’’بابا شیرے جوانی میں بڑے کلے ٹھلے کا گھبرو تھا۔ اب بھی اُس کی چال میں بانکپن تھا۔ اور آنکھوں میں چمک چوں کر عمر کے ساتھ ساتھ وقار کا اضافہ بھی ہو گیا تھا اِس لئے اب وہ اکڑ کر نہ چلتا۔ سر پربڑا سا پگڑ، لٹھّے کا دھلا ہوا سفید تہمد، سردیوں میں کھیس کی بُکل، گرمیوں میں کندھے پر ململ کا صافہ، چہرے پر اطمینان کی جھلک، گزری ہوئی زندگی گویا طمانیت کی ایک مستقل مسکراہٹ بن کر اَنگ اَنگ میںر چ گئی تھی۔ ‘‘۳۶
’’بابا شیرا مطمئن قلب لے کر گاؤں میں پھرتا، دولت اور عزت کی زیادتی نے اُس کے پندار کو انگیخت نہ کیا تھا۔ وہ پہلے سے بھی زیادہ عاجز اور نرم دل ہو گیا تھا۔ دوسروں کی مصیبت پر سب سے پہلے ہمدردی کا تحفہ لے کر پہنچتا۔ ‘‘۳۷
’’ماسی حاجن اور چوہا چور ‘‘ دیہی سماج کا ایک اور اہم کردار ’’چور‘‘ پر لکھا گیا افسانہ ہے جو دو چوروں کی کہانی ہے۔ مصنف کے مطابق چوروں کی بھی اپنی اخلاقیات ہوتی ہیں اور اِن دونوں میں سے ایک کردار اِن اخلاقیات پر عمل کرنے والا جب کہ دوسرا اِن سے منحرف ہے۔ اِس افسانے سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مصنف خود بھی دیہی سماج کے اُس روایتی تفاخر کا اسیر ہے جہاں طبقاتی برتری اخلاقی برائیوں پر غالبا جاتی ہے اور مجرموں کے بھی شجرے دیکھ کر حفظِ مراتب طے کئے جاتے ہیں :
’’بھتیجے وہ صرف چور ہے۔ چودھری نہیں۔ ‘‘۳۸
’’چودھری کریم کی یہ منطق فوراً میری سمجھ میںا گئی۔ وہ چور ضرور تھا لیکن رَکھ رَکھاؤ کا قائل، وضع دار قسم کا طرّہ اونچا رکھ کر چوری کرنے والا چور۔۔۔ صرف اُسے لوٹتا جو لوٹے جانے کے قابل ہو۔ پھر سخی بھی تھا۔ چوہا چور۔ دو چار کھیتوں کا مالک تھا۔ اپنے چھوٹے بھائی سے مل کر ایک مشترکہ کنویں پر زراعت بھی کی لیکن چودھری کبھی نہ بن پایا دن کو نہ رات کو۔ ‘‘۳۹
چوروں کے درمیان یہ تقابل دراصل مصنف کے اُس شعور کا عکاس ہے جہاں وہ طبقاتی معاشرے میں عزت و مرتبے کے اُن معیارات کا اسیر دکھائی دے رہا ہے جو غلام ذہن کی پیداوار ہیں۔
’’تیکھا موڑ‘‘ غلام الثقلین نقوی کا ایک اور افسانہ جو جاگیردار کے کردار کو پیش کر رہا ہے۔ افسانہ چودھری کرم دین اور نچلے طبقے کے فرد سمّوں کی دوستی اور ایک طبقاتی معاشرے میں معاشی یا طبقاتی تفاوت سے جنم لینے والے مراسم کی نوعیت کو موضوع بناتا ہے۔ اُن کا افسانہ ’’ڈاچی والیا موڑ مہار وے‘‘ جاگیردار کے اسی روایتی شعور کا عکاس ہے جو طاقت اور عدم انصاف کا نمائندہ ہے۔ افسانے میں جاگیردار کا فیصلہ بھی ملاحظہ فرمائیں :
’’میں نے آج تک اپنی پناہ میں آئے ہوئے لوگوں کو واپس نہیں کیا۔ میں مریاں کو لوٹا نہیں سکتا۔ شیدا پوریو! تم خوش ہو جاؤ میں نے تمہاری مریاں کو اپنے محل کے قابل سمجھ لیا ہے اور جھوک کمال کے لوگو! تم مطمئن رہو اب تمہیں شیدا پور والے آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھ سکتے۔ میں نے تمہیں اُن کے خونی انتقام سے بچا لیا ہے۔ زمیندار نے قہقہہ لگایا اور اُس کا قہقہہ بجلی کی چمک تھا کہ مجمع کو چاٹ کر رکھ گیا۔ ‘‘۴۰
جاگیر دار کا یہ وہی تصور ہے جو عمومی طور پر اُردو کے افسانوی ادب میں پیش کیا گیا ہے۔ تاہم یہ تصور مجموعی طور پر غلام الثقلین نقوی کے افسانوں پر حاوی نہیں ہے۔
غلام الثقلین نقوی کے ساتھ ساتھ جس اور اہم افسانہ نگار کے یہاں پنجاب کے دیہی سماج کی عمدہ عکاسی دکھائی دیتی ہے وہ منشا یاد ہیں۔ اپنے نظریۂ فن کو وہ اِن لفظوں میں بیان کرتے ہیں :
’’میرے اندر اذیت کی چکی لگی ہوئی ہے جو دکھوں کا آٹاپیستی رہتی ہے۔ مجھے اچھے، خوبصورت، خوشحال اور بے فکرے لوگوں کی زندگیوں کا لطف نہیں اٹھانے دیتی۔ گرے پڑے مفلوک الحال اور بے توقیر لوگ ہی میرے اندر حلول کرتے رہے۔ ‘‘۴۱
دیہات کی پیش کش میں بھی منشاد یاد کے یہاں روایتی جاگیردارانہ جبر سے زیادہ نچلے طبقے کے محنت کشوں کے روز و شب کا بیان نظر آتا ہے جو بالواسطہ اِس طبقاتی نظام کی چکی میں پسے ہوئے ہیں۔ بقول اسلم سراج الدین:
’’جاگیر داری اب ایک کیفیتِ ذہنی بھی ہے، ایک روّیہ بھی اور مائنڈ سیٹ بھی۔ جاگیرداریت منشا یاد کے فکشن کا قابل محسوس پس منظر ہے۔ ‘‘۴۲
اُن کے جن افسانوں میں جاگیردار کے کردار یا تصور کو دیکھا جا سکتا ہے اُن میں راستے بند ہیں ، کچی پکی قبریں ، بانجھ ہوا میں سانس، خواب دَر خواب، دھند کے پیچھے، بلاوا، زائد المیعاد نیکی، مائی فٹ، پانی میں گھرا ہوا پانی، ماس اور مٹی، شجرِ بے سایہ، چیزیں اپنے تعلق سے پہچانی جاتی ہیں اور ساجھے کا کھیت نمایاں ہیں۔۔۔ اِن افسانوں میں جاگیردار کہیں مرکزی کردار کی صورت موجود ہے تو کہیں ماحول کے جبر کو واضح کرنے کے لئے اُس کے تصور سے مدد لی گئی ہے۔
’’راستے بند ہیں ‘‘میلے میں آئے ہوئے اُسے نچلے طبقے کے مفلوک الحال فرد کی کہانی ہے جو روزانہ کھانوں ، پھلوں یا مشروبات کے ذائقے سے ناواقف ہی۔ افسانے کا موضوع اگرچہ طبقاتی معاشرے میں عام آدمی کا استحصال ہے جو اپنی معمولی خواہشات بھی پوری نہیں کرسکتا تاہم افسانے میں دیہی جاگیر دار کا وہ تصور بھی متشکل ہو رہا ہے جو متکلم کی صورت منشا یاد کے تصور کا عکاس ہے:
’’الٰہی بخش نمبردار کا لڑکا عاشق ہے جو اپنے یار دوستوں کے نہیں اپنے یکے پر آیا ہے اور اُس کے ڈیرے پر ہر وقت مجرا ہوتا رہتا ہے اور شراب کی بوتلیں خالی ہوتی رہتی ہیں۔ طوائفیں سروں پر رکھے اور دانتوں میں پکڑے ہوئے نوٹ چُن چُن کر تھک جاتی ہیں۔ ‘‘۴۳
’’کچی پکی قبریں ‘‘بھی بنیادی طور پر طبقاتی تفریق کو موضوع بنانے والی کہانی ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار کوڈو ایک غریب گورکن ہے جو یہ بخوبی جانتا ہے کہ طبقاتی فرق محض زندہ انسانوں کے رہن سہن ہی کو الگ الگ نہیں کرتا بلکہ قبرستانوں میں بھی اِس فرق کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے:
’’بڑے لوگوں کی قبریں پختہ اور بڑی ہیں۔ غریب اور نادار لوگوں کی قبریں کچی اور بے نشان ہیں۔ زمینداروں اور چودھریوں کی پختہ قبریں اُن کی حویلیوں کی طرح اچھی اور بلند جگہوں پر ہیں … مزارعوں اور کمی کمینوں کی قبریں نم آلود اور نشیبی جگہوں پر ہیں۔ ‘‘۴۴
یہ وہ فرق ہے جو دیہی سماج میں جاگیر دار اور کسان کو حویلیوں اور جھونپڑیوں میں ہی نہیں بانٹتا قبروں کی تقسیم میں بھی کچی اور پکی قبروں میں بانٹتا ہے۔ افسانے میں نچلے طبقے کے نمائندے کوڈو کا ردِ عمل چونکا دینے والا اور ایک بے بس آدمی کی توقیر حاصل کرنے کی اُس سعی کا اظہار ہے جو پڑھنے والے کو چونکا دیتی ہے۔ وہ اپنے ماں باپ کی قبریں کھود کر اُن کی باقیات چودھری فضل دین اور نمبر دارنی روشن بی بی کی قبروں میں ڈال دیتا ہے اور اب یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتا ہے کہ اس کے ماں باپ کی قبروں پر بھی ہر جمعرات فاتحہ خوانی ہو گی اور اگر بتیاں اور دیے جلائے جائیں گے:
’’کوڈو فقیرا۔ فکر نہ کر بدبختا۔ کون کھود کر دیکھتا ہے اور دیکھ بھی لے تو کون پہچان سکتا ہے۔ امیر اور فقیر سب کی کھوپڑیاں اور ہڈیاں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ ‘‘۴۵
کوڈو کا یہ ردِ عمل مزاحمت اور عزت کی شدید ترین خواہش کا اظہار ہے جو عام آدمی میں اس طبقاتی نظام کے خلاف موجود ہے۔
افسانہ ’’بانجھ ہوا میں سانس‘‘ ایک علامتی کہانی ہے جس میں بستی کے لوگوں پر ہوا تنگ کر دی گئی ہے اور انہیں اب آکسیجن سلنڈرز کے ذریعے سانس لینا پڑ رہا ہے۔ لیکن یہ سلنڈر حسبِ روایت طاقت وروں کی ملکیت ہیں جو جاگیردار طبقہ ہے:
’’چھوٹا ملک رازدارانہ لہجے میں کہتا ہے۔ اُن لوگوں کے لئے جو تابع دار ہیں اور وہ جو اِس کا وعدہ کریں اور اِس پر قائم رہیں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ ‘‘۴۶
افسانہ ’’مائی فٹ‘‘ بھی جاگیر دار کے کردار کے اُس تصور کو اپنے قاری تک منتقل کر رہا ہے جو طاقت کے بل بوتے پر اپنی عزت کا خواہاں ہے۔ افسانے کا متکلم اپنی پڑھی لکھی اور با شعور بیوی کو گاؤں کی سیر کے لئے لایا ہوا ہے جو جاگیردار کے اس تصور سے سمجھوتے پر راضی نہیں :
’’عجیب بات ہے کہ ایک شخص دوسروں کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتا محض اِس لئے کہ کاغذوں میں اُس کے نام اُس کی ضرورت سے زیادہ اراضی لکھی ہوئی ہے۔ مگر اُسے معلوم ہونا چاہیے وہ کس دور میں رہتا ہے۔ ‘‘۴۷
’’میں جانتی ہوں یہ لوگ دیہات کو پسماندہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ سکول نہیں بناتے، سڑکیں نہیں بننے دیتے۔ پکی سڑک کے ساتھ علم و آگہی کی روشنی پھیلتی ہے جس سے اُن کے اصلی چہرے بے نقاب ہوتے ہیں۔ ‘‘۴۸
مندرجہ بالا اقتباسات میں متکلم کی بیوی کی زبان کے پسِ پردہ دراصل مصنف کے شعور کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔
’’دھند کے پیچھے ‘‘اُن کا ایک اور اہم افسانہ ہے جس میں جاگیردار کے اُس تصور کو پیش کیا گیا ہے جہاں وہ دیہات سے نکل کر اب شہری سماج کا ایک حصہ ہے لیکن اُس کے یہاں نچلے طبقے سے نفرت اور نام نہاد عزت کا تصور یہاں بھی منصب اور جائیداد سے جڑا ہوا ہے۔
’’بلارا‘‘ منشا یاد کا ایسا افسانہ ہے جو دیہی احساسِ تفاخر کے معتبر ذرائع کو موضوع بناتا ہے۔ اہلِ دیہات اور خصوصاً وہاں کے نسبتاً چھوٹے زمینداروں کے یہاں زمین، دولت، گاڑیاں یا دیگر مراعات کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابلِ فخر ہے کہ اُن کا کوئی بھتیجا یا بیٹا شہر میں کسی سرکاری منصب پر موجود ہے۔ یہ افسانہ بنیادی طور پر زوال پذیر جاگیردارانہ سماج کی کہانی ہے جہاں اب بڑی جاگیروں اور بے پناہ مال و دولت والے جاگیر داروں کی بجائے نمبردار جیسے اوسط درجے کے زمیندار ہیں مگر اپنی ٹھاٹھ اور مرتبے کو منوانے کے لئے انہیں اِس طرح کے کمزور سہاروں کی ضرورت ہے۔
افسانہ ’’ساجھے کا کھیت‘‘ میں جاگیردارانہ سماج میں عزت اور وضع داری سے زندگی گزارنے کی بجائے جس انداز میں نچلے طبقے کو اخلاقی گراوٹ پر مجبور کر دیا جاتا ہے کی عمدہ عکاسی کی گئی ہے۔ افسانے کے آخر میں موجو کی بیوی اور چودھری کے مکالمے اس سماج کی اُس سفّاکی کو ظاہر کر رہے ہیں جو اخلاقی اور سماجی طور پر گرے ہوئے لوگوں کو پیدا کرنے کا ذمہ دار ہے:
’’تمہیں یاد ہے چودھری تم میرے ساتھ کیا سلوک کرتے تھے۔ کیسی کیسی غلیظ خواہشیں اور کیسے رکھتے تھے مجھے جیسے میں عورت نہیں کتیا تھی۔ چودھری میں بھی کسی کی بیٹی تھی مگر تم نے اور تمہارے جیسوں نے میرے ساتھ جو سلوک کیا وہ تمہیں معلوم ہے۔ میں تو بڑی معصوم اور پاک تھی۔ صرف کمزور اور غریب تھی۔ گھر سے اُپلوں کے لئے گوبر جمع کرنے نکلی تھی تم لوگوں کے ہتھے چڑھ گئی اور مجھے گوبر سے بھی بدتر چیز بنا دیا گیا۔ تمہیں منجھلی کا نام لیتے ہوئے شرم آنی چاہیے وہ تمہاری بیٹی ہے۔ بڑی ساتھ والے گاؤں کے ذیلدار کی اور چھوٹی کا مجھے خود صحیح اندازہ نہیں تمہاری ہے یا کس کی۔ مگر دیکھو میں نے تم چودھریوں ، ذیلداروں کی بیٹیوں کو کتنے اچھے طریقے سے رکھا ہوا ہے۔ ‘‘۴۹
یہ ہے وہ سفّاک سماجی حقیقت جو مصنف کے شعور سے کہانی کے پلاٹ میں منعکس ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ زمینداروں ، جاگیرداروں اور ذیلداروں کے ہاتھوں نچلے طبقے کی عورتوں کا جنسی استحصال اور پھر اپنی ہی ناجائز اولادوں کی آبرو ریزی اپنی جگہ ایک المیہ ہے جسے منشا یاد نے عمدگی سے بیان کیا ہے۔
پریم چند سے منشا یاد تک دیہی معاشرت کی عکاسی کرنے والے مرد افسانہ نگاروں کی ایک پوری کھیپ دکھائی دیتی ہے تاہم جس خاتون افسانہ نگار کے یہاں پنجاب کی دیہی معاشرت اور جاگیردارانہ سماج کی عکاسی تواتر کے ساتھ کی گئی ہے وہ طاہرہ اقبال ہیں۔ طاہر ہ اقبال کو احمد ندیم قاسمی کی فکری روایت کا ایک تسلسل قرار دیا جا سکتا ہے تاہم یہ نسبت اُن کے یہاں کسی نیم پختہ اور مقلدِ محض کا پتہ نہیں دیتی بلکہ اُن کا اپنا تجربہ اور مشاہدہ اِس خطے کی زرخیز ثقافت اور علاقائی زبان کے مزاج اور محاورے میں ڈھل کر ایک بیدار شعور کا پتہ دے رہا ہے۔ بقول ڈاکٹر انوار احمد:
’’علاقوں سے نسبت کا دعویٰ اور بات ہے۔ تین چار نمائشی حوالوں کی تکرار بھی وہ زندہ فضا نہیں بنا سکتی جو طاہرہ اقبال کے افسانوں میں محسوس ہوتی ہے۔ اور یہ جڑی بوٹیوں کے نام کسی سیّانے کے بتائے ہوئے نہیں ، افسانہ نگار کی حسّیات میں پیوست ہیں اور اپنی دھرتی کی بُو باس سے اُس کے لگاؤ کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ اور بات کہ وہ اسے کوئی جمال آفریں منظر نہیں بناتی، دکھ درد اور محرومی کے منظر نامے کا تاثر بڑھانے کے لئے ایک بامعنی عقبی پردے میں تبدیل کر دیتی ہیں۔ ‘‘ ۵۰
اُن کی جن کہانیوں میں اِس کردار کو پیش کیا گیا ہے اُن میں ریخت، ملیچھ، سوہنی، گندا کیڑا، کھندے، انتخاب، چرواہا اور عزت اہم ہیں۔ طاہرہ اقبال کے افسانوں کے ساتھ ساتھ اُن کے ناولٹ بھی اِس موضوع کی عمدہ عکاسی کرتے ہیں۔
طاہرہ اقبال کا افسانہ ’’ریخت‘‘ اُن کے دوسرے افسانوی مجموعے کا عنوان ہی نہیں ایک افسانہ بھی ہے جو جاگیردار کے اُس تصور کو نمایاں کر رہا ہے جو مصنفہ کے ذہن میں موجود ہے۔ افسانے میں زوال پذیر جاگیردارانہ نظام کی چند جھلکیاں دیکھیں :