یار قسم سے بس مجھے تھوڑا سا وقت دو میں جلد ہی اپنے پیرنٹس کو تمھارے گھر لاؤ گا۔
میں تمھارا یہی جملہ کتنے مہینوں سے سن رہی ہوں۔
نور کو راحیل کی بات سن کر غصہ آگیا تھا۔
یار تمھیں مجھ پر ٹرسٹ تو ہے نہ اور تمھیں پتہ ہے کہ میں صرف تم سے پیار کرتا ہوں اور صرف تم سے ہی شادی کروں گا۔
مجھے تم پر پورا ٹرسٹ ہے راحیل۔
شکریہ مجھ پر بھروسہ کرنے کے لیئے۔
راحیل نے نور کے ہاتھوں پر اپنا ھاتھ رکھتے ہوئے کہا جسے نور نے آہستہ سے ہٹا دیا۔
اچھا چلو کینٹین چلتے ہیں بھت بھوک لگ رہی ہے۔
نور نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
ہاں چلو بھوک تو مجھے بھی لگ رہی ہے۔
وہ دونوں کینٹین کی طرف بڑھ گئے۔
********************¬********
آؤ نور میں تمھیں چھوڑ دوں۔
نور کالج کے باہر ڈرائیور کا انتظار کر رہی تھی جب ارسلان کی گاڑی اس کے پاس آ کر رکی۔
نو تھینکس میں خود چلی جاؤ گی۔
نور نے دھوپ سے بچنے کے لیئے رجسٹر اپنے سر پر رکھا۔
نور ہر بات پر ضد نھیں کرتے ۔دیکھو دھوپ کتنی تیز ہے ۔میں تمھیں ڈراپ کر دیتا ہوں۔
واقع نور کو بھت گرمی لگ رہی تھی اسلیئے چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ گئ۔
نور۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور جو گھر کے سامنے گاڑی رکنے پر اس سے اترنے لگی تھی ارسلان کی پکار پر اسے الجھتے ہوئے دیکھنے لگی۔
نور مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔
ارسلان نے کہا۔
ہاں بولو۔
نور مجھے نھیں پتا کب کیسے لیکن مجھے تم سے محبت ہو گئ ہے۔میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں نور ۔
میں جلد امی کو تمھارے گھر بھیجنا چاہتا ہوں رشتے کی بات کرنے کے لیئے۔
ارسلان کے صرف الفاظ ہی نھیں بلکہ اس کی آنکھوں میں بھی سچائ تھی۔
کہہ لیا آپ تو اب میں جاؤں؟
نور نے ضبط سے کہا۔
پہلے میری بات کا جواب تو دےدو۔
ارسلان کی آواز میں بے بسے تھی۔
جواب سنا چاہتے ہیں نا آپ تو سنیں مجھے آپ سے بالکل محبت نھیں ہے اور نا ہی میں آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔میں کسی اور سے محبت کرتی ہوں اور صرف اسی سے ہی شادی کروں گی۔
نور کی بات سن کر ارسلان کے دل میں کچھ ٹوٹا تھا۔
آئندہ مجھ سے ایسی کوئ بھی بات کرنے سے گریز کیجیئے گا۔
نور کہہ کر گاڑی سے اتر گئی ۔
ارسلان کی آنکھہ سے ایک آنسوں گرا جسے اس نے بے دردی سے رگڑ دیا۔
********************¬********
آپی آپ کے بال اتنے خوبصورت ہے تو آپ یہ حجاب کیوں لیتی ہیں۔
نور نے نایاب کے بالوں کو دیکھتے ہوئے کہا جو اسکی کمر سے بھی نیچے آر ہے تھے۔
کیونکہ یہ میرے رب کا حکم ہے اور یہ ہم سب پر فرض ہے۔
میں تو کہوں گی کہ تم
بھی کیا کرو۔
آپی آپ کو پتا ہے نا کہ مجھ سے نھیں سنبھالہ جاتا یہ سب۔
نور نے کہا۔
اور کتنا ٹائم لگے گا لڑکیوں؟
مائرہ بیگم نے روم میں آکر کہا۔
بس چچی ہم تیار ہیں۔
نایاب نے حجاب کو باندھتے ہوئے کہا۔
ماشاءاللہ میری بچیوں کو کسی کی نظر نا لگے ۔بھت پیاری لگ رہی ہو دونوں۔
مائرہ بیگم نے نایاب اور نور کو دیکھتے ہوئے کہا جو بھت خوبصورت لگ رہی تھیں۔
نایاب نے ڈارک بلو کلر کی فراک پہنی ہوئ تھی اور اسی رنگ کا حجاب پہنا ہوا تھا ،لائٹ سے میک میں وہ بھت خوبصورت لگ رہی تھی۔
نور نے پرپل کلر کی میکسی پہنی ہوئ تھی اور بالوں کو اسٹریٹ کر کے کھولا ہوا تھا ۔
اچھا جلدی کرو بارات آ جائے گی۔
مائرہ بیگم کہہ کر کمرے سے چلی گئ ۔
آج ان کے قریبی رشتے دار کے گھر شادی تھی اور وہ سب وہی جانے کے لیئے تیار تھے۔
********************¬********
کوئ باتوں میں مصروف تھا تو کوئ سیلفی لینے میں۔
نایاب اور نور بھی بیٹھی باتیں کر رہی تھی جب سامنے سے آتی زاہرہ بیگم کو دیکھ کر وہ سلام کرنے کے لیئے انکی جانب بڑھ گئیں۔
السلام پھوپھو۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نور نے کہا۔
وعلیکم السلام۔ ماشاءاللہ میری بیٹی تو بھت پیاری لگ رہی ہے۔
زاہرہ بیگم نے نور کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔
السلام و علیکم پھوپھو۔
نایاب نے بھی جھجکتے ہوئے السلام کیا۔
وعلیکم السلام۔
انداز احسان کرنے والا تھا۔
نایاب چپ چاپ واپس جانے لگی جب اس کی نظر ازلان پر پڑی جو اسے ہی غصے سے گھور رہا تھا۔
نایاب نے اسے اسے نظر انداز کیا اور چپ چاپ اپنی جگہ پر بیٹھ گئ۔
آپی ادھر آنا زرا۔
نور کی آواز سن کر نایاب
اس س کے پاس جا رہی تھی کہ اس کی ٹکر کسی سے ہو گئ اور اسکے ہاتھ میں موجود جوس نایاب پر گر گیا۔
نایاب جوس صاف کرنے کے لیئے اندر کی جانب بڑھ گئ۔
********************¬********
نایاب جب واشروم سے باہر روم میں آئ تو اسے دروازہ بند ہونے کی آواز آئ ۔
نایاب سامنے موجود بندے کو دیکھ کر حیران ہو گئ اس سے پہلے وہ چیخ مارتی اس نے سختی سے اپنا ہاتھ نایاب کی منہ پر رکھ دیا۔
********************¬**********
نایاب اپنے سامنے موجود شخص کو دیکھ کر حیران تھی ۔اسے ایک لمحہ نھیں لگا تھا یہ پھچاننے میں کہ یہ وہی اس دن باتمیزی کرنے والے تینوں لڑکوں میں سے ایک ہے۔
کیا ہوا ڈر گئ مجھے دیکھ کر ۔اس دن تو تمھارے عاشق نے تمھیں بچا لیا تھا لیکن آج کون بچائے گا تمھیں مجھ سے۔
اس نے نایاب کے دونوں ہاتھ قابوں میں کرتے ہوئے کہا۔
تمھیں اللہ کا واسطہ ہے پلیز مجھے جانے دو۔
نایاب نے روتے ہوئے کہا ۔
ارے ایسے کیسے جانے دو میں تمھیں اتنی مشکل سے تو ملی ہو ۔جب میں نے تمھیں نیچے دیکھا تو مجھے یقین ہی نھیں آیا اپنی قسمت پر۔
وہ خباثت سے مسکرایا۔
پلیز بچاؤ کوئ۔کوئ مدد کرو میری۔
نایاب اپنے ہاتھ چھڑواتے ہوئے چیخنے لگی۔
چپ بالکل چپ ۔
خبردار جو تمھاری آواز نکلی۔
نایاب مسلسل اپنے ھاتھ چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی جب درواز کھلنے کی آواز پر دونوں اس کی طرف متوجہ ہوئے۔
زاہرہ بیگم کو دیکھ کر نایاب نے اپنے رب کا شکر ادا کیا جس نے صحیح وقت پر انھیں بھیج دیا تھا۔
زاہرہ بیگم منہ کر ھاتھ رکھے ان دونوں کو دیکھ رہی تھیں۔
نایاب نے اس شخص کو دھکا دیا اور بھاگتے ہوئے زاہرہ بیگم کے گلے لگ گئ۔
پھوپھو شکر ہے کہ آپ آگئ ورنہ میں بھےمت ڈر گئ تھی۔آپ کو پتہ ہے یہ شخص میرے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چٹاخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زاہرہ بیگم کے پڑنے والے تھپڑ سے نایاب کے باقی کے الفاظ اس کے منہ میں ہی رہ گئے تھے۔
وہ منہ پر ھاتھ رکھے بے یقین نظروں سے انھیں دیکھ رہی جن کی آنکھوں میں اسے اپنے لیئے نفرت کے ساتھ ساتھ حقارت بھی نظر آئ۔
بکواس بند کرو اپنی ۔۔۔۔۔۔مجھے کیا پتا تھا کہ تم منحوس ہونے کے ساتھ ساتھ بدکردار بھی ہوگی۔
اپنی نھیں تو کم از کم ہماری ہی عزت کا خیال کر لیا ہوتا بے حیا لڑکی۔
زاہرہ بیگم نے چیخ کر کہا۔
اپنے بارے میں ایسے الفاظ سنے کے بعد نایاب کا بس نھیں چل رہا تھا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔
پھوپھو میرا یقین کریں میں بالکل سچ کہ رہی ہوں میں نے کچھ نھیں کیا ۔
نایاب کے آنسوں روانی سے بہہ رہے تھے۔
کیا ہو رہا ہے یہاں؟
رفیق صاحب جو ازلان کے ساتھ یہاں سے گزر رہے تھے زاہرہ بیگم کی آواز سن کر یہاں آگئے تھے۔
اور لوگوں کو آتا دیکھ وہ لڑکا چپ چاپ وہاں سے نکل گیا جسے ازلان نے بھی فورا پہچان لیا تھا۔
چاچو وہ۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیا بتائے گی بھائ صاحب میں بتاتی ہوں ۔یہ بے شرم لڑکی اس کمرے میں اپنے عاشق کے ساتھ آپکی
عزت کا جنازہ نکال رہی تھی۔
زاہرہ بیگم کی بات سننے کے بعد رفیق صاحب نے حیرت سے نایاب کو دیکھا جو روتے ہوئے نفی میں گردن ہلا رہی تھی۔
چاچو میرا یقین کریں میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔
نایاب نے روتے ہوئے کہا ۔
کیا مطلب ہے تمھارا کہ میں جھوٹ بول رہی ہوں میں نے خود تمھیں اس لڑکے کے ساتھ اس کمرے میں دیکھا ہے۔
زاہرہ بیگم غصے سے بولی۔
مجھے تو اس پر پہلے ہی شک تھا۔
ازلان نے بھی آگ لگانے میں اپنا حصہ ڈالا۔
ازلان کو نایاب سے لاکھ دشمنی صحیح لیکن اسے پورا یقین تھا کہ نایاب کبھی ایسا نہیں کرسکتی اور اس لڑکے کو دیکھنے کے بعد تو اسے یقین ہو گیا تھا کہ نایاب سچ کہہ رہی ہے لیکن ازلان کو اپنے اس تھپڑ کا بدلہ بھی تو لینا تھا اور وہ یہ موقع ہاتھ سے کیسے جانے دیتا۔۔۔۔۔۔۔
یہ جگہ ان باتوں کے لیئے مناسب نھیں ہے ۔ہم گھر چل کر اس بارے میں بات کریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔ازلان ہم گاڑی میں ویٹ کر رہے ہیں آپ باقی سب کو لے کر آجائیں۔
رفیق صاحب کہہ کر کمرے سے چلے گئے۔
زاہرہ بیگم نے بھی ایک نفرت بھری نظر نایاب پر ڈالی اور کمرے سے چلی گئیں۔
چچچ۔۔۔۔
ویسے مجھے یقین ہے کہ تم سچی ہو اور میں پوری کوشش کروں گا باقی سب کو یہ یقین دلانے کی کہ تم جھوٹی ہو۔
ازلان بھی نایاب کے کانوں میں زہر ڈال کر چلا گیا۔
کمرا پورا خالی ہو چکا تھا اور وہ کسی زندہ لاش کی طرح زمین پر بیٹھی چلی گئ۔
اس کی آنکھیں بالکل خالی تھیں۔
اس کو سمجھ نھیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہوگیا ۔وہ جو ہمیشہ سنبھل سنبھل کر چلی تھی آج اس پر ہی بدکرداری کا الزام لگ گیا تھا۔
تھک ہار کر وہ بھی اٹھ کر باہر کی جانب چل پڑی۔
********************¬********
ہائے اللہ اب اس بدکردار سے شادی کون کرے گا۔
اپنے ماں باپ کے ساتھ یہ بھی کیوں نھیں مرگئ۔
زاہرہ بیگم کی بات سن کر نایاب نے بھی سوچا کہ کاش اگر وہ بھی مر گئ ہوتی تو آج اسے یہ سب نا سہنہ پڑ رہا ہوتا۔
کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ باجی مجھے پورا بھروسہ ہے نایاب پر یقیناً آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئ ہوگی۔
مائرہ بیگم روتی ہوئی نایاب کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔
“کسی کی بھی سمجھ نھی آرہا تھا کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔
رفیق اپنا سر پکڑ کر صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔نور اور سعد بھی خاموش کھڑے تھے۔
ہر کوئ پریشان تھا سوائے ازلان سکندر کے۔”
میں تو کہتی ہوں جلد از جلد شادی کر کہ نکالیں اسے اپنے گھر سے ،پتہ نھیں کس کس سے تو چکر ہے اسکا ۔خدا نخوستہ کل کو کوئ اونچ نیچ ہوگئ تو ہم کیا
کیا جواب دیں گے دنیا والوں کو۔
لیکن اس منحوس سے شادی کون کرے گا۔
میں کروں گا اس سے شادی۔۔۔۔۔۔
ازلان کی بات پر سب نے حیرانی سے اسےدیکھا۔
پاگل ہو گئے ہو کیا۔تمھیں لگتا ہے کہ میں اس جیسی لڑکی کو اپنی بہو بناؤ گی۔
زاہرہ بیگم نے غصے سے کہا۔
امی نے بہت سوچ سمجھ کر کہا ہے اور میں اپنے اس فیصلے سے بالکل پیچھے نھیں ہٹو گا۔
ازلان نے تحمل سے کہا۔
چاچی پلیز میں ان سے شادی نھیں کرو گی۔
نایاب نے روتے ہوئے مائرہ بیگم سے کہا۔
کیا ہو گیا ہے آپ سب کو ۔کیوں اتنی چھوٹی سی بات کا بتنگڑ بنا رہے ہیں آپ لوگ۔مجھے پتا ہے نایاب ایسا کچھ نھیں کر سکتی اور یہ بات کسی کو معلوم بھی نھیں ہے کہ ہمیں کسی کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے۔
مائرہ بیگم نے بھی غصے سے کہا۔
بس بھت سن لی میں نے آپ سب کی باتیں ۔میں مولوی کو لینے جا رہا ہوں آپ سب نکاح کی تیاری کریں۔۔
رفیق صاحب کہہ کر چلے گئے۔
نایاب نے حیرت سے اپنے باپ جیسے چاچو کا بدلتہ ہوا رویہ دیکھا ۔
پتا نھیں ازلان نے زاہرہ بیگم سے ایسا کیا کہا کہ وہ بھی چپ چاپ وہاں سے چلی گئ۔
********************¬********
چپ ہو جاؤ میری جان ۔یو رو رو کر خود کو ہلکان مت کرو۔
مائرہ بیگم نے نایاب کے آنسوں صاف کرتے ہوئے کہا۔
چاچی میں سچ کہہ رہی ہوں میں نے کچھ نھیں کیا ۔
نایاب کے آنسوں کسی صورت نہیں رک رہے تھے۔
ہاں مجھے اپنی تربیت پر اور اپنی بیٹی پر پورا بھروسہ ہے کہ وہ ایسا کچھ نھیں کرسکتی۔
مائرہ بیگم نے بھی اپنی آنکھوں میں میں آئ نمی صاف کی۔
لیکن چاچو نے میرا اعتبار کیوں نھیں کیا۔
نایاب نے دل میں آیا شکوہ کیا۔
میں تو خود حیران ہوں کہ رفیق اتنا بڑا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں۔
مائرہ بیگم نے کہا۔
اچھا میں چلتی ہوں تم یہ جوڑا پہن لینا۔
مائرہ بیگم نے لال رنگ کا جوڑا نایاب کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
چاچو کہاں ہیں؟
نایاب نے ہوچھا۔
وہ اپنے روم میں ہیں۔
مائرہ بیگم کہہ کر چلی گئیں۔
********************¬********
نایاب نے جب دروازہ کھولا تو رفیق صاحب سامنے ہی چیئر پر آنکھیں بند کرکے بیٹھے ہوئے تھے۔
نایاب چپ چاپ جا کر ان کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھ گئ۔
اپنے ہاتھ پر کسی کی پکڑ محسوس کر کہ رفیق صاحب نے اپنی آنکھیں کھولیں جہاں نایاب آنکھوں میں شکوہ لیئے انھیں ھی دیکھ رہی تھی۔
رفیق صاحب نے اپنی نظریں چرائ ۔
آپ کو اپنی نایاب پر زرا سا بھی بھروسہ نہیں ہے چاچو جو آپنے اتنا بڑا فیصلہ لے لیا۔
نایاب نے نم لہجے میں کہا۔
مجھے اپنی بیٹی پر پورا بھروسہ ہے۔
تو پھر آپ نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا؟
کیونکہ میں اپنی بہن کی فطرت سے اچھی طرح واقف ہوں میری بچی۔
کیا مطلب؟
رفیق صاحب کی بات پر نایاب الجھی تھی۔
اپنی پھوپھو کی تم سے نفرت سے تم اچھی طرح واقف ہو۔مجھے پتا ہے جب تک وہ یہ بات پورے خاندان کو نھیں بتا دیتی وہ سکون سے نھیں بیٹھتی لیکن جب تم ان کے گھر کی عزت بن جاؤ گی تو وہ یہ بات کا کسی سے ذکر بھی نھیں کریں گی اور جہاں تک تمھارا معاملہ ہے تو مجھے یقین ہے کہ تم اپنی محبت سے ان کا دل جیت لو گی۔
رفیق صاحب نے تحمل سے کہا۔
آپ کو پتا ہے چاچو میں نے آج تک آپکی کوئ بھی بات رد نھیں کی ۔میں آج بھی آپ کی بات کا احترام کروں گی۔
نایاب نے آنکھوں میں آئ نمی صاف کی۔
مجھے پتا ہے میری نایاب بھت فرمانبردار ہے اور وہ اپنے صبر سے اپنی پھوپھو کا دل صاف کر لے گی۔
رفیق صاحب نے نایاب کے سر پر ھاتھ رکھا۔
مولوی صاحب آگئے ہیں آپ لوگ بھی آجائیں۔
مائرہ بیگم نے کمرے میں آ کر کہا۔
********************¬********
کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟
نایاب نے کبھی نھیں سوچا تھا کہ وہ جس شخص کا کبھی چہرہ بھی نھیں دیکھنا چاہتی آج اس کے نام سے جڑنے جا رہی ہے۔
جی قبول ہے۔
آنسوں ضبط کے باوجود بہہ گئے۔۔
********************¬*******
پورا کمرہ اپنی مثال آپ تھا ۔ہر چیز نفاست سے رکھی ہوئ تھی لیکن سجاوٹ کے نام پر کچھ نا تھا۔
وہ نظریں جھکائے بیٹھی ہوئ تھی۔اسے کسی اچھے کی امید نا تھی لیکن وہ اپنے رب کی رحمت سے مایوس بھی نا تھی۔آج اسے شدت سے اپنے ماں باپ کی یاد آ رہی تھی۔
وہ اپنی سوچوں میں گم تھی جب کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئ۔
زور سے دروازہ بند ہونے کی آواز پر ایک لمحے کے لیئے اس کا دل لرزا تھا۔
ابھی تک ایسے ہی بیٹھی ہو۔تمھیں کیا لگا تھا میں آؤ گا اور تمھاری خوبصورتی کے قصیدے پڑھوں گا۔تم اس لائق بھی نھیں ہو کہ میں ایک نظر تمھیں دیکھوں بھی۔
ہونھہ۔۔۔۔۔۔۔
اپنے آنسوں اندر دھکیلتی وہ منہ پر فقل ڈالے بیٹھی تھی۔
جواب تو وہ بھی دے سکتی تھی لیکن اسے پتا تھا کہ بےشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
ویسے تم سے بڑی بے شرم میں نے اپنی زندگی میں نھیں دیکھی اتنا کچھ سنے کے باوجود ڈھیٹ بن کر بیٹھی ہوئ ہو۔ چلو اٹھو یہاں سے۔
اسکا بازو دبوچتے ہوئے اسنے اسے کھڑا کیا۔
وہ نازو سے پلی کو کہاں سختی کی عادت تھی۔
آنسوں چھپاتی وہ اپنا بھاری جوڑا اٹھاتی واشروم کی جانب بڑھی۔
آنسوں اسکی آنکھوں سی روا تھے لیکن کسے پرواہ تھی۔
وضو کر کے جب وہ باہر نکلی تو کمرے کی لائٹ بند تھی۔
اور وہ اسکی ذات کی نفی کر کے بڑے مزے سے سو رہا تھا۔
کیسے نیند آ جاتی ہے ان لوگوں کو یا رب
جو دوسرے کی نیندیں حرام کر رکھتے ہیں
نظر گھما کر جب اس نے صوفے کی جانب دیکھا تو وہاں ایک تکیہ رکھا ہوا تھا جس کا صاف مطلب تھا کہ اسکی جگہ اس کمرے میں کہاں ہے۔
جائے نماز بچھا کر اس نے نماز ادا کی اور جب دعا کے لیئے ہاتھ اٹھائے تو اسے سمجھ ہی نھیں آیا کہ کیا مانگے ۔
دل نے شکوہ کرنا چاہا لیکن اسنے فورا دل کو ڈبٹا۔
نہیں یا اللہ میں آپ سے کوئی شکوہ نھیں کروں گی کیونکہ مجھے کوئ حق نھیں۔۔میں جانتی ہوں بے شک آپ نے میرے لیئے کچھ بہتر ہی سوچا ہوگا۔بس میرے مالک مجھے ہر مشکل صبر و تحمل سے برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائیے گا۔
آنسوں صاف کر کے وہ صوفے کی جانب بڑھ گئ اور سونے کی کوشش کرنے لگی لیکن نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی
رضا ہے جو تیری میں اس میں راضی ہوں
خطا ہے کیا میری میں اس سے غافل ہوں
بس ایک تیرا ہی آسرا ہے یا خدایا
کیونکہ میں بھت کمزور سی بندی ہوں(نیہا ملک)
********************¬¬***
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...