تینوں شیطاننیاں گراؤنڈ میں اداس بیٹھی مہر ماہ کو یاد کر رہی تھیں کیونکہ آج تیسرا دن تھا کالج کی چھٹیاں ختم ہوئے اور مہر ماہ کالج نہیں آئی تھی جبکہ عمارہ روز ہی کالج آ رہی تھی وہ عمارہ سے پوچھ بھی نہیں سکتیں تھیں کیونکہ وہ ان سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتی تھی ایسے میں اسے مخاطب کرنا اپنی بےعزتی کروانے جیسا تھا اس لئے انہوں نے انتظار کرنا ہی مناسب سمجھا پر اب تو انتظار کی بھی حد ہو گئی تھی پڑھاکو سی مہر ماہ تو اک دن کی چھٹی بھی نہیں کرتی تھی اور آج تین دن ہوگئے تھے ان کا پریشان ہونا تو بنتا تھا ۔ کیا کریں کیسے خبر لیں مہر ماہ کی ؟؟؟ صباء نے پریشانی سے کہا ۔ بس آج کادن دیکھ لیتے آتی یا نہیں کل بھی نہ آئی تو چھٹی کے وقت اس کے گھر چلیں گے ملنے اس سے معاویہ کی ہاں میں سب نے ہاں ملائی اور سب کلاس لینے چل دیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح ہی مہر ماہ نہا کر لیمن کلر کے فراک اور وائٹ ٹائٹس میں کیوٹ سی گڑیا لگ رہی تھی اوپر سے مِیر شاہ ویز نے نئے کپڑوں کے ساتھ ساتھ اسے موٹے چشمے کی جگہ چھوٹا سا بلیک کلر کا چشمہ لا دیا تھا جو اسے بہت جچ بھی رہا تھا ناشتہ بنانے کے بعد مہر ماہ مِیر شاہ ویز کے اٹھنے کا انتظار کرنے لگی جو صبح کی نماز کے بعد ابھی تک سو رہا تھا آٹھ سے نو بج گئے پر شاہ ویز کی آنکھ تھی کہ کھل ہی نہیں رہی تھی تنگ آ کے مہر ماہ کمرے میں واپس آگئی اور سامنے بنی اونچی شیلف پر پڑی بکس دیکھ کر صدا کی کتابوں کی دیوانی مہر ماہ چھوٹا سا میز شیلف کے پاس رکھ کے اوپر چڑھ کے بکس اتارنے کی کوشش کرنے لگی پر میز رکھ کے بھی کتابیں مہر ماہ کی پہنچ سے دور تھیں اور وہ اچھل اچھل کے اِک بک اٹھانے کی کوشش کرتی بری طرح پیچھے کو الٹ گئی اور شاید سر کے ساتھ ساتھ بازو یا ٹانگ بھی تُڑوا بیٹھتی اگر پیچھے صوفے سے نیند پوری کرکے اٹھتا مِیر شاہ ویز اسے گِرتا دیکھ کر بھاگ کے پیچھے سے تھام نہ لیتا ۔ پیچھے کو الٹنے کی وجہ سے مہر ماہ کا چشمہ زمین پر گِر گیا تھا اور گیلےاور گھنے سیاہ لمبے بالوں کا بنا جُوڑا کھل کے مِیر کے چہرے سے ہوتا ہوا کندھوں اور کندھوں سے ہوتا ہوا ہاتھوں پر آ گِرا اور مہر ماہ تو پوری ہی اس کے سہارے تھی۔ نیند سے بوجھل آنکھوں سے مہر ماہ کو دیکھ کر مِیر شاہ ویز کو لگا کہ شاید پرستان میں آ گیا ہے اور کوئی پری اس کی بانہوں میں آ گری ہے مہر ماہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں جھپک کر اسے گھبرائی گھبرائی سی دیکھ رہی تھی اور مِیر شاہ ویز جس نے اس کی آنکھوں پر چشمے کی وجہ سے کبھی غور نہیں کِیا تھا آج انہیں گہری براؤن نشیلی آنکھوں کو دیکھ کے دیکھتا ہی تو رہ گیا تھا اس نے آج تک بہت حسین آنکھیں دیکھی تھیں پر کبھی ایسی گہری آنکھیں نہیں دیکھی تھیں, اتنے لمبے گھنے سِلکی بال ہمیشہ سے اس کی کمزوری رہے تھے شاید تب سے جب اس کی امّی اسے لمبے اور حسین بالوں والی پری کی کہانی سناتیں تھیں بچپن میں, اور بڑے ہونے کے بعد وہ سوچتا تھا کہ اتنے حسین بال بس کہانیوں میں ہوتے ہوں گے کیونکہ پیاری سے پیاری لڑکی کے بھی اس نے کبھی ایسے بال نہیں دیکھے اوپر سے نِکھرے نِکھرے پری چہرے والی معصوم سی گڑیا جو کہ اس کی محرم بھی تھی جسے دیکھ کر اس کا دل پہلی بار اس طرح دھڑکا تھا اور اسے نیند بھری آنکھوں سے گستاخی کرنے پر اُکسا رہا تھا۔۔۔ نظریں تھیں کے ہٹنے سے انکاری تھیں اور دل نے الگ شور مچایا تھا اب تو شاید وہ دل کے ہاتھوں ہار ہی جاتا اگر مہر ماہ گھبرا کر اس سے دور نہ ہوتی اسی پل مِیر صاحب کی نیند سے بوجھل آنکھیں پوری کھلیں اور وہ تھوڑا شرمندہ سا ہوتا مہر ماہ کو نیچے اتار کر واش روم کی طرف جاتا دل کو ڈپٹ رہا تھا ۔۔۔۔ اوئے خبیث دل کیا ہوا جو وہ تیری منکوحہ ہے پر کِردار بھی کوئی چیز ہوتا اور میں مضبوط کِردار کا انسان ہوں خبر دار جو دوبارہ اکسایا مجھے تو۔۔۔۔ ویسے اپنی خفت مٹانے کا یہ اچھا طریقہ ہوا دل کو ڈانٹ دو پر واش روم میں جانے سے لے کر ناشتہ کرنے تک اور ناشتہ کرنے سے لے کر ڈیوٹی پر جانے تک اور ڈیوٹی سے لے کر واپس گھر آنے تک مِیر صاحب کو اک پل بھی چین نہیں لینے دے رہے تھے وہ لمبے بال نشیلی آنکھیں اور معصوم پری چہرہ گھرپہنچ کر اس نے مہر ماہ سے نظریں چُراتے اس کی بکس اس کے بیڈ پر رکھیں جو وہ دو دن سے مانگ رہی تھی اس کے پیپر نزدیک تھے اور اسے کل کالج بھی جانا تھا پہلے ہی تین چھٹیاں ہو گئیں تھیں کالج سے اسے اس کا بھی دُکھ تھا کہ پہلی بار اس نے کالج سے اتنی چھٹیاں کیں اوپر سے پیپر بھی نزدیک تھے۔ وہ کھانا کھا کر جیسے ہی صوفے پر لیٹنے لگا سونے کے لئے تو مہر ماہ کی نرم سی آواز نے اسے مُڑ کے دیکھنے پر اُتنا ہی مجبور کر دیا جتنا وہ اس سے نظر بچا کے بھاگ رہا تھا۔ جی کیا بات ہے مِیر کے نرمی سے جواب دینے پر پہلے تو مہر ماہ حیران ہوئی پھر بڑے ادب سے بولی آپ اتنے دن سے صوفے پر سو رہے ہیں دیکھیں میری وجہ سے آپ تنگ نہ پڑیں آپ آج بیڈ پر سو جائیں ۔ محترمہ میری ٹریننگ ایسی ہوئی ہے کہ میں کانٹوں پر بھی سو سکتا ہوں آپ آرام سے بیڈ پر سوئیں مجھے صوفے پر کوئی دِقت نہیں کہتا وہ مزے سے کروٹ لے کر سو گیا اور مہر ماہ اس کو دیکھتی رہ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ اور آ پ کا بیٹا دونوں اک جیسے بتاتے کیوں نہیں کب لائیں گے میری بہو کو گھر مِیر چنگیز خان کی بیگم غصہ ہو رہی تھیں آج ان پر۔ بیگم بہت جلد لے آئے گا آپ جانتی تو ہیں کسی کیس میں الجھا کوئی وجہ ضرور ہوگی بس اک دو دن میں آ جائیں گے وہ لوگ بس آپ ان کے ولیمے کی تیاری کریں مِیر چنگیز خان نے تحمل سے کہا اور کلینک پر چلے گئے اِدھر مِیر شاہ ویز کی امی کو بہو سے ملنے کی اتنی جلدی تھی کہ تین دن میں ہی ولیمے کی ساری شاپنگ کر کے بیٹھی تھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر ماہ تین چھٹیوں کے بعد آج چوتھے دن کالج آئی تھی تو آتے ہی سب سے پہلے سمیرا موٹی کو سونے کے زیورات پہنے دیکھ کہ حیران ہوئی پھر معاویہ کے ہاتھ میں سونے کی رِنگ دیکھ کر حیران ہوئی اور پھر صباء کا پھُولا منہ دیکھ کر کچھ زیادہ ہی حیران ہو گئی ہوا کیا ہے سب اتنی بدلی بدلی سی کیوں لگ رہیں ہیں مہر ماہ نے باری باری سب کی طرف دیکھ کر پوچھا ہمیں چھوڑو بی بی پہلے تم بتاؤ اتنے دن کہاں غائب رہی تم معاویہ نے بات بدلی یار بس و و و وہ بخار تھا مہر ماہ نے اٹکتے ہوئے جھوٹ بولا یہ اس کی زندگی کا شاید پہلا جھوٹ تھا اس کی تر بیت میں صرف سچ بولنا شامل تھا پر آج موقع اور وجہ دونوں ہی ایسے تھے کے وہ سچ نہیں بتا پائی بتاتی بھی تو کیا کہ اس کی اپنی ہی چچا زاد نے اسے خالی کالج میں بند کر دیا اور پھر اک کمانڈو اسے کسی گینگ کی لڑکی سمجھ کے اس سے تفتیش کرنے لے گیا اور اسی میں اک دن اور اک رات وہ گھر سے باہر رہی اور جب واپس گئی تو اس کی اپنی ہی چچی نے اس کی اور اس کے ماں باپ کی عزت کا تماشہ پورے محلے کے سامنے لگایا یہ بتاتی یا یہ بتاتی اسی کمانڈو نے اسے مجرم سمجھ کے اس کے گینگ تک پہنچنے کے لئے یا شاید اس کے بوڑھے باپ پر ترس کھا کر اس سے نکاح کر لیا ہے۔ بیچاری مہر ماہ مجبور تھی جھوٹ بولنے کے لئے ۔ اچھا جی اتنا بخار کے ہمیں اطلاع بھی نہیں کی کم سے کم ہم حال چال پوچھنے ہی آ جاتیں اس بار سمیرا موٹی بولی ۔ یار کیا تم لوگ تو پیچھے ہی پڑ گئی بخار تو بخار ہوتا مجھے زیادہ سردی لگ گئی تھی اس لئے بس اب چھوڑو اس بات کو اور اپنی بتاؤ اتنی تیار ہو کہ تم دونوں کیوں آئی ہو خیر تو ہے؟؟؟ مہر ماہ نے بہت طریقے سے بات بدل کر شرارتی لہجہ اپناتے ہوئے ان سے پوچھا ۔ اے بہن یہ کیا بتائیں گی میں بتاتی اک چڑیل ہمیں بنا بتائے نکاح کر کے آئی ہے اور دوسری پوری شادی ہی کر آئی ہے اور ہم کو اس قابل بھی نہیں سمجھا انوائٹ ہی کر لیں دوست دوست نہ رہی صباء نے منہ بسور کے سڑا ہوا گانا گایا تو سب کی ہنسی نکل گئی ۔ قسم لے لو یار میرے ساتھ سب اتنی اچانک ہوا کہ مجھے خود کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ ہو کیا رہا ہے معاویہ نے دہائی دی آ ہا ہا ہا پاگل نہیں ہم جو ہمیں یوں بیوقوف بنا رہی ہو تم مجھے خود کو سمجھ نہیں کی لگتی کچھ ۔۔۔۔نکاح میں پھر کیا قبول ہے قبول ہے قبول ہے خواب میں بولا تھا نواب زادی صباء نے پھر اپنا غصہ نکالا ۔ ارے یار قسم سے اچانک رشتہ آیا اور گھر والوں نے ہاں بھی کر دی مجھے تو بس عین وقت پر بتایا گیا کہ دلہا مل گیا دلہن بن جاؤ اور مجھے تیرے سر کی قسم یار صباء میں نے ابھی تک نواب صاحب بھی نہیں دیکھے سچی معاویہ نے رونی صورت بنا کر کہا۔ لو جی کر لو گل ۔۔۔۔پر معافی اک ہی شرط پر ملے گی اگر شادی کا سب سے پہلا کارڈ میرے گھر بھیجا تو۔۔۔۔۔؟؟؟ صباء کا منہ ابھی بھی سیدھا نہیں ہوا تھا ۔ اوکے پکا شادی میں تم سب کو بلاؤں گی نہیں تو شادی ہی نہیں کروں گی اب خوووووش میری ماں ں ں معاویہ نے ہاتھ جوڑ کے کہا ۔ ہاں خوش صباء نے اس کے انداز سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہا۔ اب باری ہے اس موٹی بھینس کی جس نے ڈائریکٹ شادی ہی کر لی موٹی شرم تو نہیں آئی ہوگی دوستوں کو بلائے بغیر شادی کرتے ہوئے صباء نے اب کی بار سمیرا کے لتے لئے ۔ ہائے قسمیں بہت شرم آئی تھی اب میں کیا بتاؤں سمیرا موٹی نے شرما کے کہا۔ ڈوب کے مر موٹی میں کچھ اور کہہ رہی اور تُو کچھ اور بتا رہی چل مر کلاس میں تجھ سے بات ہی نہیں کرنی مجھے صباء غصے میں کلاس کی جانب چل دی اور باقی سب بھی اس کے پیچھے پیچھے چل دیں اور سمیرا موٹی پیچھے سے سوری سوری بولتی رہ گئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہ ویز کی امی زور و شور سے بیٹے کے ولیمے کی تیاری مکمل کر رہی تھیں کہ اچانک کینیڈا سے آنے والی کال نے ان کو ہلا کے رکھ دیا ۔ کینیڈا میں ان کی اکلوتی بڑی بہن فریحہ رہتیں تھیں جو اولاد جیسی نعمت سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ شوہر کی ایک سال پہلے ہونے والی وفات سے بلکل اکیلی پڑ گئیں تھیں اور شاہ ویز کی امی کے بہت بلانے کے باوجود بھی اس لئے اب تک پاکستان نہیں لوٹیں تھیں کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ کینیڈا میں ان کے مرحوم شوہر کی بہت سی یادیں ہیں جنہیں چھوڑ کے آنا ممکن نہیں ان کے لئے فلحال پر جیسے ہی وہ اس صدمے سے باہر نکلیں گی تو لوٹ آئیں گی اپنی بہن کے پاس اور ان کی حالت دیکھتے ہوئے شاہ ویز کی امی نے بھی ان کو ضد کرکے بلانے کا ارادہ وقتی طور پر ترک کر دیا ۔۔۔۔پر انہیں اگر علم ہوتا کے تنہائی میں ان کی بہن رو رو کر اپنا یہ حال بنا لیں گی تو وہ اک پل ان کو وہاں رکنے نہ دیتیں دراصل کال کینیڈا کے اک ہوسپیٹل سے تھی انہوں نے بتایا تھا کہ کل رات ہی فریحہ کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور ان کی حالت بہت خراب ہے جلد از جلد ان کا کوئی رشتہ دار آ جائے ان کے پاس کیونکہ ان کہ حالت کافی نازک ہے۔ اسی بات نے نرم دل سی شاہ ویز کہ امی کو رلا دیا تھا اور کلینک سے واپس آتے مِیر چنگیز خان ان کو روتا دیکھ کر گھبرا گئے ۔ کیا ہوا بیگم آپ رو کیوں رہیں ہیں ان نے ان کے پاس بیٹھ کے پوچھا تو روتے ہوئے شاہ ویز کی امی نے ساری بات اپنے شوہر کے گوش گزار کی۔ افففف اللّہ رحم کرے فریحہ باجی پر اب آپ پلیز روئیں مت۔۔۔ میں آپ کے ساتھ میں خود چلوں گا کینیڈا فریحہ باجی کے پاس کرتا ہوں میں کل تک انتظام کوشش کر کے ہم کل ہی جائیں گے انہوں اپنی بیگم کو تسلی دیتے کہا اب آپ رونا بند کریں میں ذرا دِل کو کال کر کے بتادوں ساری بات تاکہ وہ کیس ختم کر کے جلد از جلد بہو کو لے کر آ جائے کیونکہ ہمارے بعد تو گھر خالی ہو گا تب ہماری بہو خود ہی سنبھال لے گی گھر بہت اچھی بچی ہے وہ کہتے اپنے موبائل پر مِیر شاہ ویز کا نمبر ملاتے باہر کی جانب چل دیے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حرا جائے نماز پر بیٹھی بیٹی کو یاد کرکے روتی اللّہ سے فریاد کر رہی تھیں کہ مولا میری بچی کو خوش رکھنا اس کا شوہر نیک اور اچھا ہو مولا میں جانتی ہوں میری معصوم بچی بد کردار نہیں ہو سکتی ضرور کچھ ہے جو وہ بتانا چاہ رہی تھی پر کسی نے اسے بولنے کا موقع دیے بغیر گھر سے کسی اجنبی کے ساتھ چلتا کِیا پتہ نہیں کس حال میں ہوگی میری معصوم بچی مولا میری بچی کی حفاظت کرنا ۔۔۔۔ ہمیشہ اسے جان سے پیارا اور دِلبر کہہ کر بلانے والے باپ تک نے میرے بچی کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیا بغیر اپنی صدا کی سخت دل بھا بھی کی باتوں میں آ کر گھر سے نکال دیا اک پل میں سگا باپ بھی اپنی کی طرح بے رحم کیسے بن گیا مولا روتے ہوئے وہ اپنے رب سے دل کی باتیں کر کے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے ساتھ ساتھ بیٹی کے اچھے نصیب کی دعائیں مانگ رہی تھیں جو کمرے کے باہر دکان سے آتے وقاص صاحب سن کر تڑپ ہی تو گئے تھے اس سوچ نے انہیں بھی رلا کے رکھ دیا کہ عزت بچانے کے نام پر انہوں نے پل بھر میں اپنی لاڈلی دِلبر کو جانے کس کے ساتھ رخصت کردیا تھا ۔ کہیں میں نے عزت بچاتے بچاتے اپنی اللّہ میاں کی گائے جیسی سیدھی سادھی بیٹی کے ساتھ کوئی ظلم تو نہیں کر دیا اک پل کے لئے وقاص صاحب کو اپنا دل بند ہوتا ہوا محسوس ہوا پر اگلے ہی لمحے اک دن اور اک رات میر ماہ کا گھر سے رہنا یاد آیا تو وہ پھر سخت دل عزت کے نام پر مر مٹنے والے باپ بن گئے۔ پر ضمیر کی عدالت میں پھر بھی وہ کہیں نہ مجرم بنے کھڑے تھے اور وہ خود اپنے
اندر ہوتی تکرار سے بے چین تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔ صبح جاتا ہوا گھر سے مِیر شاہ ویز مہر ماہ کو اپنی فیورٹ شرٹ پریس کرنے کا بول کر گیا تھا کیوں کہ شام میں اسے اپنے سینئیر کے ساتھ میٹِنگ کے لئے جانا تھا اسی کیس کے بارے میں کیونکہ اب ساری معلومات مل چکی تھی اور بس اب ریڈ کرنا باقی تھی اسی کی اجازت لینے وہ شام کو جا رہا تھا باس سے ۔ بات سنو مس چشمش وہ مہر ماہ کے قریب آکے بولا ۔ جی بولیں مہر ماہ نے نرمی سے کہہ کر سر جھکا لیا یہ میری فیورٹ شرٹ ہے اس کو شام تک اچھے سے پریس کر کے رکھنا اور ہاں اس بار دھیان سے کام کرنا وہ تیزی سے کہتا باہر کو لپکا اور مہر ماہ سر جھکا کر رہ گئی شام تک وہ گھر کے سارے کام کر کے فارغ ہوئی تو اسے یاد آیا کہ میر شاہ ویز کی شرٹ پریس کرنے کا یاد تو آیا دودھ کی دیگچی کے نیچے آنچ ہلکی کرتی وہ باہر آئی اور شرٹ پریس کرنے لگی جب شرٹ کے پچھلے حصے کی باری آئی تو اسے لگا کہ کچن میں دودھ ابل رہا ہے تبھی وہ بھاگتی ہوئی کچن میں پہنچی تو دودھ ابل کر باہر گر رہا تھا دیگچی سے باہر اففف سارا چولہا گندا ہوگیا اور دودھ بھی آدھا گر چکا تھا ۔ادھر وہ دودھ کا افسوس کرتی یہ بھول گئی کہ باہر شرٹ پر استری رکھ آئی ہے جب کچھ جلنے کی سمیل اسےمحسوس ہوئی تو کچن سے باہر نکل کے دیکھا تو اس کے پیروں تلے سے جان نکل گئی کیونکہ شرٹ کے پچھلے حصے پر پڑی استری نے کپڑا ہی جلا دیا تھا سارا اس جگہ سے استری اٹھا کہ مہر ماہ سر پکڑ کے بیٹھ گئی ابھی وہ یونہی بیٹھی تھی پریشانی میں کہ اوپر سے ہی مِیر شاہ ویز آ گیا اور سامنے کا منظر اسے بھڑکانے کے لئے کافی تھا یہ کیا ا ا ا میری سب سے پیاری شرٹ پتہ ہے میرے بابا نے مجھے کتنے پیار سے تحفے میں دی تھی اور تم اتنی لا پرواہ میرے کہنے کے باوجود کے سب دھیان سے کرنا تم نے میری فیورٹ شرٹ جلادی غصے سے بھرا وہ کچن میں پانی پینے گیا تو چولہے کہ حالت دیکھ اس کا دماغ مزید گرم ہو گیا اب یہ کیا کِیا تم نے پھوہڑ لڑکی مجھے لگا تھا نظر ہی کمزور ہے پر اب پتہ چلا نکمی بھی ہو تم کچھ کام وام بھی آتا ہے یا بس نقصان کرنے آئی ہو دنیا میں وہ غصہ میں دوسری شرٹ پہن کر ہی میٹنگ میں چلا گیا۔ اور مہر ماہ آنسو بہا کر رہ گئی کیونکہ وہ مِیر شاہ ویز کے لئے دن رات کام کر کے اسے راضی کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی اک مشرقی بیوی کی طرح کیونکہ اب دل سے وہ اسے اپنا شوہر مان چکی تھی اس نے سوچ لیا تھا کے اللّہ نے اگر اس سے اس کا رشتہ جوڑا ہے تو اس میں بھی بہتری ہی ہوگی اور انہیں کاموں میں بیچاری ٹھیک سے اپنے پیپر کی تیاری بھی نہیں کر پارہی تھی پھر بھی وہ شاہ ویز کو خوش کرنے کی بجائے ہر بار ڈانٹ کھا کے بیٹھ جاتی تھی اور اس بار بھی شاہ ویز اس کے جذبات کا خیال کئے بنا اس کا دل بڑے آرام سے توڑ گیا تھا یہ سوچے بنا کہ وہ نازک سی لڑکی اس کے لئے کتنی بھاگ دوڑ کرتی اور صلہ ہمیشہ ڈانٹ کی صورت میں ہی ملتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج پہلا پیپر تھا اور شروع پیپر شروع ہونے میں ابھی آدھا گھنٹہ باقی تھا مہر ماہ تینوں شیطاننیوں کے ساتھ گراؤنڈ میں بیٹھی پڑھ رہی تھی جب عمارہ انعم سے کھسر پسر کرتی ان کے قریب سے گزری تب ہی معاویہ کی نظر اس پر پڑی جس کے ہاتھ میں کوئی کتاب تک نہ تھی اور یہ بات معاویہ کو حیران کرنے کے لئے کافی تھی اس نے عمارہ کے ساتھ سکول کے وقت سے لی کے کالج تک کا وقت گزارا تھا وہ جانتی تھی عمارہ پڑھائی میں کتنی ہی نکمی کیوں نہ تھی پر پیپرز کے دنوں میں بکس میں منہ دے کے بیٹھی ہوتی تھی پر آج اسے وہی عمارہ عجیب سی لگی اور انعم جیسی عجیب سی لڑکی کے ساتھ اس کا چپکا رہنا بھی معاویہ کو پسند نہ تھا پر چاہتے ہوئے بھی وہ عمارہ کو کچھ کہہ نہیں پاتی تھی کیونکی عمارہ نے ان کو پل بھر میں بچپن کی دوستی کو پل بھر میں پرایا کر کے اس کا دل ہی توڑ دیا تھا۔ یہ سب باتیں سوچتے اس نے اپنا دھیان پڑھائی کی طرف لگانا چاہا پر جانے کیوں آج وہ عمارہ سے دھیان ہٹا ہی نہیں پا رہی تھی جانے کیوں اسے عمارہ حد سے زیادہ عجیب لگی تھی آج یہ وہ عمارہ تو نہیں تھی جس کے ساتھ اس نے بچپن گزارا تھا جانے کس جذبے سے مجبور ہو کہ معاویہ اٹھی اور واش روم کا بہانہ بنا کر اسی طرف چوری چھپے چل پڑی جدھر ابھی عمارہ اور انعم گئیں تھیں ۔ وہ آہستہ آہستی قدم اٹھاتی ان تک پہنچی اور دیوا ر کی اوٹ سے چھپ کر ان کو دیکھنے کی کوشش کرنے لگی یہ کالج کا پچھلا حصہ تھا اور بہت ہی سنسان سی جگہ تھی یہاں جلدی کوئی لڑکی نہیں آتی تھی کیونکہ یہ جگہ بھوتیا مشہور تھی ۔ معاویہ نے دیوار کے پیچھے چھپ کے جیسے ہی سامنے کا منظر دیکھا اسے شدید صدمے کا جھٹکا لگا۔۔۔۔۔کیونکہ سامنے انعم سگریٹ پے سگریٹ بھر کے عمارہ کو دے رہی تھی اور عمارہ دنیا جہان سے غافل جھومتی ہوئی سگریٹ پی رہی تھی معاویہ کانپتے جسم سے واپس بھاگی اور آکر گراؤنڈ میں بیٹھ گئی اور باقی شیطاننیوں کے لاکھ پوچھنے پر بھی کچھ نہیں بولی کے کانپ کیوں رہی ہے کیسے بتاتی کے وہ کیا دیکھ آئی ہے جو اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا ۔ اسی بحث میں پیپر کا وقت ہوگیا اور سب پیپر دینے چل دیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیپر دینے کے دوران بھی معاویہ کا ذہن عمارہ میں ہی اٹکا رہا جو ہال میں کہیں نظر نہیں آرہی تھی پریشانی کی انتہا پر پہنچ کر معاویہ نے فیصلہ کرلیا کے وہ پیپر کے ختم ہوتے ہی سب کچھ اپنی فرینڈز کو بتادے گی تاکہ مل کر وہ عمارہ کو اس دلدل سے نکالنے کا حل سوچیں۔۔۔۔ اور اس نے ایسا ہی کیا جب باقی سب کو عمارہ کی حالت کے بارے میں پتہ چلا تو سب پیروں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی پھر ان سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ وہ پل پل عمارہ پر نظر رکھیں گی پھر یہی ہوا چھٹی کے وقت انعم اور عمارہ اک ساتھ کالج سے نکلیں تو وہ چاروں بھی چوری چھپے ان کا پیچھا کرنے لگیں انعم اور عمارہ کالج سے تھوڑا دور گئیں تو انعم خود اک الگ کار میں بیٹھ گئی اور لڑکھڑاتی حالت میں عمارہ کو کسی لڑکے کے ساتھ دوسری کار میں سوار کر دیا ۔ رکشہ پکڑ کے وہ چاروں بھی اس کے پیچھے لگ گئیں تو دیکھا کہ اک سنسان جگہ پر جاکر گاڑی رکی اور سوکھی سی جھاڑیوں کے پیچھے وہ لڑکا نشے میں دھت عمارہ کو کھینچتا ہوا لے گیا وہ چاروں بھی رکشے سے اتر کر ان کے پیچھے پیچھے تھیں جھاڑیوں کے دوسری طرف سے جب ان چاروں نے چھپ کے سامنے کا منظر دیکھا تب ان آسمان سر پے گرتا ہوا محسوس ہوا وہ عمارہ کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کر رہا تھا تب مہر ماہ نے آؤ دیکھا نہ تاؤ بڑا سا پتھر اٹھایا اور اسے پیچھے سے جاکر اس لڑکے سر پر مار دیا وہ لڑکا وہیں خون میں لت پت ہو کہ بے ہوش ہوگیا ۔۔۔۔کہیں یہ مر تو نہیں گیا سمیرا نے ڈر کے پوچھا تم کو جیل ہو جائے گی مہر ماہ۔۔۔۔۔ مرتا ہے تو مر جائے جیل ہوتی ہے تو ہو جائے مجھے کوئی ڈر نہیں کیونکہ دنیا میں کچھ بھی میرے گھر کی عزت سے بڑھ کے نہیں مجھے مہر ماہ نے سخت لہجے میں کہا ۔۔۔۔ جو بھی ہوگا ہم تمہارے ساتھ ہیں مہر ماہ معاویہ نے بھی مضبوط لہجہ اپنایا صباء نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی جسے دیکھ کر سمیرا میں بھی حوصلہ پیدا ہوا اور وہ اسی رکشے میں بیٹھ نشے میں دھت عمارہ کو مہر ماہ کے حوالے کرتیں کالج کے باہر رکشے سے اتر کر اپنے اپنے گھر چل دیں اور مہر ماہ مجبوری میں عمارہ کو اپنے اور مِیر شاہ ویز کے فلیٹ پر لے آئی اور اسے سٹور میں چھپا کرلیٹا دیا اس کے بعد اس نے پہلا کام معاویہ کو کال کر کے اعتماد میں لینے کا کِیا اور اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کا بتا کر کہا کہ صباء اور سمیرا کو ساتھ لےاور عمارہ کی دوست کی حیثیت سے گھر جاؤ اور چچی کو سب سے چھپ کر عمارہ کی حالت بتاؤ چچی تم لوگوں پے اعتبار بھی کریں گی کیونکہ تم سب اس کی بچپن کی فرینڈز ہو پھر کہنا کہ عمارہ تم لوگوں کے پاس ہے تم لوگ اس کا علاج کروا کہ واپس بھیجو گی اور چچی سے کہنا کہ گھر میں سب کو یہی کہیں کے عمارہ اپنےاموں کے گھر رہنے گئی ہے ایسے ہمارے گھر کی عزت بچی رہے گی اور ہاں میرا ذکر غلطی سے بھی مت کرنا چچی چڑ نہ جائیں کہیں۔۔۔ تم میری سوچ سے بڑھ لے عظیم ہو مہر ماہ اسی چچی کی بیٹی کی عزت پر حرف آنے سے بچا رہی ہو جس نے تمہاری عزت کو سرِ بازار اچھالا تھا خیر میں جاتی ہوں ابھی صباء اور سمیرا کو لے کر تم پریشان نہ ہو کہہ کر عمارہ نے کال منقطع کر دی اور دوسری طرف مہر ماہ نے دل میں شاہ ویز کو لاکھوں دعائیں دیں جس نے اسے دو دن پہلے موبائل دیا تھا ضرورت کے وقت شاہ ویز کو کال کرنے کے لئے ,اور وہ اسی موبائل سے اپنی دوستوں سے رابطہ کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...