رابعہ عالم نےاب اٹھتے بیٹھتے شاہ ویر کو شادی کے لئے زور دینا شروع کردیا تھا۔وہ ماؤں کی ایموشنل بلیک میلنگ والے حربے پر اتر آئ تھیں۔وہ جانتی تھیں جلد ہی شاہویر انکی اس بلیک میلنگ کے آگے گٹھنے ٹیک دے گا۔اور اسلئے آجکل انکا مقصد بس شاہویر کو شادی کے لئے رضا مند کرنا تھا۔اسوقت بھی وہ دونوں شام کی چاۓ پی رہے تھے جب رابعہ عالم نے اذلان کاذکر چھیڑتے ہوۓ کہا۔
“جب سے اذلان کو گود میں لیا ہے،میرا دل بھی اب پوتے پوتی کے لئے ہمک رہا ہے۔کتنا عرصہ ہوگیا اس گھر نے بچوں کی قلقاریاں نہیں سنی۔”
انہوں نے زمانے بھر کی مسکینیت اپنے لہجے میں طاری کرلی تھی۔”
“ممی تو ارحم کو بلا لیں نہ،اب تو اذلان کے ڈاکومنٹس بھی بن گئے ہوں گے۔میری بھی ملاقات نہیں ہوئ ہے اب تک۔اور آپکا بچوں کو کھلانے کا ارمان بھی پورا ہوجائے گا۔”
شاہ ویر نے سب سمجھتے ہوۓبھی نظر انداز کرکے انکو مشورہ دیا۔جس کو سن کے رابعہ عالم کو سخت غصہ آیا۔
“شاہ ویر تم کوپتہ ہےمیں تمھارےبچوں کی بات کرہی ہوں،ارحم کتنے دن کے لئے آجاۓ گی رہنے ہمارے پاس؟اسکا اپنا گھر ہے،شوہر ہے ،ذمہ داریاں ہیں۔تم آخر کب تک ایسے رہو گے۔”
انہوں نے اسکو آڑے ہاتھوں لیا۔
“ممی آپکوپتہ ہے میں شادی کر چکا ہوں۔اوردوبارہ یہ ڈھول گلے میں لٹکانے کا کوئی شوق نہیں ہےمجھے۔”
اس نے کوفت سے جواب دیا۔
“ٹھیک ہے کرلو من مانی،آس لئے دنیا سے چلی جاؤنگی۔”
انہوں نے ایک اور ایموشنل ڈائلاگ مارا اور اٹھ کر اندر چلی گئیں۔شاہ ویر ایک لمبی سانس بھر کے رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرم بہت تندہی سے اپناکام سر انجام دے رہی تھی،منتھ کی کلوزنگ چل رہی تھی،اور اسکو شاہویرکو ساری رپورٹ بنا کے ہینڈ اوور کرنی تھی۔
اسنے آج صبح سے کچھ کھایا بھی نہیں تھا،تب ہی احد ہاتھ میں دو کافی کے کپس اور گرلڈ سینڈوچ لئے آیا۔میرم بہت ڈائٹ کانشس تھی،اور اسکا اندازہ احد کو اسکے ساتھ گزارے چند دنوں میں ہی ہوگیا تھا۔میرم نے ایک تشکرانہ نظر احد پر ڈالی اور تھنکس کہ کر کافی اور سینڈوچ لیکر رکھ لئے۔
“بندہ مروتاً ہی بیٹھنے ہو کہہ دیتا ہے”۔
احد نے کافی کا ایک سپ لیتے ہوۓ کہا۔
“جی ،صحیع فرمایا،تم کوبیٹھنے کاکہ کرمجھ کو شاہویر سر سے کھڑے کھڑے بے عزت نہیں ہونا ہے”۔
اس نےلیپ ٹاپ سےنظریں ہٹاۓ بغیر کہا۔گو کہ انکی دوستی کو بہت کم دن ہوۓ تھے مگران میں ایک بے تکلفی قائم ہوچکی تھی۔ایک دوسرے کو چھوٹےچھوٹے جملے کسنا انکی عادت ہو چکی تھی۔
“کیوں بھائی میں ایسا کیا کردونگا کہ تم کو بے عزت ہونا پڑے گا؟”
احد نے مصنوعی ناراضگی سے کہا۔
“یہی جوپچھلے پانچ منٹ سے کر رہے ہو،میں اپنے کام پر فوکس نہیں کرپارہی ہوں تمھاری وجہ سے”۔
میرم نے لیپ ٹاپ فولڈ کرتے ہوۓ کہا۔
“ایگزیکٹلی ،میں یہی چاہتا تھا”۔
اس نے بند لیپ ٹاپ کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔
“چلو اب جلدی سے سینڈوچ ان ریپ کرو اور شروع ہوجاؤ۔مجھے پتہ تھا میرے جاتے ہی تم پھر کام میں لگ کے اسکو نہیں کھاؤ گی۔”
احد نے فکر مند ماؤں کی طرح اسکو کھانے پر لیکچر دیا۔میرم کو اسکا یہ انداز دیکھ کر ہنسی آگئ۔
“اب ہنس کیوں رہی ہو؟”
احد نے مشکوک نظروں سے دیکھا۔
“کچھ نہیں سوچ رہی ہوں کتنی لکی ہوں میں کہ تم جیسادوست ہے میرے پاس”
اس نے مسکرا کر دیکھتے ہوۓ کہا۔
“اچھا نو بٹرنگ ،بس اسٹارٹ ہوجاؤ۔”
اور دونوں چھوٹی چھوٹی باتوں کے دوران اپنا سینڈوچ ختم کرنے لگے۔دن گزرنے کے ساتھ ساتھ احد کے لئے یہ لڑکی بہت خاص ہوتی جارہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سجل ابھی شاور لیکر باہر نکلی تھی،بال تولیے میں بندھے تھے،کپڑوں کی سلیکشن بتا رہی تھی وہ کہیں جارہی ہے۔
جب کلثوم بیگم کمرے میں داخل ہوئیں،تو وہ اپنا میک اپ بیگ کھولے کپڑوں کی مناسبت سے لپ اسٹک کھول کھول کر چیک کر رہی تھی،دراصل دو دن بعد اسجد کی سالگرہ تھی،سجل نے ہمیشہ ہی اسجد کی سالگرہ بہت دھوم دھام سے منائ تھی،اس بار اسکی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔
اس نے شاپنگ کا ارادہ کیا کہ پہلے گفٹ لیکر آجاۓ،پھر ڈیسائد کرے گی کہ وہ اسکو سیلیبریٹ کیسے کرے گی۔
“ارے واہ کیا بات ہے،آج تو ما شااللہ میری بیٹی کا موڈ بہت خوشگوار ہے،کہاں کی تیاری ہے”؟
انہوں نے اس کی تیاری پر نظر ڈالتے ہوۓ کہا۔
“مما وہ میں شاپنگ پر جارہی تھی،اسجد کی برتھ ڈے آرہی ہے نہ،بس تیار ہوکر آپکو بتانے والی تھی۔”
لائٹ سا فاؤنڈیشن،لپ گلوس اور لائنر لگا کر وہ ہلکا پھلکا تیار ہوچکی تھی۔اب وہ ڈرار کھول کر ہییر ڈرائیر نکال رہی تھی۔
“اچھا ہاں مجھے تو بھول ہی گیا تھا کہ اسجد کی برتھ ڈے ہے”۔
کلثوم بیگم نے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوۓ کہا۔سجل نے مسکراتے ہوۓ ڈرائیر کا پلگ لگایا۔
“میں نے بچوں کو سلادیا ہے،ورنہ مارکیٹ جاکر ستاتے”۔
اس نے رولر برش کو بالوں پر لپیٹتے ہوۓ کہا۔ڈرائیر کا شور پورے کمرے میں پھیلا تھا،وہ بہت انہماک سے اپنے بال ڈرائی کر رہی تھی،کلثوم بیگم خاموشی سے اسکو آئینے میں دیکھے گئیں۔وہ اس ٹائم اسکے گھر جانے کا ذکر کرکے اس کا موڈ خراب نہیں کرنا چاہتی تھیں۔سجل بال سیٹ کرکے فری ہوئی،تو وہ بھی انکے برابر آکر بیٹھ گئی۔
“مما آپکو لگتا ہے مجھے واپس چلے جانا چاہیے؟؟”
اس نے ااپنے ہاتھوں کو دیکھتے ہوۓ کہا۔
“اگر آپ میری جگہ ہوتی تو کیا کرتیں؟؟”
اس نے انکو دیکھتے ہوۓ پوچھا۔
“بیٹا دیکھو میں یہ نہیں کہ رہی کہ تمھارا غصہ ناجائز تھا،مگر عورت ہی گھر بساتی ہے،اور عورت ہی گھر اجاڑتی ہے۔اور جہاں تک یہ سوال ہے میں تمھاری جگہ ہوتی تو بیٹا میں کبھی گھر چھوڑ کے ہی نہ آتی،عورت گھر سے نکلتی ہے تو اپنے ساتھ شوہر کی عزت بھی پوری دنیا میں خراب کرتی ہے۔لوگوں کو باتیں بنانے کا موقع دیتی ہے،مسئلے گھر کی چار دیواری میں حل ہوجائیں،تو عورت کی عزت شوہر کی نظر میں بڑھ جاتی ہے۔میں نے کبھی تم کواپنی زندگی کے باب نہیں سناۓ،مگر تمھاری دادی 4 جہاں آرا کے برابر تھیں۔ میری زندگی میں روز ایک نیا امتحان ہوتا تھا۔اورپھرماشااللہ تمھارےساتھ تو اسجدہے،والدین حیات ہیں،میرے پاس بس میرا اللہ تھا اور وہی مجھے کافی تھا۔اور تم دیکھ لو جوانی میں دی ہوئی قربانیاں بڑھاپے میں عزت کا باعث بنتی ہے،آج اس گھر کا ہرفیصلہ تمھارے پاپا میرے اوپر چھوڑتے ہیں،ایک وقت تھا جب میں سو بھی اپنی مرضی سے نہیں سکتی تھی،اللہ جنت نصیب کرےاکبر ماموں کو،فرشتہ بن کر آۓ تھے میری زندگی میں وہ۔”
کلثوم بیگم آہستہ آہستہ سجل کواپنی آپ بیتی سنانے لگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نساء کی پیدائش کی خبر وقار احمد کو آفس میں ملی تھی،وہ جلدی سے سب کام چھوڑ کر ہاسپٹل پہنچے۔
انکو دیکھتے ہی شاکرہ بیگم نے زور دار آوازمیں رونا شروع کردیا۔خود بخود انکی نظریں کلثوم کے بیڈ تک گئیں،کلثوم آنکھیں موندیں لیٹی تھی،اور اب انکے آنے پر آنکھ کھول کے انکو دیکھا تھا،کلثوم کی طرف سے اطمینان ہونے پرانہوں نے بے ساختہ جھولے کو دیکھا جہاں ایک ننھا وجود گلابی چادر میں لپٹا سکون سے سو رہا تھا۔وہ جلدی سے جھولے کی طرف گئے اور بچی کو اٹھاکر گود میں لےکر شاکرہ بیگم کی طرف آۓ۔
“کیا ہوا اماں کیوں رورہی ہیں؟”
انہوں نے بچی کوپیار کرتے ہوۓ پوچھا۔
“اے لو،وقار یہ بھی کوئی پوچھنے کا سوال ہے،یہ عورت تم کو دوسری بار بھی بیٹانہیں دےپائی،اور تم پوچھتے ہو کہ رونے کی وجہ کیا ہے؟”
انہوں نے چمک کے پوچھا۔
“حد کرتی ہیں آپ اماں،اللہ پاک نےمجھےنعمت سے نوازا ہے،اورآپ کیسی زمانہ جاہلیت کی بات کرتی ہیں”۔
وقار احمدنے ناگواری سے کہتے ہوۓ بچی کو واپس جھولے میں لٹایا۔اپنے فرماںبرداربیٹے کے منہ سے ایسی بات سن کر تو شاکرہ بیگم آگ بگولہ ہوگئیں،وہ جو یہ سوچے بیٹھی تھیں کہ کلثوم کے اس “گناہ” کی سزا تو وقاراحمد سے ہاتھ کے ہاتھ دلوائیں گی،بھڑک کر بولیں۔
“وقار ایسی کونسی دولت مل گیئ تم کو جو اس کل کی آئی عورت اور اس چھٹانک بھر لڑکی کے لئے ماں سےزبان چلا رہے ہو؟”
جب ہی اکبر ماموں کمرے میں داخل ہوۓ۔
“مبارک ہو وقار،ماشاللہ رحمت بھیجی ہے اللہ پاک نےدوسری بار تمھارے گھر”۔
انہوں نے وقار احمد کو گلے لگاتے ہوۓ کہا۔
“جی ماموں ،بس اللہ کاکرم ہے”۔
انہوںنے مٹھائی کا ڈبہ کھول کر ماموں کی طرف بڑھایا جو وہ آتے وقت لے آۓ تھےمگر اس کے کھلنے کی اب تک نوبت نہیں آئی تھی۔ماموں نے ایک ٹکڑا اٹھاتے ہوۓ ڈبہ شاکرہ بیگم کی طرف بڑھایا۔
“لیں آپا،منہ میٹھا کریں
“ارے ہٹو دوسری بار بھی بیٹی ہوئ ہے اور یہاں تو ایسے شادیانے بج رہے ہیں جیسے ہفت اقلیم کی دولت مل گئی ہو”۔
انہوں نے تنفر سےمٹھائی کے ڈبہ کو ہٹاتےہوۓ کہا۔وقار احمدکا دل بہت برا ہوا مگر وہ چپ رہے۔
“ارے آپا کیسی بات کرتی ہیں،بیٹی تورحمت ہوتی ہے،ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تواللہ پاک نے بیٹیوں سے نوازا تھا”۔
اکبرماموں نے بچی کے کان میں اذان دینے کے لئے اسکو اٹھایا۔
“ہاں اکبر جب خود کے آنگن میں پوتے کھیل رہے ہوں تو دوسروں کو نصیحت کرنابہت آسان ہوتا ہے”۔
شاکرہ بیگم نے برقع اٹھاتے ہوۓ کہا۔اس ماحول میں انکا وہاں رہنا ہرگز آسان نہ تھا،کم ازکم وقارنے کلثوم کو ہی کچھ کہ سن لیا ہوتا تو انکے جلتے دل پر پھوار پڑ جاتی۔وہ بڑبڑاتی ہوئی کمرے سے نکل گئیں۔
اکبر ماموں اور وقار احمدتاسف سے انکو جاتا دیکھتے رہے۔کلثوم ان سب باتوں سے بے نیاز آنکھیں موندے لیٹی تھی،اب اسکو ان باتوں سے کوئی فرق نہ پڑتا تھا۔اکبر ماموں نے اذان دے کر بچی وقار احمد کو پکڑائی۔
“اللہ پاک اسکے نصیب اچھے کرے،بس دونوں بچیوں کے نصیب انکی ماں جیسے نہ ہوں”۔
ماموں نے دکھ سے کلثوم کو دیکھتے ہوۓ کہا۔وقار احمد کو گویا کرنٹ لگا۔یہ تو انہوں نے کبھی سوچا ہی نہ تھا کہ کل کو انکی بیٹیوں کو بھی رخصت ہونا ہوگا،تو کیا وہ جو سلوک وہ کلثوم سے کر رہے ہیں،اپنی بیٹیوں کے ساتھ برداشت کر پایئں گے،ان کے ضمیر نے ان سے سوال کیا۔وہ اندر تک کانپ گئے تھے۔
“اچھا وقار عصر کا وقت ہورہا ہے میں نماز پڑھ کر آتا ہوں۔”
اکبر ماموں اٹھ کر کمرے سے چلے گئے۔وقار احمد نے بچی کو جھولے میں لٹایا اور خود کلثوم کے پاس جگہ بنا کر بیٹھ گئے۔انہوں نے کلثوم کے سر پر ہاتھ رکھا اوربولے۔
“ایک لمحے کو میں ڈر گیا تھا کہ شایدمیں نے تم کو۔۔۔۔،”
پھر سر جھٹک کر چپ ہوگئے۔کلثوم تو حیرت سے منہ کھولے انکو دیکھ رہی تھی۔
“میں نے جان لیا ہے تم میرے لئے بہت اہم ہو،تم بھی ایک ماں ہو،میرے بچوں کی ماں،تمہارا بھی اتنا ہی رتبہ ہے جتنا میرے لئے میری ماں کا،تمھارے ساتھ آئندہ کوئ زیادتی نہیں ہوگی۔”
انہوں نے کلثوم کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر یقین دہانی کروائی۔کلثوم کو تو لگ رہا تھاوہ خوشی سے بے ہوش ہوجاۓ گی۔
بیٹیاں رحمت ہوتی ہیں یہ تو وہ ہمیشہ سنتی آئی تھی،مگر رحمت کا ایسا فوری مظاہرہ،اس نے دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ آخر آٹھ سال بعد صحیع ،اسکو اسکامقام ملنے جارہا تھا۔
“کیا سوچ رہی ہو؟”
“میں سوچ رہی ہوں اسکا نام نساء رکھوں گی”۔
کلثوم نے پیار سے جھولے کو دیکھتے ہوۓ کہا۔
“بہت پیارا نام ہے،تو آج سے ہماری دوسری پری نساء وقار ہوگی۔”
وقار احمد کے لہجے میں بیٹی کے لئے پیار ہی پیار تھا۔
“کیا مطلب ہے اسکا؟؟”
وقار احمد نے کلثوم سے پوچھا۔
“نساء عربی زبان میں عورت کو کہتے ہیں، میں نے سورہ نساء کے نام پر اسکا نام رکھا ہے،سورہ نساء عورتوں کے حقوق کے بارے میں ہے۔آج مجھے اپنے سارے حقوق مل گئے”
۔کلثوم نےگلو گیر لہجے میں کہا۔وقار احمد دھیرے سے مسکرا دئیے۔
“تم آرام کرو”۔
وقار احمد نے کلثوم کا سر تھپکتے ہوۓ کہا۔کلثوم نے مسکرا کر آنکھیں موند لیں۔
وہ سوچ رہی تھی،آج ایک کلثوم کی زندگی آسان ہوگئی ہے،پتہ نہیں کتنی کلثوم ابھی بھی اچھے دن کی آس میں ہوںگی۔
عورت ہر روپ میں رحمت ہے،چاہے وہ ماں ہو،بیٹی ہو،بیوی یا بہن بشرطیکہ وہ خود اپنے تقدس کو پامال نہ کرے۔صرف مرد ہی عورت کے حقوق نہیں مارتے ہیں،یہ عورت بھی ہے جو دوسری عورت کے حقوق غصب کرتی ہے۔کبھی ساس بن کر،تو کبھی بہو بن کر،کبھی سوتن بن کر تو کبھی سہیلی بن کر،کبھی بھابھی بن کر تو کبھی نند بن کر،اور کبھی دوسری عورت کے آشیانے پر اپنا گھر کھڑا کرکے۔وہ اپنے لئے تو دنیا کی ہرآسانی چاہتی ہے،مگر دوسری کے لئے دنیا تنگ کرنے میں اسکو راحت ملتی ہے.بہرحال کلثوم کی زندگی آسان ہوگئی تھی،جس عورت کا شوہر اسکے ساتھ ہو،وہ دنیا کے کسی بھی طوفان کامقابلہ کر سکتی ہے۔طمانیت اسکےچہرے پر صاف عیاں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...