عون نے اسے تیار رہنے کے لئے کہا تھا شام چار بجے وہ اسے اپنے ساتھ گھر دیکھانے لے جا رہا تھا
وہ شام کے چار بجے بالکل تیار ہوکر اس کا انتظار کر رہی تھی ۔
جب عون آیا۔
جب سے عون کے جانے کی خبر سنی تھی زبیدہ بہت اداس رہنے لگی تھی ۔
اس کے اداسی آرزو سے بھی چھپی نہیں تھی ۔
لیکن وہ کیا کرتی عون کو اگر منع کرتی تو اسے بھی ڈانٹنے لگتا ۔
بس کہتا کہ تمہیں اس معاملے میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے میرا مسئلہ ہے میں ہینڈل کر لوں گا ۔
اس نے باہر سے ہی آرزو کو بلایا تھا
آرزو باہر جانے لگی تو زبیدہ نے شکایتی نظروں سے دیکھاآرزو ان سے نظریں چرا کے باہر چلی گئی۔
کیا ہوا میری جان کا موڈ کیوں آف ہے وہ اسے اداس دیکھ کر پوچھنے لگا ۔
عون جی ہمارا گھر چھوڑنا ضروری تو نہیں ہے میں یہ گھر چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی ۔
پلیز آپ یہ گھر نہ چھوڑیں ۔
بس آرزو بہت ہو گیا میں تمہیں پہلے بھی سمجھا چکا ہوں اب آخری بار کہہ رہا ہوں دور رہو اس معاملے میں دوبارہ ٹانگ اڑائی تو دیکھ لوں گا تمہیں ۔
سب سمجھتا ہوں کہ کس کے کہنے پر یہ سب کچھ کہہ رہی ہو ۔
عون جی مجھے کسی نے نہیں کہا میں خود یہ گھر چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی۔آرزو نے سمجھانا چاہا تو عون نے گھور کر اسے دیکھا ۔
آخری بار سمجھا رہا ہوں آرزو تم میری بیوی ہو جہاں چاہوں گا لے کر جاؤں گا کسی کا پابند نہیں ہوں میں ۔اور تم بنا چوں چراں کے میرے ساتھ آوگی خبردار جو اب اس معاملے میں کچھ بھی کہا
اس کی ڈانٹ کھانے کے بعد آرزو اداسی سے منہ پھلا کر بیٹھ گئی ۔
میری جان ناراض ہو گئی ۔اس نے آرزو کا ہاتھ تھاما جوآرزو نے چھڑوا لیا ۔
اچھا آو تمہیں آئسکریم کھلاتا ہوں ۔مسکرا کر بولا جبکہ اس کا اس طرح سے ہاتھ جھٹکنا اسے پسند نہ آیا تھا یہ بات آرزو بھی نوٹ کر چکی تھی ۔
اسٹوبری فلیور کھاؤں گی ۔آرزو نے اس کا موڈ دیکھ کر کہا ۔
چاکلیٹ فلیور کھاؤ گی عون نے حکم سنایا ۔آرزو جواب میں کچھ نہ بولی تو وہ مسکرا دیا ۔
ایسے ہی میرے ساری باتیں ماننا کرو ۔
وہ اسے اپنے ساتھ گھر میں لایا تھا ۔
یہ زیادہ برا اور کھلا نہیں بلکہ چھوٹا اور خوبصورت سا گھر تھا ۔
وہ اسے ساتھ لیے گھر کا ایک ایک کونا دکھا رہا تھا ۔
چلو اب بیڈ روم دکھاتا ہوں اس نے آخر میں شرارت سے کہا ۔
جی نہیں اب گھرچلے بہت دیر ہو رہی ہے ۔وہ اس کے ارادوں سے ڈر کر فورا بولی ۔
ایسے ہی گھر چلوں پہلے پورا گھر تو دکھا دوں وہ اسے اپنی باہوں میں اٹھائے اوپر کی طرف چل دیا
عون جی بہت دیر ہوگئی ہے اب گھر چلتے ہیں نہ اس نے منت بھرے لہجے میں کہا
آئی ڈانٹ کیئر ویسے بھی تو دو دن میں تم نے یہاہی آنا ہے ہمیشہ کے لئے ۔عون نے سیڑھیاں چڑتے ہوئے ایک اور دھماکہ کیا ۔
لیکن عون جی۔۔۔۔۔ آرزو میرا موڈ بہت اچھا ہے خراب کرنے کی ضرورت نہیں ۔
وہ اسے بیڈروم میں لے کر آیا اور بیڈ پر بٹھایا ۔
عون جی آپ کی ارادے ٹھیک نہیں لگ رہے اس نے اٹھنے کی ایک ناکام سی کوشش کی ۔
بہت اچھی بات ہے کہ تم میرے ارادے سمجھنے لگی ہو جو ویسے بھی ٹھیک نہیں ہیں ۔
اگلے ہی پل وہ اس کی قید میں آ چکی تھی ۔
عون جی آپ بہت برے ہیں ۔وہ اس کی قید میں مچلتے ہوئے بول رہی تھی ۔
ارے ابھی کہاں ۔آج تو تمہیں ٹھیک سے پتہ چلے گا کہ میں کتنا برا ہوں ۔
وہ اس کے لبوں کو اپنا شکار بناتے ہوئے بولا
آرزو جانتی تھی مزاحمت بیکار ہے ۔
اب گھر چلیں ۔۔۔رات کا اندھیرا گہرا ہوا تو آرزو پوچھنے لگی ۔
یہ بھی تو گھر ہی ہے نہ اسی کو بساو اسی کو سجاؤ ۔
وہ اس کا سر اپنے سینے پر رکھتے ہوئے بولنا ۔
عون جی وہ گھر بھی تو آپ کا اپنا ہے اور تو اور آپ کے نام بھی ہے کیا ضرورت ہے ہمیں وہ گھرچھوڑنے کی ۔
پھر وہی باتیں آرزو تم کیوں نہیں سمجھ رہی میں نہیں رہنا چاہتا اس گھر میں ان لوگوں کے بیچ اپنا گھر بنانا چاہتا ہوں الگ
جس میں میرے اور تمہارے علاوہ کوئی نہ ہو ۔
اور وہ گھر میں ان سب کے نام کر دوں گا ۔
مجھے نہ اس گھر سے کوئی مطلب ہے اوت نہ ہی ان لوگوں سے ۔
میں ان لوگوں سے ہر قسم کا تعلق ختم کر دینا چاہتا ہوں ۔
اور ویسے بھی چھوڑو ان سب باتوں کو میں تمہیں ایک اور بہت ضروری بات بتانے کے لئے یہاں آیا تھا ۔
اور تم نے مجھے بہکنے پر مجبور کردیا ۔
عون سیریس انداز میں بولتا ہوا شرارتی انداز میں بولا تو آرزو گھور کر رہ گئی
میں نے نہیں بہکا یا آپ کو آپ تو ویسے ہی بہکے بہکے رہتے ہیں آرزو منہ بسور کر بولی۔
کیا کروں جان من تم میں نشہ ہی بہت ہی انسان بہکے نہ تو کہا ں جائے ۔
وہ اس کے لبوں کو سہلاتے ہوئے بولنا ۔
اس سے پہلے کہ وہ اس جھکتا آرزو بولی تھی
آپ کو مجھ سے کوئی ضروری بات کرنی تھی ۔
عون پیچھے ہو کر اس سے بات کرنے لگا
آرزو میں تامیہ کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں ۔عون نے بات شروع کی
ان کے بارے میں مجھے کچھ بھی نہیں جاننا عون جی میں جانتی ہوں آپ ان سے محبت کرتے ہیں میرے لئے اتنا ہی کافی ہے کیا آپ نے انہیں میرے لیے چھوڑ دیا ۔آرزو بہت دھیرے دھیرے بول رہی تھی ۔
نہیں آرزو میں اس سے محبت نہیں کرتا اور نہ ہی میں نے تمہارے لئے اسے چھوڑا ہے ۔
کچھ عرصہ پہلے میں ایک شاپنگ مال میں گیا تھا جہاں تم مجھ سے ٹکرائی تھی اور اس دن تمہاری کچھ فوٹوز ایک خاکی لفافے میں وہاں گر گئی ۔
اس نے اپنی جیب سے وہ فوٹو نکال کر اس کے سامنے کی ۔
جانتی ہو آرزو یہ تصویر دیکھتے ہی مجھے تم سے محبت ہو گئی ۔
میں اس تصویر میں موجود اس لڑکی کو پسند کرنے لگا اور میں نے اسے رابطہ کرنے کی کوشش کی ۔
اس کے پیچھے مس عثمان لکھا تھا ۔شاپنگ مال پر پتا کرنے پر مجھے یہ پتہ چلا کہ کسی کونٹیسٹ میں مس عثمان نام کی ایک لڑکی نے حصہ لیا ہے ۔
مجھے نہیں پتہ تھا کہ تم ماموں کا نام استعمال کرتی ہو اپنے نام کے ساتھ ۔
بس اسی غلط فہمی کی بنا پر میں نے اس کو نٹیسٹ میں موجود اس لڑکی کے نمبر رابطہ کیا لیکن وہ تم نہیں بلکہ تامیہ تھی ۔
اسی غلط فہمی کی وجہ سے میں تمہیں اپنا نہیں سکا ۔
میں تامیہ کو آرزو سمجھتا رہا ۔
لیکن جب میں پہلی بار اس سے ملنے جانے والا تھا اتفاق سے اسی دن میں نے تمہیں دیکھا۔
خدا کا شکر ہے کوئی بھی غلط فیصلہ کرنے سے پہلے مجھے میری محبت مل گئی ۔
اور اسے ساری بات بتا کر اب اس کے ری ایکشن کا انتظار کر رہا تھا لیکن کافی دیر کے بعد بھی وہ کچھ بھی نہ بولی جب عون کو اپنی شرٹ بھیگتی ہوئی محسوس ہوئی تو وہ سرد آہ بھر کر رہ گیا ۔
یار اس میں رونے والی کونسی بات ہے ۔
وہ اس کا چہرہ اوپر کیے اس کے آنسو صاف کرنے لگا ۔
آرزو تم ہی میری پہلی محبت ہو تم ہی وہ لڑکی ہو جسے میں بے تحاشہ چاہتا ہوں میری محبت کی کتاب میں تامیہ کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔
وہ اسے اپنی محبت کا یقین دلاتے ہوئے بولا ۔
آرزو جو اتنے دنوں سے یہ سمجھ رہی تھی کہ اس نے اپنی بہن کی خوشیاں برباد کردی۔ آج پرسکون ہو گئی تھی ۔
اس سے پہلے کے وہ اس کے گلے لگ کر مزید رونے کا پلان بنا تی عون نے گھر چلنے کا آرڈر دے دیا
وہ گھر آیا تو آرزو پرسکون نیند سو رہی تھی ۔اور وہ اسے سکون سے سونے دے یہ تو عون نے سیکھا ہی نہیں تھا ۔
وہ فورا اس کے قریب آیا ۔
ایک ہی پل میں اپنے ٹھنڈے ٹھنڈے ہاتھ اس کی گردن پر رکھ دیے ۔
وہ تو اچھل ہی پڑی ۔
ایسا لگا جیسے اندر کمرے میں برف گرنے لگی ہو۔
ایک تو سردی ضرورت سے زیادہ تھی ۔اوپر سے عون نے اسے مزید سردی کا کرنٹ دے دیا تھا
اور اب اس کی حالت پر قہقہ لگا کر ہنستا ہوا اس کے ساتھ لیٹ گیا ۔
عون جی پلیز اپنے ٹھنڈے پیروں سے مجھے مت چھویے گا ۔
آرزو نے جیسے منت کرتے ہوئے اپنے پیر دور کیے ۔
ڈارلنگ اب میں تمہیں اپنے ٹھنڈے پیر بھی نہ لگاؤ ں تو میں اس سردی میں مر ہی نہ جاؤں
اتنی سردی پڑ رہی ہے کہ بندا خود فریز ہو جاتا ہے ۔شکر ہے ان سردیوں سے پہلے میری شادی ہوگئی ورنہ میرا کیا ہوتا ۔
وہ شرارت سے کہتا اس کے ساتھ چپک چکا تھا ۔
آپ بہت خراب ہیں عون جی وہ اسے شکایتی نظروں سے گھور کر بولی
ارے میری جان ابھی کہاں میں تو تمہیں ابھی بتانے لگا ہوں کہ میں کتنا خراب ہو ں۔
وہ اسے اپنی شکنجے میں لیتے ہوئے بولا ۔
مجھے صبح کالج جانا ہے ۔آرزو نے آخری التجا کی
تو میں کب منح کر رہا ہوں چلی جانا ۔اس بار وہ اس کے لبوں کو قید کرتے ہوئے بولا ۔
اور ہمیشہ کی طرح اس کے سامنے آرزو کی ایک بھی مزاحمت نا چلی
عون فل یونیفارم میں تیار ہو کے ابھی واش روم سے نکلا ہی تھا ۔
ابھی تک آرزو نہیں جاگی آج سے کیا ہوگیا ۔
وہ اس کے قریب آکر اس کا ماتھا چھوکر نے دیکھا کہیں اسے بخار تو نہیں ۔
رات کو بھی جلدی سونے دیاتھا پھر بھی ابھی تک کیوں نہیں جاگی
آرزو اس نے سے اٹھاتے ہوئے پکارا ۔
آرزو اٹھ جاو کیاہوگیا ہے آج اٹھنا نہیں ہے کیا ۔
وہ اسے اٹھاتے ہوئے بولا آرزو نے ذرا سے اپنی آنکھیں کھولیں
کیا ہوا میری جان ۔
چلو جلدی سے تیار ہو جاؤ میں تمہیں جاتے ہوئے کالج ڈرپ کر دوں گا ۔وہ بہت محبت سے بولا ۔
جب وہ سستی سے اٹھ کر اس کے سینے سے لگ گئی ۔
میرا بالکل دل نہیں کر رہا عون جی ۔میں آج چھٹی کر لوں۔ اور بالکل چھوٹے سے بچے کی طرح منہ بنا کر بولی ۔
کیوں دل نہیں کر رہا میری جان کا ۔وہ محبت سے اس کے بال پیچھے کرتے ہوئے بولا ۔
عون جی مجھے لگتا ہے میری طبیعت خراب ہے وہ اپنے ماتھے پے الٹا ہاتھ رکھ کر بتانے لگی ۔
بالکل بھی خراب نہیں ہے تمہاری طبیعت یہ بس کالج نہ جانے کا بہانہ ہے ۔عون نے اسے جانچتی نظروں سے دیکھا تو وہ نفی میں گردن ہلانے لگی ۔
عون جی مجھے لگ رہا ہے میری طبیعت خراب ہے آرزو نے اپنا یقین دلانا چاہتا ۔
یہ بات ہے تو چلو میں تمہیں ابھی ڈاکٹر کے پاس لے کے چلتا ہوں ۔عون نے فوراً آفر کی ۔
نہیں میں تھوڑی دیر آرام کروں گی تو ٹھیک ہو جائے گا آرزو نے کہا ۔
مطلب جب کالج کا ٹائم ختم ہوگا تب ٹھیک ہو جائے گی عون نے شرارت سے مسکرا کر کہا ۔
عون جی سچی میں میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے آرزو منہ بسور کر بولی ۔
اچھا بابا ٹھیک ہے مان لیا تمہاری طبیعت خراب ہے اب خوش ۔وہ محبت سے اس کا ماتھا چوم کر کمبل ٹھیک کرنے لگا ۔
تم آرام کرو جلدی آنے کی کوشش کروں گا ۔
وہ مسکراتے ہوئے باہر نکل گیا جبکہ آرزو کو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا ۔
اپنا کام نپٹا کے وہ آرزو کو پیکنگ کرنے کا کہنے کے لئے فون کرنے لگا جب آرزو کا فون زبیدہ نے اٹھایا ۔
آرزو کہاں ہے اسے فون دیجئے اس کا موڈ خراب ہونے لگا ۔
بیٹا میں اورآرزو ہسپتال آئے ہوئے ہیں اس کی طبیعت خراب ہوگئی تھی تو میں اسے یہاں لے آئی ۔زبیدہ نے بتایا تو عون پریشان ہوگیا
کیا ہوا ہے آرزو کو وہ ٹھیک تو ہے عون نے پریشانی سے پوچھا ۔
ہاں بیٹا وہ کہہ رہی تھی کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے صبح سے چکر آ رہے ہیں اسی لیے میں ا سے یہاں لے آئی ابھی وہ اسے بتا ہی رہی تھی جب ڈاکٹر باہر آگئی
مبارک ہو آپ دادی بننے والی ہیں ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے خبر دی ۔
کیا میں دادی بننے والی ہوں عون ۔۔۔عون تو باپ بننے والا ہے ۔ان سے اپنی خوشی سنبھالی نہیں جا رہی تھی
جبکہ عون کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ انہیں کیا جواب دے ۔
میں ابھی آتا ہوں وہ بس اتنا کہہ کر فون بند کرنے لگا کہ زبیدہ بولیں ۔
بیٹا تو گھر ہی آجا میں آرزو کو لے کے گھر جا رہی ہوں ۔
جی ٹھیک ہے آپ لوگ گھر پہنچے میں ابھی آ رہا ہوں عون نے خوشی سے فون بند کیا اس نے آرزو کو کیا کہنے کے لیے فون کر رہا تھا یہ تو وہ بھول ہی گیا ۔
گھر میں عید کا سماں تھا ہر کوئی بہت خوش تھا ۔
سب نے اسے مبارکباد دی تھی ۔
جب کہ عون نے تو آتے ہی بنا کسی کی پرواہ کیے اسے اپنے سینے سے لگا یا تھا ۔
سب کے سامنے عون کی اس حرکت پہ وہ نظر تک نہ اٹھا پائی ۔
لیکن اسے تو کسی کی پرواہ ہی نہ تھی ۔
ہمیشہ کی طرح میری بیوی میرا بچہ میری مرضی ۔
اور اسے سب کے ساتھ چھوڑ کے اوپر اپنے کمرے میں جا چکا تھا ۔
آج آرزو نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ آج وہ عون کو منع کر رہے گی کہ وہ یہ گھر چھوڑ کر نہ جائے کیا پتا اس خوشی کی وجہ سے عون اس کی بات مان لے۔
یہی سوچتی ہوئی وہ پر کمرے کی طرف آئی ۔
لیکن کمرے میں قدم رکھتے اسے جھٹکا لگا جہاں اور اس کا اور اپنا بیگ تیار کر چکا تھا ۔
دیکھو آرزو میں نے تمہارا سارا سامان پیک کر لیا ہے ہم تھوڑی دیر میں یہاں سے نکل رہے ہیں
ہم اپنی یہ خوشی اپنے نئے گھر میں جا کر منائیں گے ۔
وہ اس کا ماتھا چومتا اس کا بیگ اٹھا کر باہر لے گیا ۔
جانے سے پہلے بس اتنا کہہ گیا کہ میں نیچے تمہارا انتظار کر رہا ہوں
عون پلیز گھر چھوڑ کے مت جاؤ ۔
ہم کیسے رہیں گے تمہارے بغیر میں کیسے رہوں گی ۔
دیکھو میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں
پلیز یہ سب مت کریں اس سے پہلے کہ وہ عون کے سامنے ہاتھ جوڑتی عون بول اٹھا ۔
دیکھیں میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ میں یہ گھر چھوڑنے والا ہوں اور اب خدا کے لیے یہ سب کچھ مت کریں مجھے سکون سے جانے سے یہاں سے ۔
نیچے سے عون کی آوازیں اوپر تک آ رہی تھی ۔
آرزو آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی نیچے جانے لگی ۔
جبکہ عون دروازے سے باہر نکل چکا تھا ۔
آرزو بیٹا اسے سمجھاؤ پلیز بیٹا تم اسے سمجھاو وہ تمہاری بات مانے گا ۔
مت جاؤ مجھے چھوڑ کر کیسے رہوں گی میں تم لوگوں کے بغیر ۔
زبیدہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی جبکہ گھر کے سب افراد یہاں پر ان کے ساتھ کھڑے تھے
پھوپھو وہ میری بات نہیں مانتے میں نے انہیں بہت منانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی ضد پر اڑے ہیں ۔
آئی ایم سوری پھوپھو میں کچھ نہیں کر سکی آرزو
روتے ہوئے ان کے گلے لگی ۔
جب عون نے زور سے اسے پکارا ۔
جلدی آؤ آرزو میں انتظار کر رہا ہوں ۔
آرزو خاموشی سے دروازے سے باہر نکل گئی ۔جبکہ عون کی طرف اس نے نظر اٹھا کر نہ دیکھا
وہ لوگ جب سے گھر آئے تھے آرزو ایک لفظ بھی نہ بولی عون اس کی خاموشی کو نوٹ کر رہا تھا لیکن فی الحال وہ اسے بالکل پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا وہ جانتا تھا کہ وہ کیوں اداس ہے ۔
وہ خود بھی گھر چھوڑنے کی وجہ سے اداس تھا جہاں اس کا بچپن گزرا ۔
جہاں اس کے اپنے سگے تھے ۔اس کے ماں باپ بھائی ۔لیکن وہ چاہ کر بھی ان کے ساتھ وہ رشتہ قائم نہیں کر پایا جو وہ کرنا چاہتا تھا ۔
وہ بھی اپنے بھائیوں کے ساتھ وقت گزارنا چاہتا تھا وہ بھی چاہتا تھا کہ اس کے ماں باپ اس سے بھی پیار کریں۔
لیکن ان لوگوں نے ہمیشہ عون کو خود سے دور رکھا ۔
وہ کبھی ان لوگوں کی توجہ کا مرکز نہ بنا ۔
گھر میں کوئی اسے اہمیت نہ دیتا ۔
پھر آہستہ آہستہ سب کی اپنے آپ میں دلچسپی نہ دیکھ کر عون نے بات کرنا چھوڑ دیا
عون نے سب کو اہمیت دینا چھوڑ دیا ان سے بات کرنا چھوڑ دیا وہ ہوسٹل سے ایک دن کیلئے آتا اور سارا دن اپنے کمرے میں رہتا ۔
جب عون کو ان لوگوں کی ضرورت تھی تب وہ اس کے ساتھ نہیں تھے ۔اب عون کو صرف اور صرف اپنی آرزو کی ضرورت تھی اور اپنے ہونے والے بچے کی پرواہ وہ ان دونوں کو وقت دینا چاہتا تھا ۔
ان دونوں کے ساتھ اپنی نئی زندگی کی شروعات کرنا چاہتا تھا ۔
وہ آج بہت خوش تھا آرزونے اسے بہت بڑی خوشخبری سنائی تھی ۔اور اس کا اس طرح سے پریشان ہونا اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔
لیکن فی الحال عون نے اسے تنگ نہ کیا۔
اسے کر چھوڑ کر وہ اس کیلئے کھانا لانے گیا ۔وہ سب کچھ اس کی پسند کا لایا تھا کہ وہ خوش ہو جائے
لیکن وہ جانتا تھا اس وقت آرزو خوش نہیں ہوگی لیکن پھر بھی وہ اسے خوش رکھنے کی اپنی طرف سے چھوٹی سی کوشش کر رہا تھا ۔
آرزو میری جان کب تک اسی طرح سے بیٹھے رہنے کا ارادہ ہے چلو کھاناکھالو عون نے سارا کھانا ٹیبل پر رکھا اور اسی بُلانے کمرے میں آیا ۔
مجھے بھوک نہیں ہے عون جی آرزو بس اتنا بول کر خاموش ہوگئی ۔
بس کروآرزو بہت ہو گیا کب تک یہ رونا دھونا کرنا ہے ہاں
تمہیں پتا ہے مجھے یہ سب کچھ پسند نہیں ہے
۔چلو نیچے چل کےآرام سے کھانا کھاؤ اس بار وہ سختی سے بولا۔
عون جی میں نے کہا مجھے بھوک نہیں ہے تو کیا آپ مجھے زبردستی کھلائیں گے اس بار آرزو بھی ذرا اونچی آواز میں بولی ۔
اچھا ٹھیک ہے بابا کھانا نہیں کھانا فورٹس کھالو ٹھیک ہے عون اس کی اونچی آواز کو اگنور کرتا محبت سے بولا ۔
وہ یہ کہہ کر اٹھا اور باہر چلا گیا جب واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں کچھ فروٹس تھے ۔
اس بار وہ اتنے پیار سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا کہ آرزو انکار نہ کرسکی۔
وہ اسے اپنے ہاتھ سے سیب کاٹ کر دینے لگا تھا ۔توآرزو نے لے لیے۔
اب بس عون جی اور نہیں ۔اس نے انکار کیا
کیا مطلب اور نہیں ابھی تو تم نے پورا ایک سیب بھی نہیں کھایا ۔چلو تم تو چڑیا جتنا کھاتی ہو لیکن میری بیٹی یا بیٹے کا کچھ خیال کرو عون نے اس کے منہ میں سیب کا ٹکڑا رکھتے ہوئے کہا ۔
وہ بھی کھا چکے ہیں آرزو شرماتے ہوئے بولی ۔
اچھا ٹھیک ہے یہ ایک سیب تو پورا کھالو ۔پھر نہیں کہوں گا وعدہ وہ ایک بار پھر سے اسے سیب کھلانے لگا آرزو نہ نہ کرتی رہی لیکن عون نے اس کی ایک بات نہ مانی
وقت گزر رہا تھا ان دونوں کو یہاں آئے دو ہفتے گزر چکے تھے سب کچھ ٹھیک ہو چکا تھا وہ اپنا خیال رکھنے لگی تھی اور عون نے دو میڈز کا انتظام کردیا تھا ۔
جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتی ۔
لیکن پھر بھی آرزو بہت پریشان رہنے لگی تھی ۔
ہر وقت اس کا دھیان گھر اور گھر والوں پر ہی لگا رہتا ۔
کتنی رو رہی تھی اس کی پھوپھو جب عون گھر چھوڑ کے آیا عون کو ان کا احساس کیوں نہیں ہے ۔
بس ایک غلط فہمی کی بنا پر وہ اپنے رشتہ ختم کر رہا ہے ۔
سب کو خود سے دور کر رہا ہے
مجھے انہیں بتانا چاہیئے کہ جو وہ سمجھ رہے ہیں ایسا کچھ نہیں ہے ۔
پھوپھو انہیں مارنا نہیں چاہتی تھی ۔اور پھوپھا کوبھی اپنی غلطی کا احساس تھا لیکن یہ بھی سچ تھا کہ جو کچھ بھی ہوا وہ ان کی مجبوری تھی
مجھے عون جی سے اس بارے میں بات کرنی چاہیے
لیکن عون جی تو مجھے گھر والوں کے بارے میں بات تک نہیں کرنے دیتے ۔
کیسے سمجھاؤں میں انہیں جو کچھ بھی ہوا اس میں پھوپھو کی کوئی غلطی نہیں وہ تو خود اس حد تک مجبور تھی کہ کچھ نہ کر سکیں ۔
لیکن پھر بھی اللہ نے انہیں زندگی دی عون جی یہ بات کب سمجھیں گے کیسے سمجھاؤں میں انہیں ۔
وہ روز ہی تقریبا پھوپھو سے فون پر بات کرتی اور وہ روز ہی روتی اس سے کہتی کہ کچھ کرو آرزوکہ وہ گھر واپس آجائے میں اسے دیکھے بنا نہیں رہ سکتی ۔
اور پھوپھو کا رونا آرزو سے برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔
وہ تقریباً روز ہی عون سے اس بارے میں بات کرنے کی کوشش کرتی لیکن آج اس نے ایک بار پھر سے اسے سمجھانے کا فیصلہ کیا تھا ۔