۱۔ ایک مکڑا اور مکھی
۲۔ ایک پہاڑ اور گلہری
۳۔ ایک گائے اور بکری
۴۔ بچے کی دعا
۵۔ ہمدردی
۶۔ ماں کا خواب
۷۔ پرندے کی فریاد
اِن نظموں کی کل تعداد سات ہے۔ سیار گاہ میں مقامات بھی سات تھے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے؟ اِس کا جواب آپ کو نظموں کی سیر کر کے معلوم کرنا ہے۔ اِس باغ کا اُصول یہ ہے کہ یہاں ہر بات اپنے تجربے سے معلوم کی جاتی ہے۔
پہلی نظم
ایک مکڑا اور مکھی
۶۔ مکڑے کی پیشکش
اِک دن کسی مکھی سے یہ کہنے لگا مکڑا
اِس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمھارا
لیکن مری کٹیا کی نہ جاگی کبھی قسمت
بھولے سے کبھی تم نے یہاں پاؤں نہ رکھا
غیروں سے نہ ملیے تو کوئی بات نہیں ہے
اپنوں سے مگر چاہیے یوں کھنچ کے نہ رہنا
آؤ جو مرے گھر میں تو عزت ہے یہ میری
وہ سامنے سیڑھی ہے جو منظور ہو آنا
۷۔ پہلا جھوٹ
مکھی مکڑے کی خوراک ہوتی ہے۔ مکڑے کا یہ کہنا کہ مکھی کو اُس سے کھنچ کر نہیں رہنا چاہیے ایک جھوٹ ہے۔ قدرت کا نظام یہ ہے کہ ہر چیز میں اپنی حفاظت کا احساس رکھا گیا ہے۔ یہ احساس مکھی میں بھی ہے اور وہ اِسی لیے مکڑے سے کھنچ کر رہتی ہے۔ قدرت کا نظام خدا نے بنایا ہے۔ اُس کے بارے میں جھوٹ بولنا خدا کے بارے میں جھوٹ بولنا ہے۔
۸۔ مکھی کا جواب
مکھی نے سنی بات جو مکڑے کی تو بولی
حضرت! کسی نادان کو دیجے گا یہ دھوکا
اِس جال میں مکھی کبھی آنے کی نہیں ہے
جو آپ کی سیڑھی پہ چڑھا، پھر نہیں اُترا
۹۔ مکڑے کا جال
مکڑے نے کہا واہ! فریبی مجھے سمجھے
تم سا کوئی نادان زمانے میں نہ ہو گا
منظور تمھاری مجھے خاطر تھی وگرنہ
کچھ فائدہ اپنا تو مرا اس میں نہیں تھا
اُڑتی ہوئی آئی ہو خدا جانے کہاں سے
ٹھہرو جو مرے گھر میں تو ہے اِس میں برا کیا!
اِس گھر میں کئی تم کو دکھانے کی ہیں چیزیں
باہر سے نظر آتا ہے چھوٹی سی یہ کٹیا
لٹکے ہوئے دروازوں پہ باریک ہیں پردے
دیواروں کو آئینوں سے ہے میں نے سجایا
مہمانوں کے آرام کو حاضر ہیں بچھونے
ہر شخص کو ساماں یہ میسر نہیں ہوتا
۱۰۔ دُوسرا جھوٹ
مکڑے نے پہلے خدا کے بارے میں جھوٹ بولا جب کہا کہ مکھی کو دُور نہیں رہنا چاہیے۔ اب اپنے بارے میں جھوٹ بول رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اُس کے گھر میں یہ سب چیزیں موجود نہیں۔ اُس کا گھر تو صرف ایک جال ہے۔
۱۱۔ کھٹکا
مکھی نے کہا خیر، یہ سب ٹھیک ہے لیکن
میں آپ کے گھر آؤں، یہ امید نہ رکھنا
اِن نرم بچھونوں سے خدا مجھ کو بچائے
سو جائے کوئی اِن پہ تو پھر اُٹھ نہیں سکتا
مکڑے نے کہا دل میں سنی بات جو اُس کی
پھانسوں اِسے کس طرح یہ کم بخت ہے دانا
اب آپ کو معلوم ہو جاتا ہے کہ مکڑے کے ارادے خطرناک ہیں۔ وہ کسی نہ کسی طرح مکھی کو اپنے جال میں پھانسنا چاہتا ہے۔ مکھی دو دفعہ انکار کر چکی ہے لیکن مکڑے نے ہار نہیں مانی۔ ابھی آخری حربہ موجود ہے۔ یہ تیسرا اور آخری جھوٹ ہو گا۔ یہ جھوٹ کیا ہو سکتا ہے؟
۱۲۔ خوشامد
سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندا
یہ سوچ کے مکھی سے کہا اُس نے بڑی بی!
اللہ نے بخشا ہے بڑا آپ کو رُتبا
ہوتی ہے اُسے آپ کی صورت سے محبت
ہو جس نے کبھی ایک نظر آپ کو دیکھا
آنکھیں ہیں کہ ہیرے کی چمکتی ہوئی کنیاں
سر آپ کا اللہ نے کلغی سے سجایا
یہ حسن، یہ پوشاک، یہ خوبی، یہ صفائی
پھر اِس پہ قیامت ہے یہ اُڑتے ہوئے گانا
۱۳۔ تیسرا جھوٹ
مکڑے کا تیسرا جھوٹ خود مکھی کے بارے میں ہے۔ ظاہر ہے کہ مکھی میں یہ سب خوبیاں نہیں۔ بات یہ نہیں ہوتی کہ کوئی آپ کی تعریف کر رہا ہے یا آپ پر تنقید کر رہا ہے، بات یہ ہوتی ہے کہ وہ سچ کہہ رہا ہے یا جھوٹ کہہ رہا ہے۔
جھوٹی تعریف بھی بری ہے اور سچی تنقید بھی اچھی ہے۔ مگر کیا مکھی یہ بات جانتی ہے؟ کیا وہ صاف صاف کہہ سکتی ہے، ’’میں ویسی نہیں ہوں جیسا تم بتا رہے ہو۔ میں تو صرف ایک مکھی ہوں!‘‘ ایسا کہنے کے لیے بڑے حوصلے کی ضرورت ہے۔ کیا مکھی میں اِتنا حوصلہ ہے کہ وہ صحیح فیصلہ کر سکے؟
۱۴۔ مکھی کا فیصلہ
مکھی نے سنی جب یہ خوشامد تو پسیجی
بولی کہ نہیں آپ سے مجھ کو کوئی کھٹکا
اِنکار کی عادت کو سمجھتی ہوں برا میں
سچ یہ ہے کہ دِل توڑنا اچھا نہیں ہوتا
۱۵۔ مکھی کے تین جھوٹ
مکڑے نے مکھی کے سامنے اُس کی جھوٹ موٹ کی تصویر پیش کی ہے جو بہت حسین ہے۔ مکھی اِس جھوٹ کو سچ سمجھنے پر تیار ہوئی ہے کیونکہ اُس کے دل میں لالچ ہے۔ یہ مال و دولت کا نہیں بلکہ اپنے آپ کو ویسا سمجھنے کا لالچ ہے جیسی وہ نہیں ہے۔
اب مکھی بھی اکٹھے تین جھوٹ بول گئی ہے۔ پہلا جھوٹ یہ کہ اُسے مکڑے سے کوئی کھٹکا نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی خطرہ محسوس ہوا تھا اِسی لیے شروع میں انکار کیا تھا۔ مکڑے میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں آئی کہ وہ کھٹا دُور ہو جائے۔ یہ کہنا کہ اُسے مکڑے سے کوئی کھٹکا نہیں ہے، گویا مکڑے کے بارے میں اپنے دل کو ایک جھوٹی بات بتانا ہے۔
دُوسرا جھوٹ یہ ہے کہ وہ انکار کی عادت کو برا سمجھتی ہے۔ اگر واقعی ایسا ہوتا تو پہلے ہی انکار نہ کرتی۔ یہ کہنا کہ وہ انکار کی عادت کو برا سمجھتی ہے، گویا اپنے بارے میں مکڑے کو جھوٹی بات بتانا ہے۔
تیسرا جھوٹ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے مگر کسی کا دل رکھنے کے لیے سچائی کو ٹھکرایا نہیں جا سکتا۔ خوشامد قبول کر کے مکھی اپنے مقام سے گر گئی ہے اس لیے ایک اچھے اصول کا غلط استعمال کر رہی ہے۔ خدا نے ہمیں دوسروں کا دل رکھنے کا حکم ضرور دیا ہے مگر اِس کے ساتھ ساتھ سچ بولنے اور اپنے برے بھلے کی تمیز کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ جو ہمیں نقصان پہچانا چاہیں اُن سے بچنے کا حکم بھی دیا ہے، جس طرح حضرت آدمؑ سے کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے، اُس سے بچ کر رہنا۔ مکھی کے لیے مکڑا بھی تو شیطان ہی بنا ہوا ہے۔ مکھی کا یہ کہنا کہ وہ مکڑے کے جال میں اِس لیے آ جائے گی کیونکہ کسی کا دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا بالکل ایسی بات ہے جیسے کوئی انسان کہے کہ وہ اِس لیے شیطان کی بات مان لے گا کیونکہ خدا نے دل توڑنے سے منع کیا ہے۔ ایسی بات کہنا گویا خدا سے جھوٹ بولنا ہے۔
۱۶۔ انجام
یہ بات کہی اور اُڑی اپنی جگہ سے
پاس آئی تو مکڑے نے اچھل کر اُسے پکڑا
بھوکا تھا کئی روز سے اب ہاتھ جو آئی
آرام سے گھر بیٹھ کے مکھی کو اُڑایا
۱۷۔ جستجو
رزق حاصل کرنا بری بات نہیں مگر مکڑے کی غلطی یہ ہے کہ اُس نے رزق حاصل کرنے کے لیے جھوٹ بولا، دھوکہ دیا اور خوشامد کی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مکڑا تو صرف کیڑا ہے، پھر اُسے انسانوں کی طرح کیوں جانچا جائے؟
اِس کا جواب آپ کو معلوم ہے۔ کہانی پڑھتے ہوئے ہم خود اُس کے کردار بن جاتے ہیں۔ مکڑا اور مکھی بے زبان کیڑے ہیں جو اُس طرح گفتگو نہیں کر سکتے جیسی اِس نظم میں تھی، پھر بھی آپ نے اِس میں دلچسپی لی اورآخر تک سنا۔ وجہ یہی تھی کہ آپ کو مکڑے اور مکھی کی بجائے کوئی اور دکھائی دے رہا تھا۔ مکھی کی جگہ آپ اور مکڑے کی جگہ شیطان تھا!
آپ کو یاد ہو گا کہ سیار گاہ میں پہلا سیارہ چاند جستجو کی منزل تھا۔ یہ نظم بھی آپ کو جستجو کا پہلا زینہ دکھاتی ہے۔ وہ زینہ آپ خود ہیں۔