میں یہ انتہائی قدم نہ اٹھاتا۔
لیکن ناگہانی طور پر پیش آنے والے واقعات کے بعد میں بہت دل برداشتہ ہو گیا تھا۔ مجھ میں اتنی سکت نہیں تھی کہ میں ان سے انتقام لے سکتا اور نہ ہی قانون کے ذریعہ انہیں سزا دلوا سکتا تھا۔ انصاف کی طرف جو راستے جاتے تھے ان کے ہر موڑ پر ایسے راہزن بیٹھے ہوئے تھے جو مال و متاع بھی لوٹ لیتے اور وہاں تک پہنچنے بھی نہیں دیتے۔ یہ بڑی اذیت ناک صورت حال تھی۔ ایک آزاد اور جمہوری ملک میں ظلم و نا انصافی کے ایسے مناظر اس کے خد و خال کو مسخ کرتے تھے۔ اس چھوٹے سے شہر کے ایک چھوٹے سے گھر میں میری رہائش تھی۔ گھر پر میری دائمی مریضہ بیوی اور ایک سن بلوغ کو پہنچ چکی بیٹی تھی۔ میں ایک نجی کمپنی میں ملازم تھا۔ دن بھر کی محنت شاقہ کے عوض مہینے کے آخر میں تنخواہ کے نام پر جو رقم ملتی تھی وہ ہم تینوں کی کفالت کے لیے ناکافی تھی۔ اس پر میری بیوی کی دواؤں کا خرچ ایک اضافی بار تھا۔ وہ تو میری بیٹی بے حد حساس اور سمجھدار تھی کہ اس نے کالج میں داخلے کے بعد ہی کچھ ٹیوشن پکڑ لیے تھے جن سے نہ صرف اس کے تعلیمی اخراجات پورے ہو جاتے بلکہ گھر کی دیگر ضروریات کی مد میں بھی تھوڑی مدد ہو جاتی تھی۔ کالج سے آنے کے بعد وہ کھانا کھا کر تھوڑی دیر آرام کرتی اور پھر بچوں کو پڑھانے نکل جاتی۔ رات نو بجے تک اس کی واپسی ہوتی تو وہ بیحد تھکی ہوئی ہونے کے باوجود کھانا پکانے میں اپنی بیمار ماں کی مدد کرتی۔ رات دس ساڑھے دس بجے کے قریب میں گھر آتا اور کھا پی کر سو جاتا۔ عجب بے رس اور تیرہ زدہ زندگی تھی۔ امید کی بس ایک ننھی سی کرن تھی کہ میری بیٹی تعلیم مکمل کر کے کسی معقول ملازمت سے لگ جائے گی تو شاید ہمارے خزاں رسیدہ شب و روز میں تھوڑی سی بہار آ جائے لیکن یہ امید کی کرن بھی۔۔۔۔۔۔۔
ایک رات میری بیٹی نے قدرے جھجھکتے ہوئے بتایا کہ جب وہ کالج جاتی ہے تو راستے میں دو تین آوارہ لڑکے اسے چھیڑتے ہیں، تعاقب کرتے ہیں اور آوازے کستے ہیں۔ ان میں سب سے پیش پیش اپنے ہی علاقے کے چودھری جی کا بیٹا ہوتا ہے۔ چودھری صاحب کو میں پہچانتا تھا۔ خاصے شریف اور عبادت گذار شخص تھے۔ جب کبھی علاقے کی مسجد میں جانا ہوتا، ان سے ملاقات ہو جاتی۔ ہمیشہ سلام میں پہل کرتے۔ بے حد نرمی اور شفقت سے پیش آتے تھے۔ مجھے دکھ ہوا کہ ان کا لڑکا ان شورہ پشتوں کا سرغنہ ہے۔ دوسرے روز میں ان سے ملا اور انہیں ان کے لڑکے کی نا زیبا حرکت سے آگاہ کیا۔ انہوں نے خاموشی سے میری شکایت سنی اور پھر سنجیدگی سے کہا
’’میں اسے تنبیہ کروں گا کہ آئندہ ایسی بد تمیزی نہ کرے۔‘‘
قدرے توقف کے بعد وہ پھر بولے
’’لیکن تمہیں بھی خیال رکھنا چاہیئے کہ جوان لڑکی کو تنہا باہر نہ بھیجا جائے، سخت ممانعت ہے۔‘‘
’’وہ تعلیم حاصل کرنے کالج جاتی ہے۔ اب کیا اس کا کالج جانا بند کروا دوں۔‘‘ میں نے حیرت سے کہا تو وہ مبلغانہ انداز میں بولے
’’لگتا ہے تم دین و مذہب سے بالکل بیگانے ہو۔ دین میں سختی سے تاکید کی گئی ہے کہ بالغ لڑکی بغیر کسی محرم کے گھر سے باہر قدم نہ نکالے اور پھر کالج کا علم تو شیطانی علم ہے جسے حاصل کرنا گناہ ہے۔ میری مانو تو اس کی پڑھائی بند کروا کے گھر بٹھاؤ اور جلد سے جلد اس کا کہیں نکاح کروا دو۔‘‘
میں حیرت زدہ سا ان کے باریش چہرے کو دیکھتا رہا۔ مجھے قطعی اندازہ نہ تھا کہ بظاہر معقول سے نظر آنے والے چودھری صاحب اس قدر دقیانوسی اور فرسودہ خیالات کے حامل ہوں گے۔ یہ تو نیم جاہل قصباتی ملاؤں والے خیال تھے جبکہ میں انہیں ایک جہاندیدہ اور روشن خیال فرد تصور کرتا تھا۔ میں جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا تو انہوں نے پھر کہا
’’میرے مشورے پر عمل کرنا۔ فلاح پاؤ گے۔‘‘
اب میں سوچتا ہوں کہ کاش میں نے ان کے احمقانہ مشورے پر عمل کیا ہوتا تو یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔ اس رات میں حسب معمول کام سے واپس آیا تو میری بیوی متفکر اور پریشان سی میری منتظر تھی۔ اس نے بتایا کہ میری بیٹی اب تک گھر نہیں لوٹی ہے تو میں بھی فکر مند ہو گیا۔ وہ نو بجے سے قبل ہی گھر آ جاتی تھی جبکہ اس وقت ساڑھے دس بج رہے تھے۔ اگر اسے کہیں رکنا ہوتا تو یقیناً اپنی ماں سے کہہ کر جاتی۔ میں دل میں ڈھیر سارے خدشات لئے الٹے پیروں باہر نکل آیا۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ آخری ٹیوشن کہاں کرتی ہے۔ وہاں پہنچ کر میں نے دروازے پر دستک دی۔ تھوڑی دیر میں دروازے پر ایک بوڑھا شخص نظر آیا۔ میں نے اپنی بیٹی کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے تعجب سے کہا ’’وہ تو میری پوتیوں کو پڑھا کر کب کی چلی گئی۔ شاید آٹھ ساڑھے آٹھ بجے ہوں گے۔ کیا وہ اب تک گھر نہیں پہنچی؟ ’’ میں نے اپنی پریشانی اس سے چھپاتے ہوئے کہا ’’نہیں۔۔۔۔! شاید اپنی کسی سہیلی کے یہاں رک گئی ہو۔‘‘
میں دھڑکتے دل کے ساتھ پھر گھر آیا کہ شاید وہ آ گئی ہو۔ لیکن وہاں میری بیوی تنہا ہلکان ہو رہی تھی۔ اس نے پر امید نگاہوں سے مجھے دیکھا اور پوچھا ’’کچھ پتہ چلا؟ ’’
میں نے نفی میں سرہلایا تو اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ میں نے اسے دلاسا دیتے ہوئے کہا
’’گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ وہ سمجھدار اور با ہمت لڑکی ہے۔ کسی وجہ سے کہیں ٹھہر گئی ہو گی۔ جلد ہی آ جائے گی۔‘‘
میں نے محسوس کیا کہ میری آواز میں یقین کم اندیشے زیادہ ہیں۔ اب میں اسے تلاش کرنے کہاں جاتا۔ جاڑے کا موسم تھا۔ لوگ اپنے گھروں میں بند ہو چکے تھے۔ میں کس کے گھر جاتا۔ میری تو یہاں کسی سے ایسی شناسائی بھی نہیں تھی کہ اس سردی میں میری مدد کو آتا۔ میں اور میری بیوی رات بھر جاگتے رہے اور ہر آہٹ پر چونکتے رہے۔ فجر کی اذان ہوئی تو میری بیوی مصلے پر جا بیٹھی۔ نماز پڑھ لینے کے بعد وہ دیر تک دعا مانگتی رہی۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ اپنی بیٹی کی خیر و عافیت سے گھر لوٹنے کی ہی دعا مانگ رہی ہو گی۔ میں اداس آنکھوں سے اس کے نحیف و ناتواں سراپے کو دیکھتا رہا۔ معاً دروازے پر دستک ہوئی تو میں ہڑبڑا کر اٹھا۔ میری بیوی بھی دعائیں بھول کر دروازے کی طرف دیکھنے لگی جو اب زور زور سے کھٹکھٹایا جانے لگا تھا۔ میں نے چٹخنی گرائی اور پٹ کھول دیئے۔ سامنے خاکی وردی میں ملبوس پولیس والوں کو دیکھ کر میرے اوسان خطا ہو گئے۔ بڑی مشکل سے میرے لبوں کو جنبش ہوئی۔‘‘کیا بات ہے؟’’
سامنے کھڑے پولیس انسپکٹر نے کہا
’’اس علاقے کے قبرستان کے پاس درخت سے لٹکی ہوئی ایک جوان لڑکی کی لاش ملی ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ تمہاری بیٹی ہے۔ چل کر شناخت کرو۔‘‘
میں گنگ سا کھڑا رہ گیا۔ میری بیوی تڑپ کر چیخی اور غش کھا کر مصلے پر گر پڑی۔ مجھ میں اتنی بھی سکت نہیں تھی کہ آگے بڑھتا اور اسے دیکھتا کہ جیتی ہے یا مر گئی۔ پولیس انسپکٹر نے بے حس لہجے میں کہا ’’دیر ہو رہی ہے۔ آگے کی قانونی کار روائی بھی کرنی ہے۔ تم لاش شناخت کر کے اپنا بیان درج کرواؤ۔‘‘
اس نے ایک کانسٹبل کو اشارہ کیا تو اس نے آگے بڑھ کر میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا ’’چلو! ’’
میں کسی معمول کی طرح اس کے ساتھ چل پڑا۔ قبرستان کے قریب پہنچا تو وہاں بھیڑ جمع تھی۔ وہ پیپل کا درخت تھا جس کی ایک موٹی شاخ سے میری بیٹی۔۔۔۔۔۔ ہاں میری ہی بیٹی کی نیم برہنہ لاش جھول رہی تھی۔ اس کے کپڑے تار تار تھے اور جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔ میں نے اسے شناخت کیا اور پھر مجھے کچھ یاد نہ رہا۔ حواس واپس آئے تو دیکھا کہ کوئی مجھے سنبھالے ہوئے گھر کی طرف لا رہا ہے۔ گھر میں میری بیوی اسی طرح مصلے پر پڑی ہوئی تھی۔ میرے ساتھ آنے والا شخص اس کے قریب پہنچا۔ نبض دیکھی اور چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے۔ کچھ دیر بعد اس نے آنکھیں کھولیں اور وحشت زدہ سی خود پر جھکے چہرے کو تکتی رہی۔ اچانک اس کی نگاہ مجھ پر پڑی اور جیسے اسے سب کچھ یاد آ گیا۔ وہ بڑبڑائی
’’میری بیٹی۔۔۔۔۔ کیا وہ لاش میری بیٹی کی ہے؟ ’’
میں نے اثبات میں سرکو جنبش دی تو وہ ڈھاڑیں مار کر رو پڑی۔ مجھے چکر سے آ رہے تھے۔ میں سر پکڑ کر بستر پر بیٹھ گیا۔ میری بیوی کی گریہ و زاری کی آواز سن کر پڑوس کی کچھ عورتیں گھر میں آ گئیں اور میری بیوی کو سنبھالنے کی کوشش کرنے لگیں۔ میرے ساتھ آنے والے شخص نے مجھے مخاطب کیا۔
’’آپ گھر پر ہی رہیں۔ سارے معاملے ہم لوگ سنبھال لیں گے۔‘‘
میری بیٹی کی لاش ہسپتال لے جائی گئی۔ پوسٹ مارٹم ہوا اور پھر گھر لایا گیا۔ پڑوسیوں نے ہی سارا انتظام کیا اور سہ پہر کو اس کی تدفین کر دی گئی۔ لوگوں کی باتوں سے مجھے علم ہو گیا تھا کہ میری بچی کی اجتماعی طور پر عصمت دری کی گئی تھی اور پھر اسے قتل کر کے لاش پیڑ سے لٹکا دی گئی تھی۔ انہوں نے سرگوشیوں میں چودھری جی کے بیٹے اور اس کے دو ساتھیوں کے نام بھی لیے تھے۔ مجھے یقین تھا کہ یہ درندگی انہوں نے ہی کی ہو گی۔ رات گئے پولیس پھر آئی۔ مجھ سے پوچھ تاچھ کی گئی تو میں نے ان لڑکوں پر شبہے کا اظہار کیا
’’تمہارے پاس کوئی ثبوت یا گواہ ہے؟‘‘ پولیس افسر نے سخت لہجے میں پوچھا تو میں نے بے چارگی سے پڑوسیوں کی سمت دیکھا لیکن وہ سب کے سب مہر بہ لب رہے۔ میں نے شکست خوردہ انداز میں سر کو جھکا لیا۔‘‘بغیر کسی ثبوت کے کسی پر انگلی نہ اٹھاؤ،‘‘ اس نے تنبیہ کی۔‘‘ہم تحقیقات کر رہے ہیں۔ بہت جلد مجرموں کو حراست میں لے لیا جائے گا۔‘‘پولیس چلی گئی۔ لوگ بھی چلے گئے۔ میں اپنی غم زدہ اور بیمار بیوی کے پاس چلا آیا۔ میں جانتا تھا کہ پولیس محض خانہ پری کر کے اس کیس کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دے گی۔ چودھری صاحب کا بیٹا اور اس کے ساتھی بر سر اقتدار جماعت کے فعال اور بولڈ کارکن تھے۔ ان کی پشت پر ان با اثر سیاسی رہنماؤں کا ہاتھ تھا جن کے اشاروں پر وہ مخالف جماعت کے افراد کے ساتھ محاذ آرائی کرتے رہتے تھے۔ ان رہنماؤں کی حمایت کی وجہ سے پولس افسران بھی ان کے خلاف کار روائی کرنے سے قاصر تھے۔ بیٹی کے غم میں میری بیوی بستر سے لگی تو پھر اٹھ نہ سکی۔ پندہرھویں روز میرے گھر سے ایک اور جنازہ اٹھا اور میں بالکل ٹوٹ کر رہ گیا۔ میری بیوی بیمار ہی سہی میری غم گسار تو تھی، میرا سہارا تو تھی۔ میں اس کی تکلیف اور لاچاری کو محسوس کر کے اپنے غموں کو فراموش کرنے کی سعی کر رہا تھا۔ وہ نہیں رہی تو مجھے اپنی تنہائی اور شکست خوردگی کا شدید احساس ہوا۔ میں روشنی کی جن نحیف کرنوں کے سہارے دبیز تیرگی میں کسی طرح سفرِ حیات جاری رکھے ہوئے تھا، جب وہی نہیں رہیں تو اس سفر کا کیا جواز تھا۔ اور میں نے اس تکلیف دہ سفر کو یہیں ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
رات کے آخری پہر میں گھر سے نکل پڑا۔ ایک طویل فاصلہ طے کرنے کے بعد میں اس پل پر کھڑا تھا جس کے نیچے پر شور دریا بہہ رہا تھا۔ صبح کے آثار نظر آنے لگے تھے۔ میں نے آنکھیں بند کیں، اپنی معصوم بیٹی اور بیمار بیوی کو یاد کیا، اپنی غربت اور ناتوانی پر لعنت بھیجی اور پھر دریا میں چھلانگ لگا دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح کچھ آوازیں میری سماعتوں سے ٹکرائیں تو میری آنکھیں کھل گئیں۔ اوپر بوسیدہ سی چھت دکھائی دی تو مجھے حیرانی ہوئی۔ کیا مجھے دریا کی موجوں سے بچا لیا گیا۔ میں نے نگاہوں کا زاویہ تبدیل کیا۔ بڑا سا ہال نما کمرہ تھا جس میں بیسوں افراد موجود تھے۔ دو یا تین افراد کچھ کچھ فاصلے پر بیٹھے سرگوشیوں میں محو گفتگو تھے۔ میرے بستر کے سامنے ایک باریش بزرگ ایک جوان العمر شخص کو جانے کیا سمجھا رہا تھا۔ معاً ان کا دھیان مجھ پر گیا اور دونوں میری طرف لپکے۔ میں نے اٹھنے کی کوشش کی تو بزرگ نے میرے شانے پر ہاتھ رکھا اور بے حد نرمی سے کہا ’’اٹھو نہیں۔ تمہیں نقاہت محسوس ہو گی۔ تم پر بہت دیرغشی طاری رہی ہے۔‘‘
’’لیکن میں یہاں کیسے پہنچا؟ ’’ میں تو اپنی جان دینے کے لئے دریا میں کود گیا تھا۔‘‘
’’ہم میں سے کچھ لوگ تمہیں موجوں سے محفوظ نکال لائے۔‘‘
’’لیکن آپ لوگ کون ہیں؟ ’’ میرے استفسار پر بزرگ نے کمرے میں موجود لوگوں پر نگاہ ڈالی اور قدرے توقف کے بعد گویا ہوئے ’’ہم لوگ مختلف جگہوں کے رہنے والے ہیں۔ اکثر یہاں آتے ہیں، مل بیٹھتے ہیں کیونکہ ہم لوگ مشترکہ طور پر ایک ہی کام کرتے ہیں۔‘‘
’’کون سا کام؟ ’’
بزرگ نے لمحے بھر کو کچھ سوچا اور پھر کہا ’’ہم لوگ بددعا کرتے ہیں۔‘‘
’’کیا مطلب؟ ’’
’’بہت سے ایسے ناتواں لوگ ہیں جو کسی شہ زور کے ظلم اور زیادتی کے شکار ہوتے ہیں۔ وہ ظالموں کے خلاف کچھ کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ ہم لوگ ایسے مظلوموں کی خاطر ظالموں کے خلاف بد دعائیں کرتے ہیں۔‘‘
میں گہرے تعجب سے بزرگ کے سنجیدہ چہرے کو دیکھتے ہوئے بولا ’’کیا آپ لوگ پہنچے ہوئے ہیں؟ آپ لوگوں کی بد دعاؤں سے کیا ظالموں کا کچھ بگڑتا ہے؟‘‘
’’نہیں۔ ہم لوگ تمہاری طرح ہی عام آدمی ہیں۔ بس ہم میں ایک قدر مشترک ہے کہ ہم بھی ظلم و نا انصافی کے شکار ہوئے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ہماری بد دعاؤں سے ظالموں کو کوئی ضرر پہنچتا ہے یا نہیں لیکن ہمیں اطمینانِ قلب ہو جاتا ہے کہ ہم نے اپنا فرض پورا کیا‘‘
’’کیا بد دعائیں کرنے کا کوئی معاوضہ لیا جاتا ہے؟‘‘
میں حیرتوں کے حصار میں تھا۔
’’نہیں، ہم لوگ رضاکارانہ طور پر یہ خدمت انجام دیتے ہیں۔ بس مظلوم کی رضامندی درکار ہوتی ہے۔‘‘
’’لیکن مظلوم کی شناخت کیسے کی جاتی ہے؟‘‘
’’مظلوموں کی شناخت کون سا مشکل مسئلہ ہے۔ ان کی مظلومیت تو چہرے پر تحریر ہوتی ہے بس اسے پڑھنے کی ضرورت ہے۔‘‘
عجیب و غریب لوگوں سے سابقہ پڑا تھا۔ جی چاہا کہ انہیں اپنی رودادِ غم سناؤں لیکن اس سے قبل ہی وہ بولے
’’ہمیں یقین ہے کہ تم بھی ہم میں سے ہو۔ اگر تم چاہو تو ہماری خدمات حاصل کر سکتے ہو۔ ہم تم پر ظلم کرنے والوں کے خلاف بد دعائیں کریں گے۔‘‘
میں نے ان کی پیشکش فوراً قبول کر لی۔ انہوں نے تفصیل سے میری دلدوز کہانی سنی۔ گہری ہمدردی ظاہر کی اور پھر کہا
’’ہم میں سے کچھ لوگ آج ہی رات تمہارے گھر چلیں گے۔ تم کچھ کھا پی کر آرام کرو۔‘‘
ان کے اشارے پر ایک شخص کھانے کا سامان لے آیا۔ انہوں نے اصرار کیا تو میں نے بڑی مشکل سے چند لقمے زہر مار کئے اور بستر پر لیٹ گیا۔ جانے کب مجھے نیند آ گئی۔ کسی کے اٹھانے پر میں بیدار ہوا تو دیکھا کہ وہی بزرگ تھے۔
’’رات ہو گئی۔ اپنے گھر چلنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘
میں انہیں ساتھ لے کر اپنے گھر روانہ ہوا۔ بزرگ کے ساتھ چار دیگر افراد تھے۔ گھر پہنچ کر میں نے دروازہ کھولا اور ہم سب اندر داخل ہوئے۔ وہ پانچوں کمرے کے درمیان حلقہ باندھ کر بیٹھ گئے۔ بزرگ نے ظالموں کے نام دریافت کیے۔ میں نے چودھری جی کے بیٹے اور اس کے دونوں ساتھیوں کے نام بتا دیئے۔ بد دعا کی شروعات بزرگ نے ہی کی تھی اور پھر چاروں اس عمل میں شریک ہو گئے۔ عجب رقت آمیز اور کربناک آواز میں وہ لوگ نام لے کر ان ظالموں کے خلاف بد دعائیں کرنے لگے تھے۔ بتدریج ان کی آوازیں رفتار پکڑتی گئیں اور پھر ان پر وجد کی کیفیت طاری ہو گئی۔ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ مجھے لگا کہ کمرے کے در و دیوار کے بھی لب وا ہو گئے ہیں اور ان سے بد دعائیں نکلنے لگی ہیں اور پھر یہ بد دعائیں کمرے کے حدود سے نکل کر باہر پھیل گئی ہیں اور زمین و آسمان کی ساری مخلوقات اس عمل میں شریک ہو گئی ہیں۔ معاً مجھے محسوس ہوا کہ میرے رگ و پے میں ایک طمانیت کی لہر دوڑتی جا رہی ہے اور میرا مضطرب وجود پر سکون ہوتا جا رہا ہے۔ رات کے آخری پہر تک ان بد دعاؤں کا سلسلہ چلتا رہا اور میری روح سرشار ہوتی رہی۔ آخرکار یہ سلسلہ بند ہوا اور وہ لوگ سجدے میں گر گئے۔ دیر تک سجدے کی حالت میں رہنے کے بعد انہوں نے ایک ساتھ اپنے سر اٹھائے اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ لوگ میرے قریب آئے۔
بزرگ نے میرے شانے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے دبایا اور دھیرے سے کہا
’’اب ہم لوگ چلتے ہیں۔ آئندہ خود کشی کا خیال بھی دل میں نہ لانا۔ مظلوموں کی حمایت میں ظالموں کو بد دعائیں دینے میں دل کو عجب سی راحت ملتی ہے، جینے کا حوصلہ ملتا ہے۔ کبھی ہمارے ساتھ بد دعا کرنے کی کسی مجلس میں شامل ہو کر دیکھنا۔‘‘
وہ لوگ پھر ملنے کا وعدہ کر کے چلے گئے۔ میں اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ میں خود کو بے حد ہلکا پھلکا اور پر سکون محسوس کر رہا تھا جیسے میرے وجود سے یکلخت سارے غموں کے لبادے اتر گئے ہوں۔ بہت دنوں کے بعد میں گہری اور مطمئن نیند سویا۔ آنکھیں کھلیں تو دن خاصا چڑھ آیا تھا۔ حیرت انگیز طور پر میری ساری نقاہت دور ہو چکی تھی اور میں بالکل تر و تازہ تھا۔ اس وقت میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے از سر نو زندگی کا سفر شروع کرنا ہے اور پوری استقامت سے اسے جاری رکھنا ہے۔ اس فیصلے سے مجھے بڑی تقویت حاصل ہوئی۔ میں اسی روز اپنی کمپنی میں گیا۔ مالک میرے حالات سے آگاہ تھا۔ اس نے دوبارہ مجھے ملازمت پر بحال کر دیا۔ بہت سارے دن گزر گئے۔ اس دوران کچھ واقعات رونما ہوئے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ ان کی بد دعاؤں کے اثر سے ہوئے یا محض اتفاق تھے۔ پہلا واقعہ تو یہ ہوا کہ موجودہ حکومت کی میعاد پوری ہو گئی اور نئے سرے سے انتخابات کرائے گئے۔ اس انتخاب میں برسر اقتدار جماعت بری طرح شکست کھا گئی اور حزب مخالف ایوان اقتدار میں داخل ہوا۔ نئی حکومت آئی تو مخالفین کے گڑے مردے اکھاڑے جانے لگے۔
دوسرا واقعہ میرے لیے اس لحاظ سے بے حد اہم تھا کہ میری بیٹی کے مردہ کیس میں بھی جان ڈالی گئی اور تحقیقات کی ذمہ داری خفیہ ادارے کے سپرد کی گئی۔ ابتدائی تفتیش کی بنیاد پر ہی چودھری جی کے بیٹے اور اس کے دونوں مصاحب حراست میں لے لئے گئے۔ مقدمہ سریع الرفتار عدالت میں پہنچا۔ تعجب کی بات کہ ان کے خلاف پختہ ثبوت کے ساتھ عینی شاہدین بھی مل گئے۔ عدالت نے اس جرم کی دہشتناکی کے مد نظر تینوں ملزموں کو پھانسی کی سزا سنا دی۔ چودھری صاحب بیٹے کی گرفتاری سے پہلے ہی بری طرح شکستہ ہو چکے تھے، سزائے موت کے فیصلے سے بالکل ڈھے گئے اور بیٹے کی سزا پر عمل درآمد ہونے سے قبل ہی مرگِ عبرت سے ہمکنار ہوئے۔ کچھ دنوں بعد تینوں گناہ گاروں کو پھانسی دے دی گئی تو میرا کلیجہ ٹھنڈا ہو گیا۔ اس وقت مجھے بددعا کرنے والے لوگ یاد آئے اور میں ان سے ملنے کے لئے اس بڑے کمرے والے مکان تک پہنچا لیکن یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ دروازے پر تالے پڑے تھے اور مکان کے اردگرد سناٹا طاری تھا۔
میں بوجھل قدموں سے واپس ہوا۔ راستے کی بھیڑ میں ایک شناسا چہرے پر نگاہ پڑی تو مجھے یاد آیا کہ وہ اس روز بڑے کمرے میں موجود تھا۔ میں نے اسے جا لیا اور پیچھے سے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے روکا۔ اس نے پلٹ کر حیرت سے میری طرف دیکھا تو میں سرعت سے بولا
’’تم بد دعا کرنے والوں میں سے ہو نا؟‘‘
اس نے کوئی جواب نہیں دیا بس متجسس نگاہوں سے مجھے گھورتا رہا۔ میں نے اسے یاد دلایا۔ ‘‘مجھے دریا میں ڈوبنے سے بچا کر اس مکان میں لایا گیا تھا جہاں تم بھی موجود تھے۔ میں تم لوگوں سے ملنے آیا تھا لیکن مکان میں تالے پڑے ہیں۔ سب لوگ کہاں گئے؟‘‘
اس نے غور سے مجھے دیکھا تو آنکھوں میں پہچان کا عکس لہرایا۔ قدرے توقف کے بعد اس نے تلخ لہجے میں کہا
’’نئی حکومت کو ہم مظلوموں کے بے ضرر وجود سے خطرہ محسوس ہوا۔ اس نے ہمارے بد دعا کرنے کے عمل کو خطرناک قرار دیا اور اس پر پابندی عائد کر دی۔ مکان پر تالے حکومت کی طرف سے ہی لگائے گئے ہیں۔ اب وہ اسی کی تحویل میں ہے۔‘‘
وہ شخص مڑا اور تیز قدموں سے آگے بڑھ گیا۔ میں وہیں گم صم کھڑا گہری افسردگی سے اسے بھیڑ میں گم ہوتے ہوئے دیکھتا رہا۔۔۔۔۔۔۔
٭٭٭