عبید آج پھر مِیر شاہ ویز سے ملنے کالج آیا تھا سادہ کپڑوں میں وہ لوگ وہاں نظر رکھنے کے لئے سادہ کپڑوں کا استعمال کر رہے تھے تاکہ اس گینگ کے لوگوں کو شک نہ ہو۔
اس نے میر شاہ ویز کی کال کی تو اس نے بتایا کے وہ کالج کے گراؤنڈ کے پیچھے پودوں کے پاس بیٹھا ہے جہاں وہ سارے کالج کو با آسانی دیکھ سکتا ہے پر کالج سے کوئی اسے آسانی سے دیکھ سکتا کیونکہ گراؤنڈ کے پیچھے بہت سی جھاڑیاں تھیں اس لئے اُدھر کسی کا جلدی دیہان ہی نہیں جاتا تھا ۔
عبید چلتا ہوا مِیر شاہ ویز کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچا اور رسمی سلام دعاء کے بعد کیس کے بارے میں بات کرنے لگے۔
لالہ ہمیں تو کافی کچھ پتہ طل چکا ہے ان کے بارے میں تم بتاؤ جو اس دن پیرٹ سوٹ والی کا بولا تھا اس کا پتہ چلایا عبید نے پوچھا ۔
ہاں دکھنے میں جنتی معصوم ہے اُتنی ہے نہیں آج ہی میں اس سے ساری بات اُگلواتا ہوں اور ہاں اس کے ساتھ جو لڑکی مجھے اس گھر کے باہر دکھی تھی جو پوچھ رہی تھی کام ہوگیا ۔۔۔اس لڑکی کے ساتھ آج کل اک عجیب سی لڑکی پائی جاتی ہے تم ان دونوں پر نظر رکھو اور موقعہ اور مکمل معلومات ملتے ہی پکڑ لو سارے گینگ کو اِدھر میں ذرا اس معصوم بلا سے نِمٹ لوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معاویہ سمیرا موٹی اور صباء پڑھائی کر کر کہ تنگ آگئیں تو اک گیم کھیلنے کا سوچا
بہت پڑھ لیا اب تھوڑا فریش ہوا جائے کیا خیال ہے صباء نے کہا
نیک خیال ہے کیوں معاویہ ویسے بھی پڑھ پڑھ کے سب کو نانی یاد آگئی ہے سمیرا موٹی نے جواب دیا اور معاویہ سے بھی سوال کر لیا
ہاں چلو پھر کچھ کھیلتے ہیں سمیرا نے کہا
اوکے پر کھیلیں کیا معاویہ نے جھنجھلا کر کہا ۔
میں بتاتی ہوں گیم یہ ہو گی کہ ہم سب اپنی اپنی آنکھوں کو زور سے بند کریں گی اور چلتی جائیں گی گراؤنڈ میں اور جس سے
بھی سب سے پہلے ٹکراؤ ہوا اسے کوئی رومینٹک سا ڈائیلاگ بول کر واپس بھاگ آئیں گی بنا پیچھے دیکھے کہ کون کھڑا ہے سمیرا نے کہا ۔
واہ واہ کیا کھیل سوچا ہے آپ نے دِل تو کر رہا اکیس جوتوں کی سلامی دوں تمہیں موٹی بھینس
کیوں میں نے ایسا بھی کیا کہہ دیا جو جوتے مارنے کو پھر رہی مجھے سمیرا نے منہ بنا کر کہا ۔
اوووو موٹی میڈم پہلی بات تو یہ کہ یہ گرلز کالج ہے کسی لڑکی کو کرش والا ڈائیلاگ بولتی ہم پاگل لگیں گی دوسری بات اگر بند آنکھوں میں کسی ٹیچر سے ٹکر ہو گئی تو پکّا عزت ہوگی وہ بھی پورے کالج کے سامنے
ابھی پچھلی بے عزتی ہضم نہیں ہو رہی مجھ سے معاویہ نے روہانسی ہو کر کہا۔
گرلز لِسن کیا ہوگیا بند کرو جھگڑا کھیل ہی تو ہے کھیل لیتے ہیں ویسے بھی پڑھ پڑھ کے سب تھک گئیں ہیں اس طرح سب فریش ہو جائیں گی تو دوبارہ پڑھائی کرتے نانی یاد نہیں آئے گی کچھ نہیں ہوتا مہر ماہ کے مسکرا کر کہنے پر سبھی لڑاکو چڑیلیں پل بھر میں مان گئیں
اوکے تو ہم سب آنکھیں بند کر کے بولیں گی اور ہماری پیاری چِشمش چشمہ اتار کے اسے آنکھیں بند کرنے کی ضرورت نہیں ٹھیک ہے مہر ماہ صباء کے پوچھنے پر مہر ماہ نے ہامی بھر لی اور گیم شروع کر لی
اب چاروں کو الگ الگ کونوں میں جانا تھا اور چاروں آنکھیں بند کئے اپنے اپنے راستے چل پڑیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی بات ختم کرنے کے بعد عبید اور مِیر شاہ ویز گراؤنڈ میں نکلے پر الگ الگ کونوں سے تاکہ کسی کو شک نہ ہو عبید بائیں طرف اور مِیر شاہ ویز دائیں چل دیا ۔
اِدھر اکثر ٹیچرز گیٹ کے باہر کھڑے گول گپے والے سے گول گپے منگواتیں تیں آج بھی منگوائے تو سُکّا سڑا گول گپے والا لڑکا گول گپے لے کر اندر گراؤنڈ میں چلا آ رہا تھا جسے اکثر زکام رہتا تھا اور وہ اپنی ہی بازو سے ناک رگڑتا رہتا تھا
چوتھی طرف مس ثناء گراؤنڈ میں سے ہوتی ہوئیں پرنسپل آفس جا رہی تھیں۔
سب سے پہلے معاویہ آنکھیں بند کئے چلی جا رہی تھی اور چلتے چلتے کسی بھاری وجود سے ٹکرائی تو کھیل کے مطابق فورًا انجمن کے انداز میں بولی ۔۔۔میں تیری بن گئیں آں وے ظالمہ تو میرا کیوں نہیں بندا ,,کیوں نہیں بندا اور ڈائیلاگ مارتے ہوئے پنجابی فلم کی ہیروئن کی طرح دونوں ہاتھ کے مکّے بنا کر پیار سے سامنے والے کے سینے پر مار رہی تھی آنکھیں بند کر کے بنا یہ جانے کہ سامنے کون کھڑا ہے
اگلی باری صباء کی تھی اور وہ آنکھیں بند کئے چلتی جا رہی تبھی اس کی ٹکر کسی مریل سُکّے سڑے انسان سے ہوئی ۔
اور صباء نے فورًا بول دیا ۔۔۔۔تیرے بِن اک پل دل نہیں لگدا ۔۔۔دل نہیں لگدا
کہہ کر یوں ہی آنکھیں بند کر کے واپس بھاگ آئی بلکل وہ بھی دیکھے بنا کہ کس کو پیار بھرا ڈائیلاگ بول آئی۔
اس سے اگلی باری موٹی سمیرا کی تھی اور وہ ٹُھمک ٹُھمک کے چلتی کسی وجود میں بجی اور اور اپنے پھٹے سپیکر سے گانے لگی
ہم نے تم کو دِل یہ دے دیا یہ بھی نہ پوچھا کون ہو تم یہ فیصلہ جو دِل نے کِیا,, یہ فیصلہ جو دِل نے کیا,, یہ فیصلہ جو دِل نے کِیا تب یہ بھی نہ جانا کون ہو تم م م م ۔۔۔۔۔
میں بتاتی یوں کون ہوں میں سامنے کھڑی مس ثناء نے موٹی کا کان سے پکڑا اور سٹاف روم کے باہر لے جا کر کان پکڑا کر کہا اب پتہ چلا کون ہو میں
آخری باری تھی مہر ماہ کی جس بیچاری کو آنکھیں بند کرنے کی لوئی خاص ضرورت نہیں تھی بس چشمہ اتار کہ چلی جا رہی تھی اور دِکھ ٹھیک سے اسے بھی کچھ نہیں رہا تھا
چلتے چلتے وہ کسی ایسے انسان سے ٹکرائی کے سر کے ساتھ ساتھ وہ پوری ہی گھوم گئی اسے لگا وہ لوہے سے ٹکرا گئی اور اب ہلا بھی نہیں جا رہا تھا اس سے خیر کھیل تو پورا کرنا ہی تھا اس لئے اس کے دِماغ میں جلدی میں جو آیا بول دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سُنو فوجی ویسے تو مجھے پشتو آتی نہیں پر ر ر ر ۔۔۔۔۔زاتا سارا مِینا کوم(آئی لو یو)
کہہ کر وہ کھلی آنکھوں سے واپس بھاگ آئی یہ جانے بنا کے سامنے والے کا دماغ گھومنے کے ساتھ ساتھ دِل کی دنیا بھی درہم برہم کر آئی ہے ۔ویسے اس بیچاری کو کونسا سہی سے دِکھ رہا تھا کہ سامنے کون ہے اس کو یہی لگا سا منے کوئی کالج کی لڑکی ہی ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے روز صبح کالج جاتے وقت عمارہ مہر ماہ کے کمرے میں آئی اور دروازے میں کھڑی کھڑی کہنے لگی سنو ۔۔۔مہر ماہ جو اپنے لمبے سِلکی بال کنگھی کر رہی تھی مُڑ کے عمارہ کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا
تائی جی اور تایا جی نے جاتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک وہ واپس نہیں آتے تم واپسی پر میرے ساتھ ہی کالج سے آنا اکیلی مت چلی آنا منہ اُٹھا کے اوکے؟؟؟ عمارہ نے اِک ادا سے اپنے بال پیچھے کر کے بولی۔
اوکے مہر ماہ نے نرمی سے کہا۔
ہوا کچھ یوں ہوا کہ اِک رات پہلے ہی ان کے خاندان میں کوئی فوتگی ہوئی تھی جس پر جانے سے پہلے انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی وقار سے کہا تھا کہ ان کی بیٹی مہر ماہ کو وہ لے آئیں کالج سے اور یہ بات عمارہ نے سُن لی تھی اور اسی بات کا فائدہ اٹھا کر عمارہ نے سوچا کیوں نہ اسی بات کو اپنے پلین کے لئے یُوز کرے اور اس نے یہی کیا اپنے بابا کے کمرے میں جا کر جھوٹ بول دیا کہ مہر ماہ کہہ رہی ہے کے وہ اپنی فرینڈز کے ساتھ ہی گھر آئے گی چاچو اسے لینے نہ آئیں اور پاس بیٹھی مونا چچی بھی شروع ہو گئیں دیکھا کتنا سر چڑھا رکھا ہے اس لڑکی کو اس کے باپ نے اک میری بیٹی اللّہ میاں کی گائے ماں باپ کی ہر بات مانتی ہے چھوڑیں جی دفع کریں کوئی ضرورت نہیں اسے لینے جانے کی خود ہی آتی پِھرے جس کے مرضی ساتھ ہہہہن مونا بیگم نے اپنی بھڑاس نکالنے کے لئے انجانے میں عمارہ کا کام آسان کر دیا اور عمارہ بھی خوش ہو گئی اپنا کام آسانی سے پورا ہونے پر اب بس اسے اگلی چالاکی کرنی تھی چھٹّی کے وقت۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِدھر ہٹلر صاحب آں ہاں سوری سوری مطلب شاہد آفریدی کی سمائل ,وحید مُراد کے سٹائل اور حمزہ عباسی کے اٹیٹیوڈ والے مِیر شاہ ویز خان فُل پریشان حال سونے کی کوشش میں ادھ مُوئے ہوئے جا رہے تھے
اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر یہ ان کی چھٹی کروٹ تھی اور نیند بی بی کوسوں دور جیسے ہی وہ آنکھ بند کرنے کی ناممکن کوشش فرماتے آنکھوں کے سامنے اِک معصوم سا چہرہ آکر کہتا ۔۔۔۔۔زاتا سارا مینا کوم
یار کیا مُصیبت ہے میں سو نہیں پا رہا جاگا بھی نہیں جا رہا صبح جس مجرم کو پکڑنا ہے وہ خوابوں کی رانی بن , بن کے دِماغ میں گھوم رہی ہے ۔
غصے میں اُٹھ کر وہ آئینے کے سامنے گیا اور انگلی کے اشارہ آئینے کی طرف کر کے بولا بات سُن اوئے جاہل قِسم کے دل میں مِیر شاہ ویز خان ہوں جس نے مُڑ کر تو کیا سامنے کھڑی لڑکی کو کبھی دیکھنا پسند نہیں کِیا اور تُو اک مجرم پے فِدا ہوا بیٹھا ہے ۔
اوئے دل کان کھول کے سُن اب اگر اس لڑکی کی طرف دوڑا تو تیری خیر نہیں سمجھا۔
دل کو ڈپٹ کے مِیر صاحب بِستر پر آگئے پر رات پوری پھر وہی حال رہا جو پہلے تھا۔ ۔۔۔۔۔۔
زاتا سارا مینا کوم زاتا سارا مینا کوم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح عمارہ اور مہر ماہ اک ساتھ کالج آئیں پر بعد میں دونوں اپنے اپنے راستے چلی گئیں کلاس میں موٹی صباء اور معاویہ اس کا انتظار کر رہی تھیں اور جیسے ہی مہر ماہ کلاس میں داخل ہوئی تینوں مِل کر اس کو ایسی چِپکیں کے بسسسس ۔چھوڑو یار سانس روک کے چھوڑو گی مہر ماہ نے دہائی دی۔
اوئے آج چھٹّیاں ہو جائیں گی پھر ہم اتنے دِن نہیں مِل پائیں گی اس لئے آج ہی اکٹھا گلے مل لیا موٹی سمیرا کے مسکرا کر کہنے پر سب کھلکھلا کر ہنس دیں اور دُور کھڑی عمارہ یہ سب دیکھ کر اپنی لگائی آگ میں ہی جلتی رہی ۔
آج یہ تیری آخری ہنسی ہے اس کے بعد بس تو روئے گی صدا ہہہہن عمارہ نے چہرے پر شیطانی مسکان لا کر سوچا۔
سارا دِن خوب ہلا گُلا کرنے کے بعد سب سہیلیاں اک اک کر کے اپنی گھر لوٹ گئیں کالج بھی تقریبًا خالی ہونے کو تھا پر عمارہ کا کچھ اتا پتہ نہ تھا اب تو مہر ماہ کو اکیلی ڈر لگنے لگا تھا پر اس نے اپنے بابا کا کہا ہر حال میں ماننا تھا جبیوں نے اسے عمارہ کے ساتھ ہی واپس گھر آنے کا کہا تھا بقول عمارہ کے۔
وہ یوں ہی اکیلی کھڑی تھی گھبرائی سی جب کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ اس نے اک دم مڑ کے دیکھا تو پیچھے عمارہ کھڑی تھی ۔اوہ کہاں رہ گئی تھی تم دیکھو کالج خالی ہونے والا میں تو اکیلی ڈر ہی گئی تھی ۔
ابھی تو اصل ڈرنا باقی ہے تم آگے آگے دیکھو ہوتا ہے کیا,عمارہ نے دل میں سوچا ۔
ہاں میں بھی بس تمہیں ہی ڈھونڈ رہی تھی اس نے صاف جھوٹ بولا چلو اب گھر چلیں کہتی خود ہی عمارہ رُک گئی اور اپنے ماٹھے پر ہاتھ مار کے بولی اففف ۔۔۔۔
کیا ہوا مہر ماہ نے گھبرا کر پوچھا ۔
یار اوپر وہ میں اپنی بُک اپنی فرینڈ کی کلاس میں ہی بھُول آئی وہ واپس لانی ہے مجھے اکیلے جاتے تو ڈر لگتا تم بھی چلو نہ میرے ساتھ کہتی عمارہ واپس مڑی اور مہر ماہ کو بھی اس کے ساتھ جانا پڑا ۔
اوپر والا حصّہ بلکل سنسان ہو چکا تھا اتنا بڑا کالج سارے کا سارا خالی ہو چکا تھا عمارہ بڑے آرام سے جبکہ مہر ماہ ڈرتے ڈرتے چل رہیں تھیں آخری کلاس کے دروازے پر پہنچ کے عمارہ نے کہا یہی کلاس ہے آؤ بُک دیکھیں دونوں اندر چلی گئیں عمارہ شروع کی ڈیسک پر ڈھونڈنے کا دکھا وا کرنے لگی جبکہ مہر ماہ کو پیچھے کی طرف بھیج دیا جیسے ہی مہر ماہ مگن ہوئی بُک ڈھونڈنے میں عمارہڑنے دبے کمرے سے نکلی اور کمرے باہر سے لاک لر گئی ۔
اِدھر مہر ماہ جب تھک گئی ڈھونڈ ڈھونڈ کے بُک تو کہتے ہوئے مُڑی کہ عمارہ تم میری بُک لے لینا پڑھائی کے لئے پر ابھی گھر چلو بہت ٹائم ہو گیا گھر والے پریشان ہورہے ہوں گے
پر مُڑنے پر اسے پتہ چلا کے پیچھے کوئی نہیں اور کمرہ خالی ہونے کے ساتھ ساتھ بند بھی ہے وہ گھبرا کر آگے بڑھی اور تیزی سے دروازے کو کھولنے لگی پر دروازے کو چھُو کے اسے پتہ چلا کے دروازہ باہر سے لاک ہو گیا ہے ۔
عمارہ کہاں گئی اور دروازہ کیسے بند ہوا ؟؟؟ کیا عمارہ نے مجھے بند کیا ؟؟؟,کیا وہ مجھ سے اس حد تک نفرت کرتی ہے کے مجھے اکیلا قید کر جائے ؟؟؟۔۔۔۔
اس سے آگے مہر ماہ میں سوچنے کی ہمت نہ رہی اور دروازے کو پیٹتے, روتے ,ڈرتے اور دم گھٹتے وہ کب بے ہوش ہوئی اسے کچھ خبر نہ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمارہ اپنا کام نپٹا کے بڑے مزے سے انعم سے اپنی ہی کزن کو اغواء کرنے کا بول کر خود گھر چلی گئی اِدھر انعم نے جو پلین بنایا تھا اس کے مطابق وہ بھی عمارہ کو ہاں بول کے بعد میں چلی گئی اس نے بھی مُڑ کے مہر ماہ کو نہیں دیکھا وہ یہی تو چاہتی تھی کہ مہر ماہ مر مرا جائے تب خود کو پولیس سے بچانے کے لئے عمارہ بھاگی بھاگی اس کے پاس آئے تب وہ اسے اسی شرط پے پناہ دے گی جب وہ اس کے لئے ہر طرح کا غلط کام کرنے پر راضی ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر ماہ کو ہوش آیا تو اس نے خود اک چھوٹے سے مگر صاف ستھرے کمرے میں پایا ۔
یہ کہاں آگئی میں اس نے دِماغ پر زور دیا تو یاد آیا کہ عمارہ اسے کلاس میں بند کر گئی تھی پھر وہ کب بے ہوش ہوئی اور کب اس جگہ لائی گئی اسے کچھ خبر نہ تھی ۔
اٹھ گئیں ہیں آپ مِس ناگن ۔۔۔مہر ماہ کو یہ آواز اپنی دائیں طرف سے آئی تو اس نے گردن گھما کے اس طرف دیکھا جہاں مِیر شاہ ویزخان دروازے سے ٹیک لگائے پوری شان و شوکت سے کھڑا تھا ۔
جی ی ی ی آ آ آ آپ ک ک کون؟؟؟ میں یہاں کیسے آئی؟؟؟
میں بھوت اور اب تم کو کچّا چبا جاؤں گا اگر اِک لفظ بھی اپنے بارے جھوٹ بولا چلو شاباش شروع سے اپنے پیدا ہونے سے لیکر اب تک جو تمہاری زندگی رہی سب اُگل دو ورنہ اگلوانے کے اور بھی بہت سے طریقے جانتا ہوں میں سمجھی
اوکے معصوم سی مہر ماہ ڈرتے ڈرتے بولی ۔۔۔
میرا نام مہر ماہ ہے میں پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئی امّی اور بابا کی شادی کے پورے 12 سال بعد میں اپنے بابا کی بہت لاڈلی ہوں اور اکلوتی بھی اسی لئے وہ مجھے پیار سے دِلبر کہہ کر پکارتے ہیں
میرے بابا وقاص احمد اور چاچو وقار احمد دو ہی بھائی ہیں اور اکٹھے ہی عہتے ہیں شروع سے پر جب میں نے ہوش سنبھالا چچی کو اپنی امّی سے اور مجھ سے نفرت کرتے پایا وجہ آج تک معلوم نہیں ہوسکی وہ اپنی نفرت کا اظہار اکثر میری کمی کو لے کر کرتی ہیں مجھے ٹھیک سے دِکھتا نہیں نظر بہت کمزور ہے بنا چشمے کے سب دھندلا دِکھتا ہے اسی لئے کزنز بیٹری اور چچی اندھی کہہ کر بلاتی ہیں بات کرتے کرتے مہر ماہ کچھ پل کے لئے رُکی اپنے آنسو پونچھنے کو
پھر وہیں سے شروع ہو گئی میرے بابا بہت غریب ہیں اس لئے میرا علاج نہیں کروا سکتے ٹھیک سے شاید میری کمی کی وجہ سے ہی چچی اور عمارہ مجھ سے نفرت کرتے ہیں
عمارہ کا نام لیتے ہی اسے کچھ یاد آیا دیکھیں میں نے اپنے بارے میں سب بتا دیا اب آپ بھی صرف اتنا بتا دیں کہ آپ نے عمارہ کے ساتھ مل کر مجھے اغواء کیوں کیا کیا میری اپنی کزن کو مجھ سے اتنی نفرت ہے کہ مجھے اغواء ہی کروا دیا بولتے بولتے مہر ماہ کی آواز رندھ گئی
بسسسس چپ پ پ یہ کونسی کہانی سنا رہی ہو مجھے میں نے یہ نہیں پوچھا کہ تم کب اور کتنی سال بعد پیدا ہوئی سمجھی مجھے بےوقوف سمجھ رکھا ہے جو یہ جھوٹے سیڈ سٹوری سنا لر مجھے متاثر کرنے کی کوشش کر رہی ہو مِیر شاہ ویز نے غُرّا کر کہا۔
میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا مہر ماہ نے روتے ہوئے معصومیت سے کہا
زیادہ بنو مت ورنہ میرا دماغ گھوم جائے گا اور جب میرا دماغ گھوم جائے تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوتا اس دنیا میں سمجھی
چلو اب اصلی کہانی پے ؤ کب سے ہو تم اس گینگ کا حصّہ؟؟؟ اور کب سے نشہ کا عادی بنا رہی ہو کالج کی لڑکیوں کو؟؟؟
کیا ؟؟؟گینگ , نشہ
کیا بول رہے ہیں آپ مجھے کچھ سمجھ نہیں
آ رہا مہر ماہ نے حیران ہو کر کہا۔
جیل کی ہوا لگی تو سب اُگل دو گی تم میں صرف لڑکی ہونے کی وجہ سے لحاظ کر رہا ہوں اور تم سر پے چڑھ کے بیٹھ رہی ہو۔
مجھے سب پتہ ہے وہ لڑکی عمارہ اور تم اسی گینگ کا حصّہ ہو جو کالج کی لڑکیوں کو نشے کا عادی بنا کر یا ورگلا کر بیرون ملک بیچ کر بھاری رقم لیتے ہیں ۔مِیر شاہ ویز نے غصّے میں کہا
نہیں قسم لے لیں مجھ سے میرے ماں باپ کی میں ایسی لڑکی نہیں میرا تلعق اک غریب گھرانے سے ضرور ہے پر ہم شریف لوگ ہیں کبھی کچھ غلط نہیں کیا خدارا اتنا گھٹیا الزام مت لگائیں اس سے اچھا یہ جو گن پکڑی ہے اس سے گولی مار دیں پر اتنا گھٹیا الزام۔۔۔۔۔
پلیز مجھے جانے دیں گھر پر میرے بابا پریشان ہر رہے ہوں گے رات کے آٹھ بج رہے اور میں گھر نہیں پہنچی میرے بابا بہت عزت دار
مجھے جانے دیں کوئی ان سے سوال کرے گا کہ اب تک بیٹی کہاں ہے تو وہ کیا جواب دیں گے میں ان کا مان ان کا فخر ہوں
آج میں ان کی ذلت کی وجہ نہیں بن سکتی جانے دیں خدا کے لئے مہر ماہ نے ہاتھ جوڑ کے کہا۔
اوکے جانے دیا پر اک بات یاد رکھنا اگر تم نے اپنے گینگ کچھ بھی میرے بارے میں یا ان باتوں کے بارے میں بتایا جو ہمارے بِیچ ہوئیں تو یاد رکھنا بچ نہیں پاؤ گی مِیر سے میں تم پر ہر پل نظر رکھے ہوئے ہوں۔
اک بات اور یہ رات کے نہیں دن کے آٹھ بجے ہیں اب نکلو یہاں سے بلکہ رکو میں روڈ تک چھوڑ دیتا آگے خود ہی جانا مِیر شاہ ویز نے اس کی آنکھوں پر پٹّی باندھی اور ہاتھ تو پہلے سے ہی بندھے تھے پھر اسے لے کر اپنی گاڑی میں بٹھا یا اور اس کے کالج والی سڑک پر چھوڑ کے اس کے ہاتھ کھولے اور زن سے گاڑی کو اُڑا کر لے گیا مہر ماہ نے اپنی آنکھوں کی پٹی کھولی تو ارد گرد صبح کی ٹریفک چل رہی تھی مطلب میں پوری اک رات گھر سے باہر رہی اب کیا ہو گا میرا بابا کی عزت خاک میں مل جائے گی وہ روتے ہوئے پیدل ہی گھر کی جانب جاتے ہوئے سوچ رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوا یوں کہ جب عمارہ اور انعم مہر ماہ کو کمرے میں بند کر کے جا چکی تو مِیر شا ویز جو چھپ کر یہ ساری کاروائی دیکھ رہا تھا آگے آیا اور کمرے کی کنڈی کھول کے بے ہوش پڑی مہر ماہ کو اپنی گاڑی میں ڈال کے اپنے فلیٹ پر لے آیا کیونکہ چھٹّی کے بعد کالج والی سڑک سنسان ہو جاتی تھی اس لئے کسی نے اس کو مہر ماہ کو لے جاتے نہیں دیکھا۔
مہر ماہ کے بے ہوش ہونے اور عمارہ کے کمرے میں بند کر کے جانے کو وہ اک ڈرامہ ہی سمجھ رہا تھا اس گینگ کا۔۔۔۔ اس لئے اس نے مہر ماہ کو ہوش میں لانے کی اپنی سی کوئی کوشش نہیں کی اسی لئے مہر ماہ ساری رات بے ہوش رہی اور وہ دُور کرسی پر بیٹھا اس کے اٹھنے کا انتظار کرتا رہا کیونکہ اس کو یہی لگ رہا تھا کہ وہ بے ہوش ہونے کا ڈرامہ کر رہی ہے آخر کتنی دیر یوں پڑی رہے گی کبھی تو اٹھے گی اور وہ اٹھی تو اس نے اپنی پوچھ گِچھ کی جس میں اس کو مہر ماہ جھوٹی لگی اور اس کے آنسو بھی اک ڈھونگ لگے ۔
پر اس نے پھر بھی اسے چھوڑ اس لئے دیا کہ اس کا پیچھا کر کے اس کے سارے گینگ کا پتہ چلا سکے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِدھر جب وقاص صاحب اور حرا فوتگی سے گھر پہنچے تو وقار صاحب سے پتہ چلا کہ مہر ماہ نے اپنے چاچو کے ساتھ کالج جانے سے انکار کردیا تھا اور واپسی پر بھی اکیلی آنے کا بولا تھا جس سے انہیں حیرانی کے ساتھ پریشانی بھی ہوئی حیرانی اس لئے کے ان کی بیٹے تو بڑوں کی عزت ہی بہت کرتی کیسے وہ اپنے چاچو کو یہ سب بول سکتی
اور پریشانی اس لئے وہ فوتگی سے شام 6 بجے لوٹے تھے اور مہر ماہ ابھی تک گھر نہیں آئی تھی ۔ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا مہر ماہ ہمیشہ اپنے بابا کے ساتھ کالج سے چھٹی کے 10 منٹ بعد ہی گھر پہنچ جاتی تھی ۔
اب وقاص صاحب کو پچھتاوا ہو رہا تھا کہ کیوں وہ اپنی بیٹی کی ذمہ داری ان لوگوں کو دے کر گئے جنہیں اس کے گھر نہ آنے کی کوئی فکر تک نہ تھی بیٹی تم ہی اسے اپنے ساتھ گھر لے آتی عقاص صاحب نے عمارہ سے کہا چاچو میں کیسے لاتی اس نے صاف انکار کر کے بولا تھا کہ وہ خود ہی آجائے گی عمارہ نے صاف جھوٹ بول دی اوپر سے الٹی مونا نے باتیں بنانی شروع کر دیں تھیں توبہ ہے جیٹھ جی آج تک جسے بیٹی نہیں بیٹا سمجھتے رہے اس نے بیٹوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اور لڑکی ذات ہو کر رات تک گھر سے باہر ہے توبہ میری توبہ کیا زمانہ آگیا
شام سے رات اور رات سے دن ہوگیا اب وقار صاحب بھی بھائی کی پریشانی دیکھ کر پریشان ہو گئے آخر مہر ماہ ان کی بھی بھتیجی اور عزت تھی بھائی کیا خیال ہے پولیس میں رپورٹ کروادیں وقار نے کہا۔
نہیں کبھی نہیں میں نے برسوں میں جو عزت بنائی وہ پل بھر میں تباہ ہو جائے گی پولیس کو بتانے سے بات پھیل جائے گی وقاص صاحب نے آنسو روکتےہوئے کہا ۔
ارے جیٹھ جی یہ تو آپ کو تب سوچنا چاہیے تھا جب اس پے اندھا اعتماد کیا تھا دے گئی نہ آپکی محبتوں کا صِلہ آپکی لاڈلی بیٹی ہہہننن مونا نے اک بار پھر آگ بھڑکائی ۔۔۔
یوں ہی اس کے والدین سر پکڑ کے بیٹھے تھے کے بکھرے بال اور تھکی تھکی چال کے ساتھ مہر ماہ گھر میں داخل ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِدھر مہر ماہ کے نکلتے ہی مِیر شاہ ویز نے چپکے سے لی ہوئی مہر ماہ کی فوٹو عبید اور مدثر کو واٹس ایپ کردی اور خود کال کر کے مہر کے پیچھے اپنے خاص بندوں کو نظر رکھنے کا کہنے لگا ۔ جیسے ہی وہ اس کال سے فارغ ہوا تو اسے اس کے بابا کی کال آئی
ارے واہ بابا کو آج میری یاد کہاں سے آگئی
چہرے پر میٹھی سی مسکان لئے اس نے مِیر چنگیز خان کی کال اٹینڈ کی۔
اسلام علیکم بابا جانی سنگائی تاسو(کیسے ہیں آپ)
زو خیامہ میرے دِل (میں ٹھیک ہوں میرے دِل)
اور ڈیوٹی سب ٹھیک جا رہا اس کے بابا نے پوچھا ۔۔۔۔جی میرے پیارے بابا جانی سب ٹھیک آپ سنائیں گھر میں سب ٹھیک امّی جان کیسی ہیں شاہ ویز نے پوچھا
اس کا کیا پوچھتے ہو تمہاری شادی کی آس دل میں دبائے بیٹھی ہے بیچاری اک ہی بیٹا ہے وہ اس کو پوتے پوتیوں کا منہ نہیں دکھائے گا تو کون دکھائے گا یار کوئی لڑکی پسند ہو تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں بس تم ہاں کرو ۔
افففف بابا جانی کرتے ہیں اس ٹاپک پے بات بعد میں اس نے ہمیشہ کی طرح جان چھڑوائی۔
اچھا روکو یار اصل بات تو میں پوچھنا بھول ہی گیا مِیر چنگیز خان نے پوچھا ۔
جی نابا بولیں۔۔۔
بیٹا یہ تم نے مجھے میری پیچنٹ کی تصویر کیوں واٹس ایپ کی تم کو یہ کہا ملی؟؟؟
آپکی پیشنٹ واٹس ایپ اک منٹ بابا اس نے فورًا واٹس سیپ۔چیک کیا تو عبید کی جگہ مہر ماہ کی پِک اس کے بابا کو سینڈ ہو گئی تھی ۔
بابا آپ اس لڑکی کو جانتے ہیں ؟؟؟ شاہ ویز نے پوچھا
ہاں یار یہ تو تب سے میرے پاس آتی ہے جب سے یہ بہت چھوٹی تھی اس کا باپ وقاص احمد بہت غریب انسان ہے پر بہت نیک بھی اس بیچاری کو پیدائشی آنکھوں کا مسئلہ چشمے کے بنا دیکھ نہیں پاتی ٹھیک سے بہت ہی نیک پیاری اور لائق بچی ہے اچھا بابا کیا آپ اچھے سے جانتے ہیں ان کومِیر شاہ ویز نے اک اور سوال کیا۔۔۔۔۔۔ ہاں دِل بیٹا میں بہت عرصے سے جانتا یوں بہت ہی بھلے لوگ ہیں ۔
اوکے بابا جانی میں آپ سے بعد میں کرتا ہوں بات کہہ کر اس کال بند کی کونکہ بیچ میں مدثر کی کال آرہی تھی ۔
ہاں بول مدثر اس نے چھوٹتے ہی پوچھا
یار ساری معلومات مل گئیں ہیں وہ لڑکی جسے تو اس گینگ کا حصہ سمجھ رہا تھا وہ سچ مچ اک شریف خاندان کی لڑکی ہے اور اس کا کوئی تلعق نہیں ان لوگوں سے اصل ساتھی اس گینگ کی وہ انعم نامی لڑکی ہے جس سے آج کل اس مہر ماہ نامی لڑکی کی کزن عمارہ کی دوستی چل رہی وہ ضرور عمارہ کو اپنے چنگل میں پھنسا کر کوئی غلط کام کروائی گی میں نے سب پتہ کر والیا عمارہ نے کوئی ذاتی بدلہ لینے کے لئے اس بیچاری مہر ماہ کو بند کیا تھا اور تُو اسے اس گینگ کی ساتھی سمجھ کے اٹھا لایا یار دکھ تو اس بات کا ہے کہ اس شریف خاندان کی کتنی بے عزتی ہوئی ہوگی کہ ان کی بیٹی اک رات گھر سے باہر رہی پر پھر بھی پاک دامن ہے کوئی یقین نہیں کرے گا اففف یار مدثر نے دکھ بھرے لیجے میں کہا۔
تو کال بند ہم بعد میں کرتے بات یہ کہہ کر مِیر شاہ ویز خان نے گاڑی نکالی اور اس کا رخ مہر ماہ کے گھر کی طرف تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھکی تھکی مہر ماہ مجرموں کی طرح کپکپاتے جسم کے ساتھ گھر والوں کے سامنے کھڑی تھی ۔
کہاں تھی تم رات بھر پہلی گرج دار آواز اس کے بابا وقاص صاحب کی تھی بابا وہ میں میں میں اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کیا اس سے پہلے ہی خود کو بچانے کے لئے عمارہ بولی۔تایا جی میں نے تو کہا تھا میرے ساتھ چلو گھر پر یہانی ہی نہیں لوہے کو گرم دیکھ اک چوٹ اس نے مارنی مناسب سمجھی ۔
اور حرا بیگم بس سارا تماشا آنسو بھری آنکھوں سے دیکھتی رہیں۔
تم لوگ کیا پوچھو گے میں پوچھتی ہوں اس بد کردار سے مونا جس کو سالوں بعد دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع ملا تھا بالوں سے گھسیٹتے ہوئے مہر ماہ کو گلی میں لے آئیں اور اونچی اونچی چلّا کر کہنے لگیں دیکھو محلّے والو ہماری لڑکی آج باپ کے منہ پر کالک تھوپ کے آئی ہے ۔
صبح صبح چیخ و پکار سن کے محلّے دار بھی گھروں سے نکل کر تماشہ دیکھنے لگے
دیکھو جی اس اندھی کو یقین تھا کہ کوئی لڑکا تو اس سے شادی کرنے سے رہا اس لئے از نے تن کی آگ بجھانے کو غلط راستے ہی چُن لئے دیکھو اس بد کردار کو اس کے بکھرے بال اور تھکی ٹوٹی چال ہی بتا رہی کہ یہ رات بھر کیا کیا گھُل کھلاتی رہی ہے مونا نے اک نفرت بھری نظر مہر ماہ پر ڈال کر کہا ۔
وقار صاحب بیوی کی حرکتیں دیکھ رہے تھے کہ کہاں ان کے بھائی نے پولیس کو بتانے سے روکا تھا کہ کہیں بدنامی نہ ہو اور ان کی بیوی سرِ بازار گھر کی عزت کا تماشہ لگائے بیٹھی ہے۔
بولو جیٹھ جی اب کون کرے گا آپکی لاڈو دلبر بیٹی سے شادی بولو۔۔۔۔ اگر اس مجمعے میں اک انسان بھی میری بیٹی کی پاک دامنی پر اعتبار کر کے ہاں بول دے تو اسی سے کر دوں گا اس کی شادی ابھی اسی وقت وقاص صاحب نے ٹوٹے لہجے اور جھکے سر کے ساتھ کہا ۔
ہاں ہاں تو بولو جی کوئی ہے جو اس بد کردار کو اپنائے جس پر سارے محلے کو سانپ سوُنگھ گیا حالانکہ کے سب جانتے تھے کہ مہر ماہ اک شریف لڑکی ہے پر صرف اک رات گھر سے باہر رہنے کی سزا یہ تھی کہ کوئی اسے اپنی صفائی میں بولنے کا موقع نہیں دے رہا تھا الٹا بد کردار کا ٹھپّا الگ لگا دیا تھا ظالم چچی اور ظالم سماج نے
اور اِدھر عمارہ اپنے پلین کی کامیابی پر شیطان کی مانند مسکرا رہی تھی ۔
اک آخری بار پوچھ رہا ہوں ہے کوئی میری بیٹی کو اپنانے والا ہے کوئی جو اس سے شادی کرے اتنا کہہ کر وقاص صاحب جھکے سر اور جُرے ہاٹھوں کے ساتھ زمین پر بیٹھتے چلے گئے اور پھوٹ پھوٹ کر رو دیے ۔
میں کروں گا آپ کی بیٹی سے شادی ابھی اور اسی وقت کوئی مجمعے کو چِیرتا ہوا وقاص صاحب تک پہنچا اور ان کے جُڑے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اپنی بارُعب آواز میں بولا جس پر عمارہ اور اس کی شیطان ماں مونا کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...