اس نے دروازہ کھول کر دھیرے سے اپنے قدم باہر رکھے اور ایک چور نظر بیڈ کی طرف ڈالی تو مستقیم کمبل سینے تک اوڑھے آنکھوں پر اپنا داہنا بازو جمائے لیٹا ہوا تھا۔ حریم اندازہ نہ لگا پائی کہ وہ جاگ رہا ہے یا سو رہا ہے۔ اس نے اپنا جوتا باتھروم کے باہر ہی اتار دیا تا کہ شور نہ پیدا ہو اور دھیرے دھیرے قدم بیڈ کی طرف بڑھانے لگی۔ بیڈ کے قریب پہنچ کر اس نے ایک نظر پھر سے پورے کمرے میں دوڑائی ۔ بیڈ کے علاوہ سونے کے لئے اور کچھ بھی میسر نہ تھا۔ دو چوٹھے چھوٹے صوفے اور ان کے آگے ایک میز رکھا تھا آتش دان کے پاس پر وہ صوفے یا میز اس کے سونے کے لئے بلکل بھی کافی نہ تھا۔
وہ ابھی تک بیڈ کے پاس کھڑی اسی کشمکش میں تھی کہ کہاں سوۓ جب بیڈ پر پڑے وجود نے اس کی کلای تھام کر اسے جھٹکے سے اپنی طرف کھینچا۔ اس اچانک سی پیش رفت حرکت پر حریم کے منہ سے بے ساختہ ایک چیخ نما آواز نکلی تھی جو کہ مستقیم اپنا دوسرا ہاتھ اس کے منہ پر جما کر روک گیا۔ اب حالت یوں تھی کہ بیڈ کی دائیں جانب مستقیم لیٹا ہوا تھا اور اس کے اوپر حریم مکمل جھکی ہوئی تھی۔ مستقیم کا دایاں بازو مضبوطی سے حریم کی کمر کے گرد لپٹا ہوا تھا اور بایاں ہاتھ حریم کے منہ پر جما ہوا تھا۔ حریم پھٹی پھٹی نظروں سے مستقیم کی جانب دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں کی حیرت اور بے یقینی دیکھتے مستیم نے اس کی منہ سے اپنا بھاری ہاتھ ہٹایا اور کروٹ بدلتے اسے نرمی سے بیڈ کی دوری طرف لٹا دیا جب کہ اس کا بازو ابھی بھی اس کی کمر کے گرد لپٹا ہوا تھا۔
وہ اس کے کان کے قریب جھکا تو وہ اسے یوں اور بھی اپنے قریب ہوتا دیکھ سختی سے آنکھیںمیچ گئی۔ اب کہ وہ اپنی بھاری آواز میں بولنا شروع ہوا تو اس کے لب حریم کے کان سے مس ہو رہے تھے۔
“کیا ہوا بیوی؟ اس طرح کھڑی کیا دیکھ رہی تھیں اتنی سنجیدگی سے آپ؟ سونا نہیں کیا؟”
اس کے لب حریم کے کان سے مس ہوتے اس کے وجود میں سنسنی خیز لہریں برپا کر رہے تھے۔
“سس ۔۔۔سونے لگی تھی مم ۔۔میں پلیز آ۔۔۔آپ پیچھے ہو جائیں”
وہ لرزتی ہوئی آواز میں اس سے پیچھے ہونے کی فریاد کر رہی تھی۔
“تو سو جائیں بیوی کس نے منع کیا آپ کو۔”
وہ اب ناک اس کی گردن پر رگڑتا اس کی جان کو اور مشکل میں ڈال رہا تھا۔
” آ۔۔آپ پلیز پیچھے ہو جائیں۔” اب کی بار وہ واقعی پیچھے ہو گیا تو حریم کی جان میں جان آئ پر ہوش تو تب اڑے جب اسے اپنے چہرے پر جھکتا دیکھا۔ کوئی اور راہ فرار نہ پاتے ہوئے وہ اس سے بچنے کے لئے اسی کے سینے میں چہرہ چھپا گئی تو اس کی یہ حالت دیکھ کر وہ ہولے سے ہنس دیا اور اسے یوں ہی ساتھ لئے پیچھے بستر پر دراز ہو گیا۔ وہ دھک دھک کرتے دل کے ساتھ اس کی شرٹ دونوں مٹھیوں میں جکڑے اسی کے سینے میں منہ دیے سانس روکے پڑی تھی۔اس نے تو کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ یہ سنجیدہ ترین انسان اس قدر رومانٹک بھی ہو سکتا ہے۔
“سو جائیں بیوی اب ورنہ پھر جاگنے پر پچھتائیں گی!”
اس کی گھمبیر آواز حریم کی سماعت سے ٹکڑای تو جھٹ سے آنکھیں بند کر کے اور بھی اس کے سینے میں گھس گئی تو وہ بھی مسکراتا ہوا اپنے دونوں بازوؤں کا حصار اس کرگرد ڈالے آنکھیں موند گیا۔
*****
دعا کے پیپرز شروع ہو چکے تھے۔ گھر کے کاموں اور کوکنگ کے لئے فاتح دو ملازمائیں رکھ چکا تھا۔ وہ بہت چھوٹی سی جان تھی اور فاتح ابراھیم کا دل بھی۔ اس پر کیسے کوئی ذمہ داری ڈال سکتا تھا ابھی وہ ۔ دعا کا بھی حیدر عباس کی وفات اور پھر ان کے نکاح والے واقعہ کی وجہ سے کافی نقصان ہو چکا تھا اس لئے آج کل وہ زور و شور پڑھنے میں مصروف تھی۔ اس سب میں وہ فاتح سے کافی حد تک فرینک ہو چکی تھی اور اب بلاجھجک کوئی بھی سوال فاتح سے پوچھ لیتی تھی۔
آج اس کا کیمسٹری کا پیپر تھا اور وہ جو ناشتے کے بغیر ہی کالج کے لئے نکلنے کا ارادہ رکھتی تھی فاتح کی ایک گھوری پر ہی منہ بسورتی ناشتے کے لئے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ گئی اور وہیں کتاب کھول کر آگے رکھتی فارمولے رٹنے لگی۔
صبح ناشتہ فاتح خود ہی بناتا تھا پھر دوپہر اور رات کا کھانا ملازمہ بناتی تھی۔
ابھی بھی اس نے ناشتہ لا کر اس کے آگے ٹیبل پر رکھا پر وہ اس پہ دیہان دیے بغیر کانوں میں انگلیاں ٹھونسے آگے پیچھے ہلتی فارمولے رٹنے میں مصروف تھی۔ اسے یوں دیکھ کر بےساختہ فاتح کی ہنسی چھوٹ گئی۔ پر وہ پھر بھی اس سب سے بےنیاز ہو کر اپنے کام میں مشغول تھی۔
فاتح نے اس کے آگے سے کتاب اٹھا کر بند کر کے سائیڈ پر رکھ دی تو اس نے تڑپ کر فاتح کی جانب دیکھا۔
“اف! آپ نے میری بک کیوں بند کر دی ابھی فارمولاز یاد کر رہی تھی میں۔ جلدی سے پکڑائیں واپس مجھے۔”
اس کے تیزی سے بولنے پر فاتح نے افسوس میں سر ہلایا۔
“دعا اگر آپ آج کا پیپر دینا چاہتی ہیں نا تو چپ چاپ جلدی سے یہ ناشتہ ختم کریں ورنہ آج آپ بھی گھر رہیں گی اور میں بھی۔ صحت دیکھیں ذرا اپنی آپ! ایک ہلکی سی پھونک سے ہی اڑ جائیں گی آپ۔”
وہ اسے ناشتہ کرنے کی تنبیہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی صحت پر چوٹ کرتا ہوا بولا تو حیرت سے دعا کا منہ کھل گیا۔
“آپ بھی نا عجیب ہی ہیں۔ کتنی آسانی سے کہہ رہے کہ گھر ہی رہئے گا! اور میری صحت بھی اچھی خاصی ہے۔ آپ خود جو موٹے ہیں اس لئے میں آپ کو کمزور لگتی ہوں۔”
اس کی بات پر جوس پیتے فاتح کو زور کا اچھو لگا تھا۔ موٹا! اس کی اتنی فٹ باڈی کو وہ آرام سکون سے موٹا قرار دے گئی تھی۔اپنی معصوم بیوی کی عقل کو وہ سلام ہی کر سکتا تھا جو اپنے ہینڈسم اور ڈیشنگ شوہر کو موٹا سمجھ رہی تھی۔
اچانک گھڑی پر نظر پڑ تے دعا کی سٹی گم ہوئی تھی۔
“اف اللّه بس بیس منٹ رہ گئے۔ فاتح سر لیٹ کروا دیا آپ نے مجھے پہلے ہی پیپر میں۔”
سارا الزام فاتح پر ڈالتی وہ جلدی سے جوس کا گلاس منہ سے لگا گئی اور سینڈوچ کی پلیٹ اور بک پکڑ کر گاڑی کی طرف دوڑ لگا گئی تو وہ نفی میں سر ہلاتا خود بھی اس کے پیچھے بڑھ گیا جہاں وہ پہلے سے گاڑی میں بیٹھی بک سامنے ڈیش بورڈ پر رکھے اس سے پڑھتی ساتھ ساتھ سینڈوچ کے ساتھ انصاف کرنے میں مصروف تھی۔
“جھلی!”
دل میں کہتا وہ گاڑی آگے بڑھا گیا۔
گاڑی کالج کے باہر رکنے پر وہ تیزی سے نکلنے لگی پر اسے اچانک رکنا پڑا کیوں کہ اس کی كلائی فاتح کے ہاتھ میں تھی۔ وہ جھجک کر سواليه نظروں سے فاتح کو دیکھنے لگی۔
” پیپر بہت دیہان سے کریے گا اور پینک مت ہوئیے گا۔ آپ کو سب آتا بس دماغ کو پر سکون رکھ کر سب سے پہلے ایک دفع کوئیسچن پیپر پڑھنا ہے پھر اس کے بعد پیپر حل کرنا شروع کرنا ہے۔ اب جائیں فی امان اللہ!”
اسے ضروری ہدایات دے کر آخر میں وہ اس کا ماتھا چوم کر بولا تو وہ سکون سے آنکھیں موندتی اثبات میں سر ہلا کر گاڑی سے نکلتی کالج کے گیٹ سے اندر داخل ہو گئی تو وہ بھی گاڑی آفس کے راستے پر ڈال گیا۔
*******
حریم کی آنکھ کھلی تو خود کو مستقیم کے مضبوط حصار میں پا کر شرما گئی۔ کتنے دن کے بعد اس قدر پرسکون نیند لی تھی اس نے اس کے تحفظ بھرے حصار میں۔ گھڑی پر نظر ڈالی تو شام کے سات بج رہے تھے۔ وہ دونوں دوپہر سے سوۓ ہوئے تھے اور اب تو کافی وقت ہو گیا تھا۔ وہ مستقیم کا حصار توڑتی اٹھی اور فریش ہونے کے بعد دی جان کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ وہ جھجکتی ہوئی آگے بڑھی اور دی جان کے سامنے سر جھکا دیا۔
“السلام علیکم دی جان!”
وہ اس کی اس ادا پر واری جانے لگیں۔
“وعلیکم اسلام! صدا خوش رہو جیتی رہو میری بچی! آؤ یہاں میرے پاس بیٹھو۔”
ان کے کہنے پر وہ ان کے پاس ہی بستر میں گھس گئی۔
“مستقیم نہیں اٹھا ابھی۔”
ان کے پوچھنے پر وہ نفی میں سر ہلا گئی۔
” چلو سونے دو اسے تم تب تک میرے پاس بیٹھو۔ مستقیم اٹھتا ہے تو ملازم کو کھانا لگانے کا بولتی ہوں تم تب تک یہ کھاؤ۔” وہ اس کے سامنے ڈرائے فروٹس سے بھرا باول رکھتیہوئی بولیں تو حریم بھی ان کے ساتھ مل کر ڈرائے فروٹس کھانے لگی۔ تھوڑی دیر میں ملاذمہ چاۓ دے گئی تو وہ چاۓ سے لطف اندوز ہونے لگے۔ کچھ دیر میں مستقیم بھی اٹھ کر وہاں آ گیا تو اسے دیکھ کر حریم نظریں جھکا گئی۔
اس کی گہری نظریں خود پر پڑتی دیکھ کر حریم کے گال تپ اٹھے۔
وہ دی جان کی گود میں سر رکھتا لیٹ گیا اور دوپٹے کے نیچے سے حریم کا سرد ہاتھ تھام گیا اور دھیرے دھیرے اپنی انگلیوں سے اسکی انگلیاں سہلانے لگا۔ حریم کی تو جان پر بن آئ۔ اس نے اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے آزاد کرنے کی کوشش کی پر ایسا کہاں ممکن تھا۔ اوپر سے ستم یہ کہ وہ بیٹھے بھی دی جان کے بلکل پاس تھے۔ وہ زبان سے بھی اس کو کچھ نہیں بول سکتی تھی۔وہ ایک بے بس نگاہ مستقیم کے چہرے پر ڈال کر رہ گئی۔
نہ جانے یہ انسان کیا چاہتا تھا۔ پہلے معاہدے کی شادی کی اور اب اس پر یوں حق جتا رہا تھا۔ اگر یوں حق ہی جتانا تھا تو وہ معاہدہ کیوں؟ اور اگر معاہدہ کر چکا تھا تو اب یوں حق جتانے کا کیا مقصد؟ وہ کچھ بھی سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ پہلے پہل اس نے سوچا کے شاید اس سے محبت کرنے لگا ہو اس لئے شادی کی پیشکش کر رہا ہے پر اس کے معاہدے والی بات نے حریم کی یہ غلط فہمی بھی دور کر دی تھی۔
کچھ دیر یونہی بیٹھنے کے بعد وہ اس کی گرفت سے آزاد ہونے کے لئے بول گئی کہ اسے بھوک لگی ہے تو دی جان نے کھانا لگوانے کا حکم دیا اور انہیں ساتھ لیے ڈائننگ ہال کی طرف بڑھ گئیں۔
کھانے سے فارغ ہوئے تو قہوے کا دور چلا۔
وہ تینوں آتش دان کے پاس بیٹھے قہوے سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور دی جان ساتھ ساتھ مستقیم کے بچپن کے واقعات سنا رہی تھیں جنھیں حریم بہت دلچسپی سے سن رہی تھی۔اور مستقیم اس کے چہرے کے دلکش رنگوں میں کھویا ہوا تھا۔ نا جانے وہ سچ میں اتنی حسین تھی یا مستقیم کو ہی اتنی حسین لگتی تھی۔
“مستقیم !”
دی جان کے پکارنے پر وہ ہوش میں آیا۔
“جی دی جان حکم کریں! ”
وہ جھکتا سینے پر ہاتھ رکھ کر بولا تو وہ اس کے سر پر چپت لگا گئیں۔
” اب آہی گئے ہو نا اگر تو ان دنوں میں بچی کو گھما پھرا بھی دو میں جانتی ہوں واپس جا کر تو تمہیں کاموں سے ہی فرست نہیں ملے گی۔”
ان کے کہنے پر وہ حریم کو دیکھنے لگا جو نظریں جھکاکر یوں خود کو لاپرواہ ظاہر کر رہی تھی جسے یہاں اس کی نہیں بلکہ کسی اور کی بات ہو رہی ہے۔
“جی ٹھیک ہے میری پیاری دی جان صبح لے جاؤں گا گھمانے آپ کی بچی کو۔ ابھی تو مجھے اجازت دیں مجھے کچھ کام کرنا ہے آفس کا سونے سے پہلے۔”
وہ دی جان کا ماتھا چوم کر ایک گہری نظر اس پر ڈال کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا جب کہ وہ وہیں بیٹھی دی جان سے باتیں کرنے میں مشغول ہو گئی۔
رات گیارہ بجے دی جان کے اسرار پر وہ کمرے میں واپس آئ تو مستقیم سو رہا تھا۔ اس نے شکر کا سانس لیا اور لائٹ بند کر کے بیڈ کے دوسرےکنارے پر لیٹ گئی۔ ابھی اسے لیٹے تھوڑی دیر ہی گزری تھی جب مستقیم نے اسے کمر سے کھینچ کر اپنے ساتھ لگا لیا اور اسے اپنے حصار میں لے کرسونے کی تیاری کرنے لگا۔ حریم بھی آنکھیں بند کیے لیٹی رہی۔ جانتی تھی کہ مزاحمت کا کوئی فائدہ نہیں ہونا اس لئے چپ چاپ اس کے حصار میں پڑی سونے کی کوشش کرنے لگی۔ تھوڑی دیر میں ہی وہ دونوں ہوش سے بیگانہ ہو چکے تھے۔
*******
مستقیم کی سنگت میں گزرے یہ سات دن حریم کی زندگی کے خوشگوار ترین دن تھے۔ وہ ان سات دنوں میں اسے پورا اسلام آباد گھما چکا تھا۔ کتنی حسین لگنے لگی تھی زندگی اس کی سنگت میں۔ دن میں اس کی ہمراہی میں دنیا کی رنگینیوں کا نظارہ کرتی اور رات کو اس کے محفوظ اور مضبوط حصار میں پر سکون نیند کا لطف لیتی حریم کے لئے یہ زندگی ایک خواب سی تھی۔ ایک ایسا حسین خواب جس کے ٹوٹ جانے کا خوف حریم کو كپكپا دیتا۔ پر وہ اپنی ہر پریشانی بھول کر ان حسین پلوں میں جی رہی تھی۔ کل کس نے دیکھا تھا! پر وہ اپنا آج پورے دل سے جی کر خوشگوار یادیں تو سمیٹ ہی سکتی تھی نا اور وہ یہی کر رہی تھی۔
ان کی تھوڑی دیر بعد کی فلائٹ تھی اسلام آباد کی۔ حریم دی جان کے ساتھ لگی آنسو بہا رہی تھی۔ کتنی انسیت ہو گئی تھی اسے دی جان سے۔ ان کی مہربان اور نرم طبیعت نے حریم کو اپنا اسیر کر لیا تھا۔ وہ اسے بلکل کسی ماں کی طرف سمجهاتی اور نصیحت کرتی تھیں۔ ان کی محبتوں کیوہ مقروض ہو گئی تھی۔ اس نے بہت کہا تھا کہ وہ بھی ان کے ساتھ چلیں پر وہ یہ کہ کر ٹال گئیں کہ ضرور آئیں گی۔
فلائٹ میں کم وقت رہ گیا تو وہ دی جان سے ملتے ان کی دعائیں سمیٹتے ائیرپورٹ روانہ ہوئے۔ واپسی کا سفر حریم نے مستقیم کی کندھے پر سر رکھ کے سو کر گزارا تھا۔
گھر آنے کے بعد فریش ہو کر ڈنر کیے بغیر ہی دونوں سو گئے کہ سفر کی تهكان اتار سکیں۔ مستقیم کو صبح سے آفس بھی جانا تھا۔
مستقیم نے سر جھکا کر اسے دیکھا جو اس کے بازو پر سر رکھے بچوں کی طرح منہ کھول کر سو رہی تھی۔ مستقیم نے بے ساختہ جھک کر اس کے ادھ کھلے ہونٹوں کو ذرا سا چھوا اور سکون سے آنکھیں موندھ کر اسے اپنے اور بھی نزدیک کرتا نیند کی وادی میں گم ہو گیا۔
*********
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...