سید اسد تابش
سید اسد علی جن کا قلمی نام سید اسد تابش ہے یکم جولائی ۱۹۷۳ کو بارسی ٹاکلی ضلع اکولہ میں پیدا ہوئے۔ ایم اے بی ایڈ تک تعلیم حاصل کی اور اب اسی شہر کے ایک تعلیمی ادارے، بابا صاحب دھابے کر ودھیالیہ و جونیئر کالج میں مدرس ہیں۔ طالبِ علمی کے زمانے ہی سے انھیں لکھنے کا شوق رہا ہے۔ اسکول میں کئی یک بابی ڈرامے پیش کر چکے ہیں۔ نثر اور شاعری میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔ بچوں کے لیے لکھی گئی ان کی کہانیاں، ڈرامے اور مزاحیہ مضامین ملک کے مشہور رسائل مثلاً ماہنامہ امنگ، بچوں کی دنیا، الفاظِ ہند اور شگوفہ میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ادبی حلقوں میں مشہور ہونے کے علاوہ وہ ایک مقبول مدرس بھی ہیں۔
بدلتے موسم
سید اسد تابش
یوں تو سال میں تین موسم ہوتے ہیں لیکن لوگ، پت جھڑ، ساون بسنت، بہار میں سے کسی ایک کا جب ذکر کرتے ہیں تو اسے بھی چوتھا موسم قرار دیتے ہیں۔ بعض لوگوں کے نزدیک پانچواں موسم پیار کا ہوا کرتا ہے۔ شاید اس بات میں یہ اشارہ موجود ہے کہ پیار کا بھی کوئی بھروسہ نہیں کب موسم کی طرح بدل جائے۔ ہمارے نزدیک تو یہ موسم کم اور موسمی بخار زیادہ ہے۔ سبھی موسموں کا تغیر و تبدل بھلا لگتا ہے۔ جبکہ دنیا میں حکومتیں بدلتی ہیں، حالات بدلتے ہیں، نیتیں بدلتی ہیں تکنولوجی بدلتی ہے، فیشن بدلتے ہیں اور اقدار بھی بدلتی ہیں۔ نہ جانے بدل جانے کی یہ ادا ان چیزوں نے موسموں سے سیکھی ہے یا موسم کو بھی ان ہی نے بگاڑا ہے۔
ہمارے کرم فرما انیس صاحب کو مختلف علاقوں کی مشہور الوانِ نعمت کا ذائقہ اچھا لگتا ہے۔ اسی لیے وہ مختلف علاقوں کی سیر کر کے جہاں جو چیز مل جائے سیر ہو کر کھاتے ہیں۔ انھیں سیر کا اصل مزہ دستر خوان ہی پر دستیاب ہوتا ہے۔ ہم جب بھی ہر نئے موسم کی تبدیلی پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں: بھائی دنیا میں اتنی چیزیں ہیں لطف اندوز ہونے کے لیے، آپ ہیں کہ موسم کی تبدیلی ہی کے مزے میں گم ہیں اور پھر وہ بارہا سنایا ہوا شعردہراتے ہیں جس میں چند کلیوں پر قناعت کر جانے کی مذمت کی گئی ہے۔ ظاہر ہے ہمارا ذوق ان سے جدا ہے اور ہمیں ہر بدلتا ہوا موسم اس لیے بھی پسند ہے کہ ایک عربی محاورے کے مطابق ہر نئی چیز لذیذ ہوا کرتی ہے۔
ایک مرتبہ ہمارے ایک شناسا نے جو ذرا اونچا سنتے تھے ہم سے شکایتاً کہا، یار ملتے نہیں ہو آج کل؟ ہمیں جلد کوئی معقول بہانا سوجھا نہیں۔ سنبھلتے ہوئے کہا: ’’سردی پڑ رہی ہے، دن چھوٹے ہو گئے ہیں‘‘ ۔ وہ اپنے کان پر ہاتھ رکھ کو بولے، کیا کہا دل چھوٹے ہو گئے ہیں؟ ہم نے تصحیح کی تو کہنے لگے۔ زندگی میں پہلی بار سن رہا ہوں، بالکل نئی اور منفردو جہ ہے۔ دوستوں سے نہ ملنے کا نیا بہانا ڈھونڈ لیا تم نے۔۔ ۔۔ ۔
ایک بزرگوار مئی کی گرم دوپہر میں ہمیں بینک میں ملے۔ یوں تو وہ بات بات پر جھلاہٹ کا شکار ہو جایا کرتے تھے، مگر ہماری طرف محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے ’’۔ کہو کیسے ہو،‘‘ بہت جلدپتہ چل گیا کہ انھیں بینک کا کوئی فارم ہم سے بھروانا تھا۔ خوشامد بھرے لہجے میں کہنے لگے: ’’برخوردار! آج کل ملاقات نہیں کرتے۔ کہاں مصروف رہتے ہو؟‘‘ ہم نے مسکرا کر ان کے فارم پر ایک نگاہِ غلط انداز ڈالی اور جیب سے پین نکالتے ہوئے کہا: ’’گرمی کے دن چل رہے ہیں نا؟‘‘ حسب عادت غصے سے کہا: ’’پھر؟ گرمی کھاتی ہے کیا تم کو‘‘۔ ہم نے کہا، ’’نہیں، در اصل سورج ہم پر کچھ زیادہ مہربان ہے۔ اس پر انھوں نے طنزیہ لہجے میں کہا: کیا تم سوریہ ونشی ہو؟‘‘
اس کا جواب کیا دیتے۔ خاموشی سے فارم بھر کر ان کے حوالے کیا اور چلتے بنے۔
بارش کے موسم میں گھومنا پھرنا تو گویا ہماری ہابی ہے، کسی سے مڈ بھیڑ کا خطرہ جو نہیں رہتا۔ بارش کے ڈر سے لوگ گھروں سے نکلنے کی ہمت نہیں کرتے۔ بارش میں چھتری لے کر نکلنے کی ایک اور بھی وجہ ہے۔ جن کے پاس چھتری نہیں وہ رکے رہتے ہیں اور آپ چلتے جاتے ہیں۔ ایک بارش ہی کیا زندگی میں بھی اس امتیازی شان سے چلنا ہمیں ایک الگ قسم کے سرور سے دوچار کرتا ہے۔
ایک مرتبہ ایام نو جوانی میں ایک بارات کے ساتھ شادی میں جانے کا اتفاق ہوا۔ بارات کی ذمہ داری یعنی باراتیوں کو گاڑی میں بٹھانا، جائے نوشہ پر کھانے پینے اور دیگر انتظامات ہمارے رشتے کے دو ماموؤں کے ذمے تھے۔ بارات میں ان کا طنطنہ دیکھ کر ہم رشک کرتے جاتے تھے۔ وہ بھی ہماری کیفیت کو جان گئے تھے اسی لیے ہمیں ادھر ادھر کے کاموں میں لگا دیا کرتے تھے۔ ہم ان کا قہر کم کرنے کے لیے کچھ کہتے تو جواب ملتا۔ آج موسم بہت خوشگوار ہے۔ ہم نے جب بھی جب بھی کوئی بات کرنی چاہی انھوں نے تان موسم ہی پر توڑی ہمیں بے اختیار یہ شعر یاد آیا۔
موسم ہی پہ ہم کرتے رہے تبصرہ تا دیر
دل جس سے دکھے ایسی کوئی بات نہ آئی
اس دن محسوس ہوا کہ موسم کا سب سے بڑا فائدہ، جو لوگوں کی نظر سے پوشیدہ ہے، یہی ہے کہ ہم جب کسی سے ملیں تو دل دکھانے والی باتوں سے بچ نکلنے کے لئے موسم کے تذکرے سے بہتر کوئی علاج نہیں۔ یوں تو یہ انگریزوں کا شیوہ ہے کہ وہ ملتے ہی سب سے پہلے موسم کی بات کرتے ہیں۔ ان کا دیکھا دیکھی ہم نے بھی یہی طریقہ اپنا لیا۔ ورنہ ہمارے گاؤں اور قصبوں میں عام طور پر یہ رواج رہا ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے ملتے تو سب سے پہلے خیریت دریافت کرتے اور یہ پوچھتے کہ تم نے کھانا کھا لیا یا نہیں۔ ظاہر ہے کہ اس رواج میں ہماری تہذیب اور اس سے زیادہ ہماری غربت جھلکتی ہے مگر اس سے زیادہ لوگوں کا خلوص اور انسانی ہمدردی اس میں پوشیدہ ہے۔
بات چلی تھی ان ماموؤں کی جو موسم کی تعریف میں مگن تھے، اچانک موسم نے کروٹ بدلی، موسلا دھار بارش شروع ہو گئی، پتہ چلا وہ دونوں بجلی سے بچوں سے بھی زیادہ ڈرتے ہیں اسی لیے کسی کمرے میں جا کر چھپ گئے ہیں ہم وہاں پہنچے اور موسم کا راگ چھیڑ دیا جو انھیں بالکل پسند نہیں آیا اور وہ بار بار کہتے میاں تم یہاں سے جاؤ ہمیں چین سے بیٹھنے دو، ہم کہاں چپ رہنے والے تھے دیر تک بجلی سے مرنے والوں کے ایک سے ایک خطر ناک واقعات سنا سنا کر انھیں ہلکان کرتے رہے آخر انھوں نے دھمکی دے ڈالی کہ یہاں سے نہ ٹلے تو ہم سے برا کوئی نہ ہو گا۔ مجبوراً ہمیں بدلتے ہوئے موسم کی طرح وہاں سے رخصت ہونا پڑا۔