” کتنی دلفریب اور پر سکون فضاء ہے اطراف کی، اس گارڈن ایریا نے تو واقعی دل گارڈن گارڈن کر دیا ہے ” مائشہ جو نوٹس بنانے میں کسی حد تک مصروف تھی ایک لمبی سا نس لیتے ہوئے دل کو موہ لینے والی تا ذ گی اپنے اندر اتاری اور راحلہ کو ڈھونڈنے کے لیے ادھر ادھر نظریں دوڑائی جو نہ جانے سموسے لانے کس دیس چلی گئی تھی کہ واپس آنے کا نام نہیں لے رہی تھی بھوک سے اسکا برا حال تھا –
” ارے اس زیبا عرف سکڑی بم کو تو دیکھو “اس کی نظریں راحلہ کی تلاش میں تھی پر سامنے سے خراماں خراماں آتی زیبا پر پڑ گئی اس کے دبلے پتلے اور لمبے شریر پر چوٹ کر تے ہوئے اس نے ماریہ کا کندھا زور سے ہلایا جو اسکے بغل میں بیٹھی ہاتھوں میں مارکر لئے امپورٹنٹ نوٹس پر انڈرلائن کر رہی تھی-
“ہاں دیکھ رہی ہوں اب کیا میرا بازو گردن سے الگ ہو جائے گا تبھی تمہیں اعتبار ہو گا کہ تم نے میرا کندھا ہلایا ہے “ماریہ اپنا کندھا سہلاتے ہوئے مائشہ سے مخاطب تھی جو کہ حیرانی میں اس کا کندھا کچھ زیادہ ہی تیز دبا گئی تھی-
“اوہ سوری “یہ سکڑی بم کو ہو کیا گیا ہے کل تک تو یہ ساٹھ گز کا دو پٹہ سر پر لپیٹے بڑی ہی نیک پروین بی بی بنی پھر تی تھی اور آج دیکھو اتنی ٹائٹ جینز اور اس پر چھوٹا سا اسکرٹ اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ کیا دوپٹہ ندارد -نظر جوں ہی اسکرٹ سے ہوتی ہوئی کاندھوں پر پڑیں تو دیکھا دوپٹہ غائب تھا –
“آج تو حد کر دی محترمہ نے دوپٹہ لینے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی”مائشہ حیران ہی تو ہو گئی تھی –
“محترمہ ذرا غور سے دیکھو دوپٹہ لیا ہے پر سر پر نہیں بیگ کے اندر “ماریہ نے اس کی توجہ ذیبا کے بیگ میں رکھے دوپٹے کی کی طرف مبذول کرائی بیگ کے کونے سے جھولتادوپٹے کا سرا ماریہ کے نظروں سے اوجھل نہیں ہوسکا تھا –
“توبہ ہے، لگتا ہے قیامت قریب ہے”مائشہ نے کانوں کو ہاتھ لگایا، جبکہ ماریہ اس کے معصومانہ انداذ پر مسکرا پڑی –
“اکیلی ذیبا ہی تو نہیں ہے ایسی اور بھی بہت سے ہیں، میں کس کس کا تذکرہ کروں، یہ کا لیج لائف ہوتا ہی ایسا ہے، یہاں کی چکا چو ند میں کھوکر لڑکیاں اپنا اصل کھو دیتی ہیں اور بس یہیں کے رنگ میں رنگ جاتی ہیں، کالیج کے ماحول میں ایک الگ ہی طرح کا سحر ہوتا ہے جو لوگوں اپنی طرف کھینچتا ہے، یہاں پر جو لڑکیاں پہلے نقاب پہنتی تھیں وہ بغیرنقاب کے آتی ہیں ، جو دوپٹہ سروں پر رکھتی تھی وہ کندھےپر رکھنے لگ جاتی ھیں اور جو کندھےپر رکھتی ھیں ان کا دوپٹہ سیدھا بیگ میں آ جاتا ھے، مغربی ماحول کی اندھی تقلید تو جیسے آج سب کا شیوہ بن چکا ہے “ماریہ نے شاید ان رنگ بدلتی تتلیوں پر کچھ ذیادہ ہی مشاہدہ کیا ہوا تھا اسلے مائشہ کو رسان سے سمجھا نے لگی جس کی حیرانگی کم ھو نے کا نام نھیں لے رھی تھی –
“راحلہ نھیں آئی ابھی تک سموسے لے کر کہیں فوت تو نھیں ھو گئی وہیں پر “حیرانگی ذرا کم ہوئی تو پیٹ میں دوڑتے چوہے بھی یاد آنے لگے غصہ عود کر آیا –
“وہ دیکھو آ تو رہی ہے “ماریہ کے ہاتھ کے اشارے پر اس نے نظریں دوڑایں تو دیکھا راحلہ ہاتھوں میں سموسے کی تھیلیاں لئے تیزی سے ان ہی کی طرف آ رہی تھی –
“یہ لو ندیدوں سموسے کھاوء اور مجھے دعائیں دو”لمبے لمبے ڈگ بھر تے ہوئے ان تک آنے میں اس کی کافی توانائی صرف ہو چکی تھی. دونوں کے قریب ہی جگہ بنا کر بیٹھتے ہوئے سانسیں ہموار کرنے لگی –
“اچھا یہ بتاؤ تم سموسے لے کر اتنی رفتار سے کیوں آ رہی تھیں ہماری طرف کھیں سموسہ چھن جانے کا خدشہ تو نھیں تھا -یا پھر کسی سے ریس لگایا تھا “-پیٹ میں سموسہ جاتے ھی مائشہ کی جاتی ھو ئی ساری توانائی واپس آچکی تھی-سموسے کی چٹنی کا چٹخارہ لیتے ھوئے اس نے شرارت سے چھیڑا-
ان تینوں کا تعلق اگرچہ مائکرو بائیولوجی ڈیپارٹمنٹ سے تھا لیکن وہ سب اس وقت کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ کے گارڈن ایریا میں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناےء بیٹھی تھی -اور کوئی ایسا نھیں تھا
جس پر انھوں نے ٹی وی کے اینکر کی طرح کمنٹری نہ کی ھو – یہ کام وہ بڑی دلجمعی محنت اور ذوق وشوق کے ساتھ کرتی تھی -مائشہ اور راحلہ بچپن کی دوست ھو نے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی پڑوسی بھی تھی جبکہ ماریہ سے انکی دوستی کا لیج میں آکر ہوئی تھی اسکا تعلق اگرچہ کسی گاوں سے تھا پر تعلیم کی خاطر ہاسٹل میں مقیم تھی-
“تم لوگوں کو بہت ہی زبردست قسم کی نیوز سنانی ھے “راحلہ نے اپنے تئیں سسپینس پھیلانے کی بھر پور کوشش کی ہاں یہ الگ بات ہے کہ سامنے والوں کی پوزیشن میں کوئی خاص قسم کی تبدیلی نظر آئی ہو –
“کس قسم کی نیوز ”
“میں نے ابھی پرنسپل سر کی گفتگو سنی وہ کسی سے فون پر نعیم سر کی ریٹائرمنٹ کی بات کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کی ان کی جگہ کوئی نئے پروفیسر آرہے ہے ہیں جو حال میں USA سے PHD کی ڈگری لے کر آئے ہیں ” راحلہ نے پر جوش لہجے میں آگاہ کیا جبکہ دونوں کا دھیان اب بھی اسکی باتوں سے زیادہ سموسوں پر تھا –
” تم دونوں میری بات سن رہے ہو یا نہیں؟”
“ہاں سن رہے ہیں اور خوش تو تم ایسے نظر آ رہی ہو جیسے USA سے کوئی پروفیسر نہیں تمہارا مسٹر رائٹ آ رہاہے، ستر توپوں کی سلامی پیش کرنی چاہیے تمہیں ہر چیز میں خوشی تلاش لیتی ہو “مائشہ نے اس کے پرجوش انداز پر افسوس سے سر ہلایا –
“ہاں تو خوش ہو نے والی ہی تو بات ہے نعیم سر کے بارہ بجے ہوئے چہرے کو دیکھ کر بندے کے چہرے پر صرف بارہ ہی بج سکتا ہے پڑھ نہیں سکتا “راحلہ نے سر نعیم کے بارے میں اپنا ایک الگ ہی نظریہ بیان کیا جسے سن کر ماریہ نے اپنا ماتھاپیٹ لیا –
“خیبر اتنے بھی برے نہیں سر نعیم اب جو ٹاپک سر کلاس میں ڈسکس کرتے ہیں وہ تمہارے سر کے دو فٹ اوپر سے گزر جاتی ہے تو بھلا اس میں سر نعیم کا کیا قصور “مائشہ نے اس کے کند ذہن پر چوٹ کرتے ہوئے سر نعیم کا دفاع کیا –
“کیا مطلب! کیا میں کند ذہن نظر آتی ہوں تمہیں “راحلہ جو بیگ میں منہ دیے نہ جانے کیا ڈھونڈ رہی تھی لڑاکا انداز میں دونوں ہاتھ کمر پر دھر لیے –
“خیراب یہ نہ پوچھو تو ہی بہتر ہے ورنہ میں کہنے سے باز نہیں آورں گی کہ پتہ نہیں کیا کیا نظر آتی ہو تم مجھے “مائشہ چھیڑے بنا رہ نہیں سکی –
“مطلب کیا ہے تمہارا؟ ”
“تم دونوں پھر شروع ہو گئیں مجال ہے جو لڑائی کا ایک بھی موقع تم دونوں کے ہاتھ سے ضائع ہوجاءے اور اب چلنا چاہئے اگلی کلاس کا ٹائم ہورہا ہے “اس سے پہلے راحلہ جوابی وار کرتی ماریہ نے دونوں کو دپٹا اور اگلے ہی پل وہ دونوں کو گھسیٹتے ہوئے کلاس روم کی طرف لے جا رہی تھی-
☆☆☆☆☆☆
وہ تینوں بڑی ہی منہمک انداز میں سر لقمان کے ڈکٹیٹ کرائے ہوئے نوٹس کو لکھنے میں مصروف تھیں تبھی پرنسپل سر کلاس روم میں داخل ہوئے –
“گڈ مارننگ سر ” ساری کلاس گڈ مارننگ سر کہہ کر کھڑی ہو گئی-
“گڈ مارننگ اسٹوڈنٹس “پلیز سٹ ڈاون -طلبات کے بیٹھتے ہی پرنسپل سر نے بات کا آغاز کیا –
جیساکہ ہم سب جانتے ہیں سر نعیم کا ٹیچر اکیڈمک کا یہ آخری سال تھا انہوں نے اپنی زندگی کے بہت قیمتی لمحات ہمیں اور ہماری کالج کو صرف کئے اور اب چونکہ وہ ریٹائر ہو رہے ہیں اسلئے ہم نے ایک نئے پروفیسر کا انتظام کیا ہیں جنکا نام ھود رضا ہیں جو حال ہی میں پی. ایچ. ڈی کی ڈگری لے کر آئے ہیں مجھے یہ بات ماننے میں کوئی عار نہیں کہ وہ نئی نسل سے ہیں اور ابھی فی ا لحال ان کے پاس ٹیچنگ کا کوئی خاص تجربہ بھی نہیں, پر ان کی قابلیت اور وسیع ذہانت دیکھ کر میں متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا مجھے امید ہے آپ لوگوں کو ھود رضا سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا -کل سے وہ آپ لوگوں کو جوائن کریں گے -اپنی بات مکمل کر کے پرنسپل سر کلاس روم سے باہر جا چکے تھے ان کے جاتے ہی کلاس روم میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئی – نئے سر کی آمد پر سب ہی ایکسائٹیڈ نظر آرہے تھے (اسپیشلی لڑکیاں )
“یاروں آخری پریڈ اٹینڈ کرنے کا میرا بالکل بھی دل نہیں چاہ رہا، کیوں نہ کلاس بنک کر تے ہیں ” مائشہ نے پر امید نظروں سے دونوں کی جانب دیکھا پر ان کے چہرے پر نو کا بورڈ دیکھ کر مایوس ہو گئی –
“او ہو بھئ سچ میں میرا دل نہیں چاہ رہا یقین مانو -ٹھیک ہے ماریہ کتابی کیڑاہے اور ایک بھی لیکچر مس نہیں کرتی ہے پر راحلہ تم، تمھارے ایک کلاس کرنے یا نہ کرنے سے کونسی تبدیلی رونما ہو جائے گی تم میں -پلیز چلو نہ -“اس کے یوں کہنے پر راحلہ نےاسے گھور کے دیکھا جسکا اس پر کچھ خاصا اثر نہیں ہوا الٹا مائشہ کا اصرار بڑھتا ہی جا رہا تھا بالآخر اسے اس کے ساتھ جانا ہی پڑا –
“تم بھی بہت عجیب ہو ہمیشہ جو دل کہتا ہے وہی کرتی ہو کبھی کبھار دماغ جو کہتا ہے اس پر بھی عمل کر لیا کرو یقین مانو فائدےمیں رہوگی”آخری کلاس نہ کرنے کا اسے افسوس ہو گیا -اس کا مانناتھا گھر سے اتنی دور آٹو کرکے کا لیج پہنچو تو کلاس پوری اٹینڈ کرکے ہی آنی چاہئے پر اسے کون سمجھائےجو اپنے سارے کام اپنے موڈ اور دل کے مطابق ہی کرتی تھی -کالیج سے تھوڑے ہی فاصلے پر انھیں رکشہ مل گیا –
“سوچو کیا ہی اچھا ہوتا اگر ہم پرندے ہوتے -ہم آزاد پنچھی اپنی مرضی کے مالک کھلی فضاؤں میں اڑ رہے ہوتے، جہاں جی چاہتا وہاں جاتے، جو دل کرتا وہ کرتے، کتنا مزہ آتا ہے نہ “خیالی پلائو پکانے میں تو مائشہ کو ملکہ حاصل تھا، اپنے خیالوںمیں گم پر جوش لہجے میں کہتے ہوئے مائشہ نے اس کے کاندھوں پر اپنا سر یوں رکھا جیسے سچ مچ کھلی فضاؤں میں اڑ رہی ہو جسکے نادر خیالات سن کر راحلہ نے اپنا ماتھا پیٹ لیا –
“ہاں پھر ہم دونوں کسی شکاری کی گولی کا نشانہ بن چکے ہوتے “راحلہ نے برجستہ کہا –
“فٹےمنہ، بندے کا جب منہ نہ صحیح ہو بات ہی صحیح کر لے، موڑ غارت کر دیا “مائشہ جو اتنے اچھے موڑ میں تھی اس کی بات پر چڑ ہی تو گئ –
“خدا کا شکر ادا کرو کہ رب کائنات نے ہمیں اشرف المخلو قات کا درجہ عطا کیا ہے، ہمارا سب مخلوقات میں سب سے بلند و بالا درجہ ہے، خواہ مخواہ تم چڑیا، کبوتر، بندر بننے پر تلی ہوئ ہو “راحلہ نے بندر پر زور دیتے ہوئے اچھی خاصی جھاڑ پلائ ہاں یہ الگ بات ہے کہ اس قسم کے اثر شاید ہی اس پر اثر کرتے ہوں گے –
“بندر ہو گی تم “لو جی مائشہ بھی حساب چکتہ کرنے میں کہاں کسی سے کم تھی، تھوڑی دیر بعد اپنی مطلوبہ جگہ پر پہنچتے ہی دونوں کرایہ دے کر اپنے اپنے گھروں کی طرف چل پڑیں –
☆☆☆☆☆☆
مائشہ اور راحلہ دونوں پڑوسی ہونے کے ساتھ ساتھ بچپن کی دوست بھی تھیں، دونوں نے ساتھ ہی بچپن کے قیمتی اور انمول لمحات کو ایک دوسرے کی سنگت میں گذارا اور ساتھ ہی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ‘دونوں ایک دوسرے سے اس قدر محبت کرتی تھیں کہ اپنے دل کی ہر بات بلا جھجک ایک دوسرے سے کر دیا کرتی تھیں -دونوں ہی بی. ایس. سی کی طالبہ تھیں چونکہ ایک ہی کالیج اور گھر قریب ہونے کے باعث زیادہ تر وقت ایک دوسرے کی سنگت میں گذارتی تھیں جبکہ ماریہ ہاسٹل میں رہ کر اپنی تعلیم مکمل کر رہی تھی بہر حال تینوں ہی ایک دوسرے کے بہت قریب تھیں-
مائشہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی، مائشہ کی ماں، مریم بیگم کو ایک بیٹے کی بڑی خواہش تھی، مگر شاید یہ اللہ کو منظور نہ تھا -مائشہ کے ابآ ثاقب خان اپنی بیگم کی دلجوئی کرتے انھیں تسلیاں اور دلاسے دیتے کہ بیٹیاں اللہ کی رحمت ہوتی ہیں، خدا کی طرف سے ایک بہترین عطیہ اور اگر اللہ نے انھیں اولاد نرینہ سے محروم رکھا ہے تو اس میں بھی اللہ کی کوئی مصلحت ہو گی -اور ان کا ماننا تھا کہ اللہ نے انکی گود سونی نہیں رکھی ایک بیٹی سے نوازا ہے یہ بھی کسی غنیمت سے کم تو نہیں -شاید ثاقب صاحب کی باتوں میں کچھ خاص اثر تھا کہ دھیرے دھیرے یہ بات مریم بیگم کے دماغ میں آتی گئ اور انھوں نے اپنی ساری توجہ اور محبت مائشہ کی طرف مبذول کرلی-ثاقب صاحب بچپن ہی سے مائشہ کے خوب ناز نخرے اٹھاتے اس کی ہر بے جا خواہشات پوری کرتے جسکی بنا پر وہ تھوڑی لاپرواہ اور خود سر ہوتی چلی گئ لیکن مریم بیگم نہیں چاہتی تھیں کہ مائشہ اکلوتی ہونے کا نا جائز فائدہ اٹھائے اور بے جا ضدیں کر کے اپنی بات منوانے اسلئے مریم بیگم مائشہ کے لئے ایک سخت ماں ہی ثابت رہیں، اسکی ہر غلطی پر اسے ڈانٹتی اور تنبیہہ کر تی رہتیں -شاید یہی وجہ تھی کہ مائشہ مریم بیگم سے دور اور ثاقب صاحب سے قریب ہوتی چلی گئ –
☆☆☆☆☆☆
اگلی صبح دونوں تیار ہو کر قریب سے رکشہ لے کر کالیج پہنچ گئیں -دونوں اپنی کلاس کی جانب جا رہی تھیں تبھی سامنے سے آتی ماریہ سے انکی مڈبھیڑ ہوگئی، تینوں ساتھ ہی کلاس میں داخل ہوئیں -اندر پہنچتے ہی انھیں کچھ نئے پن کا احساس ہوا پر کیا یہ سمجھ سے بالاتر تھا –
“مجھے ایسا کیوں محسوس ہو رہا ہے کہ روز کی بہ نسبت آج لوگوں نے اپنی ڈریسنگ پہ کچھ ذیادہ محنت کی ہے اور اسپیشلی لڑکیاں، لڑکیوں کی سج دھج تو اپنے عروج پر تھی “ایک اچٹتی نظر کلاس روم پر ڈالتے ہوئے مائشہ نے حیران کن نظروں سے دونوں کی طرف دیکھا –
“آج نئے سر آنے والے ہیں شاید اسی کی تیاری ہے “راحلہ نے مسکرا تے ہوئے ایک آنکھ دبا کر راز فاش کیا –
“کیا ! “مائشہ کو صدمہ ہی تو ہو گیا جبکہ ماریہ کے لبوں پر بھی مسکراہٹ رینگ گئی –
“یہ جو تیاریاں ہیں یہ سب نئے سر آرہے ہیں اس لیے ہے، اف اللہ لگتا ہے قیامت قریب ہے -“توبہ توبہ کرتے ہوئے مائشہ نے کانوں کو ہاتھ لگایا –
“بس بس زیادہ ملانی نہ بنو چلو بیٹھتے ہیں، لگتا ہے آج جگہ بھی پیچھے ہی ملے گی” -دونوں کو ٹوکتے ہوئے ماریہ نے بڑبڑائے ہوئے قدم آگے بڑھا دیے، ان دونوں نے بھی اسکی تائید کی، ماریہ کو آ خر سے تیسرے ڈیسک پر جگہ مل گئی تھی جبکہ ان دونوں کو اور پیچھے جا نا پڑا –
“راحلہ میرے با زو والے ڈیسک پر جو ا سمارہ بیٹھی ہے نہ اسکا میک ا پ تو دیکھو. جتنا اسکے منہ کا حدود اربعہ ہے نہ مجھے یقین ہے آ ج ا سکے گھر پاوڈ کا ڈبہ یقینا ختم ہو گیا ہوگا” مائشہ نے اس کی توجہ بغل میں بیٹھی ا سمارہ کی طرف مبذول کرائی – اسمارہ جو کہ پوری کلاس میں میک اپ کو ئن کے نام سے مشہور تھی اسے چہرے پر بھر بھر کے پا و ڈ ر لگا نے کا کجھ زیادہ ہی شوق تھا جسکی بنا پر اسکے پیٹھ پیچھے لوگ اسے آٹے کا ڈبہ کہنے سے باز نھیں آ تے تھے –
مائشہ کے کہنے کی دیر تھی راحلہ نے جھٹ سے بازو والی سیٹ پر مڑ کر دیکھا اور ہونٹوں پر بے ساختہ مچلنے والے قہقہے کا گلا گھونٹ کر بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھالا مبادا وہ سن نہ لے -اسی اثناء میں ایک بہت ہی اسمارٹ سا نوجوان کلاس روم میں داخل ہوا –
“گڈ مارننگ اسٹوڈنٹ “- میرا نام ھود رضا ہے -امید ہے میرا غائبانہ تعارف پرنسپل سر نے آپ سب سے کیا ہوگا، مائیکرو بائیولوجی کا فرسٹ پیپر پرنسپل سر نے میرے سپرد کیا ہے “نووارد نوجوان نے بڑے ہی مودبانہ اور پر اعتماد لہجے میں اپنا تعارف کرایا –
“اگر آپ سبھی اسٹوڈنٹ نے کلاس روم میں مجھے توجہ سے سنا تو مجھے یقین ہے آپ لوگوں کے لئےمیں ایک بہترین ٹیچر ثابت ہو ں گا اور ایک بات اور آپ سبھی بلا جھجک مجھ سے کسی بھی مسئلے پر با آسانی گفتگو کر سکتےہیں ” وہ اپنی پہلی ہی کلاس میں ایک فرینڈلی ٹیچر ہونے کا ثبوت دے رہا تھا تاکہ اسٹوڈنٹ اور خصوصا” نئے ٹیچر کے درمیان جو اجنبیت کی دیوار ہوتی ہے اسے گرا سکے –
“توجہ سے سننے کا تو پتہ نہیں، ہاں پر توجہ سے دیکھ ضرور سکتے ہیں ‘ سامنے والے کی اسمارٹنیس اور ڈیشنگ پرسنالٹی دیکھ کر ماہی سے رہا نہ گیا چپکے سے ا سمارہ کے کانوں میں سرگوشی کی جو اس کے بغل میں بیٹھی اسے ہی دیکھنے میں مصروف تھی، بدلے میں آنکھوں کی گھوری نے چپ رہنے پر مجبور کر دیا –
“ارے یہ تو ھود بھائی ہیں “! حیرانی سے دیکھتے ہوئے راحلہ کے کانوں میں مائشہ نے دھیرے سے پھسپھسا یا جبکہ وہ ابھی تک ھود رضا کو دیکھنے میں مصروف تھی –
“تمھیں کیسے پتہ؟ کیا تم پہلے سے جانتی ہو سر کو! ”
“ہاں، یہ فاطمہ آنٹی کے اکلوتے فرزند ھود بھائی ہیں، آنٹی بتارہی تھیں کہ ابھی دو مہینے پہلے ہی پی . ایچ. ڈی کی ڈگری لے کر آئے ہیں “مائشہ نے معلومات میں اضافہ کیا –
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...