ایلاف کا حلق خشک ہوگیا تھا۔اس کی زندگی کا یہ پہلو تو آج تک کوئی نہیں جانتا تھا۔
کسی کو اس بھید سے آشنائی ہی نہ تھی۔
تو اب یہ کیا ہوا تھا؟
معلوم بھی ہوا تو کسے؟
کم از کم وہ اذلان کے سامنے تو اپنا یہ راز نہیں کھولنا چاہتی تھی۔
کیا سوچے گا اذلان؟
ایک اور بیوقوفی
ایک اور حماقت
انہیں ہی کیوں پتہ چلا؟
ایلاف نے دھڑکتے دل کے ساتھ اذلان کے چہرے کے بدلتے رنگوں کو دیکھا تھا اور کچھ کھوجنا چاہا۔
تضحیک کا احساس!
بدگمانی کے رنگ!
جیسے جیسے اذلان شاہ پڑھتا جا رہا تھا اس کے چہرے کا رنگ بدلتا جا رہا تھا۔
” یہ آپ نے لکھا ہے ایلاف؟” اذلان نے تائید چاہی
ایلاف کی رائئٹینگ وہ دیکھ ہی چکا تھا سو انکاری ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔
” انجام جو بھی ہو!” ایلاف نے سوچا اور مرے مرے انداز میں سر ہلا دیا۔
“آئی کانٹ بلیو دس!آپ اور یہ سب، کب سے کر رہی ہیں یہ؟” اذلان شاہ شاکڈ ہو کے بولا۔
” میٹرک کے بعد سے۔ ” ایلاف نے ہلکی آواز میں کہا۔
” اب یہ میرا مذاق اڑائیں گے۔” ایلاف نے سوچا۔
” واقعی ایلاف آپ واقعی بہت بڑے بڑے کام کرتی ہیں،مان گئے ہم!” اذلان شاہ نے توصیفی انداز میں کہا۔
ایلاف نے اپنا سر جھکا لیا۔
” مذاق اڑا رہے ہیں میرا،آپ کو برا لگا ہے تو صاف کہیں۔”
” ارے بالکل بھی نہیں،یقین نہیں آرہا کہ یہ آرٹیکل انٹر کی ایک اسٹوڈنٹ نے لکھا ہے۔کیا آبزرویشن ہے ایلاف،یو ڈڈ گریٹ جاب۔دس ٹاپک مسٹ بی انکلوڈڈ ان ہائی پروفائل بزنس میگزین۔کیا عنوان ہے،Embedding agriculture in to the aggregate Economy ” اذلان کے لہجے میں کیا نہیں تھا۔
ستائش
تعریف
مرعوبیت!
اور وہ سب کچھ جو ایلاف سننا چاہتی تھی.
“آپ سیریس ہیں؟میرا دل رکھنے کو تو نہیں کہہ رہے۔” ایلاف کو یقین ہی نہ آیا۔
ابھی کچھ دیر پہلے تو کتنے کیڑے نکال رہے تھے اور اب اکنامکس پہ لکھا گیا اس کے فیچر پہ تعریفوں کے پل باندھ دئیے تھے۔
” اف کورس آئم سیریس!اکانومی او ذراعت کو آپ نے بہت اچھے سے ریلیٹ کیا ہے۔پاکستان کی اکانومی یو نو ذراعت پہ ہی ڈپینڈ کرتی ہے۔آپ نے اس آرٹیکل کو دیا کیوں نہیں اب تک پریس کیلئے اور کس پیپر میں دیتی ہیں آپ؟” اذلان نے اس کا حوصلہ بڑھانے کے ساتھ ساتھ پوچھا بھی تھا۔
“واقعی تھینک یو!” کہنے کے ساتھ ایلاف نے اسے میگزین کا نام بتایا۔
” اونہوں! اس ٹاپ کلاس مضمون کیلئے تو ہائی کلاس میگزین ہونا چاہئے۔ہم کچھ کرتے ہیں اس کا۔” اذلان نے کہتے ہوئے وہ پیپرز فولڈ کئے۔
” اب ایسا بھی کچھ خاص نہیں ہے۔ میری پہنچ تک جو پیپر تھا میں بھیج دیتی تھی۔” ایلاف نے اسے کہا۔
” یہ اب ہمارا مسئلہ ہے اور مادام آپ ایک اکاؤنٹیٹ اور ایک زمیندار سے بات کر رہی ہیں جس کے پاس باقاعدہ زراعت کی بھی ڈگری ہے سو ہم سمجھ سکتے ہیں۔” اذلان نے اسے بتایا۔
ان کے درمیان سے اجنبیت کی دھند چھٹنے لگی تھی۔اپنا پن کہیں نہ کہیں رنگ دکھانے لگا تھا۔
“لیں زراعت کو بھی نہیں بخشا۔”ایلاف حیران ہوئی۔
” اور کتنی ڈگریز ہیں؟”وہ پین رجسٹر پہ رکھتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔
” فی الحال تو یہی ہیں اور کیا اب آپ نے سمری نہیں لکھنی۔چلیں شاباش لکھنا شروع کریں۔” اذلان نے توجہ کروائی۔
اذلان نے بک اٹھائی اور بولنا شروع کیا۔
ایلاف رجسٹر پہ دوبارہ جھک گئی تھی۔اذلان شاہ بہت روانی سے بول رہا تھا مگر قلم بار بار رک رہا تھا۔
ایک تو اذلان کا انگریزوں کی طرح کا ایکسنٹ،وہ انگریزی بالکل اہل زبان کی طرح بول رہا تھا۔اوپر سے کھڑکی سے آتی سرد ہوا۔
“پتا نہیں انہیں کونسی گرمی چڑھی ہوئی ہے۔اوپر سے منہ میں کیا پتھر رکھ کے بول رہے ہیں۔” ایلاف نے سوچا۔
” کیا بات ہے؟ ” اذلان نے چوتھی مرتبہ اسے پین روکتے دیکھ کے پوچھا۔
” آہستہ’ آہستہ بولیں۔آپ کا ایکسینٹ ہی سمجھ نہیں آرہا۔ اوپر سے یہ ٹھنڈ۔” ایلاف نے آدھا جملہ منہ میں ہی رکھا۔
” پیپرز کے بعد آپ لینگویج کورس کریں گی۔” اذلان نے نیا آڈر پاس کیا۔
اور پھر آہستہ سے بولنے لگا۔
ایلاف شکر ادا کر کے دوبارہ لکھنے لگی۔
باہر آج بادل بھی شرارت پہ آمادہ تھے۔
ہوا کی رتھ پہ سوار وہ راوی کنارے اڑے چلے آئے
اور دیکھتے ہی دیکھتے خشک زمین پہ برسنے لگے۔
اور!
بادلوں کی فطرت ہے
کہ برسنے سے پہلے گرجتے ضرور ہیں
اور کوئی کتنے بھی جتن کر لے
فطرت بدلتی نہیں۔
باہر کے موسم سے بے نیاز اپنے حال میں لکھتی ایلاف کے کانوں میں بادلوں کے گرجنے کی آواز کیا پڑی۔
روانی سے چلتا اس کا ہاتھ بہک گیا
پورے صفحہ پہ سیاہی پھیل گئی تھی۔
“بارش!” ایلاف کی چھٹی حس نے اسے اشارہ دیا۔
” توبہ!یہ بارش کہیں اور کیوں نہیں برستی۔رات میں برسنا ضروری ہے۔”ایلاف نے کانوں کے گرد مضبوطی سے چادر لپیٹی۔
بادل گرجنے کے ساتھ ساتھ بجلی بھی چمکنی شروع ہوگئی تھی۔
” اوہ!بارش شروع ہوگئی ہے یہ کھڑکی بند کرنی پڑے گی۔ ” اذلان اٹھتے ہوئے بولا۔
ایلاف نے اسے روکنا چاہا کہ بارش ہورہی ہے کھڑکی کے پاس نہ جائیں مگر وہ تو اذلان تھا اسے بارشیں تو نہیں ڈراتی تھیں۔
اذلان نے جونہی کھڑکی کی طرف ہاتھ بڑھا کے اسے بند کرنا چاہا۔اسی پل بجلی اتنی شدت سے چمکی تھی اور بادل گرجے تھے کہ بجلی کی چمک کا عکس اذلان کے پورے وجود پہ پڑا۔
ایلاف جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
نجانے اسے کیا ہوا تھا
نجانے اپنے خوف کے زیر اثر
یا
اذلان کی پروا کا اثر تھا
“کیا کر رہے ہیں آپ؟نظر نہیں آرہا موسم کتنا خراب ہے پھر بھی کھڑکی کے پاس چلے آئے۔آئرن مین نہیں ہیں آپ،ابھی ہوجاتا کچھ تو۔۔۔۔” ایلاف نے جھٹکے سے اذلان کا ہاتھ پکڑ کے اسے پیچھے کرنے کی کوشش کی تھی۔
” ابھی یہ بجلی کچھ کر جاتی تو۔۔۔۔” ایلاف اس سے آگے سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی۔
اس کا تو خون خشک ہوگیا تھا۔
وہ اذلان کو کیا روکتی الٹا اذلان نے خوف سے کانپتی اس لڑکی کو سنبھالا تھا۔
اتنی پروا!
کیا واقعی اسے میری فکر ہے؟
“اسے محسوس ہونے لگا ہے میرا وجود اور اس کی اہمیت۔”اذلان شاہ ایک خوشگوار سی کیفیت میں تھا۔
ایلاف نے اس کی چادر کا کونا اتنی زور سے بھینچا ہوا تھا کہ اس کی مٹھیاں لال ہونے لگی تھیں۔
اذلان نے اس کے کاندھوں پہ ہاتھ رکھ کر اس کا توازن برابر کیا۔
اب وہ اس کے پاس تھی۔
سامنے تھی،روبرو تھی
اسکی پروا سے لرزتی،کانپتی!
” ایلاف!یہ بجلی سے بھلا کیا ہوتا ہے۔واقعی ہم آئرن مین نہیں ہے مگر ہم اذلان شاہ ہیں اور یہ آپ کو کیا بارش سے ڈر لگتا ہے کیا؟کچھ نہیں ہوتا ایلاف بی بریو۔” اذلان نے اس کی ہمت بڑھاتے ہوئے ہولے سے اس کا چہرہ تھپتھپایا۔
وہ جوآنکھیں بند کئے کھڑی تھی اذلان کی بات پہ اس نے آنکھیں کھولی تھیں۔
سبز کانچ میں آنسوؤں کی جھلملاہٹ تھی۔وہ کسی خوفزدہ ہرنی کی طرح سہمی ہوئی تھیں۔
اذلان ان آنکھوں کو دیکھتے ہوئے نہایت مختلف کیفیت کا شکار ہوا تھا۔
یہ وجود بہت خاموشی سے اپنی اہمیت منوا رہا تھا
اور ایلاف۔۔۔۔اذلان کے وجود پہ چھائی خوشبو اس کی سانسوں میں تحلیل ہونے لگی تھی۔
بھیگی سی اک رات
لے آئی کیا ساتھ
یہ دھڑکنے جو ہمیں کہنےلگی ہیں
خاموشی کے درمیاں کب چاہئے تھی بات
یہ دھڑکنیں جو ہمیں کہنے لگیں ہیں
نہ کہو!
نہ سنو!
خاموشی گفتگو ہونے لگی ہے
زندگی خواب میں گم ہونے لگی ہے
وہ دو دل آج ایک دوسرے کی دھڑکن سن رہے تھے۔
ان کے بیچ خاموشی بے حد معنی خیز تھی۔
“ہم آپ کے ساتھ ہیں۔”وہ اسکا دائیں ہاتھ تھامے یقین دلا رہا تھا۔
ایلاف نے ایک گہری سانس لی۔
تیری خوشبو پروئی سانسوں میں
دھڑکن کا جو تو ورد ہوا
بنا خواب تو جاگے آنکھ میں
میری روح کو تونے جو چھوا
کچھ یاد ہی نہیں اب تو
جانے کون ہے تو میرا سب
آج کی رات اذلان شاہ اور ایلاف کیلئے اپنے جلو میں لے کے بہت کچھ لے کے نکلی تھی۔
بہت انوکھے سے رنگ جو روح پہ ہی چڑھتے ہیں،جن کا رنگ نہایت پکا ہوتا ہے۔
یہ روح سے روح کا احساس جڑ رہا تھا جو ہر رشتے سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔
کسی رشتے کی مضبوطی جاننی ہے تو اسے روح کی گہرائی سے محسوس کرو۔
اترنے دو اسے روح کے اندر جسموں کے تعلق پھر بے معنی ہوجاتے ہیں۔
“ایلاف کچھ نہیں ہوا آئی ایم اوکے،آپ کا کئیرنگ کا انداذ مجھے پسند آیا بٹ ناؤ نارمل ہوجائیں پھر بعد میں شکوہ نہ کیجئے گا۔ آپ کو ہوش میں لانے کیلئے کیا کچھ اور ٹرائی کریں۔” اذلان شاہ نجانے کتنی دیر بعد سہی نارمل ہوا تھا۔
ایلاف اس کے لہجے پہ یوں چونکی جیسے ابھی ہوش میں آئی ہو۔
اسے نہیں پتا تھا وہ اتنی جذباتی کیوں ہوئی ہے۔وہ تو ایک پریکٹیکل سوچ رکھنے والی لڑکی تھی مگر اس شخص کے سامنے وہ ہمیشہ کمزور ہوجاتی تھی۔
جس کونے سے اس نے اذلان کی چادر پکڑ رکھی تھی اسی سرے کو اس نے منہ پہ رکھ کے رونا شروع کردیا تھا۔
” مجھے بارش کبھی اچھی نہیں لگی۔یہ چمکتی بجلی،گرجتے بادل اور برستی بارش مجھے ہمیشہ ڈراتے ہیں میں بہت اکیلی ہوتی ہوں ہر بارش میں،کوئی نہیں ہوتا مجھے یہ بتانے والا کہ یہ بارش صرف پانی ہے۔میرے لئے یہ صرف خوف کا سمندر ہے جس میں’میں ہمیشہ ڈوب جاتی ہوں۔” ایلاف کو آج اس کے کندھے پہ سر رکھ کے رونے کا جو موقع ملا تو اپنا سارا دکھ کہہ دیا تھا۔
“ایلاف!پلیز آپ اب اکیلی نہیں ہیں۔ہم ہیں آپ کے ساتھ تو فکر کیسی بس چپ ہوجائیں اب۔” اذلان نے اسے چپ کراتے ہوئے اس کے آنسو پونچھے تھے۔
اندر ہی اندر کہیں کچھ چبھا بھی تھا۔
جو اتنا اکیلا ہو اس کے ڈر بے حد معمولی سہی مگر اسے ڈراتے بہت ہیں۔
ایلاف جب جی بھر کے رو چکی تو آنسوؤں سے بھرا چہرہ اذلان کی چادر سے ہی صاف کرلیا۔
“ہمیں لگ رہا ہے ایلاف آپ کا دل آگیا ہے ہماری چادر پہ پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہی ہیں۔ایسا کیجئے آپ رکھ لیں۔” اذلان نے نرمی سے اس کا موڈ بدلنے کی خاطر لطیف سا طنز کیا۔
ایلاف کو بات سمجھ میں آئی تو اسے احساس ہوا وہ کس کے روبرو ہے۔
اتنی نزدیکیاں!
تو خواب میں بھی نہ سوچی تھیں۔
احساس ہونے پہ وہ ایک دم پیچھے ہوئی تھی۔
” میں جاؤں اب،ٹھیک ہوں میں۔” ایلاف نے پلکیں جھکا کے کہا۔
وہ اب اس شخص کے سامنے مزید اگر کھڑی ہوئی تو اور کتنی حماقتیں کرے گی۔
” میرے خیال سے آپ کا جانا ہی بہتر ہے اب ورنہ شاید آج ہم وقت مٹھی میں ہی قید کرلیں گے۔” اذلان کے لہجے میں آنچ سی تھی۔
ایلاف سے کھڑا رہنا دوبھر ہوگیا تھا۔
وہ بنا کچھ مزید کہے پلٹ گئی تھی۔
______________________________
امیراں کیلئے ایلاف اگر عجوبہ تھی تو اب اذلان بھی اسے کسی اور سیارے کی مخلوق لگنے لگا تھا۔
ایلاف کیلئے اس نے صبح میں ایک فیمیل ٹیوٹر کا ارینج کر دیا تھا اور جب بھی وہ گھر پہ ہوتا ایلاف کی شامت بلائے رکھتا تھا۔
اس دن کے بعد سے ایلاف اور محتاط ہوگئی تھی
ڈکشنری سے چن چن کے نت نئے الفاظ نکال کر اپنے ہر ٹاپک پہ ڈالتی تھی یوںکہ اذلان خون کے گھونٹ بھر کے رہ جاتا تھا۔
” خود ہی تو کہتے ہیں کہ ہائی پروفائل vocabulary یوز کرو تو اب”
ایلاف کے پاس جواب حاضر تھا۔
اذلان اسے گھور کے رہ جاتا تھااور بدلے میں وہ اسے اکاؤنٹنگ کی اتنی بیلنس شیٹس بنواتا تھا کہ ایلاف کا ہاتھ دکھ جاتا تھا۔
ایلاف اگر باتوں سے چرخے لگاتی تھی تو اذلان شاہ عمل کا قائل تھا۔
اس نے ایلاف کو ہر ٹاپک یوں پڑھایا تھا کہ ایلاف کولگتا اس نے گھول کے پی لیا ہے۔وہ رات کو دیر تک اس کے ساتھ اسٹڈی میں الجھا رہتا تھا۔
امیراں دونوں کیلئے کافی بنا بنا کے بے حال ہوجاتی تھی۔وہ جب بھی کافی لے کے آتی تو وہ دو دونوں کسی ٹاپک پہ الجھے ہوتے تھے
” یہ کہاں کے میاں بیوی ہیں؟پیار محبت کی باتیں کرنے کے بجائے گٹ پٹ کرتے رہتے ہیں۔” امیراں کیلئے یہ سب بڑا دلچسپ ہوتا تھا اور انوکھا بھی۔
ایلاف کا آرٹیکل ایک بزنس میگزین میں چھپ چکا تھا جسے پسندیدگی کی سند ملی تھی۔ایڈیٹر نے اسے مزید لکھنے کو کہا تھا مگر فی الحال وہ پیپرز کی وجہ سے مصروف تھی اور وہ آرٹیکل بھی اس نے ماموں کے گھر شادی سے پہلے لکھا تھا۔اذلان کے پوچھنے پہ اس نے بتایا تھا۔
اب اس کی تیاری اتنی اچھی گئی تھی کہ اس نے ہر پیپر بہت آرام سے دیا تھا۔ یہاں تک کہ اکاؤنٹنگ جیسا سڑیل پیپر بھی اس کا اتنا اچھا ہوا تھا کہ ایلاف کو واقعی لگا تھا کہ اذلان نے اسے کچھ پڑھایا ہے۔
اور اذلان شاہ وہ کونسا کم تھا اس نے ایلاف سے پورا پیپر گھر پہ دوبارہ کروایا تھا بقول اس کے،
“اب رزلٹ آنے کا انتظار کون کرے آپ مجھے یہیں کر کے دکھائیں۔ ”
” دوبارہ!” ایلاف مری مری آواز میں بولی۔
” جی دوبارہ!” اذلان نے ایک ایک لفظ پہ زور دیا۔
اور ایلاف کا پیپر چیک کر کے اسے لگا تھا کہ اس کی محنت ضائع نہیں ہوئی تھی۔
” کم از کم اس میں تو آپ کی سپلی نہیں لگے گی۔” اذلان نے سیدھے لفظوں میں تعریف کرنا تو سیکھا ہی نہ تھا۔
” بہت مہربانی آپ کی،فکر نہ کریں میرا رزلٹ بہت شاندار آنے والا ہے۔ ” ایلاف کو غصہ ہی آگیا تھا۔
” اس آدمی کے نخرے ہی نہیں ختم ہوتے۔”
” آپ نے کچھ کہا۔” اذلان سن چکا تھا اس لئے تصدیق چاہی تھی۔
” میری کہاں اتنی مجال!” ایلاف صاف مکر گئی تھی۔
” توبہ کتنے تیز کان ہیں۔” اب کے اس نے صرف سوچا تھا۔
______________________________
پیپرز ختم ہوئے تو ایلاف نے سکون کا سانس لیا تھا کہ اذلان کی استادی سے جان چھوٹی۔ وہ صحیح معنوں میں جان کو آجاتا تھا۔
ایلاف ناشتہ کر چکی تو کچھ سوچ کے اذلان کے کمرے کی طرف چلی آئی۔
” بختاں کیا کر رہی ہو؟”
” جی یہ صاحب کے کپڑے ہیں استری کرنے والے اور ان کی الماری بھی درست کرنی ہے موسم بدل رہا ہے تو اس کے حساب سے کررہی ہوں۔” بختاں نے آج پہلی بار ایلاف کے مالکانہ انداز دیکھے تھے۔
” تم ایک کام کرو یہ بیڈ شیٹ اور پردے چینج کرلو یہ میں کرلوں گی۔” ایلاف آگے آ کے الماری کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔
” آپ!” بختاں کو حیرت ہوئی تھی۔
چار مہینے سے اس نے اس گھر میں تنکا نہیں ہلایا تھا اور آج وہ صاحب کے کام کر رہی تھی۔
ہاں چار مہینے ہوچکے تھے اس گھر میں ایلاف کو رہتے ہوئے۔
” کیوں اس میں حیران ہونے کی کیا بات ہے؟اپنے شوہر کے کام تو بیوی کو خود ہی کرنے چاہئے نا۔چلو اب تم اپنا کام کرو۔” ایلاف نے اسے کہا۔
” اتنے مہینوں سے کیا سو رہی تھیں یا انہیں پتا ہی نہیں تھا کہ پیر سائیں ان کے شوہر ہیں،بے چارے پیر سائیں!” بختاں تو آج امیراں کی اس بات پہ ایمان لے آئی تھی کہ یہ بی بی کسی اور سیارے کی مخلوق ہے۔
ورنہ اس سے پہلے وہ ہمیشہ امیراں کو جھڑکتی ہی تھی کہ اسے ہر وقت ان دونوں کی فکر کیوں رہتی کہ وہ دونوں اسٹڈی میں ایک ساتھ تو ہوتے ہیں
تو ایک کمرے میں کیوں نہیں ہوتے ہیں۔
اذلان کی وارڈروب سیٹ کرنے میں اسے زیادہ وقت نہیں لگا تھا۔ظاہر ہے اتنے نفیس آدمی کی وارڈ روب بکھری ہوئی تو ہو نہیں سکتی تھی۔
کپڑے استری کر کے اس نے الماری میں ٹانگے اور کچن میں آگئی تھی۔
” امیراں کیا پکا رہی ہو آج؟”
” آج جی مچھلی بنانی ہے۔صاحب نے کہا ہے ان کی فرمائش پہ۔” امیراں نے کہا۔
” ہٹو آج میں کھانا بناؤں گی۔ ” ایلاف نے اس حیران ہی کردیا تھا۔
“آپ کو کھانا بنانا آتا ہے؟” امیراں حیرانگی سے بولی۔
” یہ بی بی کھانا اتنی مشکل سے کھاتی ہیں تو پکانا کیا خاک آتا ہوگا۔” امیراں آخر کو اذلان کی ملازمہ تھی۔ اسے بھی کوئی خاص امید نہ تھی ایلاف سے۔
” ارے امیراں بی بی!ایسی مچھلی بناؤں گی کہ تمہارے صاحب گوالمنڈی کی مچھلی بھول جائیں گے۔ ” ایلاف جوش سے آستینیں چڑھاتی ہوئی بولی۔
______________________________
” ان گاڑیو کی بکنگ جو ہوچکی ہیں انہیں جلد از جلد ڈلیور کرواؤ یوں کلائینٹس کا وقت خراب نہ کرو۔” اذلان شاہ اس وقت اپنے شو روم میں تھا۔
وہ جب بھی شہر میں ہوتا تھا روز ایک چکر اس جگہ کا لگاتا تھا۔
“ہم اب جا رہے ہیں جیسا کہا ہے ویسا ہی ہونا چاہئے۔” منیجر کے ساتھ باہر آتے ہوئے وہ اسے کہہ رہا تھا۔
” مجھے پیر اذلان شاہ سے ملنا ہے۔ ” وہ تئیس چوبیس برس کا نوجوان تھا۔
” آپ کی اپائنٹمنٹ ہے” رسیپشنسٹ نے پوچھا تھا۔
” نہیں بٹ یہ ضروری ہے ” اذلان شاہ جو باہر جا رہا تھا،اپنے نام کی پکار پہ وہ رسیپشن کی طرف چلا آیا تھا۔
” فرمائیں!ہم ہیں پیر اذلان شاہ ہیں غالبا ہم اس سے پہلے نہیں ملے۔ ” اذلان شاہ اس نوارد کو دیکھ کے بولا۔
” جی!کیا ہم اکیلے میں بات کریں؟” وہ لڑکا کچھ گھبرایا ہواتھا۔
شاید اذلان کی شان دار شخصیت کا اثر تھا اور پھر ماحول کی بھی تو بات تھی۔
” اوہ!آپ منیجر سے بات کرلیں اگر جاب چاہئے،ہمیں کچھ کام ہے۔” اذلان کو لگا اسے جاب کی ضرورت ہے۔
“یہ۔۔۔۔ان کے بارے میں ہے۔” اس نے جو نام لیا تھا۔ اذلان شاہ کو پلٹنا ہی پڑا تھا۔
______________________________
امیراں تو ایلاف کی پھرتیاں دیکھ کے حیران تھی۔
مچھلی پہ مصالحہ لگانے کے بعد اس نے پلاؤ بنانا شروع کردیا تھا اس کے بعد سلاد اور رائتہ ایک بہترین لنچ تیار تھا۔
کچن سے فارغ ہونے کے بعد ایلاف اپنے کمرے میں جا چکی تھی فریش ہونے۔
” پیر سائیں!آج تو ایلاف بی بی نے تو مجھے حیران ہی کردیا۔مینوں پتا ہی نہ تھا انہیں سب بنانا آتا ہے۔” امیراں کی گاڑی اذلان کو دیکھتے ساتھ اسٹارٹ ہوئی تھی۔
” کہاں ہے وہ؟” اذلان اس کی بات پہ توجہ دئیے بنا بولا
” وہ جی اپنے کمرے میں ہیں۔” امیراں کو اذلان کی سرد مہری بہت کھلی تھی۔
اذلان شاہ ایلاف کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
” آپ آج جلدی آگئے۔” ایلاف جو کچھ لکھ رہی تھی اسے دیکھ کے کھڑی ہوگئی۔
اذلان نے دروازہ بند کردیا تھا۔ایلاف نے اپنی دھن میں دھیان ہی نہیں دیا تھا۔
“اچھا ہوا آپ آگئے۔میں نے نیا آرٹیکل شروع کیا آپ بھی دیکھیں۔” ایلاف نے اذلان کی طرف پیپر بڑھائے
جسے اذلان نے دور جھٹکتے ہوئے ایلاف کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیلا تھا
” یہ سلمان کون ہے ایلاف؟”
اور اذلان شاہ وہ آخری شخص تھا جس سے ایلاف کو اس سوال کی امید نہ تھی۔
______________________________