کویت میں مقیم شاعروں میں بدر سیمابؔ ایک قابلِ توجہ اور پُر کشش نام ہے۔ تازہ دم لب و لہجہ میں اپنی شاعری کے وسیلہ سے کچھ کہہ جانے کا حوصلہ اُن کو بہت سے شاعروں سے ممیز رکھتا ہے۔ آج جب کہ فرسودہ راہوں پر چلتے ہوئے ردیف و قافیہ کے درمیان کرتب بازی کرنے والے شاعر، الفاظ کو اوزان کی لڑی میں پرو کر بے جان اور روندی ہوئی شاعری کے مجموعے دھڑا دھڑ جنم دے رہے ہیں۔ بدر سیماب کا یہ مجموعہ ’’تمھیں سوچا تمھیں چاہا‘‘ ایک ہدیہ دل فریب کی طرح ہے۔ آج کے ایسے ماحول میں بدر سیماب ان فن کاروں میں سے ہیں کہ جو اپنی شعری پہچان تعلقات اور اشتہاری عمل سے بے پروا ہو کر ادبی ماحول میں بنانا چاہتے ہیں اور یہ بے حد خوش آئند بات ہے۔
بدر سیماب کی شاعری میں پہلی نظر میں ہی شعلہ کی شناخت اجاگر ہوتی ہے۔ اس میں عبقری ذہن کی جھلک بھی ہے اور فکری اشارتیں بھی۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ مطالعہ اور داخلی نکتہ رس سے اپنی ذکاوت کو ممیز کرتے ہیں۔ ان کی شاعری معصومیت سے انحراف بھی رکھتی ہے اور نئے لہجہ کو عمداً توجہ طلب بناتی ہے۔ راست گفتاری ان کا پیرایۂ اظہار ہے۔ ان کی شاعری میں رومانوی خواب پرستی بھی ہے، رسوم و قیود سے نبرد آزما ہونے کا جذبہ بھی شہادت کا احترام بھی ہے۔ ماں سے بے حد جذباتی رشتہ بھی۔ اُنھوں نے اپنی شاعری میں بلند آہنگ تراکیب و تلمیحات، علامات اور استعارات کی بیساکھیاں قوت بیان کے لیے منتخب نہیں کی ہیں بلکہ راست اسلوب بیان میں ایک خاص کاٹ کے ساتھ اپنی بات کہتے ہیں اس بات کی کوشش بھی کرتے ہیں کہ ان کے شعر نثری بیان کی شکل نہ لے لیں بلکہ شعری اکائی بن کے ابھریں۔ چند اشعار بلا تبصرہ آپ کی نذر ہیں:
اب کسی اور کی جانب نہ اشارہ جائے
ہم کو ہر بار نہ مقتل سے پکارا جائے
میں نے سوچا تھا کوئی خواب نگر
ہاں مگر راہ گزر بھول گیا!
دل بے ربط کو احساس نہیں
عمر کیسے ہو بسر بھول گیا
تیرے سکھ کی خاطر جاناں
اپنے درد بھلا بیٹھے ہیں
ان کی شعری کائنات جذبات کی حدت کو اپنے اندر سمو کر بے حد متفاعل (Interactive) ہو گئی ہے اور دل سے قریب ہونے کا نسب نما اس میں اپنے آپ آ گیا ہے۔ اس لیے ہر شعر سامع / قاری کی توجہ کا دامن کھینچتا ہے۔
شدت اظہار کی ایک اچھی مثال ان کی نظم ’’ماں جی‘‘ ہے۔ جو آب دیدہ بھی کر دیتی ہے محبتوں سے لبریز شعر فلسفیانہ کائنات سے نکل کر ذات کے دائرہ میں تاثر داخل کر دیتے ہیں۔ بدر سیمابؔ اپنے اس مجموعۂ کلام سے جریدۂ عالم پر اپنے اثبات کا اعلان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس مجموعہ کے مطالعہ سے ایک ذہنی مسرت ہوتی ہے اور اس کے لیے میں اُنھیں دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
٭٭٭