شہباز خان روتا ہوا اپنی ماں مہر جان کے پاس آیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو اور سر سے خون بہہ رہا تھا۔ یہ دیکھ کر مہرجان کو بہت غصہ آیا۔ وہ سمجھ گئی یہ پڑوس کے شہزاد خان کی کارستانی ہے۔ اس کے جی میں آیا کہ شہزاد کی کھال ادھیڑ دے لیکن یہ ممکن نہیں تھا۔ مہرجان نے شہباز کو پچکارنے کے بجائے ڈانٹا۔ سر سہلانے کے بجائے اس کا ہاتھ پکڑا اور گھسیٹتے ہوئے پڑوس میں شہزاد کی امی افسری بیگم کی جانب اس خیال سے چل پڑی کہ رستا ہوا خون دکھلا کر شہزاد کی خوب پٹائی کروائے گی لیکن وہاں پہنچنے کے بعد اس کے قدم زمین میں دھنس گئے۔
شہزاد ہاتھ میں دانت لیے اپنی امی سے شکایت کر رہا تھا۔ اس کے منہ سے خون بہہ رہا تھا۔ مہرجان کو تفصیل جاننے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ اس کا دل پسیج گیا آگے بڑھ کر اس نے شہزاد کو گلے سے لگا لیا اور آنسو پونچھنے لگی۔ افسری بیگم شہباز کا سر سہلانے لگیں۔ انہوں نے فوراً شہباز کا سر دھویا اور ہلدی کے سفوف سے مرہم پٹی کر دی۔ ا س دوران مہرجان نے شہزاد کو کلی کرا کے بہلا پھسلا دیا تھا۔ منہ سے بہنے والا خون بند ہو گیا تھا۔ دونوں بچے ایک دوسرے کی امیوں کی گود میں بیٹھے ایک دوجے کو گھور رہے تھے۔ دونوں سہیلیاں باتوں میں مشغول ہو گئیں تھیں اور بچے مل جل کے کھیلنے لگے تھے۔
آبادیوں سے دور پہاڑوں کے درمیان وادیِ خیبر نام کی ایک گمنام سی بستی تھی جس میں صرف دو کشادہ مکان تھے ایک میں بختیار خان اور دوسرے میں شہریار خان رہتا تھا۔ دونوں بچپن کے دوست اور ہمسایہ تھے۔ خیبر پور سرسبز کھیت اور باغات پر مشتمل زرخیر علاقہ تھا۔ اس خطہ ارض کے نصف کا مالک شہریار تھا اور بقیہ بختیار کی ملکیت تھا۔ گاؤں کے تمام مویشی ان دونوں کے درمیان تقسیم تھے اور تمام آبادی ان دونوں کی محکوم تھی۔ یہ آبادی جھگیوں میں رہتی۔ ان کے کھیتوں میں کام کرتی۔ ان کے مویشیوں کی دیکھ بھال کرتی اور ان کے اہل خانہ کی خدمت کرتی تھی۔ جو کچھ تھا ان دونوں کا تھا باقی کسی کا کچھ بھی نہیں تھا۔ اس لیے ان کی مرضی کے بغیر یہاں پر پتہ بھی نہیں ہلتا تھا۔
شہریار اور بختیار کے مزاج میں اس قدر ہم آہنگی تھی کہ فیصلہ ایک ساتھ کریں یا علیٰحدہ علیٰحدہ یکساں طور پر دونوں کو قابل قبول ہوتے تھے۔ چونکہ یہ اشرافِ بستی عام لوگوں سے فاصلہ رکھتے تھے اسلئے ان کے اہل خانہ کا میل جول بھی ایک دوسرے تک محدود تھا۔ بختیار کاپسر شہباز اور شہریار کا بیٹا شہزاد ہمسائے گی کے باعث دوست ضرور تھے لیکن ان میں بالکل نہیں بنتی تھی۔ مختلف المزاجی کے باوجود ایک ساتھ کھیلنا ان کی مجبوری تھی۔ دوسرے بچوں کے ساتھ میل ملاپ کو نہ صرف ناپسند کیا جاتا تھا بلکہ ایسا کرنے پر سرزنش بھی ہوتی تھی۔
وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کھیلتے بھی تھے اور لڑتے بھی تھے۔ اس رفاقت میں ہم منصبی کے علاوہ کوئی مشترک قدر نہیں تھی۔ بختیار اور شہریار اپنے بیٹوں کی لڑائی سے پریشان تھے۔ وہ دونوں تنگ آ کر باہم کھیلنے سے منع تو کر دیتے لیکن اصرار نہ کرتے اس لیے کہ جانتے تھے ایسا کرنا گویا کھیل کود بند کر دینے کے مترادف ہے اور بچوں کو کھیلنے سے روک دینا ان سے بچپن چھین لینے کے مترادف ہے۔
شہریار اور بختیار جانتے تھے کہ کسی بچے سے اس کا بچپن چھین لینا ایسا ہی ہے جیسے کسی جوان کو اس کی جوانی سے محروم کر دیا جائے۔ ان دونوں کو اپنے بچوں کے بچپن اور اپنی جوانی بے حد عزیز تھی لیکن ان بے شمار افراد کا ذرہ برابر خیال نہیں تھا جن کی زندگیاں ان لوگوں نے چھین لی تھی۔ ان کے نزدیک عوام کالانعام احساسات و جذبات سے عاری مخلوق تھے۔ وہ ان میں اور اپنی ضرورت کے مویشیوں اور بے جان سازوسامان میں کوئی فرق کرنے کے روادار نہیں تھے۔ ان کے خیال میں ان ساری اشیاء کا مقصد وجود خدمت تھا۔
ایک مرتبہ شہریار اپنے کسی کام سے شہر گیا وہاں ایک کھلونے کی دوکان میں اسے بڑی سی گیند نظر آئی اس نے دوکاندار سے پوچھا۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘
دوکاندار نے بتلایا۔ ’’یہ گیند ہے جس سے بچے اور بڑے سب کھیلتے ہیں۔‘‘
اس نے پوچھا۔ ’’اس سے فٹ بال کھیلتے ہیں؟ یہ تو گول نہیں لمبوترا سا ہے۔‘‘
دوکاندار نے بتلایا۔ ’’اس سے فٹ بال نہیں رگبی کھیلا جاتا ہے۔‘‘
شہریار نے پوچھا۔ ’’یہ رگبی کیا ہوتا ہے؟‘‘
دوکاندار نے بتلایا۔ ’’یہ بھی فٹ بال کی طرح کا کھیل ہے لیکن اس میں پیروں سے مارنے کی قید نہیں اس میں گیند کو ہاتھوں سے چھینا جاتا ہے اور لاتوں سے مارا جاتا ہے۔ ہار جیت فٹ بال کی طرح سے ہوتی ہے۔ جب گیند کو اچھال کر مخالف ٹیم کے پالے میں پہنچا دیا جائے تو گول ہو جاتا ہے اور مقر رہ دورانیہ میں جو ٹیم زیادہ گول کرتی ہے اسے کامیاب قرار دے دیا جاتا ہے۔‘‘
شہریار نے سوچا یہ اچھا ہے۔ وہ اسے شہزاد اور شہباز کے حوالے کر دے گا۔ وہ ایک دوسرے کے بجائے گیند سے ہا تھا پائی کریں گے۔ ایک دوسرے کے بال نوچنے کے بجائے گیند چھینیں گے۔ ایک دوسرے پر لاتوں اور گھونسوں کی برسات کرنے کے بجائے گیند پر اپنا غصہ اتاریں گے۔
بختیار کو بھی شہریار کی تجویز پسند آئی۔ اب گھر کے آنگن میں یہ دونوں بچے رگبی کھیلنے لگے۔ ایک دوسرے سے گیند چھینتے اور اپنی ٹھوکروں سے گیند کو اپنے مخالف کے پالے میں پہنچا کر اپنے مخالف کو شکست فاش دینے میں لگے رہتے۔ ا س نئے کھیل نے جذبۂ مسابقت میں خاصہ اضافہ کر دیا تھا۔ شہریار اور بختیار بھی کبھی کبھار فرصت کے لمحات میں بچوں کی مقابلہ آرائی سے لطف اندوز ہوتے تھے۔
جب وہ دونوں کچھ بڑے ہو گئے تو کھیل آنگن سے نکل کر میدان میں آ گیا۔ گاؤں کے بچے اس کھیل کے تماش بین بن گئے۔ پہلے تو وہ دور سے گیند کو اٹھا کر لاتے تھے لیکن پھر یوں ہوا کہ وہیں سے لات مار کر اچھالنے لگے۔ وقت کے ساتھ دھیرے دھیرے گاؤں کے بچے بھی نہ جانے کب اس کھیل کا حصہ بن گئے۔ کچھ شہباز کی ٹیم میں تو کچھ شہزاد کی ٹیم میں شامل ہو گئے۔ اب کھیل کا دائرہ وسیع ہو چکا تھا۔ شہزاد اور شہباز اپنی اپنی ٹیموں کی مدد سے ایک دوسرے کو ہرانے کے درپے رہنے لگے تھے۔
گاؤں کے بچوں نے جہاں شہزاد اور شہباز کے ساتھ رگبی کا کھیل سیکھا وہیں ان دونوں نے بھی گاؤں والوں سے ان کے کھیل سیکھے۔ گاؤں کے لوگ مرغوں اور مینڈھوں کی لڑائی سے دل بہلایا کرتے تھے۔ ایک کا مرغا دوسرے کے مرغے سے لڑتا اور اسے زخمی کر کے بھگا دیتا۔ اس طرح پہلا خوشی سے باولا ہو جاتا۔ ایک کا مینڈھا دوسرے کے مینڈھے کو ٹکّر مار کے بے ہوش کر دیتا تو پہلا خوشی سے جھوم اُٹھتا۔ یہ عجیب کھیل تھا جس میں لڑتا کوئی اور تھا مگر جیت کسی اور کی ہوتی تھی۔ زخمی کرنے والا کوئی اور ہوتا تھا اور جشن کوئی اور مناتا تھا۔
شہزاد اور شہباز کی جب ان کھیلوں میں دلچسپی بڑھی تو وہ رگبی بھول گئے۔ انہوں نے مرغے اور مینڈھے پالنے شروع کر دیئے۔ وہ انہیں ایک دوسرے سے لڑاتے اور فتح کا جشن مناتے۔ جب کوئی مرغا زخمی ہو کر لڑنے کے قابل نہیں رہتا اسے طشتری کی زینت بنا دیا جاتا۔ جب بھی کوئی مینڈھا شکست فاش سے دوچار ہوتا اسے ذبح کر کے نیا مینڈھا میدان میں لایا جاتا۔ مینڈھوں اور مرغوں کی دعوتیں اُڑاتے ہوئے یہ دونوں دوست جوان اور ان کے والدین بوڑھے ہو گئے۔
حسب معمول ایک دن مینڈھوں کی لڑائی ہونی تھی۔ دونوں مینڈھے خوب فربہ اور طاقتور تھے۔ دونوں کو اپنی اپنی فتح کا کامل یقین تھا۔ اس روز لڑائی کافی دیر چلی۔ جب شہزاد کا مینڈھا شہباز کے مینڈھے کو کھدیڑتا ہوا پیچھے دھکیلتا جاتاتواس کے ساتھی خوشی سے چلّانے لگتے اور سیٹیاں بجاتے لیکن چند لمحات میں پھر منظر بدل جاتا تھا۔ اس بار شہباز کا مینڈھا بازی اُلٹ دیتا اور اس کے خیمہ میں خوشی کے نقارے بجنے لگتے تھے۔ لڑائی چلتی رہی یہاں تک کہ دونوں مینڈھے لہولہان ہو گئے لیکن کوئی بھی میدان چھوڑنے کا نام نہ لیتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ دونوں جانوروں کے اندر انسانوں کی روحیں سما گئی ہیں جو کسی قیمت پر ایک دوسرے سے زیر ہونے کے لیے تیار نہیں۔ بالآخر دونوں جانوروں نے آر پار کی ٹکر کا فیصلہ کر لیا۔
اس بار دونوں مینڈھے ایک دوسرے کی جانب نہیں بلکہ ایک دوسرے سے مخالف سمت میں الٹے پیروں بڑھنے لگے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو پیٹھ دکھانا نہیں چاہتے تھے اس لیے کہ میدان میں پیٹھ دکھانا شکست کی علامت ہوتا ہے اور ایسا کرنے سے ہلاکت کے خطرات میں اضافہ بھی ہو جاتا ہے اس لیے وہ الٹے قدم پیچھے ہٹتے رہے۔ دونوں کی نظریں ایک دوسرے پر لگی ہوئی تھیں۔ ایک خاص فاصلہ کے بعد وہ دونوں چند لمحات کے لیے ٹھہر گئے۔
ناظرین کی سانسیں رک گئیں اور پھر دونوں نہایت تیز رفتاری کے ساتھ ایک دوسرے کی جانب دوڑے ایک زوردار دھماکہ ہوا دونوں ڈھیر ہو گئے۔ اٹھنے کی بہتیری کوششوں کے باوجود ایک بھی اٹھ نہ سکا۔ وہ دونوں جانور زمین پر پڑے زخم سے کراہ رہے تھے اور ایڑیاں رگڑ رہے تھے۔ اس کے برعکس ان کے مالکین اپنے مویشیوں کی حالتِ زار سے بے نیاز اپنی فتح کا دعویٰ کرتے ہوئے مخالف کی شکست کا اعلان کر رہے تھے۔
اس روز مینڈھوں کی لڑائی میں نہ تو کسی کی جیت ہوئی اور نہ کوئی ہارا لیکن اس دن سے ہمسایوں کے درمیان ایک جنگ کا آغاز ہو گیا۔ سخت کلامی ہا تھا پائی میں تبدیل ہو گئی۔ دونوں کے حامی ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو گئے۔ شہزاد اور شہباز برسوں بعد ایک دوسرے سے دست گریباں تھے۔ ان کی لڑائی بھی کسی نتیجہ پر نہیں پہنچی نہ کوئی جیتا اور نہ کوئی ہارا لیکن مینڈھوں کے ساتھ بچپن کی دوستی نے دم توڑ دیا۔ محبت کی جگہ نفرت نے لے لی۔ مسابقت مخاصمت میں بدل گئی۔ اس شام کوئی جانور ذبح نہ ہوا کوئی دعوت نہیں ہوئی بلکہ عداوت ہو گئی۔
شہباز اور شہزاد کی ہم سائے گی اب ایک مجبوری سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔ اس لڑائی کے بعد کھیتوں کے درمیان باڑ نمایاں ہو گئی۔ گھروں کی دیوار اونچی ہو گئی۔ محکوموں کا بٹوارہ مکمل ہو گیا۔ ایک کے حامی کا دوسرے کے ساتھ جانا غداری میں شمار ہونے لگا۔ رفتہ رفتہ یہ دشمنی حملوں میں بدل گئی۔ ان میں سے ہر ایک اپنے گروہ کی مدد سے دوسرے کے مویشی ہانک لے جاتا۔ کھیتوں کو جلا دیتا اور طرح طرح سے نقصان پہنچاتا۔ اس لوٹ مار میں کبھی ایک کے آدمی مارے جاتے تو کبھی دوسرے کے حامی زخمی ہوتے۔ ہر کوئی اپنے بندے کی موت کا بدلہ دوسرے کے آدمی سے لیتا اس طرح دونوں ایک دوسرے کے حامیوں کو ہلاک کر کے اپنی سرخروئی کا پرچم لہراتے تھے۔
شہ اور مات کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ ایک دن اچانک ان کے علاقے میں بہت ساری گاڑیاں نمودار ہو گئیں۔ اس وادی میں ان کی مرضی اور اجازت کے بغیر کسی چڑیا نے پر بھی نہیں مارا تھا۔ نو واردوں کی آمد نے شہباز اور شہزاد دونوں کو چوکنا کر دیا۔ انہوں نے اپنے آدمیوں سے آنے والوں کے مقاصد کا پتہ لگایا تو معلوم ہوا کہ یہ سرکاری افسران ہیں۔ ان کا اندازہ ہے کہ اس علاقے میں معدنیات کی کانیں ہیں اور اب وہ اس تحقیق کی تصدیق کرنا چاہتے ہیں۔
شہباز اور شہزاد کو یہ بھی علم ہو گیا کہ آنے والوں کے پاس اچھا خاصہ حفاظتی انتظام ہے۔ دستہ اور اسلحہ دونوں سے لیس ہو کر یہ لوگ اس علاقے میں داخل ہوئے ہیں اور ان کو ڈرا دھمکا کر بھگا دینا آسان نہیں ہے۔ اس نئی صورت حال نے دونوں کو یکساں طور پر فکر مند کر دیا۔ بیرونی خطرہ اندرونی دشمنی پر غالب آ گیا۔ کئی سال بعد ان کی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے آنے والے وفد کے سربراہ سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ تحقیقاتی ٹیم کے افسران بھی اس کے منتظر تھے۔ ملاقات کا وقت طے ہو گیا۔ باہمی تعارف کے بعد گفتگو کا آغاز ہوا۔
نو واردوں نے انہیں مبارکباد دی کہ ان کے علاقے کی زمین معدنیات کے خزانوں سے بھری پڑی ہے اس لئے حکومت یہاں کارخانے تعمیر کروائے گی۔ کارخانہ اس خطے کے لیے نئی چیز تھی۔
شہباز نے سوال کیا۔ چونکہ یہ خزانے ہمارے کھیتوں کے تلے دبے ہوئے ہیں اس لیے لازماً اس کے مالک ہم ہی ہوئے۔
جواب ملا نہیں جو کچھ زمین کے نیچے ہے وہ حکومت کی ملکیت ہے۔
شہزاد کو اس پر تعجب ہوا۔ اس نے پوچھا کیوں؟ اگر کھیتوں کے اوپر کی فصل ہماری ہے تو نیچے کے معدنیات بھی ہمارے ہونی چاہئیں؟
سرکاری عہدہ داروں نے بتایا۔ نہیں اوپر کی فصل تم نے اُگائی ہے اس لیے تمہاری ہے اندر کے خزانے تم نے نہیں رکھے اس لیے تمہارے نہیں ہیں۔
شہباز کی سمجھ میں یہ دلیل نہیں آئی اس نے کہا۔ اگر ہم نے نہیں رکھے تو سرکار نے بھی تو نہیں رکھے۔ اس لیے اگر ہماری نہیں ہے تو حکومت کی کیسے ہو گئی؟
سرکاری نمائندوں نے بتلایا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ زمین بھی حکومت کی ہے۔
دونوں دوستوں کے لیے یہ نیا انکشاف تھا ان لوگوں نے کہا۔ یہ کیا بات کر رہے ہیں آپ؟ صدیوں سے یہ زمین ہمارے آبا و اجداد کی ملکیت ہے اور ہمیں وراثت میں ملی ہے۔
یہ بات ذرا کرخت انداز میں کہی گئی اس لیے اس کا جواب بھی سخت انداز میں ملا۔ تمہارے باپ دادا نے یہ زمین خریدی تھی کیا؟ اور خریدی بھی تھی تو جس نے بیچا اس نے نہیں خریدی تھی۔ اس لیے یہ زمین نہ تمہارے پُرکھوں کی تھی اور نہ تمہاری ہے۔
شہزاد یہ جواب سن کر ٹھنڈا ہو گیا۔ اس نے لجاجت سے کہا۔ لیکن ہمیں اب تک یہ بات بتلائی کیوں نہیں گئی؟
اس لیے کہ ضرورت نہیں پیش آئی۔ اب ضرورت ہوئی تو گوش گذار کر دیا گیا۔
شہزاد اور شہبازسے جیسے ان کے برسوں پرانے لوٹ کے مال کو کسی نے دن دہاڑے لوٹ لیا تھا اور وہ کچھ بھی نہ کر سکے تھے۔
شہباز بولا۔ لیکن جناب ہمارا اور ہمارے بے شمار ملازمین کا گذر بسر ان زمینوں پر کاشتکاری سے ہوتا ہے۔ ہمارے مویشی ان چراگاہوں میں پلتے ہیں۔ اگر یہ سب ہم سے چھن جائے گا تو ہم بے یارو مددگار ہو جائیں گے۔
نہیں ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ حکومت کے نمائندے نے کہا ہم اس زمین کے بدلے تم لوگوں کے نقصان کی بھرپائی کریں گے۔ جس سے تم نئے کھیت اور چراگاہیں خرید سکو گے۔
شہباز بولا۔ لیکن قیمت کون طے کرے گا؟
سرکاری افسرنے کہا۔ ہم طے کریں گے۔
شہزاد بولا۔ لیکن اگر اس نئی زمین کے نیچے بھی معدنیات نکل آئیں تو؟
تمہاری تقدیر ہی اگر خراب ہو تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟
ابھی تو آپ کہہ رہے تھے ہم لوگ خوش قسمت ہیں اور ابھی آپ کہہ رہے ہیں کہ ہمارا مقدر بگڑا ہوا ہے آخر یہ کیا قصہ ہے؟
بھئی آپ لوگ بہت بھولے ہو باتیں کہنے کی کچھ ہوتی ہیں اور حقائق اس سے مختلف ہوتے ہیں۔ اگر ہم دونوں میں سے ایک بدقسمت ہے تو دوسرا خوش قسمت بھی تو ہے۔ حکومت اگر خوش نصیب ہے تو عوام کی حکومت ہے۔ اگر عوام کی حکومت خوش نصیب ہوئی تو عوام بھی اپنے آپ خوش قسمت ہو گئے یا نہیں؟
شہزاد اور شہباز کی سمجھ میں یہ لچھے دار منطق نہیں آئی ویسے بھی زمینوں کی محرومی سے ان کے دماغ کو ماؤف ہو گئے تھے۔ شہباز نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ ان کارخانوں کا مالک کون ہو گا؟
جواب ملا۔ وہ سرمایہ دار جو اس میں سرمایہ کاری کریں گے۔
اور ان کانوں کا مالک کون ہو گا؟ شہزاد نے پوچھا۔
ویسے تو سرکار ہو گی لیکن وہ انہیں کرایہ پراٹھا دے گی۔
کیا مطلب؟ ہماری زمین ہم سے چھین کر کسی اور کو دے دی جائے گی۔
جی ہاں کیوں کہ وہ اس کا کرایہ ادا کریں گے۔
لیکن ہماری زمین کا کرایہ کوئی اور وصول کرے گا؟
سرکاری افسر کو غصہ آ گیا۔ وہ بولا جناب شہزاد صاحب یہ بات آپ کو پہلے سمجھائی جا چکی ہے کہ یہ زمین آپ لوگوں کی نہیں سرکار کی تھی اور ہے اس کے باوجود آپ کو معاوضہ دیا جا رہا ہے یہ حکومت کا احسان ہے۔ ویسے آپ لوگ یہ نہ بھولیں کہ یہاں پر کارخانوں کے لگنے سے جو خوشحالی آئے گی اس کا فائدہ آپ کو بھی تو ہو گا۔
ہمیں ہو گا وہ کیسے؟ ہماری فصلیں ہم سے چھن جائیں گی اور ہمارے آدمی بے روزگار ہو جائیں گے؟ ہمارا تو خسارہ ہی خسارہ ہے۔
نہیں نہیں ایسا نہیں ہو گا۔ تمہارے آدمیوں کو کارخانے میں کام ملے گا۔
اور ہمیں؟ دونوں نے ایک زبان ہو کر پوچھا۔
اور تمہیں ٹھیکہ مل جائے گا۔
کیا مطلب؟ شہزاد نے پوچھا۔
تم لوگ زمیندار سے ٹھیکیدار ہو جاؤ گے۔ عام لوگ تمہاری زمین جوتنے کے بجائے صنعت کی تعمیرات کا کام کریں گے۔ پہلے وہ فصلیں اُگاتے تھے جنھیں بیچ کر تم انہیں مزدوری دیا کرتے تھے اسی طرح ٹھیکے کی رقم حاصل کر کے تم ان کا محنتانہ ادا کرو گے۔ نہ تمہاری حیثیت بدلے گی اور نہ ان کا کام بدلے گا۔
تب تو ٹھیک ہے۔ شہزاد بولا۔ لیکن کارخانہ بن جانے کے بعد ہم کیا کریں گے؟
اس کے بعد بھی بہت سارے ٹھیکے ہوں گے جیسے آدمی فراہم کرنے کے ٹھیکہ۔ مال برداری اور حمل و نقل وغیرہ وغیرہ۔ وہ سب کام بھی ہم تمہیں کو دیں گے۔ اس طرح تمہارا اور ہمارا دونوں کا کام چلتا رہے گا۔
دونوں دوستوں کے چہرے کھل گئے۔ انہوں نے کہا صاحب آپ نے تو شروع میں ڈرا ہی دیا تھا۔ پہلے کیوں نہیں بتایا؟
سرکاری افسر مسکرائے۔ انہوں نے کہا۔ اگر آپ لوگوں کو پہلے ہی یہ بات بتلا دی جاتی تو آپ لوگ خوش نہیں ہوتے۔ اسی لیے پہلے ڈرانا پڑتا ہے۔ دباؤ بنانا پڑتا ہے اور پھر دھیرے دھیرے اسے ہٹایا جاتا ہے۔ اس طرح مخاطب بے وجہ خوش ہو جاتا ہے۔
جیسا کہ ہم دونوں خوش ہوئے ہیں۔ سب ہنسنے لگے۔
وادیِ خیبر میں بظاہر صنعتی انقلاب آ گیا لیکن فرق صرف یہ تھا کہ کل کا زمیندار آج کا ٹھیکیدار تھا اور کل تک ہل چلا کر اناج اُگانے والا مزدور آج مشین چلا کر مصنوعات بنانے لگا تھا۔ بظاہر بہت کچھ بدل گیا تھا لیکن بباطن کچھ بھی نہیں بدلا تھا۔ چند دنوں کے اندر پھر ان دوستوں کے اندر ٹھیکوں کے حصول کے خاطر مسابقت شروع ہو گئی۔ عارضی طور سے قائم ہونے والی دوستی میں دراڑ پڑ گئی۔
کارخانے کی تعمیر میں پانچ سال کا طویل عرصہ لگا اس بیچ سڑک بن گئی، پل بن گئے، بجلی آ گئی، بازار بن گئے اور نہ جانے کیا کیا ہو گیا۔ دور دراز کے علاقوں سے سیکڑوں لوگ یہاں آ کر بس گئے گویا ایک نامعلوم گاؤں اچھا خاصہ شہر بن گیا۔ کارخانے کا افتتاح کرنے کی غرض سے وزیر مملکت تشریف لائے اور انہوں نے اعلان کیا وادیِ خیبر میں جس صنعتی ترقی کا آغاز ہوا ہے اس کے ثمرات سے عوام کو ہمکنار کرنے کی خاطر یہاں جمہوری ادارے قائم کئے جائیں گے جس میں عوام کے رائے مشورے ان کی فلاح و بہبود کے کام ہوں گے۔
وزیر موصوف کے ان الفاظ نے شہزاد اور شہباز کے کان کھڑے کر دیئے انہیں محسوس ہوا کہ ان کی پشتینی آقائیت کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ صدیوں سے محکومی کی زنجیر میں جکڑے ہوئے غلاموں کو کوئی آزاد کرا رہا ہے۔ یہ بات تو زمینوں کے چھن جانے سے زیادہ خطرناک تھی۔ شہباز نے اس کا نوٹس لیا اور تقریب کے خاتمہ پر وزیر موصوف کو اپنے گھر کھانے پر بلایا۔ تھوڑی بہت آنا کانی کے بعد وزیر نے دعوت قبول کر لی۔
کھانے کے بعد گفت و شنید کا سلسلہ دراز ہوا تو شہباز نے پوچھا۔ جناب والا اس علاقے کو ہمارے بزرگوں نے بسایا وہ یہاں کے بے تاج بادشاہ تھے۔ یہاں کی عوام نے کبھی ان کے آگے زبان نہیں کھولی لیکن آپ تو پورے نظام کو درہم برہم کر رہے ہیں۔
وزیر نے پوچھا۔ یہ آپ سے کس نے کہا۔
آپ ہی تو کہہ رہے تھے۔ شہزاد بولا عوام کی مرضی سے۔
وزیر نے ہنس کر کہا شہباز صاحب آپ بہت بھولے ہیں۔ ارے بھائی ہم عوام سے ان کی مرضی پوچھیں گے اور وہ آپ ہی کے حق میں رائے دیں گے۔
وہ کیسے؟ شہباز نے پوچھا۔
در اصل ملک میں فی الحال ہماری جماعت برسرِ اقتدار ہے ہم آپ کو اپنا امیدوار بنائیں گے اور انتخاب جیتنے کے تمام گُر سکھلائیں گے۔ فرق صرف یہ ہو گا کہ فی الحال تو تم بزورِ قوت سردار بنے ہوئے ہو مگر الیکشن کے بعد تم عوام کی مرضی سے اس علاقے کی یعنی یہاں رہنے بسنے والوں کی نمائندگی کرو گے اور کیا چاہئے؟
وہ تو ٹھیک ہے۔ شہباز نے پوچھا۔ لیکن اگر عام لوگوں میں سے کوئی کھڑا ہو گیا تو؟
وزیر نے بڑے آرام سے کہا وہ ہار جائے گا۔ ہم ان میں انتشار پیدا کر یں گے۔ ان کو للچائیں گے۔ خریدیں گے۔ آپس میں لڑا دیں گے۔ ان کے خلاف پروپیگنڈا کریں گے۔ یہ سب کرنے کے لیے سرمایہ چاہئے جو ان کے پاس نہیں، تمہارے پاس ہے۔ اس لیے انتخاب میں کامیابی تمہاری ہی ہو گی۔
لیکن وہ جو آپ کہہ رہے تھے عوام کے مشورے سے ان کی فلاح و بہبود۔
ارے بھئی شہباز یہ سب کہنے کی باتیں ہیں انہیں بہت زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا کرتے۔ عوام کو بہلانے کے لیے یہ سب کہنا پڑتا ہے۔ عوام تواسی سے پھولے نہیں سماتے کہ ان کا حاکم ان کی مرضی سے منتخب ہوتا ہے۔ ان کو اس سے کیا غرض کہ حکومت ان کی مرضی سے کرتا ہے یا نہیں؟ ویسے یہ ممکن بھی نہیں ہے اس لئے حکمراں کس کس کی مانے لیکن اس نظام کی ایک خوبی یہ ہے اس میں حکمرانوں کی کوتاہیوں کے لیے عوام ذمہ دار ٹھہرائے جاتے ہیں۔
شہباز نے چونک کر پوچھا وہ کیسے؟
وزیر بولے اس لیے کہ وہی تو نا اہل نمائندوں کو منتخب کرنے کی غلطی کرتے ہیں اس لئے ذمہ دار کون ہوا؟ وزیر محترم کی باتیں سن کر شہباز کو اطمینان ہو گیا۔
ایک سال بعد وادیِ خیبر میں انتخابات کا اعلان ہو گیا وزیر موصوف نے اپنا وعدہ پورا کیا اور شہباز کو اپنی پارٹی کا ٹکٹ دے دیا لیکن حزب اختلاف کب پیچھے رہنے والا تھا اس کے آدمیوں نے پتہ لگایا شہبازسے کون ٹکر لے سکتا ہے؟ فطری طور پر ان کی نظر انتخاب شہزاد پر پڑی۔ یہ انتخابات چونکہ مقامی اداروں کیلئے تھے اس لیے مختلف قومی جماعتوں کے زیر سرپرستی شہباز اور شہزاد آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اتار دئیے گئے۔ ایک کا نشان رگبی کا بال تھا اور دوسرے کا نشان مینڈھا تھا۔
بچپن کا کھیل اور جوانی کی لڑائی پھر سے شروع ہو گئی تھی۔
عوام زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگا نے لگے۔
کسی اور کو کامیاب کرنے یا شکست دینے کی خاطر عام لوگ ایک دوسرے سے دست و گریباں تھے۔
لڑنا کسی اور کو تھا اور جیتنا کسی اور کو۔
مرنا کسی اور کو تھا اور ہارنا کسی اور کو۔
وہی پرانا کھیل ایک نئے انداز میں پھر سے کھیلا جا رہا تھا۔
٭٭٭