نظریۂ آغازِ زبانِ اردو
لسانیاتی تحقیق کے میدان میں مسعود حسین خاں کا سب سے اہم اور قابلِ قدر علمی کارنامہ اردو کے آغاز و ارتقا سے متعلق ان کا وہ لسانی نظریہ ہے جس کی وجہ سے انھیں ایک ماہرِ لسانیات کی حیثیت سے غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ اس نظریے کی رو سے ’’حضرتِ دہلی‘‘ اردو کا ’’حقیقی مولد و منشاء‘‘ ہے، اور ’’دہلی و نواحِ دہلی کی بولیاں ‘‘ اس کا ’’اصل منبع اور سرچشمہ‘‘۔ یہ اردو کے آغاز کا سب سے قابلِ قبول نظریہ(Most Acceptable Theory)ہے جسے نصف صدی سے زائد کا عرصہ گذر جانے کے بعد بھی چیلنج نہیں کیا جا سکا۔
اس نظریے کی تشکیل سے قبل اردو کے کئی عالم اور بعض مغربی مصنّفین بھی اردو کے آغاز کے بارے میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر چکے تھے۔ مسعود حسین خاں نے ان تمام خیالات و نظریات کا لسانیاتی بنیادوں پر تجزیہ کرنے اور انھیں رَد کر دینے کے بعد آغازِ اردو کے ایک ایسے نظریے کی تشکیل کی جو تاریخی و تقابلی لسانیات (Historical and Comparative Linguistics)کے ٹھوس علم پر مبنی ہے اور جس میں تحقیقی طرزِ استدلال سے کام لیا گیا ہے۔ یہ نظریہ ہند آریائی لسانیات(Indo-Aryan Linguistics)سے ان کی گہری واقفیت کی بھی دلیل ہے۔
آغاز و ارتقائے اردو کے اس نظریے کو مسعود حسین خاں نے اپنی عالمانہ تحقیقی تصنیف ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ میں بالتفصیل پیش کیا ہے۔ یہ کتاب پہلی بار 1948میں دہلی سے شائع ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے یہ بار بار شائع ہوتی رہی جس میں ہر بار کچھ نہ کچھ ترمیم و تنسیخ بھی کی جاتی رہی۔ اس کا آخری ترمیم شدہ ایڈیشن جو ساتواں ایڈیشن ہے 1987میں ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ سے شائع ہوا، لیکن اس کے بعد بھی اس کے کئی ری پرنٹس (Reprints)شائع ہوئے۔ یہ کتاب در اصل مسعود حسین خاں کا تحقیقی مقالہ ہے جس پر انھیں 1945میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے پی ایچ.ڈی(Ph.D)کی ڈگری تفویض ہوئی تھی۔ اس کتاب کے متذکرہ ساتویں ایڈیشن میں انھوں نے ’’تھوڑی سی نظریاتی ترمیم‘‘ بھی کی ہے اور تیسرا باب از سرِ نو لکھا ہے جس سے اس کتاب کی قدر و قیمت اور افادیت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ (1)
کسی زبان کے لسانیاتی مطالعے کے دو پہلو ہیں : تاریخی(Historical)اور توضیحی(Descriptive)۔ تاریخی لسانیات میں کسی زبان کے عہد بہ عہد ارتقا اور اس میں رونما ہونے والی مختلف النوع لسانی تبدیلیوں سے بحث کی جاتی ہے۔ زبان کا تقابلی مطالعہ بھی تاریخی لسانیات کا ایک اہم پہلو ہے، کیوں کہ تقابلی مطالعے ہی کی بنیاد پر ’ہم رشتہ زبانوں ‘(Related Languages)کا تعین کیا جا سکتا ہے، اور ان کے ماخذ تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ تاریخی لسانیات کی تمام تر بنیاد تحریری مواد پر قائم ہے۔ اس کے برعکس توضیحی لسانیات میں زبانوں کی ساخت (Structure)کا مطالعہ و تجزیہ کسی ایک وقت میں ان کی تاریخ کے حوالے کے بغیر کیا جاتا ہے۔ مسعود حسین خاں کی متذکرہ تصنیف تاریخی و تقابلی لسانیات کے زمرے میں آتی ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب کوئی زبان معرضِ وجود میں آتی ہے تو وہ اپنے زمانی و مکانی حوالے بھی ساتھ لاتی ہے، نیز یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر زبان ایک مخصوص لسانیاتی عمل (Linguistic Process)کے نتیجے کے طور پر ظہور پذیر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی زبان کا تاریخی مطالعہ کرتے وقت تین سوالات ذہن میں پیدا ہوتے ہیں کہ یہ زبان کب پیدا ہوئی، کہاں پیدا ہوئی، اور کیسے پیدا ہوئی؟ اردو کے آغاز کے ضمن میں بھی یہی تینوں سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں کہ اردو کب، کہاں اور کیسے پیدا ہوئی؟ مسعود حسین خاں کی تصنیف ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ میں ان تینوں سوالوں کے جوابات تحقیقی استناد کے ساتھ نہایت مدلل انداز میں مل جاتے ہیں۔ ان کے نظریۂ آغازِ زبانِ اردو کو سمجھنے کے لیے یہ تینوں سوالات نہایت موزوں ہیں جو باہم مربوط بھی ہیں، لیکن ان پر غور کرنے سے قبل ہم اس طریقِ کار (Procedure)پر غور کریں گے جو انھوں نے اپنے نظریے کی تشکیل کے سلسلے میں اختیار کیا تھا۔
مسعود حسین خاں نے سب سے پہلے شمالی ہندوستان میں ہند آریائی کے لسانی ارتقا کا جائزہ لیا کہ اردو کا تعلق ہند آریائی خاندانِ السنہ (Indo-Aryan Family of Languages)سے ہے جو زبانوں کے ہند یورپی خاندان(Indo-European Family of Languages)کی ایک شاخ ہے اور جس کا ارتقا شمالی ہند میں ہوا۔ پھر انھوں نے 1000سنہِ عیسوی کے آس پاس شمالی ہند بالخصوص دہلی کی سیاسی، سماجی اور تہذیبی صورتِ حال کا جائزہ لیا جس کے دور رس اثرات وہاں کے لسانی منظر نامے پر بھی پڑے۔ بعد ازاں انھوں نے اردو کے ابتدائی نمونوں کی دریافت اور چھان بین کا کام انجام دیا اور ان کا مقابلہ دہلی و نواحِ دہلی کی بولیوں سے کیا۔ اس کے بعد آغازِ اردو کے مختلف نظریات کا لسانیاتی بنیادوں پر تجزیہ کیا اور انھیں رَد کیا، اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد ہی انھوں نے اردو کے آغاز و ارتقا سے متعلق ایک نئے نظریے کی تشکیل کی۔ اس نظریے کو ٹھوس علمی بنیاد فراہم کرنے کے لیے انھوں نے بے شمار دلیلیں اور مثالیں دیں اور مستند حوالے پیش کیے۔ یہ بات کسی خوفِ تردید کے بغیر کہی جا سکتی ہے کہ خالص لسانیاتی بنیادوں پر سائنسی انداز سے تکمیل شدہ اردو کے آغاز کے بارے میں یہ پہلا تحقیقی کام ہے، ورنہ اس سلسلے میں ار دو کے عالموں نے قبلاً جو کچھ بھی کہا تھا وہ محض قیاس یا زیادہ سے زیادہ نیم لسانی صداقتوں پر مبنی تھا۔
اردو کب، کہاں، اور کیسے پیدا ہوئی؟ ہر چند کہ یہ تینوں سوالات باہم مربوط ہیں، تاہم دوسرے سوال کو کہ اردو کہاں پیدا ہوئی، ہم پہلے لیں گے جس سے مراد اردو کی جائے پیدائش ہے۔ یہاں اس امر کا ذکر بے جا نہ ہو گا کہ اردو کی پیدائش کے سلسلے میں علماء نے تحقیقی استدلال سے کم اور قیاس آرائیوں سے زیادہ کام لیا ہے جس سے ان کے نظریات مفروضوں کی شکل اختیار کر گئے ہیں، مثلاً سید سلیمان ندوی (18841953)نے سندھ کو اردو کا مولد قرار دیا اور اپنی تصنیف ’نقوشِ سلیمانی‘(1939)میں لکھا کہ ’’اردو کا ہیولیٰ… وادیِ سندھ میں تیار ہوا ہو گا۔ ‘‘ یہ محض قیاس آرائی ہے، کوئی نظریہ نہیں۔ ان کی یہ دلیل کہ چوں کہ ’’مسلمان سب سے پہلے سندھ میں پہنچتے ہیں ‘‘، اس لیے اردو کا وہاں پیدا ہونا ’’قرینِ قیاس‘‘ ہے، (2)نہایت بودی اور کمزور دلیل ہے۔ ان کے اس قیاس کو مسعود حسین خاں نے پورے طور پر رَد کر دیا ہے۔
اگر ہم تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو ہندوستان میں مسلمانوں کا سیاسی تسلط سب سے پہلے سندھ میں قائم ہوتا ہے، لیکن یہ کوئی کلیہ نہیں کہ جہاں کہیں بھی مسلمانوں کا ورود ہو وہاں اردو بھی معرضِ وجود میں آ جائے۔ محمد بن قاسم(695715)(3) کی سرکردگی میں 711سنہِ عیسوی میں جو مسلمان بحری راستے سے دیبل (کراچی کے نزدیک واقع ایک قدیم بندرگاہ) پہنچے، اور راجا داہر کے قلعہ کو فتح کر کے سندھ میں داخل ہوئے وہ عربی گو تھے۔ ہند آریائی کی تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اس وقت سندھ میں بڑا چد اپ بھرنش رائج تھی جس کا ارتقا پشاچی پراکرت سے ہوا تھا۔ 1000سنہِ عیسوی تک پہنچتے پہنچتے بڑا چد اپ بھرنش کا وجود ختم ہو جاتا ہے اور اس کے بطن سے سندھ میں سندھی زبان پیدا ہوتی ہے جو ایک جدید ہند آریائی زبان ہے۔ اردو بھی اگرچہ ایک جدید ہند آریائی زبان ہے، لیکن اس کا ارتقا1000سنہِ عیسوی کے بعد شورسینی اپ بھرنش سے ہوا ہے جو دہلی و نواحِ دہلی اور مغربی یوپی، نیز اس کے قرب و جوار میں رائج تھی، چنانچہ آٹھویں صدی عیسوی کے اوائل میں مسلمانوں کی سندھ میں آمد کی وجہ سے وہاں اردو کا ہیولیٰ تیار ہونا قرینِ قیاس نہیں۔ اردو کے آغاز کے بارے میں اس قسم کا خیال پیش کرنا جدید ہند آریائی زبانوں کے ارتقا اور ان کی تاریخ سے عدم واقفیت کی دلیل ہے۔ سید سلیمان ندوی کے متذکرہ بیان کو نظریہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسے محض قیاس آرائی پر محمول کرنا چاہیے۔
اسی طرح حافظ محمود خاں شیرانی(1880-1946)پنجاب کو اردو کی ’’ولادت گاہ‘‘ بتاتے ہیں، کیوں کہ مسلمان دوسری بار دسویں صدی عیسوی کے اواخر میں فاتح کی حیثیت سے پنجاب میں داخل ہوتے ہیں۔ شیرانی اردو کے ساتھ پنجابی کو بھی شامل کر کے دونوں زبانوں کی ’’ولادت گاہ‘‘ پنجاب بتاتے ہیں۔ وہ اپنی تصنیف ’پنجاب میں اردو‘ (1928)میں لکھتے ہیں :
’’اردو اور پنجابی زبانوں کی ولادت گاہ ایک ہی مقام ہے۔ دونوں نے ایک ہی جگہ تربیت پائی ہے اور جب سیانی ہو گئی ہیں تب ان میں جدائی واقع ہوئی ہے۔ ‘‘(4)
شیرانی اپنی متذکرہ تصنیف میں مزید لکھتے ہیں :
’’اردو دہلی کی قدیم زبان نہیں، بلکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ دہلی جاتی ہے اور چوں کہ مسلمان پنجاب سے ہجرت کر کے جاتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ وہ پنجاب سے کوئی زبان اپنے ساتھ لے کر گئے ہوں گے۔ ‘‘(5)
شیرانی یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اردو اور پنجابی زبانیں، جن کی ’’ولادت گاہ‘‘ بہ قول ان کے پنجاب ہے، کس زبان سے ارتقا پذیر ہوئیں اور وہ کہاں کی زبان تھی؟ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جب مسلمان فاتح کی حیثیت سے پنجاب میں داخل ہوئے اس وقت وہاں کیکیئی اپ بھرنش رائج تھی، جس کے بطن سے بعد میں پنجابی (مغربی) پیدا ہوئی جو اگرچہ اردو ہی کی طرح ایک جدید ہند آریائی زبان ہے، لیکن اردو سے مختلف ہے۔ مشرقی پنجابی کا ارتقا شور سینی اپ بھرنش سے ہوا ہے، لیکن یہ بھی اردو سے مختلف اور ہریانوی سے ملتی جلتی زبان ہے۔ اردو کا بنیادی ڈھانچا کھڑی بولی کا ہے جو 1000سنہِ عیسوی کے آس پاس دہلی اور نواحِ دہلی (بہ جانبِ شمال مشرق) میں رائج تھی۔ اردو کی اصل و اساس یہی کھڑی بولی ہے، نہ کہ پنجابی۔ مسعود حسین خاں نے شیرانی کے اس نظریے کو کہ اردو پنجاب میں پیدا ہوئی، رَد کر دیا ہے۔ شیرانی نے اردو کے پنجاب میں پیدا ہونے کا نظریہ اس غلط فہمی کی بنیاد پر قائم کیا تھا کہ دکنی اردو (قدیم اردو) کی بعض خصوصیات پنجابی سے ملتی جلتی ہیں۔ مسعود حسین خاں نے جو تاریخی و تقابلی لسانیات (Historical and Comparative Linguistics)کے ماہر تھے، یہ نظریہ پیش کیا کہ قدیم اردو اور دکنی کی جو خصوصیات شیرانی پنجابی سے منسوب کرتے ہیں وہ نواحِ دہلی کی ایک بولی ہریانوی میں بھی پائی جاتی ہیں، چنانچہ قدیم اردو اور دکنی کا ’’پنجابی پن‘‘ اس کا ’’ہریانی پن‘‘ بھی ہے۔ (6)
ٹی.گریہم بیلی (T. Grahame Bailey)بھی محمود خاں شیرانی کے نظریے سے اتفاق کرتے ہوئے ’’لاہور‘‘ (پنجاب) کو اردو کی جائے پیدائش قرار دیتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب A History of Urdu Literature (1932)میں لکھتے ہیں :
“The formation of Urdu began as soon as the Ghaznavi forces settled in Lahore, i.e. in 1027.”(70)
(=’’غزنوی افواج کے لاہور میں 1027میں قدم جماتے ہی اردو کی تشکیل کا عمل شروع ہو گیا تھا۔ ‘‘)
گریہم بیلی ’’لاہور‘‘ کو اردو کی جائے پیدائش قرار دینے کے علاوہ لاہور کی اردو کو قدیم پنجابی پر مشتمل بتاتے ہیں جس پر فارسی کے اثرات مرتسم ہوتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہی اردو 1193میں دہلی پہنچتی ہے، اور کھڑی بولی کے زیرِ اثر آ کر دہلی کی اردو میں متشکل ہو جاتی ہے۔ (8)
جس سال گریہم بیلی کی متذکرہ کتاب لندن سے شائع ہوئی اسی سال (1932) ان کے شاگردسید محی الدین قادری زور (19051962)کی کتاب ’ہندوستانی لسانیات‘ بھی شائع ہوئی۔ گریہم بیلی کی اس کتاب کا مسودہ زور کی نظر سے گذر چکا تھا، (9) چنانچہ بیلی سے اتفاق کرتے ہوئے انھوں نے اردو کے آغاز کے بارے میں یہی نظریہ قائم کیا کہ اردو ’’پنجاب‘‘ میں بولی جانے والی زبان پر مبنی ہے۔ وہ ’ہندوستانی لسانیات‘(1932)میں لکھتے ہیں :
’’اردو کا سنگِ بنیاد در اصل مسلمانوں کی فتحِ دہلی سے بہت پہلے ہی رکھا جا چکا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس نے اس وقت تک ایک مستقل زبان کی حیثیت نہیں حاصل کی تھی جب تک کہ مسلمانوں نے اس شہر کو اپنا پایۂ تخت نہ بنا لیا …اگر یہ کہا جائے تو صحیح ہے کہ اردو اس زبان پر مبنی ہے جو پنجاب میں بارھویں صدی عیسوی میں بولی جاتی تھی۔ ‘‘(10)
اردو کی جائے پیدائش کے سلسلے میں سندھ اور پنجاب کے علاوہ گجرات اور دکن کا بھی نام لیا جاتا ہے، لیکن یہاں بھی محض قیاس آرائی ہی سے کام لیا گیا ہے۔ مسعود حسین خاں نے ان تمام قیاس آرائیوں یا نظریوں کو رَ د کرتے ہوئے اس سلسلے میں تحقیقی و لسانیاتی بنیادوں پر اپنا موقف پیش کیا ہے جو بالکل واضح ہے۔ جیسا کہ ابتدا میں مذکور ہوا کہ وہ شہرِ دہلی کو اردو کا مولد تسلیم کرتے ہیں، لیکن ان کے اس نظریے کی رو سے دہلی اس وقت اردو کا مولد بنتی ہے جب 1193میں مسلمان اسے فتح کر کے اپنا پایۂ تخت بنا لیتے ہیں۔ چنانچہ مسعود حسین خاں لکھتے ہیں، ’’ اردو کا نقطۂ آغاز 1193میں مسلمانوں کا داخلۂ دہلی ہے۔ ‘‘(11)
جس وقت مسلمانوں نے دہلی کو فتح کر کے اسے اپنا مستقر بنایا اس وقت وہاں اور اس کے نواح میں، مسعود حسین خاں کے خیال کے مطابق، چار بولیاں کھڑی بولی، ہریانوی، برج بھاشا اور میواتی رائج تھیں۔ کھڑی بولی دہلی کے شمال مشرق میں بہ جانب مغربی یوپی پھیلی ہوئی تھی، دہلی کے شمال مغرب میں ہریانوی کا چلن تھا، اور دہلی کے جنوب مشرق میں ذرا آگے جا کر برج بھاشا مل جاتی تھی، اور دہلی کے جنوب مغرب میں راجستھان کی ایک بولی میواتی رائج تھی۔ دہلی ان چاروں بولیوں کا ’’سنگم‘‘ تھی۔ مسعود حسین خاں کے نظریے کے مطابق مسلمانوں کی فتحِ دہلی (1193)کے بعد انھی بولیوں کے اشتراک سے اردو معرضِ وجود میں آئی۔ ان میں سے کھڑی بولی نے اردو کے آغاز و ارتقا میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اردو پر ابتدائی زمانے میں ہریانوی کے بھی اثرات پڑے جس کا ثبوت دکنی اردو کی بعض لسانی خصوصیات ہیں۔ مسعود حسین خاں اس لسانی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’قدیم اردو کی تشکیل براہ راست دو آبہ کی کھڑی [بولی]اور جمنا پار کی ہریانوی کے زیرِ اثر ہوئی ہے۔ ‘‘(12)
انھوں نے یہ بات محض قیاساً نہیں لکھی، بلکہ امیر خسرو (12531325) کے فقرے ’’دہلی و پیرا منش‘‘ (دہلی اور اس کے نواح کی بولیاں ) سے اشارہ پاکر، نواحِ دہلی کی بولیوں کا تقابلی مطالعہ کیا اور دکنی زبان کی خصوصیات کو پنجابی کے بجائے ان بولیوں میں پہچاننے کی کوشش کی اور ایسا کرتے وقت ان بولیوں کے جدید روپ اور دست یاب شدہ قدیم نمونوں کو بھی سامنے رکھا، پھر اپنے نظریے کی تشکیل اس طرح کی کہ دو آبہ، اور جمنا پار کا علاقہ یعنی دہلی اردو کا ’’مولد و منشا‘‘ قرار پایا۔ د وسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے ’’دہلی و نواحِ دہلی‘‘ کو اردو کی ولادت گاہ تسلیم کیا ہے۔
مسعود حسین خاں نے ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ اور اپنے بعض مضامین میں اردو کے آغاز و ارتقا کے سلسلے میں بجا طور پر کھڑی بولی اور ہریانوی پر زور دیا ہے اور یہ دونوں دہلی و نواحِ دہلی کی بولیاں ہیں۔ قدیم و جدید اردو کے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ اردو کی بنیاد کھڑی بولی پر قائم ہے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ قدیم اردو (دکنی اردو) پر ہریانوی کے اثرات نمایاں ہیں اور قدیم متون سے ان اثرات کی تصدیق بھی ہوتی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اردو کی تشکیل میں انھوں نے کھڑی بولی کے ساتھ ہریانوی کو ’’برابر کی حصہ دار‘‘ بتایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’امیر خسرو کی ’’نہ سپہر‘‘میں دی ہوئی بارہ ہندوستانی زبانوں کی فہرست سے زبانِ ’’دہلی و پیرا منش‘‘ (دہلی اور اس کے نواح کی بولیاں ) کو اردو کا سرچشمہ ثابت کیا گیا ہے، اس طرح کھڑی بولی کے ساتھ ہریانوی بھی اس میں برابر کی حصہ دار ہو گئی ہے۔ ‘‘(13)
لیکن جیسے جیسے اردو معیاری روپ اختیار کرتی گئی، ہریانوی کے اثرات زائل ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ اٹھارھویں صدی عیسوی کے وسط میں شمالی ہند میں تحریکِ اصلاحِ زبان کے نا م پر شیخ ظہور الدین حاتم (1700-1783)اور ان کے بعض معاصرین نے ان اثرات کا قلع قمع کر دیا۔
اردو کے مکانی تعین کی طرح اردو کے زمانی تعین کے بارے میں بھی مسعود حسین خاں کا نظریہ نہایت واضح ہے۔ وہ 1193کو اردو کا ’’نقطۂ آغاز‘‘ تسلیم کرتے ہیں، کیوں کہ یہ مسلمانوں کے فتحِ دہلی کی تاریخ ہے۔ علمائے زبان و ادب میں اس سوال پر بھی اختلافِ رائے رہا ہے کہ اردو کب پیدا ہوئی؟ میر امن (c. 1750-1837)نے ’باغ و بہار‘ (1803)کے دیباچے میں اردو کی پیدائش کو شہنشاہِ اکبر(م1605.) کے عہد سے منسوب کیا ہے جو ان کی لاعلمی کی دلیل ہے۔ محمود خاں شیرانی اردو کی ابتدا کے زمانے کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’اصل یہ ہے کہ اردو کی داغ بیل اسی دن سے پڑنی شروع ہو گئی ہے جس دن سے مسلمانوں نے ہندوستان میں آ کر توطن اختیار کر لیا ہے۔ ‘‘(14)گر یہم بیلی نے اردو کے آغاز کی تاریخ 1027متعین کی ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے جب محمود غزنوی کی فوجیں پنجاب میں داخل ہوتی ہیں۔ اردو کے آغاز کا سلسلہ امیر خسرو کے عہد سے بھی ملایا جاتا ہے۔ اردو کو شاہجہانی عہد کی یادگار تو بتایا ہی جاتا ہے۔ ہندی کے معروف اسکالر امرت رائے (19211996)اس کا آغاز اس وقت سے مانتے ہیں جب سے اس کا نا م ’’اردو‘‘ پڑتا ہے، یعنی اٹھارھویں صدی کے نصفِ دوم سے۔ وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ اس سے قبل اردو ’’ہندوی‘‘ اور ’’ہندی‘‘ کے ناموں سے پکاری جاتی تھی۔ (15)
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے، مسعود حسین خاں کے نظریے کی رو سے اردو کے آغاز کی تاریخ مسلمانوں کے فتحِ دہلی (1193)کی تاریخ ہے، کیوں کو اس تاریخ سے عربی و فارسی کے لسانی اثرات زبانِ ’’دہلی و پیرا منش‘‘ میں نفوذ کرتے ہیں۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی عربی و فارسی کے الفاظ یہاں کی بولیوں میں داخل ہونا شروع ہو گئے تھے، لیکن یہ اردو کی پیدائش کا سبب نہیں بنے تھے۔ وہ ’مقدمۂ تا ریخِ زبانِ اردو‘ میں لکھتے ہیں :
’’ہندوستان کی زبانوں میں عربی و فارسی الفاظ کا داخلہ ہی اردو کی تخلیق کی ضمانت نہیں کرتا، بلکہ جب یہ لسانی اثرات زبانِ ’’دہلی و پیرا منش‘‘ میں نفوذ کرتے ہیں تب اردو کا پہلا ہیولیٰ تیار ہوتا ہے، اور یہ ہوتا ہے مسلمانوں کی فتحِ د ہلی (1193)کے بعد۔ ‘‘(16)
عربی و فارسی کے لسانی اثرات کا ’’نفوذ‘‘ دہلی اور نواحِ دہلی کی جس بولی میں سب سے زیادہ ہوا ہے وہ کھڑی بولی ہے، چنانچہ اردو کا خمیر عربی و فارسی عناصر کے ساتھ مل کر کھڑی بولی ہی سے تیار ہوتا ہے اور امیر خسرو کے یہاں پہلی بار اس کا ادبی اظہار ملتا ہے۔ یہی زبان ہریانوی عناصر (بہ قولِ محمود شیرانی پنجابی عناصر) کے ساتھ علاء الدین خلجی کی فوجوں کے ساتھ 1294میں دہلی سے دکن پہنچتی ہے۔ چوں کہ اردو کی اساس کھڑی بولی پر قائم ہے، اس لیے یہ زبان دیوناگری رسمِ خط میں لکھی جانے والی معاصر کھڑی بولی ہندی سے قدیم تر ہے۔ قدیم و جدید اردو کا تمام تر سرمایہ کھڑی بولی پر مشتمل ہے، جب کہ قدیم ہندی کے نمونے کھڑی بولی میں نا یاب ہیں۔
اردو کی ابتدا اور ارتقا کی تاریخ کے بارے میں مسعود حسین خاں ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ میں مزید لکھتے ہیں :
’’پنجاب پر غوریوں کے حملے 1186سے شروع ہو جاتے ہیں۔ 1193میں بالآخر ایک شکست کھانے کے بعد شہاب الدین غوری دہلی کے آخری ہندو سمراٹ پرتھوی راج کو شکستِ فاش دے کر دہلی اور اجمیر پر قابض ہو جاتا ہے جہاں اس کا سپہ سالار قطب الدین ایبک، اس کے انتقال کے بعد 1206میں سلطنتِ غلامان کی داغ بیل ڈالتا ہے۔ اردو کی ابتدا اور ارتقا کی اصل تاریخ اس کے بعد ہی سے شروع ہوتی ہے۔ ‘‘(17)
جیسا کہ مسعود حسین خاں نے ذکر کیا، مسلمانوں کے داخلۂ دہلی کے بعد یہاں ایک نئے سیاسی نظام کا قیام عمل میں آتا ہے جس کے دور رس اثرات یہاں کی بولیوں پر بھی پڑتے ہیں۔ مسلمانوں کی دہلی میں آمد کے وقت جو چار بولیاں دہلی و نواحِ دہلی میں رائج تھیں ان میں سے کھڑی بولی میں آپسی میل جول کی وجہ سے عربی اور فارسی کے الفاظ داخل ہونا شروع ہو جاتے ہیں جس سے یہ بولی چمک اٹھتی ہے۔ نو وارد مسلمان اسے ’’ہندوی‘‘ اور ’’ہندی‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ آگے چل کر یہی زبان ’’اردو‘‘ کہلاتی ہے۔
اب رہا تیسرا سوال کہ اردو کیسے پیدا ہوئی؟ یہ سوال اردو کی پیدائش کے لسانیاتی عمل (Linguistic Process)سے متعلق ہے۔ ہر فطری زبان ایک لسانیاتی عمل کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتی ہے، اور یہ عمل ہے ایک زبان کے بطن سے دوسری زبان کے پیدا ہونے کا۔ اس سلسلے میں یہ دیکھنا لازم ہے کہ جس زبان یا بولی سے یہ نئی زبان نکلی یا پیدا ہوئی ہے وہ کیسی اور کہاں کی بولی تھی؟ اس کے لسانی خصائص (Linguistic Features)کیا تھے، اور تاریخ کے کس موڑ پر اس میں تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوئیں کہ ایک نئی زبان کی تشکیل کا پیش خیمہ بنیں ؟ یہ سارا کام تاریخی و تقابلی لسانیات کے دائرے میں آتا ہے۔ مسعود حسین خاں نے اپنی تصنیف ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ میں اس گتھی کو بھی کہ اردو کیسے پیدا ہوئی، سلجھانے کی کوشش کی ہے۔
اردو کی پیدائش در اصل تاریخ کے ایک مخصوص دور میں شمالی ہند وستان میں رونما ہونے والی لسانی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے، اردو کا تعلق ہند آریائی خاندانِ السنہ سے ہے، لہٰذا مسعود حسین خاں کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ ’’اردو زبان کی تاریخ‘‘وسیع تر معنوں میں ہند آریائی زبان کی تاریخ ہے جسے قدیم ہند آریائی، وسطی ہند آریائی اور جدید ہند آریائی کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ‘‘(18)صورتِ واقعہ یہ ہے کہ قدیم ہند آریائی دور 1500)ق م تا 500ق م )میں شمالی ہندوستان میں شمال مغرب تا مشرق سنسکرت زبان پھلتی پھولتی اور پروان چڑھتی ہے۔ وسطی ہند آریائی دور 500)ق م تا 1000سنہِ عیسوی )میں ان علاقوں میں جہاں جہاں سنسکرت رائج تھی وہاں پراکرتیں اور اپ بھرنشیں رائج ہو جاتی ہیں، اور جدید ہند آریائی دور 1000)سنہِ عیسوی تا حال) میں رفتہ رفتہ جدید ہند آریائی زبانیں ارتقا پذیر ہوتی ہیں اور اپ بھرنشوں کی جگہ لے لیتی ہیں۔ سنسکرت سے پراکرتوں کا پیدا ہونا، اور پراکرتوں سے اپ بھرنشوں کا ارتقا پانا، پھر اپ بھرنشوں سے جدید ہند آریائی زبانوں کا ابھرنا ایک فطری لسانی و تاریخی عمل ہے۔ 1000سنہِ عیسوی تک پہنچتے پہنچتے اب بھرنشیں ختم ہو جاتی ہیں۔ دہلی اور اس کے آس پاس کے علاقوں اورخطوں میں بولی جانے والی اپ بھرنش کا بھی، جو شور سینی اپ بھرنش کہلاتی تھی، خاتمہ ہو جاتا ہے اور اس کے بطن سے چھوٹی چھوٹی بولیوں اور زبانوں کے بیج پھوٹنے لگتے ہیں، چنانچہ گجرات میں گجراتی، راجستھان میں راجستھانی، پنجاب میں پنجابی(مشرقی)، اور دہلی و نواحِ دہلی میں کھڑی بولی، ہریانوی، برج بھاشا، اور میواتی کا ارتقا اسی لسانی تبدیلی اور لسانیاتی عمل کا نتیجہ ہے۔ کھڑی بولی سے اردو کے ’ابھار‘ کا زمانہ بھی یہی ہے۔
اگرچہ برج بھاشا بھی نواحِ دہلی کی ایک بولی ہے، لیکن اردو کا ارتقا برج بھاشا سے نہیں ہوا ہے۔ محمد حسین آزاد (1830-1910)کے اس نظریے کو کہ ’’اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے، ‘‘ مسعود حسین خاں نے ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ میں رَد کر دیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ برج بھاشا کے بعض اسما، افعال، صفات اور ضمیریں مصوتے(Vowel)/او/ یعنی واؤ(و) پر ختم ہوتی ہیں، مثلاً ’ساون آیو، بادر گرجو، پانی برسو‘، یا ’میرو بڑو بیٹو آج دلّی گیو‘ وغیرہ۔ اس کے برخلاف کھڑی بولی کے یہی اسماء، افعال، صفات اور ضمیریں مصوتے /آ/یعنی الف (ا) پر ختم ہوتی ہیں، مثلاً ’ساون آیا (فعل)، بادل گرجا( فعل)، پانی برسا(فعل) یا ’میرا(ضمیر) بڑا (صفت) بیٹا (اسم) آج دِلّی گیا‘(فعل)۔ اردو نے اپنے ارتقا کے کسی بھی دور میں /و/پر ختم ہونے والی شکلیں (-o ending forms)اختیار نہیں کیں۔ اردو کے کھڑی بولی پر مبنی اور مشتمل ہونے کی بنیادی پہچان یہی ہے کہ یہ /آ/ پر ختم ہونے والی (-a ending)بولی ہے۔
اردو کے برج بھاشا سے نکلنے کے نظریے کو کوئی اہمیت حاصل نہ ہوسکی، کیوں کہ یہ نظریہ لسانیاتی تحقیق پر مبنی نہ تھا، بلکہ آزاد نے محض اپنے قیاس کی بنیاد پر ’آب حیات‘ (1880)کے دیباچے میں یہ بات لکھ دی تھی اور ظاہر ہے کہ کسی تحقیق یا تجزیے کے بغیر لکھی تھی۔ (19)انھوں نے اس سلسلے میں نہ تو کوئی دلیل پیش کی تھی اور نہ کوئی ثبوت فراہم کیا تھا۔
اگر ہم اپ بھرنش کے آخری دور کے نمونے، جو مشہور جین عالم ہیم چندر (10881172)کی قواعد ’ہیم چندر شبد انوشاسن‘(1155)میں نقل ہوئے ہیں، دیکھیں تو ہمیں ان میں قدیم کھڑی بولی کی جھلک صاف دکھائی دے گی۔ اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ 1000سنہِ عیسوی کے آس پاس کس طرح یہ اپ بھرنش کھڑی بولی میں متشکل ہوتی جا ءر رہی تھی۔ لسانیاتی عمل کے ذریعے امتدادِ زمانہ کے ساتھ ایک زبان دوسری زبان میں متشکل ہوتی یا دوسری زبان کا روپ اختیار کرتی چلی جاتی ہے، جسے ماہرینِ لسانیات ایک زبان کے بطن سے دوسری زبان کا پیدا ہونا مراد لیتے ہیں، چنانچہ ہر فطری زبان (Natural Language)کسی نہ کسی سابقہ زبان سے پیدا ہوتی یا ارتقا پاتی ہے۔ اس عمل کے بعد وہ سابقہ زبان متروک ہو جاتی ہے اور اصطلاحی معنیٰ میں ’مردہ زبان‘ (Dead Language) قرار دے دی جاتی ہے۔ قدیم الا یام میں دنیا میں بولی جانے والی بے شمار زبانیں آج مردہ ہو چکی ہیں۔ ہمارے سامنے یونانی (Greek)، لاطینی (Latin)، عبرانی (Hebrew)، ہٹائٹ(Hittite)، سنسکرت اور پالی ز بانوں کی مثالیں موجود ہیں جو آج مردہ ہو کر کلاسیکی زبانوں کا درجہ حاصل کر چکی ہیں۔
لسانیاتی عمل کسی زبان کی ساخت (Structure)میں رونما ہونے والی صوتی، صرفی، نحوی اور معنیاتی تبدیلیوں کا عمل ہے، کسی زبان میں جب یہ تبدیلیاں نمایاں طور پر رونما ہو جاتی ہیں تو یہ زبان بدل جاتی ہے۔ یہی بدلی ہوئی زبان نئی یا جدید زبان کہلاتی ہے جو پرانی یا سابقہ زبان سے ہر اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔ لسانیاتی عمل کے ذریعے ہی شمالی ہندوستان میں سنسکرت زبان پراکرت میں متشکل ہوئی، پھر پراکرتوں ہی سے اپ بھرنشیں پیدا ہوئیں، اس کے بعد اپ بھرنشوں نے جدید ہند آریائی زبانوں کو جنم دیا۔ اردو ایک جدید ہند آریائی زبان ہے۔ اس کا لسانی و تاریخی سلسلہ سنسکرت سے جا کر مل جاتا ہے۔ سنسکرت (قدیم ہند آریائی) سے اردو (جدید ہند آریائی) تک کا یہ سفر ڈھائی ہزار سال1500)ق م تا 1000سنہِ عیسوی) میں طے ہوا ہے۔ جیسا کہ مذکور ہوا، 1000سنہِ عیسوی میں اپ بھرنشوں کے خاتمے کے بعد جدید ہند آریائی زبانیں سر اٹھانا شروع کر دیتی ہیں۔ دہلی و نواحِ دہلی کی بولیوں کے طلوع کا زمانہ بھی یہی ہے۔ انھی بولیوں میں بہ قولِ مسعود حسین خاں عربی و فارسی کے لسانی اثرات کے ’’نفوذ‘‘ کر جانے کی وجہ سے اردو معرضِ وجود میں آتی ہے۔ عربی و فارسی کے لسانی اثرات کا نفوذ دہلی و نواحِ دہلی کی جس بولی میں سب سے زیادہ ہوا ہے وہ کھڑی بولی ہے۔
1193میں مسلمانوں کے داخلۂ دہلی سے پہلے وہاں کھڑی بولی موجود تھی۔ کھڑی بولی کی ارتقائی شکل ان شعری نمونوں میں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے جو ہیم چندر کی متذکرہ قواعد میں نقل ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک نمونہ یہاں پیش کیا جاتا ہے:
[ایک راجپوت عورت کہتی ہے]
’’بھَلاّ ہو آجُ ماری آ بہنی مَہارا کنتُ
لَجّے جام تُ وَسِیَّاہُ جَئی بَھگّا گھروانتُ‘‘ (20)
[بھلا ہوا بہن جو میرا کنت (پیارا، سوامی، شوہر) مارا گیا، جو بھاگا گھر آتا تو ویاس یاؤں (ہم عمر سہیلیوں ) میں مجھے لاج آتی۔ ]
بہ قولِ مسعود حسین خاں ’’اس دوہے کا پورا کینڈا قدیم کھڑی [بولی]کا ہے، جس کی قواعد کی شکلیں اس میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ‘‘(21)
شورسینی اپ بھرنش کے آخری دور کے کچھ اور نمونے (جن میں قدیم کھڑی بولی کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے) اس دور کی طویل رزمیہ نظموں میں بھی ملتے ہیں جنھیں ’راسو‘ کہتے ہیں۔ ان میں سب سے مشہور ’’پرتھوی راج راسو‘‘ ہے جس کا مصنف چندر بردائی ہے۔ اس کے علاوہ اپ بھرنش کے آخری دور کے کچھ اور نمونے بدھ سدھوں، ناتھوں اور گورکھ پنتھی جوگیوں سے بھی منسوب ہیں۔ اپ بھرنش کے ان تمام ادبی نمونوں میں مسعود حسین خاں نے اردو کے کھڑی بولی روپ کی نشاندہی کی ہے، اور یہ ثابت کیا ہے کہ مسلمانوں کے داخلۂ دہلی (1193)سے پہلے دہلی و نواحِ دہلی میں کھڑی بولی کا وجود تھا۔
غرض یہ کہ شورسینی اپ بھرنش کا ایک مخصوص عہد میں دہلی کے آس پاس کی بولیوں میں متشکل ہونا اور اس عہد کے سیاسی و سماجی، نیز تہذیبی اسباب کے ماتحت ان بولیوں میں سے کھڑی بولی میں عربی و فارسی کے لسانی اثرات کا نفوذ کر جانا اردو کے آغاز و ارتقا کا لسانیاتی عمل (Linguistic Process)قرار دیا جا سکتا ہے۔ اردو کی اصل و اساس اور اس کا بنیادی ڈھانچا اگرچہ کھڑی بولی کا ہے، لیکن ابتدائی دور میں اردو پر ہریانوی بولی (جو نواحِ دہلی کی ایک بولی ہے) کے اثرات بھی مرتسم ہوئے ہیں جس کا بیّن ثبوت قدیم دکنی اردو کا ادب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسعود حسین خاں نے اردو کے آغاز کے سلسلے میں ابتداء ً یہی نظریہ قائم کیا تھا کہ ’’قدیم اردو کی تشکیل براہِ راست ہریانی کے زیرِ اثر ہوئی ہے، اس پر رفتہ رفتہ کھڑی بولی کے اثرات پڑتے ہیں۔ ‘‘(22)اپنے اس نظریے پر وہ 1987تک قائم رہے، لیکن جب انھوں نے اسی سال (1987)، اپنی تحقیقی تصنیف ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ کا ساتواں ایڈیشن تیار کیا تو اس میں، جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے، ’’تھوڑی سی نظریاتی ترمیم‘‘ کی، اور اردو کی پیدائش کے سلسلے میں ہریانوی کے مقابلے میں کھڑی بولی کو اہمیت، بلکہ اوّلیت دی۔ وہ اس کتاب کے ساتویں ایڈیشن (1987)میں لکھتے ہیں :
’’قدیم اردو کی تشکیل براہِ راست دو آبہ کی کھڑی [بولی]اور جمنا پار کی ہریانوی کے زیرِ اثر ہوئی ہے۔ ‘‘(23)
مسعود حسین خاں تا دمِ آخر آغازِ اردو کے اپنے اِسی نظریے پر قائم رہے۔
نظریۂ عروضی صوتیات
لسانیاتی تحقیق سے متعلق مسعود حسین خاں کا دوسرا علمی میدان نظریۂ عروضی تجز صوتیات (Theory of Prosodic Phonology)ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے قابلِ قدر تحقیقی کارنامہ انجام دیا ہے، اور وہ ہے ’عروضی تجز صوتیات‘(Prosodic Phonology)کے حوالے سے اردو لفظ کا مطالعہ و تجزیہ۔ مسعود حسین خاں پہلے ماہرِ لسانیات ہیں جنھوں نے اردو سے متعلق اس نوع کا صوتیاتی و تجز صوتیاتی مطالعہ و تجزیہ پیش کیا ہے۔
’عروضی تجزصوتیات‘کا تصور سب سے پہلے برطانوی ماہرِ لسانیات جے. آر. فرتھ (1890-1960)نے پیش کیا تھا جن کا تعلق لندن یونیورسٹی کے اسکول آف اورینٹل اینڈ ایفریکن اسٹڈیز کے شعبۂ لسانیات سے تھا۔ مسعود حسین خاں کو قیامِ لندن (1950-51) کے دوران میں جے.آر.فرتھ(J.R. Firth)سے علمی استفادے کا کافی موقع ملا، چنانچہ انھوں نے اپنے ڈی.لٹ(D. Lit.)کے تحقیقی مقالے A Phonetic and Phonological Study of the Word in Urduکی بنیاد فرتھ کے اسی صوتیاتی نظریے پر رکھی، اور انھیں کا طریقِ کار اپنایا، لیکن اس کی تکمیل فرانس میں عمل میں آئی۔ مسعود حسین خاں 1951میں لندن سے پیرس(فرانس) منتقل ہو گئے تھے جہاں دو سال (195153) قیام کر کے انھوں نے پیرس یونیورسٹی سے 1953میں ڈی.لٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ ان کا یہ تحقیقی مقالہ پہلی بار 1954میں شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے انگریزی میں شائع ہوا، جس کی وجہ سے 30سال سے زائد عرصے تک یہ اہلِ اردو کی نظروں سے اوجھل رہا، چنانچہ راقم السطور نے اس کا اردو میں ترجمہ کر کے اسے ’اردو لفظ کا صوتیاتی اور تجز صوتیاتی مطالعہ‘ کے نام سے 1986میں شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے شائع کیا جس سے اردو کے لسانیاتی ادب میں گراں قدر اضافہ ہوا۔ اس ترجمے کو اردو کے علمی حلقوں میں بہ نظرِ تحسین دیکھا گیا۔ خود مسعود حسین خاں نے اسے پسند فرمایا اور راقم السطور کو بھرپور داد دی۔ انھوں نے اس ترجمے کو اپنے مجموعۂ مضامین ’مقالاتِ مسعود ‘ (1989) میں شا مل کیا، اور اس کے دیباچے (’’سخن ہائے گفتنی‘‘) میں اِس کا ذکر اِن الفاظ میں کیا:
’’اردو لفظ کا صوتی و تجز صوتیاتی تجزیہ‘ انگریزی میں لکھا گیا تھا جس کا نہایت عمدہ ترجمہ میرے فاضل شاگرد ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ نے کیا ہے۔ یہ کسی دوسرے کے بس کی بات نہ تھی۔ ‘‘(24)
کمال احمد صدیقی (19262013)نے اپنے ایک مضمون میں اس ترجمے کے بارے میں لکھا کہ ’’ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ نے اس کا مثالی ترجمہ کیا ہے۔ انگریزی مونوگراف …بہت پہلے پڑھا تھا، اب ترجمہ دیکھا جو اصل کی اہمیت رکھتا ہے۔ ‘‘(25)
عروضی صوتیات(26) سے متعلق مسعود حسین خاں کے اس علمی و تحقیقی کام کے بارے میں یہ عرض کر دینا ضروری ہے کہ یہاں ’عروض‘(Prosody)سے ان کی مراد شعری عروض نہیں ہے، بلکہ یہ ایک صوتیاتی اصطلاح ہے جس سے وہ ’صوتیاتی قوس‘ مراد لیتے ہیں جو صوت رکن(Syllable)، لفظ یا جملے پر پھیلی ہوتی ہے۔ عروضی صوتیات میں دو طرح کے عناصر کا بیان ہوتا ہے:
-1 صوتی اکائیاں (Phonetic Units)، یعنی مصوتے (Vowels)، اور مصمتے(Consonants)۔
-2 عروضیات(Prosodies)، یعنی وہ خصوصیات مثلاً سُر لہر(Intonation)، تان (Tone)، طول(Length)، زور(Stress)؛ نیز معکوسیت (Retroflexion)، مسموعیت اور غیر مسموعیت (Voicing and Unvoicing)، انفیت (Nasalization)، وغیرہ جو صوتی اکائیوں (مصوتوں اور مصمتوں ) پر بہ صورتِ ’قوس‘ پھیلی ہوتی ہیں۔
صوتی اکائیوں اور عروضیات میں بنیادی فرق یہ ہے کہ صوتی اکائیاں سلسلہ وار ترتیب دی جا سکتی ہیں، مثلاً پ+ا+ن+ی= ’پانی‘ جس میں دو مصوتے (ا، ی)اور دو مصمتے (پ، ن) شامل ہیں۔ عروضیات یا عروضی خصوصیات صوتی اکائیوں (مصوتوں اور مصمتوں ) پر مشتمل نہیں ہوتیں، بلکہ ایک سے زائد صوتی اکائیوں پر ’قوس‘کی مانند افقی طور پر (Syntagmatically)پھیلی ہوتی ہیں۔ صوتی اکائیوں کو سلسلہ وار ترتیب دینے سے صوت رکن اور لفظ بنتے ہیں اور لفظوں کو ترتیب دینے سے جملوں کی تشکیل عمل میں آتی ہے۔ عروضی خصوصیات، صوت رکن، لفظ اور جملے تینوں پر محیط ہوتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’عروض‘ کا حلقۂ اثر کوئی صوت رکن یا لفظ بھی ہوسکتا ہے، یا کوئی فقرہ یا جملہ بھی، مثلاً’ سُر لہر‘ (Intonation)کا تعلق فقرے یا جملے کی عروضیات سے ہے۔ اسی طرح ’تان‘ (Tone)، ’طول‘(Length)اور ’زور‘(Stress)کا تعلق صوت رکن (Syllable)کی عروضیات ہے۔
مسعود حسین خاں نے متذکرہ تحقیقی مقالے میں سب سے پہلے ’لفظ‘ کی تعریف اور اس کی حد بندی سے بحث کی ہے، پھر ’صوت رکن‘ کی ساخت پر روشنی ڈالی ہے۔ اس کے بعد اردو الفاظ میں ’انفیت‘(Nasalization)اور ’معکوسیت‘ (Retroflexion) کے مسائل سے بحث کرتے ہوئے ’کمّیت‘ اور ’مربوطیے‘ کی عروضیات(Prosodies of Quantity and Juncture)کا مطالعہ پیش کیا ہے۔ انھوں نے بعض دوسری عروضیات(Prosodies)، مثلاً ’مصوتی تسلسل‘(Vowel Sequence)، ’بین مصوتی تداخل‘(Anaptyxis)، ’ تشدید‘(Gemination)، ’ہائیت‘(Aspiration)، اور ’مسموعیت‘ اور’ غیر مسموعیت‘(Voicing and Unvoicing)سے بھی کافی تفصیل اور باریک بینی کے ساتھ بحث کی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ’عروض‘(Prosody)کا تصور اگرچہ مسعود حسین خاں نے فرتھ سے لیا ہے، لیکن اردو کے تعلق سے اس نظریے میں انھوں نے جو جامعیت اور وسعت پیدا کی ہے وہ ان کا اپنا کارنامہ ہے۔ یہ امرِ واقعہ ہے کہ اردو لفظوں کا اس نقطۂ نظر سے اتنا ہمہ گیر مطالعہ اور اس اعلیٰ معیار کا تجزیہ آج تک کسی عالم نے پیش نہیں کیا۔
اردو صوتیوں کا تعین اور ان کی درجہ بندی
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے، مسعود حسین خاں نے لسانیاتِ جدید کی اعلیٰ تربیت یورپ (انگلستان اور فرانس) میں رہ کر حاصل کی تھی اور 1953میں وہاں سے وطن واپسی پر لسانیاتی مطالعہ و تحقیق میں مصروف ہو گئے تھے۔ اب ان کی دل چسپی کا میدان توضیحی لسانیات بالخصوص ’صوتیات‘ (Phonetics)تھا جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ چنانچہ عروضی صوتیات کے علاوہ انھوں نے اردو صوتیات کے دیگر پہلوؤں کی جانب بھی اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔
مسعود حسین خاں غالباً پہلے ماہرِ لسانیات ہیں جنھوں نے معیاری اردو کے صوتیوں (Phonemes)کا تعین کیا اور بین الاقوامی انجمنِ صوتیات (International Phonetic Association=IPA)کی طرز پر اردو صوتیوں کی درجہ بندی پیش کی۔ یہ وہ دور تھا جب لسانیات سے لوگوں کی واقفیت محض برائے نام تھی اور اردو میں لسانیاتی ادب کا کوئی وجود نہ تھا۔ مسعود حسین خاں سے قبل سید محی الدین قادری زور(19051962) نے یورپ جا کر لسانیاتِ جدید (Modern Linguistics)کی تربیت ضرور حاصل کی تھی، اور لسانیاتی موضوع پر دو گراں قدر کتابیں بھی شائع کی تھیں، (27)لیکن انھوں نے یورپ سے واپسی کے بعد لسانیاتی مطالعہ و تحقیق کی جانب خاطر خواہ توجہ مبذول نہ کی اور خود کو دکنیات کے لیے وقف کر دیا۔ مسعود حسین خاں نے یورپ سے واپسی کے بعد لسانیات سے اپنی دل چسپی برقرار رکھی اور اس موضوع پر ہمیشہ کچھ نہ کچھ لکھتے اور شائع کراتے رہے۔ انھوں نے لسانیات کی درس و تدریس میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ لسانیات کے پروفیسر اور بانی صدر (Founder Chairman)کے عہدے پر فائز ہوئے اور وہیں سے سبک دوش ہوئے۔
مسعود حسین خاں نے اردو صوتیوں کا تعین اور ان کی درجہ بندی (Classification) اپنے ایک ابتدائی دور کے مضمون’’اردو حروفِ تہجی کی صوتیاتی ترتیب‘‘ میں پیش کی ہے جو ان کے مجموعۂ مضامین ’اردو زبان اور ادب‘(1954) میں شامل ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جس زمانے میں مسعود حسین خاں نے لسانیات و صوتیات کے موضوع پر اردو میں لکھنا شروع کیا تھا، اس وقت لسانیات بالخصوص صوتیات کی اصطلاحیں اردو میں نہ ہونے کے برابر تھیں، چنانچہ انھوں نے عربی اور فا رسی کی مدد سے یہ اصطلاحیں خود وضع کیں جن میں سے بیشتر آج بھی رائج ہیں۔
مسعود حسین خاں نے متذکرہ مضمون کی اشاعت کے چند سال بعد اردو صوتیات سے متعلق ایک اور مضمون بہ عنوان ’’اردو صوتیات کا خاکہ‘‘ قلم بند کیا تھا جس میں اردو صوتیوں کی درجہ بندی کے علاوہ بعض دیگر صوتیاتی مسائل سے بھی بحث کی گئی ہے۔ یہ مضمون ان کے مجموعۂ مضامین ’مقدماتِ شعر و زبان‘(1966)میں شامل ہے۔
یہاں اس امر کا ذکر بے جا نہ ہو گا کہ ’صوتیہ‘(Phoneme)کسی زبان کی ’ممیز آواز‘ (Distinctive Sound Unit)کو کہتے ہیں جس کی تبدیلی سے معنی میں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے، مثلاً:
/پانی/ ‘water’، اور
/بانی/ ‘founder’
یہاں /پانی/کی /پ/کو/ ب/ سے بدل دینے پر ایک دوسرا بامعنی لفظ/بانی/ تشکیل پاتا ہے۔ معنی کی یہ تبدیلی صرف /پ/ کی /ب/ سے تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، ورنہ بقیہ آوازیں یعنی ’انی‘ تو دونوں الفاظ میں یکساں ہیں۔ صوتیاتی تجزیے میں دو یکساں عناصر سے معنی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ معنی میں تبدیلی کے لیے تخالفی عناصر (Contrastive Elements)کا ہونا لا زمی ہے۔ /پانی/ اور /بانی/ میں /پ/ اور /ب/ کی آوازیں تخالفی عناصر کا درجہ رکھتی ہیں، اسی لیے یہ دو ممیز آوازیں کہلاتی ہیں، جنھیں لسانیاتی اصطلاح میں ’صوتیہ‘ کہتے ہیں۔ /پانی/ اور /بانی/ میں پائی جانے والی ابتدائی دونوں آوازیں /پ/ اور /ب/ اردو زبان کے دو صوتیے ہیں۔ اسی طرح /بالو/ ‘sand’، اور /بھالو/’bear’میں /ب/اور /بھ/ دو اردو صوتیے ہیں، نیز /اَب/’now’، اور /آب/’water’میں /اَ/اور/ آ/کی ابتدائی آوازیں دو اردو صوتیوں کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہ دونوں صوتیے مصوتے (Vowels)ہیں۔ ہر زبان میں صوتیوں کی تعداد محدود ہوتی ہے۔ انھی محدود صوتیوں کی مدد سے متعلقہ زبان کے لامحدود الفاظ ترتیب دیے جا سکتے ہیں۔ مسعود حسین خاں نے معیاری اردو کے صوتیاتی تجزیے کے بعد، اس ز بان کے 47صوتیوں کا تعین کیا ہے جن میں سے 37مصمتے (Consonants)، اور 10مصوتے (Vowels)ہیں۔ تکلمی سطح پر انھی صوتیوں (مصمتوں اور مصوتوں ) کے امتزاج سے لفظ بنتے ہیں اور لفظوں سے فقرے اور جملے تشکیل پاتے ہیں۔
مسعود حسین خاں نے اردو زبان کے صوتیوں کا تعین کرتے وقت جن امور یا اصولوں کو پیشِ نظر رکھا ہے وہ یہ ہیں :
1 ایک آواز یا صوتیے (Phoneme)کے لیے ایک ہی علامت کا استعمال–
2 مصمتوں کی ’مسموع‘(Voiced)اور ’غیر مسموع‘(Voiceless) آوازوں میں تقسیم۔
3 ’بندشی آوازوں ‘(Stop Sounds)کی ’ہائیہ‘ (Aspirated)اور ’غیر ہائیہ ‘(Unaspirated)آوازوں میں تقسیم۔
4 دس غیر ہائیہ بندشی آوازوں (Unaspirated Stop Sounds)یعنی /پ، ب، ت، د، ٹ، ڈ، چ، ج، ک، گ/ میں سے ہر ایک کی ’ہائیہ‘(Aspirated) شکلوں کا تعین، یعنی علی الترتیب/ پھ، بھ، تھ، دھ، ٹھ، ڈھ، چھ، جھ، کھ، گھ/ کا تعین – علاوہ ازیں غیر ہائیہ معکوسی آواز (Unaspirated Retroflex Sound)، یعنی /ڑ/کی بھی ’ہائیہ‘(Aspirated)شکل، یعنی /ڑھ/ کا تعین۔
5 ہائیہ آوازوں (Aspirates)کی تشکیل کے لیے ’ہائے مخلوط‘(دو چشمی ’’ھ‘‘) کا استعمال، یعنی پھ، بھ، تھ، دھ، وغیرہ۔ صوتی اعتبار سے یہ ’’علاحدہ اور مستقل آوازیں ‘‘ ہیں، اور منفرد صوتیوں (Separate Phonemes)کا درجہ رکھتی ہیں۔
6 اردو میں مستعمل آٹھ عربی حروف، یعنی ث، ص، ذ، ض، ظ، ح، ط، اور ع کی اردو کے صوتیاتی جدول (Phonetic Chart)میں عدم شمولیت کہ اردو میں ان کی حیثیت صوتیوں (Phonemes)کی نہیں، بلکہ محض حروف(Letters)، یعنی تحریری شکلوں کی ہے۔ مسعود حسین خاں نے انھیں ’’عربی کی دوہری آوازیں ‘‘ کہا ہے، کیوں کہ اردو میں ث، ص، کے لیے /س/کی آواز؛ ذ، ض، ظ کے لیے /ز/ کی آواز ؛ ط کے لیے /ت/ کی آواز)؛ ح کے لیے /ہ/ کی آواز، اور ع کے لیے الف /ا/ کی آواز موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ حروف اردو میں فاضل (Redundant)تصور کیے جاتے ہیں۔ مسعود حسین خاں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’صوتی نقطۂ نظر سے یہ سب مُردہ لاشیں ہیں جسے اردو رسمِ خط اٹھائے ہوئے ہے، صرف اس لیے کہ ہمارا لسانی رشتہ عربی سے ثابت رہے۔ ‘‘(28)
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کسی زبان کے صوتیے کا تعین کرتے وقت ماہرینِ لسانیات اس زبان کے الفاظ کے اقلی جوڑے (Minimal Pair of Words)تلاش کرتے ہیں۔ الفاظ کے اقلی جوڑوں سے مراد وہ دو الفاظ ہیں جن میں صرف ایک آواز کا فرق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر یہ دیکھنا ہو کہ /ڑھ/ کی آواز اردو میں ’صوتیہ‘ ہے یا نہیں، تو سب سے پہلے ہمیں اردو کا ایک ایسا لفظ ڈھونڈنا ہو گا جس کی تین حالتوں (ابتدائی، درمیانی، آخری) میں سے کسی بھی ایک حالت میں /ڑھ/ کا استعمال ہوا ہو۔ پھر اس لفظ کے اقلی جوڑے (Minimal Pair)کو تلاش کرنا ہو گا جس میں /ڑھ/تخالفی کردار (Contrastive Role)ادا کرتا ہو۔ اگر کوئی ایسا جوڑا مل جائے جسے اقلی لفظی جوڑا کہہ سکیں، یعنی جس میں اسی حالت میں صرف ایک آواز کا فرق ہو اور جس کی وجہ سے معنی میں تبدیلی پیدا ہو جائے تو /ڑھ/ کو اردو کا صوتیہ قرار دیا جا سکے گا۔ درجِ ذیل مثال میں /ڑھ/ اقلی لفظی جوڑے میں درمیانی حالت میں واقع ہوکر /ڑ/کے ساتھ تخالفی کردار ادا کر رہا ہے، اس لیے /ڑھ/کو اردو زبان کا ایک منفرد صوتیہ(Separate Phoneme)قرار دیا جا سکتا ہے، مثلاً:
/بڑائی/’greatness’
/بڑھائی/’lengthened’
(ع، جنابِ شیخ نے داڑھی بڑھائی، سَن کی سی)
واضح رہے کہ صوتیوں کے تعین کے لیے دونوں آوازوں کا ایک ہی حالت میں (خواہ وہ ابتدائی حالت ہو یا درمیانی یا آخری) پایا جانا لازمی ہے۔ اگر ان میں سے کوئی شرط پوری نہ ہوئی تو وہ آواز ’صوتیہ‘ نہیں کہلائے گی۔ صوتیے کو ترچھی لکیروں (Slant Lines) کے درمیان میں رکھا جاتا ہے جسے صوتیاتی اصطلاح میں ‘Phonemic Notation’ کہتے ہیں، مثلاً / /، چنانچہ اس علامت کے اندر جو بھی آواز رکھی جائے گی وہ ’صوتیہ‘ کہلائے گی، جیسے کہ /ڑ/، /ڑھ/، وغیرہ۔
مسعود حسین خاں نے صوتیوں کے تعین (Identification of Phonemes) کے اس مرحلے سے گذرنے کے بعد ہی اردو کے 47صوتیوں (ممیز آوازوں ) کا تعین کیا ہے جن میں 37مصمتے اور 10مصوتے شامل ہیں۔ مصمتوں کی درجہ بندی انھوں نے بین الاقوامی انجمنِ صوتیات (IPA)کی طرز پر افقی(Horizontal)اور عمودی(Vertical)رکھی ہے۔ افقی درجہ بندی میں مصمتوں کو مخارج(Points of Articulation)کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے اور عمودی درجہ بندی میں طرزِ ادائیگی(Manner of Articulation) کے اعتبار سے، اور جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے، انھوں نے بندشی آوازوں (بہ استثنائے /ق/) کو ہائیہ اور غیر ہائیہ، اور مسموع اور غیر مسموع آوازوں میں بھی تقسیم کیا ہے۔ ان کے صوتیاتی جدول(29) کو یہاں من و عن پیش کیا جاتا ہے:
اردو کے مصمتے
دو لبی |
دندانی |
معکوسی |
حنکی |
غشائی |
لہاتی |
||
بندشی |
غیر مسموع |
پ |
ت |
ٹ |
چ |
ک |
ق |
(اسپھوٹ) |
ہاکاری |
پھ |
تھ |
ٹھ |
چھ |
کھ |
|
مسموع |
ب |
د |
ڈ |
ج |
گ |
||
ہاکاری |
بھ |
دھ |
ڈھ |
جھ |
گھ |
||
انفی(ناک کی) |
مسموع |
م |
ن |
||||
چستانی |
غیر مسموع |
ف |
س |
ش |
خ |
ہ |
|
( صفیری) |
مسموع |
و |
ز |
(ژ) |
غ |
||
تالیکا |
مسموع |
ر |
|||||
پہلوئی |
مسموع |
ل |
|||||
تھپک دا ر |
مسموع |
ڑ |
|||||
مسموع(ہاکار) |
ڑھ |
||||||
نیم مصوتہ |
ی |
جہاں تک کہ اردو مصوتوں (Vowels)کا تعلق ہے، مسعود حسین خاں نے ان کی تعداد 10بتائی ہے۔ ان کے خیال کے مطابق اردو کے تمام مصوتے ہند آریائی ہیں اور تعداد و نوعیت کے اعتبار سے فارسی اور عربی کے مصوتوں سے کافی مختلف ہیں۔ انھوں نے اردو کے جو 10مصوتے متعین کیے ہیں وہ یہ ہیں :(30)
اردو کے مصوتے
اردو رسمِ خط |
دیوناگری رسمِ خط |
مثالیں |
|
َ |
(اَ) |
अ |
اَکبر/بَرکت |
ا |
(آ) |
आ |
آفتاب/رات |
ِ |
(اِ) |
इ |
اِتنا/کِتنا |
یٖ |
(اِی) |
ई |
اِیکھ/نیٖند) |
ُ |
(اُ) |
उ |
اُتنا/رُکنا |
وٗ |
(اوٗ) |
ऊ |
اوٗن/خوٗن |
ے |
(اِے) |
ए |
اِیکا/ٹھیکا |
ے َ |
(اَے) |
ऐ |
اَیسا/پَیسہ |
ُ و |
(اُو) |
ओ |
اُولا/کھُولا |
َ و |
(اَو) |
औ |
اَوندھا/کھَولا |
مذکورہ دس مصوتوں میں آٹھ ’خالص مصوتے ‘(Pure Vowels)ہیں اور دو ’دوہرے مصوتے‘(Diphthongs)۔ دوہرے مصوتے یہ ہیں : اَے اور اَو اردو مصوتوں کو اردو رسمِ خط میں ظاہر کرنے کے لیے تین حروفِ علت (ا، و، ی)، اور تین اعراب (زیر، زبر، پیش) کا استعمال کیا جاتا ہے۔ بقیہ چار مصوتے (بہ شمولِ دوہرے مصوتے) انھی سے مرکب شکلوں سے ظاہر کیے جاتے ہیں۔
دیگر لسانیاتی مسائل
مسعود حسین خاں نے اردو مصوتوں اور مصمتوں کے تعین اور ان کی درجہ بندی کے علاوہ اردو کے حوالے سے بعض دیگر صوتیاتی مسائل سے بھی بحث کی ہے، جن میں انفی آوازوں، کو ز آوازوں، مصمتوں کی ہاکاریت، مصمتوں اور مصوتوں کی کمیت اور مصمتی خوشوں کی خصوصیات شامل ہیں جن پر ذیل میں روشنی ڈالی جاتی ہے:
مسعودحسین خاں کے تجزیے کے مطابق اردو میں دو انفی مصمتے (Nasal Consonants)پائے جاتے ہیں جو /م/ اور /ن/ہیں، لیکن اردو کے تمام مصوتے انفیائے، یعنی Nasalizedکیے جا سکتے ہیں، مثلاً باٹ /بانٹ، مَے/مَیں، گئی/ گئیں، تھی/تھیں، وغیرہ۔ اردو میں انفیت (Nasalization)ممیز (Distinctive)ہے، یعنی اس کی وجہ سے معنی میں تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔ انفی آوازوں کے سلسلے میں مسعود حسین خاں نے ایک صوتیاتی نکتہ یہ پیش کیا ہے کہ /ن/کی آواز جب کسی دوسرے مصمتے سے قبل واقع ہوتی ہے تو ہم آہنگ (Homorganic)ہو جاتی ہے، مثلاً (1 ن/ب: انبہ، (2 ن/ت: سنت، (3 ن/د : اندازہ، (4 ن/ڈ: انڈا، (5 ن/ج: رنج، (6 ن/گ: رنگ، وغیرہ۔ لیکن جب یہی /ن/ کی آواز /ق/ کے ساتھ واقع ہوتی ہے تو ہم آہنگ نہیں ہوتی، مثلاً ن/ق: انقلاب، انقسام، انقباض، وغیرہ۔ /ک/کی آواز کے ساتھ حسبِ ذیل مستثنیات پائی جاتی ہیں : انکار، انکسار، انکشاف، وغیرہ۔
مسعودحسین خاں کے تجزیے کی رو سے اردو کی کوزیا معکوسی آوازیں (Retroflex Sounds)چھے ہیں : ٹ، ٹھ، ڈ، ڈھ، ڑ، ڑھ۔ اردو میں ٹ، ٹھ کی آوازیں لفظ کی تینوں حالتوں (ابتدائی، درمیانی، آخری) میں پائی جاتی ہیں۔ بقیہ چار معکوسی آوازوں (ڈ، ڈھ، ڑ، ڑھ) کی لفظ کی ابتدائی، درمیانی اور آخری حالتوں میں تقسیم انھوں نے خالص توضیحی انداز میں بیان کی ہے جس کے مطابق /ڈ/ اور/ ڈھ/ کی آوازیں صرف لفظ کی ابتدائی حالت میں، /ڈّ/کی آواز مشدد شکل میں صرف درمیانی حالت میں، اور /نڈ/ کی آواز انفی شکل میں صرف لفظ کی درمیانی اور آخری حالتوں میں واقع ہوتی ہے۔ اسی طرح /ڑ/اور /ڑھ /کی آواز یں درمیانی اور آخری حالتوں میں واقع ہوتی ہیں۔ /نڑھ/کی آواز انفی شکل میں صرف لفظ کی آخری حالت میں واقع ہوتی ہے۔ /ڑّ/کی آواز مشدد شکل میں لفظ کی کسی بھی حالت میں واقع نہیں ہوتی۔ /ڑ/ اور /ڑھ/کی آوازیں ابتدائی حالت میں اردو کے کسی لفظ میں نہیں پائی جاتیں۔ اسی طرح/ڈّ/مشدّد اور /نڈ/ انفی کی آوازیں بھی لفظ کی ابتدائی حالت میں مفقود ہیں۔ علاوہ ازیں /نڑھ/انفی شکل میں لفظ کی ابتدائی اور درمیانی حالتوں میں مفقود ہے۔ اردو کے صوتی نظام میں معکوسی آوازوں (ڈ، ڈھ، ڑ، ڑھ) کی تقسیم کو مسعود حسین خاں نے ذیل کے جدول کے ذریعے بھی پیش ک یا ہے۔ ( دیکھیے ’مقدمات شعر و زبان‘، ص 257):
لفظوں کی ابتدا میں |
لفظوں کے درمیان میں |
لفظوں کے آخر میں |
|
ڈ |
ü |
× |
× |
ڈھ |
ü |
× |
× |
ڈّ(مشدّد) |
× |
ü |
× |
نڈ(انفی) |
× |
ü |
ü |
ڑ |
× |
ü |
ü |
ڑّ (مشدّد) |
× |
× |
× |
ڑھ |
× |
ü |
ü |
نڑھ (انفی |
× |
× |
ü |
مسعودد حسین خاں نے اردو کے ہاکاری( نفسی) مصمتوں (Aspirates) کی تعداد 11بتائی ہے جن میں 10بندشی آوازیں (Stop Sounds)ہیں اور ایک تھپک دار(Flapped):
-1 بندشی غیر مسموع: پھ تھ ٹھ چھ کھ
-2 بندشی مسموع : بھ دھ ڈھ جھ گھ
-3 تھپک دار مسموع: ڑھ
اردو کے صوتی نظام میں مذکورہ آوازوں کو صوتیوں (Phonemes)کا درجہ حاصل ہے۔ ان کے علاوہ لھ، مھ، نھ، وھ، اور ر ھ کی نشان دہی بھی مسعود حسین خاں نے کی ہے۔ یہ بھی ہاکار آوازیں ہیں لیکن انھیں صوتیوں کا درجہ حاصل نہیں، کیوں کہ بہ قولِ مسعود حسین خاں یہ ’’ممیز نہیں ہیں۔ ‘‘ علاوہ ازیں ان کا استعمال بہت کم الفاظ میں ہوتا ہے۔
مسعود حسین خاں نے اردو مصوتوں کی کمیت (Quantity)سے بھی بحث کی ہے جو ان کی صوتیاتی بصیرت کی دلیل ہے۔ اس سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اردو صوتیات کا کتنی گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ ان کا یہ مشاہدہ لائقِ ستائش ہے کہ اگرچہ مصوتے /اَ/یعنی’Shwa’ کا طول، مصوتے /آ/یعنی / a/سے کم ہے، لیکن یہ دونوں ایک دوسرے کی چھوٹی بڑی شکلیں نہیں۔ صوتیاتی اعتبار سے /اَ/ایک درمیانی وسطی مصوتہ (Central Vowel) ہے، اور (آ) ایک زیریں عقبی مصوتہ(Low Back Vowel) ہے۔ ان کا یہ مشاہدہ بھی کچھ کم اہمیت کا حامل نہیں کہ اردو مصوتے کی لمبائی اس وقت بڑھ جاتی ہے جب بعد میں آنے والا مصمتہ مسموع(Voiced) ہوتا ہے، اور اس وقت کم ہو جا تی ہے جب اس کے بعد کا مصمتہ غیر مسموع (Voiceless)ہوتا ہے، مثلاً آب:آپ۔ ان میں /ب/ایک مسموع اور /پ/ ایک غیر مسموع مصمتہ ہے۔
مصمتی خوشے (Consonant Cluster)کے با رے میں مسعود حسین خاں کا خیال ہے کہ یہ ’’صوتیات کے عام رجحان کے خلاف ہے، ‘‘ کیوں کہ عام بول چال میں مصمتی خوشے اکثر توڑ دیے جاتے ہیں۔ اردو میں یہ لفظ کی ابتدا میں بھی آتے ہیں اور خاتمے پر بھی، جب کہ ان کے بہ قول ’’خاتمے کے خوشے کا اردو احترام کرتی ہے، ‘‘ مثلاً تَخْت، مُفْت، ذِکْر، وَقْت، وغیرہ۔
٭٭
حواشی
1 دیکھیے مسعود حسین خاں، ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘، ساتواں ایڈیشن(علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، (1987، ’’پیش لفظ‘‘۔ [طبعِ اوّل ]1948
2 سید سلیمان ندوی، ’نقوشِ سلیمانی‘ (اعظم گڑھ: دارالمصنّفین، (1939، ص31۔
3 تاریخ سے ثابت ہے کہ حجاج بن یوسف کے دورِ اقتدار کے خاتمے کے بعد جب محمد بن قاسم کا قتل ہوا تو اس وقت اس کی عمر محض 20برس تھی۔ محمد بن قاسم حجاج بن یوسف کا بھتیجا تھا۔ حجاج بن یوسف بنو امیہ کے عہدِ خلافت میں ایک اہم انتظامی عہدے پر فائز تھا۔
4 حافظ محمود خاں شیرانی، ’پنجاب میں اردو‘ (لکھنؤ: نسیم بک ڈپو، (1970، ص99۔ [طبعِ اوّل ]1928
5 ایضاً، ص19۔
6 مسعود حسین خاں، محولۂ بالا کتاب، ’’پیش لفظ‘‘۔
7 ٹی.گریہم بیلی (T. Grahame Bailey)، A History of Urdu Literature(لندن، 1932)، ص7۔
8 ایضاً، ص78۔
9 گریہم بیلی نے اپنی کتاب A History of Urdu Literature (1932)کے”Preface” کے آخری پیراگراف میں محی الدین قادری [زور]کو اپنا شاگرد بتایا ہے اور اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ متذکرہ کتاب کی تمام تر پروف خوانی کا کام انھوں نے ہی انجام دیا اور قیمتی مشورے دیے۔ بیلی کے الفاظ یہ ہیں :
“I wish to express my thanks to an old student of my own, Dr. Mohiuddin Qadri of the Osmaniya University, for having read all the proofs of the volume and made valuable suggestions.”
10 سید محی الدین قادری زور، ’ہندوستانی لسانیات‘ (لکھنو: نسیم بک ڈپو، (1960، ص 9495۔ [طبعِ اول، [1932
11 مسعود حسین خاں، ’’اردو زبان: تاریخ، تقدیر، تشکیل‘‘، خطبۂ ایمے ریٹس پروفیسر(علی گڑھ : شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، (1988، ص5۔ [یہ خطبہ پروفیسر مسعود حسین خاں نے 13جنوری 1988کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی فیکلٹی آف آرٹس میں دیا تھا جس کی صدارت سید ہاشم علی (وائس چانسلر) نے فرمائی تھی۔ ]
12 مسعود حسین خاں، محولۂ بالا کتاب، ص 236۔
13 ایضاً، ’’پیش لفظ‘‘۔
14 حافظ محمود خاں شیرانی، محولۂ بالا کتاب، ص54۔
15 دیکھیے امرت رائے کی کتاب A House Divided: The Origin and Development of Hindi / Hindavi (نئی دہلی: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 1984)۔
16 مسعود حسین خاں، محولۂ بالا کتاب، ص 78۔
17 ایضاً، ص 7778۔
18 ایضاً، ص71۔
19 دیکھیے محمد حسین آزاد کا یہ قول: ’’اتنی بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہماری اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے اور برج بھاشا خاص ہندوستانی زبان ہے۔ ‘‘ (’آبِ حیات‘، ص13)۔
20 منقول از سنیتی کمار چٹرجی، Indo-Aryan and Hindi(کلکتہ: فرما کے. ایل. مکھوپادھیائے، (1960، ص183۔ [طبعِ اول،][1942
21 مسعود حسین خاں، محولۂ بالا کتاب، ص 73۔
22 ایضاً، ص 241(چوتھا ایڈیشن، 1970)۔
23 ایضاً، ص 236(ساتواں ایڈیشن، 1987)۔
24 مسعود حسین خاں، ’مقالاتِ مسعود‘ (نئی دہلی: ترقیِ اردو بیورو، (1989، ص7۔
25 کمال احمد صدیقی، ’’اردو اور مسعود حسین خاں کی خدمات‘‘، مطبوعہ ماہنامہ ’کتاب نما‘ (نئی دہلی)، جلد 32، شمارہ 10، بابت اکتوبر [1992خصوصی شمارہ: ’’پروفیسر مسعود حسین خاں -علمی، لسانی اور ادبی خدمات‘‘، مرتبہ ایم. حبیب خاں، ص]13۔
26 عروضی تجز صوتیات کو اکثر عروضی صوتیات بھی کہہ دیتے ہیں۔ اردو کے لسانیاتی ادب میں ’تجزصوتیات‘ کی اصطلاح Phonologyکے لیے استعمال کی جاتی ہے، جب کہ Phoneticsکے لیے ’صوتیات‘ کی اصطلاح رائج ہے۔
27 ان کتابوں کے نام ہیں ’ہندستانی فونے ٹکس‘(1930)، اور ’ہندستانی لسانیات‘ (1932)۔
28 مسعود حسین خاں، ’’اردو صوتیات کا خاکہ‘‘، مشمولہ ’مقدماتِ شعر و زبان‘ (حیدرآباد: شعبۂ اردو، عثمانیہ یونیورسٹی، (1966، ص252۔
29 ایضاً، ص 251۔
30 دیکھیے مسعود حسین خاں کا مضمون ’’اردو حروفِ تہجی کی صوتیاتی ترتیب‘‘، مشمولہ ’اردو زبان اور ادب‘ (1983)، ص17677، اور ’مقدماتِ شعر و زبان‘، ص 24648۔