توت کی لچکدار شاخیں موڑ کر مہارت سے چھجا سا بنایا ہوا تھا۔ مدھو مالتی کی بیل کے نیچے ادھ چھپا برآمدہ سیمنٹ کا فرش، دیواروں کے ساتھ اکھڑا چونا پڑا تھا۔ گھر کا داخلی دروازہ برآمدے میں کھلتا تھا۔ روشندانوں اور کھلی کھڑکیوں والا ایک پرانا سا گھر تھا۔ چڑیا سا دل چہکا: ’’واہ! اب ایسے گھر دیکھنے کو بھی نہیں ملتے۔‘‘ وہ خوشی سے پھریریاں بھرتی پورے گھر میں اڑی پھری۔ اس کی طائرانہ نظر کوئی محفوظ کونا کھدرا جانچ رہی تھی۔ بار آوری کی رت اور گھٹا گھنگھور گھور۔
گھر کے فرد جدا جدا الگ الگ کمروں میں تھے۔ جوانی کی ترنگ میں تمتماتے ہوئے۔ پرندے پر پنکھ نکلتے ہی بوٹوں کو چونچیں مار گھونسلوں سے باہر کرتے ہیں۔ اپنا کماؤ اپنا کھاؤ۔ خاتون خانہ بدستور شیہ جوانوں کی کھلی چونچوں میں چوگا ڈال رہی تھی۔ ہوا دار گھر بیگانگی سے بوجھل تھا۔ ‘‘میں مرنے سے پہلے ایک بار جینا چاہتی ہوں‘‘۔ ہارٹ ریٹ مانیٹر پر وائٹل سائنز ابھرنے ڈوبنے لگے۔ زندگی سانس لے ہی نہیں پاتی تھی۔ جیون کی جیسے نس بندی کر دی گئی ہو۔ بے رس، بے رنگ، بنجر۔ خاتون خانہ سوچتی چلی گئی۔ زندگی مردہ مچھلی کی طرح پانی کے رخ بہتی جاتی تھی۔ ہر وقت کھانا تیار ہوتا رہتا ہر دم غار جیسے شکموں میں انڈیلا جاتا۔ دیوار پہ چیونٹیوں کی لمبی قطار اپنے وزن سے ہزار گنا زیادہ اناج اپنے سر پر لادے رواں تھی۔
آنکھوں کے پوٹے کسی طور بھرنے کو نہیں آتے تھے، ھل من مزید۔ چربی نے ہڈیوں پہ دبیز تہیں بچھا دی تھی۔ وارڈ روب، الماریاں، ریفریجریٹر، بینک اکاؤنٹ سب اٹا اٹ۔۔ معدہ بھر جاتا تو حلق میں انگلیاں مار کر قے کی جاتی اور پھر ھل مِن مزید!۔
سر آئینہ جوانی کو آوازیں دیتی ہوئی نظر ٹکرا کر پلٹی۔ جوانی تو بارہا کیش کروائی گئی۔ محبوب کنگال تھا۔ اس کے بازوؤں پہ سر رکھ کر بڑے لاڈ سے کہا: جانو! یو کانٹ افورڈ می۔۔۔۔ عقل کا اندھا! بات نہیں سمجھا بریک اپ! امیر بوائے فرینڈ نے بھی کہیں کا نہ چھوڑا۔ خبیث کیسی بے حیائی سے منہ پھاڑ کر کہتا تھا۔ جب بازار میں دودھ با آسانی دستیاب ہو تو گھر میں بھینس پالنے کا جنجال کیوں کیا جائے۔ بریک اپ! پھر چل سو چل۔ آدمی سے کیا امید رکھنی، ایک خدا ہی تو ہے جسے پلٹ کر پکارا جا سکتا ہے۔ سکون نماز ہی میں ہے۔ شہادت کی انگلی اور انگوٹھے سے اپنے کانوں کے پور دباتے ہوئے خاتون خانہ نے سوچا۔ ’’اب دیکھو نا! سجدہ نہیں کیا جاتا درمیان میں پاپی چربیلا پیٹ آ جاتا ہے۔ کرسی پہ بیٹھ کر نماز پڑھ لیتی ہوں لیکن کبھی ایک نماز قضا نہیں کی۔ پورے روزے رکھتی ہوں۔ ماشا اللہ! نیک اولاد ہے، نماز روزے کی پابند ہے، رزق آپوں آپ دروازے پہ چل کر آتا ہے، ہاں ناں! آپوں آپ!‘‘ خاتون سوچتے ہوئے ذرا سا مسکرائی۔ کل شام ہی تو بھائی جان سالوں بعد بھول بھٹک کر آ گئے۔ کرسی پہ بیٹھتے ہی بھانجے سے پوچھا:۔۔ ’’بیٹا مجھے پہچانا؟‘‘ بیٹے نے معصومانہ جواب دیا: ’’جی ماموں! آپ تو اچھی طرح یاد ہیں۔ بچپن میں جب بھی آتے تھے، میرے ہاتھ میں بڑا نوٹ ضرور تھماتے۔‘‘
بھائی بیچارے نے شرما شرمی ہزار کا نوٹ ہاتھ میں پکڑا دیا۔ نوٹ دیکھتے ہی باقی تین بھی گِدھوں کی طرح آلے دوالے ہو گئے۔ تین اور نوٹ پرس سے نکالنے ہی پڑے۔ بھائی جان نے یہ تہیہ بھی کر لیا کہ اب چھوٹی کے گھر دوبارہ قدم نہیں رکھے گا۔
’’اچھا خاصا امیر کبیر بندہ ڈھونڈ ڈھانڈ کر اس کی شادی کی۔‘‘ بھائی جان چھوٹی کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا کیے۔ مرد تو شہزادہ بنا ہے۔ رب توفیق دے! گنجائش بھی ہو پھر بندہ چاہے تو چار گھر میں رکھے اور ستر رکھے باہر۔ جیجا بھلا مانس تو محض بڈھی بیوی سے اوب کر دوسری شادی کرنا چاہ رہا تھا۔
وعدے وعید، لکھت پڑھت بہتیری ہوئی کہ پہلی بیوی اور بچوں سے تعلق نہیں رکھے گا لیکن کم بخت انھیں خرچہ دینے سے باز نہیں آیا۔ رشتہ ہی کاغذی تھا۔ ضرورت رسد سے بندھا ہوا۔ گرم سرد سہ نہ سکا۔ چرررر پھٹتا چلا گیا۔ خاتون خانہ اپنے زخمی دل پر تسلی کا پھاہا رکھتے ہوئے سوچا: ’’ماشاء اللہ بیٹے ہیں ،کمائیوں سے گھر بھر دیں گئے کونسا بیٹیاں ہیں کہ اوروں کے بچے ہی جنتی رہیں گی۔‘‘
’اوروں‘ کا سوچتے ہوئے ایک زہر خند سا خاتون خانہ کے چہرے پر پھیلتا گیا۔۔ اونہہ! جم پال عورت کی اور مالکی مرد کی!
پھر واٹر پروف کجل بھری انکھیوں کے آنسوؤں میں ان کہی تیرتی رہی۔ گلابی لپ اسٹک سے سجے ہونٹ کپکپاتے داستان غم سناتے رہے۔ فیس بک پہ سسکیاں لیتی پوسٹ، خدا جھوٹ نہ بلوائے! اس ایک پوسٹ نے ہزاروں میں کمنٹ لائیک سمیٹے۔ ساری اوازاری دھل سی گئی۔۔۔۔۔ ساری تو شاید نہیں اس سارے اگاڑ پچھاڑ کے باوجود دل کے خالی دالان میں تنہائی دانت نکوسے دھمال ڈالتی رہی، دھن دھن دھنا دھن۔ دھن۔
نوکری بھی بیگار ہی تھی۔ ہر ماہ آنے والی تنخواہ کے سوا اور کچھ بھی تو دلچسپ نہ تھا۔ ورکنگ پلیس پہ بھی خاتون خانہ کا موضوع سخن رنگا رنگ چٹخاروں والی ڈشز ہی ہوتی تھیں۔ آنکھیں رال ٹپکاتیں، زبان چٹخارے لیتی ہوئی کھانوں کے اجزا گنواتی رہتی۔ اور بات بھی کیا کی جائے!!۔۔ کپڑوں، زیورات کی طویل شماری اور رشتے داروں کی بد خوئیاں اور شوہر کے ظلم!!
دفتر میں ہمیشہ سنبھل سنبھل کر پگ اٹھاتی۔ دکھنے میں تو گردن الگ سے ہلاتی ہوئی فربہ نیلی بار بھینس ہی تھی۔ فرماں بردار، ہر بات پر، ہر فرمائش پر ’’یس سر‘‘ کہنے کی عادی۔
یہاں ’نہ‘ کہنے کا یارا بھی کس کو تھا۔ سبھی کے مفاد ایک دوجے سے جڑے بلکہ بندھے تھے۔ زندگی شہر کے وسط سے گزرتی نہر کی مانند تھی جس میں شہر بھر کے گٹروں کے منہ کھلتے تھے۔
خاتون خانہ بھی کیا کرے!! جن کی کمائیاں کھانے کی چاہت تھی، وہ منگو پیر کے مگر مچھوں کی طرح سارا وقت لم لیٹ جبڑے کھولتے بند کرتے، سرعت انزال سے دوچار، لیپ ٹاپ سے محو مباشرت رہتے۔
گاہے بگاہے نیم باز آنکھوں سے خاتون خانہ کو تبرے بھیجتے، آوٹ آف ڈیٹ خاتون خانہ ان کی فیوچر پلاننگ میں کہیں فٹ نہ ہوتی تھی۔ ان کے اپنے آسمان تھے، زمین سے تعلق داری کیسے نبھاتے!
خاتون خانہ کا دل پنجرے میں بند طوطے کی طرح پھڑپھڑاتا رہتا۔ دفتری اوقات میں کام کرنے کو جی نہ چاہے تو دوپٹہ پیشانی تک لا کے کانوں کے پیچھے اڑس لیتی۔ آفس ٹیبل کی دراز سے پنجسورہ نکال کر تلاوت شروع کر دیتی۔ دل کو بڑا سکوں ملتا۔ بے شک سکون اللہ ہی کے ذکر میں ہے۔
خاتون خانہ کی سوچیں مکھیوں کے جھلڑ کی طرح ڈنکا ڈنک، نیلوں نیل یلغار کرتی چلی گئیں۔ ماں نے تو بادشاہت کی، اباجی جو کماتے، کم یا زیادہ ماں کی جھولی میں لا ڈالتے – اپنی سگریٹ کے لیے پیسے بھی ماں سے مانگتے۔ ادھر میرے نصیب میں بس دنی راتی بک بک، جھک جھک، حساب کتاب۔ چل دفاں ہوا، جان چھوٹی۔ لیکن مر جاتا تو اچھا تھا نا۔ اب تو بس کٹہرے میں کھڑے رہو۔ لوگ تو لوگ اولاد بھی طلاقن کے طعنے چپیڑ کی طرح منہ پر مارتی ہے۔ اس بے قدری اولاد کی وجہ سے کوئی نکاح کے لیے بھی تیار نہیں ہوتا۔
ہائے! کیسے سنہرے مستقبل کے تانے بانے بنے تھے۔ کچے دھاگوں کی طرح تڑاق تڑاق ٹوٹتے ہی رہے۔
خالہ کا میاں پی آئی اے میں تھا۔ خالہ نے کیا مزے سے مفتا مفت دنیا گھوم لی۔ کسی ٹور پہ نسخہ ہاتھ لگا کہ تعلیم کے ساتھ تربیت کا تڑکا بھی لازمی ہے۔ چھوٹی ہونے کی وجہ سے ہاتھ خاتون خانہ ہی آئی۔ بڑے تو سارے گورنمنٹ سکولوں کی رٹائی کی کھے سواہ پھانک کر کالجوں میں یا پھر رشتوں کے آس میں بیوٹی پارلر کے چکروں اور سلائی مشین کی گھررر میں الجھے ہوئے تھے۔ چھوٹی کو گورنمنٹ سکول سے اٹھا کر مہنگے پرائیویٹ سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ اماں کو تعلیم و تربیت کا کیا ہوش ہونا تھا! جھول میں اپنے ہی نہیں بیوہ ساس کے بچے بھی تھے۔ بیوہ اور سدا حاملہ کی تو تکار اور بچوں کی چخا چخ سے چھوٹا سا آنگن لرزتا رہتا۔ دھول دھپا، کان کھینچائی کو کافی شافی تعلیم و تربیت سمجھا جاتا تھا۔
اماں گھونگٹ اور پیٹ نکالے رسوئی میں ڈوئی کے ساتھ مسلسل زبان بھی چلاتی رہتی۔ دادی صحن میں پیٹ پسلیوں کے ساتھ لگائے کھرے میں بیٹھ کر ڈنڈے سے کھیسوں کی اور زبان سے بہو کی دھنائی کرتی۔ سمجھ نہیں آتا! کہ اس زمانے میں کیسے پکوان بنتے تھے جن کی مسلسل چمچہ گیری کرنا پڑتی تھی؟ کھیس روزانہ کیوں دھلتے تھے؟۔ کھانے کو تو خدا کی مار وہی ایک لمبا پتلا شوربا جس میں آلو تیرتے، ملا کرتا۔
تیکھے نقوش، گندم کے سنہری سٹے جیسی رنگت، ٹیڈی بکری جیسا پھرتیلا پست جثہ اور زر خیز کوکھ، اماں تو جیسے ’جی.. جی!‘ منمناتے ابا کی قسمت پُڑی سے نکلی تھی۔
ایک گھر میں کئی گھر سمائے تھے۔ واحد کفیل کوے کی طرح روٹی کا ٹکڑا لاتا تو چوگ واسطے بے شمار کھلی ہوئی چونچیں دیکھ کر گڑبڑا جاتا۔ پھر بے بسی سے اپنا آپ ٹکروں اور ذروں میں تقسیم ہوتا دیکھتا رہتا۔ ہر ایک کی نظر دوسرے کی روٹی ہی پر رہتی کہ جیسے موقع ملے اچک لی جائے۔
ماں تو جیسے ہانڈی میں ڈوئی ہلاتی جی آئی ایف ہو، سر گھما کر دیکھتی اور لا تعلقی سے بولتی: ’’کیسے کتوروں کی طرح ایک دوسرے سے نوالا چھینتے ہیں۔‘‘
باپ رات گئے اک گونہ بے لطفی کے ساتھ سارے دن کی تھکن اماں کے بدن میں اتار دیتا۔ ماں بھی کوئی بیج ضائع نہیں ہونے دیتی تھی۔ ہر سال ایک آئٹم تیار ہوتا۔ روٹی کے پیچھے سرپٹ دوڑنے واسطے، ایک دوجے کو کاٹ کھانے واسطے۔
ایک روز ٹی وی پہ ریسلنگ دیکھتے ہوئے چھوٹی نے بڑی معصومیت سے، پر جوش ہوتے ہوئے دادی کو بتایا: ’’اماں ابا بھی راتی روز کشتی لڑتے ہیں‘‘۔ دادی کی بیوگی نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ ’’خصماں کھانڑی، یاراں پٹی!۔ بے حیا! روز نہا کر بیٹھی ہوتی ہے۔ بچوں کے سامنے ہی شروع ہو جاتے۔۔۔۔ بے دیدے! ندیدے!‘‘۔
ماں کا بس اور تو کہیں نہیں چلا اس نے ہانڈی سے ڈوئی نکال کر جما کر چھوٹی کے چوتڑوں پہ لگائی۔ خاتون خانہ کا ہاتھ بے اختیاری میں اپنی بھاری پچھاڑی پر گیا جہاں کئی عشرے پہلے تپتا، تیل میں سنا ہوا چمچہ ثبت ہوا تھا۔
شباب نے شراب کی طرح انگ انگ میں مستی سی بھر دی۔ سوکھی سڑی چمرخ چھوٹی میں کرنٹ سا آ گیا۔ وہ دھندلے میلے گھر میں جلتے دیے کی لو تھی۔ ویرانے میں گھنگھرو کی چھنکار، جیسے چغتائی کی پینٹنگ میں جان پڑ گئی ہو۔
پرانی اوڑھنی سی بد رنگی بڑی بہن، جو ہر دستک کو اپنے نصیبوں کی دستک جان کر دروازہ چوپٹ کھول دیتی تھی۔ پھر عرصہ اپنے بدن پر پڑے نقش پا کی گرد جھاڑتی رہتی۔ ٹوٹی ادوائن والی چارپائی پہ بیٹھی گھٹنے دباتی بڑبڑاتی۔: ’’ماں نے رنگ روپ تو چھوٹی کو دے دیا، ہمیں کیا دیا جوڑوں کا درد‘‘
’’دوسری شادی ہے تو پھر کیا ہوا
چھوٹی کو سونے میں پیلی کر دے گا۔‘‘ رشتہ کروانے والی نے ماں کو سمجھایا۔ سودا ہو گیا۔ گھاٹے کا تو نہیں کیا تھا۔ لیکن گھاٹا ہو گیا۔ ’’نصیب ہی جلے ہوں تو ترکیبیں کہاں کام آتی ہیں‘‘۔ خاتون خانہ نے سوچا۔ شادی کے بعد تو جیسے شیف ہی مقرر ہو گئی تھی۔
سورج نکلتے شکم سیری کے لوازمات تیار ہونا شروع ہو جاتے .شوہر کے لمبے کدالوں جیسے ہاتھ ڈائٹنگ ٹیبل سے کھانا سمیٹتے اور چالیس چوروں کے غار جیسے منہ میں انڈیلتے رہتے۔ منہ سے کچے تھوم پیاز کے سے بھبھکے اٹھتے اور فرنچ کس کا بھی اصرار۔
بدبو دار پسینے سے پپسیجے انڈر وئیر دو انگلیوں سے ایسے اٹھاتی جیسے مری ہوئی چھپکلی اٹھائے ہو، ناک سکیڑے بغیر واشنگ ٹب میں پھینکتی۔ تربوز جیسی توند فٹ آگے مینڈک کی طرح پھدکتی۔ توند کو دیکھ کر خاتون خانہ کو ہمیشہ ابکائی آتی تھی لیکن چہرے پہ مسکراہٹ چپکائے واری واری جاتی۔ کچھ راتیں شوہر کی باہر مخصوص ہوتی تھیں۔ پوچھنے پہ ہمیشہ جواب ملتا۔ ’’تمہیں اس سے کیا غرض؟؟؟ خرچہ پورا ملتا ہے نا!‘‘ خاتون خانہ کندھے اچکاتی سوچتی۔ ’’مجھے کیا! خرچہ تو پورا ملتا ہے نا۔۔ ہاتھی پھرے گاؤں گاؤں جس کا ہاتھی اسی کا ناؤں‘‘۔
سوچیں بھی پوری پھپھے کٹنیاں ہوتی ہیں۔ تیلیاں لگانے سے باز نہیں آتیں۔ خاتون خانہ کے کانوں سے شعلے سے نکلے۔ پیشے والیاں ریٹائر منٹ کی عمر سے پہلے تو پیار، خیال، دھیان سے رہتی ہیں اور ہم شریف بہو بیٹیاں صدیوں سے توقعات، فرضیات کے چھکڑے میں اس تھکے ماندے اونٹ کی مانند جتیں ہیں جس کے لیے چڑھائی لعنت تو اترائی لخ لعنت۔
کیاری سے کینچوئے کھود نکالتی ہوئی مرغی کے گدلے پنجوں جیسے ہاتھوں سے خاتون خانہ نے میز پر رکھی سلاد کی قاب کو ڈھانپا۔ پھررر۔۔ پھررر، کمرے میں دائرے میں اڑتی ہوئی چڑیا کے ساتھ نظر دوڑاتے ہوئے بے خیالی میں پنکھے کا سوئچ آن کیا۔ چکر پھریاں لیتی چڑیا کو پنکھے کا بلیڈ کاٹتا چلا گیا۔ وہ آشیانہ کی تلاش میں پورے کمرے میں پر پر بکھری ہوئی تھی۔ گردن سے کٹی ٹیبل ٹینس بال جتنی سری، میز پر سرخ پلاسٹکی پھولوں سے سجے گلدان کے پاس پڑی تھی۔
خاتون خانہ نے اففففف! ہائے! کہتے ہوئے سینہ کوبی کی۔
آواز نے پوچھا
’’شام کون آیا تھا؟‘‘
جیسے ہتھوڑا کیل ٹھوکتا ہے ٹھننن کی جھنجھناہٹ دماغ کی گہرائیوں تک پہنچی۔
’’کچھ دوست پرسہ دینے آئے تھے‘‘۔
’’دوست؟۔ ایسی آزاد خیالی میری برداشت سے باہر ہے‘‘۔
’’میرے کو لیگ تھے کیسے منع کرتی کہ بھائی کی ناگہانی مرگ کی تعزیت کے لئے نہ آئیں۔‘‘
وہ لا کالج میں قانون پڑھاتی تھی۔ قانونی نکات اور ان کی باریکیاں موشگافیاں بیان کرتے دن بیت جاتا۔ واپس گھر آ کے بولنے کی سکت ہی نہ رہتی۔ لفظوں کو آواز کا سہارا نہ ملتا تو اندر ہی کہیں سر ٹکرا کر رہ جاتے تھے۔ کم بخت مرتے بھی نہ تھے، سیلی مٹی کے کینچوؤں کی طرح کلبلاتے رہتے۔
’’جو یہاں سے اُٹھ کے گئے ہیں، باہر جا کر جانے کس کس کو کیا کیا کہانیاں گھڑ سنائیں گے۔ ہم فلاں کی بیوی کے پاس بیٹھ کے آئے ہیں کہ لیٹ کے۔۔ جو اُن کی مرضی جو اُن کامن چاہے گا بکواس کریں گے۔۔‘‘ با رعب آواز میں اندیشے تڑخ رہے تھے۔ ’’میری عزت کو تو تُو نے سڑک بنا دیا ہے جس کا جی چاہتا ہے پیروں تلے روندتا گزر جاتا ہے‘‘۔
خوف نے کسی عفریت کی طرح گھر کے در و دیوار کو جکڑ رکھا تھا۔ ’’اس گھر میں میری اجازت کے بغیر کوئی نہیں آئے گا‘‘۔ وسوسوں میں بادلوں سی گرج تھی۔
’’گھر میرا بھی تو ہے‘‘۔ آواز میں بے یقینی ڈول رہی تھی۔
ماں کی آواز میں من مندر میں گھنٹی کی طرح بج اُٹھی۔ ’’شکر ہے بیٹا رانی اپنے گھر کی ہوئی‘‘۔ زرتار آنچل کو درست کرتی انگلیاں اس لمحے کس قدر شانت تھیں۔ تن من پرچھائی برسوں کی کہر میں ذرا سی کرن جھلملائی تو ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی لیکن بے وساہی اکھیوں نے مسکراہٹ کا ساتھ نہ دیا۔
وہ منہ میں لگام کی کچھاوٹ اور ایڑ لگاتے جوتوں کی چبھن سے ہف گئی تھی۔ سوچ اڈاری بھرتی بھی تو سدھائے کبوتر کی طرح فضا میں دائرہ بنا کے واپس کابک میں آ کے دبک جاتی۔ صحن میں بیزار اکتایا ہوا چھتنار درخت اندھیرے میں کسی دیو ہیکل بھوت کا سایہ لگ رہا تھا۔ پتے ایسے ساکن تھے، جیسے گوند سے ٹہنیوں کے ساتھ چپکا دیے گئے ہوں۔ وہ چھوٹی چوٹی چھلانگوں میں جگمگاتے تارے پھلانگنے لگی۔ ساعت بھر کو بھول ہی گئی کہ زمین پر کیا ہو رہا ہے!!!۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...