سرخ رنگ کا بھاری بھرکم جوڑا پہنے اسٹیج پر دلہن بنی بیٹھی لڑکی اس وقت اپنی قسمت کی اس ستم ظرفی پر مایوس سی تھی۔آج اس بد نصیب کی شادی تھی وہ بھی اپنی بچپن کی محبّت کہ ساتھ۔کتنا خوش تھی وہ جب حویلی والے اس کا رشتہ طے کرنے اس کہ گھر آۓ تھے۔خوشی اس قدر تھی کہ گاؤں سے انے والی پہلی کال پر ہی شہر میں اپنی پڑھائی تک ادھوری چھوڑ کر بھاگی بھاگی گاؤں آئی تھی۔حویلی والوں نے شادی کہ لئے صرف ایک ماہ کا وقت دیا۔جیسے اس نے اور اس کی ماں نے فوری قبول کر لیا تھا مگر اچانک یہ سب ہوجانا۔اس کی ساری خوشیاں ختم کر گیا تھا۔کتنا ارمان تھا اسے اپنی شادی کا۔آج کہ دن کہ حوالہ سے انگنت خواب آنکھوں میں سجا رکھے تھے۔اور اس کی ماں!!!آہ!! کتنی چاہ تھی اسے اپنی بیٹی کو اپنے بھانجے کی دلہن بنا دیکھنے کی۔پر وہ بدنصیب تو وقت سے پہلے ہی اس بھری دنیا میں اسے اکیلا کر گئی تھی۔چاروں اور خوشی سے شہنآئیاں بج رہی تھیں۔اس کہ ساتھ اسٹیج پر بیٹھابے رحم شخص سپاٹ تاثر لئے سب مہمانوں سے مل رہا تھا جیسے وہ اس سب خوش نا ہو۔اور یہ حقیقت بھی تھی وہ تو اس پر زبردستی تھوپی جا رہی تھی جو پہلے ہی کسی اور کو تھا۔۔
________________
آج خان حویلی کے سب سے چھوٹے بیٹے شایان خانزاده کی شادی تھی جو خوب دھوم دھام سے کی جارہی تھی۔ خان حویلی کو دلہن کی طرح سجايا گیا تھا۔ چارو اور لگی لائٹنگ سے حویلی جگمگ کر رہی تھی۔یہ خانزادہ خاندان کی اس پیڑی کی آخری شادی تھی۔جیسے وہ سب یاد گار بنانا چاہتے تھے۔آج کے دن حویلی میں جشن کا سا سماں لگا ہوا تھا۔ہر طرف ہنستے مسکراتے چہرے اپنی ہی دنیا میں لگے ہوۓ تھے۔اسٹیج پر جهمگٹا لگاۓ کھڑی لڑکیاں دلہن دولہا کے ساتھ مختلف زاویوں سے سلفیز لینے میں مصروف تھیں۔حویلی کے وسیع و عریض باغ میں بنے اسٹیج پر بیٹھے دولہا دلہن اس سارے شورو غل سے حد درجہ بے زار نظر ارہے تھے۔ جن کہ لئے یہ سارا انتظام کیا گیا تھا۔انہی دونوں کو اس سجاوٹ اور رونق سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔۔۔
سرخ رنگ کے لہنگے میں سر پر گھونگٹ ڈال کر دلہن بنی بیٹھی سمبل ثاقب اس وقت سب کی توجہ کا مرکز تھی ماسواۓ دولہا کہ۔
دوسری جانب کالے رنگ کی خوبصورت سی شیروانی کہ ساتھ سر پر کلہ پہنے دراز قدامت،اور دلکش سحر انگیز شخصیت کا مالک شایان زبیر خانزادہ اپنی مردانہ وجاہت شجاعت کے ساتھ اس کہ برابر میں پورے کرو فر سے براجمان کتنی ہی لڑکیوں کا دل دھڑکا گیا تھا۔۔
سنو!!!شایان خانزادہ کالہجہ دهيمہ تھا مگر خاصہ سخت تھا۔
جی۔۔سمبل نے ہلکی سی آواز میں منمنا کر کہا۔۔
“تقریب ختم ہوتے ہی فوراً کمرے میں جاکر اپنی تیاری کر لینا ہمیں کل صبح ہی پانچ بجے شہر کے لئے نكلنا ہے۔۔”تنے ہوۓ تاثرات کے ساتھ کہا۔
“بہتر!!!”فلحال اس میں اتنی بھی ہمّت نہیں تھی کہ یہی سوال پوچھ لیتی کہ ابھی کیا ضرورت ہے جانے کی ابھی تو ولیمہ میں بھی دو دن باقی ہیں۔۔
“اور ہاں!!! ام خانم (خان بیگم )پوچھیں تو کہ دینا۔کہ تمہارے امتحان ہونے والے ہیں۔مزید یونیورسٹی سے چھٹياں نہیں کر سکتیں ۔”سامنے دیکھتے ہوۓ ایک اور حکم نامہ جاری ہوا تھا۔
“پر میں نے تو پڑھائی چھوڑ۔۔۔”ابھی اس کی بات ادھوری تھی۔
“زیادہ دماغ چلانے کی ضرورت نہیں ہے جتنا کہا ہے بس اتنا کرو۔۔”اس کا آگے سیے بولنا اسے ہر گز پسند نہیں آیا تھا۔۔
“پر یہ بات تو حویلی میں سب جانتے ہیں کہ میں پڑھائی چھوڑ چکی ہوں۔پھر سب سوال کریں گے۔۔”ہمّت کر کہ آخر بول ہی دیا تھا۔جس پر مقابل کہ ماتھے پر بل پڑ گئے۔۔
حویلی والے تو جب بھی سوال کریں گے جب نئی نویلی دلہن پہلے ہی دن حویلی میں اکیلی گھوم رہی ہوگی۔کیوں کہ میں تو کل صبح ہی شہر چلا جاؤں گا پھر رہنا یہاں شوق سے اکیلی۔۔”تنفر سے بول کر سر جھٹکا۔
تو مجھ سے شادی کیوں کی جب یہی سب کرنا تھا۔۔”لہجہ گلو گیر سا تھا۔۔
اس کہ چہرہ پر عجیب مسکراہٹ تھی۔”جلد پتہ چل جائے گا پیاری ۔۔”اس کہ کان میں ذرا سا جھک کر سرگوشی کی۔اپنے ہاتھ پر اسکی سخت گرفت محسوس کر سمبل کہ وجود میں کرنٹ سا ڈور گیا۔تو اس نے بھی خاموشی میں عافيت جانی۔اتنا تو وہ سمجھ ہی گئی تھی کہ اس شخص سے بحث بیکار ہے۔۔
________________
“ماشاءالله!!ماشاءالله!!
چشمے بدور!!چاند کا ٹکڑا لگ رہی ہے۔۔ خان بیگم نے کتنی حسین بہو ڈھونڈی ہے اپنے شہزادے کہ لئے ۔”اسٹیج پر آتی ایک خاتون نے ذرا سا گھونگٹ اٹھا کر اس کی بلائیں لیتے تعریف انداز میں کہا۔جس پر وہ دھیرے سے مسکرا دیں۔
“چاند کا ٹکڑا!ہنہ!!اس بیوقوف کو دیکھنے کے بعد چاند میں لگا داغ کہنا زیادہ بہتر رہے گا۔”شایان نے ان کی تعریف پر ناگواری سے ہنکار بھرتے طنزیہ لہجے میں آہستہ سی آواز میں بڑبڑآیا۔۔۔
“اس بات کا مطلب!!”خاتون کہ اسٹیج سے نیچے اترتے ہی سمبل نے ناگواری سے پوچھا۔۔
“اپنا منہ بند رکھو۔جتنی بولنے کی اجازت دے دی ہے۔ بس اتنی ہی بہت ہے۔میرے ساتھ آگے سے زبان چلانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔سمجھیں!!”غصّہ سے سر جھٹک کر اسے جھاڑ پلاتا اسٹیج سے قدم پھلانگ کر اترتا اپنی یونیورسٹی فیلو کی جانب بڑھ گیا جو ہاتھ میں فلاور بکے پکڑے شاید ابھی محفل کا حصہ بنی تھی۔۔۔
پیچھے دلہن بنی بیٹھی سمبل اس بے اعتنائی پر آنکھوں میں آئی نمی چھپا نہیں سکی تھی۔۔
____________________
تقریب رات دیر تک چلتی رہی تھی۔اس وقت سب تھک ہار کر اپنے اپنے کمروں میں آرام کرنے کی غرض سے بڑھ گئے تھے۔شایان ان سب سے پیچھا چھوڑاتا قریبً دو بجے اپنے کمرے میں داخل ہوا تھا جہاں سمبل اس کہ حکم کی تکمیل میں شہر روانگی کے لئے اپنی اور اس کی پیکنگ کر چکی تھی۔
“پیکنگ کر لی۔”ڈریسنگ روم سے اسے سادہ سے سوٹ میں باہر اتے دیکھ سوال کیا۔۔
“جی کرلی۔۔”نظریں پھیر کر مختصر سا جواب دیا۔
خود کو نظر انداز کرنا شایان کو خاصہ ناگوار گزرا تھا۔”پتہ نہیں خود کو کیا سمجھتی تھی یہ جاہل لڑکی۔۔”ناگواری سے سوچ کر ایک نظر اس کہ سراپے پر ڈال کر سر جھٹکا۔۔
“اپنے تمام ضروری کاغذات اور سامان رکھ لینا۔کیوں کہ میں تمھیں روز روز یہاں لیکر نہیں اؤنگا۔وہاں جا کر گھر میں بیٹھنے کی ضرورت نہیں اپنی تعلیم مکمل کرنا۔۔”سمبل جو ڈریسنگ ٹیبل کے اگے کھڑی اپنے بال سنوار رہی تھی شایان کہ لفظوں پر اس کہ ہاتھ ٹھٹھک کر رک گئے تھے۔
“میں آپ کو پہلے ہی بتا چکی ہوں۔۔اور اب پھر بتا رہی ہوں میں اپنی پڑھائی چھوڑ چکی ہوں۔”سمبل نے بڑے ضبط سے کہا تھا۔جو آج کہ دن وہ بہت مشکل سے کی ہوئی تھی۔۔
“اپنا دماغ ذرا کم چلاؤ جتنا کہا ہے اتنا کرو۔۔لائٹ بند کردینا کمرے کی۔جلدی سے سو جاؤ صبح جلدی نكلنا ہے شہر کہ لئے۔”شایان ڈریسنگ روم سے نائٹ ڈریس تبدیل کرتا اسے حکم سناکر بیڈ پر لیٹ گیا۔
جبکہ سمبل خاموشی سے شیشے سے نظر اتے اس کہ عکس کو دیکھ رہی تھی جو نا جانے کیا چاہ رہا تھا۔۔۔
___________________
اس وقت خان حویلی میں طلوع آفتاب کا وقت تھا۔حویلی کے رہائشی تو اپنی عادت کہ پیش نظر صبح صبح جاگنے کے عادی تھے جبکہ کافی مہمان اس وقت سو رہے تھے۔زبیر خانزادہ کے تین بیٹے اسفند یارخانزادہ ،محسن خانزادہ تیسرے شایان زبیر خانزادہ جبکہ ایک بیٹی اس حویلی کا حصّہ تھے۔زبیر صاحب کا چند قبل پہلے ہی انتقال ہو چکا تھا۔دونوں بڑے بیٹے شادی کے بعد اپنے بیوی بچوں سمیت اسی گھر میں رہتے تھے۔سب سے چھوٹی بیٹی نازلین کی شادی انٹر ہونے کے فورا بعد ہی سال پہلے کر دی گئی تھی۔شایان کا بھی یہ یونیورسٹی کا آخری سال تھا پر اپنی ماں کے بے حد اسرار پر اسے اس شادی کے لئے زبردستی حامی بھرنی ہی پڑی تھی۔جو شروع سے اپنی بہن کی بیٹی کے صدقے واری جاتی تھیں۔۔
بلیک پینٹ شرٹ کہ ساتھ ڈینیم کی جیکٹ پہنے، بلیک براؤن شیڈڈ سلکی بالوں کو بیچ کی مانگ نکال کر سیٹ کئے کریسٹل گرے آنکھوں میں محبّت لئے خان بیگم (اپنی ماں) کے برابر میں بیٹھا شایان خانزاده ان سے محبتیں وصول کر رہا تھا ۔
“ارے بیٹا اتنی بھی کیا جلدی ہے جانے کی ابھی تو ولیمہ بھی نہیں ہوا۔پوری حویلی مہمانوں سے بھری پڑی ہے ہم کیا جواب دیں گئے سب کو۔۔”خان بیگم نے اپنے ضدی طبیعت کے مالک بیٹے کو دیکھ کر پریشانی کہا۔۔
پلیز ام جان آپ سمبھال لیجئے گا نا سب کو ۔۔اور جواب دینے کی کیا ضرورت آگئی ہے ولیمہ کی صبح سے آجاؤ گا میں۔”ان کی بات پر شایان کہ ماتھے پر بل واضح تھے۔
“پر بیٹا کچھ دنیا کے دستور بھی تو ہیں۔رسمِ دنیا بھی تو کسی شے کا نام ہوتا ہے۔کون بھلا نئی نویلی دلہن کو اس طرح شادی والے گھر سے لیجاتا ہے۔۔”ام جان نے اسے سمجھانے کی کوشش کی جس کہ آگے یہ رسم و رواج سب فضول کی باتیں تھیں۔۔
“مجھے کوئی جلدی نہیں ہے ماں جان!!آپ کی بہو کی یونیورسٹی کھلنے والی ہے اور کچھ ہی دنوں میں اس کہ امتحان ہیں تو اسی کہ کہنے پر اسے بھی ساتھ لے جا رہا ہوں۔آپ چاہیں تو پوچھ لیں اس سے۔۔”ایک شرارتی نظر سادے سے لان کہ پرنٹڈ سوٹ میں ملبوس خود کو چادر میں چھپاۓ خاموش کھڑی سمبل کو پر ڈال کر اسے بھی اپنے ساتھ کھینچا۔۔
“سمبل بیٹا کیا یہ سچ کہ رہا ہے۔آپ نے تو پڑھائی چھوڑ نہیں دی تھی۔۔”اپنی سوچوں میں گم کھڑی سمبل چونک کر ان کی جانب متوجہ ہوئی۔
“جی۔۔جی جی ۔۔۔میرا مطلب ہے نہیں نہیں۔۔۔میں اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہوں۔”پہلے تو بے ساختہ حامی بھر دی پر خود پر شایان کی گھورتی نظروں کی تپش سے جلدی سے انکار کرتے آہستہ سی آواز میں اس کا پڑھایا ہوا سبق دہرآیا۔۔۔
“اچھا!!!چلو بیٹا جیسے تم لوگوں کی مرضی۔زندگی تمھیں گزرنی ہے جیسے چاہے فیصلہ کرو۔” سمبل کی تصدیق کرنے پر وہ خاموش ہوتیں فیصلہ ان پر چھوڑ گئیں۔۔
“چلیں پھر اجازت دیجئے۔۔”شایان نے جلدی سے کھڑے ہو کر ان کا پیار لیا۔
شایان کا اپنے پیچھے انے کا اشارہ دیکھ سمبل بھی خان بیگم سے ملنے کے لئے آگے بڑھی۔ اپنی لاڈلی بھانجی کو اس حویلی کا حصّہ بنا کر جتنی خوش اور مطمئین وہ تھیں اتنا شاید ہی کوئی تھا۔دعاؤں کے ساۓ میں انہیں رخصت کرتیں سمبل کو کچھ ضروری ہدایات بھی کر رہی تھیں جو وہ بہت خاموشی سے سن رہی تھی۔۔۔
شایان کے ہارن کرنے پر وہ حویلی کی دهلیز عبور کرتی شایان کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھتی شہر کے لئے نکل پڑی۔۔دونوں رفیق ہی اپنی اپنی جگہ خاموش تھے۔جیسے کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔سمبل نے ایک نظر ڈرائیونگ کرتے شایان کو دیکھ اپنا سر ونڈو گلاس سے ٹکا لیا۔۔
__________________
ہوسٹل کے سنگل بیڈ پر سوئی جاگی سی کفیت میں مسلسل موبائل کی رنگ ٹون کی بجتی آواز نیند میں خلل ڈالتی دماغ پر ہتھوڑے کی طرح بج رہی تھی۔تھوڑی سی آنکھیں کھول کر ہاتھ مار کر سائیڈ ٹیبل پر پڑا موبائل اٹھا کر کان سے لگایا۔اگر وہ سونے میں شاہ تھی تو شاید مقابل ہستی بھی سامنے والے کی نیند برباد کرنے میں ماہر تھی ۔
ہیلو!!!نیند سے بوجھل آواز میں ادھ کھلی آنکھوں کو مسل کر کہا۔
“کیا!!!سچ میں۔۔”مقابل کی بات سن اس کی نیند بھک سے آڑی تھی۔خوشی سی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی تھی۔۔
“اففف اففف امو(ماں)آپ سچ کہ رہی ہیں۔ ۔۔”دوسری جانب سے دی جانے والی خبر ایسی تھی جس کا وہ کئی سالوں سے انتظار کر رہی تھی۔۔۔
“جی جی!!آپ ڈرائیور کو بھیج دیجئے گا میں کل ہی آجاؤں گی۔آپ نہیں جانتی میں کتنی خوش ہوں۔۔”اس دنیا میں اگر کوئی اس کا راز دار تھا تو وہ تھی اس کی ماں۔۔
“اوکے!!!آپ اپنا خیال رکھیے گا اللّه حافظ!!!اختتامی الفاظ بول کر موبائل سائیڈ پر پھینک کر ایک جھٹکے سے بستر پر گری تھی۔جھیل جیسی بڑی بڑی آنکھوں میں خوشی ہی دیدنی تھی۔۔
کھڑے کھڑے نازک سے نین نقش کی مالک،اپنے لمبے سیدھے بالوں کو بیڈ پر پھیلاۓ سرخ و سفید رنگت میں کھڑکی سے آتی دھوپ کی تپش میں ابھرتی لالی پر گالوں پر ہاتھ رکھیں بڑی بڑی ڈراک براؤن آنکھوں کو پوری کھولے چھت کو گھور رہی تھی۔
کسی خیال کہ تحت آنکھیں بند کیں تو چھم سے ایک خوبصورت کرسٹل گرے آنکھوں والا حسین شخص اس کہ ذہن کے پردوں پر لہرآیا تھا۔جس کا نام بچپن سے اس کہ نام کہ ساتھ جڑا ہواتھا۔اب وہ اس کا ہونے بھی جا رہا تھا۔کیا دعآئیں ایسے بھی قبول ہوتی ہیں سمبل کو اپنی قسمت پر یقین ہی نہیں آرہا تھا۔۔
_________________
یونیورسٹی کی آخری کلاس ختم ہوتے ہی ماہین شایان خانزادہ کی تلاش میں بھاگتی بھاگتی کینٹین میں پہنچی تھی۔ اور توقع کہ عین مطابق وہ وہیں موجود بھی تھا۔جہاں وہ لیکچرز سے فری ہو نے کے بعد اکثر ہی پایا جاتا تھا۔۔
“تم یہاں آکر بیٹھ گئے ہو میں تمھیں کب سے ڈھونڈ رہی تھی۔۔”ایک نظر بلیو جینز پر اف وائٹ ٹی شرٹ پہنے آنکھوں پر سن گلاسس چڑھاۓ بیٹھے شایان کو دیکھ بیگ ایک طرف ڈال کر شکوہ کن انداز میں کہا۔۔۔
“ڈھونڈ کیوں رہی تھیں سیدھی یہیں آجاتیں۔۔”شایان نے نظریں اس کہ حسین چہرے پر ٹکا کر ایک آنکھ کا ایک کونا بلنک کر کہ کہا۔۔
بلیک جینز کے ساتھ بلیک ہی شرٹ پہن رکھی تھی۔ اپر کا ایک مزید بٹن کھول کر اس میں سن گلاسس ٹکاۓ ہوۓ تھے۔ ہلکے گھنگھریالے لانبے بال پشت پر کھلے چھوڑ رکھے تھے۔اس کا دعوت دیتا حسین سراپا سب کی توجہ کا مرکز تھا۔بلاشبہ وہ یونیورسٹی کی سب سے حسین لڑکیوں میں سے ایک تھی۔جو صرف شایان خانزادہ کی گر ویدہ تھی۔۔
“بس تم نظر نہیں آۓ تو دل کو پریشانی سی ہونے لگتی ہے پتہ تو ہے تمھیں۔۔”ماہین نے نزاکت سے ہوا سے منہ پر آتی بالوں کی لٹ کوکان کہ پیچھے اڑستے معصومیت سے منہ بسورا۔۔
شایان اس کی اس ادا پر کھل کر مسکرایا تھا۔
“تو پھر اس دل کو قرار کیسے آئیگا ملکہ عالیہ۔۔”شایان نے اس کا نرم ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ کی گرفت میں لیتے شرارتً کہا۔۔
“تمہارے دیدار سے۔”ماہین کا انداز خاصہ بولڈ تھا جو اس کی شخصیت کا حصہ تھا۔اور یہی وجہ تھی کہ شایان زبیر خانزادہ کو وہ لڑکی پہلی ہی نظر میں بھا گئی تھی۔۔
“ہممم تو ایسی بات ہے محترمہ تو ذرا اس دل کو سمجھاؤ کہ ضروری تو نہیں کہ میرا دیدار ہرروز ان آنکھوں کو ميسر آجاۓ۔۔”کرسٹل گرے آنکھوں میں شرارت لئے ماہین کی جانب ذرا جھک کر دهیمے سرو میں بولتا وہ اسے قہقاہ لگانے پر مجبور کر گیا تھا۔۔
“ویری فنی!!! اچھا سب چھوڑو بہت بھوک لگی کچھ کھانے کے لئے تو منگواؤ۔۔”لپ گلوس سے مزین ہونٹوں کو باہم اپس میں ملا کر نزاکت سے کہا تھا وہ بھی مسکرا کر کھڑا ہوگیا۔۔
اپنے ایک حکم پر شایان خانزادہ کی یہ فرمابرداری دیکھ ماہین نے تفخر سے کینٹین میں نظریں گھومائی تھیں۔کتنی ہی نظریں تھیں جو انہی دونوں پر ٹکی ہوئی تھیں۔ماہین ان سب پر ایک نظر گھما کر ایک ادا سے بالوں کو جھٹکا دیتی مغرورانہ انداز میں مزید اکڑ کر بیٹھ گئی تھی۔۔
___________________
خان بیگم کہ کمرے میں اس وقت شایان کہ علاوہ اسفند یار بھی موجود تھے”یہ کیا کہ رہی ہیں آپ ماں جان؟؟”خان بیگم کا فیصلہ سن شایان کہ ماتھے پر بل پڑ گئے تھے۔۔
کیا مطلب ہے شایان خانزادہ آپ کا۔”آغا بھائی(اسفند یار)نے شایان کہ بگڑے تاثر دیکھ نا گواری سے پوچھا۔۔
“آغا بھائی میں سمبل سے شادی نہیں کر سکتا۔”شایان نے اپنے غصّہ کی وجہ بتائی۔
“کیوں نہیں کر سکتے کیا خرابی ہے اس بچی میں۔”خان بیگم نے شایان کی ناگواری پر سوال کیا۔
“کوئی خرابی نہیں سمبل میں۔۔بس میں اسے پسند نہیں کرتا۔میں نہیں کر سکتا اس لڑکی سے شادی۔”خود کو ان سب کہ بیچ مجرم سا تصور کر جھنجھلا سا گیا تھا۔۔
“پسند نہیں کرتا سے کیا مراد ہے تمہاری؟؟تم دونوں کی نسبت تو بچپن سے طے ہے۔”خان بیگم کو اس کی یہ نفی ایک آنکھ نہیں بھائی تھی۔
“وہ بچپن تھا امو جان۔اب ہم بڑے ہو گئے ہیں۔بس مجھے نہیں پسند وہ۔”شایان نے غصّہ سے سرخ پڑتے چہرے سے کہا۔۔
“آپ اب اتنے بڑے ہو گئے ہیں۔کہ بڑوں کہ بناۓ ہوۓ رشتوں سے انکار کریں گے۔”آغا بھائی کو اس کا یہ روایہ بہت برا لگاتھا۔۔۔
“نہیں بھائی بس مجھے نہیں پسند سمبل!!!اور مجھے یقین ہے وہ بھی اس رشتہ پر رضا مند نہیں ہوگی۔”شایان نے قیاسہ آرائی کی۔۔
“آپ کو کس نے کہا کہ وہ آپ کی طرح اپنے ماں باپ کی نافرمان اولاد ہے۔وہ تو بہت پیاری بچی ہے اسے اس رشتہ سے کوئی اعتراض نہیں۔”خان بیگم نے اسے گھورا جو نظریں چراتا پہلو بدل کر رہ گیا۔۔
“شایان ہمیں صاف صاف بتاؤ آخر اس انکار کی وجہ کیا ہے۔کہیں تم کسی اور لڑکی میں تو دلچسپی نہیں رکھتے۔”آغابھائی نے سنجیدگی سے کڑے تیوروں سے پوچھا۔۔
“نہیں آغا کیسی باتیں کر رہیں ہیں آپ۔۔”شایان نے بھوکلا کر ان کی نفی کی۔وہ فلحال ابھی انہیں اپنے اور ماہین کے بارے میں نہیں بتا سکتا تھا۔۔
“تو پھر اس انکار کی وجہ۔۔”آئبرو اٹھا کر سوال کیا۔۔
“بس وہ میرے كيلبر کی نہیں ہے آغا جان وہ بہت دبو سی ڈری سہمی سی رہنے والی لڑکی کی۔مجھے پراعتماد اور نڈر لڑکیاں پسند ہیں۔”اب کچھ تو جواز پیش کرنا ہی تھا۔تو اس نے اب اس کی شخصیت کو نشانہ بنایا۔۔
“بس یہی بات ہے۔۔اور کوئی بات تو نہیں جس کی تم ہم سے پردہ داری کر رہے ہو۔”آغا جان نے تفشیشی انداز میں جانچتی نظروں سے استفسار کیا۔۔
“جی جی بس یہی بات ہے۔”بات بنتی دیکھ جلدی سے حامی بھری۔دونوں بھائیوں کی باتوں کہ درمیاں خان بیگم خاموشی سے انہیں بحث کرتا دیکھ رہی تھیں۔
“ام خانم آپ خالہ سے کہیں شادی کی تیاری کرلیں۔۔ہم اگلے ماہ بارات لیکر آ رہے ہیں۔آپ کل سمبل کو اس نالائق کے نام کی انگھوٹی پہنا آئیے گا ۔”آغا صاحب کا فیصلہ سن شایان کا منہ حیرت کی زیادتی سے کچھ زیادہ ہی کھل گیا تھا۔۔۔
“یہ کیا۔۔۔۔”
“بس خاموش ہوجاؤ۔تمہارے پاس انکار کی کوئی مثبت وجہ موجود نہیں ہے تمہاری اس نادانی کو ہم سنجیدگی سے لیکر اپنے خاندان کی بچی کی زندگی نہیں برباد کر سکتے۔جو تمہارے بچپن کی منگ بھی ہے۔۔”انہوں نے کرخت لہجے میں فیصلہ سنایا۔جبکہ خان بیگم کہ چہرے پر مسکراہٹ کھل گئی تھی۔اپنے والد کی وفات کہ بعد اسفند یار نے اس حویلی کی ذمہ داریاوں کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا تھا ۔۔
“لیکن آغا جان آپ بات سمجھنے کی کوشش تو کریں۔۔”شایان نے ان کہ قدموں میں بیٹھ کر التجا کی۔۔
“شایان خانزادہ ہو تم اپنے نام مقام و مرتبہ کو جتنی جلدی پہچان لو اتنا تمہارے لئے بہتر ہے۔وہ لڑکی اتنے سالوں سے صرف تمہارے نام پر بیٹھی ہوئی ہے۔ایک پٹھان کبھی اپنی زبان سے نہیں پھرتا۔۔۔آغاجان نے اسے کاندھوں سے پکڑ کر اپنے مقابل کھڑے کرتے سخت لہجے میں احساس دلايا۔
شایان اپنے بڑے بھائی کہ فیصلہ پر احترامہً خاموش ہوتا لب بھینچ گیا۔
“اب میں تمہاری جانب سے کوئی بہانہ نا سنو۔اب یہ بچکانہ حرکتیں کرنا چھوڑ دو۔”وہ اسکا کندھا تھپتھپاتے کمرے سے باہر نکل گئے۔جبکہ وہ اپنا سا منہ لیکر خان بیگم کہ سرہانے بیٹھ گیا جو اسے اپنی بھانجی کی خوبياں گنوا رہی تھیں جن میں اسے ذرا بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔اسے فکر تھی تو بس اپنی محبّت کی ماہین کی۔۔
______________
ہلکے گلابی رنگ کا سادہ سا سلور کڑھائی والا شیفون کا سوٹ پہنے بیٹھی سمبل خوشی سے دمکتا پر نور چہرہ لئے اپنی خالہ کہ ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔جو آج اسے شایان خانزادہ کہ نام کی انگھوٹی پہنانے کہ ساتھ ساتھ اگلے ماہ کی شادی کی تاریخ بھی لینے آئی تھیں۔۔
اس وقت حویلی کہ بہت سے لوگ سمبل کہ گاؤں میں بنے اس چھوٹے سے گھر میں موجود تھے۔جو سمبل اور اس کی ماں کا کل اثاثہ تھا۔سامنے پڑی ٹیبل پر انگنت میٹھائیوں اور فروٹ کہ ٹوکرے پڑے تھے جو وہ صرف شگن کہ طور پر لے آئی تھیں۔
“بس سمبل اب بس تو جلدی سے خان حویلی انے کی تیاری پکڑ لے۔اب بس میں جلد از جلد تجھے اپنے گھر کی بہو بنانا چاہتی ہوں۔۔”اس کو اپنے بازوں کہ گھیرے میں لئے بیٹھی خان بیگم نے اس کا ماتھا چوم کر کہا۔
“ارے آپا جان یہ تو ہے ہی آپ کی۔فکر کس بات کی کرتی ہیں جب چاہے لے جایں۔”سمبل کی ماں نے ان کہ برابر میں بیٹھ کر کہا۔تو سمبل دہیمہ سا مسکرا دی۔۔۔
“بس اللّه پاک وہ دن جلدی لے آۓ جب ہماری بیٹی مستقل طور پر ہمارے کا حصّہ بن کر آۓ گی۔ ہمارے شایان کی بیوی بن کر۔”خان بیگم نے اس کی جھیل سی آنکھیں اور جھکی پلکوں کو دیکھ دل سے دعا کی جس پر سب نے ہی یک زبان امین بولا۔۔
____________________
“یار ماہی میری بات تو سنو!!!”آنکھوں میں حد درجہ پریشانی لئے شایان آج صبح سے ماہین کو منانے میں لگا ہوا تھا جو اس کی منگنی کی خبر سن کر خفا خفا سی اپنی ناراضگی جتاتی اس سے بات تک نہیں کر رہی تھی۔۔
“نہیں سننی ان مجھے مزید تمہاری کوئی بھی بات!!تم جاؤ اور اس پینڈو جاہل سے جا کر شادی کرو۔”ماہین نے ایک جھٹکے سے گھوم کر پھاڑ کھاتے لہجے میں کہا تھا۔۔
ارد گرد سے گزرتے کتنے کی سٹوڈنٹ نے ماہین کی اس قدر اونچی آواز پر انہیں موڑ کر دیکھا تھا۔جیسے دیکھ شایان کہ ماتھے پر ناگواری سے بل پڑ گئے۔۔
“آواز نچی رکھو اپنی۔تمیز کہ دائرے میں رہ کر بات کرو۔جب میں نے ایک بات کہ دی۔کہ یہ سب میری مرضی کہ خلاف ہو رہا تھا کس بات کا اتنا اٹیٹوڈ دکھا رہی ہو۔۔”اس کی رگوں میں بھی خانوں کا خون ڈور رہا تھا وہ بھلا کیسے کسی عورت کی اتنی تیز آواز برداشت کر سکتا تھا۔۔
اس کا غصّہ سے سرخ پڑتا چہرہ دیکھ ماہین بھی ذرا دهیمی پڑتی اس کہ اشارے پر اس کہ پیچھے بڑی۔۔
“اب بولو آخر مسلہ کیا ہے۔۔”ڈرائیونگ سیٹ سمبھال کر رخ موڑ کر کھڑکی سے باہر دیکھتی ماہی کو دیکھ سنجیدگی سے سوال کیا۔۔
“تم۔۔تم ہو مسئلہ اور تمہاری یہ زبردستی کی شادی ہے مسئلہ اور وہ انپڑ جاہل گوار لڑکی ہے مسئلہ جو بلاوجہ ہمارے بیچ انے کی کوشش کر رہی ہے۔۔”ماہین نے ایک دم اس کہ قریب چہرہ گھوما کر ٹراخ کر کہا۔جبکہ وہ اس کہ لہجے پر صرف صبر کا گھونٹ پی کر رہ گیا۔۔
“وہ ہمارے بیچ نہیں آرہی۔اور آۓ گی ہی کیوں؟میں اسے ہمارے بیچ لیکر ہی نہیں آرہا تو بتاؤ وہ کیسے ہمارے بیچ آسکتی ہے۔۔”شایان نے نرمی سے متوازن لہجے میں کہا۔جو طنزیہ مسکرا کر رہ گئی تھی۔۔۔
“جھوٹ سب جھوٹ تو پھر شادی کیوں کر رہے ہو۔”لہجہ خاصہ گستاخ تھا۔۔۔
“مجبوری ہے میری یار۔۔”اب وہ جھنجھلا ہی تو گیا تھا۔۔
“اوہ پلیز یہ پاکستانی لوور کلاس لڑکیوں کی طرح بہانہ نہیں بناؤ۔مجبوری ہے!!!”وہ ناگواری سے حقآرت زدہ لہجے میں بولی تو اس کہ ماتھے کہ بلوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔۔
“تو کیا چاہتی ہو پھر۔۔”سوالیہ انداز میں پوچھا۔۔
“اسے چھوڑ دو۔۔۔”
“مجبوری ہے۔نہیں چھوڑ سکتا ۔۔”جواب برجستہ تھا۔۔
“تو مجھے چھوڑ دو۔۔”
” ناممکن۔”اٹل لہجہ تھا جس پر وہ غصّہ سے ایک گہرا سانس بھر کر رہ گئی۔۔
“نا تم مجھے چھوڑ نے کہ لئے تیار ہو نا اسے۔۔تو پھر ایک ڈیل کرتے ہیں۔۔”ماہین کہ شاطر دماغ میں یکایک ایک آئیڈیا آیا تھا۔۔
“کیسی ڈیل۔۔”شایان نے ناسمجھی سے پوچھا۔۔ماہین کہ چہرے پر اب شیطانی مسکراہٹ رقصاں تھی۔۔
_______________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...