اگلے دن سعد اور عرش، نمرہ اور رانیہ کی یونی پہنچ گئے نمرہ اور رانیہ ابھی ابھی آئسکریم والے سے لڑ کر آئیں تھی اور چہرے پر غصہ تھا لیکن ان دونوں کو دیکھ کر غصہ اور بڑھ گیا۔
“تم دونوں یہاں پر” نمرہ نے ان کے قریب رکتے ہوئے کہا۔
“ہاں اور آدھے گھنٹے سے تم دونوں کا انتظار کر رہے تھے تم دونوں تھیں کہاں” عرش نے کہا۔
“کچھ نہیں ہم آئسکریم والے کے پاس گئے تھے” نمرہ نے کہا۔
“اچھا” سعد نے کہا۔
“اب تم دونوں اپنے آنے کا مقصد بتاؤ” نمرہ نے سخت لہجے میں پوچھا۔
“تم تو ایسے پیش آ رہی ہو جیسے ہم دونوں تم پر لائن مارنے آئیں ہے” سعد نے کہا۔
“محسوس تو یہی ہو رہا ہے کہ جس طرح پوری یونی ہمیں دیکھ رہی ہے” نمرہ نے کہا۔
“ہاں تو کزنز ہیں اور پوری یونی کو بھی پتا ہونا چاہئیے کہ تمھارے کزنز کتنے ہینڈسم ہے” سعد نے کہا۔
نمرہ نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور پھر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔
“یہاں ہینڈسم کون ہے” نمرہ بولی۔
“اچھا نہ اب تم دونوں کتنی خفا ہوگی یار غلطی ہو گئی ہم نے سوری بھی تو کہا ” عرش نے کہا۔
“ہاں یار اب چلو ہمارے ساتھ”سعد نے کہا۔
“نمرہ میں اندر جا رہی ہو فضاء اور حماد انتظار کر رہے ہونگے” رانیہ نے کہا۔
رانیہ جانے کے لئے پلٹی کہ سعد اس کے راستے میں آ گیا اور یہ حرکت زیادہ تر طلبہ نے غور کی۔
ہاشم ان کی طرف آیا۔
“کیا ہوا رانیہ اور نمرہ کوئی پرابلم اور یہ دونوں کون ہے”اس نے سعد اور عرش کہ طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
اسی وقت رانیہ کو ترکیب سوجی۔
“ہم دونوں نہیں جانتے” رانیہ نے کہا اور نمرہ سمیت عرش اور سعد بھی حیران رہ گئے۔
“تو یہ دونوں تمہارے ساتھ باتیں کیوں کر رہے ہیں” ہاشم نے کہا۔
“پتا نہیں بلا وجہ فری ہو رہے ہے” رانیہ نے کہا۔
اب ہاشم ان دونوں سے مخاطب ہوا ۔
“کیوں تم ہماری یونی کی لڑکی کو پریشان کر رہے ہو” ہاشم نے کہا۔
“نہیں تم غلط سمجھ رہے ہو” عرش نے کہا۔
“ہم سب نے دیکھا کہ تم نے رانیہ کا راستہ کس طرح روکا” ہاشم نے کہا۔
“تو وہ میری مرضی میری کزن ہے” سعد نے کہا۔
“واہ اب کوئی بہانہ نہیں ملا تو کزن بنا لیا” ہاشم نے کہا۔
” اوہ دیکھو تم یہاں سے سیدھا جاؤ” سعد نے کہا۔
“تم یہاں لڑکی کو پریشان کرو اور میں چلا جاؤں” ہاشم نے کہا۔
“اوہ ہم کسی لڑکی کو پریشان نہیں کر رہے” سعد نے کہا۔
“وہ تو دکھ رہا ہے سیدھا معافی مانگو” ہاشم نے کہا۔
“کیا۔۔”عرش نے کہا۔
“ہاں تم رانیہ اور نمرہ سے معافی مانگو”ہاشم نے کہا۔
“نمرہ۔۔” عرش نے کہا۔
اس سے پہلے نمرہ کچھ بولتی رانیہ بول پڑی” ہاں معافی تو مانگنا چاہئیے”
“لیکن ہم کیوں” سعد نے کہا۔
“تم دونوں معافی مانگتے ہو یا پولیس کو فون کروں” ہاشم نے کہا۔
“نہیں میں نہیں مانگوں گا” عرش نے کہا۔
اب کتنے ہی لوگ ان کے گرد کھڑے تھے۔ عرش اور سعد نے پٹنے سے زیادہ معافی میں خیر جانی۔
“ٹھیک ہے سوری” عرش نے کہا۔
“یہ تم دونوں احسان نہیں کر رہے صحیح سے مانگو” رانیہ نے کہا۔
“نہیں بس” سعد نے کہا.
“ہاشم..” رانیہ نے کہا۔
“سنا نہیں رانیہ نے کیا کہا” ہاشم نے کہا۔
“نمرہ اور رانیہ وی آر سوری” دونوں نے یکتا کہا۔
“سیدھا بیٹھ کر کان پکڑ کر معافی مانگو” رانیہ نے کہا۔
جس پر سعد اور عرش نے نفی میں سر ہلایا۔
اب ادھر لوگوں نے بھی یہی بات کی۔
سعد اور عرش اصل بات سمجھ گئے کہ اب دونوں ایسے ہی مانیں گی۔
وہ دونوں نیچے گھٹنوں کے بل بیٹھے اور کان پکڑ کر دونوں کو بڑے پیار سے سوری کہا۔
“چلو اٹس او کے” دونوں نے کہا۔
“اور پچھلی بات” عرش نے کہا۔
“اسی کے لئے ہی” رانیہ نے کہا۔
“تو تم دونوں چل رہی ہو ہمارے ساتھ” سعد نے کہا
“ہاں تو چل رہے ہیں لیکن ایک شرط ہے” نمرہ کے کہا۔
“اب کیا؟” عرش نے کہا۔
“آئسکریم کھلاؤ گے” نمرہ نے کہا۔
“ہم تم دونوں کو لنچ بھی باہر سے کرائیں گے” عرش نے کہا۔
“تھینک یو ہاشم میرے ان کزنز کا دماغ ٹھیک کر نے کے لئے” رانیہ نے کہا۔
اور وہ چاروں وہاں سے سب کو حیران کرتے ہوئے نکل گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کو جب گھر آئے تو گھر میں وہ ہنگامہ نہ تھا، نہ ہی کزنز نظر آ رہے تھے اور نہ ہی سب بڑے۔
اچانک سے انوشے آئی۔
“آپ لوگ سب ایک ساتھ تھے” اس نے حیرانی سے کہا۔
“ہاں ہم سب ساتھ ہی تھے” عرش نے کہا۔
“آپ دونوں کو ماموں جان یاد کر رہے تھے” اس نے نمرہ اور عرش کی جانب اشارہ کیا۔
“کیوں خیر” عرش نے پوچھا۔
“وہ تو ہمیں نہیں پتا کیونکہ سب بڑے ایک کمرے میں جمع ہو کر خفیہ میٹینگ کر رہے ہیں جس میں ہم سب کا آنا منع ہے سوائے آپ دونوں کے” انوشے نے کہا۔
“ہم دونوں پر کیوں” نمرہ نے کہا۔
“وہ تو ان کو پتا جائیے اپنی حاضری لگائیں” انوشے نے کہا۔
عرش اور نمرہ اس کمرے کی جانب بڑھ گئے جبکہ رانیہ اور سعد اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔
عرش اور نمرہ جب وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان دونوں کی شادی کی تاریخ پکی ہوگئی ہے اور سب نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو وہ دونوں بھی راضی تھے۔
اب ایک ہفتے بعد شازیہ پھوپھو کی فیملی میرپور کے لئے نکلنے والی تھی جبکہ ثمر خالہ کی شام کو نیو یارک کی فلائیٹ تھی اس خبر سے جہاں سب دکھی تھے وہاں تین لوگ زیادہ ہی اداس تھے۔ عرش، نمرہ اور سعد۔ عرش اور نمرہ اب ایک دوسرے کا احساس کر چکے تھے اور سعد تو اس رات رانیہ اس کے دل میں ایک الگ احساس چھوڑ گئی تھی۔
یہ ہفتہ سب نے ساتھ گزارا اور آخر وہ دن آگیا۔ اگلے دن سب جا رہے تھے اور ساری تیاریاں ہو چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نمرہ رات کو سو رہی تھی کہ اسے عرش کا میسج آیا۔
“چھت پر آؤ”
“اس وقت” نمرہ نے لکھا جس پر جواب ابھی آنے کا تھا۔ اور وہ چھت پر آ گئی جہاں عرش اس کا منتظر تھا۔
“آپ نے مجھے بلایا” نمرہ نے اس سے پوچھا۔
“ہاں کل ہم جارہے ہیں” عرش نے کہا۔
“جانتی ہوں” نمرہ نے کہا۔
“اچھا” عرش نے کہا ور پھر خاموشی چھا گئی۔
“لیکن میں جانا نہیں چاہتا” عرش نے کہا۔
“جانا تو پڑیگا نا آپ کو، ہم سب چاہتے ہیں کہ آپ سب نہیں جائے لیکن۔۔” نمرہ کہہ رہی تھی کہ عرش نے اس کی بات کاٹی “اور تم”
“میں بھی یہی چاہتی ہوں کہ آپ سب نہیں جائیں” نمرہ نے کہا۔
“میں صرف اپنی بات کر رہا ہوں”
“میری خواہش ہے کہ آپ بھی نہ جائیں” نمرہ نے آہستہ سے کہا۔
“اور ایسا کیوں” عرش نے دونوں ہاتھ سینے پر باندھتے ہوئے کہا۔
“وہ۔۔وہ۔۔” نمرہ کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کیا کہے۔
“تمہیں پتہ ہے میں کیوں نہیں جانا چاہتا” عرش نے کہا۔
جس پر نمرہ نے نفی میں سر ہلایا۔
عرش نے نمرہ کو شانوں سے پکڑا۔
“تمھاری وجہ سے” عرش نے اسے کہا۔
“میری وجہ سے”
“ہاں”
“کیوں”
“اس کا کوئی جواب نہیں”
“لیکن جانا تو ہوگا نہ”
“اور اگر نہ جاؤں”
“تو نہ جائیں”
“تم روکو گی”
“ہاں”
“اور وہ کیوں؟”
“کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ آپ مجھے چھور کر جائے” ابھی وہ سوچ رہی تھی کہ روانی میں لفظ زبان پر آگئے۔
“اور ایسا کیوں” عرش نے شوخی سے پوچھا۔
“اس بات کا کوئی جواب نہیں”
“میری چال”
“آپ سے ہی سیکھی”
“اوہ تو تم اب فٹ بال کے ساتھ مجھ سے یہ کام بھی سیکھ رہی ہوں”
“اب سارا دن آپ کو سوچتی ہوں تو عادتیں تو آئینگی” پھر سے دماغ کے لفظ زبان پر آ گئے اور آنکھیں بند کیں۔
“تم تو مجھ سے بھی تیز نکلی”عرش نے شوخی سے کہا۔
“وہ۔۔۔منہ سے نکل گیا پھر سے میں پاگل” نمرہ نے رونی صورت بناتے ہوئے کہا۔
“نہیں تم پگلی” عرش نے کہا.
“اب ابتداء تم نے کی تو اختتام میں کرتا ہوں” عرش نے کہا۔
“کیا مطلب”
“کہ میں تمہیں اپنی دلہن بنا کر اس گھر سے لے جانا چاہتا ہوں”
” کیوں”
“کیونکہ تم میرے دل و دماغ میں بستی ہوں”
“لیکن میں نہیں جانا چاہتی یہاں سے”
“کیوں”
“ماما اور فارس سے دور نہیں جانا چاہتی”
“میں تو لے کر جاؤں گا”
“لیکن میں نہیں جاؤنگی”
“تو میں اٹھا کر لے کر جاؤں گا”
“آپ مجھے کڈنیپ کریں گے”
“ہاں ہو سکتا ہے اچھا تمہیں یاد ہے میں نے کہا تھا کہ میں اپنی فٹ بال کی فیس تمہیں صحیح وقت پر بتاؤنگا”
“ہاں”
“تو میں مانگو مجھے کیا چاہئیے”
“جی”
“تو مجھے چاہئیے۔۔”عرش اس کے قریب آیا۔
“کیا” نمرہ نے گھبرا کر کہا۔
“مانگ لوں” وہ اس پر تھورا جھکا۔
نمرہ تھورا پیچھے ہوئی لیکن عرش نے اسے پکڑ لیا۔
“سوچ لو میں کچھ بھی مانگ سکتا ہوں تم دے نہیں سکو گی” عرش نے کہا۔
“مجھے نیند آ رہی ہے” نمرہ وہاں سے جانا چاہتی تھی۔
“بہانا اچھا ہے لیکن میں تو آج اپنی فیس لے کر جاؤگا”
نمرہ زیادہ گھبرا گئی اور آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
“تم رو کیوں رہی ہو” عرش نے حیرانی سے پوچھا۔
“مجھے آپ سے ڈر لگ رہا ہے”نمرہ نے رک کر کہا۔
عرش تھورا پیچھے ہوا اور اس کے آنسو صاف کیے۔
“مجھے وعدہ چاہئیے کہ تم ہمیشہ میرے ساتھ رہو گی” عرش نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔
نمرہ نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح شازیہ پھوپھو اور ان کی فیملی چلی گئی۔ اب شام کو ثمر خالہ کی فلائیٹ تھی۔
رانیہ بیٹھی ہوئی تھی کہ سعد اس کے پاس صوفے پر بیٹھ گیا۔
“میں جا رہا ہوں” سعد نے کہا۔
“ہاں تو جاؤ” رانیہ نے کہا۔
“میرا مطلب ہے آج ہم جا رہے ہیں”
“تم لوگ کوئی سکریٹ مشن پر نہیں جا رہے کہ مجھے پتا نہیں ہوگا سب کو پتا ہے”
“تمہیں دکھ نہیں ہو رہا”
“ہاں ہو رہا ہے”
“سچی”
“ہاں لیکن دکھ بھی اور خوشی بھی”
“کس بات پر”
“خالہ جا رہی ہیں اس کا دکھ اور تم دونوں بھائیوں کی جانے کی خوشی”
“حد ہے تمہیں دکھی ہونا چاہئیے”
“کس بات پر”
“میرے جانے پر”
“تم کون سا میرے بچپن کے عاشق ہو جو میں تمھارے جانے پر غم سے آنسو کی بالٹیاں بڑھ دوں” رانیہ نے چڑتے ہوئے کہا۔
“اوہ ہاں تمھارا تو بچپن کا عشق آلو کے چپس والا ہے نہ” سعد نے شوخی سے کہا۔
آج اسے رانیہ کی باتیں بری نہیں لگ رہی تھی
“ویری فنی”
“لڑکی مہمان ہوں تمہارا مہمان اللہ کی رحمت ہوتے ہیں”
“اور تم زحمت ثابت ہوئے آتے ہی میرا کمرا چھین لیا”
“اور تم نے پہلی بار میں ہی مجھ پر کیچڑ اچھالا”
“تم ہو ہی اسی لائق، نہیں تمہیں تو اٹھا کر کیچڑ میں ڈال دینا چاہئیے”
“تم کبھی مزاق سے باز آ جاؤ اور سیریس ہو میرے ساتھ”
“تم سے کیسے سیریس ہوں تم خود ہی بہت بڑا مزاق ہو”
“بھار میں جاؤ میں ہی عقل کی مارا، سوچا جانے سے پہلے تم سے دوستی کر لوں”
سعد جانے لگا۔
“اچھا چلو میں تم سے دوستی کرتی ہوں” رانیہ نے کہا
“پکا”
“اب زیادہ نخرے نہ دکھاؤ”
سعد نے ہاتھ آگے بڑھایا اور رانیہ نے تھام لیا۔
اور شام کو وہ لوگ چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھ ماہ بعد،
نمرہ سو رہی تھی کہ اس کے فون پر میسج آیا۔
اس نے اٹھ کر دیکھا تو عرش کا میسج تھا۔
“کارڈ دیکھا” میسج دیکھ کر آنکھوں میں چمک اور چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔
“ہاں” اس نے میسج کیا۔
“کیسا لگا” سامنے سے میسج آیا۔
“بہت خوبصورت ہے” نمرہ نے میسج کیا۔
“میری پسند جو ہے”
“آپ کی پسند کی داد دینی پڑے گی”
“ہاں میری پسند لاکھوں میں ایک ہے، آخر تم بھی تو میری پسند ہو”
“جی نہیں پھوپھو کی”
“چلو اب میری بھی تو بن گئی نا”
“اچھا جی”
“ہاں تو ورنہ تم سے شادی کیوں کر رہا ہوں”
“آپ کا بھروسہ نہیں ہے”
“دو ہفتے بعد ہم آ رہے ہیں”
“ہاں بتایا ماما نے”
“تو استقبال کے لئے تیار رہنا”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعد اپنے خیالات میں گم تھا کہ اسے کال آئی۔
“ہیلو کون”
“میں بول رہی ہوں بدھو”
“کون” سعد پہچان گیا تھا کہ کون ہے لیکن ڈرامہ کیا
“زیادہ ناٹک نہ کرو اور خالہ کو فون دو”
“واہ دوست تم میری اور بات خالہ سے”
“جی ماما کو بات کرنی ہے خالہ سے”
“اگر میں نہ دوں”
“زیادہ نخرے نہ کرو، تمہیں گولی مار دینی ہے”
“یہ سب غنڈوں والے کام کے علاوہ تمہیں کچھ آتا ہے کیا پچھلے جنم میں غنڈی تھی”
“ہاں تمھارے ساتھ تو تھی یاد نہیں ہے”
“ہیں مجھے کیوں یاد نہیں پڑتا”
“کیونکہ تمہیں تو بھولنے کی بیماری ہے”
“ویری فنی، اچھا ہم لوگ آ رہے ہیں پاکستان” سعد ںے خوش ہو کر کہا۔
“پتہ ہے یہ بری خبر کل ہی ماما نے دی”
“تو استقبال اچھا کرنا”
“ایسا زبردست استقبال کروں گی کہ تم زندگی بھر یاد رکھو گے اب فون دو سیدھا”
“ہاں رکو”
سعد نے فون ثمر کو دیا اور کمرے سے چلا گیا اس کی تو خوشی ہی نہیں جا رہی تھی آخر چھ مہینے بعد اس خوبصورت چڑیل کو دیکھنے جا رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فضاء رانیہ کے گھر آئی اس کی فیملی اور رانیہ کی فیملی، فیملی فرینڈز تھے فارس نے اس کو دیکھا اور چہرے پر مسکراہٹ آ گئی آخر یہ لڑکی اسے یونی سے اچھی لگتی تھی۔
“کیسے ہو فارس تم” فضاء نے کہا
فارس اپنے سوچوں سے باہر آیا۔
“میں تم سے پوچھ رہی ہوں” فضاء نے کہا
“میں ٹھیک تم بتاؤ”
“ہاں میں بھی ٹھیک ہوں اچھا رانیہ اور نمرہ کہاں ہے”
“اپنے کمرے میں ہیں”
“او کے”
“یہ تمھارے ہاتھ میں کیا ہے” فارس نے پوچھا۔
“مٹی”
“مٹی۔۔”
“ہاں وہ رانیہ نے منگوائیں تھی”
“کیوں”
“پتہ نہیں بس اتنا کہا کہ مٹی لے کر آ جاؤ”
“رانیہ کو کیا ضرورت پر گئی”
“اللہ جانے اب اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے”
“رانیہ ہے، سارا دن کوئی شرارت کے تلاش میں رہتی ہے”
“چپ کرو وہ میری بیسٹ فرینڈ ہے”
“ویسے دیہان رکھنا تم مٹی لے کر جا رہی ہو، تمھارے ساتھ ہی اس مٹی سے کچھ نہ کردے”
فضاء تو بے چاری اس وقت ہی ڈر گئی کہ رانیہ اس مٹی سے کیا کرے گی اور فارس نے ہنستے ہوئے اس کے بالوں کی پونی نکال دی جس سے فضاء کے بال چہرے پر آگئے۔
“فارس میرے بال یہ تم نے کیا کیا میں نے کتنی مشکل سے پونی بنائی تھی میری پونی دو”
“نہیں میں نہیں دے رہا”
“چپ چاپ دو ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں”
“اچھا۔۔تو بھول جاؤ اپنی پونی ”
“دیکھو تم اس پونی کا کیا کرو گے”
“میں اپنی گرل فرینڈ کو دوں گا”
“اور میں دینے دوں گی”
“کیوں کیا کرو گی”
“میں۔۔۔۔ ہاں میں بہت برا کرونگی”
“کیا”
فضاء نے اپنی تھیلی میں ہاتھ ڈالا اور تھوری مٹی فارس پر پھینکی”
“دور رکھو اسے میں ابھی تیار ہوا ہوں”
“تو میری پونی دو” اس نے ایک اور بار مٹی پھینکی
“اچھا نہ لے لو”
فضاء نے اس کے ہاتھ سے پونی لی اور تھوری اور مٹی اس پر پھینک کر بھاگی۔
“میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں”
“پہلے پکڑ کر تو دیکھاؤ” یہ کہتے ہوئی وہ بھاگ گئی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...