(Last Updated On: )
آج سنڈے تھا ماما کا فون آیا تھا کہ آج وہ لوگ آرہے ہیں شام تک انہوں نے پہنچ جانا تھا پر ٹرین لیٹ ہونے کی وجہ سے وہ رات میں پہنچے تھے مرال نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ اب اسے گائیڈ کرنے والی دونوں خواتین آگئی تھیں رات کو کھانا کھانے کے بعد سب بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ بڑی ماما بولیں
” واہ بھئی مرال نے تو بہت اچھے طریقے سے گھر سنبھال لیا ہے ماشآاللٰہ”
” ہممم میں بھی یہی دیکھ رہی ہوں” ماما نے بھی تائید کی وہ مسکرائی
” آخر بہو کس کی ہے۔۔۔۔۔ بس اب دیر نہیں کرتے جلد سے جلد میں اپنی بہو کو اپنے گھر لے جانا چاہتی ہوں کیوں کیا کہتے ہیں آپ۔۔۔۔۔” انہوں نے ابتہاج صاحب سے پوچھا
” ہمممم ٹھیک کہہ رہی ہو تم کیا کہتے ہو وہاج اسمہ” انہوں نے دونوں سے پوچھا
” ہم کیا کہہ سکتے ہیں بھائی صاحب آپ کی امانت ہے جب چاہیں لے جائیں” سب بہت اکسائیٹڈ ہو رہے تھے نشاء ارسہ اعر سارہ نے تو تنگ کرنا شروع کرفیا تھا مرال کو جبران کے ماتھے پہ شکنوں کا جال بچھ گیا البتہ مرال سب کے سامنے جھینپ گئی اس نے مرال کا جھینپا جھینپا روپ ناگواری سے دیکھا اسے غصہ آرہا تھا اس کی شکل دیکھ دیکھ کے سمپل سے پنک کلر کے کاٹن کے سوٹ میں سر پہ دپٹہ جمائے وہ ویسے تو وہ بہت پیاری لگ رہی تھی پر جبران کو وہ زہر لگ رہی تھی وہ اٹھ کے وہاں سے چلا گیا
وہ بھی اٹھ کے کچن میں آ گئی چہرہ سرخ ہو رہا تھا وہ مسکرا رہی تھی پتا نہیں کیوں دل اتنا خوش تھا کہ حد نہیں اتنے میں کسی نے غصے سے اس کی کلائی کھینچ کے اس کا رخ اپنی طرف کیا جبران تھا جس کا چہرہ غصے سے لال سرخ ہو رہا تھا
” کیا سمجھتی ہو تم ہاں۔۔۔۔۔ میں تم جیسی دبو اور گھریلو ٹائپ لڑکی سے شادی کروں گا مائے فٹ میرا لیول دیکھو اور اپنے آپ کو دیکھو تم جیسی لڑکی کو کبھی میں اپنی زندگی میں شامل نہیں کروں گا سنا تم نے کبھی نہیں” وہ اس کی کلائی مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا اسے تکلیف ہو رہی تھی
” میری ہاتھ چھوڑیں جبران” اس نے دیکھا وہ تکلیف سے رو رہی تھی اس نے جھٹکے سے کلائی چھوڑی
” تم میرا خواب کبھی بھی نہیں تھیں تم میرا خواب ہو بھی نہیں سکتیں سمجھ آئی میرے خواب میری ترجیحات تم سے بہت الگ ہیں سو بہتر ہو گا تم یہ معاملہ خود ہی ختم کروادو ورنہ۔۔۔۔۔۔” اس نے انگلی اٹھا کے اسے وارن کیا وہ بے یقینی سے اس کا یہ روپ دیکھ رہی تھی وہ جیسے آیا تھا ویسے ہی واپس چلا گیا وہ وہیں بیٹھ کے بے آواز روتی رہی
——–
آج جبران کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو بڑی ماما نے آفس سے چھٹی کرادی تھی ارسہ اور سارہ دونوں کالج گئی ہوئی تھیں اور نشاء یونی سو وہی گھر پہ تھی بڑی ماما نے اسے جبران کی شرٹس پریس کرنے کا کہا تھا وہ اپنے کام میں مگن تھی کہ جبران اپنے روم سے باہر نکلا اور اپنی شرٹ اس کے ہاتھ میں دیکھ کے تیزی سے آگے بڑھا اور شرٹ اس کے ہاتھ سے لی
” ہاؤ ڈئیر یو۔۔۔۔۔ ہمت کیسے ہوئی تمہاری میرے کپڑوں کو ہاتھ لگانے کی کس کی اجازت سے تم نے میری چیز کو ہاتھ لگایا” وہ اس کا بازو پکڑ کے بولا
” جبران کیوں غصہ ہو رہے ہو ہٹو۔۔۔۔۔” انہوں نے اس کو پیچھے کیا ” میں نے کہا تھا اسے کہ تمہاری شرٹس پریس کردے”
” کیوں۔۔۔۔۔ اگر میرے کپڑے بھاری ہیں تو کل سے میں لانڈری میں دے دوں گا اپنے کپڑے”
” حد ہو گئی جبران کیسی باتیں کر رہے ہو تم۔۔۔۔۔ کل کو اس نے ہی یہ سب کرنا ہے”
” نہیں ماما میں آپ کو آج صاف لفظوں میں بتا رہا ہوں کہ میں اس رشتے کو نہیں مانتا۔۔۔۔۔” اس نے روتی ہوئی مرال کی طرف دیکھ کے کہا ” آپ اسے۔۔۔۔۔ اسے میری بیوی بنانا چاہتی ہیں کہاں سے آپ کو ہہ میرے قابل لگتی ہے”
” جبران کیا کہہ رہے ہو ہوش میں تو ہو اسمہ سن لے گی کتنا برا لگے گا اسے اور تمہارا یہ رشتہ بچپن سے طے ہے جبران اب نا کی کوئی گنجائش نہیں بچتی”
” ماما میں۔۔۔۔۔”
“بس جبران اگر تم نے منع کیا نا اس رشتے سے تو تمہیں میری لاش سے گزرنا ہوگا” کہہ کر انہوں نے بات ختم کردی وہ خاموش ہو گیا
” یہ زیادتی ہے ماما”
” یہ زیادتی نہیں اسی میں تمہاری بھلائی ہے بہت جلد تمہیں سمجھ آجائے گی کہ تم غلطی پہ ہو۔۔۔۔۔” مرال برستی آنکھوں سےخاموش کھڑی دونوں ماں بیٹے کو سن رہی تھی
” غلطی؟؟؟ نہیں ماما۔۔۔۔۔” اس نے رخ پھیر لیا
” کیا برائی ہے میری بچی میں جبران کیوں اسے سزا دے رہے ہو بتاؤ”
” کیا اتنا کافی نہیں کہ یہ میرا آئیڈیل نہیں ہے۔۔۔۔۔ میری خواہش نہیں ہے”
” آئیڈیل کچھ نہیں ہوتا جبران جانتی ہوں تمہارے آئیڈیل کو میں۔۔۔۔۔ میرے بچے آئیڈیل کو اپنی خواہش نہیں بناتے جبران”
” میں کچھ نہیں سننا چاہتا ماما بس اس کو بولیں یہ یہاں سے جائے مجھے اس کا وجود اپنے آس پاس برداشت نہیں ہوتا” اور کہہ کر کمرے میں چلا گیا بڑی ماما نے مرال کو دیکھا جو اب پلٹنے لگی تھی انہوں نے اس روکا اور اسے اپنے گلے لگا لیا مرال ان کے گلے لگ کے شدت سے رو دی
” بس میری بچی بس۔۔۔۔۔ مجھے معاف کردو بیٹا”
” نہیں بڑی ماما آپ کیوں معافی مانگ رہی ہیں پلیز مجھے شرمندہ نہ کریں”
” شرمندہ تو میں ہو گئی ہوں تمہارے سامنے بیٹا۔۔۔۔۔ میرا بیٹا آئیڈیل کے پیچھے بھاگ کر اپنے آج اور مستقبل کو تباہ کر رہا ہے۔۔۔۔۔ میں کچھ مانگوں تم سے دو گی؟؟؟” اس نے سر اٹھا کے ان کی طرف دیکھا
” میں جانتی ہوں بیٹا اب میری پوزیشن نہیں ہے تم سے کچھ مانگنے کی پر۔۔۔۔۔”
” جی بڑی ماما بولیں نا”
” تم میرے بیٹے کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑنا۔۔۔۔۔ایک تم ہی ہو جس پہ مجھے بھروسہ ہے جو میرے بیٹے کو سنبھال لے گی جو اپنی محبت سے جیت لے گی۔۔۔۔۔ بتاؤ بیٹا”
” پر۔۔۔۔۔”
” بیٹا میں جانتی ہوں یہ مشکل ہے پر ناممکن تو کوئی چیز نہیں ہے نا” وہ پریقین تھیں کہ وہ ان کے بیٹے کو بدل دے گی تو وہ کیوں ان کا یقین توڑتی
” جی بڑی ماما۔۔۔۔۔ میں کوشش کروں گی” انہوں نے اسے گلے لگا لیا وہ جانتی تھیں کہ وہ اس کی زندگی داؤ پہ لگا رہی ہیں پر وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ وہ ان کے بیٹے کو اپنی محبت سے اپنا بنا لے گی۔
——-
وہ پہلے اپنے بچپن میں بہت لونگ کئیرنگ سا تھا وہ کم بولتا تھا لیکن جب وہ بولتا تھا تو اگلے کو اپنا گرویدہ کرلیتا تھا بچپن سے اسکول میں نمایاں رہا اپنے گھر میں سب سے بڑا بچہ ہونے کی وجہ سے سب کی توجہ کا مرکز بنا اس کے پانچ سال بعد پھر مرال نے آکے سب کی توجہ حاصل کی پھر نمیر اور نشاء آئے اورپھر زیان ارسہ سارہ تو گھر والوں کی توجہ بٹتی گئی لیکن جبران جبران تھا پھر اسکول سے کالج پھر یونیورسٹی میں وہ توجہ کا مرکز بنا رہا ایک اپنی وجاہت سے دوسرا قابلیت سے وہ اپنے آپ کو منواتا گیا مرال بھی اس سے کم نہ تھی وہ بھی خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ذہین بھی تھی کالج میں آکے جبران کو پتا چلا کہ وہ مرال کا منگیتر ہے اس وقت اسے کوئی اعتراض نہ ہوا وہ کامیابی کی بلندیوں کو چھونے لگا تو اس کی سوچ بدلنے لگی ایک آئیڈیلازم جنم لینے لگا مرال اس کو اس آئیڈیل سے بہت دور لگی اور خیال پہ مہر تب لگی جب ماما اور بڑی ماما کی طبیعت ناساز ہونے لگی تو مرال نے اپنی پڑھائی کمپلیٹ کر کے گھرداری سنبھال لی جبران کو آہستہ آہستہ چڑ ہونے لگی اور وہ اس کے دل سے دن بہ دن اترتی چلی گئی محبت تو اسے پہلے بھی نہ تھی پر جو پسند تھی اب وہ بھی نہیں رہی تھی وہ مرال کے ساتھ اپنے آپ کو مس فٹ محسوس کرتا تھا کیونکہ وہ ہمیشہ سمپل رہتی تھی گھومنے پھرنے کا کوئی شوق نہیں تھا اسے وہ اسے کنویں کی مینڈک لگنے لگی تھی وہ اسے دبو سمجھنے لگا اور اس کا برملا اظہار بھی کرتا اسے چوٹ دے کے اذیت دے کے۔۔۔۔۔ وہ جب سامنے آتی تب تب وہ اسے زہر لگتی وہ اس کے کسی کام کس ہاتھ لگاتی تو اسے برا لگتا
دوسری طرف مرال کو اپنی بچپن کی منگنی کا پتا چلا تو اس دل ن اسے اسے جی جان سے ایکسیپٹ کرلیا تھا پر جبران کی سنجیدگی اور لیے دیے رویے نے اسے کوئی خوش فہمی میں مبتلا نہیں کیا تھا پر پھر بھی کیوں اس کا دل اسے دیکھ کے بےترتیب دھڑکتا تھا پر آہستہ آہستہ جبران کے نارواسلوک کی وجہ سے اس کی محبت کہیں دل میں ہی قید ہو کے رہ گئی تھی اسے پھلنے پھولنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا ——-
سب چاہتے تھے کہ جبران اور مرال ایک ہوجائیں آج آمنہ پھپو اور ان کے بچے بھی آئے تھے اور دادی بھی ساتھ ہی آگئی تھیں جو پھپو کے اسرار پہ ان کے ساتھ کچھ دنوں کے لیے ان کے گھر چلی گئی تھیں دادی تو بہت خوش تھیں انہیں اپنے یہ دو بچے جبران اور مرال دل و جان سے عزیز تھے پھپو بھی بہت خوش ہوئیں یہ سن کے
” بہت اچھا کیا بھائی آپ نے ماشآاللٰہ سے جبران بھی اب شادی کے قابل ہو گیا ہے اور بزنس کے میدان میں بھی اپنے آپ کو منوا چکا ہے اچھا ہے اپنی لائیف میں سیٹل ہو جائے گا ٹائم سے”
” جی میرا بھی یہ ہی خیال ہے” ابتہاج صاحب بولے
” تو پھر دیری کس بات کی ہے ابتہاج وہاج گھر کی ہی تو بات ہے اچھے کام میں دیری کیوں۔۔۔۔۔ کیوں رافعہ؟؟؟” انہوں نے بڑی ماما کو مخاطب کیا جو ان کی بات سن کے سوچوں میں گم ہو گئی تھیں ایک دم چونکیں
” تم کہاں کھوئی ہوئی ہو رافعہ؟؟؟”
” وہ۔۔۔۔۔ وہ ماجی مم۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔ سوچ رہی تھی” وہ اٹکیں تو اسمہ بھی ان کی طرچ دیکھنے لگیں”کہ اتنی جلدی تیاریاں کیسے ہوں گی” تو دادی اور اسمہ ہنس دیں
” یہ لو یہ اسے دیکھو ابھی تاریخ طے ہوئی نہیں اور یہ ہاتھ پہ سرسوں جمائے بیٹھی ہے” دادی ہنستے ہوئے بولیں
” اماں سوچنا تو پڑتا ہے نا اتنا کام ہوتا ہے” اسمہ بولیں
” ہاں یہ تو ہے اسمہ ٹھیک کہہ رہی ہو بالکل بس سب خیر خیریت سے ہو جائے اور میرے دونوں بچے ہنسی خوشی رہیں بس آمین” وہ بولیں تو دونوں بہوؤں نے آمیں کہا رافعہ بھی ان دونوں کی زندگی کے لیے دل سے دعاگو تھیں۔
ان کی شادی کی ڈیٹ فکس کردی گئی تھی جبران نے بہت ہنگاما کیا تھا پر رافعہ نے اپنی قسم دے کے اسے خاموش کردیا تھا شادی ہی کرنی ہے نا کر لے گا وہ شادی کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔ اور اس کے بعد وہ اسے چین سے نہیں رہنے دے گا وہ روز روئے گی تڑپے گی جو اذیت اس نے پل پل برداشت کی ہے وہ اسے روز محسوس ہو گی وہ سوچ چکا تھا
——