میں ہوں اک بادل اور یہ ہے میری کہانی۔
میری اصلیت بیان کرتی میری کہانی۔
میں ہوں اک گہری مہیب بھر پور سیاہ کالی گھٹا۔
حیات آفریں پانی کی نرم بوندیں، جمی ہوئی برف کے سردمہرٹکڑے، کڑکتی بجلیاں، دھمکاتی گھن گرج اور للکارے میرے جلو میں۔
میں کہ حیات و ممات کا منبع۔
میں کہ غیظ و غضب اور نزاکت و رعنائی کی متضاد صفات سے کاملہ متصف۔
نرم گرم برسوں یا تاخت و تاراج کر دوں۔
رعد بن کر خاکستر کر دوں یا تپتی جلتی زمین پر آسودگی، سیرابی اور زیست بن کر ٹپکوں۔
میرا قطرۂ حیات روئیدگی اور بقا کو ترسے، زرد اور پھر سیاہ پڑتے سبزے پر دھیرے سے آ برسے اور نوید زیست ہو۔
کثرت سے سیلاب بلا کی صورت نازل ہو کر چٹانوں کو مفتوح بناتا کرۂ ارض کو پھاڑ ڈالے۔
میرا غضب تناور درختوں کو جڑوں سے اکھاڑ کر الٹا دے اور بہا لے جائے، آسماں بوس بلندیوں کو تحت الثریٰ میں اتار دے اور پستیوں کو غرقاب کر کے نابود کر دے۔ فنا کے گھاٹ اُتار دے۔
میں غریب کے جھونپڑے پر برس کر اس کی زندگی کی ضمانت، آخری جائے پناہ چھین لینے پر مامور۔
میں بلکتی تڑپتی ماں سے اس کا اکلوتا یتیم بچہ جھپٹ لینے پر مصر۔
میں دو دلوں میں محبت کا گداز پیدا کرنے والی، جذبات آلودہ شہوت انگیز رم جھم۔
میں بہاروں کی آمد کا پیغامبر۔
میں شگوفوں کو پھول بنانے والی تراوٹ۔
میں کس حد تک مختار ہوں اور کس حد تک مجبور۔ قرنوں سے یہ فیصلہ ہونا باقی ہے۔ میرے جذبات و احساسات کا وجود و عدم پس پردۂ غائب سر بستہ راز ہے۔
میرے افعال کا تنوع صمدیت پر دلالت ہے۔
میری ہیئت ترکیبی کی تحلیل ممکن ہے۔
میری صفات مرئی بھی ہیں اور غیر مرئی بھی۔
میرا اسرار اک چیستاں۔
میں کرۂ ارض پر چھایا ایک مہیب اور گہرا بادل۔
میں کائنات کو مسخر کرتا قرنوں کی ہونی کا گواہ۔
ایک مورخ، ایک حکیم و دانا، ایک مجنون و مجذوب۔ مخفی خزانوں کا مدفن۔
اجبار و اکراہ کا ماخذ۔
میں ایک مہیب، گہرا بادل۔
مجبور و مقہور، محصور و مسحور کرتا بالا دست بادل۔
میرا عدم سے وجود میں آنا بھی تو اک گورکھ دھندہ ہی تھا۔ مرے اجزائے ترکیبی، عناصر بیخ و بن۔
اک معجزاتی عمل۔ اک پیچیدہ سلسلہ۔
مگر میں ہوں محض ایک بادل۔
ہوا جسے بناتی بگاڑتی اور اڑاتی ہے۔
تو یہ کہانی کس کی ہوئی؟
بادل کی یا ہوا کی؟
اور کیا ہے ہوا کی کہانی؟
٭٭٭