی وہ سجی سنوری بیٹھی اپنے شہزادے کا انتظار کر رہی تھی۔ اس شہزادے کا انتظار جس کی کہانیاں سنتے ہوۓ وہ بڑی ہوئی تھی جس کے نام کے ساتھ اسکا تعرف کروایا جاتا تھا۔ خاندان کی ہر تقریب میں کسی کے پوچھنے پر اسکی خالہ اپنے رشتے داروں سے بڑے مان سے اسے ملواتی۔
“یہ میرے پتر کی منگ ہے۔”
وہ مہندی ہاتھوں پر سجائے اپنی سہیلیوں کے جھڑمٹ میں بیٹھی تھی جب چند روتی ہوئی عورتیں وہاں آئیں وہ سمجھ ہی نہیں پائی کہ شادی کی شہنائی کب ماتم میں بدل گئی۔
“کوئی اسے بتاؤ کہ یہ اجڑ گئی ہے۔” عورتیں بین ڈال رہی تھی۔ اور وہ ہونکوں کی طرح اپنی اماں کو ڈھونڈ رہی تھی۔
“میرا بیٹا کھا گئی…”
مختلف آوازوں کے درمیان اسکی خالہ کی آواز کسی تیر کی طرح اسکی سماعت سے ٹکرائی۔
“اتار یہ سب میرے بیٹے کی موت پر تو خوشیاں منا رہی ہے؟”
وہ دیوانہ وار اسے پیٹ رہی تھیں اسکے ہاتھوں کی مہندی مٹا کر وہ اسکا پھولوں سے بنا زیور بھی اتار چکی تھی۔
“ہائے کھا گئی ڈائین میرا بچہ کھا گئی۔”
اپنا سینہ پیٹتے ہوۓ وہ اسے برا بھلا کہہ رہی تھی وہاں موجود کوئی بھی عورت اسے وہاں سے اٹھانے نہیں آئی شاید وہ اسی لائق تھی۔ مختلف سوچوں میں گھری وہ روتی جا رہی تھی اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہر وقت اسکے واری صدقے جانے والے اسکی اپنی خالہ ہی اسکے سر پر نحوست کا ٹھپا لگائے گی۔
**************
عبدالباری نے لیب کوٹ اتار کر بیڈ پر اچھال دیا۔ آج ایک سال ہو گیا تھا اسے ہسپتال میں جاب کرتے ہوۓ۔ وہ آئینے کے سامنے کھڑا اپنے بالوں میں انگلیاں چلا رہا تھا کتنا عرصہ بیت گیا تھا مگر اس نے گاؤں کا چکر نہیں لگایا تھا۔ زندگی میں ایک ٹھہراؤ آگیا تھا سب کچھ ٹھیک تھا مگر کچھ تو کمی تھی۔
“کمی؟”
“ہاں کمی ہے ابھی بہت لمبا سفر طے کرنا ہے ابھی ایک لمبا عرصہ درکار ہے بہت لمبا عرصہ!”
اس نے اپنے چہرے کو بغور دیکھتے ہوۓ سوچا۔اسے چہرے پر کچھ خاص نظر نہیں آیا مگر کچھ الگ تھا اسکے چہرے میں، ہاں! اسکے چہرے پر سنجیدگی تھی ایک ٹھہراؤ تھا لاپروائی نہیں تھی ۔ وہ لا ابالی پن جو اسکی عمر کے نوجوانوں میں ہوا کرتا تھا وہ اپنی عمر سے دو گنی عمر کے مرد جیسا مزاج رکھتا تھا۔ اسکی آنکھوں میں خواب تھے مگر وہ خواب عام خواب نہ تھے وہ خواب اس نے جاگتی آنکھوں سے دیکھے تھے اسکے خواب اسے سونے نہیں دیتے تھے۔ ہمیشہ بے چین رکھتے تھے۔ اس نے اپنا ایک نام بنانا تھا اپنی الگ پہچان تاکہ لوگ اسے اس کے نام سے جانیں وہ چاہتا تھا لوگ بھول جائیں کہ اس کا تعلق کس خاندان سے ہے وہ چاہتا تھا کہ وہ بھول جائے کہ وہ کس کا بیٹا ہے اسکے بس میں ہوتا تو وہ اپنا ماضی بدل دیتا دوبارہ پیدا ہو جاتا اور ایک نئی شروعات کرتا!
“عبدالباری!”
کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو اس نے چونک کر دیکھا۔ سامنے شعیب کھڑا مسکرا رہا تھا۔ اسکا روم پارٹنر ، اسکا زبردستی کا دوست! ایسا نہیں تھا کہ اسے وہ پسند نہ تھا مگر اسکی ہر چیز میں ٹانگ آڑانے کی عادت اسے زہر لگتی تھی۔
“کہاں کھوئے ہوۓ ہو؟”
“کہیں نہیں!”
“ایسے تو نئی نویلی دلہن شیشہ نہیں دیکھتی جتنے انہماک سے تم اپنے چہرے پر غور و فکر کر رہے ہو۔” شعیب کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ “خیر تو ہے نا؟ کہیں ہسپتال میں کوئی نرس…” اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
“استغفراللہ!” اس نے جھرجھری لی وہ کیسے کسی اور کے بارے میں سوچ سکتا تھا۔ وہ خود نہیں جانتا تھا عمر کے کس حصے میں وہ خود کو کملی کے نام کر چکا تھا۔ اس پر صرف کملی کا حق تھا۔
“دیکھو میں شک نہ کروں تو کیا کروں؟ پھر کسی سوچ میں گم ہو گئے اتنی سوچیں تو ملک کے وزیراعظم کو نہیں ہوں گی جتنی سوچیں تمھیں ہیں۔”
“نہیں ایسی بات نہیں ہے۔ تم سناؤ آج تمہاری ڈیوٹی نہیں ہے۔”
“وہیں سے آرہا تھا تو راستے میں کسی نے یہ پکڑا دیا۔” شعیب نے اسکی طرف پارسل بڑھایا۔” تمہارا ہے!”
عبدالباری نے اسکے ہاتھ سے پارسل پکڑا اور اپنے بیڈ کی طرف آگیا۔ اس نے کچھ دن پہلے ہی آرڈر دیا تھا وہ جانتا تھا کچھ دن بعد کملی کی سالگرہ تھی۔ اسی لئے اس نے ایک عدد سمارٹ فون خریدا تھا۔ مگر وہ شعیب کے سامنے پارسل کھولنے کی غلطی نہیں کر سکتا تھا کیوں کے اس کے بعد ایک لمبی لسٹ سوال و جواب کی اسکے سامنے رکھ دی جاتی۔ اسی لئے پارسل اپنے پاس ہی رکھ کر وہ چادر اوڑھ کر لیٹ گیا۔ اور اسکے جانے کا انتظار کرنے لگا۔ شعیب کے جانے کے بعد وہ بیڈ پر بیٹھ کر پارسل کھولنے لگا اس میں خوبصورت بلیک کلر کا موبائل تھا اس نے موبائل میں سم ڈالی اور اسکی سیٹنگ کرنے لگا۔ اپنا نمبر اس نے باری کے نام سے سیو کر لیا۔
“کچھ دن اور….”
عبدالباری نے سر دیوار کے ساتھ ٹکا دیا اور آنکھیں موند لیں۔ اسکے ہونٹوں پر دلنشیں مسکراہٹ رقصا تھی۔ کملی سے ملنے کے تصور نے ہی اسے سکون بخش دیا تھا۔ حویلی میں ایک کملی کا ہی وجود تھا جس میں جان تھی باقی سب تو کٹ پتلیاں تھے۔ کملی کے وجود سے ہی تو آج وہ زندہ تھا وہ اسکے اندر سانس لیتی تھی۔ ورنہ اپنے خاندان کی اصلیت جاننے کے بعد وہ مر جاتا ہاں عبدالباری آٹھ سال کی عمر میں ہی مر گیا تھا اب جو تھا وہ باری تھا کملی کا باری…!
*************