ابراہیم حیات۔۔۔
حیات یوسفزئی کا سب سے چھوٹا اور لاڈلا بیٹا۔۔۔
ابراہیم سے بڑا دراب اور کنزہ تھے دونوں ہی شادی شدہ تھے اور ایک کامیاب ازدواجی زندگی گزار رہے تھے
حیات صاحب کئی سال پہلے کام کے سلسلے میں دوبئی گئے تھے کچھ وقت و حالات کا تقاضہ تھا کہ انہیں وہاں رہنا پڑا نوکری راس آئی تو انہوں نے پاکستان میں اپنا ایک بہترین گھر بنایا مگر فیملی کے بغیر رہنا ناگزیز تھا جاب کی وجہ سے وہ وہی کے ہو کر رہ گئے تھے مگر گھر کی یاد بے حد ستاتی تھی اسٹیبلش ہونے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے اپنی فیملی کو پاس بلانا چاہا تھا اور سہولیات ملتے ہی انہوں نے کچھ عرصے بعد اپنی فیملی کو بھی وہیں بلا لیا۔۔۔
زندگی پرسکون گزر رہی تھی گھر خوشیوں کا گہوارہ تھا ان کے بچے ان کو مکمل کرتے تھے مگر پھر ان کی زندگی میں طوفان آیا تھا ان کی بیوی کا انتقال ہوا تو وہ ٹوٹ کر رہ گئے بات بچوں کی پرورش کی آئی تو انہوں نے اپنے بچوں کو اپنی ماں کی گود میں ڈالا تھا بچوں کی پرورش ان کی دادی نے کی تھی وہ ان کے لئے ان کی ماں بن گئی تھیں
وقت گزرتا گیا بچے تعلیمی مراحل طے کرتے اب پریکٹیکل لائف میں آگئے تھے بیٹی کا رشتہ آیا تھا لڑکا ان کے دوست کا بیٹا تھا ہر لحاظ سے ان کی بیٹی کے قابل۔۔انہوں نے فوراً ہاں کی تھی جبکہ دراب نے کے لئے انہوں نے اپنی بھتیجی کا انتخاب کیا تھا
دراب وہاں اپنی جاب کرتا تھا اور سیٹل تھا جبکہ کنزہ ہاوس وائف تھی اور شادی ہو کر شارجہ میں مقیم تھی
سب سے چھوٹا اور لاڈلہ تھا ابراہیم۔۔
ابراہیم نے بزنس کی ڈگری لی تو اسکی خواہش تھی کہ وہ اپنا کام پاکستان میں سیٹ کرے انسان چاہے جہاں بھی چلے جائے اپنے وطن کی محبت اسے کھینچ لاتی ہے وہ بھی پاکستان دیکھنے کا خواہشمند تھا اور اپنے باپ اور دادی کی خواہش بھی سمجھتا تھا جبھی یہ فیصلہ لیا۔۔۔
حیات صاحب کو اس کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں تھا وہ تو اب چاہتے تھے کہ وہ پاکستان جائیں لیکن وہاں کام جمانا آسان نہیں تھا جبکہ وہاں صرف ان کا اپنا گھر تھا اس کے علاؤہ ان کا سارا بزنس ہی یہاں تھا جسے اب وہ پاکستان منتقل کرنا چاہتے تھے اس لئے ابرہیم کے فیصلے پر وہ بہت خوش تھے
وہ چاہتے تھے کہ انکا گھر پھر سے کھل جائے لیکن اس میں کام ہونا باقی تھا اتنے سالوں بند رہنے کے بعد گھر کو نئی حالت میں لانا تھا اس لئے ابرہیم حاشر کے کہنے پر جو نا صرف اسکا خالہ زاد تھا بلکہ بیسٹ فرینڈ بھی تھا اس کے ساتھ بزنس اسٹارٹ کرنے کا سوچ کر پاکستان آیا تھا۔۔۔
پاکستان میں قدم رکھتے ہی اس نے اپنے آپ کو بہت پرسکون محسوس کیا تھا
اس نے یہاں رہنے کے لئے ایک فلیٹ لیا تھا
حاشر کے کہنے پر بھی وہ اس کے گھر کے بجائے اپنے لئے رینٹ پر ایک فلیٹ میں رہ رہا تھا اسے اکیلا دیکھ حاشر بھی اس کے پاس ہی آگیا تھا ان دونوں نے مل کر اپنا بوتیک کھولا تھا اس سے پہلے ان دونوں نے ایک شارٹ کورس کیا تھا جہاں اس کی ملاقات ردابہ سے ہوئی تھی اس نے حاشر کو تو منہ نہیں لگایا البتہ ابراہیم سے اسکی دوستی کافی گہری ہوگئی اس نے بوتیک اوپن کرنے میں بھی اسکی کی کافی مدد کی تھی اپنے سرکل میں بھی اسے پروموٹ کیا تھا
اسے ردابہ سے محبت ہوگئی تھی لیکن وہ اسے کہنے سے ڈرتا تھا
ان پانچ سالوں میں اس نے بہت محنت کی تھی اب باری تھی اپنا گھر بنوانے کی تاکہ وہ ردابہ کو پرپوز کر سکے
حاشر کو بھی اسنے نہیں بتایا تھا لیکن وہ تو اسکا یار تھا بن کہے سب سمجھ جاتا اور ریکارڈ بھی خوب لگاتا تھا لیکن پھر بھی وہ جان تھا۔۔۔۔۔
اس نے گھر میں آکر کرایا زلیخا کے ہاتھ میں رکھا تھا
یہ پیسے؟؟؟
دوکان کا کرایہ ہے وہ چادر اٹھا کر اسٹینڈ پر رکھ کر اندر بڑھ گئی
کیسے دیا اس نے مجھے تو صاف منع کردیا تھا
جتنا تم مجھے سناتی ہو نا نور کی اماں اسکا آدھا بھی اس ڈرپوک کو سنایا ہوتا نا تو پیسے ہاتھ میں رکھ دیتا…وہ بولتی اس نے اپنا سامان سمیٹ کر رکھا
تو لڑ کر آئی ہے اسسے آنسہ؟؟؟؟؟
نہیں میں لڑ کر آئی نا جھگڑ کر اور تمہیں پیسے مل گئے نا تو مزے کرو کچن سے کھانا نکال کر وہ بولتی اوپر چلی گئی
نور یہ کیا کر کے آئی ہے وہ اب نور کے پاس آئی تھیں۔۔۔
مجھے نہیں پتا اماں جب میں وہاں پہنچی تو وہ باہر آرہی تھی
اچھا پتا نہیں کیا کر کے آئی ہے یہ لڑکی۔۔۔۔
وہ پریشان ہوئی تھیں
آپ کا تو اچھا ہوگیا نا تو کیوں پریشان ہیں آپ جانتی ہیں نا وہ بنا سوچے سمجھے کرتی ہے سب۔۔
ہاں لیکن کل کلاں کو کچھ ہوگیا تو اس کے باپ کو کیا منہ دیکھاؤں گی میں۔
یہی منہ دیکھا دینا ورنہ بلیچ اور فیشل کر لینا تو شاید ابا خوش ہوجائے چھت سے اتر کر اس نے آدھی بات ہی سنی تھی
نور نے اپنی ہنسی چھپائی تو زلیخا نے اسے گھور کر دیکھا
جب جب وہ اس کے لئے دل میں محبت محسوس کرتی تھیں وہ پھر دل جلا دیتی۔۔
جب بھی منہ کھولتی ہے بکواس ہی کرتی ہے وہ منہ بنا کر اندر بڑھ گئیں
تو کیوں چھیڑتی ہے انہیں آنسہ نور نے اسکے ہاتھ پر نوچا
آآآ کمینی۔۔۔
بتا۔۔
بھئی میرا کھانا ہی ہضم نہیں ہوتا جب تک سوتیلی سے کچھ سن نا لوں اس نے آنکھ ماری
تو قسم سے لوفر ہوتی جارہی ہے
شکریہ شکریہ اس نے سر کو خم دیا
سدھر جا اور پیپر کی تیاری کر ورنہ سپلی پکی تیری۔۔نور نے اسے ڈرانا چاہا
ہاں تو بس بد دعا دے مجھے۔۔۔۔
وہ دونوں انٹر کر رہی تھیں نور تو بہت اچھی تھی پڑھائی میں لیکن اسکا دل ہی نہیں لگتا تھا لیکن اپنے بابا کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے پڑھ رہی تھی۔۔
گھر کے کام میں تو وہ تاک تھی لیکن زلیخا کو جلانے کے لئے کرتی ہی نہیں تھی
ان دونوں کا رشتہ دھوپ چھاؤں جیسا تھا۔
زلیخا نے جو کھانے بنانے کا کام شروع کیا تھا اس کے لئے شان اور علی ان کی پوری مدد کر رہے تھے انہیں ایک آفس میں دس بندوں کا کھانا پہنچانا تھا جس کے لئے انہیں پیسے بھی ٹھیک ہی مل رہے تھے سلائی تو وہ شروع سے کرتی تھیں
شبانہ نے انہیں کہا تھا کہ ایک بوتیک میں سلائی کرنے کے لئے عورت کی ضرورت ہے انہیں وہاں بھی جانا تھا
اس لئے اپنا کام مکمل کر کے وہ جلدی سے شبانہ کے ساتھ نکلی تھی
شبانہ کے ساتھ وہ یہاں آئی تھی آفس بہت خوبصورت اور شاندار انداز میں سیٹ کیا گیا تھا
وہ دونوں تو آفس دیکھ کر ہی مرعوب ہو گئی تھیں
ریسپشن پر بات کی تو وہ ان دونوں کو انتظار کرنے کا کہہ کر اندر بڑھ گئی تقریباً پندرہ منٹ انتظار کے بعد انہیں اندر بلایا گیا
جہاں موجود حاشر اور ابراہیم کو انکا کام بہت پسند آیا تھا اور انہیں کام پر رکھ لیا گیا تھا انکا کام اسٹیچنگ پر تھا ٹائم بھی مناسب تھا اس لئے انہیں کوئی مسئلہ بھی نہیں تھا
زلیخا نے ان کا شکریہ ادا کیا اور وہاں سے نکلیں
کیا خیال ہے یہ کر پائیں گی؟؟
بلکل مجھے انکا کام بہت پسند آیا ہے اور ان کے ہاتھ میں صفائی بھی بہت ہے حاشر کے پوچھنے پر ابراہیم نے اسے کہا تبھی اسکا فون رنگ ہوا ردابہ کالنگ۔۔۔
وہ ایکسکیوز کرتا باہر بالکونی میں آیا تو حاشر نے معنی خیز انداز میں اسے دیکھا تو وہ اسے گھورتا آگے بڑھ گیا
ہے بے بی کیسے ہو؟؟؟؟ اسکی آواز میں بے حد میٹھاس تھی ابرہیم تو وارے صدقے گیا
میں بلکل ٹھیک تم سناؤ کیا حال ہے ؟؟
ائم آل رائٹ اچھا اے بی یہ بتاؤ فری ہو؟؟
فری؟؟؟ اس نے اپنی میٹنگ کا سوچا
ہاں آل موسٹ فری ہی ہونے والا ہوں کیوں؟
مجھے شاپنگ کرنی ہے تو فری ہو کر مجھے پک کرلینا۔۔
ٹھیک ہے چھ بجے تک پک کرتا میں تمہیں۔۔۔
اوکے ڈن بائے پلان کنفرم ہوتے ہی اس نے کال بند کی تو وہ فون کو دیکھ کر اس طرح مسکرایا جیسے وہ فون نہیں ردابہ ہو
کیا کہا بھابھی جی نے ؟؟؟ اسے مسکراتا اندر آتے دیکھ حاشر نے پوچھا
کچھ نہیں بس آج ملنے کا بول رہی تھی
ملنے کا یا شاپنگ کا؟؟؟ حاشر کی بات پر وہ ہنس دیا
تجھ میں مجھے کبھی کبھی دادو کی جھلک نظر آتی ہے چل کام کمپلیٹ کر پھر تجھے گھر چھوڑتا میں جاؤنگا۔۔۔
اچھا پھر رک کچھ ڈیزائن فائنل کرنے ہیں آرڈر کے لئے تو وہ دیکھ پھر مجھے گھر چھوڑ دینا خالو کی کال آئی تھی کہ ایک راؤنڈ لگا کر کام دیکھ لوں چل ٹھیک ہے میں بھی ساتھ ہی چل کر دیکھ لونگا ایسے ٹائم نہیں ملتا۔
وہ دونوں کام سے فری ہوکر حیات مینشن آئے تھے جہاں کا تقریباً سارا کام ہوچکا تھا بس چند ایک چیزیں تھیں جو ہونی باقی تھیں تبھی ایک بار پھر ردابہ کی کال آئی کے وہ ویٹ کر رہی ہے فوراً پہنچے اس لئے وہ جلدی سے وہاں سے نکلا تھا حاشر کو بھی اسے ہی چھوڑنا تھا کیونکہ اس کی گاڑی خراب تھی تو وہ دونوں ایک ہی گاڑی یوز کر رہے تھے
وہ فل اسپیڈ سے گاڑی چلا رہا تھا کہ اچانک سامنے ایک لڑکی ان کی گاڑی کے سامنے تیزی سے آئی تھی اگر وہ بریک نا لگاتا تو آج اس کے ساتھ حادثہ ہوجاتا۔۔۔
وہ غصے میں بھرا باہر نکلا تو حاشر نے بھی اس کی تقلید کی
ابرہیم آرام سے یار۔۔۔۔۔۔
وہ باہر آیا تو وہ لڑکی اسے غصے میں گھور رہی تھی