ملاقات کی فرمائش کا سن کر عبیر نے کال کاٹ کر موبائل بیڈ پر پھینک دیا اور اپنے بال مُٹھی میں جکڑ لیے۔
وہ خطبی ہو رہی تھی۔
( اتنی گھٹیا سمجھ رہا ہے یہ شخص مجھے؟ اتنی گری پڑی ہوں میں؟؟ کہ ملنے کے لیے چلی جاؤں گی؟؟؟)
وہ جلے پیر کی بلی کی طرح کمرے میں چکر کاٹتے ہوئے بولے جا رہی تھی۔
اس کا دماغ پھٹنے پر آگیا تھا۔
( نہیں شہیر شیرازی نہیں۔۔۔ نکاح کا وعدہ کیا تھا تم نے۔۔۔ اُسے وعدے کے پیچھے آگئی تھی میں۔۔۔ یہ ملنے مِلانے والوں میں سے عبیر احسان نہیں ہے۔ لعنت ہے مجھ پر ۔۔۔ لعنت ہے جو میں سمجھ نہیں پائی اس شخص کو۔)
وہ خود کو کوستے ہوئے سوگئی۔
صبح اُس کا غصّہ ہنوز قائم تھا۔
اُدھر شہیر کال کاٹنے پر پریشان تھا۔۔۔ یہ تو اس کا کام تھا۔۔۔ کال کاٹنا۔۔ بلاک کرنا ۔۔۔ بات نہ ماننا۔۔۔ مقابل کو انتظار کی سولی پر لٹکا دینا۔۔۔
لیکن یہ سب تو عبیر احسان کر رہی تھی۔۔۔ کیسے گوارا کرتا وہ۔۔۔ گفتار کا غازی اب نئی باتیں بننّے لگا ذہن میں۔۔۔
وہ لڑکیوں کو چھوڑتا تھا۔۔۔ لڑکیاں اُسے نہیں ۔۔ کیسے برداشت کرتا اپنی ہار ۔۔۔
کلاس میں عبیر نے اسے نہیں دیکھا۔
وہ اُس کا چہرہ پڑھ سکتا تھا۔ وہ ناراض تھی ۔۔۔ نہیں نہیں۔ ۔۔ وہ غصّہ تھی۔
رابطہ ختم کر دیا تھا عبیر احسان نے۔۔۔
_____________
” آپ لوگ میری بات کیوں نہیں سمجھ رہے ہیں؟؟ ”
شہیر شیرازی آج پھر اپنے والدین کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔
” تم ہماری بات سجھو شہیر۔۔۔ تم ہمارے اکلوتے بیٹے ہو۔۔۔ ہماری عمر بھر کی جمع پونجی ہو۔۔ کیسے ایک بدکردار لڑکی سے تمہاری شادی کر دیں؟”
اس کی ماں سیرت بیگم نے کہا۔
” نہیں ۔۔۔ ہے۔۔۔ وہ ۔۔۔ بدکردار۔۔۔”
شہیر نے اپنے الفاظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
” تم خود سوچو ۔۔۔ جو لڑکی اپنے استاد کو پھانس سکتی ہے ۔۔۔ اپنے استاد کو۔۔۔ شہیر۔۔۔ استاد کا مطلب سمجھتے ہو نہ تم ۔۔۔ تم اُس کے استاد ہو ۔۔۔ اور اس نے اس مقدس تعلق تک کا لحاظ نہیں کیا اور تمہیں اپنی محبت کے جال میں پھنسا لیا ۔۔۔ کیا کردار ہوگا اُس لڑکی کا ۔۔ ”
اس کی ماں نے سارا ملبہ عبیر پر گراتے ہوئے کہا
” تمہاری ماں صحیح کہہ رہی ہے شہیر۔۔۔ جو لڑکی اپنے استاد کو پھنسا سکتی ہے وہ واقعی بدکردار ہے۔ اگر کلاس فیلو ہوتا تو بات سمجھ آتی تھی۔ کیا تم ایسی بدکردار لڑکی سے اپنی نسل چلا سکتے ہو؟ کیا پرورش کرے گی وہ تمہارے بچوں کی؟ جس کا اپنا من میلا ہے۔۔۔ ”
اس کے والد وقاص شیرازی نے بھی وہی بات دہرائی تو وہ سوچ میں پڑ گیا۔
” مجھے کچھ نہیں پتہ۔۔۔ مجھے وہ لڑکی چاہیے ہر حال میں۔۔۔ اور یہ کام آپ دونوں کے بنا نہیں ہو سکتا ۔۔۔ اُس کے والد ہرگز مجھ اکیلے کی بات نہیں مانیں گے۔۔۔ آپ کل شام چلیں اُس کے گھر ورنہ ۔۔۔ ” شہیر نے دھمکی دی۔
” ورنہ کیا؟؟؟۔ کیا کر لوگے؟ گھر تو پہلے ہی چھوڑ چکے ہو۔۔۔ اور لڑکی نہ ہوئی کوئی گڑیا ہوگئی کے بس تمہیں چاہیے۔۔۔ شہیر شادی سوچ سمجھ کر کرنے والی چیز ہے۔ خاندان دیکھا جاتا ہے ۔۔۔ لڑکی کا کردار دیکھا جاتا ہے۔۔۔ افّفف مجھے تو سوچ کے ہی گھن آرہی ہے ۔۔۔ اپنے استاد کے ساتھ ۔۔۔ توبہ توبہ۔۔۔۔ ”
اس کی ماں نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔۔۔
شہیر آج بھی ناکام گھر واپس لوٹ آیا۔۔۔
وہ عبیر احسان سے کوئی فائدہ اٹھائے بغیر اُسے چھوڑنے والا نہیں تھا۔
” میں ایسا تو نہیں تھا۔۔۔ میں ایسا کیوں ہوگیا ۔۔۔ کیوں میری عقل کام نہیں کر رہی ہے اس لڑکی کے متعلق۔۔۔ کیوں میں بچھا جا رہا ہوں اُس کے آگے۔۔۔ محبت؟؟؟ کیا واقعی مجھے اس سے اتنی محبت ہے؟؟ ”
اس نے اپنی جیب سے سگریٹ نکلا اور جلا کے سوچنے لگا۔
” محبت کا تو مجھے نہیں پتہ۔۔۔ لیکن۔۔۔ رہ نہیں سکتا اب اُس کے بغیر۔۔۔ ” اُس نے خود سے کہا
” صاحب چائے بنا دوں؟” رشید کچن سے برآمد ہو کے بولا۔
” ہاں ذرا تیز سی۔” شہیر نے کہا
رشید چائے بنانے چلا گیا۔
” کیا وہ واقعی بدکردار ہے؟؟؟ کیا وہ میری بیوی بننے کے قابل نہیں ہے؟؟” وہ سوچ رہا تھا کہ رشید چائے لے آیا
” صاحب آج معمول سے زیادہ سوچ رہے ہیں۔۔۔ کیا بات ہے؟” رشید نے کہا
” رشید ۔۔۔ ایک با کردار لڑکی کی کیا نشانی ہوتی ہے؟” اُس نے نجانے کیوں یہ سوال کر ڈالا رشید سے۔
” صاحب سیانے کہتے ہیں۔۔۔ جو لڑکی ایک مرد سے تنہائی میں ملنے سے انکار کر دے ۔۔۔ وہ با کردار ہوتی ہے۔۔۔ اور جو تنہائی میں ملے۔۔۔ وہ بد کردار ۔۔۔” رشید نے جواب دیا۔
” رشید ۔۔۔ تم نے میری الجھن سلجھا دی۔۔۔” شہیر سگرٹ بجھاتے ہوئے کہا اور چائے کا کپ اٹھا لیا۔
” صاحب کوئی لڑکی پسند ہے کیا آپ کو؟” رشید نے کہا۔ وہ اکثر باتیں کرتا تھا شہیر کے ساتھ۔
” ہاں ۔۔۔ ہے ایک ۔۔۔ پر میں اُس کے بارے میں فیصلہ نہیں کر پا رہا۔۔۔ ” وہ بولا۔
” کیسا فیصلہ؟” رشید نے پوچھا۔
” شادی کا۔۔” وہ بولا۔
____________
“ایک مرد جب ایک عورت سے ملتا ہے تو وہ پہلی مرتبہ ہی فیصلہ کر چکا ہوتا ہے اپنے دل میں کے وہ اس لڑکی سے شادی کریگا کہ نہیں۔۔ ”
برہان احمد بول رہا تھا۔۔۔ ہانیہ گوش گزار تھی۔۔
” وہ کیسے سر؟” ہانیہ نے تجسس سے پوچھا۔
” ہانیہ ۔۔۔ ایک مرد کے دل میں تین خانے ہوتے ہیں۔ ایک شادی کا ۔۔۔ ایک دوستی کا ۔۔۔ ایک محبت کا۔۔۔ ایک مرد جب لڑکی سے ملتا ہے یاں بات کرتا ہے تو وہ پہلے ہی دن ان تین خانوں میں سے کسی ایک خانے میں لڑکی کو لاشعوری طور پر رکھ دیتا ہے۔ شادی والی سے فوراً شادی کر لیتا ہے ۔۔۔ استعمال والی کو انتظار کی سولی پر لٹکا کر رکھتا ہے۔۔۔ جب دل بھر جاتا ہے تو ” تم ایک بد کردار لڑکی ہو” جیسا زہریلا جملہ بول کر اسے چھوڑ دیتا ہے ۔۔۔ یاں پھر ساری عمر ” ہم دوست ہیں” کہہ کر اس تعلق کو گھسیٹتا رہتا ہے۔ ”
برہان احمد نے کہا۔
” پر سر اُس نے بات کی تھی اپنے گھر میں میرے متعلق۔۔۔” ہانیہ نے کہا۔
” نہیں ۔۔ وہ بات نہیں تھی ۔۔ وہ اپنی انا کی تسکین تھی ۔۔۔ اگر طریقے اور نیک نیتی سے بات کرتا تو آج آپ یہاں نہ ہوتیں۔۔۔ اُس کے گھر میں اُس کے بچے پال رہی ہوتیں ان پانچ سالوں میں۔۔ اُس نے بس اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے گھر میں بات کی تھی۔۔۔ ہانیہ بات کرنے میں اور راضی کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔۔۔ جو واقع شادی کرنا چاہتا ہے وہ راضی کرتا ہے گھر والوں کو مضبوط دلائل سے ۔۔۔ جو استعمال کرتا ہے وہ بات کرتا ہے کمزور دلائل کے ساتھ اپنے گھر والوں سے ۔۔۔ گھر والوں سے بات کرتے ہوئے اُس کے دلائل اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ وہ راضی نہیں باغی ہو جاتے ہیں اس رشتے کے۔۔”
برہان احمد نے کہا۔
” سر تو لڑکی خود کو کیسے بچائے ایسے شخص سے؟”
ہانیہ نے کہا۔
” اپنے مخلص دوست کو بتا کر ۔۔۔ ہانیہ کبھی بھی اپنے اُس دوست سے ایسا تعلق نہ چھپائیں جو آپ کا بھلا چاہتا ہو ۔۔۔ اور یاد رکھنا ۔۔ ایسا فریبی انسان سب سے پہلے آپ کو اپنے مخلص دوست سے اس تعلق کو چھپانے کو کہے گا۔”
برہان احمد نے کہا۔۔۔
____________
آج حریم پھر بیمار ہوگئی تھی۔ اُس نے علی سے کہا کہ اُسے یونی ورسٹی ڈراپ کر دے۔
” نہیں آج مجھے کہیں اور جانا ہے سائٹ پر ۔۔ آفس کے راستے نہیں جانا آج تم ابا کے ساتھ چلی جاؤ۔” علی نے کہا۔
” چلو ڈراپ کر دیتا ہوں تمہیں۔” احسان انصاری نے کہا تو وہ حیران ہوئی اور خوش بھی۔
یونی ورسٹی کی گیٹ پر وہ پُہنچے تو سرور کی بائیک بھی ساتھ آکر رکی۔
” سرور” احسان احمد نے گاڑی سے اتر کر اُسے پُکارا تو وہ پلٹا۔
” احسان چاچو ۔۔۔ کیسے ہیں آپ؟” سرور نے گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے پوچھا۔
” اللہ کا کرم ہے تم یہاں؟” احسان احمد نے پیچھا۔
” پڑھتا ہوں یہاں” اُس نے عبیر کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
” اچھا اچھا۔۔۔ یہ میری بیٹی ہے عبیر۔” احسان احمد نے تعارف کرواتے ہوئے کہا۔
” جانتا ہوں ۔۔۔ کلاس میں ہیں میری یہ۔” سرور نے کہا۔
” یہ تو اچھی بات ہے۔ عبیر یہ سرور ۔۔ تمہارے سجاد چاچو کا بیٹا۔” احسان احمد کہا تو عبیر کو یاد آیا کے اُس نے بچپن میں دیکھا تھا سرور کو سجاد چاچو کے ساتھ ایک مرتبہ اُن کے گھر آیا تھا۔۔۔ اور کب اس وہ سوچ رہی تھی کے اُس نے سرور کو کہاں دیکھا ہے۔
” ابا مجھے دیر ہورہی ہے۔” عبیر کو خوشی نہیں ہوئی تھی یہ جان کر کے سرور اُس کا رشتے دار تھا۔۔۔ ایسا ہی کچھ حال سرور کا تھا۔
عبیر اندر چلی گئی۔
” عبیر کا خیال رکھنا۔۔۔ بہن جیسی ہے تمہاری۔۔۔ نہ جانے کس دل سے بھیجا ہے اُسے یہاں پڑھنے کے لیے۔۔۔ بہت سادہ سی ہے۔ لوگوں کی پہچان نہیں ہے اسے۔ ڈرتا ہوں میں ۔۔ ” احسان احمد میں سرور کے مزید قریب ہو کر سرگوشی کے انداز میں کہا۔
” میرے خیال سے وہ اپنا اچھا برا بہتر جانتی ہیں۔۔۔میں کسی کے معاملات میں بلاوجہ ٹانگ نہیں اڑاتا۔۔ اور جاسوسی سے تو سخت کوفت ہے مجھے۔۔ آپ کی اولاد ہے ۔۔ آپ جانے ۔۔۔ چلتا ہوں۔” سرور کہتا ہوا چلا گیا۔
” بدتمیز لڑکا۔۔۔ لگتا ہے نہیں کے سجاد کا بیٹا ہے۔ ”
احسان احمد کہتے ہوئے واپس گاڑی میں بیٹھ گئے۔ اُنہیں۔ سرور اچھا نہیں لگا تھا۔
_______________
وہ پچھلے چار دن سے شہیر شیرازی کو نظر انداز کیے جا رہی تھی۔
ایک کلاس کے سامنے سے گزر رہی تھی کے کسی نے اُس کا ہاتھ کھینچ کر اُسے اندر کیا۔
دیکھا تو شہیر ہے۔
” کیا بد تمیزی ہے یہ؟” عبیر نے غصے سے کہا اور جانے لگی۔
” بات کرنی ہے مجھے۔” وہ اُسے روک کر بولا۔
” مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی ہے۔” عبیر نے غصے سے کہا۔
” کیوں نہیں کرنی؟ میں نے ملنے کا کسی غلط ارادے سے نہیں کہا تھا۔ میں کہنا چاہتا تھا کہ تم میرے گھر آؤ۔ میں وہاں اپنی مام کو بلا کر تمہاری اُن سے ملاقات کروانا چاہتا تھا۔ مگر تم نے میری پوری بات سنے بغیر ہی کال کاٹ دی اور مجھے بلاک کر دیا۔ افسوس ہوا مجھے عبیر۔ تم نے میری محبت پر شک کیا۔ میں نے مام سے کہا تھا کے میں تمہیں اُن سے ملواؤں گا۔۔۔ مگر تم نہیں آئیں تو مام بھی ناراض ہوگئیں ہیں مجھ سے ۔۔۔ اچھا خاصا میں نے مام کو راضی کر لیا تھا اِس رشتے کے لیے۔ وہ ایک بار تم سے ملنا چاہتی تھیں مگر ۔۔۔ تم نے سب خراب کے دیا۔”
شہیر نے جھوٹ کا ہتھیار استعمال کرتے ہوئے کہا۔ کیوں کے اب سچ نہیں بتا سکتا تھا۔
” آپ ۔۔۔ آپ سچ کہہ رہے ہیں؟” عبیر نے معصومیت سے پوچھا۔۔۔ کتنا نظر انداز کرتی اُسے ۔۔۔ آج تو وہ بےحد قریب تھا۔
اس کے سوال پر شہیر نے اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی شیشی نکالی۔
” اس میں زہر ہے۔ سائینائڈ ۔۔۔ پانچ سیکنڈ میں انسان مر جاتا ہے اسے کھانے سے ۔۔۔ آج تک کوئی نہیں بتا سکا کے سائینائڈ کا ذائقہ کیسا ہے۔ ۔۔ کیوں کے یہ بتانے کے لیے انسان زندہ ہی نہیں رہ سکتا ۔۔ اتنی جلدی مار دیتا ہے یہ سائینائڈ انسان کو ۔۔۔ میں ابھی تمہارے سامنے خود کو ختم کر دونگا۔۔۔ اگر تمہیں میری محبت پر یقین نہیں ہے تو۔ ” شہیر نے کہہ کر شیشی کھول دی اور پینے کی اداکاری کرنے لگا۔۔۔ جانتا تھا وہ اُسے روک لےگی ۔۔۔ اور اس میں زہر تھا بھی نہیں ۔۔۔ ایسی دوا تھی کے کچھ متلی ہوتی تھی اور بس۔ اگر کھا بھی لیتا تو جان سے نہ جاتا ۔۔ ہاں کچھ دن ہسپتال میں ضرور رہنا پڑتا ۔۔
” نہیں۔۔۔ ” عبیر نے اس کا ہاتھ روکتے ہوئے کہا۔
” خدا کی قسم لڑتا رہا ہوں اپنے گھر میں تمہارے لیے ” وہ شدتِ جذبات سے بولا۔
” قسم نہ کھائیں.” عبیر پھر سے پگھلنے لگی۔
” تو اور کیا کروں ۔۔۔ تمہیں یقین جو نہیں آتا مجھ پر۔ مر جاؤں گا ۔ عبیر مر جاؤں گا تمہارے بغیر۔ ” وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کے بولا۔
سرور وہاں سے گزر رہا تھا کہ اسے ہلکی سے آوازیں سنائی دیں۔
رکا اور کھڑی کی اوٹ سے دیکھا تو دونوں نظر آگئے۔
” اور چاچو کہتے ہیں۔۔۔ میری بیٹی سادہ ہے۔۔۔ دیکھ لیں اپنی سادہ بیٹی کے کرتوت ۔۔۔ یہ پڑھائی ہو رہی ہے ۔۔ ” وہ سر جھٹکتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
__________
پھر سے گیارہ بجے والی کال کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔
وہی محبت بھری باتیں ۔۔۔ قسمیں، وعدے۔۔۔ اور اندھا اعتماد ۔۔۔
” کل شام میں تمہیں اپنے والدین کے پاس لے جاؤں گا۔ اُن کے تلخ رویے کو تم نے برداشت کرنا ہے۔ بس ایک بار تمہیں دیکھ لیں۔شاید تمہیں دیکھنے سے اُن کا دل نرم ہو جائے ۔تم اُنہیں پسند آجاؤ۔” شہیر نے کہا۔
” میں کیسے؟؟ میرا گھر سے نکلنا اتنا آسان نہیں ہے شہیر۔” وہ بولی۔
” کوئی بہانہ بنا دو۔” اُس نے کہا۔
” مجھے نہیں پتہ۔۔۔ میں نہیں نکل سکتی گھر سے ” وہ پریشان ہوگئی۔
” شادی کرنی ہے تو گھر سے نکلنا ہوگا۔” شہیر نے کہا۔
” ٹھیک ہے میں ۔۔۔ سوچتی ہوں کچھ۔” وہ بولی۔
پھر سوچتی رہ گئی۔۔۔ لیکن اس کا کام تب آسان ہوا جب ناشتے پر احسان احمد نے دو دن کے لیے گاؤں جانے کا اعلان کیا۔ وہ ماہ میں ایک چکر گاؤں کا ضرور لگاتے تھے۔
سعدیہ خاندان سے باہر کی تھی اس لیے وہ کم ہی گاؤں جاتی تھی۔ لیکن احسان احمد اپنے گاؤں اور اپنے رشتے داروں سے جوڑ کر رہنا نہیں بھولتے تھے۔ شہر کی تیز رفتار زندگی سے جو کبھی بیزار آجاتے تو ایک آدھ دن گاؤں کی تازہ آب و ہوا سے ضرور لطف اندوز ہوتے ۔۔۔ لیکن ان کی جاب سرکاری تھی اور اتنی چھٹی نہیں ملتی تھی۔
احسان احمد گاؤں کے لیے صبح سویرے ہی نکل گئے تھے۔ اب عبیر کا راستہ ہموار تھا۔
” امی میں نے کچھ کتابیں لینی ہیں” وہ سعدیہ کے سر پر آکر کھڑی ہوگئی
” سدرہ کے ساتھ چلی جاؤ۔” سعدیہ نے رات کے کھانے کے لیے گوشت فریزر سے نکالتے ہوئے کہا۔
” نہیں ۔۔ مجھے نہیں جانا سدرہ کے ساتھ” وہ منہ بنا کر بولی۔
” تو علی کے ساتھ جاؤ۔” سعدیہ اب سبزیوں میں پیار تلاش کرتے ہوئے بولی۔
” امی۔۔۔ اس گھر میں ابو آزاد ہیں۔۔۔ سدرہ آزاد ہے۔۔۔ علی آزاد ہے۔۔۔ آپ آزاد ہیں۔۔ تو میں کیوں نہیں؟؟؟ کیا میرا اتنا حق نہیں کے میں اپنے لیے کتابیں لینے بازار تک جا سکوں؟ ” وہ ناراضگی سے بولی۔
” تمہارے ابا…” سعدیہ نے کہا۔
” ابا یہاں نہیں ہیں ابھی ۔ میں جا رہی ہوں۔ امی مجھے نکلنے دیں اکیلے۔۔۔ کب تک میں کسی کو ساتھ لیکر پھرتی رہوں گی۔۔ مجھے بھی تو کچھ آنا چاہیے ” وہ پندرہ منٹ تک سعدیہ کا سر کھاتی رہی تو اجازت مل گئی۔
” جاؤ گی کیسے؟” سعدیہ نے پیچھے سے پُکارا۔
” رکشے میں۔” اُس نے کہا اور تیزی سے نکل گئی۔
” ہائے اکیلے ۔۔ رکشے میں ۔۔ ” سعدیہ پریشان ہوئی۔
گھر سے اُس نے رکشا کیا تھوڑی دور شہیر کی گاڑی کھڑی تھی۔
شہیر نے رشید کو چھٹی دے دی تھی اور سیرت بیگم اور وقاص شیرازی سے کہا کے کسی خاص دوست سے ملوانا ہے میرے گھر آجائیں۔ اُس کے والدین اُس کے گھر میں خاص دوست کے انتظار میں بیٹھے تھے۔
عبیر خوفزدہ تھی۔ پہلی بار اس طرح سے نکلی تھی۔ احسان احمد تو نہیں تھے لیکن اُسے علی سے ڈر لگ رہا تھا۔
” پریشان نہ ہو سب ٹھیک ہوگا۔” شہیر نے اسے دلاسا دیا۔
” دیکھو عبیر۔۔۔ ابھی مام ڈیڈ کے ذہن میں تمہارا منفی خاکہ بنا ہوا ہے۔ اسی لیے میں تمہیں اُن سے ملوانا چاہتا ہوں تاکہ اُن کی سوچ تمہیں دیکھ کر بدل جائے۔ تمہیں کچھ مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا شروع میں پھر سب ٹھیک ہو جائیگا۔ بس وہ جو بھی کہیں سر جھکا کر سن لینا پلیز۔۔ میری خاطر ۔۔ میری محبت کی خاطر ۔۔۔ اُنہیں اندازہ ہو جائے گا کے تم ایک خاندانی لڑکی ہو ” شہیر نے کہا۔
” کیا مطلب ۔۔ وہ مجھے خاندانی نہیں سمجھتے؟” عبیر نے حیرت سے پوچھا تو شہیر کو احساس ہوا کہ وہ غلط بول گیا ہے۔
” نہیں ایسی بات نہیں۔۔ ” شہیر کا گھر آگیا تھا۔
عبیر کا دل زور سے دھڑکنے لگا۔
یہ خوبصورت سا گھر تھا باہر سے۔ لان بھی تھا۔ وہ دونوں اندر داخل ہوئے۔
” مام ڈیڈ ۔۔۔ یہ عبیر ہے۔ ” شہیر نے تعارف کروایا تک وہ دونوں عبیر کا نام سن کے ایک جھٹکے سے کھڑے ہوئے۔
” اچھا تو یہ ہے وہ بدکردار لڑکی۔۔ جس نے تمہاری عقل پر پردہ ڈال دیا ہے ”
سیرت بیگم کے زہر میں ڈوبے ہوئے الفاظ عبیر کی سماعتوں سے ٹکرائے تو عبیر کو یقین نہیں آرہا تھا کے کوئی اس کے لیے ” بدکردار” کا لفظ استعمال کر رہا ہے۔
” مام پلیز ۔۔ میں عبیر کی بہت عزت کرتا ہوں۔ اُس کے متعلق ایسے الفاظ برداشت نہیں کر سکتا۔ میں اُس سے محبت کرتا ہوں اور اسی سے شادی کروں گا۔ آپ اسے اپنی بہو کے طور پر تسلیم کر لیں ” شہیر نے کہا تو عبیر نے اس کی طرف دیکھا۔ لیکن ” بدکردار ” کا لفظ سننے پر عبیر کا چہرہ پیلا پڑ چکا تھا۔
” ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔۔۔ تمہاری شادی میری بھتیجی سے ہوگی اور بس۔۔۔ چلو سیرت” وقاص شیرازی کہتے ہوئے اپنی بیگم کو چلنے کا اشارہ کرتے باہر نکل گئے۔ سیرت بیگم نے ایک حقارت آمیز نظر عبیر پر ڈالی اور وہاں سے چلی گئیں۔
شہیر سر پکڑ کر گرنے کے انداز میں صوفے پر بیٹھ گیا۔
عبیر ابھی تک وہاں کسی مجسمے کی طرح کھڑی تھی۔
“۔ دیکھا تم نے؟؟ یہ دونوں ذہنی مریض ہیں۔ اب مجھے بتاو میں کہاں جاؤں؟ کیا کروں۔” شہیر کا کہا۔
” آپ کی امی نے مجھے ۔۔۔ بد کردار لڑکی کہا ۔ ”
عبیر نے دکھ سے کہا۔
شہیر فوراً کھڑا ہوا اور اس کے قریب آیا
” دیکھو عبیر ۔۔۔ میں تم سے معافی مانگتا ہوں اُن کی طرف سے ۔ ” شہیر نے اُسے شانوں سے تھام کے کہا اور آرام سے صوفے پر بٹھایا۔
” مجھ سے آج تک کسی نے ایسے بات نہیں کی شہیر۔۔۔ میرے باپ نے بھی نہیں۔۔۔ ” وہ صدمے میں تھی
” عبیر چھوڑو اس بات کو۔” شہیر نے کہا۔
” کیسے چھوڑ دوں؟ میں ۔۔۔ میں ۔۔ اپنی ماں کی لاڈلی ہوں ۔۔۔ ابا نے کبھی جتایا نہیں لیکن میں جانتی ہوں اُنہیں مجھ سے محبت ہے۔ میں کوئی ہلکے خاندان کی نہیں ہوں شہیر کے کوئی بھی کچھ بھی بول دے مجھے۔ میری بہت عزت ہے اپنے گھر میں ۔ اور جہاں میں جاتی ہوں۔۔۔ ” عبیر نے کہا
” دیکھو عبیر ۔۔۔ یہ لوگ کبھی راضی نہیں ہونگے ۔ اور نے تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ اب ایک ہی راستہ ہے۔ یاں تو کے خود تمہارے والد کے پاس آجاؤں۔۔۔ اور تمہارا ہاتھ مانگ لوں۔۔۔ صاف کہہ دوں کے والدین میرے اس شادی میں شریک نہیں ہونگے۔” شہیر نے کہا۔
” ابا نہیں مانے گے۔۔۔ اُن کا معیار بہت اونچا ہے۔ وہ گھر والوں کے بغیر شادی نہیں کریں گے۔” عبیر نے کہا۔
” تو پھر ہم نکاح کر لیتے ہیں۔ یہی آخری راستہ ہے۔ ایک بار نکاح ہوگیا تو سب مان جائیں گے۔” شہیر نے کہا۔
” نہیں نہیں ۔۔۔ بلکل نہیں ۔۔۔ منائیں اپنے والدین کو ۔۔ کچھ بھی کر کے منائیں اُن کو۔۔۔ مجھے کچھ نہیں پتہ۔۔ یاں اُن کو راضی کریں ۔۔یاں بات ختم کریں بس۔” عبیر کہتی ہوئی اٹھی اور جانے لگی تھی شہیر نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
” اتنا آسان ہے تمہارے لیے مجھ سے تعلق ختم کرنا ؟ “۔ شہیر نے جذباتی حمله کرتے ہوئے کہا۔
عبیر کے لیے واقعی مشکل تھا ۔۔۔ وہ محبت کر بیٹھی تھی ۔ بہت آگے نکل گئی تھی۔ اس نے کھینچ کے اُسے مزید قریب کیا۔
” میرے بغیر رہ لوگی؟ میری یاد نہیں آئے گی؟ کسی اور کےساتھ رہ کر مجھے بھول جاؤ گی؟” شہیر نے اُس کے سامنے کی لٹ کو اُس کے کان کے پیچھے کرتے ہوئے کہا۔ وہ اُس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔عبیر نے نظریں جھکائیں۔
” میں نے ہے پل، ہر لمحہ اس گھر میں تمہارے وجود کو اپنے ساتھ محسوس کیا ہے۔ تمہارا ساتھ تصّور کرتا رہتا ہوں یہاں۔ اس گھر کے ہر حصے میں مجھے تم نظر آتی ہو۔ کبھی میرے لیے کچن میں کھانا بناتے ہوئے۔۔ کبھی لان میں میرے ساتھ چائے پیتے ہوئے ۔۔ آنے والی زندگی میں تمہیں اس گھر میں سوچتا رہتا ہوں میں۔” وہ بولتا ہوا اسے شانوں سے تھام کر بٹھانے لگا صوفے اور وہ بیٹھتی چلی گئی۔
” کیا تمہیں یہ گھر اپنا اپنا سا نہیں لگتا؟” اُس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیکر پوچھنے لگا۔ اُس نے لمس سے جسے عبیر کو کرنٹ لگا تھا لیکن وہ اس کی جسراتوں کو روک نہیں پا رہی تھی۔ ایسے ہی میٹھی میٹھی باتیں کرتا ہوا وہ اپنی حسرتیں بڑھانے لگا۔ جب مکمل جان گیا کے مقابل کمزور ہے۔۔۔ نفسیاتی طور پر کمزور ہے۔۔ تو اُس کو قابو کرنا آسان تھا۔ وہ کردار کے لحاظ سے کمزور نہیں تھی۔ وہ جذباتی اور نفسیاتی طور پر کمزور تھی۔ اُسے احساس تھا کے جو ہو رہا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی اُسے روکنے سے قاصر تھی۔
تنہائی۔۔ دو مخالف جنس۔۔ اور تیسرا شیطان۔۔۔
” بہت محبت ہے تم سے۔۔۔ بہت ہی زیادہ ” اُسے حصار میں لیتے ہوئے اُس کے کان میں سرگوشیاں کرنے لگا۔ سننے میں اچھا لگ رہا تھا۔ جو ہو رہا تھا غلط تھا لیکن بہک رہی تھی۔۔ نہیں بلکہ بہک چکی تھی۔ وہ کمزور لمحات کی زد میں آ گئی تھی۔
کوسنے ہوتے ہیں یہ کمزور لمحیں۔۔۔ ؟؟؟
رات کے وقت اندھیرے میں کیے جانے والے فون کال ۔۔۔ شام سے رات ہوتے ہوئی کسی اکیلے گھر میں ۔۔۔ ایک شاطر انسان۔۔ ایک بیوقوف کمزور لڑکی۔۔۔ سونے پر سہاگا لائٹ چلی گئی۔ اور یو پی ایس کے تار جان بوجھ کر نکالے گئے تھے پہلے سے ۔۔ یہ ساری پلاننگ پہلے سے کی گئی تھی ۔ جانتا تھا اُس کے والدین عبیر کو دیکھنے کے بعد دو منٹ بھی نہیں رکیں گے۔ پھر ساتھ بجے واپڈا بھی مہربان ہوگا۔ اب اندھیرا تھا اور وہ دونوں۔ شہیر شیرازی آرام آرام سے اُس اور قابض ہو رہا تھا۔ پندرہ منٹ یوں ہی گزر گئے۔ وہ اُس کے ساتھ غلط کرتا رہا اور وہ غلط ہونے دے رہی تھی۔ آنکھیں میچے ہوئے وہ اُس کی تمام تر جسارتیں برداشت کر رہی تھی۔ اُسے حصار میں لیے وہ اُس کے معصوم چہرے کو پچھلے پندرہ منٹ سے داغ رہا تھا۔
” مجھے گھر جانا ہے۔” اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوۓ وہ ہمت کر بولی اور ہاتھ سے اُسے روک لیا۔
” دل نہیں کر رہا کہ تمہیں جانے دوں۔” وہ کہتا ہوا پھر سے اُس کے چہرے کو داغنے لگا۔
” دیر ہورہی ہے۔امی انتظار کر رہی ہوں گی۔” وہ کمزور لہجے میں بولی۔
“چلو۔” شہیر نے گاڑی کی چابیاں اٹھائیں اور اُسے ہاتھ سے پکڑ کر کھڑا کیا۔
اُسے گھر کے قریب ڈراپ کیا اور دیکھنے لگا جب تک وہ اندر نہ گئی
وہاں کھڑا کافی دیر سوچتا رہا ۔۔ اُسے رشید کی بات یاد آئی۔۔۔
(” صاحب سیانے کہتے ہیں۔۔۔ جو لڑکی ایک مرد سے تنہائی میں ملنے سے انکار کر دے ۔۔۔ وہ با کردار ہوتی ہے۔۔۔ اور جو تنہائی میں ملے۔۔۔ وہ بد کردار ۔۔۔”)
فیصلہ تم نے خود کر دیا عبیر احسان۔۔۔ میں واقعی تمہیں بیوی بنانے کا سوچ بیٹھا تھا۔۔۔ لیکن تم نے آج ثابت کر دیا کے تم بیوی نہیں بن سکتی ہو ۔۔۔ ڈیڈ ٹھیک کہتے ہیں۔۔۔ تمہارا من میلا ہے۔۔۔
شہیر شیرازی نے زیرِ لب کہا اور گاڑی سڑک پر دوڑا دی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...