اگلے دن پاکیزہ یونیورسٹی گئی تو پہلے سے بھی زیادہ بُجھی بُجھی تھی۔ گزری رات کی سب باتیں اس کے ذہن میں گردش کر رہی تھیں۔ وہ جب بھی اداس ہوتی تھی یا بہت اکیلا پن محسوس کرتی تھی تو اپنی پسندیدہ جگہ پر آکر بیٹھ جاتی تھی جہاں تناور درخت کے سائے تلے ایک بینچ تھا اور درخت کے قریب بہت سارے پھول کھلے ہوتے تھے جس کی وجہ سے وہاں بہت سی خوبصورت رنگ برنگی تتلیاں ہوتی تھیں۔ اسے اکیلا دیکھ کر وہی لڑکا پاکیزہ کے پاس آ گیا جو پاکیزہ کو ہنسانے کی کوشش کیا کرتا تھا۔
“آپ آج پھر سے یہاں پر اکیلی بیٹھی ہیں۔ پتہ ہے ایسے اکیلی بیٹھی بالکل اچھی نہیں لگتیں کیونکہ پتا نہیں کِن سوچوں میں گُم ہوتی ہیں”
“نہیں بس ایسے ہی یہاں بیٹھی ہوں”
“میں تو ایسے اکیلا بیٹھا بیٹھا بور ہی ہو جاؤں۔ دوست کیوں نہیں بناتیں آپ کوئی؟”
“مجھے پسند نہیں دوست بنانا اور آپ اتنے سوال مت پوچھا کریں۔ نہ ہی مجھ سے آکر بات کیا کریں”
“لیکن آج میرا کوئی دوست نہیں آیا اور انفورچونیٹلی میں بھی آج آپکی طرح اکیلا ہوں۔ اسی لئیے آپکو ایسے دیکھا تو سوچا چلو آپکی اداس روح کو دور بھگانے میں تھوڑی مدد کی جائے آپکی۔”
“آپ مجھ سے دور رہیں۔ یہی بہتر ہے آپ کے لئیے”
“اچھا مِس سُن لیا میں نے لیکن مانوں گا نہیں کیونکہ آپکی بات میرے سر کے اوپر سے گزر گئی” اُس لڑکے نے کہکہا بلند کرتے ہوئے کہا تھا۔
“آپ بہت عجیب ہیں۔ ہنسنے کے علاوہ آپکو کچھ نہیں آتا کیا؟” پاکیزہ اسکی باتیں سن کر چڑچڑی ہو گئی تھی اور اب تھوڑا غصّے میں بولی تھی۔
“آتا ہے نا۔ مجھے ہنسنے کے علاوہ پاکیزہ کو چِڑانا بھی آتا ہے”
“آپ میرا نام مت لیا کریں پلیز”
“اچھا نہیں لیتا۔ میری جگہ آپ میرا نام لے لیا کریں”
“کوئی ضرورت نہیں۔ اب آپ یہاں سے اُٹھ کر جائیں گے یا میں چلی جاؤں؟”
“اچھا سوری سوری۔ جا رہا ہوں میں۔”
اس کے جانے کے بعد پاکیزہ پھر سے کہیں سوچوں کے سمندر میں ڈوب گئی۔ رات ہوئی تو تہجد کی نماز ادا کرنے کے بعد پاکیزہ بیڈ پر لیٹ کر مُراد کی کال کے بارے میں سوچنے لگی۔ بظاہر تو وہ مُراد کے دل سے نکلنے کی دعائیں کرتی تھی لیکن کہیں نہ کہیں اسے مُراد کی کال کا شدت سے انتظار تھا۔ ایک بجتے ہی اسکا موبائل وائبریٹ ہونے لگا اور اسکی سانسیں رُک گئیں۔ اس نے موبائل پکڑ کر دیکھا تو مُراد کی کال تھی۔ اس نے فوراً ریسیو کر لی۔
“السلام علیکم” مُراد ہمیشہ کی طری ہلکی آواز میں بولا تھا۔
“وعلیکم السلام” پاکیزہ نے بھی تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد جواب دیا۔
“کیسی ہو؟”
“زندہ ہوں! آپ کیسے ہیں؟”
“یہ کیسا جواب تھا؟ ٹھیک سے بتاؤ نا”
“میرے لئیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ زندہ ہوں اسی لئیے اس سے زیادہ ٹھیک سے نہیں بتا سکتی”
“پڑھائی کیسی جا رہی ہے؟”
“آپ مجھے کال مت کیا کریں مُراد۔ اب جب ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے تو بات کر کے کیا فائدہ؟”
“لینا دینا ہے پاکیزہ۔ تم میری ہونے والی بیوی ہو”
پاکیزہ اب غصّے میں آگئی تھی اور اونچی آواز میں بولی “کون؟ میں؟ جاگیر ہوں آپ کی؟ جب دل کیا چھوڑ دیا اور جب دل کیا واپس آگئے۔ کتنی دیر رکھیں گے مجھے دھوکے میں؟”
“میں تم سے پیار کرتا ہوں پاکیزہ”
“بس کریں۔ خدا کے لئیے چپ ہو جائیں۔ مجھے نہیں پتا کہ کیا ہوتا ہے پیار۔ مجھے نہیں ہے کوئی پیار اور نہ ہی میرا ایسے لفظ سے کوئی سرو کار ہے”
یہ کہہ کر پاکیزہ نے کال کاٹ دی۔ یہ سب اس کے لئیے محض عزیت سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ اب اس کی راتیں اور بھی زیادہ بھیانک ہو گئی تھیں۔ لیکن وہ خود پہ حیران ضرور تھی کہ مُراد سے اس طرح بات کرنے کی اور اس کی کال کاٹنے کی ہمت اس میں آتی کہاں سے ہے۔ وہ تو خود مُراد سے بات کرنا چاہ رہی ہوتی تھی لیکن کوئی اندرونی طاقت اسے ایسا کرنے سے روک لیتی تھی۔ اس کے بعد ایک مہینہ گزر گیا لیکن مُراد کی پھر سے کوئی کال یا میسج نہیں آیا اور نہ ہی پاکیزہ نے کوئی رابطہ کیا لیکن پاکیزہ ہر وقت سوچتی ضرور رہتی تھی۔
ایک دن حسبِ معمول پاکیزہ درخت کے قریب بینچ پر بیٹھی تھی کہ اچانک وہ لڑکا پھر آگیا اور اس کے آگے کی جانب نیچے گھاس پہ بیٹھ گیا اور پاکیزہ کو دیکھنے لگا۔
“ارے آپ یہاں پہ کیوں بیٹھ گئے ہیں؟ پلیز اُٹھ جائیں یہاں سے مجھے ایسے اچھا نہیں لگ رہا”
“یہاں بیٹھنا منع ہے کیا؟”
“نہیں منع نہیں ہیں لیکن ایسے۔۔۔ آپ۔۔ میرے پاؤں کے قریب بیٹھے ہیں اچھا نہیں لگ رہا” پاکیزہ گھبرائی ہوئی بول رہی تھی۔
“تو کیا ہوا۔ آج میں پھر اکیلا ہوں اسی لئیے پھر سے آپ کو تنگ کرنے آ گیا۔”
“آپ کیوں نہیں سمجھتے ارزانش کہ مجھے آپکا اس طرح مجھ سے بات کرنا نہیں پسند”
“ہائے زرا پھر سے بولئیے”
“کیا؟ کیا بولوں؟”
“ابھی آپ نے میرا نام لیا نا۔ زرا دوبارہ نام لیجئیے گا میرا”
“میں مزاق نہیں کر رہی”
“ویسے مجھے لگتا تھا کہ آپ کو تو میرا نام بھی نہیں پتا ہو گا لیکن آپ کے بولنے کے بعد میرے نام کی شان میں اضافہ ضرور ہو گیا ہے” ارزانش یہ کہہ کر ہنسنے لگا۔
“آپ بس مزاق ہی کر سکتے ہیں۔ آپ کے ساتھ بات کر کے ٹائم ویسٹ نہیں کرنا مجھے”
“اچھا ایک سوال کا جواب دیں۔ پھر میں تنگ نہیں کروں گا”
“کیسا سوال؟”
“پہلے پوچھنے تو دیں۔ پھر ہی آپ کو پتہ چلے گا کہ پوچھنا کیا ہے مجھے”
“جی پوچھیں”
“ہاں تو یہ بتائیں کہ اگر کئی دفع کوشش کر کے بھی کوئی انسان آپ کو نہ ملے تو پھر آپ کو کیا کرنا چاہئییے؟”
پاکیزہ کچھ دیر کے لئیے ایک گہری سوچ میں پڑ گئی اور پھر بولنے لگی کہ “اگر کوئی انسان کوشش کرنے کے بعد بھی نہ ملے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ہماری دسترس میں نہیں ہے اور جب کئی ہماری دسترس میں نہ ہو تو اسے دعاؤں کے ذریعے مانگا جاتا ہے۔ اور اللہ سے اپنی بات منوانے کا سب سے بہترین طریقہ تہجد ہے کیونکہ تہجد اللہ تعالیٰ کی لاڈلی عبادت ہے”
“واہ! کیا بات ہے۔ آپکو تو بہت کچھ پتا ہے”
“اگر آپکے سوالات ختم ہو گئے ہوں تو جائیں یہاں سے”
“جا رہا ہوں بئی۔ ڈانٹتی بہت ہیں آپ”
“جائیں”
“اوکے خدا حافظ! لاسٹ تھِنگ! آئی مَسٹ سے دیٹ یور لائف پارٹنر وِل بی سو لَکی” ارزانش یہ کہہ کر چلا گیا لیکن پاکیزہ پہ اداسی کی کیفیت طاری کر گیا۔
اُس کو کیا معلوم تھا کہ وہ خود کو اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ بد قسمت ترین انسان تصور کر رہی تھی۔ اب مُراد کا پھر کچھ پتہ نہیں تھا اور یوں ہی وقت گزرتا جا رہا تھا۔
آخر رمضان کا مہینہ آگیا اور مُراد کو پاکیزہ سے دور ہوئے دو سال ہو چکے تھے۔ پاکیزہ اکیلی بیٹھی اکثر مُراد کی ساتھ ہوئی پُرانی گفتگو موبائل سے کھول کر پڑھتی رہتی تھی۔ اس دن بھی سحری سے پہلے اپنے کمرے میں بیٹھی مُراد سے ہوئی پُرانی باتیں پڑھ رہی تھی۔ پڑھتے پڑھتے اسے پیاس لگی تو وہ موبائل اُلٹا رکھ کر سائڈ ٹیبل پہ رکھا پانی کا گلاس اور جگ پکڑ کر گلاس میں پانے ڈالنے لگی۔ پانی پیتے پیتے کسی کی کال آنے لگی۔ اس نے موبائل پکڑ کر دیکھا تو کوئی انجانا نمبر تھا۔ اس نے کال ریسیو کر لی۔
“ہیلو”
“السلام علیکم” پاکیزہ اداس آواز میں بولی تھی۔
“وعلیکم السلام”
“آج اتنے عرصے بعد پھر سے کیسے یاد آ گئی آپکو میری؟”
“تمہاری کال آئی تھی”
“کال؟ میری؟”
“ہاں تمہاری کال آئی تھی ابھی”
کچھ دیر کے لئیے پاکیزہ سوچ میں پڑ گئی اور پھر بولنے لگی “اوہ! سوری وہ میں نے موبائل اُلٹا رکھا تھا تو شاید ڈائل ہو گیا ہو گا نمبر”
“تم میری کنورسیشن اوپن کر کے بیٹھی ہوئی تھی؟”
“نہیں۔۔ میں ۔۔ کیوں اوپن کروں گی۔ شاید۔۔ نہیں نہیں یقیناً غلطی سے ہی کنورسیشن اوپن ہو گئی ہو گی لیکن آپ۔۔ آپ نے کیوں بیک کال کی؟”
“تم سے بات کرنے کا دل کر رہا تھا پاکیزہ”
“مُراد جھوٹ بولنا چھوڑ کیوں نہیں دیتے آپ؟”
“نہیں یقین کرو میں جھوٹ نہیں بول رہا”
“تو پھر اتنے عرصے بعد وہ بھی میرے غلطی سے کال کرنے پہ کیوں کال کی مجھے؟ آپکو تو کبھی میری یاد بھی نہیں آئی ہو گی”
“نہیں پاکیزہ ایسا نہیں کہ تم سے بات نہیں کی تو یاد بھی نہیں آئی ہوگی۔ میں نے پُرانی جاب چھوڑ دی ہے اور ایک نئی جاب شروع کی ہے۔ انڈر گراؤنڈ ڈپارٹمنٹز ہیں اور وہاں سگنل بہت کم آتے ہیں۔ بس اسی لئیے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا”
“مُراد آپ چاہتے کیا ہیں آخر۔ مجھے آپ کی کچھ سمجھ نہیں آتی۔ ایسے تو پاگل ہو جاؤں گی میں”
“تمہیں چاہتا ہوں۔ صرف تمہیں ہی چاہتا ہوں پاکیزہ۔ اور کچھ نہیں چاہتا”
“چاہتے ہیں؟ یہ بھی جھوٹ ہے۔ آپ مجھ سے پیار کرتے تھے نا۔ کہاں گیا آپ کا پیار؟”
“میں اب بھی پیار کرتا ہوں پاکیزہ۔ تم سمجھتی ہی نہیں ہو۔ مُراد صرف پاکیزہ کو چاہتا ہے”
“تو پھر وہ سب کیا تھا؟ آپکا زور سے چیخنا۔ آپکا کسی بھی بات کے بغیر ناراض ہو جانا۔ آپکو تو میرا رونا بھی کبھی نظر نہیں آیا مُراد”
“میں کتنی دفع معافی مانگ چکا ہوں یار اور اب پھر سے معافی مانگ لیتا ہوں۔ معاف کر دو مجھے۔ کہتی ہو تو تمہارے پاؤں پڑ جاتا ہوں”
پاکیزہ کی آنکھیں اب نم ہونے لگی تھیں اور وہ سسکنے لگی تھی۔ “یہ سب مت کہیں۔ شرمندہ مت کریں مجھے پلیز۔ میں آپکی بہت عزت کرتی ہوں”
“تو پھر مان جاؤ نہ یار۔ بھول جاؤ سب”
“کیسے بھول جاؤں مُراد؟ کیوں نہیں سمجھتے آپ کہ میں کس عزیت سے گزری ہوں۔ ہر ایک دن، ہر ایک رات میں نے بہت مشل سے گزاری ہے۔ آپ کے لئیے تو چھوڑ کر جانا آسان ہے۔ آپ پھر چلے گئے تو میرا کیا ہوگا۔ کہاں جاؤں گی میں؟”
“نہیں اب نہیں چھوڑوں گا کبھی۔ تمہاری ہر بات مانوں گا۔ بس ایک بار بھول جاؤ سب۔ چلو ہم ایک نئی” شروعات کرتے ہیں۔ سب نئے سِرے سے شروع کرتے ہیں”
“میرا دل نہیں مانتا مُراد۔ جذبات تو جیسے مر گئے ہوں۔ میرے اندر کا ہنستا کھیلتا انسان برباد ہو چکا ہے”
پاکیزہ اب پہلے سے زیادہ آنسوؤں کے ساتھ رونے لگی تھی اور وہ کچھ اور بول نہیں پا رہی تھی
“پاکیز پلیز رونا بند کرو” کچھ دیر خاموشی کے بعد مُراد پھر سے بولا “پاکیزہ کچھ تو بولو۔ تم رو لو پہلے اچھے سے۔ دل میں جو کچھ بھی ہے نکال لو۔ پھر بات کر لیں گے ہم”
“ٹھیک ہے”
اس کے بعد مُراد نے کال کاٹ دی۔ پاکیزہ پھر سے سب سوچنے لگی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر وہ کرے تو کیا کرے۔ دل مُراد کی باتوں پہ یقین کرنے کے لئیے اصرار کر رہا تھا اور دماغ اُس کی سب باتوں کو رَد کر رہا تھا کہ وہ اتنے عرصے کے بعد اچانک سے پھر سے یہ سب کیسے کہہ سکتا ہے۔
پاکیزہ کو جب کچھ سمجھ نہیں آیا تو وہ وضو کر کے تہجد کی نماز ادا کرنے لگی۔ اس کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دُعا مانگنے لگی۔ “اے اللہ مجھے سیدھا راستہ دکھا۔ مجھے اب سمجھ نہیں آ رہا کہ میں کیا کروں۔ مجھے اندھیرے کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ میری مدد فرما۔ مجھے اس اندھیرے سے نکال دے۔” پاکیزہ کی رخصاروں سے پھِسلتے ہوئے اس کے آنسو دُعا کے لئیے پھیلے ہاتھوں پہ گر رہے تھے۔
اگلے دن پاکیزہ اپنی جماعت میں بیٹھی کھڑکی سے باہر پرندوں کو اُڑتے دیکھ رہی تھی۔ اس کی کلاس فیلو لاریب آ کر کہنے لگی کہ “پاکیزہ کسے دیکھ رہی ہو باہر؟”
“کسی کو نہیں۔ بس ایسے ہی بیٹھی تھی تو سوچا نیچر انجوائے کر لوں”
“ایسے تو تم بور ہو جاؤ گی۔ ہمارے ساتھ چلو۔ آج تو میم بھی نہیں آئیں”
“نہیں نہیں آپ جائیں۔ میں یہیں ٹھیک ہوں”
“اب چلو بھی یار۔ آج ارزانش کی برتھ ڈے بھی ہے۔ ہم سب سیلیبریٹ کرنے والے ہیں” لاریب یہ کہتے ہوئے پاکیزہ کی بازو پکڑ کر اسے اپنے ساتھ لے گئی۔
ارزانش عالمگیر پوری یونیورسٹی میں اپنی شرارتوں اور بچپنے کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔ وہ شرارتی ہونے کے ساتھ ساتھ خوش اخلاق اور خوش شکل بھی تھا۔ وہ ایک اچھا انسان تھا۔ خوش شکل، خوش جسامت اور اچھے قد کی وجہ سے وہ لڑکیوں میں بھی بہت مشہور تھا۔ آخر وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا اور رئیس باپ کی اولاد ہونے کی وجہ سے تھوڑا بگڑا بھی ہوا تھا۔ لڑکیاں اس پہ مرتی تھیں لیکن وہ لڑکیوں کو دوست نہیں بناتا تھا۔ اُن سے بس مزاق کی حد تک تھوڑی بہت بات کر لیا کرتا تھا اور لڑکیاں اتنے میں ہی خوش ہو جایا کرتی تھیں۔ اس کی ایک چھوٹی بہن بھی تھی جو اس کی سَگی بہن نہیں تھی بلکہ خالہ کی بیٹی تھی اور خالہ کی وفات کے بعد اب وہ مِسٹر عالمگیر کے گھر میں اُن کی بیٹی کی طرح ہی رہتی تھی اور ارزانش اس سے بہت زیادہ پیار کرتا تھا۔ یہاں تک کہ گھر میں سب سے زیادہ اپنی چھوٹی بہن ہانیہ کی ہی بات مانتا تھا۔
اس دن یکم جنوری یعنی ارانش کی سالگرہ کا دن تھا اور وہ بہت خوش تھا۔ یونیورسٹی کے کیفیٹیریا کو اس کے دوستوں نے غبارے اور پھولوں سے سجایا ہوا تھا۔ ارزانش نے اپنے پسندیدہ کالے رنگ کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اور وہ بہت ہی خوبصورت اور دلکش لگ رہا تھا۔ کیفیٹیریا کے درمیاں میں میز پر ایک بہت خوبصورت کیک پڑا تھا جس پہ ارزانش کی شکل بنی ہوئی تھی۔ سب اسکی سالگرہ منانے کے لئیے وہاں جمع ہو گئے اور ارزانش بھی میز کے پاس کھڑا تھا۔ اتنے میں لاریب پاکیزہ کو کیفیٹیریا میں لے آئی اور زبردستی اسے میز کے قریب لے گئی۔
ارزانش نے پاکیزہ کی طرف ایک سرسری سی نگاہ ڈالی اور کیک کاٹنے لگا۔
“ہیپی برتھ ڈے ٹو یو”
“ہیپی برتھ ڈے ٹو یو”
“ہیپی برتھ ڈے ڈئیر ارزانش”
“ہیپی برتھ ڈے ٹو یو”
ارد گرد کھڑے سب لوگ ارزانش کو سالگرہ کی مبارکباد دینے لگے۔ ارزانش کیک کاٹنے کے بعد اس کا ایک ٹکڑا کاٹ کر پاکیزہ کے قریب گیا اور اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔ سب اس کو پاکیزہ کے قریب دیکھ کر حیران ہو گئے۔ پاکیزہ خود بہت حیران تھی کہ وہ اپنے دوستوں کو چھوڑ کر پہلے اسے کیک کھلانے کیوں آیا ہے۔
“نہیں میرا روزہ ہے” پاکیزہ حیرانی کے عالم میں تھی اور سر جھکائے بول رہی تھی۔
“اچھا پھر ٹھیک ہے۔ مت کھائیں لیکن آج میری برتھ ڈے سیلیبریشن میں کیسے آ گئیں آپ؟” ارزانش پاکیزہ کے مزید قریب ہو کر بولا تھا۔ پاکیزہ کچھ قدم پیچھے ہٹ گئی اور سہمی سی بولی “وہ۔۔ میں۔۔ لاریب مجھے یہاں لے آئی تھی۔ سوری فور ڈسٹربنس۔ جا رہی ہوں”
یہ کہہ کر پاکیزہ جماعت میں واپس چلی گئی۔ ارزانش اپنے دوستوں کے ساتھ سالگرہ منانے میں مصروف ہو گیا۔ سالگرہ ختم ہونے کے بعد ارزانش کا دوست ارباب اس سے پوچھنے لگا کہ “یار تو پہلے وہ لڑکی۔۔ کیا نام تھا اسکا۔۔”
“پاکیزہ! پاکیزہ نام ہے اسکا”
“ہاں ہاں وہ تو پاکیزہ کو پہلے کیک کھلانے کیوں چلا گیا تھا؟”
“کچھ نہیں بس چِڑا رہا تھا اسے۔ اور کیوں جاؤں گا”
اوہ اچھا۔ میں خود حیران تھا کہ تو اس کے پاس کیوں چلا گیا پہلے”
دوستوں سے فارغ ہو کر ارزانش بھی جماعت میں چلا گیا۔ وہاں پاکیزہ اکیلی بیٹھی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی۔
“کیا میں آپ کے ساتھ والی کرسی پہ بیٹھ سکتا ہوں؟”
“باقی پوری کلاس بھی خالی ہے۔ آپ کہیں اور بیٹھ جائیں”
ارزانش پاکیزہ کے آگے پڑی کرسی پر بیٹھ گیا اور کرسی کا رُخ پاکیزہ کی طرف کر لیا۔
“اب آپ یہاں کیوں آگئے ہیں؟ آپ کو اور کوئی کام نہیں ہے کیا؟”
“ایک تو آپ کی بات مان کر وہ چیئر چھوڑ دی میں نے اور اب بھی آپ ڈانٹ رہی ہیں”
“بہت پڑا احسان کیا ہے آپ نے۔ تھینک یو سو مچھ”
“آپ نے تو مجھے وِش بھی نہیں کیا ابھی تک”
“ہیپی برتھ ڈے”
“ہیپی برتھ ڈے ٹو یو ٹو”
پاکیزہ اب کھلی آنکھوں سے ارزانش کی طرف دیکھ رہی تھی۔
“کیا ہوا؟ ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں میری طرف جیسے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو؟”
“آپ۔۔ آپ مجھے کیوں وِش کر رہے ہیں” پاکیزہ اپنی کھلی آنکھوں سے ارزانش کی طرف حیرانی سے دیکھ رہی تھی کیونکہ اُس نے پاکیزہ کو پھر ایک بار حیران کر دیا تھا۔
“آج آپکی برتھ ڈے نہیں ہے کیا؟”
“ہاں۔۔ نہیں۔۔ ہاں لیکن آپ کو کیسے پتا؟”
“اب یہ بھی بتانا پڑے گا کیا کہ کیسے پتا چلا؟”
“لیکن۔۔میری برتھ ڈے کے بارے میں تو کسی کو نہیں پتا تو۔۔ آپ”
“اتنا مت سوچا کریں۔ کچھ لڑکیاں بات کر رہی تھیں کہ آپکی برتھ ڈے ہے آج بس تب سُنا”
“نہیں لیکن۔۔”
ارزانش پاکیزہ کی بات کاٹتے ہوئے بولا “اب کوئی لیکن اگر نہیں۔ کافی دیر ہو گئی۔ اب جاتا ہوں میں۔ انجوائے یور برتھ ڈے”
اس بار پاکیزہ قدرت پہ بہت حیران تھی کہ آخر یہ اس کے ساتھ کیسا کھیل کھیلا جا رہا تھا۔ پاکیزہ کو کچھ ہی لمحوں میں ارزانش کا وِش کرنا بھول گیا کیونکہ وہ ایک بہت ہی لاپروہ لڑکا تھا اور پاکیزہ سوچتی تھی کہ اس کی کسی بھی بات کو سنجیدگی سے لینا بیکار ہے۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی مُراد پاکیزہ کی سالگرہ بھول گیا تھا اور پاکیزہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے وِش کرنے کا انتظار کر رہی تھی۔ انتظار میں ہی پورا دن گزر گیا اور آخر رات کو انتظار میں چور ہوئی پاکیزہ سونے ہی والی تھی کہ دو بجے کے قریب مُراد کی کال آئی اور پاکیزہ نے غصّے میں ہونے کے باوجود کال ریسیو کر لی۔
“السلام علیکم”
“وعلیکم السلام” پاکیزہ نے اس بار بہت بے رُخی سے جواب دیا۔
“کیسی ہو؟”
“اب کیوں کال کی ہے آپ نے؟”
“مجھے کل والی باتوں کے جواب چاہئیے پاکیزہ”
“جواب؟ آپ کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتے مُراد۔ آپ سے کوئی بھی شکوہ کرنا بیکار ہے”
“اب کیا ہو گیا یار؟”
“اس بار آپ پھر میری برتھ ڈے بھول گئے۔ اب بھی اپنی صفائی پیش کرنا چاہیں گے؟”
“مجھے یاد تھی پاکیزہ لیکن میں نے بس وِش نہیں کیا کیونکہ میں نے سوچا اتنا ضروری نہیں وِش کرنا”
پاکیزہ نے ایک گہری سانس لی اور بولی “ضروری تو میں بھی نہیں ہوں آپ کے لئیے”
“نہیں تم ضروری ہو”
“ایک اور جھوٹ۔ اور کتنے جھوٹ بولنے والے ہیں؟ مجھے بالکل اعتبار نہیں رہا آپ پہ”
“کیسے سمجھاؤں تمہیں کہ میں تمہیں کتنا یاد کرتا ہوں۔ تم سے بہت پیار کرتا ہوں”
“پیار بتایا نہیں جاتا۔ پیار دکھایا جاتا ہے مُراد”
“تو دیکھو نا۔ دیکھنے کی کوشش کرو میرا پیار”
“کوشش؟ میں کروں کوشش؟ شروع سے اب تک کوشش میں نے ہی کی تھی کہ ہم ساتھ رہیں۔مجھے آپکا پیار نظر نہیں آتا۔ مجھے صرف اور صرف اپنا مستقبل نظر آتا ہے جس میں اندھیرے کے سِوا کچھ نہیں ہے”
“نہیں اندھیرے میں نہیں ہو گا تمہارا مستقبل۔ تم مان جاؤ پلیز اور بھول جاؤ سب۔ نہیں تو مُراد مر جائے گا تمہارے بغیر”
“اللہ نہ کرے۔ کیسی عجیب باتیں کر رہے ہیں۔ کچھ نہیں ہوگا آپکو۔آپ اب تک میرے بغیر ہی رہے ہیں نہ۔ آگے بھی رہ لیں گے اکیلے”
“نہیں رہ سکتا۔ میں بالکل اکیلا ہو گیا ہوں۔تنہائی میں میرا دم گُھٹتا ہے”
“آپ اب یہ سب مت کہیں۔ آپکو شاید مجھ سے کوئی اچھی لڑکی مل جائے جسے آپ پیار دے سکیں اور اس کے ساتھ وہ کبھی نہ کریں جو میرے ساتھ کیا”
“لیکن کسی اور کی کوئی جگہ نہیں میری زندگی میں۔ میں صرف تمہیں چاہتا ہوں”
“اب بات ختم کریں مُراد۔ ماما مجھے سحری کے لئیے آواز دے رہی ہیں۔ انہوں نے مجھے آپ سے بات کرتے سن لیا تو بہت ڈانٹیں گی”
“اچھا ٹھیک ہے لیکن پلیز پاکیزہ سوچنا ضرور”
“سوچنے کے علاوہ اور کچھ بچا ہی نہیں مُراد”
پاکیزہ کی امی مُراد سے بہت نفرت کرتی تھیں کیونکہ اس کی وجہ سے پاکیزہ کی یہ حالت ہو گئی تھی۔ وہ نہیں چاہتیں تھیں کہ اب مُراد کا سایہ بھی دوبارہ ان کی بیٹی کی زندگی پر پڑے۔ پاکیزہ اب عجیب سے شش و پنج میں تھی۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کی زندگی اب کس رُخ مُڑے گی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...