"بابا میں ہانیہ کے لئے بہت پریشان ہوں ۔۔ ایک ہی بیٹی
ہے میری ۔۔ 6 سال کی تھی جب سے اکیلے ہی پالا ماں باپ بن کر "۔ سمیہ اپنے والد زو لقرنین صاحب سے گویا ہوئیں
واہ!بیٹا یہ اچھا صلہ دیا ۔۔ ہماری بچی اکیلی کیسے ہوئی ۔۔کبھی جو مشکل وقت میں اکیلا چھوڑا ہو ۔۔ میں جو اتنے سالوں سے تم لوگوں کو اپنا خاندان سمجھتا رہا تو میں کیا غلط تھا ۔۔ تمہاری ماں بھی مجھے دس سال پہلے داغ مفا رقت دے گئی ۔”۔ زو القرنین صاحب تا سف سے بولے
"نہیں بابا میرا یہ مطلب نہیں تھا ۔۔میں تو بس ہانیہ کے لئے بہت پرشان ہوں ۔”۔
"تم فکر نا کرو بس اللہ سے دعا کرو ۔۔ سب ٹھیک ہو گا ۔”۔ جو bہی جو زوا لقرنین صاحب والد تھے اپنی بیٹی کو پریشن دیکھ کر خود بھی پریشان ہو گئے
تبھی دروازہ نوک ہوا ۔۔ "نانا جی میں اندر آ جاؤں” ۔۔ ہانیہ نے اندر داخل ہوتے ہوۓ کہا
"ہاں بیٹا اؤ ۔۔ کوئی کام تھا جو آپ ہمیں اپنے نانا کو بھی ملنے آ گئیں ”
"نہیں نانا جان وہ پڑھائی کی وجہ سے "۔۔ ہانیہ نے جواب دینے کی کوشش کی
"چلو ۔۔کوئی بات نہیں بچے ادھر آؤ ۔۔ کیا بات ہے ۔”۔ زو لقرنین لقرنین صاحب بولے
"وہ اس دن ماما آپ نے بات کی تھی ۔۔ تو ۔۔ جیسے آپ کہیں گی مجھے منظور ہو گا "۔۔ ہانیہ کے منہ سے الفاظ یوں ادا ہوۓ جیسے پتھر نگل لیا ہو
"بیٹا ۔۔ آپ نے تو میرا دل جیت لیا ۔۔ میرا دل کو بہت سکون سا آ گیا ہے” ۔۔ سمیہ بیگم نے خوشی سے اس کا ماتھا چوم لیا
"آپ چلیں میں ادرک کا کوہ بھجواتی ہوں ۔۔ گلہ ابھی بھی خراب lاگ رہا ہے آپ کا ۔”۔۔
"جی "۔۔ ہانیہ نے ااپنی ماں کے چہرے پر دمکتی خوشی دیکھی ۔۔ پھر مرے ہوۓ قدموں کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف چل دی ۔۔
.۔۔۔۔۔۔۔۔ "بی جان ۔۔ ان لوگوں نے اس مثبت جواب دیا ہے ۔۔ ۔۔تو پھر ان کو ہفتے کا کہہ دوں ۔۔”۔ زرینہ بیگم نے بی جان کو اگاہ کیا
ہاں ٹھیک کہہ دو لیکن جب تک نکاح کا دن مقرر نا کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ ایک تو اس بچھے کی کچھ سمجھ نہیں اتی کے چاہتا کیا ہے کے کسی کو بتانا ہی نہیں چاہتا شادی کر رہا ہے کوئی مذاق تو نہیں ۔خیر ۔۔ اور زمان کی شادی کی تیاریا ں کرو
بی جان زرینہ بیگم سے بولیں ۔۔
جی ۔۔بی جان مریں بچوں کو دیکھتی ہوں ۔۔ بہت خاموشی ہے ۔۔ اور ان بچو ں کی خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ہی ہوتی ہے ۔
.۔۔۔ اور ہاں امبرین کے ہاتھوں پانی بیھجوا دینا دوائیں لینی ہیں ۔۔
جی بی جان زرینہ بیگم کہتے ہوے باہر چلی گئیں ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی ۔تین سال پہلے
سب dinning روم میں جمع تھے ۔۔۔میلو ڈی ہانیہ کے ساتھ بیٹھی تھی ۔۔ جانے کونسے دکھرے کھل بیٹھی تھی جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ۔۔۔۔ جس پر وجدان جو ایک نظر ریاض صاحب سے بات کرتے ہوۓ ان پر ڈالتا ۔۔
دل جلا کر منہ واپس پھر لیتا ۔۔ مہمانِ خصوصی میں اور یہ محترمہ ایک نظر بھی نہیں ڈال رہیں ۔۔
اور میلوڈی کیا کر رہے ہو بیٹا آپ ۔۔۔ ریم بیگم نے میلو ڈی سے مخاطب ہوتے ہوۓ کہا ۔۔
یونیورسٹی میں ماسٹر کرنے کے لئے داخلہ لیا ہے ۔۔ یونیورسٹی تھوڑی دور ہے پرمیں موم کو چھوڑ کر نہیں جا سکتی تھی ۔۔ میلوڈی نے فرائیڈ چکن کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے بتایا
یہ ۔تو بہت اچھی بات ہے ۔۔۔ ورنہ آجکل بچے کالج میں ہی ماں باپ کو چھوڑ کر دوسرے شہروں کا رخ کر لیتے ہیں ریاض صاحب بھی ان کی طرف متوجہ ہو کر بولے ۔۔
ہاں بس موم کی وجہ سے ہی ادھر روک گئی ورنہ مارک (mark میلو ڈی کا منگیتر تھا ) تو چاہتا تھا کے میں اس کے ساتھ ہی جاؤں اس کی یونیورسٹی ۔۔۔ میلو ڈی اپنی ہی دھن میں بول رہی تھی جب زیک نے اپنا چمچہ پھٹکا نے کے انداز میں پھنکا ۔۔
زیک تم ٹھیک ہو ۔۔ وجدان نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا
جی۔۔ سر مجھے ایک ضروری کم یاد آ گیا تھا ۔۔۔ میں ایک فون کر لوں تو ابھی آتا ۔۔ وہ میلودی پر ایک نظر ڈالتا اٹھ کر باہر چلا گیا
میلو ڈی نے اس کی حرکت پر حیراں ہو کر دیکھا اور پھر کندھے اچکا کر سب کی طرف متوجہ ہوئی
آپ کی یونیورسٹی کب سے شروع ہو رہی ہے ۔۔ ہانیہ نے پوچھا ۔۔ میلوڈی کو باتیں کرنے کا خبط تھا تو پھر سے بولنا شروع ہو گئی
"تین ہفتے بعد ۔۔ پر ابھی میں ڈرائیونگ سیکھنا چاہتی ہوں ان تین ہفتوں میں کے موم کی دی ہوئی bettle چلا سکوں ۔۔ پر کوئی اچھا ڈرائیونگ اسکول نہیں مل رہا” ۔۔ میلو ڈی نے اپنی پریشانی ان کے گوش گزار کی
"مجھے بھی سیکھنی ہے ۔۔ ڈرائیونگ ۔۔ کوئی اچھا اسکول ملے تو مجھے بھی بتانا ۔۔ پھر اس بہانے تمہارے ساتھ لندن بھی گھوم لوں گی "۔۔۔ اب کے ہانیہ بولی۔
"وجدان کے ہاتھ تو گویا طر ب کا پتا لگ گیا ہو۔۔ تو جلدی سے بولا۔۔ میں بھی فارغ ہوں دو ہفتے ۔۔ زیادہ کام نہیں اور نا ہو زیادہ لوچ کام کرنے کو ہے ۔۔اگر آپ لوگ چاہیں تو ۔۔میں آپ کوسیکھا سکتا ہوں” ۔۔ اس کی بات سن کر میلوڈی کے ساتھ بیٹھی میگن کو اچھو لگ گیا ۔۔
"”میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا ”مس میگن ” “ اس نے مس میگن پر زور دیتے ہوۓ کہا
جی بلکل سر ۔۔۔ آپ کا دو ہفتوں کا شیڈ ول اتنا مصروفیات بھرا نہیں ہیں ۔۔
اس نے مسکراہٹ چھپاتے ہوۓ کہا ۔۔
چلو یہ تو اچھا ہو گیا ۔۔ اب مجھے فیس بھی نہیں دینی پڑے گی ۔۔ میلو ڈی کا یوں ہنس کر وجدان سے بات کرنا ایک آنکھ بھلا نہ لگا ۔۔
میں پاکستان جا کر سیکھ لوں گی ۔۔ اس نے دل مسوس کر کہا
اس کی بات سن کر وجدان کا دل ایک دم بیٹھا لیکن اگلے ہی پل اس کا یہ مسلہ بھی حال ہو گیا
نہیں ۔۔آپ جو ان لوگوں کے ساتھ میلو ڈی بھی ہے ساتھ تو آپ کو مسلہ نہیں ہو گا میں وجدان کو کافی عرصے سے جانتا ہوں ۔۔۔ یہاں آپ گھر میں رہنے کے لئے تو نہیں آئیں ۔۔ ریاض صاحب بولے
اچھا ٹھیک ہے ۔۔ پھر کل دوپہر میں ملاقات ہو گی ایک کو میٹنگ نپٹا نی ہیں تو کل ملتے ہیں ۔۔ اوکے ریاض صاحب کافی اچھا لنچ تھا ۔۔۔ وہ جلدی سے کہ کر اٹھ گیا ۔۔کے موبادہ محترمہ کوئی اور بہانہ نا ڈھونڈ لیں ۔۔
اور ہانیہ کو مسکرا کر دیکھتے ہوۓ باہر کو بڑھ گیا ۔۔ ریاض صاحب اور باقی سب لوگ بھی باہر چھوڑنے کے لیے ساتھ ہو لئے ۔۔۔
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ایک تو بابا نے میری ایک نہیں سنی اس میر وجدان شاہ عرف بز نس ٹا یئکون کے ساتھ جانے کا کہ دیا ۔۔ اب وہ مجھے گھورتا رہے گا اور میں ۔۔۔۔ ہا ئے ۔۔ میں تو گئی ۔”۔
۔ ہانیہ کمرے میں ادھر ادھر چکر کاٹنے میں مصروف تھی ۔۔ اور ساتھ ساتھ اپنے نر واس ہونے کی وجہ سے اپنے ہاتھوں کے نا خن کترنے کا شغل بھی جاری رکھے ہوۓ تھی ۔۔۔
تبھی فون کی آواز پر ڈر کر اچھلی ۔۔ افف میرے خدایا یہ کون سی بد روح ہے جو اس وقت جاگ رہی ہے ۔۔ اس نے انجان نمبر دیکھ کر کہا ۔۔اور فون کاٹ کر سائیڈ پر رکھ دیا
کچھ دیر میں پھر سے فون کی گھنٹی نے آواز پیدا کرنا شروع کر دی ۔۔ا
فون اٹھایا تو اگے سے کوئی آواز نو سن کر پھر سے بند کر دیا فون ایک بار پھر سے بجنا شروع ہو گیا وو جو پہلے ہی سخت کوفت کا شکار ہو رہی تھی ۔۔ اس فون کے بار بار بجنے پر اور تپ چھڑی ۔۔اس بار اس کی ہمت جواب دے گئی
ہاں ۔۔کونسے آپ کے ریوڑ کو لے کر بھاگ گئی ہوں جو فون پر فون داگ رہے ہیں آپ نے اگر دوبارہ کال کی تو ڑ یوڑ کے ساتھ بھنس بھی لے جاؤں گی ۔۔ اور ٹھک سے بند کر دیا
……….
جبکہ فون کے دوسری طرف واجدن کی ہنسی نے جلترنگ بکھیر ے تھے ۔۔۔ اس نے ایک بار پھر فون ملایا ۔۔۔ جی بولئے کیا مسلہ ہے ۔۔ algebra کا جو آپ سے حل نہیں ہو رہا ۔۔۔ کے فون داغ رہے ہیں ۔۔۔ غصے سے بھرا جواب آیا
نہیں ۔۔algebra کا تو نہیں فیسا گورس کا ہے ۔۔آپ نے تو حال پوچھا نہیں تو چلیں مدح بیان کر دیتا ہوں فون کرنے کا ۔ کل کتنے کتنے بجے آپ کو لینے آؤں … اس نے مسکراتے ہوۓ پوچھا
"آ آ آ آ آ آپ …………آپ پہلے کیوں نہیں بولے ” ۔۔۔ وہ پہلے ہی جس وجہ سے پریشان تھی ۔۔ اس وجہ کا فون سن کر رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی ۔۔
"آپ کی آواز سننے کے لئے” ۔۔۔ وجدان کی زبان پھسلی ۔۔ "میرا ۔۔میرا مطلب ہے آپ نے ہی سب بول دیا ۔ یہ بتائیں آپ کے کل کب لینے آؤں ۔_۔۔
"آپ آنے کی تکلیف مت کیجیے گا "۔۔ میں ڈرائیور کے ساتھ آ جاؤں گی ۔۔۔ ہانیہ نے وجدان کو بتایا
” کسی ڈرائیور کے ساتھ آنے کی ضرورت نہیں ۔”۔ وجدان کی رگیں تن گئیں اس کے ہاتھ میں موجود کاغذ اپنی اصل حالت میں نا رہا تھا وجدان نے ایک لمبا سانس لیا ۔۔” میں کل شام کو لینے آؤں گا اوکے کل ملاقات ہو گی "۔۔۔ یہ کہہ کر فون بند کر دیا ۔۔
اس لڑکی نے عہد کر لیا ہے کے یا تو اس کو جیل بھجے گی ۔۔یا ہسپتال ۔۔۔ اس نے سر جھٹکا
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔