مہتاب نے شانی کے خیال رکھنے میں کو کسر نہ اُٹھائی رکھی ہر کام اسکے کرتا تھا۔
“شانی کتنا تنگ کرتی ہو کھانا کھاتے ہوئے شاباش جلدی سے منہ کھولوں۔”
“باؤ جی میں اور نہیں کھا سکتی۔ قسم سے اگر مجھے بھوک لگے گی تو میں آپ کو بتا دوں گی۔ آپ پریشان مت ہوں۔ پہلے ہی میرا ہر کام آپ خود کر رہے ہیں مجھے بہت عجیب لگتا ہے۔”
“بیگم صاحبہ اب تو آپ کی خدمتیں ساری زندگی کرنی ہیں اس میں عجیب لگنے والی کیا بات ہے۔ اگر میرے ساتھ یہ حادثہ ہوتا تو کیا تم یہ سب نہ کرتی۔”
“اللہ نہ کرئے۔۔میں بالکل سب کچھ کرتی وہ میرا فرض ہوتا۔”
“تو جناب یہ میرا بھی کچھ فرض بنتا ہے کے نہیں۔ ویسے بھی کچھ دن ہی خدمتیں کروالوں ساری زندگی تو میں نے ہی کروانی ہیں تم سے خدمتیں۔”
“بہت مطلبی انسان ہے آپ۔”
“جی۔ تھنک یو سو مچ مائی لو۔”
★★★★★★★★★★★★★★★★
شانی سو کے اُٹھی تو پاس کوئی نہیں تھا۔۔ حویلی میں بھی نوکروں کے سوا کوئی نظر نہ آیا تو ماں جی کمرےکی طرف ہولی کے وہاں ہو کوئی ۔۔
شانی چوہدرائن کی غیر موجودگی میں انکے کمرے میں گئی تھی۔ اچانک سے شیلف پر پڑی فوٹوالبم پر نظر پڑی تو خوشی سے لےکر بیٹھ گئی کے مہتاب کے بچپن کی تصویریں ہونگیں۔ پر جب تصویرے دیکھنا شروع کی تو وہ کسی لڑکی تھی جو ہوبحو شانی کو اپنی پرچھائی لگی۔
“یا اللہ یہ کون ہے بالکل مجھے جیسی ہیں۔ میری کوئی بہن بھی تھی پر میں تو ساری زندگی اماں کے ساتھ اکیلے رہی ہو۔ افف کس سے پوچھوں کوئی ہے بھی نہیں اس وقت گھر پر۔”
اتنے میں مجیدہ کمرے میں آئی تو شانی کو اس طرح چوہدرائن کے کمرے دیکھ کے بولی۔ “شانی چوہدرائن بہت غصہ کرتی ہیں۔ انکی چیزوں کو جب بھی ہاتھ لگایا جائے اور چل یہاں سے ورنہ تمہاری خیر نہیں۔”
“آپا مجیدہ آپ کتنے عرصے یہاں کام کر رہی ہو۔؟”
“میں تو جب چوہدائن کی شادی ہوئی تھی۔ تب انکے ساتھ آئی تھی۔”
“مطلب میں جو پوچھوں گی آپ وہ سب جانتی ہونگی۔۔ ہے نہ؟”
”کیا پوچھنا ہے؟“
“یہ تصویر میں کون لڑکی ہے۔ میں نے کبھی بھی نہیں دیکھا ہے ان کو یہاں یا یہ کہی اور رہتی ہیں۔؟”
مجیدہ نے تصویر کو غور سے دیکھا پھر افسوس سے بولی۔
“حق ہا۔۔ کیا بتاؤں اس بد قسمت کے بارے میں تم کو۔۔ بہت چھوٹی عمر میں بڑے بڑے دکھ جھیلے بچاری نے۔”
“ہے کون ۔؟”
“اپنے بڑے چوہدری اکبر رحمان ملک جی ہے تھے انکی بہن تھی جی۔ شوہر کے مرنے کے بعد ایسا جوگ لیا عدت کے لئے کمرے میں گئی پر کبھی باہر نہ نکلنے کی قسم ہی کھا لی تھی۔ جب کہ چھوٹی سی بیٹی بھی تھی ان کی یہی کوئی سال کی ہوگی۔ پتہ نہیں کہاں غائب ہو گئی۔ اسکے بعد تو جینے کا مقصد ہی ختم ہو گیا تھا انکے لئے۔ رو رو کے اپنی جان ہی دے دی تھی۔ اتنا روتی تھی کے ساری حویلی انکےغم میں برابر کی شریک تھی۔ اور ایک دن تو ایسا سوئی کے اُٹھی نہیں۔ سارے دکھ درد جیسے ختم ہو گئے ہوں۔ جہاں گاؤں میں لڑکیاں ضویا جیسی قسمت کی دعا کیا کرتی تھی۔ وہاں یہ وقت بھی آیا کے اللہ اس نمانی جیسی قسمت کسی کو نہ دے۔”
“ایسا کیا ہوا تھا جو اس حال میں پہنچ گئی تھی۔؟”
“ہونا کیا تھا۔ شوہر پر مل والوں نے جان لیوا حملہ کر دیا تھا۔ دیور چچا سسر سب ہلاک ہو گئے تھے۔ اسکی تو زندگی اک گھڑی میں بدل گئی تھی ۔اسی لئے آج تک جٹوں کی نہ چوہدریوں اور آپس میں بنی ۔۔ دشمنی ہے تب سے۔”
“مجھے اماں نے کبھی نہیں بتایا تھا اس بارے میں وہ تو آپ سے بھی پہلے یہاں ہی کام کرتی تھی یہی پلی بڑھی تھی۔ اتنا تو انہوں نے بتایا تھا۔”
★★★★★★★★★★★★★★★★
شانی کب سے پتہ نہیں کن خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی مہتاب کے آنے تک کا پتہ نہ چلا۔ جب مہتاب نے پاس آکر ماتھے پر بوسا دیا تو ایک دم سے شانی ہڑبڑا کے پیچھے کو ہوئی۔
“کیا ہوا کچھ غلط کیا میں نے۔؟” مہتاب نے اسکی عجیب سی حالت کو دیکھا تو پوچھا۔۔ ”کیا تم رو رہی تھی کسی نے کچھ کہا۔؟“
“نہیں میں تو کچھ سوچ رہی تھی۔”
“واہ آج تو بہت پتے کی بات پتہ چلی ہے کے شانی صاحبہ سوچتی بھی ہیں۔”
“میں آپ سے کچھ پوچھو تو کیا آپ سچ سچ بتائیں گے۔؟”
“ہاں پوچھو کیا پوچھنا ہے۔۔؟ اگر شادی سے پہلے میرے کتنے افیر تھے پوچھنا ہے پہلے ہی بتا دو تم میرا پہلا اور آخری افیر ہو۔”
“نہیں مجھے اسکے بارے میں نہیں جاننا میں ضویا جی کے متعلقق کچھ پوچھنا چاہتی ہوں۔ ”
“ضویا۔۔یہ نام کہاں سے پتہ چلا تم کو۔؟”
“میں جانتی وہ آپ کی بوا تھی اب اس دنیا میں نہیں رہی۔ میں سب جانتی ہو۔”
“کس نے بتایا تم کو یہ سب ۔؟ اماں نے کبھی نہیں بتایا ہو گا۔ ماجی یہ بات کرے گی نہیں تم سے مریم صحیح سے واقف نہیں پھر کون ہوسکتا ہے۔؟”
“آپ اسطرح کیوں حساب کتاب لگا رہے ہیں۔ آپا مجیدہ نے بتایا ہے سب۔ اور اب تو میں بھی اس گھر کا فرد ہو مجھے بھی سب پتہ ہونا چائیے۔ اس لئے پوچھ رہی ہوں۔ ماں جی سے پوچھو گی تو پتہ نہیں بُرا ہی نہ مان جائیں۔”
“آپ میرے سر کی قسم کھاؤ کے جو میں پوچھوں گی وہ سچ سچ بتاؤں گے۔”
“شانی جو پوچھانا ہے پوچھو قسم کہاں سے آگئی ہے اس میں۔”
“نہیں آپ پہلے قسم کھائیں۔”
“اوکے بابا میں قسم کھاتا ہوں میں جو جو کہوں گا سچ کہا گا سچ کو سوا کچھ نہیں کہوں گا۔۔ بس ہو گیا یقین۔” شانی نے اثبات میں سر ہلایا۔
“ابراہیم اور ضویا میرے امی بابا تھے نہ۔”
مہتاب کا ایک دم سے رنگ اُڑ گیا۔
“یہ تم کو کس نےکہا ۔؟”
“دیکھے آپ نے قسم کھائی ہے کوئی جھوٹ نہیں نہ ہی کچھ چھپائیں گے۔” مہتاب نے سر اسباب میں ہلایا دیکھوں جو بتاؤ گا ہمت سے سننا اور کسی کو اس میں غلط مت سمجھنا۔۔ تمہارا اس حویلی دور رکھنا ماں جی کا فیصلہ تھا۔ تم کو کچھ وقت کے لئے دور کیا جائے تو پتہ نہیں بوا اپنا اردہ بدل لے اور اپنی قدم توڑ لے کمرے سے نکلنے کی ۔۔ پر کسی کو ذارہ بھی خیال نہیں آیا تھا کے انکے ساتھ یہ سب بھی ہو سکتا ہے۔۔ اماں نے صرف تمہاری بھلائی سوچی تھی پر بُرا نہیں سوچا تھا کچھ بھی۔۔اور
ساری کہانی سُنائی ابراہیم کی اور ضویا بوا کی۔ شانی نے سنتے سنتے ہچکیوں سے رونا شروع کر دیا۔
“کاش کے میں کبھی اپنے ماں باپ سے مل سکتی۔ اماں نے بھی کبھی نہیں بتایا۔۔کوئی اپنے ماں باپ کو جانے بغیر اتنی زندگی گزار سکتا ہے میری طرف دیکھوں کیسے سب سے انجان تھی میں۔۔ “ ساتھ ساتھ روئی جا رہی تھی ۔۔ دیکھوں شانی اماں کو یہی ڈر تھا کے جہنوں نے تمہارے خاندان پر حملہ کیا کہی تم کو نقصان نہ پہنچا دے ایسی لئے رشیدہ اماں تم کو لے کر اپنے آبائی کھر چلی گئی تھی جب تم دس سال کی ہوئی تو واپس یہاں آگئی تھی ۔۔ اور سب کو یہی پتہ تھا کے تم رشیدہ اماں کی بیٹی ہو۔۔ رشیدہ اماں نے تمہاری وجہ سے شادی نہ کی کہ تم انکی بہترین دوست کی نشانی ہو۔۔ ان سے بد غمان کبھی مت ہونا۔۔تم کو یہ سب کیسے پتہ چلا وہ بتاؤ۔“
“میں جب ماں جی کے کمرے میں تصویریں دیکھی تو مجھے بالکل اپنی کاپی لگی۔ اسکے بعد میں نے مجیدہ آپا سے پوچھا۔ پھر مجیدہ آپا کے کمرے سے چلے جانے کے بعد ماں جی کے کمرے کی تلاشی لی کے کچھ نہ کچھ مل ہی جائے جس میں میرے شک کی تصدیق ہو سکے تو جانتے ہیں مجھے کیا ملا۔” شانی نیلے رنگ کی فائل مہتاب کے آگے رکھی۔ وہی فائل جس کو دیکھ کو چوہدرائن نے شانی سے شادی کرنے پر ہامی بھری تھی۔
“یہ۔۔ یہ فائل۔ کیا تم نے سب پڑھ لیا ہے ۔؟”
جس میں برتھ سرٹیفکیٹ ہے شانی کی تصویریں ضویا اور ابراہیم کے ساتھ تھی۔ اور تیمور کے امتیاز اور احسان کے متعلق سب کچھ تھا اور شانی کی جائیدات کی معلومات سب تھا۔۔
“اس سب کے بعد کیا میں اپنے خاندان والوں سے ملنے کا حق نہیں رکھ سکتی کیا۔ میں پوچھنا چاہتی ان سب سے۔ کیوں کسی کے رحم وکرم پر چھوڑدیا گیا کیوں۔؟” شانی پُھوٹ پُھوٹ کے رو رہی تھی۔ مہتاب نے اپنے دونوں ہاتھ کی انگلیوں سے آنسوں صاف کیے اور اپنے ساتھ لگا لیا شانی کتنی دیر تک یوہی روتی رہی جیسے سب اپنے آج ہی اس سے بچھڑیں ہوں ۔
“میں ان مل والوں سے گن گن کر بدلہ لوں گی۔ جنہوں نے ہمارے گھر کی خوشیاں چھینی تھیں۔ میں بھی انکا سکھ چین سب کچھ چھین لوں گی۔”
“بس شانی بہت ہوا۔۔ کیا مل جائے گا یہ سب کر کے کب تک یہ نفرتوں کی آگ کو ہوا دیتے رہنا ہے نسلوں کی نسلیں ختم ہو جاتی ہیں اس آگ سے۔ حاصل کیا ہوتا ہے کچھ بھی نہیں صرف نقصان ہوتا ہے بس۔۔ اور کچھ بھی نہیں۔ تیمور چاچو نے اپنی ساری زندگی جیل میں گزار دی ہے۔ احسان چاچو ملک سے باہر ہے واپس کبھی نہیں آئے۔ تمہارے دادا جان نہیں رہے۔ اب اگر تم بھی اپنے چچا کے نقشے قدم پر چلنا چاہتی ہو تو پھر بھی میں تمہارے ساتھ ہوں۔ پر جو انصاف اللہ کرتا ہے وہ کوئی نہیں کر سکتا۔ اکرام جٹ نے بھی بیٹے اور پوتے کو کھویا تھا۔ پھر اسے بیٹے نے اسے بدلا لیا۔ کیونکے اسکے باپ کی ہی وجہ سے انہیں اپنی بیٹے کو مٹی کے سپرد کیا تھا۔ اس میں اسکے بیٹے یا اُس کے پوتے کا کیا قصور تھا۔ اگر تم سچ مچ اللہ سے انصاف چاہتی ہو تو اللہ پر سب چھوڑدو وہ سب بہتر کرنے والا ہے۔”
★★★★★★★★★★★★★★★
تیمور کو سترہ سال قیدِ بامشقت کی سزا ملی تھی۔ ان سالوں میں ایک بھی دن ایسا نہ تھا جس دن اسنے ابراہیم کے بارے میں نہ سوچا ہو۔
“کاش کے میں مر جاتا ابرہیم تم کیوں چلے گئے۔ تمہارا تو کوئی قصور نہیں تھا۔ آخر کیوں آئے تھے مجھے بچانے۔ کاش کے سب پہلے جیسا ہو پاتا کاش۔” زندگی میں ایک کاش لفظ ہی ایسا ہوتا ہے جو اذیت سے بھرا ہوتا ہے۔ سترہ سال کی سنرا کے بعد جب تیمور جیل سے رہا ہوا تو مہتاب لینے گیا تھا۔ نعیمہ چچی اور احسان بھی ملک واپس آئے تھے تیمور کی رہائی پر۔
احسان نے آگے بڑھ کرتیمور کو بھینچ لیا تو دونوں بھائی خوب روئے۔
“اتنے عرصے بعد دیکھا ہے تم کو بہت بڑے ہو گئے ہو۔”
“ہاں تینتس سال ہو گیا ہو بڑا تو لگوں گا ہی۔”
“یار اتنا وقت بیت گیا مجھے تو ایسا لگتا صدیاں گزار کر دنیا میں آیا ہوں۔” تیمور اپنی ماں سے ملا تو ان کو اتنی ضعیف لگیں۔۔ نہیں تو یہ وہ لیڈی تھی جو گاؤں میں رہنے کے باوجود رہن سہن شہری کہلاتی تھیں۔
“امی جی پہچانا مجھے؟”
‘ماں ہوں تمہاری اولاد کو نہیں پہچانوں گی کیا۔ میرے لئے تو وقت وہی تھم گیا تھا۔ جب تم نے آخری دفعہ کہا تھا بار بار مجھے جیل میں ملنے مت آیا کرو اذیت میں اضافہ ہوتا ہے پھر لاکھ کوششوں پر بھی نہ ملنے آئے۔ کیسے گزرے یہ سال میں ہی جانتی ہو۔” مہتاب سب کے جذباتی کلمات سن رہا تھا اور اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ تیمور نے اجنبی چہرے کی طرف دیکھا اور سوالیہ نظروں سے پوچھا۔ “کون ہو بھائی تم۔”
“چاچو پہچانا نہیں مجھے۔۔؟میں مانی ہوں۔”
“آپ کی شانزہ کا شوہر۔” تیمور نے شانزہ کا نام سنا ایک دم سے ابراہیم یاد آگیا بھابھی کا پیار سب آنکھوں کے سامنے آگیا۔
“شانزہ نہیں آئی۔؟”
“وہ آپ کا گھر میں انتظار کر رہی ہے۔”
★★★★★★★★★★★★★★★★
سب گھر پہنچے تو ایک دفعہ بھر سے حویلی میں خوشیوں کا راج قائم ہو گیا۔ چوہدرائن نے بھی شانی سے اپنی غلطی پر معافی مانگی تھی۔
“شانی میری دھی رانی میں کبھی تیرا بُرا نہیں چاہا تھا۔ بھلائی کرنی چاہی تھی چوہدری صاحب کی حالت نہیں دیکھی جاتی تھی۔ میں نے سے سوچا ایک دن تو نظر نہ آئے گی ضویا کو تو وہ اپنا جوگ ترک کر کے باہر آجائے گی۔ پر میری اس غلطی پر اسکی جان چلی گئی مجھے معاف کر دے میری دھی۔ میں ساری عمر بھی اسکا ازالا کرو تب بھی کم ہے۔ تجھے یہاں سے دور اس لئے رکھا تھا کے تیری شکل ہوبحو ضویا سے ملتی تھی اگر پھر سے اکرام جٹ کا دماغ گھوم جاتا تو پھر سے بدلہ نہ لینے بیٹھ جاتا۔ میں سوچ بھی نہ سکتی تھی آگے کچھ اور ہو۔۔ حویلی میں ہزار پابندیاں ہوتی۔ حویلی سے دور رہتی اور سب لوگوں سے اوجھل تو آزاد گھومتی پھرتی رہی۔ ورنہ قیدیوں سی زندگی ہو جاتی تیری۔ اگر میں پھر بھی غلط کیا میں ہاتھ جوڑتی ہو تیرے آگے۔!”
“نہیں ماں جی اب اور نہیں جو ہونا تھا ہوگیا۔ شاہد یہی قسمت تھی اور ایسا ہی ہونا تھا سب۔ آپ ہاتھ مت جوڑیں۔”
★★★★★★★★★★★★★★★★
تیمور گاؤں دیکھنے نکلا تو کچھ بھی پہلے جیسا نہیں تھا ہر چیز بدل چکی تھی۔ ان سالوں میں۔۔۔ چلتے چلتے کب قدم بانو کے گھر کی طرف گئے پتہ ہی نہ چلا۔ گیٹ کے پاس جا کے سوچنے لگ گیا کیا کرے اندر جائے یا واپس ہو جائے۔ اب سب بدل گیا کیا پتہ بانو یہاں ہو بھی نہ اتنے سالوں میں تو شادی ہو گئی ہو گی اسکی۔ واپسی کو قدم واپس لئے تو بانو کے بھائی اسجد سے ٹکراؤ ہو گیا۔ جو چھٹ سے پہچان گیا تھا۔
“آپ وہی ہے نہ ابراہیم بھائی کے بھائی تیمور ۔؟”تیمور ے اثبات میں سر ہلایا۔
“آئیے اندر چلیں سب آپ سے مل کے بہت خوش ہونگے۔۔پتہ چلا تھا صبح آپ کا کے کل رات ہی آئیں ہیں۔” اندر گیا تو سب بہت خوشی سے ملے۔ پر پتہ نہیں تیمور کو کسی کا انتظار تھا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کے کوئی نہیں رہا اسکا انتظار کرنے والا ۔
بانو کی بابا کے پاس تیمور نظرے جُھکا کے سب سن رہ تھا اسکے بعد کیا کیا ہوا تھا گاؤں میں۔ ایک خیال آنے پر بانو کے بابا نے پوچھا۔ “شادی کیا ارادہ پُتر جی اب”۔ تیمور نے پتہ نہیں کیوں طنز سمجھا۔
“اب کیسی شادی چچا جی سینتیس سال کا ہو گیا ہوں اور اب شادی کر کے کیا کرنا ہے۔”
“بیٹا جی ایک بات کرنا تھی پتہ نہیں آپ کو اچھی لگے بھی یا نہیں۔ پر جب آپ کے والد کا انتقال ہوا تھا تو ابرہیم آیا تھا ہمارے پاس ساتھ میں امتیاز صاحب بھی تھے۔ تمہاری ذہنی کیفیت کو سمجھتے ہوئیے انکا کہنا تھا کے چہلم کے بعد تمہارا نکا ح پڑھا دیا جائے تاکہ جن اذیتوں کا شکار تم ہو اس میں سے نکل سکوں۔ اور ہمارے ہاں بیٹی جس کے نام سے منسوب ہو جاتی ہے مرتے دم تک اسی کے نام سے بیٹھی رہتی ہے۔”
“کیا مطلب۔؟” تیمور کو بات کی زرا سمجھ نہ آئی کے وہ کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔
“بیٹا جی آپ کی والدہ سے تو عرصہ ہوا بات ہوئی کہ انہوں نے کہا تھا جب بھی تم لوٹو گے تمہاری شادی کرواں دے گے بانو سے۔ اور ہم جو زبان دیتے ہیں پھر کبھی مکرتے نہیں ہے۔ بانو گاؤں کے کلالج میں پروفیسر ہے پر آج تک شادی نہیں کی۔ میری عمر اتنی ہو گئی پتہ نہیں کب اس سونے رب کا بُلاوہ آجائے اس لئے میں اس بھار کو بھی سر سے اتارنا چاہتا ہوں۔”
تیمور کو سمجھ نہیں آرہی تھی کے وہ خوش ہوئے کے روئے۔ ابراہیم نے کب کب بھائی ہونے کا فرض ادا نہ کیا تھا۔ اس پر چلنے والی گولی اپنے سینے پر کھائی اس کی پسند کا رشتہ باندھ گیا تھا۔ اور اسنے قانون کو ہاتھ میں لے کر کیا کیا غلط نہ کیاتھا۔ بدلہ لینے کے چکر میں۔ تیمور نے اثبات میں سر ہلا کر ہامی بھری بانو کے والد آبدیدہ ہو گئے تھے۔
★★★★★★★★★★★★★★★★
تیمور چھٹی کے وقت کافی دیرسے کالج کے باہر کھڑا بانو کا انتظار کر رہا تھا۔ جب اچانک سے بڑی سی چادر میں لپٹی بانو باہر نکلی تو تیمور دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ تو آج بھی نہ بدلی تھی بالکل ویسے کی ویسی تھی۔
“بانو کیسی ہو یار۔؟” بانو کے عین پچھے سے آواز آئی۔ تو بانو ایک دم سے مڑی تو تیمور کو دیکھ کر حیران ہوئی پہلے۔۔پھر ایک ہاتھ تیمور کے چہرے پر پھیر کر خود کو جیسے یقین دلایا۔ اور وہیں پُھوٹ پُھوٹ کر رونے لگ گئی۔ تیمور کو سمجھے نہ آئی اسے کیا ہو اور کیا کرے وہ۔
“بانو کیا ہوا ۔ یار اگر میرا آنا اچھا نہیں لگا تو میں چلا جاتا ہو پر ایسے رو تو مت۔” بانو نے نہ دیکھا وہ کالج کے باہر کھڑی ہے جہاں سے لڑکیاں ابھی بھی کالج سے باہر کو نکل رہی تھی گھوما کر زور سے ایک تھپڑ تیمور منہ پہ مارا۔پاس جاتے لوگوں نے روک کر دیکھا۔ کچھ نے وجہ پوچھی آیا کوئی آدمی تنگ تو نہیں کر رہا۔ پر بانو نے چلا کر سب سے کہا۔ “جاؤں یہاں سے یہ ہمارے آپس کا معملا ہے اور تم۔”
تیمور کو انگلی سے وارن کرنے کے اندز سے کہا۔ “گاڑی میں بیٹھوں۔” پھر کچھ یاد آنے پر پوچھا۔ “گاڑی چلانا جانتے ہو کے بھول گئے ہو۔” تیمور کا ہاتھ ابھی تک اپنی گال پر تھا۔ اسے یو پوچھنے پر سر کو ہلایا۔
“آتی ہے۔ ”
“ہاتھ ہٹاؤ اپنا اتنی تکلیف تو نہیں ہو رہی ہو گی جتنی مجھے ہوئی ہے ان وصل کے سالوں میں ہوئی ہے۔” گاڑی کی چابی تیمور کو تھمائی اور خود بگل والی سیٹ پر بیٹھ گئی۔
“لوفر انسان آج بھی باز نہ آئے تم کیسے کالج کے باہر کھڑے تھے۔” تیمور کو ایسا لگا وقت وہی سے شروع ہوا ہو جہاں سے چھوڑکر گیا تھا۔ وہ آج بھی نہیں بدلی تھی۔۔
“جیل میں رہ کے عقل تو ٹھکانے آگئی ہوگی اب تک۔”
“ہاں کافی حد تک۔”
“گڈ۔”
“کہاں جانا ہے۔؟”تیمور نے گاڑی چلاتے ہوئے بانو سے پوچھا۔۔
“جہاں مرضی لے چلوں۔’
‘مس بانو ابھی آپ مسسز نہیں بنی جو کہی بھی لے جاؤں تم کو۔”
“خیر اتنی عمر تو ہوگئی ہے کوئی کچھ نہیں کہے گا اب بچے گھر مغرب کے بعد بھی جائے تو ماں باپ نہیں پوچھتے۔ میں تو پھر کافی عمر کی لیڈی ہوں۔ کوئی سکول گوئنگ گرل نہیں۔”
★★★★★★★★★★★★★★★★
“شانی کو گولی جس نے ماری تھی وہ پکڑا گیا ہے مہتاب صاحب آپ پولیس آسٹیشن آکر دیکھ لو بہت بڑے لوگوں کو ہاتھ ڈالا ہے مجھے تو لگتا ہے میری خیر نہیں اب۔”
“انسپکٹر صاحب آپ نے حق سچ کی قسم اُٹھا کر اپنی عوام کی مدد کرنی ہے کے بڑے لوگوں سے ڈر کر ان کا ساتھ دینا ہے۔”
“میں نے اگر بڑے لوگوں کا ساتھ دینا ہوتا تو کبھی یہ کاروائی نہ کرتا اکرام جٹ کے پوتے پہلے ہی گاؤں کے لوگوں کو بہت تنگ کر رکھا ہے۔ اپنے اثر وسوخ کی وجہ سےبندے کو بندہ نہیں جانتا۔ ابھی مجھے دھمکی والی کال بھی آئی ہے کے ایف۔آئی۔آر خارج نہ کی تو میرا خاندان مٹا دے گے۔”
“آپ کچھ وقت روکئے میں بھی دیکھوں صاحب ہے کون اور کیا تکلیف تھی شانی سے اسکو۔”
★★★★★★★★★★★★★★★★
تیمور نے گاڑی کا رخ نہر کے پاس بنے پارک کی طرف کردیا پارک کے آگے گاڑی روکی۔ اور دونوں اندر کو چل دیئے دونوں میں سے کوئی بات نہیں کر رہا تھا۔تیمور چلتے چلتے نہر کے کنارے کے پاس بیٹھا اور پتھر اُٹھااُٹھا کر نہر میں پھینکنے لگا۔
“اتنے سال کیوں برباد کیے میرے لئے؟”
“آہاں۔۔ مطلب سب انفارمیشن اکھٹی کر کے میرے پاس آئے ہو۔ خوش فیمی ہے تمہاری کے تمہارے لئے اتنے سال انتظار کیا۔”
“جھوٹ نہیں بولو۔ تمہاری آنکھوں میں دیکھا میں وہ سارا قرب جو ان سالوں میں میرے لئے محسوس کرتی رہی ہو۔”
“قرب نہیں اذیت کہو۔ تم نے ایک بھی پل کے لئے کسی کے بارے میں سوچا سب تباہ کر دیا۔ سب ختم کر دیا اپنے ہاتھوں سے۔” بانو غصے سے بولی۔۔
“تم نے دیکھا نہیں تھا اس دن کیا ہوا تھا۔۔؟ مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ اپنے آپ کو بزدل نہیں ثابت کرنا چاہ رہا تھا۔ بس اسی لئے وہ سب ہوگیا۔۔ میں ابراہیم کے لئے کبھی برا نہیں چاہا تھا وہ کیسے میرے اور اس گولی کے بیچ حائل ہو گیا مجھے پتہ ہی نہ چلا۔ بہت دکھ ہے مجھے اور اپنی آخری سانس تک رہے گا۔ شانزہ کے ساتھ اور بھابھی کے ساتھ ہوا۔ وہ بچی کل میرے گلے لگ کر روئی قسم سے لگا میں نے اسکی زندگی اپنے غصے اور بدلے میں خراب کر دی ہے۔”
“اسنے کہا میرے بابا تو یاد نہیں پر میں آپ کو بابا بول سکتی ہو۔مجھے اسکے اندر کے خالی پن کا احساس ہوا۔ میری چھوٹی سی شانزہ اتنی بڑی ہوگئی میں تو دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔اتنی سی تھی میری گودہ میں۔۔ تیمور نے ہاتھوں کے اشارے سے بتایا۔۔
تیمور کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ بانو بالکل بھی تیمور کو احساس نہیں دلانا چاہ رہی تھی کے وہ بدل گئی اسے بے انتہا پیار ہوا تھا ان گزرے سالوں میں اگر وہ میچور ہو کے بات کریے گی تو تیمور سنجیدہ سے سنجیدہ تر ہوتا چلا جائے گا۔ اس لئےاس نے اپنا کلندہ پن قائم رکھا اور وہی سترہ سال والی بانو بن گئی وہ اس شخص کے لئے گچھ بھی کر سکتی تھی۔۔۔ دونوں ہاتھ تیمور کے کندھے پررکھے۔ تیمور، بانو کی طرف دیکھنے ہی لگا تھا کے بانو نے تیمور کو نہر میں دھکا دیا۔ اور ہنسنے لگ گئی۔ تیمور نے پہلے غصے سے بانو کی اس حرکت کو دیکھا پھر اسکی ہنستے ہوئے چہرے کو اور سر جھٹک کر خود بھی مسکرا دیا۔
“تم نہیں بدلوں گی کبھی۔”
“لو بھلا جو بدل جائے اسکا نام بانوکمال تو نہ ہوا۔۔”
“ہاں نہیں ہوگا اب سے ”
“مطلب ”
“مطلب اب سے بانو تیمور جو ہونے والا ہے تمہارا نام۔” بانو نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا اسے ثابت قدم رکھا اوراس پاک ذات نے اسے ایک محبت کرنے والا ہمسفر نواز دیا تھا۔
★★★★★★★★★★★★★★★★
پاکستان کی 21 کروڑ عوام میں سے صرف 30 فیصد آبادی روزانہ 10 روپے کا جوس پئیں تو مہینے بھر میں تقریبا ”1800 کروڑ“ روپے خرچ ہوتے ہیں ۔اور اگر آپ انہی پیسوں سے سوفٹ ڈرینک پیتے ہیں
تو یہ ”1800 کروڑ“ روپے پاکستان سے باہر چلے جاتےہیں۔۔اصل میں جوس اور سوفٹ ڈرنک بنانے والی کمپنیاں روزانہ”3600 کروڑ“ سے زیادہ قماتی ہیں ۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ گنے کے جوس اور پھلوں کے رس وغیرہ کو اپنائیں اور ملک کے ”3600 کروڑ“ روپے بچا کر ہمارے کسانوں کو دیں۔تاکہ کسان خود کشی جیسی حرام موت نہ مرے۔ اگر ہم یہی موقع اپنے لوکل لوگوں کو مہیا کریں ۔ تو خالی پھلوں کے رس کے کاروبار سے”ایک کروڑ“ لوگوں کو روزگار مل سکتا ہے ۔ آپ کا یہ چھوٹا سا کام ملک میں خوشحالی اور ترقی لاسکتا ہے ۔ لازمی نہیں ہر کام سیاستدان کریں کچھ کام ہم سب کو اپنے اوپر بھی فرض کرنے چاہئیں جیسے سُپرسٹوز کے علاوہ غریب پھل فروش سے پھل خرید لے ان سی مول بھاؤں کم کریں بلکہ آپ صاحبِ حیثیت ہیں تو ان کی مدد کر دیں۔ دورنہ جائیں اپنے آس پاس لوگوں پر نظر دوڑائیں نیکی بھی کما لیں گے اور غریب کا بھی بھلا ہو گا۔
جانتا ہوں اتنے سے کام سے بھلائی نہیں آئے گی پر کسی کو تو شروعات کرنا ہو گی۔ ہم سے ہی کیوں نہیں۔؟ دولت ہے تو اپنے ملک کے لئے کیوں نہیں۔؟اپنے گاؤں میں ہینڈی کڑافٹ سے بنی ملبوسات اور چیزے اصل دام ان مزدور بہنوں اور بھائیوں کو دیا جائے تو کوئی بھی کسان یا محنت کش بھوکا نہ رہے کو کسی کے آگے ہاتھ نہ پھلائیں۔۔ ہمیں خود کو بدلنا ہے۔ کوئی حکمران آکے کیوں بدلے ہم کیوں نہ خود کو بدلیں ۔ آؤں آج ہم ایک عظم ایک وعدہ کرتے ہیں ہم سب سے پہلے اپنے آپ کو بدلیں گے تو ملک کا مستقبل خودبخود بدل جائے گا۔۔
چوہدری مہتاب اکبر ملک نے فیکٹڑیوں کے میز کے افتطا پر میڈیا اور سارے گاؤں میں پیغام پہنچایا تھا۔۔
★★★★★★★★
جب سے مہتاب کی فیکٹریاں گاؤں میں لگی تھی۔۔ اکرام جٹ کا کام ٹھنڈا پرتا جا رہا تھا۔۔ پوتا جیل میں تھا جس کے بل پر پورے گاؤں میں گنڈا گردی مچا رکھی تھی۔۔
مہتاب ہی اکرام جٹ کے پوتے کو سزا دلوائی تھی جو جیل میں اپنی سزا بُھگت رہا تھا۔۔ بیٹا شراب کے نشے میں دھوت رہتا تھا اور غلط سنگت میں آدھی سے زیادہ دولت اُجاڑ چکا تھا۔۔ اکرام کے سر سے سیاست دانوں کا بھی ہاتھ اُٹھ چکا تھا ب سے بیٹے اور پوتے کی خبر میڈیا میں آئی تھی۔۔ ہر کام خسارے میں جا ریا تھا۔۔ بیوی بیٹیوں کبھی کچھ سمجھا ہی نہیں تھا۔۔ ایک دن اچانک اکرام جٹ کو فالج کا اٹیک ہوا اور وہ بسترِ مرگ پر پڑگئیں۔۔ جو رہا سہا مال بیٹے نے غنیمت سمجھ کے اپنے نام کروا لیا تھا اور باپ کو سرکاری ہسپتال میں چھوڑ آیا تھا۔۔
ہم دولت کو ہی اپنا خدا سمجھ لیتے ہیں کی ہر چیز کا حل دولت سے ہی نکالا جا سکتا ہے پر اصل میں حقیقی دولت آپ کا اخلاق ہوتا ہے۔ جو مرنے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتا ہے۔۔ شانی نے سب اللہ پر چھوڑی تھی تو اللہ بہترین انتقام لینے والوں میں سے ہوتا ہے۔۔ وہ ذات اکثر وہ کور دیتی ہے جو آپ کبھی بھی نہیں کر سکتے۔۔
★★★★★★★★★★★★★★★★
دو سال ہوگئے تھے زندگی اپنی رفتار پر چل رہی تھی تیمور بیگ نے مہتاب کے ساتھ مل کے فیکٹریوں کا کام سنبھال رکھا تھا۔۔ اور بانو سے شادی کو بھی دو سال ہو گئیں تھے۔۔
احسان یوکے ہی اپنی فیملی کے ساتھ سیٹل تھا پر اب نعیمہ چچی پاکستان آگئی اپنے بیٹے تیمور کے پاس۔۔
شانی نے بی۔اے کے پیپر دینا تھے اسلئے وہ آج کل اپنی چچی کے گھر سیفٹ ہوئی تھی۔۔
”کب سے فون بج رہا ہے شانی پُتر دیکھ تو صحیح۔۔ جی دادو دیکھتی ہو۔۔ “
”ضرور صاحب کا ہو گا۔۔فون“
”اسلام علیکم۔! ۔فرمائیں “
”وعلیکم اسلام۔۔ یہ اپنا سیل کیوں آف کر رکھا ہے۔“
میرے خیال سے میں آپ سے تنگ ہو کے یہاں آئی تھی اپنے اگزیمز کی تیاری کرنے چچی کے پاس۔۔“
”ہاں پتہ ہے پر یار بہت یاد آرہی ہے تمہاری کیا کروں۔اوپر سے جب دیکھوں سیل آف ملتا ہے بھول ہی جاتی ہو اپنے مائیکے جا کر۔۔“
”صاحب آپ کو کچھ کام تھا جو فون کیا آپ نے۔۔“
”بہت ہی کوئی بد زوق بیوی ملی ہے مجھے میں رومینٹک ہونے کی بات کر رہا ہو اور تم کو اپنی پری ہے۔۔ کیسے ہو رہے ہیں اگزیمز۔۔ مہتاب نے بد مزہ ہو مروت میں پوچھ ہی لیا۔“
پتہ نہیں کون سی گھڑی تھی جب تمہاری تعلیم کا بھڑا اٹھایا تھا کے پوری ہوگی تو ہی اپنی زندگی کی شروعوات کرے گے۔۔ دو سال ہو گئیں ہیں آج کچھ یاد بھی ہے کہ نہیں۔۔ مجھے کو تو لگتا ہے تمہیں مجھ سے پیار ہی نہیں ہے۔۔“
”یااللہ ۔ کیسی باتیں کرتے ہو سرتاج جی ہم تو آپ کو دلوں جان سے پیار کرتے ہیں۔۔“
”ارے واہ۔۔ کیا میں اس پر دور دور سے”same to you“بولوں کے پاس آکے ۔
”دیکھے آپ ایسا کچھ نہیں کرے گے جب تک میرے پیپر ہے۔ آپ یہاں نہیں آئیں گے۔۔ “
زرا پردہ ہٹاؤں میں نیچے ہی گھڑا ہو چلوں شاباش آج آخری پیپر تھا تمہارا میں سب پتہ کروا کے آیا ہو اور چچی نے بھی اجازت دے دی ہے بے صبرے انسان لے جاؤں اپنی بیوی کو۔۔ سو میں لینے آگیا ہو اب میں اوپر آؤں یا تم نیچے آرہی ہو۔۔“
مجھے نہ یہ گاؤں ہی چھوڑدینا چاہئے کچھ چُھپا نہیں رہ سکتا یہاں۔ آرہی ہو دس منٹ کوئی دس منت نہیں جو کچھ سمیٹنا ہے خود ہی چچی پہنچا دے گی حویلی۔۔ “
شانی نے فون رکھا اور نیچے کو بھاگی۔۔ اور سیدہ مہتاب کے پاس جا کے روکی
” لو جناب آگئی ہو چلوں حویلی۔۔ “
اتنی جلدی بھی کیا ہے ابھی تو شام انجوئے کرتے ہے بھر جائے گے۔۔ “
مہتاب نے آنکھ ماڑ کے شانی سے کہا اور ڈرئیور سیٹ سنبھالی ۔۔
”کہاں جا رہے ہیں ہم۔“
”سپرئیز ہے یار ایسےکیسے بتا دو۔۔ “
” آپ مجھے زمینوں پر لے جارہے ہیں۔؟“
مہتاب نے بس شانی کی طرف دیکھنے پر ہی اتفاق کیا۔۔ جب پہنچے تو شانی کو اندھیر میں کچھ نظر نہ آیا ۔۔
”یہاں تو رات ہو گئی ہے اور لائٹ بھی نہیں ہے اندھر میں چوہے اور سانپوں کا شکار کرنا ہے۔۔
مہتاب نے چوٹکی بجائی ایک دم سے ہر طرف روشنی ہی روشی چھاگئی تھی گھیتوں کے بیچوں بیچ ڈئینگ ٹیبل گلاب کے پھولوں سے سجایا گیا تھا۔ مہتاب نے شانی کا ہاتھ تھام کے ٹیبل کے پاس لے کر گیا اور اس کے لئے کرسی وا کی اور بیٹھنے کا اشارہ گیا۔۔ شانی کے لئے یہ کوئی افسانوئی کہانیوں سا منظر لگ رہا تھا۔۔ یہ نہیں تھا کے یہ پہلی دفعہ کیا تھا مہتاب نے وہ ایسے سپرائز دیتا رہتا تھا۔۔ شانی نئے نئے سپرائز کی عادی ہو چکی تھی۔۔ ہو دفعہ دل سے دعا کرتی تھی اللہ اسکا اور مہتاب کا ساتھ یوہی بنائے رکھے۔۔ زندگی میں اگرہم اپنا ہر فیصلہ اللہ کے سپرد کردے تو وہ اپ کی زندگی حسین سے حسین ترین بنا دیتا ہے۔۔
The End
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...