کئی ماہ گزر گئے شادی کے دن بھی انھی دنوں میں گزر گئے۔ عاص نے اپنے اور ایلیاء کے درمیان بنی دیوار کو مزید اونچا کر دیا تھا۔ وہ اپنے کہے کے مطابق ایلیاء سے رشتہ نبھا رہا تھا۔ اس لیے ایلیاء سے بات چیت کا سلسلہ بھی بس ضرورت تک محدود تھا۔
آج صبح ولیمے کے اگلے روز ایلیاء سبز شلوار، قمیض کے ساتھ ہمرنگ دوپٹہ اوڑھے آئینے میں اپنے عکس کو گھور رہی تھی۔ دروازے پر دستک دے کر عاص کمرے میں داخل ہوا۔ وہ جو سوچوں میں سنجیدگی سے کھوئی ہوئی تھی۔ عاص کو دیکھ کر ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرے پلٹ کر اس کی جانب دیکھا۔
“کہیے حضور… پھر لے جارہے ہیں؟” ایلیاء نے اسے تنگ کرنے کا سوچا تھا۔ عاص اسے نظر انداز کرتے ہوئے اپنی الماری کی جانب چل دیا۔
“ساری زندگی یوں ہی بے زبانی میں گزارو گے؟” ایلیاء کے سوال پر عاص نے ایک نظر اسے گھورا اور اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔
“تم تیار ہو تو باہر چلی جاو۔ ڈرائیور تمھیں تمھارے بابا کے گھر چھوڑ آئے گا۔” عاص کی بات سن کر ایلیاء نے اس کا بازو تھام کر اپنی طرف متوجہ کیا۔
“تمھاری بیوی ہوں… جس گھر میں جانا ہے وہ تمھارا سسرال لگتا ہے… اس لیے وہاں لے کر بھی تم ہی جاو گے۔” ایلیاء نے آخری جملہ حکم دینے کے انداز میں کہا۔ عاص نے جھٹکے سے اپنا بازو چھڑوایا۔
” دماغ خراب نہ کرو…” وہ کہتے ہوئے بیڈ کی جانب چل دیا۔ ” تمھیں جانا تھا تو بھیج رہا ہوں۔ نہیں جانا تو چپ کرکے رہو یہاں۔” عاص نے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل سے اپنی فائل نکالی۔
“عاص…” ایلیاء نے احتجاجاً اسے پکارا اور اس کا بازو تھام کر روکا۔
” تم آفس چلے جاو گے۔ میں اکیلے گھر میں بور ہوتی رہوں گی۔” ایلیاء کی بات سن کر اس نے سانس خارج کرکے اس کی سمت دیکھا۔
” بڑا شوق تھا میری زندگی میں شامل ہونے کا تو اب شکوہ کیوں کر رہی ہو؟” عاص نے سرد لہجے میں کہا۔
“ساری ناراضگی اور غصہ صرف میرے لیے ہی ہے؟ اپنی فیملی سے بات کرتے ہوئے توپھول برساتے ہو۔” ایلیاء آنکھیں گھما کر کہتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ گئی۔
” مجھے اپنی فیملی یاد آرہی ہے اور شادی کے بعد سے تمھارا یہ برفیلا رویہ مجھے زہر لگ رہا ہے۔ ” ایلیاء نے اداس لہجے میں کہا اور شکوہ کرتی نگاہوں سے عاص کو دیکھا۔
“ابھی کل ہی تو ریسیپشن پر ملاقات ہوئی تھی؟” عاص نے ماتھے پر بل لیے سوال کیا ایلیاء نے آنکھیں سکیڑ کر اسے گھورا۔
“اتنا ہی یاد آرہی ہے تو وہاں مستقل سیٹل ہوجاو اور جان بخشو میری۔” عاص نے طنزیہ کہا۔
“بولتے وقت اسی بات کا لحاظ کرلیا کرو کہ میں تمھیں چاہتی ہوں لیکن تم تو…” ایلیاء نے اداس لہجے میں زرا مسکرا کر کہا پھر سر جھٹک کر رخ موڑ کے بیڈ سے اٹھ کر کھڑکی کی جانب چلی گئی۔
“رہنے دو اب میں نے کسی کے ساتھ بھی گھر نہیں جانا۔ تم جاو اس گھر کے اچھے بیٹے ہونے کا فرض نبھاو۔” ایلیاء نے کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے عقب میں کھڑے عاص سے کہا۔
عاص نے بے یقینی سے سر ہلایا اور زور سے دروازہ بند کیا۔ کیا عجیب قسم کی لڑکی تھی؟ عاص سوچ کر بس باہر آگیا۔
کچھ دیر بعد رقیہ اس کے کمرے میں دستک دے کر داخل ہوئی۔ ایلیاء فرش پر بیٹھے ہوئے ماربل کی بالز سے لڑیاں تیار کر رہی تھی۔
“اپنا کام سمیٹو اور تیار ہوجاو۔ ہم تمھارے گھر جارہے ہیں۔” رقیہ کے حکم پر اس نے حیرت سے انھیں دیکھا۔
اسے اندازہ تھا کہ رقیہ اپنے لاڈلے بیٹے کی وجہ سے ایلیاء سے مطمئن نہیں ہیں۔ اس لیے اسے یقین تھا ہو نہ ہو آفس جاتے ہوئے عاص ہی نے ان کو کہا ہوگا کہ ایلیاء کو اس کے گھر لے جائیں۔ ایلیاء کام ایک طرف رکھ کر کھڑی ہوگئی۔
“آپ کو عاص نے کہا ہے؟” ایلیاء کے سوال پر رقیہ نے نظر پھیر کر دوسری سمت دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
“سوری آنٹی… فلحال آپ چلی جائیں۔ میرے سر میں درد ہے میں نہیں جاسکتی۔” ایلیاء نے بہانا بنایا۔ رقیہ نے اسے بھویں تان کر نظروں سے جانچا اور رخ موڑ کر باہر چلی گئی۔
“بیٹے کی نفرت کافی نہیں تھی۔ جو ان کی بھی مفت میں مل گئی۔” ایلیاء نے اپنی سوچ پر اثبات میں سر ہلایا اور دوبارہ بیٹھ کر کام کرنے لگ گئی۔
عاص کے انکار پر بھی یونس نے شادی کے لیے اس پر دباو ڈالے رکھا۔ عاص نے اپنے انکار کی وجہ تو نہیں بتائی لیکن رقیہ کو اندازہ تھا کہ ان کے بیٹے کو ایلیاء سے کسی قسم کا کوئی رشتہ نہیں رکھنا تھا۔ اس لیے وہ بھی ایلیاء سے کم ہی مخاطب ہوتی تھیں اور باقی عقیل، منتہی اور سلیمان کو بھی ایلیاء سے دور رہنے کا حکم جاری کیا ہوا تھا۔
سارا دن ایلیاء اپنے کمرے میں بند رہتی۔ رقیہ سے بچ کر منتہی اس سے باتیں کر لیتی تھی۔ عقیل اور منتہی کے بچوں سے ایلیاء کی اچھی دوستی ہوگئی تھی۔ یہ تو شکر ہے کہ ایلیاء نے مغربی پہناوئے ترک کردئیے تھے کیونکہ منتہی نے اسے رقیہ کی پسند ، نا پسند کا اچھے سے بتا رکھا تھا۔
چند روز گزرنے کے بعد بھی عاص کا رویہ پہلے جیسا سرد ہی تھا۔ چھٹی کا دن تھا جب ایلیاء کچن میں پانی لینے آئی تھی۔ دوپہر کے کھانے کی تیاری چل رہی تھی۔ سب خواتین کچن میں موجود تھیں۔ منتہی نے ٹرے اٹھا کر ایلیاء کے ہاتھ میں پکڑائی جس میں سالن کا باول تھا۔ ایلیاء نے منتہی کے احکام کے مطابق باول کو میز پر رکھنا تھا۔ میز کے قریب رکھی کرسی پر رقیہ بیٹھیں تھیں۔ ایلیاء نے ٹرے میز پر رکھنا چاہی لیکن سالن کا باول ٹرے میں سلپ ہوکر رقیہ کے قریب میز پر گر گیا۔ جس سے تھوڑا گرم سالن ان کے ہاتھ پر چھلک گیا اور باقی میز اور فرش پر گرا۔
رقیہ کی چیخ اور باول کے زمین سے ٹکرانے کی آواز سن کر لیونگ روم میں موجود عقیل بھی وہاں پہنچ گیا۔ ایلیاء نے معزرت کرتے ہوئے اپنی بے گناہی کی گواہی بھی دی۔
” تمھیں کام بگاڑنے کے سوا آتا ہی کیا ہے۔ میرے بچے کو تو پریشان کر رکھا ہے۔ اب جلا کر میری جان بھی لے لو۔” رقیہ تو اس پر برس پڑی تھیں۔ منتہی نے افسوس سے ایلیاء کی جانب دیکھا اور اپنی ساس کا ہاتھ صاف کرنے لگیں۔
“ایکسکیوز می۔ بائے مسٹیک باول گرا ہے۔ جس کی میں معافی مانگ رہی ہوں۔” ایلیاء کے لہجے میں زرا تلخی ابھری۔
“انداز تو دیکھو.. یہ کوئی تمیز ہے بڑوں سے بات کرنے کی؟” رقیہ کی بات پر اس نے سر جھٹک کر دوسری سمت دیکھا۔
عقیل کے پیچھے ہی عاص کھڑا تھا وہ بھی سنجیدہ تاثرات کے ساتھ یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ ایلیاء سب نظرانداز کر کے وہاں سے باہر چلی گئی۔ جب کے رقیہ اسے بلاتی رہ گئیں۔ عاص بھی کچن میں داخل ہوا اور رقیہ کے پاس رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔
” امی بس کر دیں ۔ وہ چلی گئی ہے۔” عقیل نرمی سے کہتا ہوا اپنی والدہ کے قریب گیا۔
” ہماری زندگیوں سے چلی جائے تو اچھا ہے۔ میرے بیٹے کی خوشیاں نگل گئی۔ ” انھوں نے آخری جملہ عاص کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر کہا جو نظریں جھکائے ان کے دوسرے ہاتھ پر کریم لگا رہا گھا۔
“اپنے اعمال نا خراب کریں۔ چلیں میرے ساتھ چل کر اپنے کمرے میں آرام کریں۔ ” عقیل نے ان کو ایک بازو کے احصار میں لیتے ہوئے کہا اور اپنے ساتھ لگائے کچن سے باہر چل دیا۔
جاتے جاتے منتہی کو آنکھوں سے عاص کو سمجھانے کا اشارہ بھی کر دیا۔ منتہی نے پلکیں جھپکا کر اثبات میں سر ہلایا۔ان کے جاتے ہی منتہی نے کریم اٹھا کر عاص کی نظروں کے سامنے لہرائی۔
” اب جاکر بیگم صاحبہ کو بھی دیکھ لو۔ ان کے پاوں سلامت ہیں یا نہیں؟” منتہی نے آنکھ دبا کر کہا کیونکہ کچن سے باہر جاتے ہوئے سالن سے بھیگی ایک سینڈل کے چند قدموں کے نشان فرش پر چھپے ہوئے سب نے دیکھ لیے تھے۔
•••••••
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...