لارس کوہلبرگ کی تحقیق اس پر تھی کہ یہ معلوم کیا جائے کہ عمر کے ساتھ بچے کی اخلاقی ریزننگ کیسے تبدیل ہوتی ہے۔ اور اس پر شماریاتی مشاہدات کئے جائیں۔
اس کے لئے سوالات بنائے جیسا کہ،
“زید کی بیوی کو دوا نہ ملی تو مر جائے گی۔ رات کے اس پہر میں میڈیکل سٹور بند ہے۔ کیا زید کو دکان کا تالہ توڑ کر دوا چُرا لینی چاہیے؟”۔
“شیما کی چھوٹی بہن اپنی والدہ سے جھوٹ بول رہی ہے۔ کیا شیما کو خاموش رہنا چاہیے؟”۔
اہم چیز سوالات کے جواب نہیں تھے بلکہ یہ کہ بچے اپنے جواب کی کیا وضاحت دیتے ہیں۔
اس پر کوہلبرگ نے بچوں کی سوشل دنیا میں پروگریس کا گراف بنایا جس کی چھ سٹیجز تھیں۔
چھوٹے بچے سطحی فیچر دیکھ کر بتاتے تھے۔ (اگر کوئی بڑا اس کام کرنے کی سزا دے گا تو کام یہ غلط ہے)۔ یہاں پر دو سٹیج “ابتدائی” ہیں۔
ابتدائی دو سٹیج کے بعد جب بچے سکول کے طالبعلم ہیں تو وہ قوانین اور سوشل عادات کے الفاظ کو اہمیت دیتے ہیں۔ یہ legalism کی سٹیج ہے۔ اگر آپ بہن بھائیوں کے ساتھ بچپن میں لڑتے رہے ہیں تو بہت کچھ یاد کر سکتے ہوں گے۔ (میں تمہیں نہیں مار رہا، تہمارا اپنا ہاتھ تمہیں مار رہا ہے)۔ اس سطح میں اتھارٹی کی عزت زیادہ ہوتی ہے۔ خواہ الفاظ کی حد تک ہو، نہ کہ ان کی روح کے طور پر۔ یہاں پر دو سٹیج روایتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر بلوغت کی عمر میں تجریدی سوچ کی صلاحیت آتی ہے۔ اور اس وقت زیادہ بڑے سوالات سر اٹھاتے ہیں۔ یہاں پر بچے سوال کرنے لگتے ہیں کہ انصاف کیا ہے؟ اتھارٹی کیا ہے؟ قوانین اور اصولوں کی وجہ کیا ہے؟ اس وقت میں بھی قوانین اور قواعد کا احترام ہوتا ہے لیکن ان کو توڑنے کی وجہ بھی تلاش کی جا سکتی ہے۔ کیا یہ قانون درست بھی ہے؟ یہاں پر بچے “اخلاقی فلسفی” بن چکے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے لئے باربط اخلاقی نظام تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ اور اپنی ڈویلپمنٹ کی ان سٹیجز پر وہ اخلاقی ڈویلپمنٹ میں ڈرامائی پیش قدمی کرتے ہیں۔ کئی لوگوں کے لئے یہ روایت سے بغاوت کی عمر ہے۔
کوہلبرگ کے خیالات اخلاقی ریزننگ کی ڈویلپمنٹ سمجھنے کے لئے اہم ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مارک ٹوئین نے کہا تھا کہ “اگر آپ کے پاس ہتھوڑا ہو تو ہر چیز کیل لگتی ہے”۔ پیاگے اور کوہلبرگ کے تجربات سے حاصل کردہ نتائج بہت اہم پہلووٗں پر روشنی ڈالتے تھے۔ لیکن یہ بھی ایسا ہتھوڑا بن گئے۔
پیاگے اور کوہلبرگ کا خیال تھا کہ والدین یا اتھارٹی اخلاقی ڈویلپمنٹ کے لئے رکاوٹ ہیں۔ بچوں کو فزیکل دنیا سے کھیلنے اور سیکھنے دیں۔ انہیں لیکچر مت دیں۔ اخلاقی اسباق نہ دیں۔ اور فرمانبرداری جیسے چیزیں تو بالکل مت سکھائیں۔ ایسا کرنا ان کی نشوونما روک دے گا۔ یہ احتیاط سے کی گئی دیانتدار ریسرچ تھی اور اس کا فریم ورک اس وقت کی سماجی تبدیلیوں سے مطابقت رکھتا تھا۔ اس میں روایت، اتھارٹی، ہائیرارکی تمسخر کے الفاظ بن گئے۔ ستر سے نوے کی دہائی تک یہ نکتہ نگاہ غالب رہا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...