حجاب نے اپنے آنسو روکے تو چھوٹے بچوں کی طرح اس کی ہچکی بندھ گئی تحریم نے حجاب کے آنسوؤں سے بھیگے ہوۓ چہرے کی طرف دیکھا اوراسے صوفے پر اس طرح نڈھال دیکھ کر صباحت سے کہنے لگی ۔ ’’میں ڈاکٹر کو بلاتی ہوں مجھے تو آپی کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ۔‘‘
حجاب نے ہاتھ ہلایا۔ “نہیں کسی ڈاکٹر کو بلانے کی ضرورت نہیں ہے، میں ٹھیک ہوں ‘‘
’’اس کی نہ سنوتم ڈاکٹر کانمبر ملاؤ‘‘ صباحت کے کہنے پرتحریم نے ڈاکٹر کا نمبر ملایا تھوڑی دیر کے بعد ڈاکٹر صاحب آ گئے انہوں نے حجاب کا معائنہ کیا۔ انہوں نے میڈیسن لکھ کر صباحت کو پر چی دی ۔
”پریشانی کی کوئی بات نہیں، بلڈ پر یشر و ہو گیا تھا، میں نے انجکشن دے دیا ہے انشاءاللہ افاقہ ہوگا۔‘‘
ڈاکٹر صاحب کے جانے کے بعد صباحت نے حجاب کو میڈیسن منگوا کے دی ۔ انجکشن میں کوئی نشہ تھا کہ حجاب گہری نیند سوگئی ،ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا تو صباحت وضو کر کے نماز پڑھنے گئی اس نے خداوند کریم سے دعا کے لیئے ہاتھ اٹھائے تو وہ منظر اسکی آنکھوں کے سامنے آ گیا کہ کہ کس طرح حجاب چھت پر رورہی تھی۔ صباحت کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں۔
“اے میرے رب میں تو اس سے پوچھ بھی نہ سکی کہ وہ اس طرح کیوں رو رہی ہے کیا ہے اسکے من میں میرے رب میری بیٹی کا غم دور کر دے اس کی زندگی میںںخوشیاں بھر دے مجھے صحیح فیصلے کی توفیق عطا کر حجاب فیضان کے لیئے راضی ہو چکی ہے تو پھر وہ کس بات پر رو رہی ہے میرے رب میری بیٹی پر اپنا رحم کر”
صباحت جاۓ نماز سے اٹھی تو تحریم کمرے میں داخل ہوئی ۔ “آپی جاگ گئیں ہیں وہ آپ کو بلا رہی” صباحت بیڈ کے پاس گئی تو وہ بیڈ سے پشت لگا کر بیٹھی تھی صباحت اس کے قریب بیٹھ گئی ۔اس نے حجاب کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
”میری تو جان ہی نکل گئی تھی۔تم اس طرح چھت پر کیوں رورہی تھی ۔ ایسی کون سی بات تھی۔‘‘ حجاب سر جھکائے خاموش بیٹھی رہی ۔ وہ صباحت کو کوئی جواب نہ دے سکی۔ جواب دیتی بھی تو کیا دیتی ۔صباحت نے اس کی اداس آنکھوں میں جھانکا۔
”مجھے ایک بار بتادو کہ تمہاری خوشی کس میں ہے، میں ویسا ہی کروں گی ۔‘‘ حجاب نے انتہائی ملائمت سے ماں کے ہاتھ پرا پنا ہاتھ رکھا۔
”جیسا آپ سمجھ رہی ہیں ، ویسی بات نہیں ہے۔ میری بہت پیاری دوست مجھے چھوڑ کر بہت دور چلی گئی ہے اور اس کے جانے کی خبر اچانک مجھے ملی، بس میں خود پر قابونہ پاسکی ‘‘
“یہ کیا بات ہوئی اسکا پتہ معلوم کرو ہم اس کے گھر چلے جائیں گے۔“
“وہ اپنا ایڈریس بتائے بنا چلی گئی ہے آپ یہ ہی سمجھیں کہ وہ مجھ سے خفا ہوگئی ہے ۔‘‘ حجاب خلا میں نظریں گھمارہی تھی۔
“اتنی سی بات پر تم نے اپنا اتنا برا حال کر لیا اپنا موڈ اچھا کرو وہ دوست اتنی عزیز ہے تو مجھے بتاؤ میں اسے ڈھونڈوں گی تم بتاؤ تمہارے لیئے کیا بناؤں….؟”
’’ابھی کچھ کھانے میں من نہیں ہے۔ جب دل چاہے گا تو بتادوں گی ۔‘‘ حجاب ماں کی خوشی کے لئے مسکرادی۔
’’اگر خاص بھوک نہیں ہے تو ہلکی غذا لے لو مگر کچھ نہ کچھ کھالو۔ میں تمہارے لئے کھیر بنا کے لاتی ہوں۔”
صباحت یہ کہہ کر کچن میں جانے لگی تو فون کی رنگ ہوئی ۔صباحت نے فون اٹھایا تو مسز آفتاب زیدی آن لائن تھیں ۔
’’خدا کا شکر ہے، گھر میں سب خیریت آپ کیسی ہیں بچے کیسے ہیں ۔‘‘ صباحت نے مسز آفتاب زیدی کی بات کے جواب میں کہا۔
”میں نے سوچا کہ حجاب بیٹی آج کل آئی ہوئی۔ اس سے تھوڑی گپ شپ ہو جائے” مسزآفتاب زیدی کی اس بات پر صباحت کے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔
’’حجاب کی طبیعت اچا نک ہی خراب ہوگئی تھی مگر اب قدرے بہتر ہے۔”
مسز آفتاب زیدی یہ بات سنتے ہی پریشان ہوگئیں ۔ ’’ حجاب بیٹی کی طبیعت خراب ہے…… میں آ رہی ہوں، اس سے ملنے‘‘
“آپ زحمت نہ کریں، اب تو وہ ٹھیک ہے ۔‘‘
“بھٹی جب تک میں اپنی بیٹی کو دیکھ نہیں لوں گی میری تسلی نہیں ہوگی۔” یہ کہہ کر مسز آفتاب زیدی نے فون بند کر دیا۔
”مسز آفتاب زیدی آ رہی ہیں تمہاری طبیعت پوچھنے‘‘
یہ سنتے ہی حجاب بستر سے اٹھ گئی ۔
”تم کہاں چلی تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔‘‘ صباحت نے حجاب سے کہا۔
حجاب نے اپنے بالوں کو سمیٹتے ہوئے کہا۔ “اس حالت میں ملوں گی ان سے۔” اس نے الماری میں سے اچھا سا ڈریس نکالا اورتھوڑی دیری میں وہ تیار ہوگئی۔ صباحت نے چاۓ کے ساتھ بازار سے کچھ اشیاء منگوالیں۔
”میں کچن میں تحریم کی مدد کرتی ہوں ۔ حجاب صوفے سے اٹھی تو صباحت نے اسے دوبارہ بٹھا دیا۔ ”کوئی ضرورت نہیں ہے تم آرام کرو تحریم خود کرلے گی۔ میں تمہارے لئے کھیرلاتی ہوں ٹھنڈی ہوگئی ہوگی۔”
صباحت نے حجاب کو کھیر لا کر دی۔ حجاب کھیر کھانے لگی تو اس نے کھیر میں ماں کی شفقت کی مٹھاس محسوس کرتے ہوۓ ترچھی نظر سے ماں کی طرف دیکھا تو وہ بیڈشیٹ سیٹ کر رہی تھیں ۔
“میری بھی عقل ماری گئی تھی جو میں نے مسٹر آفتاب زیدی کو تمہاری بیماری کا بتا دیا۔” صباحت بیڈشیٹ سیٹ کرتے ہوئے بڑ بڑا رہی تھی ۔
ماں کے اس انداز پر حجاب کی ہنسی چھوٹ گئی۔
’’ہاں ہنس لو! تمہیں تو میری باتوں پر ہنسی ہی آۓ گی۔ بوڑھی جو ہوگئی ہوں ۔ تم لوگوں کو اب میری کیا ضرورت لگے رہو‘‘ صباحت بات کا رخ کسی اور طرف لے گئی تو حجاب یکدم سنجیدہ ہوگئی ۔
’’اماں آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں۔‘‘ اسی دوران تحریم کمرے میں داخل ہوئی ۔صباحت تحریم سے مخاطب ہوئی
“گھر کی سیٹنگ ٹھیک طرح سے کر لو۔ فریج میں کباب پڑے ہیں وہ فرائی کر لو”
صباحت حجاب کے پاس سے اٹھ گئی تو حجاب نے محسوس کیا کہ ماں اس سے ناراض ہیں وہ جانتی تھی کہ ماں کی ناراضگی بجا ہے مگر وہ اپنے فیصلے سے مطمئن تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں مسز آفتاب زیدی بھی آ گئی۔ وہ اپنے ساتھ بہت سافروٹ اور کولڈ ڈرنکس کے کین لے کر آئیں۔ ڈرائیور کے ساتھ وہ اکیلی ہی آئی تھیں۔ وہ انتہائی اپنائیت سے حجاب کے پاس بیٹھی رہیں ۔ان کی شخصیت
میں عجیب مقناطیسیت تھی وہ دل موہ لینے والی باتیں کرتیں اور لوگوں کو خود پر اندھا اعتماد کر نے پر مجبور کر دیتیں ۔ صباحت نے اچھی طرح سے ان کی خاطر داری کی ۔
حجاب کی بات کی وجہ سے صباحت مسز آفتاب زیدی کو ایسا کوئی تاثر نہ دے سکی جس سے یہ ظاہر ہو کہ صباحت کی اس رشتے میں رضا مندی نہیں ہے۔ مسز آفتاب زیدی کے جانے کے بعد صباحت کچن کے کام میں مصروف ہو گئی۔ اس نے بہت سمجھایا کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے مگر اس کا فیصلہ اٹل تھا۔ بالآخر صباحت نے بیٹی کا فیصلہ تسلیم کر لیا۔ حجاب نے مسز آفتاب زیدی سے بات کر لی کہ اگر انہیں زریاب کے لئے تحریم کا رشتہ چاہیے تو دونوں بہنوں کی شادی ایک ہی تاریخ پر ہوگی۔ مسز آفتاب زیدی نے حجاب کی بات مان لی اور دونوں بہنوں کا رشتہ ان کے گھر طے ہو گیا۔ کوئی مناسب دن دیکھ کر صباحت نے اپنی سوچ کے مطابق گھر بیچ دیا اور دونوں بیٹیوں کی شادی کی تاریخ بھی طے کر دی ۔ صباحت ، نے دونوں بیٹیوں کے لیے عالیشان جہیز تیار کیا۔ مالک مکان سے شادی تک اس گھر میں رہنے کی اجازت مانگی ۔
شادی کی تیاریوں کی گہما گہمی میں حجاب کی آنکھیں ہر سو ازہاد کو ڈھونڈ رہی تھیں مگر اسے اذہاد کی موجودگی کی کوئی نشانی نہیں ملی ایک سچے اور مخلص دوست کے کھو جانے کا غم حجاب کو اندر ہی اندر گھائل کر رہا تھا اسکے چہرے سے رونق ختم ہو گئی تھی وہ چمد ہی دنوں میں مرجھا سی گئی تھی
رات کے بارہ بج رہے تھے تحریم اور صباحت سو رہی تھی مگر حجاب کی متلاشی نگاہیں گھڑی کی ٹک ٹک کے ساتھ جڑی تھی کہ کب دھی رات ہو اور وہ کمرے سے باہر نکلے
جونہی ایک بجا وہ دھیرے دھیرے چلتی کمرے سے باہر آ گئی اندھیرے میں موبائل کی مہین سی روشنی میں وہ صحن کراس کر کے اس کمرے کی طرف بڑھی جہاں پہلے اذہاد رہتا تھا۔ اس آسیب زدہ کمرے کے باہر صباحت نے قفل کے ساتھ تعویز باندھے ہوۓ تھے۔ وہ کسی بھی حالت میں کسی کو بھی کمرہ کھولنے کی اجازت نہیں دیتی تھی مگر آج حجاب کے ہاتھ میں اس کمرے کی چابی تھی۔ حجاب نے کھڑکی سے اندر کمرے میں جھانکا۔
’’اذہاد ۔‘‘ جواب میں کمرے سے کوئی آواز نہیں آئی۔ حجاب نے قفل کھولنے کی کوشش کی تو اسے قفل کے آگے سے تعویز اتارنے پڑے۔ جونہی اس نے تعویزوں کو ہاتھ لگایا، کسی نے اسے جھٹک کے درخت سے دے مارا، اس کے حلق سے چیخ نکلی، تو اس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔
اچانک انار کے درخت کے پاس گبیھر تاریکی میں دوخوفناک آنکھیں ابھریں حجاب سر تا پا کانپ کے رہ گئی۔ وہ آنکھیں جسامت میں اس قدر بڑی تھیں کہ حجاب کا وجود اس ایک آنکھ میں سما سکتا تھا۔ اس مافوق الفطرت مخلوق کی آنکھوں کے علاوہ اور کوئی حصہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ حجاب کے ہونٹ گنگ ہو گئے ۔ وہ پھٹی پھٹی سے ساکت ان آنکھوں کی طرف دیکھتی رہی ۔آنکھوں کے اندر سے گرج دار آوازا کھری ۔
” کیوں ایک آسیب کی زندگی میں خلل دے رہی ہے ۔ مت ڈھونڈ اسے ورنہ اپنا وجود کھو دے گی ۔ اذہاد روپ بدل چکا ہے اب وہ تیرے سامنے نوجوان لڑکے کے روپ میں کبھی نہیں آۓ گا اپنے کمرے میں واپس چلی جا اوراب اذہاد کو ڈھونڈنے کی کوشش مت کرنا۔“
خوف سے حجاب کی گھگھی بندھ گئی وہ اپنے کمرے کی طرف دوڑی اور کمرے کا دروازہ بند کر کے لمبے لمبے سانس لینے لگی
اسکا چہرہ پسینے سے تر تھا دل کی دھڑکن اس قدر تیز تھی کہ وہ سانس لینے میں گھٹن محسوس کر رہی تھی اسے کچھ سجھائی نہیں دیا تو اس نے سورہ یٰسین نکال کر پڑھنا شروع کر دی اور اسے سینے سے لگا کر بستر میں گھس گئی۔ یہ ڈراؤنی رات بمشکل گزری۔
اگلے دن بھی حجاب ان ڈراؤنی آنکھوں سے خوفزدہ ہوتی رہی اس خوفناک مخلوق کی آواز اسکے کانوں میں گونجتی رہی یہ غم اسکے لیئے سوہان روح بن گیا تھا کہ اس نے اپنے دوست کو کھو دیا ہے ۔اس ۔ کمرے سے ایک آخری امید تھی وہ ختم ہوگئی ۔
مسز آفتاب زیدی (عائشہ بیگم) کے گھر پر بھی شادی کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں ابھی شادی میں پانچ روز باقی تھے۔ زرقا اور مناحل ماں کی مدد کے لئے پہلے ہی آ گئی تھیں۔ عائشہ بیگم ہاتھ میں موبائل لئے بے چینی سے ادھر ادھر ٹہل رہی تھیں ۔
’’ایک تو میں اس لڑکے سے بہت تنگ ہوں ۔ میں نے اسے کہا تھا کہ میرے ساتھ اس وقت جیولرز کے پاس جانا ہے اور یہ لڑکا ہے کہ موبائل بھی اٹینڈ نہیں کر رہا۔” عائشہ بیگم نے منہ میں بڑ بڑاتے ہوۓ اس کے دوست کا نمبر ملایا۔
”ہیلو! جی زریاب کدھر ہے تمہیں کچھ معلوم ہے۔‘‘ جی وہ فارم ہاؤس میں بیٹھا ہے ۔‘‘ زریاب کے دوست نے بتایا۔
” میں اسے فون کر رہی ہوں، وہ موبائل اٹینڈ نہیں کر رہا ….. آنٹی آپ خواہ خواہ پریشان ہو رہی ہیں میں ابھی تھوڑی ہی دیر پہلے فارم ہاؤس سے آیا ہوں دراصل وہ کسی کا بھی فون اٹینڈ نہیں کر رہا۔” “کیوں …….؟‘‘
وہ دراصل سٹیفی ہار گیا۔”
” کیا مطلب ‘‘
“زریاب کا ڈوگ جرمن شیفرڈ۔ بڑی محنت سے اسے ریس کے لئے تیار کیا تھا اس کے ہارنے پر زریاب بہت پریشان ہے”
یہ سب سن کر عائشہ بیگم کا پارہ اور چڑھ گیا
”تمہیں معلوم ہے کہ زریاب کی شادی میں صرف پانچ روز رہ گئے ہیں۔ میں نے اس کے ساتھ اس وقت جیولر کے پاس جانا تھا تم ابھی اسکے پاس جاؤ اور اسے یاد دلاؤ کہ میں اسکا انتظار کر رہی ہوں”
’’ایک منٹ ٹھہریے پہلے میں موبائل پر ٹرائی کرتا ہوں شاید وہ اٹھا لے”
۔”ٹھیک ہے….‘‘ عائشہ بیگم نے فون بند کر دیا۔
کافی دیر کے انتظار کے بعد بھی زریاب کا فون نہ آیا تو عائشہ بیگم نے فارم ہاؤس کے ملازم کو فون کیا
“زریاب کہاں ہے ۔”
“بیگم صاحبہ۔۔۔۔صاحب نے کچھ کتے منگائے تھے وہ انکو لے کر گھر ہی آ رہے ہیں”
” ٹھیک ہے۔” عائشہ بیگم نے فون بند کر دیا۔
کچھ ہی دیر میں زریاب کی جیپ پورچ میں آ کر رکی۔ عائشہ بیگم غصے میں بھری پورچ میں جا کر کھڑی ہو گئی۔ دو ملازمین نے کتوں کو جیپ سے اتارا اور ان کی زنجیریں کھینچتے ہوئے گھر کے ساتھ والے فارم میں لے جانے لگے تو زریاب نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روکا ۔
“ٹھہرو۔” یہ کہہ کر عائشہ بیگم کا ہاتھ پکڑ کے کتوں کے قریب لے گیا۔
’’یہ دیکھیں ماما! ان کی ٹریننگ میں، میں اب کوئی کمی نہیں رکھوں گا۔‘‘ پھر اس نے ملازم سے کہا۔ ’’جاؤ انہیں فارم ہاؤس میں لے جاؤ اور گھوڑوں کو بھی کچھ کھلا دینا۔‘‘
ملازم کے جانے کے بعد عائشہ بیگم زریاب کے کان کھینچی ہوئی اسے اندر لے گئی ۔
“مما کیا ہوا” زریاب ماں کے ساتھ چلتا ہوا بولا اندر کمرے میں لے جانے کے بعد عائشہ بیگم نے زریاب کا کان چھوڑ دیا۔
“میرا قصور تو بتائیں…” زریاب نے سی سی کی آواز نکالتے ہوئے پوچھا
عائشہ بیگم نے غصیلی نظروں سے بیٹے کو سر تاپا دیکھا۔
“صبح باہر جاتے ہوئے میں نے کہا تھا نہ کہ وقت پر آ جانا جیلور کے پاس جانا ہےمگر تمہیں۔”
”آئی ایم سوری مما! میرے ذہن سے نہ جانے کیسے یہ بات نکل گئی چلیں آپ تیار ہیں تو ابھی چلتے ہیں ۔”
یہ کہہ کر زریاب نے گاڑی پورچ سے باہر نکالی ۔
عائشہ بیگم گاڑی میں بیٹھی تو زریاب نے کھڑکی سے جھانکا “سیاہ گھنے بادل چھائے ہیں لگتا ہے رستے میں بارش شروع ہو جائے گی ابھی صرف شام کے پانچ بجے ہیں اور لگتا ہے جیسے غروب آفتاب کا وقت ہو” یہ کہہ کر زریاب گاڑی ہوا میں اڑانے لگا۔
’’آہستہ چلاؤ، اتنی تیزی دکھانے کی ضرورت نہیں ہے ۔‘‘
زریاب نے شوخی سے ماں کی طرف دیکھا۔ ”یہ شادیاں سونے اور قیمتی کپڑوں کے بغیر نہیں ہوسکتیں ‘‘
“ہوسکتی ہیں مگر ہمارے خاندانوں میں نہیں ہوسکتیں۔‘‘عائشہ بیگم نے دوٹوک جواب دیا۔
زریاب کی بات سچ ثابت ہوئی۔ وہ لوگ گھر سے تھوڑ اہی دور گئے تھے کہ بارش شروع ہوگئی ۔زریاب نے خوشی سے نعرہ لگایا۔
’’Ya Hoo بارش میں ڈرائیونگ کرنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔‘‘
گیلی گیلی سڑک پر گاڑیوں کی جگمگاتی روشنیاں فرنٹ کے شیشے کومز ید مدھم کر دیتی، گاڑیوں کے وائپر مسلسل چل رہے تھے مگر بارش اتنی تیز تھی کہ شیشے سے پانی صاف ہی نہیں ہو پا رہا تھا۔
عائشہ بیگم نے اکتاہٹ سے شیشے کی طرف دیکھا۔
“کس قدر خطرناک ہوتا ہے بارش میں ڈرائیونگ کرنا اور تمہیں خوشی ہورہی ہے ۔‘‘
اسی دوران اچانک ایک چھوٹا بچہ سڑک کے وسط میں زریاب کی گاڑی کی سیدھ میں دھندلا سا دکھائی دیا۔ زریاب ہارن دیتا ہوا آگے بڑھتار ہا، اس نے بچے کو قریب سے دیکھا تو اس کے جسم میں جھر جھری دوڑ گئی ۔ دور سے جو بچہ دکھائی دے رہا تھا وہ ڈیڑھ فٹ قد کے لگ بھگ ایک بونا تھا جس کی شکل انتہائی بھیانک تھی۔ زریاب کے اوسان خطا ہو گئے ۔اسے کچھ پتہ نہیں چلا کہ کس طرح وہ بونا اس کی تیز رفتار گاڑی سے ٹکرا گیا۔
وہ فرنٹ شیشے سے ٹکرا کر زمین پر گرا اور فرنٹ شیشہ اس کے لہو میں رنگ گیا۔ زریاب کی گاڑی کی اچانک بریک سے کئی گاڑیوں کے ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے بچے۔ ٹریفک جام ہوگئی۔ پولیس زریاب کی گاڑی کے قریب آئی۔
زریاب اور عائشہ بیگم گھبرا کر گاڑی سے باہر نکلے پولیس انسپکٹر نے سخت کلامی کی
“تمہیں ٹریفیک رولز کا کچھ علم بھی ہے کہ نہیں”
زریاب اٹکتے ہوئے بولا “مجھے نہیں پتہ چلا کہ کیسے اچانک وہ بونا میری گاڑی کے آگے آ گیا”
عائشہ بیگم بھی پسینہ پونچھتے ہوئے بولی۔ ’’ میرا بیٹا سچ کہہ رہا ہے وہ بونا کہاں سے اچا نک گاڑی کے آگے آ گیا”
پولیس انسپکٹر نے ہنستے ہوۓ کہا۔
’’آپ دونوں کی ذہنی حالت درست ہے؟ کون سابونا ، کون سا ایکسیڈنٹ….”
’’سر یہ دیکھیں میری گاڑی کا شیشہ…. زریاب نے فرنٹ شیشے کی طرف دیکھا تو وہ شیشہ بالکل صاف تھا اس پر خون کا ایک چھینٹا تک نہ تھا…. زریاب نے اپنی گاڑی کو سامنے سے بھی چیک کیا مگر ایسا کوئی نشان تک نہ تھا جس سے لگے کہ ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔
پولیس نے گاڑی کے کاغذات چیک کیے اور زریاب کو جانے کے لئے کہا۔
’’ یہ سب کیا تھا مما! آپ نے بھی سب کچھ دیکھا ہے نا۔‘‘
’’ہاں زریاب یوں لگتا جیسے وہ صرف ہمیں ہی دکھائی دیا ہے۔ مجھے گھبراہٹ کی ہورہی ہے تم گھر چلو”
“جیولرز کے پاس نہیں جانا”
”پھر دوبارہ آ جائیں گے، نہ جانے آگے ہمارے ساتھ کیا ہو۔
عائشہ بیگم کے کہنے پر زریاب نے گاڑی واپس موڑ لی۔ پورے راستے عائشہ بیگم درودشریف کا ورد کرتی رہی گھر آئی تو آتے ہی ملازمہ سے پانی مانگا اور وہ دونو ٹی وی لاؤنج میں بیٹھ گئے
“آج جو کچھ ہوا اسکا ذکر کسی سے مت کرنا، شادی والا گھر ہے ایسے تذکرے نہیں ہونا چاہئیں۔” عائشہ نے زریاب کو سمجھاتے ہوۓ کہا۔
“جب تک میں یہ بات نو دس لوگوں کو نہیں بتاؤں گا میرا خوف ختم نہیں ہوگا” زریاب نے اپنے پیشانی سے پسینہ پونچھا
عائشہ بیگم ڈانٹ کر بولی۔
” بچوں جیسی باتیں مت کرو کچھ لوگ جو ہم سے حسد کرتے ہیں وہی اس طرح کے جادو ٹونے کرتے ہیں تا کہ ہماری خوشیاں بدمزہ ہو جائیں۔ ایک کام کرو جیولر کوفون کر کے گھر پر بلا لو۔ اسے کہو جو بھی نئے ڈیزائن آۓ ہیں سب لے آۓ ۔
زریاب نے کہنے کے مطابق جیولر کر گھر بلا لیا تقریباً ایک گھنٹے بعد جیولر گھر آ گیا
زریاب اور عائشہ بیگم کے ساتھ زرقا اور مناحل بھی جیولری پسند کرنے میں مشغول ہوگئیں ۔
’’مما! ان چڑیلوں کو کیوں بلا لیا ہے، یہ تو اپنے لئے ہی سونا پسند کرتی رہیں گی۔‘‘
زرقا شوخ انداز میں بولی ۔
’’دو بھائیوں کی شادی ہے۔ ہم دونوں سے ایک ایک سونے کا سیٹ لیں گے۔‘‘
” ٹھیک ہے ! مما ان دونوں کو ایک ایک آرٹیفیشل جیولری کا سیٹ دلا دینا ۔‘‘ مناحل نے کھا جانے والی نظروں سے زریاب کی طرف دیکھا۔
“کیا کہا تم نے…”
عائشہ بیگم مسکراتے ہوۓ بولی “تم دونوں کو تو پتا ہے نہ زریاب کی مزاق کرنے کی عادت ہے۔ تم دونوں اپنے لیئے ایک ایک سیٹ پسند کر لو”
دونوں بہنوں کے چہرے کھل اٹھے جیولری کا کام نبٹانے کے بعد عائشہ بیگم زری کے کپڑوں کے بارے میں مشورہ کرنے لگی.
“کل میں آپکے ساتھ بازار جاؤں گی کام والے کام بھی نبٹا لیں گے” مناحل نے کہا تو عائشہ بیگم کو صبح والا کار ایکسیڈنٹ کا حادثہ یاد آ گیا۔
“مما کہاں کھو گئیں” مماحل نے ماں کے شانے پر ہاتھ رکھا تو انہوں نے جھرجھری لی عائشہ بیگم کے چہرے پر پریشانی کے اثرات واضح ہو گئے زرقا نے انکا ہاتھ تھام کر پوچھا ” مما کیا بات ہے کس بات سے پریشان ہیں”
”بس ذراسی گھبراہٹ ہے کہ اتنا بڑا فنکشن ہے کوئی گڑ بڑ نہ ہو۔”یہ سن کر مناحل نے ان کا ہاتھ تھام لیا۔
’’ہم دونوں بہنیں ہیں ناسب سنبھال لیں گی ۔آپ پریشان نہ ہوب سب ٹھیک سے ہو جاۓ گا۔‘‘
عائشہ بیگم کے دل میں آیا کہ وہ بیٹیوں سے کھل کر بات کرے مگر وہ اتناہی کہہ پائی ۔
’’کام کاج یا تیاری کی بات نہیں ، عجیب طرح کے وسوسے ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ ان دنوں زریاب اور فیضان گھر سے باہر نہ جائیں مجھے لوگوں کی نظروں سے ڈرلگتا ہے ۔‘‘
’’واہ مما! آپ یہ کس طرح کی باتیں کر رہی ہیں۔ لڑکیوں کو تو گھر میں بٹھا سکتے ہیں مگر لڑکوں کو کون گھر میں
بٹھا سکتا ہے۔ آپ بلا وجہ وہم کر رہی ہیں۔صدقہ دیں، خیرات بانٹیں انشاءاللہ ہماری خوشیوں کوکسی کی نظر نہیں لگے گی۔” زرقا کی یہ بات عائشہ بیگم کے دل کو لگی کہ واقعی صدقہ اور خیرات انسان کو نا گہانی افتاد سے بچالیتا ہے۔
اگلے روز عائشہ بیگم کا مصروف ترین دن تھا۔ رات کو تیل ابٹن کی رسم تھی ۔ زرقا اور عائشہ صبح صبح ہی بازار کے لئے نکل گئیں، انہیں کڑھائی کے لئے دیئے ہوئے کپڑے اٹھانے تھے۔
دوپہر کو زریاب اپنی فیملی کے ساتھ لنچ میں مصروف تھا کہ اسے ملازم نے بتایا کہ کوئی اس سے ملنے آیا ہے
“تم اسے روم میں بٹھاؤ میں ابھی آتا ہوں۔” زریاب نے ملازم سے کہا، ملازم نے انتہائی انکساری سے جواب دیا۔
“سر وہ شخص جلدی میں ۔ ہے کہ آپ کی امانت آپ کو سو نپنی ہے۔‘‘ زریاب کھانا چھوڑ کر باہر گیراج کی طرف گیا۔
وہ شخص اپنی جیپ کے پاس کھڑا انتظار کر رہا تھا
زریاب اس سے خوش اسلوبی سے ملا۔
“معذرت چاہتا ہوں میں نے آپکو پہچانا نہیں”
“مجھے رؤف صاحب نے بھیجا ہے آپ نے ان سے بل ڈاگ کے لیئے کہا تھا” اس نے جیپ کی طرف اشارہ کیا تو دو ملازم لوہے کی موٹی کی زنجیر سے بندھا چھریرے بدن اور اونچی قامت والا کتا لے کر زریاب کی طرف بڑھے۔اس کے چوڑے جبڑے کو جالی سے باندھا ہوا تھا
زریاب نے کتے کا بغور جائزہ لیا۔
’’اس میں کون سی خاص بات ہے۔”
اس شخص نے فخریہ انداز میں کہا۔
”دیکھنے میں تو یہ دوسرے شکاری کتوں سے تھوڑا سا ہی مختلف ہے مگر دوسرے کتوں سے بہت آگے ہے۔ آپ اسے ریچھ سے لڑا کر دیکھ لیں ایک جھٹکے میں اسے پھاڑ پھینکے گا۔اب مجھے اجازت دیں۔” یہ کہہ کر اس شخص نے ملازموں سے کہا کہ کتا فارم ہاؤس بھجوادیا۔
اس شخص کے جانے کے بعد زریاب دوبارہ گھر والوں کے ساتھ کھانے میں مشغول ہو گیا۔ رات کو ابٹن کا فنکشن بہت دھوم دھام سے ہوا۔ رات گئے تک فننکشن جاری رہا۔ ایک بجے تک یہ رسومات ہوتی رہیں تقریبا دو بجے تک سب مہمان اپنے گھروں کولوٹ گئے۔ گھر والے اور گھر میں ٹھہرے ہوۓ مہمان تھکے ہارے بستروں میں گھس گئے ۔ فیضان بھی جا کر اپنے کمرے میں سو گیا۔ زریاب نے بھی اپنے کپڑے تبدیل کئے اور بستر پر براجمان ہو گیا۔ ” توبہ ہے یہ فضول رسومات ……شادی کا فنکشن ایک ہی دن میں ہونا چاہیے۔‘‘ زریاب اپنے بازوؤں کو – سیدھا کر تے ہوئے چت لیٹ گیا۔
اسکی آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں اسے پتہ نہ چلا کب نیند آ گئی کہ اچانک کوئی اسکا دروازہ بری طرح پیٹنے لگا
زریاب ہڑ بڑا کر اٹھا۔ ” کون ہے….“
“دروازہ پیٹنے والا جیسے دروازہ توڑنے پر تلا تھا زریاب غصے سے بولتا ہوا دروازے کی طرف بڑھا۔
“کون ہے جو اسطرح دروازہ پیٹ رہا ہے”
“سر وه فارم ہاؤس…” ملازم کا سانس اس قدر پھولا ہوا تھا کہ وہ صحیح سے کچھ بول نہیں پا رہا تھا
“کیا بات ہے کہا ہوا فارم ہاؤس کو”
ملازم نے خودکوسنبھالا۔
’’سر فارم ہاؤس کے گھوڑے بے قابو ہو گئے ہیں ۔ گھوڑوں نے اپنی لگامیں بھی توڑ لی ہیں وہ بری طرح ڈر گئے ہیں جن ملازمین نے انہیں پکڑنے کی کوششیں کی انہیں بھی پٹخ پٹخ کر زخمی کر دیا ہے۔‘‘ زریاب برقی سرعت سے فارم ہاؤس کی طرف دوڑا۔ کوٹھی کے باقی ملازمین بھی زریاب کے ساتھ فارم ہاؤس کی طرف دوڑے۔گھوڑوں کی ہنہناہٹ اوران کے ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرانے کا شور فارم ہاؤس سے پورچ تک صاف سنائی دے رہا تھا۔ زریاب فارم ہاؤس پہنچا تو گھوڑوں نے جیسے بھونچال مچا رکھا تھا۔ وہ کسی چیز سے ڈر کر بھاگنے کی کوشش میں ایک دوسرے سے ٹکرار ہے تھے۔
’’جلدی سے انہیں ایک ایک کر کے فارم ہاؤس سے باہر نکالو۔‘‘ زریاب نے ملازمین سے کہا۔
“مگر……”
’’اگر مگر کچھ نہیں، جو میں کہتا ہوں وہ کرو‘‘ یہ کہہ کر زریاب گھوڑوں کی بھگدڑ میں کود پڑا۔ زریاب نے ملازمین کے ساتھ مل کر بمشکل گھوڑوں کو باہر نکالا ۔
جب فارم ہاؤس میں چار گھوڑے رہ گئے تو زریاب ان کی حرکات کا بغور جائزہ لینے لگا۔ وہ خوفزدہ ہو کے اپنی اگلی دو ٹانگوں کو زمین پر مارتے اور پھر اس طرح ہنہناتے جیسے کچھ بتانے کی کوشش کر رہے ہوں ۔ وہ فارم ہاؤس سے باہر جانے کے لئے بے چین ہور ہے تھے۔
زریاب نے ملازم سے پوچھا “یہ کونسے کتے کی آواز ہے”
ملازم نے تشویش بھرے لہجے میں کہا۔ “سر یہ نیا کتا ہے جو آج آیا ہے۔ ہمیشہ سے ساتھ والے حصے میں کتے بندھے ہوتے ہیں گھوڑے ان کی غرغراہٹوں کی آوازیں سنتے رہتے ہیں ۔ وہ تو ان آوازوں کے عادی ہیں مگر سچ مانیے جب سے یہ نیا کتا آیا ہے جب ہے تب سے یہ گھوڑے ڈر رہے ہیں۔مجھے تو لگتا ہے کہ اس کی غرغراہٹ کے بعد ہی گھوڑوں میں بھگدڑ مچی ہے۔‘‘
کچھ دیر کے لیئے زریاب کسی سوچ میں پڑ گیا پھر اس نے ملازم سے کہہ کر کتے کو فارم ہاؤس کی دوسری منزل پر بندھوادیا۔
“گھوڑے بے شک کتوں کے عادی ہو سکتے ہیں مگر یہ نئے کتے سے خوفزدہ ہیں”
زریاب نے ملازم کو سجھایا مگر ملازم کے لہجے میں ابھی تک گھبراہٹ تھی۔
”سراس کتے کا برتاؤ بھی بہت عجیب ہے۔ جب سے آیا ہے کچھ نہیں کھا رہا بس مسلسل غرائے جا رہا ہے۔”
’’ نئے ماحول میں کتے ایسا برتاؤ کرتے ہیں ۔ تم بس گھوڑوں کا خیال رکھو، انہیں باہر گراؤنڈ میں ہی بندھا رہنے دو۔ گھر میں مہمان آۓ ہوۓ ہیں ، اب کوئی شور شرابا نہ ہو۔‘‘ زریاب باہر نکلا تو عائشہ بیگم فارم ہاؤس کے باہر کھڑی تھیں ۔
’’یہ کیسا شور تھا، فارم ہاؤس میں سب ٹھیک تو ہے اور یہ گھوڑے……. یہ گھوڑے یوں باہر گراؤنڈ میں چھوڑ رکھے ہیں۔‘‘
ماں کے سوالوں کے جواب میں زریاب نے انہیں ساری صورتحال بتائی۔ عائشہ بیگم پریشان ہوگئیں ۔
’’میں ابھی روڈا یکسیڈنٹ کا واقعہ نہیں بھولی اور اب یہ سب کچھ…”
’’اوہ مما! وہ واقعہ تو خوفناک تھا مگر یہ مسئلہ تو عام ہے، گھوڑے خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔”
عائشہ بیگم نے سہمے ہوۓ گھوڑوں کی طرف دیکھا۔ ’’میرا دل ڈوب رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے پراسرار واقعات کسی بڑی نا گہانی آفت کی طرف اشارہ ہے۔‘‘
تم تو جانتے ہو کہ فیضان کی بیوی کے مرنے کے بعد میں نے جہاں بھی فیضان کے رشتے کی بات چلائی کوئی نہ کوئ انہونی ہوئی ہے ایک سال پہلے میں نے جس لڑکی کی فیضان کے سات منگنی کی تھی نہ جانے کیسے اس کا قتل ہوا تھا۔
زریاب نے ماں کے کندھوں میں باہیں حائل کر لیں اور انہیں اندر لے گیا
’’اس بارایسا کچھ نہیں ہوگا ۔ آپ خدا پر بھروسہ رکھیں ‘‘ زریاب نے ماں کو سمجھایا۔
ادھر صباحت کے گھر ابٹن کی رسم کے بعد سب مہمان گہری نیند سو چکے تھے۔حجاب اپنے کمرے میں کھڑ کی کے پاس کھڑی باہر لان میں پڑے جھولے کو مسلسل دیکھ رہی تھی ۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ آج پھر یہ جھولا زور سے ہلے اور اذہاد پھر سے غیبی سے مادی وجود میں اس کے سامنے آ کو اسے چونکا دے
اسکی جھولے پر ٹھہری ہوئی آنکھیں بھیگ گئیں ۔
“ایک بار تو آؤ اذہاد ایسی بھی کیا ناراضگی تمہاری دوست بھرے میلے میں تنہا ہے دیکھو میں نے پیلا جوڑا پہن لیا ہے۔ آج میری ابٹن کی رسم تھی ، کل میرے ہاتھوں میں مہندی لگے گی۔ آج سب لوگ بہت خوش تھے مگر خوشیوں بھرے ان قہقہوں میں میری مسکراہٹ کہیں گم ہو گئی مگر میری ان محسوسات کا کسی کو شائبہ تک نہ ہوا، میرا چہرہ پڑھنے والا دوست جو میرے پاس نہیں تھا۔‘‘
حجاب انہیں سوچوں میں گم بستر پر براجمان ہوگئی۔
عائشہ بیگم نے اپنے دونوں بیٹوں کی مہندی بہت شاندار طریقے سے کی۔
صباحت نے بھی مہمانوں کی خاطر داری میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔
حجاب اور تحریم مہندی کے پیلے جوڑوں میں اور ان پھولوں کے گہنوں میں بہت پیاری لگ رہی تھیں۔ حجاب کے خاندان کے لوگوں نے مختلف پروگرامز ترتیب دے کر فنکشن کی رونق کو چار چاند لگا دیئے۔ رات گئے فنکشن رہا
فیضان کی پھو پھوملا زموں سے خاص خاص کام کروانے کے لئے گھر پر ہی ٹھہر گئیں۔ دو گھر کی سٹینگ کروا رہی تھی۔ایک ملازم آرٹیفیشل پلانٹ لے کر فیضان کے کمرے کے قریب آیا۔
“خالہ جی! یہ ملا رکھ دوں۔ بیگم صاحبہ نے کہا تھا کہ فیضان صاحب کے کمرے کے باہر یہ پلانٹ رکھنا۔”
پھوپھو نے اثبات میں سر ہلایا ۔
فیضان کے کمرے سے عجیب سی آوازیں سنائی دیں۔ وہ درواز کھول کر اندر چلی گئی۔ کمرے کی ہر چیز اپنی جگہ پر تھی کرے میں کوئی نہیں تھا
ملازم نے باہر پوچھا۔ “کوئی اور کام ہے تو بتادیں ‘‘
فیضان کی پھو پھو کمرے سے باہرآ گئیں ۔
“نہیں۔ بس تم جاؤ، ایسا لگ رہا تھا کہ کمرے میں کو ئی ہے مگر کمرے میں کوئی نہیں”
“بی بی جی! آپ کا وہم ہوگا۔ بھلا کمرے میں کون جاۓ ہیں، باقی تو سارے مہندی لے کر گئے ہیں۔”
’’اچھا اچھا، جاؤ اپنا کام کرو۔‘‘ وہ ملازم کی تفصیلات سے چڑ کر بولی۔
مہندی کا فنکشن اپنی پوری رونق اور آب و تاب کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ صبح ہوتے ہی عائشہ بیگم نے بکرا ذبح کروا کے غریبوں میں بانٹ دیا۔ پھر وہ مہمانوں کے ناشتے میں مصروف ہوگئیں۔ زرقا ماں کے ساتھ کچن میں ہاتھ بٹانے لگیں۔
’’مما! صدقہ دینے کے بعد دل کو تسلی ہو گئی ہے۔ بارات جانے سے پہلے یہ کام بہت ضروری تھا، دو بھائیوں کی اکٹھی شادی ہے ۔لوگوں کی نظروں سے خدا بچائے رکھے ۔‘‘
عائشہ بیگم نے کچن کے باہر دیکھا کہ کوئی ان دونوں کی باتیں تو نہیں سن رہا۔ پھر وہ سرگوشی کے انداز میں بولیں ۔ ”میں فیضان کے رویے سے بہت خوفزدہ ہوں، مہندی اور ابٹن کے فنکشن میں وہ اس طرح گم صم بیٹھا ہے جیسے یہ شادی اس کی مرضی کے خلاف ہورہی ہے ۔ نہ جانے حجاب سے وہ کیا برتاؤ کرے گا‘‘
زرقانے قریب ہو کے جواب دیا۔
’’مما! آپ کیا بھول گئی ہیں کہ جب آپ نے فیضان سے حجاب کے رشتے کی بات کی تھی تو اس نے کتنا ہنگامہ بر پا کیا تھا کہ وہ کسی بھی لڑکی سے شادی نہیں کرے گا مگر آپ کے مجبور کر نے پر وہ یہ کہہ کر رضامند ہو گیا تھا کہ اب اگر آپ کی یہی ضد ہے تو پوری کر لیں۔ اس کے بعد فیضان بھائی نے اس رشتے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی ۔ مگر آپ کہتی تھیں مجھے حجاب پر پورا بھروسہ ہے تو پھر سے کیوں پریشان ہوتی ہیں۔‘‘
“ہاں شاید تھوڑی دیر کے لیئے میں بھول گئی تھی میں تو فیضان کے چہرے پر ایسی ہی خوشی دیکھنا چاہتی تھی جیسی زریاب کے چہرے پر تھی۔” مناحل کچن میں داخل ہوئی ۔
’’مما! اگر ناشتہ بن گیا ہے تو جلدی سے مہمانوں کو دیں پاپا کہہ رہے ہیں کہ بارات کی روانگی میں دیر نہیں ہونی چاہیے۔”
“ابھی تو ناشتہ تیار نہیں ہوا خانساماں بازار اے کچھ سامان لینے گیا ہے تم آؤ ذرا زرقا کے ساتھ مل کر برتن نکالو، میں دیکھ کر آتی ہوں کہ ملازمہ نے بستر سمیٹے ہیں یا نہیں۔”
دونوں بہنیں مل کر برتن نکالنے لگیں۔ اتنی دیر میں خانساماں سامان لے آیا ، دونوں نے مل کر اس کے ساتھ ناشتے کی تیاری کی ،سارے کام ٹائم پر ہو گئے اور بارات مقررہ ٹائم پر روانہ ہوگئی۔
صباحت بیٹی کی شادی کی خوشی میں برقی سرعت سے کام نبٹا رہی تھی۔ احساس ذمہ داری نے اس کے جسم سے بڑھاپے کے اثرات جیسے ختم کر دیئے تھے۔ آج وہ جیسے اپنی ہر بیماری بھولی ہوئی تھی ۔
لڑکیاں ڈھولک کی تھاپ پر شادی بیاہ کے روائتی گیت گا رہی تھیں۔ صباحت ان سے مخاطب ہوئی ۔
“تحریم اور حجاب بیوٹی پارلر گئے ہیں بارات وہاں سے چل پڑی ہے۔ وہ دونوں ابھی تک کیوں نہیں آئیں”
ایک لڑکی دوڑتی ہوئی صباحت کے قریب آئی
’’حجاب اور تحریم تیار ہو کے آ گئی ہیں۔‘‘ ڈھولک کے قریب بیٹی لڑکیاں ڈھولک چھوڑ کے غل مچاتی ہوئی انہیں دیکھنے چلی گئیں۔ ان دنوں کو ہال میں بٹھا دیا۔ساری لڑکیاں حجاب اور تحریم کے گرد جمع ہوگئیں۔
صباحت اپنی بیٹیوں کو اس روپ میں دیکھنے کے لیے بے چین تھی۔ صباحت بے تابی سے لڑکیوں کو پیچھے کر کے اپنی بیٹیوں کو دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی ۔
“بھئی پیچھے ہٹ جاؤ ،اماں آئی ہیں۔‘‘ ثانیہ نے آگے بڑھ کر لڑکیوں کو پیچھے کیا۔
صباحت نے اپنی بیٹیوں کو اس روپ میں دیکھا تو بس دیکھتی رہ گئی۔ دیدہ زیب لہنگوں میں خوبصورت میک اپ کے ساتھ قیمتی زیورات میں وہ دونوں پریوں سے کم نہیں لگ رہی تھیں ۔ صباحت نے ان دونوں کی پیشانی پر بوسہ دیا۔
”تمہارے چمکتے چہروں کی طرح تمہارا نصیب بھی چمکتا رہے”
حجاب نے ماں کا ہاتھ تھام لیا۔ ’’ آپ ہمارے پاس بیٹھیں ‘‘
’’میری جان بارات آنے والی ہے۔ ابھی بہت کام پڑا ہے۔‘‘ صباحت نے اس کے گرد بانہیں حائل کر دیں
تھوڑی دیر تک بارات بھی پہنچ گئی۔ باراتیوں کے استقبال کے بعد انہیں کھانا پیش کیا گیا۔ پھر مسکراہٹوں اور خوشیوں بھری اس رونق میں ساری رسومات ادا کی گئیں۔ مگر جب رخصتی کا وقت آیا تو خوشیوں بھری سب کی آنکھیں آنسوؤں میں ڈوب گئیں۔ قرآن پاک کی چھاؤں میں دونوں بہنیں پیا گھر سدھار گئیں۔
دونوں بہنیں اپنے سسرال پہنچیں تو ان کا بڑے والہانہ انداز سے استقبال کیا گیا۔ پوری کوٹھی آتش بازی کے شعلوں میں نہا گئی دونوں جوڑے سٹیج پر پہنچے تو وہاں پھر سے رسومات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ دونوں بہنیں ان رسموں سے تھک گئی تھیں ۔
ثانیہ ان دونوں کے ساتھ تھی تحفے اور چھوٹی چھوٹی رسومات کا سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا۔ حجاب اور تحریم کو ان کے کمرے میں لے جانے لگے تو بہنیں راستہ روک کے کھڑی ہوگئیں کہ ان کے ہاتھوں میں کچھ رکھیں گے تو کمروں میں جانے دیں گے۔ عائشہ بیگم نے اس رسم کے لیے دو انگوٹھیاں پہلے ہی بنا کر رکھی تھیں۔ دونوں بھائیوں نے بہنوں کو انگوٹھیاں دے کر یہ آ خری رسم بھی پوری کر دی ۔ دونوں دلہنوں کو ان کے کمروں میں بٹھا دیا گیا۔
عائشہ بیگم نے نظر بھر کر حجاب کو دیکھا اور کہا
“اب یہ گھونگھٹ میرا بیٹا ہی اٹھائے گا۔‘‘ حجاب شرما کراپنے آنچل میں سمٹ گئی۔ کمرے سے باہر جاتے ہوئی انہوں نے فیضان سے کہا ۔ ” بیٹا، بہو کا خیال رکھنا۔“ فیضان نے جواب میں کچھ نہیں کہا اور کمرے کا دروازہ لاک کر لیا۔
فیضان صوفے پر بیٹھ گیا۔ اس نے جیب سے سگریٹ کی ڈبی نکالی اور سگریٹ سلگا کے اس کے کش لینے لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں اس نے پانچ سگریٹس دھویں میں اڑا دیئے۔
حجاب گھونگھٹ میں سے متعجب نظروں سے فیضان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ سگر بیٹوں کے دھوئیں نے کمرے کا ماحول آلودہ کر دیا۔ حجاب کوسگریٹ کے دھوئیں سے الرجک تھی اس کا سانس لینا دشوار ہو گیا۔ وہ کھانسنے لگی ۔ فیضان کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ بکھر گئی۔اس نے اپنی سگریٹ ڈبی اور ایش ٹرے اٹھائی اور حجاب کے قریب آ کر بیٹھ گیا۔
حجاب بری طرح کھانس رہی تھی۔
فیضان نے اس کا گھونگھٹ اٹھایا اور جلتی ہوئی سگر یٹ اس کے چہرے کے قریب کر دی۔
آنکھوں میں اس جلی سگریٹ کا دھواں پڑنے کے باعث حجاب نے چندی چندی نظروں سے فیضان کی طرف دیکھا۔
’’یہ آپ کیا کر رہے ہیں، پلیز آپ سگریٹ نہ پیئیں ۔‘‘
ابھی حجاب اتنا ہی کہہ پائی تھی کہ فیضان نے جلتی ہوئی سگریٹ اس کے چہرے پر لگا دی۔ حجاب چیخ اٹھی۔
حجاب نے خوفزدہ نظروں سے فیضان دیکھا تو اس کے لب کانپنے لگے۔ ’’ آپ کو اگر میری بات بری لگی ہے تو معاف کردیں مگر ایسا ظلم نہ کریں۔”
اس درندہ صفت انسان نے حجاب کو اپنے بازوؤں کے حصار سے جکڑ لیا پھر دو پٹہ اس کے منہ پر ٹھونس دیا۔
“یہ تمہاری منہ دکھائی ہے” یہ کہہ کر فیضان نے تین چار سگریٹ سلگائے اوران سے حجاب کا چہرہ جگہ جگہ سے جلا دیا۔ تکلیف کی شدت سے حجاب کا چہرہ سرخ ہو گیا اس کی آنکھیں ابل پڑیں مگر اس کی چیخیں اس کے اندرہی گھٹ کر رہ گئیں۔
اسی دوران فیضان کو کھڑکی کے باہر آہٹیں سنائی دیں
اس نے حجاب کے ہاتھ بیڈ سے باندھے اور کھڑکی کی پرف قدم بڑھائے
اس نے تھوڑی سی کھڑکی کھول کر باہر لان میں نظر دوڑائی۔ باہر سناٹا تھا اسے کوئی نظر نہیں آیا۔ اس نے دوبارہ کھڑ کی بند کر دی اور حجاب کے پاس بیٹھ گیا۔ حجاب کے ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ اس نے اپنی سفاک نظروں سے حجاب کی طرف دیکھا۔ ”تم کیوں روپ بدل بدل کر میری زندگی میں آ جاتی ہوں ۔ایمن ! میں نے تمہیں دوسال پہلے موت کے
گھاٹ اتار دیا تھا مگر تم بار بار زندہ کیوں ہو جاتی ہو۔ پچھلے سال تم نے ایک لڑکی کا روپ دھار کر میری زندگی میں آنے کی کوشش کی تو میں نے تمہیں ایک بار پھر قتل کیا اور آج تم حجاب کا روپ لے کر میری زندگی میں آ گئی ہو۔ آج پھر میں تمہیں موت کی نیند سلا دوں گا ۔‘‘
حجاب پھٹی پھٹی آنکھوں کے ساتھ نفی کے انداز میں سر ہلاتی رہی کہ وہ ایمن نہیں ہے مگر فیضان بپھرے ہوۓ شیر کی طرح حجاب پر برس رہا تھا۔ میں تمہیں کس قدر چاہتا تھا تم نے مجھے دھوکا دیا، اپنی شادی شدہ زندگی کوتم نے اپنی بدکرداری کے اندوہناک اندھیرے میں ڈبو دیا۔
یہ کہہ کر فیضان نے تکیہ حجاب کے منہ پر رکھ دیا۔ ۔
حجاب کا سانس رک گیا وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگی۔ تکلیف سے بیڈ پر زور زور سے ٹانگیں مار رہی تھیں ۔
اچانک کمرے میں بھونچال آ گیا الماریوں میں سجے ڈیکوریشن پیس دھڑام دھڑام سے زمین پر گرنے لگے کھڑکیاں دروازے زور زور سے بجنے لگے فیضان حواس باختہ ادھر ادھر دیکھنے لگا مگر وہ اپنے ارادے سے باز نہیں آیا۔ اس نے تکیے پر اپنی گرفت اور مضبوط کر دی۔
حجاب کی تڑپتی ہوئی ٹانگیں اب کمزور پڑنے لگیں جیسے زندگی اسکا دامن چھوڑ کر جا رہی ہو۔
اس وقت ایک دھماکے کے ساتھ سامنے بڑی کھڑکی کا شیشہ ٹوٹا اور ایک خوفناک کتا اس کھڑکی سے ہوا کو چیرتا ہوا فیضان پرکود پڑا۔
وہ خونخوار کتا فیضان کے جسم کا گوشت نوچنے لگا حجاب بے سدھ بے ہوش پڑی تھی
بیڈ کی چادر فیضان کے خون میں رنگ گئی ۔
فیضان کی چیخ و پکار سن کر بہت سے لوگ دروازہ توڑنے کی کوششیں کرنے لگے۔ زریاب اور عائشہ بیگم بھی چلا رہے تھے۔
•●•●•●•●•●•●•●•●•
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...