)توضیحی جائزہ(
مسعود حسین خاں نے 91سال سے زائد عمر پائی۔ انھوں نے اپنی عمرِ عزیز کا بیشتر حصہ درس و تدریس کے علاوہ علمی، ادبی اور تحقیقی کاموں، نیز تصنیفی سرگرمیوں میں صرف کیا۔ وہ ادب، فلسفہ، تاریخ اور لسانیات کا ٹھوس علم رکھتے تھے۔ انھیں کئی زبانوں پر عبور بھی حاصل تھا۔ انھوں نے اپنی طویل عمر کے دوران میں شاعری بھی کی اور تنقید بھی لکھی، نیز لسانیاتی تحقیق کے جوہر بھی دکھائے۔ تدوینِ متن ان کی ادبی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو ہے۔ لغت نویسی کے مسائل سے بھی انھیں دل چسپی رہی ہے۔ وہ ماہرِ دکنیات بھی کہے جاتے تھے، اور اردو تحریک کے فعال قلم کار کی حیثیت سے بھی ان کا مرتبہ نہایت بلند تھا۔ ادبی صحافت کے میدان میں بھی وہ پیش پیش رہے۔ آخر آخر میں انھوں نے اپنی زندگی کی سرگذشت بھی لکھ ڈالی۔ غرض کہ ان کی شخصیت کثیر جہاتی تھی اور ان کی علمی و ادبی دلچسپیاں متنوع تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تصنیفات و تالیفات کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔ ذیل میں زمانی اعتبار سے مسعود حسین خاں کی تصنیفات و تالیفات کا توضیحی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
تصنیفات
1۔’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ (1948): مسعود حسین خاں کی سب سے پہلی تصنیف ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ ہے جو 1948میں دہلی سے شائع ہوئی۔ یہ در اصل ان کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جس پر انھیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے 1945میں پی ایچ.ڈی (Ph.D.)کی ڈگری تفویض کی۔ اس کتاب کے اب تک متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس کا ساتواں ایڈیشن 1987میں ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ سے شائع ہوا جس میں انھوں نے ’’تھوڑی سی نظریاتی ترمیم‘‘ بھی کی ہے۔ اس کتاب میں د ہلی اور اس کے نواح کی بولیوں کو اردو کا سرچشمہ اور 1193میں فتحِ دہلی کو اردو کا نقطۂ آغاز ثابت کیا گیا ہے۔ اردو کے آغاز کے سلسلے میں انھوں نے کھڑی بولی کو فوقیت دی ہے، لیکن ہریانوی کو بھی اس میں ’’برابر کی حصہ دار‘‘ بتایا ہے۔ اردو کے آغاز و ارتقا کے بارے میں مسعود حسین خاں نے اپنے نظریے کا خلاصہ متذکرہ کتاب 1987) ایڈیشن( کے صفحہ 262پر یوں پیش کیا ہے: ’’’زبانِ دہلی و پیرامنش‘ اردو کا اصل منبع اور سرچشمہ ہے، اور ’حضرتِ دہلی‘ اس کا حقیقی مولد و منشائ‘‘۔
2 ۔’اردو زبان اور ادب ‘ (1954): مسعود حسین خاں کے ادبی، تنقیدی اور لسانی مضامین کا پہلا مجموعہ ’اردو زبان اور ادب‘1954میں علی گڑھ سے شائع ہوا۔ اس کتاب کے بھی اب تک کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ اس کا آخری ایڈیشن 1983میں ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ نے شائع کیا۔ اس میں کل 15مضامین شامل ہیں۔ فلسفۂ اقبال، مصحفی، اصغر گونڈوی اور جوش ملیح آبادی پر لکھے ہوئے ان کے مضامین خاصے اہم ہیں جن سے ان کی تنقیدی بصیرت کا پتا چلتا ہے۔ ’’اردو حروفِ تہجی کی صوتیاتی ترتیب‘‘ لسانیاتی اعتبار سے ایک اہم اور قابلِ قدر مضمون ہے جس میں پہلی بار اردو صوتیوں (Phonemes)کا تعین کیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرے مضمون ’’مطالعۂ شعر (صوتیاتی نقطۂ نظر سے)‘‘ میں بعض اسلوبیاتی نکات اردو میں پہلی بار بیان کیے گئے ہیں۔ اس کتاب میں دو مضامین عظمت اللہ خاں پر بھی شامل ہیں۔ آخر کے تین مضامین میں اردو کے بعض لسانی و تہذیبی پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ مجموعۂ مضامین اب نایاب ہو گیا ہے۔
“A Phonetic and Phonological Study of the Word in Urdu”(1954)
یہ مسعود حسین خاں کا تحقیقی مقالہ ہے۔ انھوں نے یورپ میں اپنے قیام (1950-53)کے دوران میں لسانیاتِ جدید کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ لندن میں صوتیات (Phonetics)کی تربیت حاصل کرنے کے بعد فرانس گئے اور پیرس یونیورسٹی سے 1953میں متذکرۂ مقالے پر لسانیات میں ڈی.لٹ (D.Lit) کی ڈگری حاصل کی۔ یہ مقالہ کتابی صورت میں 1954میں شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے شائع ہوا۔ یہ انتہائی اہم لسانیاتی دستاویز 32سال تک اہلِ اردو کی نظروں سے اوجھل رہی، چنانچہ راقم السطور نے اس کا اردو میں ترجمہ کر کے اسے ’اردو لفظ کا صوتیاتی اور تجزصوتیاتی مطالعہ‘ کے نام سے 1986میں شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے شائع کیا۔ اس مقالے کی تیاری میں مسعود حسین خاں نے برطانوی ماہرِ لسانیات جے.آر.فرتھ(J.R. Firth) کے عروضی صوتیات (Prosodic Phonology) کے نظریے سے خاطر خواہ استفادہ کیا ہے۔ اردو لفظ کے اس قسم کے صوتیاتی مطالعے کی یہ پہلی کوشش ہے۔
4 ۔ ’روپ بنگال اور دوسرے گیت ‘ (1954): مسعود حسین خاں کی شاعری کی ابتدا 1942میں گیت نگاری سے ہوئی تھی۔ وہ ابتدا میں ہندی کے چھایا وادی کوِیوں کے زیرِ اثر رہے، چنانچہ 1942تا 1948انھوں نے کل 22گیت لکھے۔ ان کا شاہکار گیت ’’روپ بنگال‘‘ ہے جو در اصل ایک ’روپک‘ ہے اور جو 1947میں لکھا گیا جب ملک تقسیم کے دہانے پر کھڑا تھا۔ اُن کے اِن گیتوں کا مجموعہ ’روپ بنگال اور دوسرے گیت‘ کے نام سے دیوناگری رسمِ خط میں 1954میں علی گڑھ سے شائع ہوا۔ اس کا دوسرا ایڈیشن بھی علی گڑھ سے 1956میں شائع ہوا۔ بہ قول مسعود حسین خاں ’’یہ ٹھیٹھ ہندوستانی کے گیت ہیں۔ ‘‘
5۔ ’دو نیم ‘ (1956): ’دو نیم‘ مسعود حسین کا مجموعۂ کلام ہے جو پہلی بار 1956میں آزاد کتاب گھر، کلاں محل، دہلی سے شائع ہوا۔ ’دو نیم‘ کا دوسرا اضافہ شدہ ایڈیشن 30سال بعد 1986میں ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ سے شائع ہوا، اور اس کا تیسرا اور آخری ایڈیشن (اضافہ شدہ) بھی 2002میں علی گڑھ ہی سے شائع ہوا، جس میں 22نظمیں، 47غزلیں اور 22گیت شامل ہیں۔ ’دونیم‘ کے شروع میں ’’تمہیدِ شعر‘‘ کے عنوان سے مسعود حسین خاں کا لکھا ہوا ایک دیباچہ بھی شامل ہے جس میں انھوں نے اپنے نظریۂ شعر کی وضاحت کی ہے۔
6 ۔’مقدماتِ شعرو زبان ‘ (1966): مسعود حسین خاں کے مضامین کا دوسرا مجموعہ ’مقدماتِ شعر و زبان‘ 1966میں حیدرآباد سے شائع ہوا۔ اس میں کل 12مضامین شامل ہیں جن میں سے سات مضامین شعر و ادب سے متعلق ہیں، اور پا نچ زبان سے متعلق۔ اس مجموعے کا آخری مضمون ’’اردو صوتیات کا خاکہ‘‘ توضیحی لسانیات (Descriptive Linguistics)کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے جس میں اردو صوتیات کے بعض اہم نکات بیان کیے گئے ہیں اور مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ شروع کے چار مضامین ’’تخلیقِ شعر‘‘، ’’مطالعۂ شعر‘‘، ’’سماج اور شعر‘‘ اور ’’غزل کا فن‘‘ ادبی تنقیدی نوعیت کے مضامین ہیں اور اس اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیں کہ ان میں مصنف نے اپنا موقف اور ادبی نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔ زبان سے متعلق مضامین اردو کے حوالے سے لکھے گئے ہیں جن سے اردو کے تاریخی و تہذیبی پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے۔ محمد افضل افضلؔ )م 1625.)پر جو مضمون اس مجموعے میں شا مل ہے وہ در اصل ’بکٹ کہانی‘ کا مقدمہ ہے۔
7۔ ’اردو زبان کی تاریخ کا خاکہ‘ (1970): یہمسعود حسین خاں کی تحقیقی تصنیف ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ کی تلخیص ہے جو انھوں نے خود تیار کی ہے۔ اس سے طلبہ ہر سال خاطر خواہ استفادہ کرتے ہیں۔ اس کے متعدد ایڈیشن اور ری پرنٹس (Reprints) نکل چکے ہیں۔ یہ تلخیص پہلی بار1970میں سرسید بک ڈپو، علی گڑھ کی جانب سے شائع ہوئی تھی۔
8 ۔ ’اردو کا المیہ‘ (1973): مسعود حسین خاں نے مختلف زمانوں میں انجمن ترقیِ اردو (ہند) کے جنرل سکریٹری کے فرائض انجام دیے اور اس کے ترجمان ہفتہ وار ’ہماری زبان‘ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے اس کے اداریے قلم بند کیے۔ علاوہ ازیں انھوں نے ’ہماری زبان‘ کے ’’میرا صفحہ‘‘ (کالم) کے تحت مختلف موضوعات پر مختصر مضامین بھی لکھے۔ راقم السطور نے مسعود حسین خاں کے تحریر کردہ اِن اداریوں اور مختصر مضامین کو کتابی شکل میں ’اردو کا المیہ‘ کے نام سے مرتب کیا۔ یہ کتاب 1973میں شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے شائع ہوئی۔ اس کے شروع میں رشید احمد صدیقی کا ’’پیش لفظ‘‘ شامل ہے، جو در اصل ان خطوط اور رقعات کے اقتباسات پر مشتمل ہے جو وہ ان کے اداریوں اور مضامین کے بارے میں وقتاً فوقتاً انھیں لکھتے رہے تھے۔ اس کتاب کے آخر میں ’’ضمیمہ‘‘ کے تحت ہندوستان میں اردو آبادی کے اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ 1961اور 1971کی مردم شماری کے مطابق کن کن ریاستوں اور ضلعوں میں اردو بولنے والوں کی تعداد کتنی تھی۔
9 ۔ ’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘ (1983): یہ اقبال کے تصورِ فن و شعر پر مسعود حسین خاں کی ایک مختصر تصنیف ہے جو اقبال انسٹی ٹیوٹ، کشمیر یونیورسٹی (سری نگر) کی جانب سے 1983میں شائع ہوئی۔ مسعود حسین خاں نے 198182کے تعلیمی سال کے دوران میں اقبال انسٹی ٹیوٹ میں بہ طور وزٹنگ پروفیسر کام کیا تھا۔ یہ کتاب ان کے اسی زمانے کی یادگار ہے جس میں نہ صرف اقبال کے تصورِ حسن و فن اور تصورِ شعر سے بحث کی گئی ہے، بلکہ ان کی لسانی صلاحیت و شعور اور صوتی آہنگ، نیز ہیئتی تجربے کے بارے میں بھی اظہارِ خیال کیا گیا ہے، اور ان کی دو نظموں ’’حقیقتِ حسن‘‘ اور ’’ایک شام (دریائے نیکر، ہائیڈل برگ کے کنارے پر) ‘‘ کا صوتیاتی سطح پر اسلوبیاتی تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب پر مسعود حسین خاں کو ساہتیہ اکادمی کا 1984کا اردو ایوارڈ مل چکا ہے۔
10 ۔’اردو لفظ کا صوتیاتی اور تجزصوتیاتی مطالعہ‘ (1986): یہ مسعود حسین خاں کے انگریزی تحقیقی مقالے “A Phonetic and Phonological Study of the Word in Urdu”. کا ترجمہ ہے جسے راقم السطور نے کیا اور جو 1986میں شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے شائع ہوا۔ مسعود حسین خاں نے انگلستان اور فرانس میں اپنے قیام کے دوران میں (1950-53)یہ مقالہ تیار کیا تھا جس پر انھیں 1953میں پیرس یونیورسٹی سے ڈی۔ لٹ کی ڈگری تفویض ہوئی تھی۔ متذکرہ ترجمے کے شروع میں راقم السطور کا 10صفحات پر مشتمل ’’مقدمہ‘‘ شامل ہے جس میں برطانوی ماہرِ لسانیات جے.آر.فرتھ (J.R.Firth) کے حوالے سے ’عروضی صوتیات‘(Prosodic Phonology) کا تعارف پیش کیا گیا ہے اور مسعود حسین خاں کے اس وقیع لسانیاتی کارنامے کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس ترجمے کو اردو کے علمی حلقوں میں بہ نظرِ تحسین دیکھا گیا۔
11 ۔ ’اردو زبان: تاریخ، تشکیل، تقدیر‘ (1988): اِس نا م سے مسعود حسین خاں کا ایک مختصر کتابچہ 1988میں شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے شائع ہوا۔ یہ در اصل ان کا خطبۂ پروفیسر ایمے ریٹس ہے جو انھوں نے 13جنوری 1988کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دیا تھا۔ اس کتابچے میں اردو زبان کے آغاز و ارتقا اور تشکیل سے لے کر موجودہ صورتِ حال تک کے تمام لسانی مسائل و مباحث پر خالص علمی انداز سے نظر ڈالی گئی ہے۔ علمی حلقوں میں اس کتابچے کی خاطر خواہ پذیرائی ہوئی۔
12 ۔’ورودِ مسعود‘ (1988): مسعود حسین خاں نے 304صفحات پر مشتمل اپنی خود نوشت سوانح حیات ’ورودِ مسعود‘ کے نام سے لکھی جو 1988میں خدا بخش اورینٹل پبلک لا ئبریری، پٹنہ سے شائع ہوئی۔ اس کتاب میں انھوں نے اپنی پیدائش (1919)سے لے کر 1988تک کے اپنی زندگی کے حالات و واقعات نہایت سچائی اور صاف گوئی کے ساتھ قلم بند کر دیے ہیں۔ مبصرین نے ’ورودِ مسعود‘کو اردو کی ’’بہترین‘‘ اور ’’کامیاب‘‘ خود نوشت کا درجہ دیا ہے۔
13۔ مقالاتِ مسعود‘ (1989) : مسعود حسین خاں کے مضامین کا تیسرا مجموعہ ’مقالاتِ مسعود‘ 1989میں ترقیِ اردو بیورو، نئی دہلی کی جانب سے شائع ہوا جس میں ان کے 16مضامین شامل ہیں۔ ان میں سے آٹھ مضامین ز بان و اسلوب اور اسلوبیات سے متعلق ہیں۔ بقیہ آٹھ مضامین دیگر لسانی و تحقیقی موضوعات پر ہیں۔ کتاب کے شروع میں ’’سخن ہائے گفتنی‘‘ کے نام سے مسعود حسین خاں کی ایک تحریر شامل ہے جس میں انھوں نے کتاب کے مشمولات کے بارے میں اظہارِ خیال کیا ہے۔
14 ۔محمد قلی قطب شاہ‘ (1989): ساہتیہ اکادمی کی فرمائش پر مسعود حسین خاں نے دکن کے فرماں روا اور شاعر محمد قلی قطب شاہ پر ایک مونو گراف تحریر کیا جسے ساہتیہ اکادمی نے ہی 1989میں نئی دہلی سے شائع کیا۔ اس مونو گراف میں محمد قلی قطب شاہ کی شخصیت و سوانح کے علاوہ اس کی شاعری (نظم نگاری اور غزل گوئی) کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے اور زبان کا تجزیہ بھی پیش کیا گیا ہے، اور آخر میں اس کا منتخب کلام بھی دیا گیا ہے۔
15 ۔’یوسف حسین خاں ‘ (1990):ساہتیہ اکادمی ہی کی فرمائش پر مسعود حسین خاں نے دوسرا مونو گراف اپنے چچا یوسف حسین خاں کی شخصیت اور علمی کارناموں پر تحریر کیا۔ یہ مونوگراف بھی ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی کی جانب سے 1990میں شائع ہوا۔
16 ۔ ’اردو غزل کے نشتر‘ (1995) : مسعود حسین خاں نے غالب اکیڈمی، واقع بستی حضرت نظام الدین، نئی دہلی میں یکم ستمبر 1993کو ’غالب خطبات‘ کے سلسلے کا خطبہ ’’اردو غزل کے نشتر‘‘ کے عنوان سے دیا تھا۔ یہ خطبہ ’اردو غزل کے نشتر‘ ہی کے نام سے کتابی صورت میں 1995میں غالب اکیڈمی (نئی دہلی) سے شائع ہوا۔ مسعود حسین خاں کے قول کے مطابق ’’غزل کے شعروں کو تیر و نشتر بنا دینا بہت دشوار ہے۔ ‘‘ پھر بھی انھوں نے محمد قلی قطب شاہ تا میر تقی میر اردو غزل کے ایسے بے شمار نشتر ڈھونڈ نکالے ہیں جو دل کو چھوتے ہیں، اور جنھیں میر کی زبان میں ’’جادو کی پُڑی‘‘ کہا جا سکتا ہے۔
.17’مضامینِ مسعود‘ (1997): یہ مسعود حسین خاں کا چوتھا اور آخری مجموعۂ مضامین ہے جو 1997میں ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ سے شائع ہوا۔ اس میں ادبی، لسانی، تحقیقی اور بعض دیگر قسم کے مضامین یک جا کر دیے گئے ہیں جن کی کل تعداد 25ہے۔ آخر میں ’لسانی چہ می گوئیاں ‘(کالم) کے تحت رسالہ ’ادیب‘ (جامعۂ اردو، علی گڑھ)میں شائع شدہ ان کی 10مختصر ترین تحریریں بھی شامل ہیں جن کے موضوعات متنوع ہیں۔
تالیفات
1 ۔’سریلے بول ‘ (1954): مسعود حسین خاں نے عظمت اللہ خاں کے 17گیتوں کا ایک مجموعہ ’سریلے بول‘ کے نام سے مرتب کیا جو 1954میں انجمن ترقیِ اردو (ہند) کی جانب سے شائع ہوا۔ یہ ٹھیٹھ کھڑی بولی کے گیت ہیں۔ شروع میں ’’دوبول‘‘ کے عنوان سے مرتب کا دیباچہ بھی شامل ہے۔
2 ۔’بکٹ کہانی‘ (1965): مسعود حسین خاں نے 1965میں محمد افضل افضلؔ کی مثنوی ’بکٹ کہانی‘ (جسے ’بارہ ماسہ‘ بھی کہتے ہیں ) مرتب کی اور اس پر سیر حاصل تحقیقی مقدمہ لکھا۔ یہ پہلی بار مجلہ ’قدیم اردو‘ (حیدرآباد) کی جلدِ اول میں شائع ہوئی۔ مسعود حسین خاں نے مرتب کی حیثیت سے اپنے نام کے ساتھ نور الحسن ہاشمی کا نام بھی لکھا، کیوں کہ انھوں نے ’بکٹ کہانی‘ کے بعض نسخوں کی معلومات مسعود حسین خاں کو فراہم کی تھیں۔ ’بکٹ کہانی‘ 1965کے بعد کئی بار شائع ہو چکی ہے۔ اس کا آخری ایڈیشن مسعود حسین خاں کی نظرِ ثانی کے بعد راقم السطور کے ’’پیش لفظ‘‘ کے ساتھ 2002میں شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے شائع ہوا۔
3 ۔ ’پرت نامہ‘ (1965): ’پرت نا مہ‘ ایک دوسری مثنوی ہے جسے مسعود حسین خاں نے ایڈیٹ کر کے 1965ہی میں مجلہ ’قدیم اردو‘ (حیدرآباد) کی جلدِ اول میں شائع کیا۔ اس کا مصنف قطب الدین قادری فیروز بیدری ہے جسے د بستانِ گول کنڈہ کامسلّم الثبوت استاد تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ مثنوی 1564سے قبل لکھی گئی۔
4 ۔ ’قصۂ مہر افروز و دلبر‘ (1966): یہ شمالی ہند کی اردو کی پہلی طبع زاد نثری داستان ہے جسے مسعود حسین خاں نے ایڈٹ کر کے 1966میں حیدرآباد(دکن) سے شائع کیا۔ اس کے مصنف کا نام عیسوی خاں بہادر ہے اور یہ 1732تا 1756کے درمیان لکھی گئی۔ اس کی زبان کافی حد تک صاف اور نکھری ہوئی ہے۔
5 ۔’قصۂ مہر افروز و دلبر‘، دیوناگری رسمِ خط میں (1966): مسعود حسین خاں نے ’قصۂ مہر افروز و دلبر‘کو ایڈٹ کر کے دیوناگری رسمِ خط میں بھی 1966میں حیدرآباد سے شائع کیا، لیکن اسے اہلِ ہندی میں خاطر خواہ مقبولیت حاصل نہ ہوسکی۔
6 ۔’دکنی اردو کی لغت ‘ (1969): مسعود حسین خاں نے اپنے قیامِ حیدرآبادکے دوران 1962)تا 1968) ’دکنی اردو کی لغت‘ کی ترتیب کا کام بھی انجام دیا۔ یہ ان کے لیے ایک دشوار گزار کام تھا، کیوں کہ وہ ایک غیر ’دکنی‘ تھے، لیکن انھیں ایک دکنی اسسٹنٹ سید بدیع حسینی کی خدمات حاصل ہو گئیں، اور یہ کام پانچ سال بعد بہ طریقِ احسن انجام کو پہنچا۔ ’دکنی اردو کی لغت‘ 1969میں آندھرا پردیش ساہتیہ اکیڈمی، حیدرآباد کی جانب سے شائع ہوئی۔ اس لغت کے تمام الفاظ دکنی متون کے مطبوعہ اور قلمی نسخوں سے حاصل کیے گئے ہیں جن کی تعداد تقریباً 7,000ہے۔
7 ۔’ابراہیم نامہ‘ (1969) : یہ ایک دوسری دکنی مثنوی ہے جسے مسعود حسین خاں نے ایڈٹ کر کے 1969میں شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے شائع کیا۔ اس کے مصنف عبدل دہلوی کا تعلق دبستانِ بیجاپور سے تھا۔ مرتب نے اپنے ’’مقدمہ‘‘ میں ’ابراہیم نامہ‘ کی ادبی خوبیوں کے ساتھ اس کی زبان کا بھی تجزیہ کیا ہے۔
8 ۔’عاشور نامہ ‘ (1972) ’بکٹ کہانی‘ کے بعد ’عاشور نامہ‘ شمالی ہند کی دوسری مثنوی ہے جس کا سنہِ تصنیف 1688بتایا گیا ہے۔ اس کے مصنف کا نام روشن علی ہے اور وطن ’’سہارنگ پور‘‘ (سہارنپور) ہے۔ ’عاشور نامہ‘ کو ’شہادت نامہ‘ بھی کہا گیا ہے۔ اس اعتبار سے یہ شمالی ہند کا قدیم ترین شہادت نامہ ہے۔ اس کا واحد مخطوطہ رضا لائبریری، رام پور (یوپی) میں موجود ہے۔ سید سفارش حسین رضوی نے اس کی مائکرو فلم وہیں سے حاصل کر کے مسعود حسین خاں کے سپرد کی جنھوں نے اسے مدون کیا اور 30صفحات پر مشتمل اس کا مقدمہ لکھا۔ ’عاشور نامہ‘1972 میں شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے شائع ہوا۔ مسعود حسین خاں نے مرتب کی حیثیت سے اپنے نام کے ساتھ سید سفارش حسین رضوی کا نام بھی دے دیا۔
9 ۔ ’رقعاتِ رشید صدیقی ‘ (1981): مسعود حسین خاں کے رشید احمد صدیقی سے نہایت گہرے روابط تھے۔ وہ مسعود حسین خاں کے نہ صرف استاد بلکہ مربی بھی تھے۔ انھوں نے مسعود حسین خاں کو وقتاً فوقتاً تقریباً 200خطوط لکھے جنھیں مرتب کر کے انھوں نے کتابی شکل دی اور اس کا نا م ’رقعاتِ رشید صدیقی‘ رکھا۔ یہ کتاب ان کے مقدمے کے ساتھ 1981میں شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے شائع ہوئی۔ اس کا دوسرا ایڈیشن خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری (پٹنہ) نے 1987میں شائع کیا۔
10 ۔’انتخابِ نظیر اکبر آبادی ‘ (1989): اترپردیش اردو اکادمی کی تحریک پرمسعود حسین خاں نے نظیر اکبر آبادی کی نظموں کا ایک جامع انتخاب مرتب کیا اور اس پر سیر حاصل مقدمہ لکھا۔ یہ کتاب ’انتخابِ نظیر اکبرآبادی‘ کے نام سے 1989میں اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ کی جانب سے شائع ہوئی۔
11 ۔’تاریخِ جامعۂ اردو ‘ (1990): جامعۂ اردو، علی گڑھ کی جشنِ زرّیں (1989)کے موقع پر اربابِ جامعہ نے اس کی تاریخ قلم بند کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس کے مرتبِ اعلیٰ کی ذمہ داری مسعود حسین خاں (شیخ الجامعہ، جامعۂ اردو) کو سونپی گئی۔ انھوں نے جامعۂ اردو کی تاریخ لکھنے کا کام جامعۂ اردو سے بہ طورِ اعزازی منسلک تین ’’اہلِ قلم‘‘ مغیث الدین فریدی، ظہیر احمد صدیقی، اور مرزا خلیل احمد بیگ کے سپرد کر دیا۔ مسعود حسین خاں نے انھی تینوں مرتبین کے تحریر کردہ مواد کو ایڈٹ کر کے اپنے وقیع ’’پیش لفظ‘‘ کے ساتھ 1990میں ’تاریخِ جامعۂ اردو‘ کے نام سے شائع کیا۔
12 ۔’انتخابِ کلامِ اقبال‘ (1991): جامعۂ اردو، علی گڑھ کے ادیبِ کامل کے طلبہ کے لیے مسعود حسین خاں نے اقبال کے کلام کا ایک جامع انتخاب ترتیب دیا جو ’انتخابِ کلامِ اقبال‘ کے نام سے 1991میں سرسید بک ڈپو، علی گڑھ سے شائع ہوا۔
13 ۔’انتخابِ کلامِ غالب‘ (1991): مسعود حسین خاں نے جامعۂ اردو، علی گڑھ کے طلبہ کے استفادہ کے لیے غالب کے کلام کا بھی ایک جامع انتخاب تیار کیا اور اپنے مقدمے کے ساتھ اسے ’انتخابِ کلامِ غالب‘ کے نام سے 1991میں سرسید بک ڈپو، علی گڑھ سے شائع کیا۔
مسعود حسین خاں کی تصنیفات و تالیفات کی کل تعداد 30قرار پاتی ہے۔ زمانی اعتبار سے ان کی تصنیفی سرگرمیاں تقریباً نصف صدی (بیسوی صدی عیسوی کا نصفِ آخر) کو محیط ہیں۔ زندگی کے آخری دس بارہ برسوں کے دوران میں ان کی کوئی تصنیف یا تالیف معرضِ وجود میں نہیں آئی، حالاں کہ عہدِ پیری میں بھی ان کے اندر حوصلۂ قلم و رقم بہت زیادہ تھا، تاہم چھوٹے موٹے مضامین وہ بعد تک لکھتے رہے تھے۔ ان کے بہت سے مضامین اب بھی رسائل میں بکھرے پڑے ہیں جن کے کم از کم دو مجموعے ترتیب دیے جا سکتے ہیں۔
تحریر کے نمونے
نمونۂ کلام
۱– نظمیں
زندگانی کا خلا
زندگانی کا خلا
یہ نہ بھر پایا کبھی
لالہ و گل کو کبھی پیار کیا
رات بھر تاروں کو بیدار کیا
کم نہ ہوتی تھی مگر دل کی کسک
دل کا غم آنکھوں سے برسایا کبھی
یہ نہ بھر پایا کبھی
زندگانی کا خلا
بھر لیا اس میں کبھی دردِ چمن
کبھی بے نام مقاصد کی لگن
جن سے احساس بھی جاتا تھا بہک
شیشۂ دل کو بھی چھلکایا کبھی
یہ نہ بھر پایا کبھی
زندگانی کا خلا
فن کی دیوی نے بھی برسائی شراب
وقت کی موج نے پھینکے دُرِ ناب
جن سے آئی مرے خوابوں میں چمک
جی ذرا ان سے بھی بہلایا کبھی
یہ نہ بھر پایا کبھی
زندگانی کا خلا
(1946)
جمال
کہاں سے آ گئیں رنگینیاں تمنا میں
کہ پھر خیال نے لالے کھلائے صحرا میں
تری نگاہ سے میری نظر میں مستی ہے
ترے جمال سے موجیں ہیں دل کے دریا میں
یہ ہو رہا ہے گماں تیرے جسمِ خوبی پر
بھٹک کے حور چلی آئی ہو نہ دنیا میں
نظر میں کچلے ہوئے موتیوں کی جھلکاریں
لبوں پہ رنگ جو ملتا ہے جام و مینا میں
وہ مسکراتے سے آنکھوں میں بے شمار کنول
وہ کسمساتی ادائیں تمام اعضا میں
جو گوشے گوشے میں پنہاں ہے اس کے راہِ گریز
خیال گم ہوا جاتا ہے قدِّ رعنا میں
جمالِ یار لطیف آرزو ہے اس سے لطیف
یہ آئی ہے نہ وہ آئے گا حرفِ سادہ میں
(1946)
وادیِ گل
دید ہی دید ہے اے عمرِ رواں ! کچھ بھی نہیں
یہ جہاں کتنا حسیں ہے، یہ جہاں کچھ بھی نہیں
یہ تبسم، یہ تکلم، یہ تماشا، یہ نگہ
یوں تو سب کچھ ہے یہاں اور یہاں کچھ بھی نہیں
تیرے ابرو سے سوا وہ نگہِ تشنۂ خوں
تیر جب نکلا کماں سے تو کماں کچھ بھی نہیں
عمر کے فاصلے طے کر نہ سکا جذبۂ شوق
خونِ دل کچھ بھی نہیں، قلبِ تپاں کچھ بھی نہیں
ڈھونڈیے چل کے کہیں عمرِ گذشتہ کا سراغ
کشتیِ دل کے لیے سیلِ زماں کچھ بھی نہیں
ان نظاروں میں نظر اپنی بھی جانب مسعودؔ
وادیِ گل میں بجز دل کا زیاں کچھ بھی نہیں
(کشمیر، ستمبر1981)
سخنِ واپسیں
دوا سے کچھ نہ ہوا اور دعا سے کچھ نہ ملا
بشر نے کچھ نہ دیا اور خدا سے کچھ نہ ملا
زوال میرا مقدر بنا کے چھوڑ دیا
مجھے خیال و حدیثِ بقا سے کچھ نہ ملا
میں درد و داغِ یتیمی میں یوں رہا محصور
پدر سے کچھ نہ ملا، مامتا سے کچھ نہ ملا
جہانِ علم و ہنر میں تو سرفراز رہا
دیارِ شوق میں میری وفا سے کچھ نہ ملا
میں اپنے آپ میں جھانکا تو یہ صدا آئی
خودی سے کچھ نہ ملا اور انا سے کچھ نہ ملا
کسی نے دیدۂ بینا کی روشنی لے لی
کہوں میں کس سے تری اس اداسے کچھ نہ ملا
میں خالی ہاتھ چلا آ رہا ہوں تیری طرف
تجھے بتانے کہ تیری عطا سے کچھ نہ ملا
ترے جہان سے خاموش چل دیا مسعودؔ
نوائے شعر کو اس بے نوا سے کچھ نہ ملا
(بشکریہ ماہنامہ ’سب رس‘ ۔حیدرآباد، بابت مارچ2007)
نوٹ: جب یہ نظم چھپ کر آئی تو مسعود حسین خاں نے اپنے قلم سے اس میں درجِ ذیل دو اشعار کا اضافہ کیا:
میں اپنا قصۂ ہستی کہوں تو کس سے کہوں
یہ انتہا ہے، مجھے ابتدا سے کچھ نہ ملا
کتاب میری حیات الکتاب تیرا ثبات
کتاب چھین لی، اس انتہا سے کچھ نہ ملا
(اضافہ شدہ نظم راقم السطور کے پاس محفوظ ہے)
2 ۔ غزلیں:
(1)
عشق میں اضطراب رہتا ہے
جی نہایت خراب رہتا ہے
خواب سا کچھ خیال ہے لیکن
جان پر اک عذاب رہتا ہے
تشنگی جی کی بڑھتی جاتی ہے
سامنے اک سراب رہتا ہے
مرحمت کا تری شمار نہیں
درد بھی بے حساب رہتا ہے
(1946)
(2)
ترے خیال میں دل آج سوگوار سا ہے
مجھے گمان ہے کچھ اس کو انتظار سا ہے
میں سادہ دل تھا کہ دامن پہ ان کے رو بھی دیا
مگر گلوں کے دلوں میں ابھی غبار سا ہے
وہ معتبر تو نہیں ہے پر اس کو کیا کیجے
کہ اس کے وعدوں پہ پھر آج اعتبار سا ہے
میں تجھ سے رمزِ محبت کہوں تو کیسے کہوں
میں بے قرار ہوں اور تجھ کو کچھ قرار سا ہے
تجھی پہ کچھ نہیں موقوف اے دلِ محروم!
جہاں بھی دیکھیے عالم میں انتشار سا ہے
تو ہوش مند کہاں کا تھا کچھ تو کہہ مسعودؔ
یہ کیا ہے آج تجھے دل یہ اختیار سا ہے
(1949)
(3)
تجھے بہار ملی مجھ کو انتظار ملا
اس انتظار میں لیکن کسے قرار ملا
کسی کی آنکھوں میں تاروں کی مسکراہٹ ہے
کسی کی آنکھوں کو شبنم کا کاروبار ملا
یہ میرے جیب و گریباں پہ کچھ نہیں موقوف
کہ تیرا دامنِ رنگیں بھی تار تار ملا
تری وفا نے محبت کو اعتبار دیا
تری نظر سے مجھے حسنِ اعتبار ملا
(پیرس، 1951)
(4)
میری افسردہ دلی گردشِ ایام سے ہے
لوگ کہتے ہیں محبت کسی گل فام سے ہے
چشمِ ساقی نے بھی یہ مشورۂ نیک دیا
کہ علاجِ غمِ دل تلخیِ بدنام سے ہے
چاندنی رات میں یہ اور چمک اٹھے گا
درد کچھ دل میں سوا آج سرِ شام سے ہے
رنگ اڑایا ہے زمانے نے جہاں سے مسعودؔ
اپنی نسبت بھی اسی یارِ گل اندام سے ہے
(1957)
3۔ گیت:
رنگ دونا، جیون کے کچھ پل
رنگ دونا، جیون کے کچھ پل
پریم چبھن سے مَیں الجھن میں
امرت رس ہو کر تم برسو
اترو ایک کرن بن، من میں
پھر یہ شیش محل ہو جھل مل
رنگ دونا، جیون کے کچھ پل
چنچل من تو چاہ سے پاگل
کون کرے یہ راہیں روشن
بِرہ کی اگنی تم ہی بھر دو
کر دو من میں چتائیں روشن
جیون میں پھر کر دو ہل چل
رنگ دونا، جیون کے کچھ پل
(1944)
جیون پتھ پر
جیون پتھ پر
چل چل کر جب تھک تھک جاتے
تم یاد آتے
چاہت اِس کی، چاہت اُس کی
ہر ہر پل اک نئی خوشی سی
ہنس ہنس کر جب کچھ نہیں پاتے
تم یاد آتے
اِس کو پا لوں، اُس کو پالوں
تارے چھو لوں، چاند کو جا لوں
گر کر پر جب اٹھ نہیں پاتے
تم یاد آتے
اِس سے کھیلوں، اُس سے کھیلوں
اِس کو لے کر، اُس کو لے لوں
پا کر بھی جب کچھ نہیں پاتے
تم یاد آتے
(1944)
یاد کی لہروں پر تم آؤ
یاد کی لہروں پر تم آؤ
سوچ میں آنکھ ہے، سوچ میں ہے من
من کی سوچ بنے جب الجھن
تم آنسو بن کر شرماؤ
یاد کی لہروں پر تم آؤ
اُس دم اِن آنکھوں میں چھپ کر
جب یہ دل حیران پڑا ہو
اَدھروں پر بنسی کو دھر کر
ایک مچلتی تان اڑاؤ
یاد کی لہروں پر تم آؤ
(1944/45)
نوٹ: بہ استثنائے ’’سخنِ واپسیں ‘‘، مسعود حسین خاں کی مندرجۂ بالا تمام شعری تخلیقات ان کے مجموعۂ کلام ’دو نیم‘، تیسرا ایڈیشن ۔علی گڑھ:ایجوکیشنل بک ہاؤس، [2000سے ماخوذ ہیں )۔
نمونۂ نثر
1۔ لسانی تاریخ
اردو زبان
اردو زبان صحیح معنوں میں ایک مخلوط زبان ہے، جیسا کہ اس کے ایک تاریخی نام ’ریختہ‘ سے بھی ظاہر ہے۔ یوں تو دنیا کی اکثر زبانیں دخیل الفاظ کی موجودگی کی وجہ سے مخلوط کہی جا سکتی ہیں، لیکن جب کسی لسانی بنیاد پر غیر زبان کے اثرات اس درجہ نفوذ کر جاتے ہیں کہ اس کی ہیئتِ کذائی ہی بدل جائے تو وہ لسانیاتی اصطلاح میں ایک مخلوط یا ملواں زبان کہلائی جاتی ہے۔ اس اعتبار سے اردو کی نظیر کہیں ملتی ہے تو فارسی زبان میں، جس کی ہند ایرانی بنیاد پر سامی النسل عربی کی کشیدہ کاری نے کلاسیکی فارسی کو جنم دیا۔ عربی کے اس عمل کی توسیع جب فارسی کے وسیلے سے تیرھویں صدی عیسوی میں ہندوستان کی ایک ہند آریائی بولی، امیر خسرو کی ’’زبانِ دہلی و پیرامنش‘‘ پر ہوتی ہے تو اردو وجود میں آتی ہے۔ اس لسانی عمل کی توسیع کی دیگر مثالیں کشمیری، سندھی اور مغربی پنجابی ہیں، لیکن ’’زبانِ دہلی‘‘ کی طرح یہ کبھی بھی کل ہند حیثیت اختیار نہ کر سکیں۔
اردو کا نقطۂ آغاز 1193میں مسلمانوں کا داخلۂ دہلی ہے۔ اس کا پہلا مستند شاعر امیر خسرو دہلوی ہے جس کا بیشتر ہندوی کلام غیر مستند سہی، لیکن جس کا شاعرِ ہندوی ہونا مسلّم ہے۔ خسرو کی مثنوی ’’نہ سپہر‘‘ میں ہمیں پہلی بار ہندوستان کی معروف زبانوں کی فہرست ملتی ہے۔ یہ تعداد میں بارہ ہیں۔ سندھی، لاہوری( پنجابی)، کشمیری، ڈوگری(ڈگر؟)، کنڑ(دھورسمندری)، تلنگی، گجراتی (گجر)، تمل (معبری)، مغربی بنگالی (گوڑی)، مشرقی بنگالی( بنگال)، اودھی (اَود)، اور سب سے آخر میں ’’زبانِ دہلی و پیرامنش‘‘(یعنی دہلی اور اس کے نواح کی بولیاں )، ع
ایں ہمہ ہندو یست کہ ز ایامِ کہن
یہ ’’مصطلحے خاصہ‘‘ ہیں (یعنی اپنی انفرادی خصوصیات رکھتی ہیں )۔ ان کے علاوہ ایک اور زبان، برہمنوں کے نزدیک برگزیدہ ’’سنسکرت نام ز عہدِ کہن‘‘ بھی ہے جس کے بارے میں خسرو رقم طراز ہیں ’’عامہ ندارد خبر از کن مکنش‘‘۔
خسرو نے ’’زبانِ دہلی‘‘ کے ساتھ ’’پیرا منش‘‘ کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہ ’’پیرامن‘‘ (اطراف) جاٹوں اور گوجروں کی زبان پر مشتمل تھا۔ جاٹوں سے منسوب کھڑی بولی اور ہریانوی ہیں اور گوجروں سے متعلق برج بھاشا۔ اِنھی کے نسوانی حسن کے بارے میں خسرو اس طرح رطب اللسان ہیں :
گجری کہ تو در حسن و لطافت چو مَہی
… … …
ہر گاہ بگوئی کہ ’’دَہی لیہو دَہی‘‘
جاٹوں کی زبان کھڑی اور ہریانوی [ا]بنیاد بولیاں ہیں، یعنی ان میں اسماء صفات، اور افعال کا خاتمہ بالعموم]آ[ پر ہوتا ہے۔ برج بھاشا ]او[بنیاد کہی جا سکتی ہے جس میں اسماء، صفات اور افعال کا خاتمہ عموماً [او]پر ہوتا ہے۔ اسی لیے ’پرانی ہندی‘ کے مصنف چندر دھر شرما گلیری نے اسے کھڑی کے مقابلے میں ’’پڑی بولی‘‘ کہا ہے۔
دہلی اور نواحِ دہلی کی بولیوں کا یہ ملغوبہ پرانی دِلّی کے بازاروں، حصاروں اور خانقاہوں میں تقریباً سو سال تک اپنی ابتدائی شکل میں ارتقا پاتا رہا تا آں کہ چودھویں صدی کے ربعِ اول میں یہ فتوحاتِ علائی و تغلق کے ذریعہ گجرات کے راستے دکن تک پہنچ جاتا ہے۔ گجرات میں اس کا مقامی نام ’گجری‘ پڑا جو غالباً ’گذری‘ کا مہنّد ہے۔ ’گذری‘ بازار کو کہتے ہیں، لیکن اس کا عمومی نام ’ہندی‘ یا ’ہندوی‘ قائم رہا۔ دکن میں سترھویں صدی عیسوی میں اس کا مقامی نام ’دُکھنی‘ یا ’دکنی‘ پڑتا ہے، حالاں کہ وجہی کی ’’زبانِ ہندوستان‘‘ کی ترکیب اور فرشتہ کی ’’ہندوستانی‘‘ میں یہ واضح اشارہ ملتا ہے کہ اس کا تعلق شمالی ہند سے ہے۔ سرزمینِ دکن میں جہاں یہ سلطنتِ بہمنیہ کے قیام کے بعد پھلی پھولی مراٹھی، کنّڑ اور تلگو زبانیں رائج تھیں۔ پہلی کا تعلق ہند آریائی سے ہے جب کہ آخری دو دراویدی زبانیں ہیں۔ مراٹھی چونکہ متجانس ہند آریائی زبان تھی، اس لیے اس سے لین دین کا کاروبار زیادہ رہا۔ حالاں کہ جن محققین نے دکنی پر مراٹھی کے اثرات کا شد و مد کے ساتھ ذکر کیا ہے وہ اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ جن الفاظ کی نشان دہی وہ مراٹھی سے کرتے ہیں ان میں سے بیشتر نواحِ دہلی کی بولیوں میں تلفظات کے ہیر پھیر کے ساتھ آج تک رائج ہیں۔ ڈاکٹر عبدالستار دلوی نے ’دکنی اردو‘ میں ایسے کئی سو الفاظ کی فہرست دی ہے جن میں سے 80فی صد الفاظ کی شناخت شمال کی ’ہندوی‘ میں بہ آسانی کی جا سکتی ہے …مراٹھی سے قطع نظر تلگو اور کنّڑ کے اثرات کا بھی دکن کے بعض محققین ڈاکٹر زورؔ وغیرہ نے تذکرہ کیا ہے۔ یہ اثر عام طور پر چند الفاظ اور محاورات پر مشتمل ہے اور وہ بھی تحریری نہیں تقریری زبان پر …گوجری اور دکھنی میں نمایاں فرق نہیں جس کا ثبوت احمد گجراتی کی مثنوی ’یوسف زلیخا‘ ہے جو اس نے گول کنڈہ کے فرماں روا محمد قلی قطب شاہ کی دعوت پر گجرات سے گول کنڈہ آکر لکھی تھی…اِن لسانی شہادتوں کے پیشِ نظر میرے اس خیال کی تائید ہوتی ہے کہ گجرات تا بیجا پور تا گول کنڈہ، ادبی حیثیت سے ایک ہی محاورہ رائج تھا، جسے ہم چودھویں صدی عیسوی کی ’زبانِ دہلی‘ کہہ سکتے ہیں۔ چوں کہ شمال سے نواحِ دہلی کی ایک سے زائد بولیاں دکن پہنچی تھیں اس لیے کچھ عرصے تک ان میں آنکھ مچولی ہوتی رہی تا آں کہ وجہی، نصرتی، غواصی جیسے با کمالوں کے ہاتھوں میں پہنچ کر ان کی معیار بندی ہو جاتی ہے۔
1686اور 1687سنہِ عیسوی میں بیجاپور اور گول کنڈہ کے سقوط کے بعد اورنگ آباد ایک بار پھر سلطنتِ دہلی کا صدر مقام بن جاتا ہے۔ اورنگ زیب دکن میں 1682میں لال قلعہ، دہلی کی سکونت ترک کر کے مستقل طور پر اورنگ آباد میں قیام پذیر ہو گیا تھا۔ شمال اور جنوب کے سارے دروازے ایک بار پھر کھل گئے۔ اورنگ آباد، شاہ جہان آباد کا ایک محلہ معلوم ہونے لگا۔ ایسے میں ولیؔ دکن کی خاک سے اٹھے، 1700میں دہلی پہنچے، اور شاہ گلشن کے مشورے پر ریختہ کو ’’بموافقِ محاورۂ شاہجہان آباد‘‘ کرنے کی کوشش کی۔ دیکھتے دیکھتے پچاس سال کے عرصے میں دہلی میں ریختہ گویوں کی ایک کھیپ سی نکل پڑی …مرزا مظہر جانجاناں اور حاتم نے زبان کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ متروکات کے نام پر اور ’مرزا ایانِ دہلی‘ کی سند لے کر بے شمار ہندی کے الفاظ پر خطِ تنسیخ پھیر دیا۔ حاتمؔ کو شرم آئی تو اپنے ضخیم دیوان سے 1755میں ایک ’ دیوان زادہ‘ کی تولید کی۔ اس کے بعد سوداؔ نے اپنے قصائد کے ذریعے اس میں فارسی لغات کا دہانہ چھوڑ دیا۔
(ماخوذ از ’اردو زبان: تاریخ، تشکیل، تقدیر‘، خطبۂ پروفیسر ایمے ریٹس، علی گڑھ: شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، 1988، ص59)۔
2۔ اسلوبیاتی تنقید
اقبال کی عملی شعریات
ڈاکٹر یوسف حسین اور مجنوں گورکھپوری دونوں نے اقبال کی شاعری کی اس خصوصیت کو سب سے زیادہ نمایاں اور موثر بتایا ہے جس کو مبہم اور مجموعی طور پر ’تغزل‘ کہا جا سکتا ہے۔ صوتی سطح پر اس تغزل کی سب سے اہم خصوصیت اس کی موسیقیت ہوتی ہے جسے ہم شعر کا صوتی آرکسٹرا کہہ سکتے ہیں۔ یہ نہ صرف صوتی اکائیوں (صوتیوں ) کے صحیح انتخاب سے پیدا ہوتی ہے، بلکہ اس کے مشاقانہ جوڑ توڑ سے بھی۔ اردو کے شاعر کے پاس ان ’صوتیوں ‘ کا کل سرمایہ 47ہے۔ ان میں سے 10مصوتے(Vowels)ہیں اور 37مصمتے (Consonants)۔ ان مصمتوں میں 6عربی فارسی سے مستعار آوازیں ہیں : /ف/، /ز/، ژ/، /خ/، /غ/، اور/ق/۔ ان میں /ژ/کا چلن نہ ہونے کے برابر ہے۔ /ق/ سے قطع نظر جو ایک بند شیہ(Stop)ہے، باقی تمام آوازیں صفیری(Fricatives)ہیں جن کی ادائیگی کے وقت ہوا خفیف ’رگڑ‘ کے ساتھ نکلتی ہے۔ غالب اور اقبال کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کا صوتی آہنگ فارسی کا ہے، اس لیے بے بنیاد ہے کہ مذکورۂ بالا 6آوازوں کو چھوڑ کر اردو کی باقی تمام آوازیں (بہ شمولِ مصوتے) خالص ہند آریائی ہیں۔ ہرچند ان میں سے بعض فارسی عربی کے ساتھ اشتراک رکھتی ہیں۔ فارسیت کا الزام ان دونوں شاعروں کے شعری فرہنگ پر کیا جا سکتا ہے، صوتی آہنگ پر نہیں …
[اقبال کی]ابتدائی دور کی دو نظمیں اس اعتبار سے دل چسپ مواد فراہم کرتی ہیں کہ صوت و معنیٰ کس طرح ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ اس سلسلے کی پہلی نظم ’بانگِ درا‘ کے دوسرے حصے میں شامل ’’ایک شام‘‘ (دریائے نیکر، ہائیڈل برگ کے کنارے پر) ہے جس میں اصوات نے معنی کا مکمل طور پر ساتھ دیاہے۔ سات اشعار پر مشتمل یہ نظم مثنوی کی ہیئت میں لکھی گئی ہے۔ یہاں مسلسل قافیوں کی جھنکار کے بجائے صوتی آہنگ سے دریائے نیکر کے کنارے ایک شام کے سکوت کو گہرا کیا گیا ہے۔ شاعر نے یہ کام شعوری طور پر نہیں کیا ہے، بلکہ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں، یہ ایک ایسی کیفیت سے برآمد ہوتی ہے جسے ہم مکمل ’اظہار‘ کہہ سکتے ہیں۔ اس نظم کا کلیدی لفظ ’’خاموش‘‘ ہے جو اس نظم میں 6بار آیا ہے۔ جن اصوات (صوتیوں ) سے یہ مرکب ہے وہ ہیں : خ+ا+م+و+ش۔ یہ اس کی کلیدی اصوات ہیں۔ ان میں /خ/کی تکرار 8بار، /ا/کی 21بار، /م/کی 12 بار، /و/ کی 22بار، اور /ش/ کی 6/بار ہے۔ خاموشی کا منظر ہے جسے شاعر بصری اور سماعی دونوں اعتبار سے محسوس کر رہا ہے۔ مفعول مفاعلن، فعولن کی تفکر اور تامل سے لبریز بحر کا انتخاب کیا گیا ہے۔ /ا/اور /و/ کے علاوہ خاموشی کی گہرائی میں اضافہ کرنے والے دیگر طویل مصوتے /ی/، /اَی/ اور /اَے/ ہیں جن کی مجموعی تعداد 32ہو جاتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ /ش/کی/16/ہُش ہُش کرتی آوازوں میں /س/کی 7’سرسراتی‘ آوازیں بھی ملی ہوئی ہیں۔ /م/کی غنائی کیفیت کے لیے 3/ن/اور 9انفیائے مصوتے بھی شامل ہیں …
مجموعی طور پر اقبال کے صوتی آہنگ کے سب سے اونچے سُر انفی مصمتوں اور انفیت (Nasalization)سے مرتب ہوتے ہیں اور 6صفیری آوازوں خ، غ، ش، س، ز، اور ف سے۔ اقبال بنیادی طور پر غالب کی طرح صوتی آہنگ کے شاعر نہیں …فکر اور تخیل کی آویزش اور آمیزش سے ان کے یہاں نور و نغمہ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ نور ان کی شاعرانہ بصیرت ہے اور نغمہ ان کا صوتی آہنگ!
(ماخوذ از ’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘ ،سری نگر: اقبال انسٹی ٹیوٹ، کشمیر یونیورسٹی، 1983، ص 7583)۔
3۔ اردو تحریک
اردو کا محضر نامہ
اردو خالص ہندوستانی زبان ہے۔ ہندوستان کی دوسری زبانوں پر اسے یہ فوقیت حاصل ہے کہ اس کی بناوٹ میں ہماری تاریخ کے عہدِ قدیم اور ازمنہِ وسطیٰ دونوں کے تانے بانے شامل ہیں۔ یہ ایک آئینہ ہے جس میں اس ملک کے ہر دور کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ ایک سنگم ہے جس میں قدیم و جدید دونوں کے دھارے آکر ملتے ہیں …اس پر بدیسی ہونے کی تہمت ظلمت پسندی کی بدترین مثال ہے۔ اس کو ہضم کر جانے کی نیت ہوس پرستی کا کمال ہے۔ اس کے بولنے والوں کے ذہنوں پر دوسری زبانوں کے تالے ڈالنا ناسمجھی کی دلیل ہے۔ اس زبان کے بچوں کو اس کے شیریں لہجے میں لب کشا نہ ہونے دینا تہذیبی فسطائیت کی بدترین تمثیل ہے …
آزادی، ہندوستان کی سب زبانوں کو راس آئی، نہ راس آئی تو اردو بے چاری کو۔ یہ بھرے بازار میں تہی دست رہی۔ بھری بہار سے تہی دامن لوٹی …سراسیمگی کے عالم میں ہر قسم کے بیانات اور تجاویز اردو وا لوں کی جانب سے سرزد ہو رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے اس کا رسمِ خط بدل دیا جائے۔ کسی کا مشورہ ہے کہ اگر اس کو علاقائی زبان تسلیم کر لیا جائے تو پھر سرکاری زبان کے لیے اصرار کی ضرورت نہیں۔ کوئی اس خیالِ خام میں مبتلا ہے کہ فلم اور مشاعرے اس کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں، لیکن اردو کے تحفظ و بقا کی ضمانت ذیل کی بنیادی مانگوں کو پورا کیے بغیر ناممکن ہے :
اردو کو اترپردیش، بہار، آندھراپردیش، مہاراشٹر، میسور اور دہلی میں دوسری سرکاری زبان کی حیثیت سے تسلیم کر لیا جائے۔ چوں کہ دستور میں نہ تو ’علاقائی زبان‘ کی تعریف کی گئی ہے اور نہ تشریح۔ اس لیے محض علاقائی زبان کی مانگ سے کسی قسم کی قانونی مطلب بر آری نہیں ہوتی۔ آٹھویں شیڈول میں جو زبانیں گنائی گئی ہیں ان کا عنوان بھی ’علاقائی زبانیں ‘ نہیں ہے، صرف ’’زبانیں ‘‘ہے۔ اس لیے جب تک اردو کی سرکاری حیثیت کا تعین نہیں ہوتا، ریاستی حکومتوں سے اردو کے تحفظ و ترقی کے سلسلے میں کسی خیر و برکت کی توقع کرنا عبث ہے۔
ثانوی سرکاری زبان تسلیم ہو جانے کے بعد ہی ہم ان ریاستوں میں اردو کے متوازی نظامِ تعلیم کی قانونی مانگ پیش کر سکتے ہیں۔ اس نظامِ تعلیم کو درجہ بدرجہ ابتدائی، ثانوی، اور ہائی اسکول کی سطحات پر تشکیل دینا ہو گا۔ ریاستی وزارتِ تعلیم کے تحت اردو سیکشن قائم کرانا ہوں گے تاکہ اسکولوں کی تعلیم کی جملہ ضروریات کی نگرانی کی جا سکے۔ بالآخر ہر ریاست میں جہاں اردو دوسری سرکاری زبان تسلیم کر لی جائے گی، ایک یا ایک سے زائد الحاقی یونیورسٹیوں کی تشکیل عمل میں لائی جائے گی۔
اس نظامِ تعلیم کو چلانے کے لیے تعلیمی وزارتیں نصابی کتب کی تیاری کے صیغے قائم کریں گی۔ اساتذہ کی تربیت کے لیے کالج کھولیں گی۔ جامعاتی سطح پر اردو کو زندہ رکھنے کے لیے ریاست کی کسی ایک اردو میڈیم یونیورسٹی میں دار الترجمہ و تالیف کا قیام عمل میں لایا جائے گا، جہاں اعلیٰ تعلیم کی کتب کی تیاری کا کام ہو گا۔
یہ خیال کہ اردو میڈیم کے فارغ التحصیل طلبہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے، بے بنیاد ہے۔ اس سلسلے میں پہلی بات جو غور طلب ہے، یہ ہے کہ سرکاری ملازمتیں ہمارے روزگار کے چند فی صد وسائل بھی فراہم نہیں کرتیں۔ نئی نسلوں کی زیادہ تر کھیپ زراعت، صنعت اور پھیلے ہوئے کاروباروں میں ہو گی۔ ان میدانوں میں داخل ہونے والا اردو کا طالب علم ریاستوں کی بڑی زبانوں سے اس قدر واقفیت رکھتا ہو گا کہ اپنا کاروبار چلا سکے، لیکن اس کی تعلیم کا تہذیبی محور اس کی مادری زبان ہو گی۔
اردو کے مسئلے کا یہ حل معقول بھی ہے اور دستور اور ہندوستانی قومیت کی روح کے عین مطابق بھی۔
(ماخوذ از ’اردو کا المیہ‘، مرتبہ مرزا خلیل احمد بیگ، علی گڑھ: شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، 1973، ص(143-47۔
4 ۔ شخصی خاکے
عبدالقادر سروری مرحوم
مرنے والے کی خوبیاں اور نیکیاں یاد رہ جاتی ہیں۔ سروری صاحب کے اچانک انتقال کی خبر جب چند روز تاخیر سے علی گڑھ پہنچی تو یقین نہیں آیا کہ سرزمینِ دکن کا ایک ہیرا وادیِ کشمیر میں گم ہو گیا۔ ڈاکٹر زورؔ صاحب کے انتقال کے بعد کشمیر یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کی صدارت پر اپنے تقرر کے موقع پر سروری صاحب نے مجھ سے کہا تھا کہ اس وادی سے کسی کی بازگشت نہیں ہوتی…امسال حسبِ معمول وہ 5مارچ 1971تک حیدرآباد میں موجود تھے۔ 15مارچ 1971کو کشمیر یونیورسٹی تعطیلات کے بعد کھل رہی تھی، اس غرض سے انتقال سے دو روز قبل [وہ]سری نگر پہنچے اور 11مارچ کو ان کا وہ اندیشہ صحیح ثابت ہوا جس کے جواب میں مَیں نے ہنس کر کہا تھا کہ دکن اپنے لعلوں کو کبھی نہیں کھوتا!
اب جو مہ و سال کی غلام گردش میں یادوں کے چراغ لے کر نکلا ہوں تو خیالات و واقعات کا ایک ہجوم ہے جو سیل در سیل گذر رہا ہے۔ میں نے انھیں قریب و دور، ہر فاصلے سے اور ہر رنگ میں دیکھا ہے۔ علمی مشاغل میں ان کی بے پناہ لگن، تحصیلِ علم کے لیے ان کی سن و سال سے بالا تر ہو کر مسلسل تگ و دو، اپنے پسندیدہ طلبہ کی زندگی بنانے کے لیے ان کے جوڑ توڑ، اپنے کم عمروں سے علمی استفادہ حاصل کرنے میں ان کی بے تکلفی اور سب سے بڑھ کر اردو زبان کا درد اور اردو والوں کی شکستہ حالی سے ہار نہ ماننے کا جذبہ بے شمار واقعات ہیں جو اس سلسلے میں یاد آرہے ہیں۔
جب 1955میں پونا میں لسانیات کے اسکولوں کا آغاز ہوا تو دوسرے ہی اسکول میں ایک طالب علم کی حیثیت سے اپنا نام درج کرایا۔ اور ڈیڑھ ماہ تک طالب علم کی حیثیت سے دیگر طالب علموں کے ساتھ ہاسٹل میں مقیم رہے۔ میں ان اسکولوں میں استاد کی حیثیت سے پڑھانے جاتا تھا۔ جب بھی ان کی اس ریاضت کے ذکر پر تعجب کا اظہار کرتا تو ہنس کر کہتے، اکتسابِ علم کے لیے یہ بھی ضروری ہے۔ چنانچہ ان کے اسی مطالعے کا نتیجہ ان کی تصنیف ’زبان اور علمِ زبان‘ ہے جو اردو میں اپنی نوعیت کی پہلی تصنیف ہے۔
سروری صاحب تو توانائیِ مجسم تھے۔ مسلسل حرکت ان کے لیے ناگزیر تھی۔ جہاں جاتے نئی دوستیاں اور نئی مخالفتیں بہ آسانی پیدا کر لیتے۔ انھیں مولوی عبدالحق کا یہ قول بہت پسند تھا جسے وہ اکثر دہراتے تھے کہ انسان کی مخالفت درختوں یا جڑوں سے نہیں پیدا ہوتی، انسانوں ہی سے ہوتی ہے۔ میں ہمیشہ اس قول پر ان کو داد ان الفاظ میں دیتا: ’’سروری صاحب آپ میں مخالفت پیدا کرنے اور پھر اس کو سر کرنے کی غیر معمولی صلاحیت ہے‘‘، ع
تبسّمے بہ لبِ او رسید و ہیچ نہ گفت
کا منظر کھنچ کر رہ جاتا۔
حیدرآباد کی سرزمین اور تاریخ میں ایک مخصوص قسم کا جذبہ کارفرما ہے جو کبھی ملکی غیر ملکی، کبھی دکنی اور ہندوستانی کے الفاظ میں نمایاں ہوتا رہا ہے۔ یوپی والے، جنھیں حیدرآباد کی تہذیب اور زبان، دہلی، لکھنؤ کی تہذیب و زبان کی توسیع اور تتمہ معلوم ہوتی ہے، کبھی اس جذبے کے راز کو نہ سمجھ سکے۔ لیکن پایا اس میں گرفتار اچھے اچھے ادیبوں اور اہلِ علم کو بھی، چنانچہ دکنی اردو کو علاحدہ زبان بنانے اور سمجھنے کا شاخسانہ بھی یہیں سے نکلا ہے …سروری صاحب کو میں نے اس علمی خرافات سے بہت دور پا یا۔ اس مسئلے پر ان کی نظر عالمانہ تھی اور ان کا جذبہ غیر مقامی۔ وہ جہاں بھی رہے قیدِ مقام سے آزاد ہو کر رہے۔ حیدرآباد میں رہ کر دکنی اردو ادب کی بازیافت اور ترتیب و تہذیب میں نمایاں کام کیا۔ زندگی کے آخری سال کشمیر میں گزارے تو وہاں کا حقِ خدمت اس طرح ادا کیا کہ اہلِ کشمیر کی فارسی اور اردو ادبیات سے متعلق خدمات پر تصانیف تحریر کیں۔ وہ اپنی آخری تصنیف کا جو کشمیر میں اردو ادب کی تاریخ سے متعلق ہے، بڑے چاؤ سے ذکر کرتے تھے۔
سروری صاحب کی وفاداری ایک عالم کی حیثیت سے مقام سے نہیں زبان سے تھی۔ اردو کو جہاں جہاں جس روپ میں پایا اس کے تحفظ و بقا کے لیے اپنی علمی صلاحیتوں کو وقف کر دیا۔ اس زبان کے لیے ان میں ایک لگن تھی۔ اس کا میدان میسور تا کشمیر تھا۔ سروری صاحب کا بھی جولاں گاہ میسور تا کشمیر رہا۔ ہمہ وقت وہ اس کی تعلیم اور تنظیم میں منہمک رہے۔ اسی کا کھایا اسی کا گایا۔ اسی کو اپنی میراث جانا۔ اسی کو اپنی نجات جانا۔ آج جو وہ ہم میں نہیں تو اردو کے قافلے کا ایک اہم شہ سوار نابود ہو گیا ہے۔ آج جو وہ دور چلے گئے ہیں تو اردو کا افق کچھ اور غبار آلود ہو گیا ہے!
(ماخوذ از ’اردو کا المیہ‘، مرتبہ مرزا خلیل احمد بیگ ،علی گڑھ: شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، 1973، ص18993)۔
5 ۔ خود نوشت سوانح حیات
سترھواں باب: ’’شادم از زندگیِ خویش… ‘‘
میں اب عمر کی ستّرھویں سال کی چوٹی پر کھڑا ہوں۔ 28جنوری 1989کو امید ہے، اسے سر کر لوں گا۔ یتیمی کے بچپن سے لے کر شادمانی کے اس دور تک جب میں اپنی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو خود کو مطمئن پاتا ہوں۔ ہرچند ماں باپ کی بے وقت موت کی وجہ سے میں ان کی محبت اور شفقت سے محروم رہا۔ زندگی کے بعض موڑوں پر مجھے ان کی کمی کا شدت سے احساس ہوتا اور اس وقت بے بسی کے عالم میں میری آنکھوں [سے]آنسو چھلک اٹھتے، لیکن چوں کہ میرے حافظے میں ان کا کوئی مادی نقش محفوظ نہیں تھا، اس لیے اس کیفیت پر بہت جلد قابو پا لیتا، اور اس کے ساتھ یہ احساس قوی تر ہو جاتا کہ مجھے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے۔ مجھے میری ننہال کے مشترکہ خاندان نے زندگی کی بہت سی تلخیوں سے بچا لیا۔ اسی لیے میں ایسے خاندان کی برکتوں کا قائل رہا ہوں۔ یہ صحیح ہے کہ مجھے ضروریاتِ زندگی کے سلسلے میں وہ فراخ دستی حاصل نہیں رہی جو مجھے ہوتی اگر والدین کی شفقت کا سا یہ نصیب رہتا، لیکن میں اس اعتبار سے خوش قسمت رہا کہ مجھے ایک محبت اور خدمت کرنے والی رفیقۂ حیات ملی جس نے ’ممتا‘ کی کمی کو بہت کچھ دل سے بھلا دیا …
نجمہ نے مجھے پانچ تندرست، خوب صورت اور ذہین بچوں کا باپ بنایا۔ میری چاروں لڑکیاں فریدہ، نادرہ، شاہدہ اور زیبا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے اپنے گھروں کی ہو چکی ہیں جہاں وہ خوش اور مطمئن ہیں۔ میں اب پانچ بچوں کا نا نا بن چکا ہوں۔ گرما کی تعطیلات میں جب ان کی آمد سے گھر بھر جاتا ہے تو مجھے اپنے بچوں کے بچپن کا سماں یاد آ جاتا ہے اور دن بھر کی کلفت، کوفت ختم ہو جاتی ہے۔
اپنے لڑکے جاوید حسین کی جانب سے …البتہ ہم دونوں فکر مند رہتے ہیں۔ وہ ہر اعتبار سے ایک سعادت مند بیٹا ہے، لیکن اپنی دنیا میں اس قدر مست رہتا ہے کہ نہ اسے اہلِ خاندان کا خیال ہے اور نہ سماجی رشتوں کا …سوائے کتاب کے اسے کسی کی رفاقت عزیز نہیں۔
جب میں اپنی گذری ہوئی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے ایک خاص قسم کی طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔ مجھے سب سے بڑی خوشی اس بات سے ہوتی ہے کہ خود کو دوسروں اور اپنی نظر میں با وقار پاتا ہوں۔ میں روایتی قسم کا مذہبی انسان نہیں ہوں۔ زندگی میں میرا عمومی رویہ عقلیت پسندی کا ہے، لیکن سینے میں ایک دلِ گداختہ رکھتا ہوں۔ سیاست کو اجتماعی زندگی کی ناگزیر ضرورت سمجھتے ہوئے مشتبہ نظروں سے دیکھتا ہوں، اس لیے کہ اس میدان میں جواہر لال جیسے انسان کم نظر آتے ہیں۔ میری نظر میں اہلِ علم و ہنر زیادہ لائقِ تعظیم ہیں۔ اسی لیے میر، غالب، اقبال اور ٹیگور جیسی ہستیوں کو دل سے عزیز رکھتا ہوں۔
عزتِ نفس مجھے ورثے میں ملی ہے۔ یہی میری طاقت بھی ہے اور کم زوری بھی۔ میں نہ کسی کی توہین کرنا چاہتا ہوں اور نہ توہین برداشت کرتا ہوں۔ عام طور پر صلحِ کل میرا مسلک ہے، لیکن جب خودی اور خود داری پر چوٹ پڑتی ہے تو اس کی خاطر اپنا سب کچھ لگا دینے پر تیار رہتا ہوں۔ میں عام طور پر دوست داری کا رویہ رکھتا ہوں، لیکن نا معقولوں سے انتہائی درجے کی سرد مہری بھی دکھا سکتا ہوں …انسانی تعلقات میں مَیں ذکی الحس اور زود رنج واقع ہوا ہوں، لیکن اسی وقت جب کسی کے قول و فعل سے مجھے تکلیف پہنچی ہو۔ بنیادی طور پر میں جلوت کا نہیں خلوت کا آدمی ہوں، اس لیے زندگی میں میرے دوستوں کا حلقہ ہمیشہ محدود و مخصوص رہا۔ میں کسی دوست کو اپنی نسبت سے احساسِ برتری کا شکار نہیں ہونے دیتا۔ میرے لیے سب دوستوں کے ’قد‘ برابر ہوتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اگر وہ کسی لحاظ سے فوقیت رکھتا ہے تو میں اس کی قدر کرتا ہوں۔ جہاں کسی د وست نے آنکھیں بدلیں، میں نے راہیں بدل لیں …میں تنہائی سے مطلق نہیں گھبراتا، اس لیے کہ خود سے نہیں گھبراتا۔ البتہ اس دن کے تصور سے بھی کانپ اٹھتا ہوں جب ’مونسِ تنہائی‘ کی رفاقت سے محروم ہو جاؤں گا۔
میں عام طور پر پابندیِ اوقات سے کام کرتا ہوں، لیکن بعض دنوں میں میرے معمولات میں کوئی نظم و ضبط نہیں رہتا۔ یہی صورت جسمانی ورزش کی ہے جس میں مجھے صبح و شام ٹہلنا سب سے زیادہ پسند ہے۔ دہلی جیسے بڑے شہروں میں میرا سب سے محبوب مشغلہ’ دکان بینی‘ رہا ہے۔ اس مشغلے میں گھنٹے گزار سکتا ہوں …روپے پیسے کی جانب سے لا پرواہ رہا ہوں، یعنی کوئی گوں کی چیز مل جاتی ہے تو پھر ’مانعِ دشت نوردی کوئی زنجیر‘ نہیں ہوتی۔ پیسے کو میں نے ہمیشہ خرچ کرنے کی چیز سمجھا لیکن اسی قدر کہ قرض لینے کی نوبت نہ آئے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے آج تک کسی سے قرض نہیں لیا، اور نہ دیا۔ کبھی دینا پڑا تو اس کو شمار نہ کیا۔ ستّر برس کی عمر ہو جانے پر بھی میں ابھی زندگی سے تھکا نہیں ہوں، ع
میری پیری میں ہے مانندِ سحر رنگِ شباب
ابھی تک میرے دل و دماغ چاق و بند ہیں اور مجھے کسی قسم کا جسمانی عارضہ لاحق نہیں ہوا ہے۔ خون میں شکر کی زیادتی ہو جاتی ہے جسے میں غذا میں احتیاط کر کے قابومیں رکھتا ہوں۔ مجھ میں ابھی تک حوصلۂ قلم و رقم باقی ہے، بلکہ یہ کہوں کہ زورِ قلم زیادہ ہو گیا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ علمی کاموں کے کچھ منصوبے رہ گئے تھے جن کی سمیٹا سمیٹی میں لگا ہوا ہوں۔ البتہ شاعری اب دور کی آواز ہو گئی ہے اور یہ تمنا دل کی دل میں رہ گئی کہ کاش میں اپنے خونِ جگر سے کچھ اور شعری پیکر تراش سکتا! بعض اوقات اپنا کلام دیکھتا ہوں تو ایک اجنبیت سی محسوس ہوتی ہے۔ یہ میں نے کیوں کر کہا؟ اگر مجھے زندگی دوبارہ عطا ہو تو نجمہ کے ساتھ شعر کی دیوی کا پھر خواہش مند رہوں گا!
(ماخوذ از ’ورودِ مسعود‘، خود نوشست سوانح حیات ،پٹنہ: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، 1988، ص 297304)۔