کمرے میں ٹیلی فون کی تیز گھنٹی کی آواز سے عائشہ کی آنکھ کھلی۔اُس نے مندی مندی آنکھوں سے وال کلاک پر ٹائم دیکھا،شام کے چار بج رہے تھے۔انتہائی سستی اور کاہلی سے اُس نے پی ٹی سی ایل فون کا ریسیور اٹھایا۔
’’تم اپنا سیل فون کیوں نہیں اٹینڈ کر رہی ہو۔۔۔‘‘دوسری جانب ماہم کی تیز آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔
’’یار گھنٹی کی آواز بند کر رکھی تھی،سو رہی تھی میں۔۔۔‘‘ عائشہ نے لمبی جمائی لیتے ہوئے بیزاری سے جواب دیا۔وہ ابھی مزید سونا چاہتی تھی۔کافی دن کے بعد ہی تو اُسے آج کھل کر نیند آئی تھی۔
’’ہاں ظاہر ہے کہ اتنے اچھے پرپوزل کے بعد انسان کو ایسی ہی پرسکون نیند آتی ہے۔۔۔‘‘ماہم کے طنزیہ لہجے پر اس کی آنکھیں مکمل طور پر کھلیں۔’’کون سے پرپوزل۔۔۔؟؟؟‘‘
’’لو اب یہ بھی میں ہی بتاؤں۔۔۔‘‘ماہم کی کاٹ دار ہنسی نے عائشہ کی ساری نیند بھک کر کے اڑا دی۔
’’ظاہر ہے جب تم مجھے بتاؤ گی تو میں تم ہی سے پوچھوں گی۔۔۔‘‘عائشہ کو اس کا طرز تخاطب بالکل اچھا نہیں لگا۔
’’یار تم واقعی اتنی معصوم اور بھولی ہو یا بس ایکٹینگ کرتی ہو۔اگر ایکٹینگ کرتی ہوتو قسم سے لاجواب کرتی ہو۔اب اگلے آسکر ایوارڈکے لیے تمہارا نام تو بنتا ہے ‘‘ ماہم کے لہجے کی چھبن وہ یہاں اتنی دور بیٹھے ہوئے بھی محسوس کر سکتی تھی۔
’’میں نے تو ثمن آپی سے کہہ دیا ہے کہ اب تو آپ کو احیان کی ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں،عائشہ تو پیدائشی مدر ٹریسا ہے،اس لیے بے فکر ہو جائیں۔۔۔‘‘ ماہم کا لہجہ سلگ رہا تھا جب کہ عائشہ اُس کی کوئی بھی بات سمجھنے سے قاصر تھی۔
’’تم کہنا کیا چاہتی ہو۔۔۔‘‘اُس نے ماہم کی بات کاٹ کر پوچھا۔
’’میرے چاہنے یا نہ چاہنے کو تم چھوڑو،لیکن یہ بتاؤ کہ اگر انصر بھائی ہی سے شادی کرنے تھی تو پہلے بتا دیتیں،آپی خود بخود ہی تمہارے حق میں دستبردار ہو جاتیں۔‘‘ماہم کی بات سن کر عائشہ کا دماغ بھک کر کے اڑا۔
’’واٹ۔۔۔؟؟؟؟‘‘وہ خلاف عادت چیخی۔ ’’تمہارا دماغ ٹھیک ہے۔۔۔؟؟؟‘‘عائشہ کو اپنے سارے جسم کا خون ابلتا ہوا محسوس ہوا۔
’’میرا دماغ تو ٹھیک ہے تم پہلی فرصت میں اپناچیک کرواو۔۔۔‘‘ماہم نے دو بدو جواب دیا۔’’تم نے کیا سوچا تھا کہ تم مجھے انصر بھائی کے پرپوزل کا نہیں بتاؤ گی تو مجھے کیا پتا ہی نہیں چلے گا۔‘‘ماہم بولی نہیں بلکہ چیخی تھی۔
’’کیوں میرے لیے کیا پوری دنیا میں انصر بھائی ہی رہ گئے ہیں۔۔۔‘‘عائشہ نے بمشکل خود پر ضبط کر کے طنزاً پوچھا۔
’’ہاں تمہاری ماما کو تو شاید یہ ہی لگتا ہے کہ عائشہ رحیم کو کوئی اور اچھا پرپوزل تو ملے گا نہیں تو چلو ان کا بھانجا ہی سہی۔۔۔‘‘ ماہم نے اُس کے سر پر بم ہی تو پھوڑا تھا۔کئی لمحوں تک تو عائشہ بول ہی نہیں سکی اور جب بات اُسے سمجھ میں آئی تو فورا ہی ریسیور کریڈل پر پٹخا اور ننگے پاؤں ہی کمرے سے نکلی۔ماما اور موحد بھائی دونوں شام کی چائے لان میں اکھٹے پیتے تھے۔اس وقت بھی وہیں تھے۔
’’ماما یہ کیا خالہ کا دماغ خراب ہے جو ایسی بہکی بہکی حرکتیں کر رہی ہیں۔۔۔‘‘ وہ کمر پر ہاتھ رکھ کر انتہائی غصّے سے بولی ۔اُسے انداز ہ ہو گیا تھا کہ خالہ کے کل کے ہنگامی دورے کا کیا مقصد تھا۔
’’کیوں،کیا ہوا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ما ما کے چہرے کی اڑتی رنگت نے عائشہ کو باور کروادیا کہ بات میں کوئی نہ کوئی سچائی ضرور ہے۔
’’خالہ کل کیا کرنے آئیں تھیں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اُس کے انگ انگ سے خفگی امڈ رہی تھی۔موحد بھی حیرت سے اُسے دیکھ رہا تھا جو سونے کے بعد منہ ہاتھ دھوئے بغیر ہی ننگے پاؤں یہاں موجود تھی۔
’’کچھ نہیں،وہ تو ویسے ہی آئیں تھیں،ہوا کیا ہے۔۔۔‘‘ماما بوکھلاہٹ کا شکار ہوئیں۔
’’ان کی جرأت کیسے ہوئی کہ وہ انصر بھائی کے پرپوزل کے لیے میرا نام لیں۔۔۔‘‘عائشہ کا شدید اشتعال کی وجہ سے تنفس تیز ہوا۔موحد کو بھی اس بات سے کرنٹ لگا۔وہ حیرت سے ماما کا چہرہ دیکھنے لگا وہ خود بھی اس واقعے سے اتنا ہی لا علم تھا جتنی عائشہ۔۔۔
’’ارے بیٹا،ایسی کوئی بات نہیں،انہوں نے سرسری سا ذکر کیا تھا،میں نے فوراً ہی منع کر دیا۔۔۔‘‘ ماما نے صفائی دینے کی کوشش کی۔
’’ہاں ،اُس کے بعد انہوں نے پورے خاندان میں یہ بات گھما دی کہ وہ عائشہ اور انصر کے رشتے کی بات کر کے آئیں ہیں۔۔۔‘‘ غصّے سے عائشہ کے چہرے کا رنگ سرخ ہوا۔
’’خالہ کا دماغ ٹھیک ہے،میں ان سے بات کرتا ہوں۔۔۔‘‘موحد نے فورا ہی اپنا سیل فون نکالا۔
’’کچھ نہیں ہے ایسا،موحد فون بند کرو۔۔۔‘‘ماما کے لہجے میں سختی در آئی۔
’’کیوں،انہوں نے عائشہ کو کیا لاوارث سمجھ رکھا ہے۔انہوں نے ایسی فضول بات کی ہی کیوں۔۔۔؟؟؟‘‘موحد بھی فوراً ہی ہتھے سے اکھڑا۔
’’تم دونوں نے کیا تماشا بنا رکھا ہے۔جب میں کہہ رہی ہوں کہ ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔‘‘ماما تھوڑا سا بلند آواز میں بولیں۔
’’تو آپ کے خیال میں عائشہ نے کوئی خواب دیکھا ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ موحد کے لہجے میں بلا کی کاٹ تھی۔
’’تمہیں کس نے بتایا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ماما اب عائشہ کی طرف متوجہ ہوئیں۔
’’ماہم نے۔۔۔‘‘ غصہ اور ناراضگی عائشہ کے لہجے اور آنکھوں سے امڈ رہی تھی۔
’’ماہم نے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماما کو دھچکا سا لگا۔ ’’ان کے گھر تک یہ بات کیسے پہنچی۔۔۔؟؟؟؟‘‘ماما کے ہاتھوں سے طوطے اڑے۔
’’انہوں نے آپ کے ڈرائینگ روم میں خفیہ کیمرے نصب کروا رکھے ہیں۔۔۔‘‘موحد نے ایک دفعہ پھر طنز کیا۔’’ظاہر ہے آپ کی بہن صاحبہ ہی نے ڈھنڈورا پیٹا ہوگا،اب آپ تو جاکر بتانے سے رہیں۔‘‘
’’یہ تو بہت غلط کیا آپا نے۔۔۔‘‘ماما کو حقیقتاً صدمہ پہنچا۔
’’انہوں نے غلط کیا یا صحیح کیا،آپ اپنی زبان میں ان کو بتا دیں کہ جہاں جہاں اشتہار لگا کر آئیں ہیں وہاں وہاں پہلی فرصت میں ہٹا دیں،ورنہ مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔‘‘ موحد کی آنکھوں سے شعلے ہی تو لپکے تھے۔وہ اب اپنی وہیل چئیر کے پہیوں پر تیز تیز ہاتھ مارتا ہوا اندر جا رہا تھا جب کہ عائشہ اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھام کر وہیں کرسی پر بیٹھ گئی۔اُسے معلوم تھا کہ ماہم اور ثمن آپی کے سامنے اپنی پوزیشن صاف کرنا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے۔
* * *
’’بہت تیز اور شاطر نکلی،تمہاری یہ عائشہ۔۔۔‘‘ ثمن آپی نے ناخنوں پر کیوٹکس لگاتے ہوئے ماہم کو مخاطب کیا ۔جو دو کھیرے کے ٹکڑے آنکھوں پر رکھے بڑے آرام اور سکون سے لیٹی ہوئی تھی۔اتوار کا دن ہونے کی وجہ سے دونوں ہی بہنیں گھر پر تھیں۔
’’میں تو بہت معصوم،بھولی اور بے وقوف سی لڑکی سمجھتی تھی اُسے۔۔۔‘‘ ثمن آپی نے نیل پالش کی شیشی کو زور زور سے ہلاتے ہوئے مزید کہا۔
’’آج کے دور میں کوئی بھی معصوم اور بھولا نہیں ہوتا آپی۔۔۔‘‘ماہم نے صوفے پر لیٹے لیٹے جواب دیا۔
’’وہ تو تمہاری بات ٹھیک ہے لیکن اب اتنا بھی رشتوں کا کال نہیں پڑا کہ انکل رحیم اپنی بیٹی کو کسی دوسری شادی والے کے پلّے باندھ دیں۔‘‘ ثمن آپی کو ابھی تک یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی
’’خیرعائشہ کے لیے تو واقعی ہی کا ل پڑا ہوا ہے۔۔۔‘‘ماہم طنزا ہنسی۔’’ایک تو شکل وصورت اللہ نے ویسی دی ہے اوپر سے اس نے خدمت خلق کر کر کے اپنا بیڑا غرق کر لیا ہے۔‘‘
’’مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ وہ کچی آبادی اور خانہ بدوشوں کی جھونپڑیوں میں چلی کیسے جاتی ہے۔۔۔‘‘ثمن آپی نے ناک چڑھا کر نزاکت سے کہا۔
’’اُسے کچھ نہیں ہوتا،اُس کو اللہ نے سونگھنے والی حس دی ہی نہیں۔۔۔‘‘ماہم نے صاف اُس کا مذاق اڑایا تو ثمن آپی بے ساختہ ہنس پڑیں۔
’’ویسے تم نے شام میں اچھی کلاس لی اُس کی۔۔۔‘‘ثمن آپی کو اچانک ہی یاد آیا۔
’’ہاں ناں ،میرے سامنے ایکٹینگ کر رہی تھی کہ جیسے اُسے پتا ہی نہ ہو۔۔۔‘‘ماہم نے بُرا سا منہ بنایا۔
’’ہو سکتا ہے کہ نہ بتایا ہو،انصر کے گھر کی ملازمہ کہہ تو رہی تھی کہ کل ہی بڑی بی بی ان کے ہاں بات کر کے آئیں ہیں۔۔۔‘‘ثمن آپی نے سلیقے سے کیوٹکس کا پہلا کوٹ لگایا۔
’’آپ نے بھی ہر جگہ اپنے جاسوس چھوڑے ہوئے ہیں۔۔۔‘‘ ماہم کو ہنسی آئی۔
’’بھئی لاعلمی میں مارے جانے سے بہتر ہے کہ انسان اپنا بچ بچاؤ پہلے ہی کر لے یاکم ازکم اپنے قاتل کا نام تو پتا ہو۔۔۔‘‘ثمن کا موڈ بھی آج خاصا خوشگوار تھا۔
’’عائشہ کی طرف سے آپ بے فکر رہیں،اُس میں اتنا دم خم نہیں۔۔۔‘‘ماہم نے لاپرواہی سے اطلاع دی۔
’’کبھی کبھی انتہائی بے ضر ر نظر آنے والے لوگ ایسا وار کرتے ہیں کہ انسان کو حیران ہونے کا بھی موقع نہیں ملتا۔‘‘ ثمن آپی سنجیدہ ہوئیں۔
’’عائشہ ایسی لڑکی نہیں ہے،کسی پر وار کرنا تو دُور کی بات،وہ اپنا بچاؤ کر لے ،یہ ہی بہت ہے۔۔۔‘‘ ماہم کو اس کی فطرت کا بخوبی اندازہ تھا۔
’’تمہارا کیا خیال ہے کہ اُس کی ماما ،انصر کا پرپوزل قبول کر لیں گی۔۔۔‘‘ثمن آپی کو ایک نئی فکر نے گھیرا۔
’’اُسکی ماما کا تو میں کچھ نہیں کہہ سکتی،لیکن ان کے گھر میں جو ہٹلر موجود ہے،وہ ہر گز نہیں کرے گا۔۔۔‘‘ماہم اب اٹھ کر بیٹھ گئی ۔
’’ہٹلر۔۔۔‘‘ ثمن آپی نے حیرت سے ماہم کا مسکراتا چہرہ دیکھا۔
’’ہاں ناں،موحد کی بات کر رہی ہوں،وہ کسی ہٹلر سے کم تونہیں۔۔۔‘‘ ماہم نے لیموں کا ٹکڑا اپنے ناخنوں پر ملتے ہوئے شوخی سے کہا تو ثمن آپی کھلکھلا کر ہنس دیں۔
’’اُسے اللہ جانے کیا ہو گیا ہے،پہلے تو ایسانہیں تھا۔۔۔‘‘ ثمن آپی نے نیل پالش کی شیشی کو مضبوطی سے بند کرتے ہوئے کہا۔
’’اب پہلے جیسے حالات بھی تو نہیں،کسی دور میں ایک زمانے کی لڑکیوں کے دل اس کی آہٹ پر دھڑکتے تھے۔کسی فاتح جرنیل کی طرح تو گھومتا تھا وہ۔‘‘ماہم کو یاد آیا۔
’’ہاں اب وہ ہی لڑکیاں اس کی وہیل چئیر کے پہیوں کی آواز سنتے ہی بھاگ جاتی ہوں گی۔۔۔‘‘ ثمن آپی نے شوخی سے آنکھیں گھمائیں۔
’’ہاں اُس لائن میں سب سے آگے بھاگنے والی تو میں ہی تھی۔۔۔‘‘ماہم کھلکھلا کر ہنسی۔
’’تم نے تو واقعی میراتھن ریس جیتی ہے،بھئی مان گئی تمہیں۔۔۔‘‘ثمن آپی نے کھلے دل سے اپنی چھوٹی بہن کو سراہا،جو کم ازکم ذہانت میں ان سے چار ہاتھ آگے تھی۔وہ زندگی کے ہر معاملے میں سوچ و بچار کر کے اور نفع و نقصان دیکھ کر ہی سودا کرنے کی قائل تھی۔ان کی طرح صرف جذبات کی رو میں بہنے کا ہنر اُسے نہیں آتا تھا۔انہیں تو انصر سے پہلی نظر کی محبت نے ہی چاروں شانے چت کر دیا تھا مگر انصر کی بدقسمتی کہ اس محبت کی عمر خاصی مختصر تھی۔
* * *
’’بس اتنی سی محبت تھی اُسے مجھ سے۔۔۔‘‘موحد نے کلینڈر کو دیکھتے ہوئے رنجیدگی سے سوچا۔اُسے ثنائیلہ سے بات کیے ہوئے پورا ایک ہفتہ ہو گیا تھا۔نہ تو اُس نے جا کر کال کی اور نہ ہی موحد کی اتنی ہمت ہو سکی کہ اُس سے بات کر سکے۔
’’واہ ثنائیلہ واہ،کہاں گئے تمہارے سکندر شاہ کے ساتھ طوفانی محبت کے دعوے،سب ہلکی سی بدگمانی میں بہہ گئے۔۔۔‘‘موحد کا دل کرب و رنج کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔وہ کمرے کی کھڑکی سے آسمان پر موجود تنہا چاند کو دیکھنے لگا۔رات کے دو بج چکے تھے۔
’’کال تو دُور کی بات ،تم نے تو ایک ٹیکسٹ کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔۔۔‘‘موحد نے اپنے دل میں اُس سے گلہ کیا۔آج نہ جانے کیوں اس دشمن جاں کی یاد بار بار آئے جا رہی تھی۔موحد نے اپنا سیل فون نکالا اور اس کا نمبر اپنی کونٹیکٹ لسٹ میں سے نکالا۔اسی لمحے سیل فون پر ثنائیلہ کا نمبر ابھرا۔موحد نے سخت بے یقینی سے اپنے ہاتھ میں موجود سیل فون کی اسکرین کو دیکھا۔ حقیقتاً ثنائیلہ کی کال آ رہی تھی۔
’’ہیلو۔۔۔‘‘ اُس نے چھٹی بیل پر فون اٹینڈ کر ہی لیا۔
’’جب یاد کر رہے تھے تو کال کرنے میں کیا مضائقہ تھا،بہت انا ہے ناں آپ میں۔۔۔‘‘دوسری جانب ثنائیلہ کے محبت بھرے لہجے نے موحد کو زندگی کی حرارت بخشی۔
’’تمہیں ،کس نے کہا کہ میں تمہیں یاد کر رہا تھا۔۔۔‘‘موحد نے بے تابی سے پوچھا۔
’’میرے دل نے،اور آپ کو پتا ہے کہ آپ کے معاملے میں میرا دل کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔۔۔‘‘ثنائیلہ آج بھی یقین کی سب سے اونچی سیڑھی پر کھڑی تھی۔موحد ایک لمحے کو پسپا ہوا۔
’’جن سے محبت کی جائے،ان کے ساتھ کیا ایسا کیا جاتا ہے۔۔۔‘‘ ایک شکوہ بے اختیار ہی موحد کے لبوں پر مچلا۔
’’کیا محبت پر سارے ہی اختیار آپ کے ہیں ،میرا کوئی حق نہیں۔۔۔‘‘ثنائیلہ کا لہجہ نم ہوا اور دوسری جانب موحد کو یہ نمی اپنے دل پر گرتی محسوس ہوئی۔
’’اگر ایک بھی آنسو،آنکھ سے نکالا تو میں جان نکال دوں گا۔۔۔‘‘موحد کی محبت بھری دھمکی پر ثنائیلہ نے فورا ہی اپنی آنکھیں پونچھیں۔
’’پتا ہے پچھلے ایک ہفتے میں ،میں نے کتنی دفعہ اپنا سیل فون نکالا،ان بکس میں جا کر چیک کرتی تھی کہ شاید کوئی ایسا میسج آیا ہو،جس کا مجھے پتا نہ چلاہو،لیکن آپ نے تو شاید قسم کھا لی تھی۔ہے ناں۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے بھی کھل کر گلہ کیا۔
’’تم نے تو شاید ایک گھنٹے میں اپنا سیل زیادہ سے زیادہ دس دفعہ چیک کیا ہو،لیکن یہاں تو آنکھیں ہی اس اسکرین پر چپکی ہوئیں تھیں۔ہر گھنٹی پر دل دھڑکتا تھا،ہر کال پر تمہارا گماں ہوتا تھا، آفس میں ہر وزیٹر کی اطلاع پر ایسے لگتا تھا کہ تم آئی ہو،مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ تم میرے لیے کیاہو۔میں نے تمہاری محبت کو خون کے ساتھ اپنی شریانوں میں گھومتا ہوا محسوس کیا ہے۔مجھے پہلی دفعہ پتا چلا کہ میری ہر سوچ اور میرے ہر احساس پر تم قابض ہو چکی ہو۔۔۔‘‘موحد نے آج پہلی دفعہ کھل کر اعتراف کیا۔
’’مجھے لگ رہا ہے جیسے میری سماعتیں مجھے دھوکا دے رہی ہیں۔۔۔‘‘دوسری جانب ثنائیلہ بے یقین ہوئی۔
’’دھوکا تو مجھے میرے دل نے دیا ہے۔۔۔‘‘موحد کی بات پر وہ چونکی۔
’’میں سمجھتا تھا کہ میرے دل میں وسعت نہیں،وہاں ایک محبت کے بعد دوسری کی گنجائش کبھی نکلے گی ہی نہیں،لیکن میں نے سوچا ہی نہیں تھا کہ بعض لوگوں کی محبتیں تو سیلاب کی طرح زور آور ہوتی ہیں۔اپنا راستہ خود بناتی چلی جاتی ہیں۔۔۔‘‘وہ جیسے نیند کے زیر اثر بول رہا تھا
’’پہلی محبت کس سے کی تھی موحد۔۔۔‘‘ ؟؟؟؟ ثنائیلہ کی ساری ہی حسیں بیدار ہوئیں۔
’’کیا کرو گی پوچھ کر۔۔۔‘‘موحد رنجیدہ ہوا۔
’’بتائیں ناں۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے اصرار کیا۔
’’اُس محبت کے سارے نقش میں اپنے دل سے دھو چکا ہوں۔اب دل کی سرزمین پر بس تمہاری ہی حکمرانی ہے۔اب تم جو چاہو،سلوک کرو،میں نے ہار مان لی ہے۔۔۔‘‘موحد کو نہ جانے آج کیا ہوگیا تھا۔
’’بتاؤ ناں موحد،میرے سے پہلے کس نے اس سرزمین پر راج کیا ہے۔۔۔‘‘ثنائیلہ کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔
’’کیا تمہیں اس چیز سے کوئی فرق پڑتا ہے۔۔۔‘‘موحد نے بڑی روانی سے پوچھا۔
’’ہر گز نہیں۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے برجستہ انداز میں جواب دیا تو وہ ہنس دیا۔’’پھر چھوڑو،اس بات کو،رات گئی ،سو بات گئی۔۔۔‘‘
’’لیکن آپ نے اگر ذکر کر ہی دیا ہے تو پھر نام بتانے میں تو کوئی ہرج نہیں،میں کون سا اُسے جانتی ہونگی۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے ہلکے پھلکے لہجے میں کہا۔
’’تم جانتی ہو اُسے۔۔۔‘‘موحد کی بات نے اُسے حیران کیا تو وہ بے تاب ہوئی۔ ’’کیا واقعی۔۔۔؟؟؟کیا نام ہے اُس کا ۔۔۔؟؟؟‘‘
’’ماہم منصور ۔۔۔‘‘دوسری طرف سے فوراً ہی جواب آیا۔ثنائیلہ کے سر پر تو گویا چھت ہی آن گری ۔اُسے لگا کہ کسی طاقت نے اس کا دل اپنی مٹھیوں میں پکڑ کر بُرے طریقے سے جکڑ لیا ہے یا پھر کسی نے اس کی سماعتوں میں گرم گرم سیسہ پگھلا کے ڈال دیا ہے۔۔۔
* * *
عائشہ کو آج پارک کے اسی مخصوص کونے میں آ کر اپنا کام کرتے ہوئے تیسرا دن تھا۔وہ پچھلے دو دن سے بے چینی سے علی کی منتظر تھی۔اُسے اچھی طرح سے علم تھا کہ وہ صبح بلاناغہ جوگنگ کرنے کے خبط میں مبتلا ہے ۔اب یہ تو ممکن نہیں تھا کہ اپنی اس عادت سے اُس نے چھٹکارا پا لیا ہو لیکن یہ عین ممکن تھا کہ اس نے اپنا جوگنگ ٹریک بدل لیا ہو۔وہ اس امید کے ساتھ آجکل وہاں آ رہی تھی کہ شاید اُس سے سامنا ہو جائے۔وہ اُس سے بہت سی باتوں کو کلئیر کرنا چاہتی تھی۔
انارکے درخت کے نیچے اپنا کینوس رکھے وہ بظاہر اپنے کام میں مصروف تھی لیکن اس کی نگاہیں سامنے جوگنگ ٹریک پر جمی ہوئیں تھیں اپنا کام کرتے کرتے وہ وقتا فوقتاً سامنے بھی نگاہ ڈال لیتی تھی۔وہاں وہی مخصوص چہرے ہی نظر آ رہے تھے جو کئی مہینوں سے باقاعدہ اُسے نظر آتے تھے۔ان چہروں میں وہی ایک چہرہ غائب تھا جو کبھی اُسے اکثر وہاں نظر آتا تھا۔اُس نے رسٹ واچ پر نظر ڈالی اور بے زاری سے اپنے کام میں مگن ہو گئی۔
’’کہیں اُس نے صبح کی واک اور جوگنگ چھوڑ تو نہیں دی۔‘‘ایک اسٹروک لگاتے ہوئے اُس نے بے اختیار سوچا۔
’’شکل سے اور عادتوں سے تو وہ اتنا غیر مستقل مزاج نہیں لگتا،بارہا بتا چکا ہے کہ اس کی کچھ عادتیں بہت پختہ ہیں ،جن سے کبھی بھی وہ جان نہیں چھڑا سکتا۔‘‘اُسے اچانک یاد آیا۔
’’مجھے رامس کو فون کر کے پوچھنا چاہیے۔۔۔‘‘ابھی ابھی اُس کے ذہن میں خیال آیا۔
’’لیکن وہ کیا سوچے گا کہ میں کیوں اُس کے بھائی کے بارے میں پوچھ رہی ہوں۔۔۔‘‘دماغ نے فورا ہی اُسے عمل درآمد کرنے سے روکا۔
’’پوچھتا ہے تو پوچھتا رہے،اب وہ ہی صرف میری مدد کر سکتا ہے۔‘‘ایک اور سوچ نے اس کے ذہن کا احاطہ کیا۔
’’ہوش کے ناخن لو عائشہ،کیا ہو گیا ہے تمہیں۔۔۔‘‘دماغ نے بروقت ہی اس کی کھچائی کی تو اس نے اپنا ارادہ ملتوی کردیا۔اچانک ہی اس کی نگاہ سفید ٹریک سوٹ میں ملبوس شخص پر پڑی۔ وہ اس کے سامنے والے ٹریک پر ہی بھاگتا آرہا تھا۔عائشہ کے دل کی دھڑکنوں میں ایک ارتعاش سا برپا ہوا۔اُس کی نظریں مقناطیس کی طرح علی پر جم گئیں۔وہ اُس سے اب چند قدموں کے فاصلے پر تھا۔
اُس نے نظر اٹھا کر علی کی طرف دیکھا۔اسی لمحے اُس کی نظریں بھی عائشہ سے ٹکرائیں لیکن اگلے ہی لمحے عائشہ کے پاؤں زمیں پر منجمد ہوگئے اور دل نے دھڑکنے سے انکار کر دیا۔علی نے صرف ایک بھرپور نگاہ اُس پر ڈالی تھی لیکن اس ایک نگاہ میں اس قدر اجنبیت اور رکھائی تھی کہ عائشہ کو اپنے پیروں سے زمیں نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔وہ ایک لمحے کو ساکت ہوا تھا اور اگلے ہی لمحے وہ اور تیزی سے ٹریک پر بھاگنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں شناسائی کا کوئی رنگ نہیں تھا اور یہی چیز عائشہ کے لیے تکلیف دہ تھی۔وہ تکلیف کے گہرے اثر کے زیر تحت سامنے رکھے بینچ پر بیٹھ گئی۔ ہمیشہ کی طرح آنسو آج بھی آنکھ کی منڈیر پار کر کے اس کی گالوں پر پھسلنے لگے۔اُسے وہاں بیٹھے ہوئے پندرہ منٹ ہی ہوئے تھے کہ آسمان پر موجود بادلوں نے انگڑائی لی اور اگلے ہی چند منٹوں میں جل تھل ہو گیا۔
وہ برستے آسمان کے نیچے اکیلی بیٹھی تھی ۔ کینوس پر بنی اس کی اُدھوری پینٹنگ کو بارش کی بوندوں نے بالکل خراب کر دیا تھا۔سارے رنگ آپس میں مل کے ایک بھدی سی شکل اختیار کر گئے تھے لیکن اُسے پینٹنگ کی کوئی فکر نہیں تھی جو بھدّا پن اس کی اپنی زندگی میں آ گیا تھا۔اُس کے بعد کوئی بھی چیز اُس کے لیے تکلیف دہ نہیں تھی۔بہت دقت کے ساتھ وہ گھر تک پہنچی تھی اور آگے ماما کا پریشانی سے بُرا حال تھا۔
’’کہاں چلی گئیں تھیں عائشہ،میں ایک سو ایک دفعہ تمہارے نمبر پر کال کر چکی ہوں۔۔۔‘‘ماما کے لہجے میں تشویش تھی۔
’’ماما ،میرا فون گاڑی میں پڑا تھا،اس لیے مجھے پتا نہیں چلا۔۔۔‘‘اُس نے بے زاری سے جواب دیااور خود واش بیسن کی طرف بڑھ گئی۔اس کے کپڑوں پر بارش کی بوندیں اور کیچڑ کے داغ لگے ہوئے تھے۔
’’ٹھیک ہے منہ ہاتھ دھو کر کپڑے چینج کر کے آؤ،موحد کو ڈاکٹر کے پاس لے کے جانا ہے۔۔۔‘‘ ماما کے فکرمند انداز پر وہ ٹھٹکی۔’’کیا ہوا بھائی کو۔۔۔؟؟؟؟‘‘
’’رات سے ٹمپریچر میں جل رہا ہے،آنکھیں سرخ اور بُرا حال ہے۔۔۔‘‘ ماما کے لہجے میں تشویش اور پریشانی کے سبھی رنگ تھے۔
’’آپ نے انکل ذکی کو کال نہیں کی ۔۔۔؟؟؟؟‘‘عائشہ نے اپنے فیملی ڈاکٹر کے بارے میں دریافت کیا۔
’’کی تھی ،وہ ملک سے باہر ہیں،تم یہ باتیں بعد میں کر لینا پہلے چینج کر کے آؤ۔۔۔‘‘ماما نے ناگواری سے اُسے ٹوکا تو وہ اپنے کمرے کی طرف چل دی۔اگلے ہی دس منٹوں میں وہ قریبی پرائیوٹ ہسپتال میں تھی۔موحد کی حالت واقعی خاصی خراب تھی،اُسے فوراً ہی ایمرجنسی میں داخل کیا گیا تھا۔عائشہ کافی دیر تک ڈاکٹر کے کہنے پر اس کے ماتھے پر ٹھنڈی پٹیاں کرتی رہی۔ اگلے تین گھنٹوں میں جا کر موحد کی حالت کچھ سنبھلی تھی۔اس کے ساتھ ہی اُس نے گھر جانے کی ضد شروع کر دی۔وہ اب کافی بہتر محسوس کر رہا تھا۔
’’السلام علیکم۔۔۔‘‘ وہ موحد کی وہیل چئیر لیے ریسپشن سے باہر نکل رہی تھی جب کسی نے اچانک ہی اُسے مخاطب کیا۔
’’ارے سکینہ،کیسی ہو۔۔۔؟؟؟؟‘‘ موحد کو بڑی بے ساختہ سی خوشی کا احساس ہوا۔عائشہ بھی بڑے جوش سے سامنے وہیل چئیر پر بیٹھی لڑکی سے مل رہی تھی جس کے چہرے پر شناسائی کی جھلک تھی۔
ابّا،یہ عائشہ باجی ہیں اور یہ ان کے بھائی۔۔۔‘‘ سکینہ نے اپنے پاس کھڑے ایک دیہاتی سے بندے سے اپنا تعارف کروایا تو اُس نے بڑے پرخلوص انداز سے موحد کی طرف ہاتھ بڑھایا۔وہ دونوں اب ایک دوسرے کا حال پوچھ رہے تھے۔
’’ماما،یہ سکینہ ہے ،جس کا میں اور بھائی آپ سے ذکر کرتے ہیں۔۔۔‘‘عائشہ کی اطلاع پر مسز رحیم نے مسکرا کر اس کا حال پوچھا۔
’’میرا اسی مہینے آپریشن ہے،آپ لوگ دعا کیجئے گا۔۔۔‘‘سکینہ کا پر اعتماد انداز عائشہ کے ساتھ ساتھ موحد کو بھی حیران کر گیا۔
’’ہاں ضرور، سکینہ آپ کو میرا گفٹ مل گیا تھا ناں۔۔۔‘‘عائشہ کو اچانک یاد آیا تو سکینہ بُری طرح جھینپ سی گئی۔ اُس نے فوراً اثبات میں سر ہلایا،حالانکہ اُس نے وہ تمام چیزیں امّاں کے خوف سے سسٹر ماریہ کو دے دی تھیں۔
’’ماما،سکینہ کی آواز ماشاء اللہ بہت اچھی ہے،بہت خوبصورت نعتیں پڑھتی ہے۔۔۔‘‘موحد کی اطلاع پر ماما مسکرائیں۔وہ بارہا اس کا ذکر سن چکی تھیں۔
’’ہاں یہ بھی ڈاکٹر خاور کی پیشنٹ ہیں جو میرا بھی علاج کر رہے ہیں ۔۔۔‘‘موحدنے مزیدبتایا۔
’’اللہ پاک آپ کو بھی زندگی اور صحت سے نوازے۔۔۔‘‘اللہ دتّے کے پرخلوص انداز سے ماما ایک دم ہی متاثر ہوئیں۔
’’ہاں ہاں بیٹا،جب آپ کا آپریشن ہو تو مجھے بھی بتائیے گا،میں بھی دعا کروں گی۔۔۔‘‘ماما کے نرم انداز نے موحد کے ساتھ ساتھ عائشہ کو بھی حیران کیا۔
’’کیوں نہیں بہن جی،اللہ ایک مومن کی دوسرے مومن کے حق میں دعا ضرور سنتا ہے۔۔۔‘‘ اللہ دتاّ کمہار کا لہجہ اس کے حلیے کے بالکل برعکس تھا۔اُس کے لہجے کا توازن اور متانت اُسے لوگوں کے ہجوم میں منفرد بناتی تھی۔
’’ہم لوگ یہاں سکینہ کے کچھ ٹیسٹ کروانے آئے تھے۔اب ہمیں اجازت ۔۔۔‘‘ انہوں نے بڑے اچھے طریقے سے ان سب سے اجازت چاہی۔ سکینہ نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا کہ آج اُس کے ساتھ امّاں نہیں تھی ورنہ ان کی موجودگی میں تو وہ عائشہ اور موحد کو مخاطب کرنے کی غلطی نہیں کر سکتی تھی۔
* * *
’’آپ کے ساتھ مسئلہ کیا ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘رامس اس دن اچانک ہی ان کے گھر آ گیا اور وہ اسے لان میں بیٹھی ہوئی مل گئی ۔بلیو جینز پر وائٹ ٹی شرٹ پہنے وہ خاصا ہینڈسم دِکھائی دے رہا تھا۔عائشہ کو بے ساختہ ہی ماہم پر افسوس ہوا۔جس نے ایک معمولی سی بات کو جواز بنا کر اچھے خاصے لڑکے کو مسترد کر دیا تھا۔
’’کیوں میں نے کیا ،کیا ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘عائشہ نے بڑی مشکل سے اس کے چہرے سے نظریں ہٹائیں اسے اب پتا چلا تھا کہ اس کے انداز میں ایک مانوس سی شباہت کیوں جھلکتی ہے۔ دونوں بھائیوں کی آنکھوں کا رنگ اور قد کاٹھ بالکل ایک جتنا تھا لیکن رامس اپنے بھائی کی نسبت زیادہ اسمارٹ تھا۔
’’مجھے محسوس ہوا ہے کہ آپ مجھ سے چھپتی پھر رہی ہیں ۔۔۔‘‘وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے شرارت سے بولا۔
’’کیوں ،میں نے کون سا تمہارا قرض دینا ہے جو تم سے بھاگتی پھروں۔۔۔‘‘اُس نے کپ میں موجود چائے کا آخری سپ لیا۔
’’یہ تو آپ کو ہی پتا ہوگا کہ کون سا قرض دینا ہے،ویسے آپ جیسی بے مروت لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی۔۔۔‘‘وہ سامنے والی کرسی سنبھال چکا تھا۔عائشہ نے سوالیہ نگاہوں سے اُسے دیکھا۔
’’ماما،اتنی زیادہ بیمار رہیں ،ہم دونوں بھائی گھن چکر بنے رہے،آپ کو بتایا بھی تھا مگر مجال ہے کہ آپ نے ایک کال کر کے بھی پوچھا ہو۔۔۔‘‘اُس کے شکوے پر عائشہ ایک دم شرمندہ ہوئی
’’آئی ایم سوری،یہ واقعی میری غلطی ہے۔۔۔‘‘اُس نے فورا ہی اعتراف کیا۔’’اب کیسی ہیں وہ ۔۔۔؟؟؟؟‘‘
’’اب تو ماشاء اللہ کافی بہتر ہیں ۔۔۔‘‘ وہ مسکرایا۔ ’’لیکن میں نے تو انہیں صاف صاف کہہ دیا ہے کہ فوراً بھائی کی شادی کریں یا پھر میرے بارے میں سوچیں ،گھر کو ایک اور خاتون کی اشد ضرورت ہے۔۔۔ ‘‘ اُس کی بات پر عائشہ کی دل کی دھڑکن بے ربط ہوئی۔
’’چائے لو گے یا کافی۔۔۔‘‘ عائشہ نے خود کو سنبھالتے ہوئے میزبانی کے فرائض سر انجام دیے۔
’’چائے کے ساتھ ساتھ گھر میں جو کچھ بھی کھانے کو ہے ،منگوا لیں،بہت بھوک لگی ہوئی ہے۔۔۔‘‘ رامس کی بے تکلفی آج اُسے قطعاً بُری نہیں لگ رہی تھی۔اُس نے ملازمہ کو چائے لانے کو کہا اور خود اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
’’آج تو بتا دیں کہ آپ اُس دن اتنا زیادہ کیوں روئی تھیں۔۔۔‘‘ رامس نے اُسے چھیڑا۔
’’کس دن۔۔۔؟؟؟؟‘‘وہ بھی انجان بنی۔
’’اُسی دن جب میرے گھر کے سامنے آپ نے دریا بہا دیے تھے۔۔۔‘‘ اس کی آنکھوں میں شوخی تھی۔
’’ہونہہ،کوئی فائدہ تو ہوا ناں۔۔۔‘‘عائشہ کے منہ بنانے پر وہ قہقہہ لگا کر ہنسا ۔’’آج ایک بات تو آپ لکھ لیں کہ آخر میں کام آپ کے میں ہی آؤں گا،اس لیے جو بھی بات ہے سچ سچ بتا دیں ۔۔۔‘‘رامس کی شرارت پر عائشہ کا دل دھڑکا۔اُس نے بے ساختہ ہی نظریں چرائیں۔
’’مجھے چھوڑو،یہ بتاؤ کہ تم کن چکروں میں ہو آجکل۔۔۔‘‘عائشہ نے فوراً ہی بات بدلنے کی غرض سے پوچھا۔
’’میں تو آجکل بہت اچھے ،خوبصورت اور نازک سے چکر میں آیا ہوا ہوں ،دعا کیجئے گا کہ پھر کہیں گھن چکر نہ بن جاؤں۔۔۔‘‘اُس نے سامنے لان میں بے فکری سے گھومتے ہوئے خوبصورت مور کو دیکھا۔
’’نہیں اس دفعہ انشاء اللہ ایسا نہیں ہوگا۔۔۔‘‘عائشہ کے چہرے پر ایک پرخلوص سی مسکراہٹ اُبھری تو رامس کھلے دل سے مسکرا دیا۔
’’کہاں ہوتی ہیں وہ آپ کی میڈم باوری صاحبہ۔۔۔‘‘رامس کا طنز اُسے فوراً ہی سمجھ آیا۔
’’مجھے کوئی علم نہیں ،کافی دنوں سے کوئی رابطہ ہی نہیں ہوا۔۔۔‘‘عائشہ نے صاف گوئی سے بتایا تو وہ جل کے بولا۔’’ آجکل پھر کسی بیچارے کی شامت آئی ہوگی۔۔۔‘‘
’’اب بیچا رے خود اپنی شامت کو دعوت دیں تو بندہ کیا کرئے۔۔۔‘‘ عائشہ نے ہنستے ہوئے طنز کیا۔
’’بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔۔۔‘‘وہ اپنے کان کھجاتے ہوئے شوخی سے بولا۔
’’اب خاموشی اور سکون کے ساتھ چائے پیو۔۔۔‘‘عائشہ نے اس کے سامنے پڑی چائے کی طرف اشارہ کیا تو وہ فورا ہی متوجہ ہوا۔’’یہ آپ نے بہت نیک کام کیا ہے،اللہ آپ کو کوئی ہینڈسم سا شوہر دے۔۔۔‘‘
’’مجھے یہ ہینڈسم اور ڈیشنگ پرسنالٹی کا کوئی کریز نہیں،بس جو بھی ہو،بندے کا پتّر ہو۔۔۔‘‘ عائشہ کی بات پر وہ قہقہہ لگا کر ہنسا۔اگلے ہی لمحے اس کی آنکھوں میں شرارت کے رنگ اترے۔ ’’ایسا شخص تو پھر دنیا میں ایک ہی ہے۔۔۔‘‘وہ اپنی پلیٹ میں کباب نکالتے ہوئے شوخی سے بولا ۔
’’وہ کون۔۔۔؟؟؟؟‘‘ عائشہ نے دلچسپی سے پوچھا۔
’’میرا بھائی۔۔۔‘‘ وہ لاپرواہی سے کہتے ہوئے عائشہ کا سارا سکون غارت کر گیا۔اُس نے جانچتی نگاہوں سے اپنے سامنے بیٹھے رامس کو دیکھا جو بے دھیانی میں یہ بات کر کے اب مکمل دھیان اور توجہ سے چکن رولز کھانے میں مشغول ہو گیا تھا۔
* * *
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...