“جب بھی کسی بیٹی کا رشتہ پکا ہوتا ہے۔ میری ماں کانچ کی چوڑیاں لا کے کلائی میں ڈال دیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ شادی تک ان میں سے ایک بھی چوڑی ٹوٹنے نہ پائے۔ جو اگر چوڑی ٹوٹی تو یہ بد نصیبی کی علامت ہے۔ یہ دقیانوسی ریت میری نانی نے اپنی ماں سے میری ماں کو منتقل کی۔ اور میری ماں نے آج تک اس ریت کوسنبھال کے رکھا ہے۔ میری دو بڑی بہنوں کی شادی ہوئی تو انھیں ابھی کانچ کی چوڑیاں ڈالی گئیں۔ اب تیسری کی بار بھی یہی ہو رہا ہے”
میرے ہاتھ میں نیلے اور لال رنگ کی چوڑیوں کا سیٹ تھا۔ اور میں جاسم کو اپنے گھر کی اس پرانی ریت کے بارے میں بتا رہی تھی۔
“ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ریت تو میں پہلی بار سن رہا ہوں۔ آنٹی اس دور میں بھی ایسی چیزوں پہ یقین رکھتی ہیں” وہ ہنستے ہوئے بولا
“ہاں ریت پرانی تو ضرور ہے۔ لیکن کسی کے نام کی چوڑیاں جب کلائی میں کھنکتی ہوں گی تو یہ احساس کتنا انمول ہوگا۔ ۔۔ پتا نہیں میری کلائی میں کب تمہارے نام کی چوڑیاں کھنکیں گی” میری آنکھوں میں اداسی اتر آئی
“تمہارے لیے میں کانچ کی نہیں سٹیل کی چوڑیاں بنواؤں گا، تم ہو ہی لاپرواہ، کانچ کی چوڑیا ں سنبھال نہیں پاؤ گی” اداسی دور کرنے کے لیے اس نے میرا مذاق اڑایا
“تمہیں سنبھال لیا ہے تو چوڑیاں بھی سنبھال لوں گی” میں اسے گھورنے لگی
“چلو اب مجھے چھوڑ دو، بہت دیر ہوگئی ہے، آج تو امّی سے بہت ڈانٹ پڑنی ہے” مجھے وقت کااندازہ ہوا تو میں پریشان ہوگئی۔
کچھ دن پہلے نادیہ آپی کا ررشتہ پکا ہوا تھا۔ آج امّی کو چوڑیاں یاد آئیں تو مجھے بولیں کہ بازار سے فوراً جا کے لے آؤں۔ گھر سے نکلتے بار بار انکی آواز میرے کانوں میں پڑتی رہی کہ جلدی آجانا اور بھی بہت کام ہیں۔ میں نے جاسم کو میسج کیا کہ میں بازار جارہی ہوں وہ بھی وہاں آجائے۔ اسے آنے میں دیر ہوگئی۔ جب وہ آیا تو ہم ہمیشہ کی طرح اسی برگر شاپ پہ گئے جہاں پہلے بھی جایا کرتے تھے۔ کبھی کبھی تو ملنے کا موقع میسر آتا تھا۔ بی ایس سی کے امتحانات کے بعد امّی نے تو مجھے گھر میں قید کرلیا تھا۔ پہلے تو کالج آتے جاتے جاسم سے مل لیتی تھی لیکن اب بہت مشکل تھا۔
ہمیشہ کی طرح جاسم مجھے چوک سے پہلے والی گلی میں اتار کے چلا گیا ۔ آگے مجھے پیدل ہی جانا تھا۔
“جاسم اور میں ایک ہی گلی میں رہیتے تھے۔ بچپن بھی ساتھ میں گزرا۔ ساتھ میں کھیلنا کودنا اور ہوم ورک بھی ساتھ میں کرتے۔ پر میں جب ذرا بڑی ہوئی تو امّی نے مجھ پہ وہ پابندیاں لگائیں کہ جاسم سے ہر روز ملنا دشورا ہوگیا۔ لیکن کبھی کبھار ملاقات کا موقع مل ہی جاتا تھا۔ ہم ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے اس لیے اکثر کتابوں اور نوٹس کا تبادلہ چلتا رہیتا تھا۔ اور اسی بہانے ہم مل بھی لیتے تھے۔ جب میڑک میں پہنچے تو پہلی بار جاسم نے چھوٹی عید پر مجھے ایک بڑا سا عید کارڈ دیا۔ جس میں اس نے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔ اور اس طرح ہماری بچپن کی دوستی محبت میں بدلی۔ اس محبت کی بھنک ہم نے آج تک کسی کو نہ پڑنے دی۔ بس ہم بہانے سے ایکدوسرے کو ملتے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں دل کی باتیں ہوتی تھیں۔ ہم دنوں جب فرسٹ ائیر میں پہنچے تو ہاتھ میں موبائیل فون بھی آگیا۔ پھر دل کی باتیں آنکھوں کے اشاروں سے آواز تک پہنچیں۔ دن بھر ہر گزرتے پل کی خبر میسج پہ دینا اور رات میں موقع ملتے ہی لمبی لمبی کالز چلا کرتیں۔
انٹر کے بعد ، میں نے “بی ایس سی” میں ایڈمیشن لیا اور جاسم” سی اے “کرنے لگا۔ پر ہماری دوستی اور محبت ویسی ہی رہی۔ میں نے دوسال میں “بی ایس سی” کرلیا اور جاسم ابھی تک “سی اے” کے دوسرے میڈیول میں اٹکا تھا۔ میں نے اسے کئی بار مشورہ دیا کہ سی اے میں اپنا ٹائم ضائع کرنے کی بجائے کسی اور فیلڈ میں چلا جائے ۔ لیکن اس پہ ضد سوار تھی کہ کچھ بھی ہو جائے سی اے ہی کرنا ہے”
میں تیز تیزسے قدم اٹھاتی گھر پہنچی تو امّی کا پارہ آسمان کو چھو رہا تھا۔ سوال جواب کا ایک لمبا سلسلہ جاری ہوگیا۔ نادیہ آپی نے شورشرابہ دیکھا تو امّی کو سمجھانے لگیں کہ اب اس بات کو جانے دیں۔ تب جا کے میری جان چھوٹی۔ میں غصے میں لال پیلی ہوتی اپنے کمرے میں چلی گئی اور جاسم کو میسج پہ سارا قصہ سنایا کہ اسکی وجہ سے کیسے مجھے امّی کی ڈانٹ سننی پڑی ہے۔ میں اس سے خفا تھی۔
مغرب کا وقت ہوا تو جاسم نے مجھے میسج کیا کہ میں ایک بار دروازے تک آؤں۔ میں نے منع کردیا کہ نہیں آسکتی کیوں کہ امّی سامنے کیچن میں کام کررہی ہیں اگر انکی نظر پڑ گئی کہ میں دروازہ کھول کے گلی میں تانک جھانک کررہی ہوں تو انکے ہاتھوں سے مجھے کوئی نہیں بچا پائے گا۔ وہ بضد تھا کہ بس ایک لمحے کے لیے آجاؤں۔ میں نے موقع محل دیکھا اور دروازہ کھول کے باہر جھانکنے لگی۔ وہ مجھے کہیں نظر نہ آیا۔ مجھے پھر سے غصہ چڑھا ۔ میں دروازہ بند کرنے لگی تو نیچے کچھ پڑا تھا۔ میں نے جھک کے دیکھا تو ایک چھوٹا سے ڈبہ تھا جس کے اوپر ایک پیپر کلینڈر لپٹا تھا۔ میں نے اٹھا کے دیکھا تو اس میں کیڈ بری چاکلیٹ تھیں جس کے ڈبے پہ بڑا سا “سوری” لکھا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میرے چہرے پہ ایک مسکراہٹ سی پھیلی گئی۔
“دروازے پہ کیا کررہی ہو؟” امّی کی گرجدار آواز پہ میں چونکی
“امّی ۔۔۔ وہ۔۔۔ یہ سال کا کلینڈر ہے۔۔۔ کوئی دروازے میں پھینک گیا ہے، وہی دیکھ رہی تھی” میں ہڑبڑا سی گئی
“اچھا۔۔ مجھے دیکھاؤ۔۔ مجھے کلینڈر کی ضرورت تھی”
میں نےا مّی کو اپنی طرف آتے دیکھا تو جلدی سے چاکلیٹ دوپٹے میں چھپا لیں اور کلینڈر انھیں تھما کے اپنے کمرے کی طرف چل پڑی۔ جاسم کا میسج آیا کہ اب تو سوری قبول کرلو۔ میں نے جواب میں ایک سمائیلی بھیج دی۔
نادیہ آپی کی شادی کی تاریخ جیسے جیسے پاس آرہی تھی ویسے ویسے کام کا بوجھ بڑھ رہا تھا۔ ایک تو گھر کا کام اتنا تھا اوپر سے شمسہ آپی اپنے چار بچوں سمیت شادی سے دس دن پہلے وارد ہوگئیں۔ آتے ہی کہنے لگیں کہ شادی کے کاموں میں ہمارا ہاتھ بٹانے آئی ہیں۔ لیکن امّی اور میں بہت اچھی طرح سے واقف تھے کہ وہ کام بڑھانے آئی ہیں ۔ وہ شروع سے ہی ایسی تھیں ، ہر ایک چیز میں وہ نکتہ چینی کرتیں اور کام ایک ٹکے کا نہیں ہو پاتا ۔ انکی نسبت عابدہ آپی بہت اچھی تھیں۔ مدد اور ہمدردی میں انکا کوئی ثانی نہیں تھا۔ اللہ پاک نے انھیں دو بیٹیوں کے بعد بیٹا دیا تھا، ابھی چالیس دن پورے نہیں ہوئے تھے اس لیے وہ آ نہیں پائیں۔
شادی سے ہفتہ بھر پہلے امّی نے حمیدہ خالہ اور انکی بہو کو بھی بلوا لیا تھا کیونکہ کام کا بوجھ زیادہ تھا ۔ گھر مہمانوں سے بھر چکا تھا۔ نہ دن میں سکون تھا اور نہ رات میں چین۔ شادی کی بھاگم دوڑ میں میں جاسم کو بالکل وقت نہیں دے پاتی تھی۔ وہ میسج کرتا تو مجھے اسے جواب دینے میں دو گھنٹے لگ جاتے۔ کال پہ بات کرنے کا تو تصور ہی نہیں تھا۔ میں کافی چڑ چڑ ی ہوگئی تھی ، جو تھوڑی بہت بات ہوتی اس میں بھی ہماری لڑائی ہو جایا کرتی تھی۔ میں تو دعائیں کررہی تھی کہ جلدی سے شادی نپٹے اور زندگی سکون میں آئے۔ جاسم نے کئی بار ضد کی کہ دروازے تک آکے اسے اپنی شکل دکھا دوں لیکن میں اسے یہی جواب دیتی کہ جب تک شادی نہیں ہوجاتی تب تک اس طرح کا کوئی مطالبہ نہ کرے۔
خدا خدا کرکے شادی کا دن آیا۔ میں نے چار سوٹ بنوائے تھے۔ رخصتی پہ پہننے کے لیے میں نے ہرے رنگ کا سوٹ نکالا جس پہ کڑھائی اور گوٹے کا کام تھا۔ ہرا رنگ جاسم کو بہت پسند تھا اس لیے میں نے یہ سوٹ منتخب کیا۔ مہندی اور باقی چھوٹے موٹے فنکشن تو ہم نے گھر پہ ہی کرلیے لیکن رخصتی کے لیے شادی ہال بک کرایا تھا۔
جب سب تیا ر ہوگئے , تب میری باری آئی ۔میں جلدی جلدی تیار ہونے لگی۔ میک اپ کرتے اور نیا سوٹ پہنتے جاسم کا خیال میرے دل میں تھا اور ایک ہلکی سے مسکراہٹ بار بار میرے چہرے پہ پھیل رہی تھی ۔ پچھلے دو دن سے ہماری بات نہیں ہو پائی تھی۔ لیکن اب بار بار دل کررہا تھا کہ اسے میسج کروں اور پوچھوں کہ وہ آج کیا پہن کے آئے گا؟ اور اپنا بھی بتاؤں کے میں نے اسکی پسند کا رنگ صرف اسکے لیے پہنا ہے۔ میں نے خود کو روک لیا، مجھے اندازہ تھا کہ وہ مجھ سے بہت خفا ہوگا۔ چلو اب آمنے سامنے پہنچ کے ہی سارے شکوے دور ہوں گے۔
ہم شادی ہال پہنچے، تو ایک ایک کرکے ہماری طرف کے سارے مہمان بھی آنا شروع ہوئے۔ میری نظریں بس شادی ہال کی انٹرنس پہ لگی تھیں۔ جب زیادہ دیر گزری تو میری پریشانی میں اضافہ ہوا۔ نا تو جاسم آیا اور نہ ہی اسکی فیملی میں سے ابھی تک کوئی پہنچا تھا۔ میں اسے میسج کرنے سے خود کو روک نہیں پائی، پوچھ ہی لیا کہ وہ کہاں ہے۔ پر اسکی طرف سے کوئی جوا ب نہیں آیا۔ میں بار بار یا تو موبائل فون کی سکرین دیکھ رہی تھی یا پھر شادی ہال کی انٹرنس پہ نظریں جمی تھیں۔ ایک دم سے مجھے جاسم کی امی اور ابو اندر آتے دیکھائی دیے۔ میری جان میں جان آئی میں جلدی سے انکی طرف بڑھی۔ جلد ہی مجھے اندازہ ہوا کہ جاسم انکے ساتھ موجود نہیں تھا۔ اسکی امّی سے پتا چلا کہ وہ انھیں شادی ہال تک چھوڑ کے کسی کام سے چلاگیا ہے، اب انھیں لینے واپس آئے گا۔ مجھے اس سے ایسی امید نہیں تھی۔ مجھے دکھ بھی ہوا اور اس پہ شدید غصہ بھی آیا۔ پر سوائے کنٹرول کرنے کے کچھ بھی بس میں نہیں تھا۔
لڑکے والے آئے تو میری بھاگ دوڑ اور زیادہ بڑھ گئی۔ لیکن بار بار دل میں جاسم کا خیال مجھے دکھی کررہا تھا۔ سب نے کھانا کھایا اور رخصتی کا وقت آگیا۔ میں پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی، ایک تو نادیہ آپی کی جدائی کا غم تھا اور دوسرا جاسم کی وجہ بھی تھی۔ رخصتی کے بعد سب واپس جانے لگے۔ جاسم کے والدین بھی شادی ہال کے باہر پہنچے میں انٹرنس میں کھڑی انکو دیکھتی رہی۔ روڈ پہ جاسم کی گاڑی آکے رکی اور وہ لوگ گاڑی میں سوار ہوکے چلے گئے۔
کبھی کبھی کسی کی ایک نظر ہی ہر پل خوشیوں سے بھر دیتی ہے اور کبھی ذرا سی بے رخی سے زندگی ویران لگنے لگتی ہے۔ میری آنکھوں سے بے ساختہ آنسو چھلک پڑے۔ ہرے رنگ کا سوٹ ایک پل میں ہی بے رنگ ہوگیا تھا۔ جس کی خاطر میں آج اتنی سج دھج کے آئی تھی اس نے مجھے نظر بھر کے نہیں دیکھا ۔
جو لوگ مسکرانے کی وجہ ہوں آنسوؤں کا موجب بھی وہی ھوتے ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...