بائیک والے واقعہ کے بعد سے نویرہ اور ارسلان کا آمنا سامنا نہیں ہوا تھا اور نویرہ کب سے اس کا ری ایکشن دیکھنے کے لیے بےتاب تھی آج یونی سے آ کر کھانا وغیرہ کھانے کے بعد مریم کو سارہ کی طرف جانے کا بتا کر وہ ان کے گھر چلی گئی تھی ان کا بچپن سے اک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا
اس لیے اس نے دروازہ کھٹکھٹانے کی زحمت نہیں کی تھی بغیر دستک کے ہی اندر چلی گئی مگر وہ پہنچتے اسے بس گہری خاموشی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اسے حیرت بھی ہوئی تھی ان کے گھر وہ جب بھی آتی تھی سارہ اپنی والدہ کے ساتھ کسی نہ کسی بات پہ بحث کرتی ہوئی ملتی تھی
“سارہ، سارہ” اس نے قدم آگے بڑھاتے سارہ کا نام پکارنا شروع کیا تھا اس کی آواز سن کے سارہ کی بجائے ارسلان اندر سے برآمد ہوا تھا
“تم کیوں بوتل کے جن کی طرح نازل ہو گئے ہو میں تمہیں نہیں سارہ کو آواز دے رہی تھی” ارسلان کو دیکھتے نویرہ نے تیوری چڑھا کے کہا تھا
“مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے تمہاری پھٹکار برستی شکل دیکھنے کا سارہ اور امی گھر نہیں ہیں یہی بتانے کے لیے باہر آیا ہوں” ارسلان بھی ادھار رکھنے کا قائل نہیں تھا اس کی باتیں سن کے نویرہ نے دانت پیسے تھے
“تمہاری شکل تو جیسے بڑی نورانی ہے نا” نویرہ اسے گھورتے واپس جانے کے لیے پلٹی تھی تبھی ارسلان کے ذہن میں اک شیطانی آئیڈیا تھا جس سے اس کی آنکھیں چمکی تھیں کیونکہ اسے اپنا بدلہ لینے کا موقع جو ملا تھا
“ارے کہاں چل دی اتنے عرصے بعد تو بدلہ لینے کا موقع ملا ہے اور تمہیں لگتا ہے میں تمہیں ایسے ہی جانے دوں گا” اس کی کلائی پکڑتے ارسلان نے معنی خیزی انداز میں کہا تھا
“کیا مطلب ہے تمہارا اور میرا ہاتھ چھوڑو” اس کے عجیب سے لہجے پہ نویرہ اندر سے تھوڑی خوفزدہ ہوئی تھی مگر خود کو مضبوط ظاہر کرتے سختی سے اپنا بازو چھڑایا تھا
“مطلب تو بڑا سادہ ہے میں تم اور یہ تنہائی ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے” ارسلان کی بات پہ نویرہ نے بےیقینی سے اسے دیکھا تھا
اسے یقین کرنے میں مشکل ہو رہا تھا کہ یہ ارسلان ہی ہے ان کی بچپن سے ہی بہت لڑائیاں ہوتی تھیں اور زیادہ نقصان اس کا نویرہ ہی کرتی تھی مگر ارسلان نے کھبی ایسی کوئی گھٹیا بات نہیں کی تھی
دوسری طرف ارسلان اس کے اس طرح بےیقینی سے دیکھنے پہ شرمندہ ہو گیا تھا اس کا ارادہ بس نویرہ کو تھوڑا سا تنگ کر کے بدلہ لینے کا تھا مگر اس کی نظریں دیکھ کر اور اپنے جملے پہ غور کر کے اسے شرمندگی ہو رہی تھی
“سوری نویرہ ایسے مت دیکھو یار میرا ایسا ویسا کوئی مطلب یا ارادہ نہیں ہے میں بس تمہیں تھوڑا سا تنگ،،،،” ارسلان نے اس کی نظروں کو سمجھتے وضاحت دینی چاہی تھی
“شٹ اپ جسٹ شٹ اپ” اس کی بات کاٹتے نویرہ دبے دبے لہجے میں چلائی تھی
“اتنی گھٹیا بات بول کے تم کہہ رہو تمہارا ارادہ بس تنگ کرنے کا تھا اسے تنگ کرنا نہیں اسے گھٹیا پن اور عامیانہ پن کہتے ہیں میں نے تمہارا نقصان کیا تھا تم اس سے بڑھ کے میرا نقصان کر دیتے مگر ایسی بات کہہ کے مجھے میری نظروں میں نہ گراتے” ارسلان کو دیکھ کے بولتے اک آنسو نویرہ کی آنکھ سے ٹوٹ کے گرا تھا
“آئی سوئیر نویرہ میرا ایسا ویسا کوئی مقصد نہیں تھا بس تمہیں تھوڑا تنگ کرنا مقصود تھا بچپن سے جانتی ہو تم مجھے میں تمہارے ساتھ کوئی بھی گھٹیا پن کرنے سے پہلے مرنا پسند کروں گا یوں بےیقینی بھری نظروں سے مت دیکھو مجھے” ارسلان اس کی آنکھوں میں بےیقینی اور آنسو دیکھ کے بےبس ہوا تھا
آج اسے حقیقتاً اپنے بغیر سوچے سمجھے بولنے کی عادت پہ پچھتاوا ہوا تھا آج شدت سے اسے بولنے سے پہلے سوچنے والے مقولے پہ عمل نہ کرنے پہ افسوس ہو رہا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا وقت کو پیچھے لے جا کر اپنے کہے الفاظ کو واپس لے لے
“تمہارا جو بھی مقصد ہو مگر مجھے زندگی بھر کے لیے سبق مل گیا ہے کہ کہی بھی کسی بھی وقت منہ اٹھا کر نہیں چلے جانا چاہیے سپیشلی لڑکوں والے گھر میں” نویرہ نے اک اک لفظ پہ زور دیتے کہا اور اس کے مزید کچھ کہنے سے پہلے بھاگتی ہوئی وہاں سے چلی گئی تھی پیچھے ارسلان نے بےبسی سے اس کی پشت دیکھی تھی
“سبق تو مجھے بھی ملا ہے کہ کھبی زندگی میں بغیر سوچے سمجھے منہ سے کوئی لفظ نہیں نکالنا چاہیے اکثر اوقات منہ سے نکلے الفاظ اک لمحے میں ہر شے کو تلپٹ کے رکھ دیکھتے ہیں اور انسان بس دیکھتا رہ جاتا ہے” بالوں میں ہاتھ چلاتے وہ پریشانی سے بڑبڑایا تھا اور کھلا دروازہ بند کرتے واپس اپنے روم میں چلا گیا تھا
دوسری طرف نویرہ نے بھی پکا ارادہ کیا تھا وہ کھبی بھی یوں منہ اٹھا کے کہی نہیں جائے گی اسے یقین تھا ارسلان سچ کہہ رہا ہے لیکن اس کے الفاظ نے اسے ٹھیس پہنچائی وہ کھبی بھی اس سے ایسے الفاظ کی توقع نہیں رکھتی تھی اس لیے اس نے دل ہی دل میں اس سے پکی ناراضگی کا ارادہ باندھ لیا تھا
__________________________
“کیا ہوا تم اتنی جلدی آ گئی تم؟” نویرہ کو دیکھتے مریم نے حیرت سے پوچھا تھا وہ برآمدے میں بیٹھی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی ساتھ ہی منیہا بیٹھی موبائل یوز کر رہی تھی باقی اک دو اپنے روم میں اور اک دو اوپر نگہت بیگم کے ساتھ تھیں
“ہاں وہ سارہ اور آنٹی کو کہی جانا تھا تو بس اسی لیے جلدی آ گئی” نویرہ نے نظریں چراتے جواب دیا اور جلدی سے کمرے میں گھس گئی تھی اس کے جاتے مریم واپس کتاب کی طرف متوجہ ہوئی تھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ دروازہ بجنے لگا
“اٹھو منیہا دیکھو کون ہے” مریم نے اسے اٹھانا چاہا تھا
“مریم میں نہیں اٹھ رہی میرا ناول کلائمکس پہ ہے اور ویسے بھی کوئی مانگنے والا ہی ہو گا کیونکہ ابا تو دستک دیتے نہیں اور روحان بھیا رات گئے تک آتے ہیں اور شکیل چچا اور چچی بھی شام کو ہی آتے ہیں اور جب کوئی جائے گا نہیں تو وہ خود ہی چلا جائے گا” منیہا نے موبائل پہ ہی نظریں جمائے کہا تھا
“منیہا” مریم نے تنبیہہ لہجے میں اس کا نام پکارا تھا
“جا رہی ہوں” وہ منہ بناتے اٹھی تھی پاؤں میں چپل اڑاستے اس نے موبائل کے کور سے دس روپے نکالے تھے
جو اکثر اس کے موبائل کے کور میں پائے جاتے تھے اور دوبارہ نظریں موبائل پہ جمائی تھیں دروازے کے پاس پہنچتے اس نے بغیر موبائل سے سر اٹھائے تھوڑا سا دروازہ کھولتے پیسوں والا ہاتھ باہر نکالا تھا باہر کھڑے نفوس میں سے اک نے غضب بھری نظروں سے اس ہاتھ کو گھورا تھا اور دوسرے نے بمشکل اپنے قہقہے کا گلا گھونٹا تھا
“پکڑ بھی لو اب” جب کافی دیر بعد بھی کسی نے پیسے نہیں پکڑے تو منیہا نے اکتا کے کہا تھا
“میڈم میں کس اینگل سے آپ کو مانگنے والا لگتا ہوں” اک بھاری مردانہ آواز پہ منیہا نے موبائل سے نظریں ہٹاتے تھوڑا دروازہ مزید کھولتے باہر جھانکا تھا جہاں دو سوٹڈ بوٹڈ لڑکے کھڑے تھے اک اسے کھا جانے والی نظروں سے گھور رہا تھا جبکہ دوسرا اپنی مسکراہٹ ضبط کر رہا تھا
“ہر اینگل سے” اسے اوپر سے نیچے تک دیکھ کے منیہا نے لاپرواہی سے کہا جبکہ مقابل کا تو صدمے سے برا حال ہو گیا تھا اس نے اک نظر خود پہ ڈالی تھی بلیک جینز کے ساتھ بلیک ہی ٹی شرٹ پہنے سرخ و سفید رنگت، نفاست سے سیٹ بال وہ کہی سے بھی مانگنے والا نہیں لگ رہا تھا
“مس مجھے لگتا ہے آپ کی آنکھوں میں کوئی فالٹ ہے اس لیے پہلی فرصت میں آپ اپنی آنکھیں چیک کروائیں” خود کو اک نظر دیکھنے کے بعد اس نے منیہا کو مشورہ دیا تھا
“یہ اپنا خدمت خلق کا جذبہ اپنے پاس ہی رکھو اس کی ضرورت یہاں نہیں ہے” اس کی بات سن کے منیہا تو آگ بگولہ ہو گئی تھی
“منیہا تمہیں گیٹ پہ کون ہے یہ دیکھنے بھیجا تھا گیٹ پہ جا کے سو جانے کو نہیں کہا تھا” منیہا کے واپس نہ آنے پہ مریم خود اس کے پیچھے آئی تھی
“دیکھنے ہی آئی تھی مگر یہاں آ کر اک گنوار سے ٹاکرا ہو گیا” منیہا نے اسے دیکھتے مریم کو جواب دیا تھا جبکہ باہر کھڑا وجود خود گنوار کہے جانے پہ بلبلا اٹھا تھا مریم اس کی بات پہ حیران ہوتے خود تھوڑا آگے بڑھی تھی
“ارے تابش، رامش تم دونوں ـ ـ آؤ اندر آؤ باہر کیوں کھڑے ہو؟” باہر کھڑی شخصیات کو دیکھتے مریم نے خوشگوار حیرت کا مظاہرہ کرتے انہیں اندر آنے کا کہا تھا جبکہ ان کے ناموں پہ منیہا بھی چونکی تھی یہ نام تو شکیل چچا کے بیٹوں کے تھے
“جی آپی اندر ہی آنا تھا لیکن اک جاہل نے گیٹ پہ ہی روک کہ ہمیں مانگنے والا بنا دیا تھا حالانکہ ہم تو دینے آئے تھے” اس کے جاہل کہنے پہ منیہا کے غصے سے نتھے پھولے تھے اور اس کی اگلی بات پہ بےساختہ اس کی نظر اس کے ہاتھوں کی طرف گئی تھی جس میں اس نے اک ڈونگہ تھاما ہوا تھا
“کوئی غلط فہمی ہو گئی ہو گی اسے یہ منیہا ہے اور منیہا یہ شکیل چچا کے بیٹے ہیں یہ تابش ہے اور یہ رامش” مریم نے ہنستے ہوئے ان کا تعارف کروایا تھا تابش کہتے ہوئے اس نے ڈونگا اٹھائے ہوئے شخص کی طرف اشارہ کیا تھا اور ساتھ والے کا رامش کہہ کے تعارف کروایا تھا
وہ لوگ کافی عرصے بعد ان کے گھر آ رہے تھے بچپن میں کہی آتے تھے اس کے بعد پھر آنا بند کر دیا تھا اک دو دفعہ جب وہ آئے تھے تب مریم اور حسین صاحب کے علاوہ کوئی گھر پہ ہوتا نہیں تھا اس لیے انہوں نے اک دوسرے کو پہچانا نہیں تھا
“اچھا تو یہ منیہا ہے جس نے میری پٹائی کی تھی اس کی طرف تو میرا پہلے سے ہی حساب نکلتا ہے” منیہا کو کینا توز نظروں سے گھورتے تابش نے سوچا تھا
“اب ساری باتیں باہر ہی کھڑے ہو کر لو گے یا اندر بھی آؤ گے؟” انہیں ہنوز باہر کھڑا دیکھ کے مریم نے کہا تو وہ ہنستے ہوئے اندر آئے تھے مریم انہیں لیتے برآمدے کی طرف بڑھ گئی تھی منیہا بھی دروازہ بند کرتے ان کے پیچھے آئی تھی
“منیہا چائے بنا کر لاؤ اور باقی سب کو بھی بلاؤ بھائیوں سے مل لیں اور ابا کو بھی کال کر دینا” مریم نے اندر جاتی منیہا کو آواز دی تھی
“زہر ہی نہ پلا دوں میں اس گنوار کو” منیہا بڑبڑاتے ہوئے کمرے میں گھس گئی تھی اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا چائے بنانے کا زینیہ کو ہی مریم کا پیغام پہنچانا تھا
“ویسے آج تم دونوں کا ادھر آنے کا اتفاق کیسے ہوا؟” مریم نے مسکرا کے ان سے پوچھا تھا رامش اس کا ہم تھا جبکہ تابش اس سے چھوٹا تھا شکیل چچا کے بس دو بیٹے ہی تھے
“بس کام سے جا رہے تھے کہیں یہی سے گزر کے جانا تھا امی نے بریانی بنائی تھی دینے انہوں نے خود ہی آنا تھا مگر مہمان آ گئے جس کی وجہ سے وہ خود آ نہیں سکیں تو انہوں نے یہ بریانی ہمارے ہاتھ بجھوا دی” رامش نے بتایا تو اس نے سر ہلایا تھا اتنے باقی سب بھی آ گئی تھیں سلام دعا کرنے کے بعد زینیہ کچن میں چلی گئی تھی اور باقی سب اپنے کمرے میں زینیہ کے چائے بنانے تک حسین صاحب بھی آ چکے تھے ان کے آتے ہی مریم بھی اٹھ کے اندر چلی گئی تھی
زینیہ چائے رکھنے آئی تو رامش نے زرا سی نظریں اٹھا کے اسے دیکھا اور پھر نظریں جھکا دیں زینیہ بچپن سے ہی اسے بہت اچھی لگتی اپنی باقی بہنوں کی نسبت کم گو اور خاموش طبع لیکن بیچارے کو یہ نہیں پتہ تھا کہ وہ بس باہر والوں کے سامنے ایسی ہے گھر میں تو وہ باقی سب سے بھی زیادہ ہی بولتی ہو گی
وہ کافی عرصے بعد یہاں آئے تھے اس لیے مریم کے تعارف کروانے پہ ہی اسے پتہ چلا تھا یہ زینیہ ہے ورنہ بس اس کی بچپن کی دھندلی سی ہی شبیہہ تھی اس کے ذہن میں وہ پہلے بہت آتے جاتے تھے ان کے گھر پھر ان سب سے مار کھانے کے بعد کچھ عرصہ خوف کی وجہ سے ان کے گھر قدم نہیں رکھا تھا پھر جوں جوں بڑے ہوتے گئے تو بس لڑکیوں والے گھر جانے سے کترانے لگے مریم اک دو دفعہ حسین صاحب کے ساتھ ان کے گھر گئی تھی اس لیے اس کا پتہ تھا انہیں
پھر کچھ دیر مزید بیٹھنے کے بعد وہ چلے گئے تھے جاتے جاتے تابش نے اک سلگتی نظر ان کے کمرے کے دروازے پہ ڈالی تھی اس کے منیہا کی طرف بڑے حساب نکلتے تھے اک تو اس نے بچپن میں اسے بہت بری طرح پیٹا تھا وہ بچپن میں بہت بیبا بچہ تھا اس لیے مار کھا بھی لی تھی اور اب اسے گنوار بنا دیا تھا اور اب وہ بینا بچہ نہیں رہا تھا اس لیے اس نے حساب چکتا کرنے کا سوچ لیا تھا
____________________________
دن معمول کے مطابق گزر رہے تھے مگر اچانک ان کی معمولاتِ زندگی میں اک ہلچل ہوئی تھی کیونکہ حسین صاحب کی پھوپھی لطیف بیگم جو اک گاؤں میں بیاہی ہوئی تھیں وہ ان کے گھر رہنے آئی تھیں ان کے بچپن میں وہ کھبی نہیں آئی تھیں ہاں جب وہ سب بہنیں تھوڑی بڑی ہو گئی تھیں تب وہ اک دو دفعہ رہ کے گئی تھیں
ان کی آمد پہ وہ سب کوفت کا شکار ہوئی تھیں کیونکہ ان کی ہر بات پہ ٹوکنے کی عادت تھی یہ نہ کرو لڑکی ہو وہ نہ کرو لڑکی ہو اکثر ان کا ضبط ٹوٹنے لگتا تھا مگر حسین صاحب کی وجہ سے چپ ہو جاتی تھیں
“تمہارے باوا نے تمہیں بیاہنے کا بھی کچھ سوچا ہے یا گھر بیٹھانے کا ہی ارادہ ہے” رات کو مریم انہیں دودھ دینے آئی تو انہوں نے اپنا پسندیدہ سوال پوچھا تھا
“جب کوئی رشتہ ملے گا تو بیاہ دیں گے” مریم کوئی سخت بات کہنا چاہتی تھی مگر خود پہ ضبط کا پہرہ بیٹھاتے تحمل سے انہیں جواب دیا تھا
“ویسے یہ جو اوپر کرائے دار رکھے ہیں وہ کیسے لوگ ہیں؟” انہیں یہاں آ کر پتہ چلا تھا کہ حسین صاحب نے اوپر والا پورشن کرائے پہ دیا ہوا ہے ان کی آمد پہ نگہت بیگم نیچے آ کر ان سے مل کے بھی گئی تھیں اس کے بعد انہیں اس ٹاپک پہ بات کرنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا اب یاد آیا تو انہوں نے سوچا تھا لگے ہاتھوں پوچھ ہی لوں
“اچھے ہیں اور رات بہت ہو گئی ہے اب آپ سو جائیں” مریم ان کے مزید کچھ پوچھنے سے پہلے ہی کمرے سے نکل گئی تھی
“عجیب بدلحاظ بیٹیاں ہیں حسین کی” انہوں نے بڑبڑاتے ہوئے دودھ کا گلاس منہ سے لگایا تھا
مریم بھی بڑبڑاتے ہوئے کچن کی طرف بڑھ رہی تھی سارے گھر کی لائٹس آف تھیں بس کچن کی آن تھی جس سے ہلکی ہلکی روشنی برآمدے میں آ رہی تھی مریم وہی آف کر کے اپنے روم میں جانے کا ارادہ رکھتی تھی
ابھی وہ کچن کے دروازے کے پاس ہی پہنچی تھی کہ اس کی کسی کے ساتھ زوردار ٹکراؤ ہوا تھا اس کے حلق سے اک زوردار چیخ نکلی تھی جسے مقابل اس کے منہ پہ ہاتھ رکھتے اس کے حلق میں دبا دی تھی اور اسے لیے کچن میں داخل ہوا تھا
“میں ہوں روحان ہاتھ ہٹا رہا ہوں چیخیے گا مت پلیز” کچن میں آتے اس کے منہ سے ہاتھ ہٹاتے اس نے التجا کی تھی آذاد ہوتے مریم نے جلدی سے پیچھے مڑ کے دیکھا تھا جہاں روحان سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا اس کی خوف سے بھری آنکھوں کو دیکھتے اک دو پل دیکھتا ہی رہ گیا تھا
روحان اکثر رات کو کافی لیٹ آتا تھا ان کے گیٹ کا لاک نہیں کنڈی تھی ہاں البتہ بیٹھک کا جو دروازہ گلی میں کھلتا تھا اس کا لاک تھا اور اسی کی چابی روحان کے پاس ہوتی تھی جس سے وہ لاک کھول کے اندر داخل ہوتا تھا
آج بھی وہ معمول کے مطابق بیٹھک والے رستے سے اندر آیا تھا اور موبائل پہ نظریں جمائے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے آگے بڑھ رہا تھا اس ٹائم تک سب اپنے اپنے رومز میں ہوتے تھے اس لیے وہ اطمینان سے کچھوے کی چال چلتا آگے بڑھ رہا تھا تبھی اس کا کسی کے ساتھ ٹکراؤ ہوا تھا
اس نے بوکھلا کے مقابل کے منہ پہ اپنا ہاتھ جما کے کچن میں کھینچا تھا وہ بلکل نہیں چاہتا تھا کہ اس پہ یا اس گھر کے کسی بھی فرد پہ انگلی اٹھے اس لیے مجبوراً اسے منہ پہ ہاتھ رکھنا پڑا تھا اب مریم کو دیکھتے وہ بغیر ادھر اُدھر دیکھ کے چلنے پہ شرمندہ ہوا تھا
“سوری میرا دھیان موبائل پہ تھا” اس نے مریم پر سے نظریں ہٹاتے شرمندگی سے وضاحت دی تھی جو اس کی خود پہ گڑھی نظروں سے خائف ہو رہی تھی مریم کو اس بات کا بھی خوف تھا کہ کہیں لطیف بیگم باہر نہ آ جائیں اور اویں بات کا بتنگڑ نہ بن جائے اس لیے اس کے سوری کا جواب دیے بنا وہ وہاں سے تیزی سے غائب ہوئی تھی
روحان اس کی تیزی کو دیکھتے بےساختہ مسکرایا تھا اور نفی میں سر ہلاتے کچن کی لائٹ اور دروازہ بند کرتے سیڑھیاں چڑھتے اوپر چلا گیا تھا
“تمہارے پیچھے کونسا بھوت لگ گیا ہے؟” مریم کو ہڑبڑی میں اندر داخل ہوتے دیکھ کر مائرہ نے پوچھا تھا وہ سب ابھی جاگ رہی تھیں اور بیٹھی گپیں ہانک رہی تھیں
“دادو کو دودھ دینے گئی تھی وہ کونسا کسی بھوت سے کم ہیں” فاتینا نے اک آنکھ دباتے شرارت سے کہا تو سب ہنس دی تھیں اور اکھٹے ہنسنے کی وجہ سے ان کی آواز کافی اونچی تھی
“یہ منہ پھاڑ کے ہنسنے کی ضرورت نہیں ہے دادو جاگ رہی ہیں ابھی یہ نہ ہو پہنچ جائیں ہمیں یہاں لیکچر دینے” ان کے قہقہے پہ مریم نے انہیں گھورتے وارن کیا تھا
“کیا ہے اب بندہ اپنے گھر میں کھل کے ہنس بھی نہیں سکتا” منیہا نے چڑ کے کہا تھا
“اس بات کا تو مجھے پتہ نہیں لیکن اب ہمیں سونا چاہیے پتہ تو ہے ابا فجر میں ہی اٹھا دیں گے اور پھر سب پارک میں جا کر اونگھ رہی ہوں گی” مریم نے سب کو سونے کی تلقین کرتے لائیٹ آف کی تو وہ سب بھی منہ بسورتیں اپنے اپنے بستر پہ لیٹ گئی تھیں ان کے لیٹتے مریم بھی اپنے بستر پہ آ گئی تھی
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...