خاندان اور وطن
مسعود حسین خاں (1919-2010)اتر پردیش کے ضلع فرخ آباد میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے قائم گنج کے ایک متمول اور ذی علم پٹھان گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے مورثِ اعلیٰ حسین خاں کا وطن شمال مغربی سرحدی صوبہ (موجودہ پاکستانی صوبہ خیبر پختون خوا) میں واقع ایک مقام تیراہ (کوہاٹ کے شمال کا آزاد قبائلی علاقہ) تھا جہاں آفریدی پٹھان آباد تھے۔ حسین خاں ’’تلاشِ معاش میں ‘‘ اپنے آبائی وطن کی سکونت ترک کر کے 1715کے لگ بھگ قائم گنج میں آ کر آباد ہو گئے تھے۔ (1)یہ ایک نو آباد قصبہ تھا جسے محمد خاں بنگش نے، جو فرخ آباد کے نوابینِ بنگش خاندان کا بانی تھا، 1713میں اپنے بیٹے قائم خاں کے نام پر آباد کیا تھا۔ حسین خاں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ’’پٹھانوں کے معلم، مرشد اور صوفیِ با صفا‘‘ تھے۔ وہ ’مد آخون‘(بڑے استاد) کے لقب سے مشہور تھے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی درس و تدریس اور معلمی کے پیشے میں گزار دی اور طویل عمر (تقریباً سو سال سے زائد) پاکر فوت ہوئے۔ ان کے بیٹے احمد حسین خاں، پوتے محمد حسین خاں اور پڑ پوتے غلام حسین خاں نے ذریعۂ معاش کے طور پر پیشۂ سپہ گری اختیار کیا۔ غلام حسین خاں (جنھیں عرفِ عام میں جھمّن خاں کہتے تھے) مسعود حسین خاں کے پردادا تھے۔ انھوں نے حیدرآباد (دکن) جا کر فوجی ملازمت اختیار کی، لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اپنے وطن قائم گنج واپس آ گئے۔ وہیں انھوں نے اپنی کاشت اور باغات کی دیکھ بھال میں باقی ماندہ زندگی گزار دی۔ (2)
غلام حسین خاں کے چھوٹے بیٹے فدا حسین خاں نے، جو مسعود حسین خاں کے دادا تھے، اپنی راہ الگ نکالی۔ انھوں نے پیشۂ سپہ گری اختیار کرنے کے بجائے حیدرآباد (دکن) جا کر وکالت کا امتحان پاس کیا اور قانون کے پیشے سے منسلک ہو گئے۔ اس پیشے میں انھوں نے اتنی ترقی کی کہ ان کا شمار حیدرآباد ہائی کورٹ کے ’’چوٹی‘‘ کے وکیلوں میں ہونے لگا تھا۔ انھوں نے حیدرآباد کے بیگم بازار میں ایک نہایت شان دار دو منزلہ عمارت تعمیر کرائی تھی اور نہایت پرسکون اور آسودہ حال متاہل زندگی گزار رہے تھے کہ انھیں دِق کا مرض لاحق ہو گیا جس کی وجہ سے انھیں حیدرآباد سے قائم گنج آنا پڑا جہاں 1907میں ان کا انتقال ہو گیا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 39سال تھی۔ مسعود حسین خاں کی دادی نازنین بیگم بھی اپنے شوہر کی علالت کی وجہ سے اپنے بچوں کو لے کر حیدرآباد سے قائم گنج آ گئی تھیں جہاں ان بچوں کا تعلیمی سلسلہ شروع ہوا، لیکن 1911میں ان کا بھی طاعون کی وبا میں انتقال ہو گیا۔
فدا حسین خاں کے سب سے بڑے بیٹے مظفر حسین خاں (مسعود حسین خاں کے والدِ ماجد) چھٹی پیڑھی میں حسین خاں (مد آخون)کی نسل سے تھے۔ وہ 1893میں قائم گنج میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی اسکول، اٹاوہ(یوپی) میں حاصل کی، پھر محمڈن اینگلو اورینٹل کالج (M.A.O. College)، علی گڑھ میں داخلہ لیا اور یہاں سے بی اے، ایل ایل بی کرنے کے بعد ریاستِ حیدرآباد (دکن) جا کر وکالت کے پیشے سے منسلک ہو گئے۔ وہ ترقی کر کے اس ریاست کے ضلع ورنگل کے محکمۂ عدالت میں مجسٹریٹ کے عہدے پر فائز ہو گئے تھے، لیکن دِق کے موذی مرض نے انھیں بھی نہیں چھوڑا۔ وہ قائم گنج آ کر اپریل 1921میں راہیِ ملکِ عدم ہو گئے۔ اس وقت وہ صرف 28سال کے تھے۔
مسعود حسین خاں کے چھے چچا تھے جن میں سب سے بڑے عابد حسین خاں تھے۔ دوسرے چچا ذاکر حسین خاں (ڈاکٹر ذاکر حسین)، تیسرے چچا زاہد حسین خاں اور چوتھے چچا یوسف حسین خاں تھے۔ پانچویں چچا جعفر حسین خاں بچپن ہی میں چھے سال کی عمر میں فوت ہو گئے تھے۔ مسعود حسین خاں کے چھٹے اور سب سے چھوٹے چچا محمود حسین خاں تھے۔ مسعود حسین خاں کے پھوپھی کوئی نہ تھیں، حالاں کہ ان کی دادی کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ کاش کہ ان کی کوئی بیٹی بھی ہوتی، لیکن ان کی یہ آرزو پوری نہ ہوئی اور ان کے یہاں سات بیٹے ہی پیدا ہوئے۔ عابد حسین خاں تعلیم یافتہ تھے اور غیر معمولی ذہانت رکھتے تھے، لیکن وہ بھی دِق کے مریض ہو کر فوت ہو گئے۔ ذاکر حسین خاں (ڈاکٹر ذاکر حسین) نے خاندان کا خوب نام روشن کیا اور صدرِ جمہوریۂ ہند کے عہدے پر فائز ہوئے، اور ’’فخرِ خاندان‘‘ کہلائے۔
ذاکر حسین حیدرآباد میں 1897میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی اسکول، اٹاوہ (یوپی) میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج (ایم اے او کالج)، علی گڑھ میں داخلہ لیا۔ 20اکتوبر1920کو جب گاندھی جی (1869-1948) علی گڑھ آئے اور انھوں نے کالج کے یونین ہال میں طلبہ و اساتذہ کے سامنے تقریر کی اور اپنی تحریکِ عدم تعاون سے انھیں روشناس کرایا اور ان کی حمایت طلب کی تو نوجوان ذاکر حسین ان کی باتوں سے بے حد متاثر ہوئے۔ انھوں نے چند دنوں بعد اپنے بعض ساتھیوں اور اساتذہ کے ساتھ ایم اے او کالج کو خیرباد کہہ دیا۔ پھر انھی لوگوں نے گاندھی جی سے تحریک پا کر علی گڑھ ہی میں 29اکتوبر 1920کو ایک چھوٹے سے قومی ادارے کی بنیاد ڈالی جس نے بعد میں جامعۂ ملیہ اسلامیہ (نیشنل مسلم یونیورسٹی) کے نا م سے شہرت حاصل کی۔ ذاکر حسین 1922میں مزید تحصیلِ علم کے لیے جرمنی گئے اور 1926میں برلن یونیورسٹی سے معاشیات (Economics)میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ جرمنی سے اسی سال واپسی پر وہ جامعۂ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر (شیخ الجامعہ ) مقرر ہوئے۔ اس وقت وہ 29سال کے تھے۔ ان دنوں جامعہ کی حالت بہت ابتر تھی۔ مالی وسائل بہت محدود ہو گئے تھے اور لوگوں میں وہ جوش، جذبہ اور ولولہ بھی باقی نہ رہا تھا جو اس کے قیام کے وقت دیکھا گیا تھا۔ گاندھی جی کی ایما پر جامعہ کو 1925میں دہلی منتقل کر دیا گیا۔ وائس چانسلر بننے پر ذاکر حسین نے جامعہ کو اپنے خونِ جگر سے سینچا اور رفتہ رفتہ اسے اپنے پیروں پر لا کھڑا کیا۔ وہ 22سال تک اس کے وائس چانسلر رہے۔ ملک کی آزادی کے بعد ذاکر حسین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے اور اس کی ہمہ جہت ترقی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔ 1957میں انھیں بہار کا گورنر بنایا گیا اور 1962میں وہ جمہوریۂ ہند کے نائب صدر بنائے گئے۔ پانچ سال بعد 1967میں وہ صدرِ جمہوریۂ ہند کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ملک کی بیش بہا خدمات کے لیے انھیں 1963میں ملک کے سب سے بڑے قومی اعزاز ’بھارت رتن‘ سے نوازا گیا۔ 3مئی 1969کو راشٹرپتی بھون (ایوانِ صدر)، نئی دہلی میں انھوں نے آخری سانسیں لیں۔
مسعود حسین خاں کے تیسرے چچا زاہد حسین خاں ایم اے او کالج (علی گڑھ) میں زیرِ تعلیم تھے کہ دِق کے خاندانی مرض نے انھیں آ گھیرا جو مرض الموت ثابت ہوا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر تقریباً 18سال تھی۔ وہ ذ اکر حسین سے عمر میں پونے دو سال چھوٹے تھے۔
فدا حسین خاں کی پانچویں اولاد اور مسعود حسین خاں کے چوتھے چچا یوسف حسین خاں حیدرآباد میں بیگم بازار والے مکان میں 1902میں پیدا ہوئے۔ والد کی علالت کی وجہ سے یہ بھی اپنی والدہ اور دوسرے بھائیوں کے ساتھ حیدرآباد سے قائم گنج آ گئے تھے۔ یوسف حسین خاں نے تعلیمی مدارج اٹاوہ، علی گڑھ اور دہلی میں طے کیے، اعلیٰ تعلیم کے لیے فرانس گئے اور سوربون یونیورسٹی (پیرس) سے ڈی.لٹ (D.Lit)کی ڈگری حاصل کی۔ 1930میں ہندوستان واپس آنے پر انھوں نے کچھ عرصہ تک مولوی عبدالحق (1872-1961)کے ساتھ مل کر انگریزی-اردو لغت کی ترتیب کا کام انجام دیا۔ اسی زمانے میں وہ عثمانیہ یونیورسٹی (حیدرآباد) کے شعبۂ تاریخ میں استاد مقرر ہوئے اور 1957 میں وہاں سے بہ حیثیت پروفیسر سبک دوش ہوئے۔ اس کے بعد ان کا تقرر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر کی حیثیت سے ہو گیا جہاں انھوں نے 1965تک کام کیا۔ بعد ازاں وہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایڈ و انسڈ اسٹڈیز، شملہ میں فیلو رہے، پھر ان کا انتخاب انجمن ترقیِ اردو (ہند) کے نائب صدر کی حیثیت سے ہو گیا۔ زندگی کے آخری سالوں میں ان کا قیام نئی دہلی میں رہا۔ وہیں کے ہولی فیملی ہسپتال میں انھوں نے 21فروری 1979کو داعیِ اجل کو لبیک کہا۔
مسعود حسین خاں کے سب سے چھوٹے چچا محمود حسین خاں اپنے والد کے انتقال (1907)کے تین ماہ بعد قائم گنج میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم اٹاوہ کے اسلامیہ ہائی اسکول میں ہوئی، پھر وہ مزید تحصیلِ علم کے لیے اپنے بھائی یوسف حسین خاں کے ساتھ علی گڑھ آ گئے۔ اس کے بعد انھوں نے جامعۂ ملیہ اسلامیہ میں داخلہ لیا۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ جرمنی گئے اور یونیورسٹی آف ہائیڈل برگ سے 1932میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ انھوں نے اپنا کیریر معلمی کے پیشے سے شروع کیا اور ڈھاکہ یونیورسٹی میں 1933میں ’جدید تاریخ‘ کے ریڈر مقرر ہوئے۔ وہ 1960میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انھوں نے 1971میں کراچی یونیورسٹی کے بھی وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالا اور اپنی وفات (1975)تک اس عہدے پر فائز رہے۔ انھیں تعلیم کے فروغ سے خصوصی دل چسپی تھی، چنانچہ انھوں نے کراچی کے نواحی علاقے مَلیر میں 1952میں ایک تعلیمی ادارے موسوم بہ جامعہ ملیہ کی بنیاد رکھی جو آج عصری علوم کی ایک عظیم الشان درس گاہ ہے۔ انھوں نے کچھ عرصے تک عملی سیاست میں بھی حصّہ لیا اورپاکستان کے وزیرِ تعلیم کے عہدے پر فائز ہوئے۔
محمود حسین خاں کی بیٹی ثاقبہ کی شادی پاکستان آرمی کے میجر رحیم الدین خاں سے ہوئی جو بعد میں جنرل کے عہدے تک پہنچے۔ جنرل رحیم الدین خاں اور ثاقبہ کی بیٹی کی شادی جنرل ضیاء الحق (پاکستان کے چھٹے صدر) کے بیٹے اعجاز الحق سے ہوئی۔ بیگم ثاقبہ رحیم الدین کو فلاحی کاموں کے علاوہ شعر و ادب سے بھی دل چسپی رہی ہے۔ چنانچہ ثاقبہ نور کے ادبی نام سے ان کے کئی شعری مجموعے منظرِ عام پر آ چکے ہیں جن میں ’خاموشی‘ اور ’حسن کی چاہ میں ‘ کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کے افسانوں کے بھی کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ وہ ادبِ اطفال سے بھی خصوصی دل چسپی رکھتی ہیں اور اس ضمن میں ان کے کارنامے لائقِ ستائش ہیں۔ ثاقبہ رحیم الدین نے 1979میں ادبی تنظیم قلم قبیلہ کی بنیاد رکھی جس کی وہ حیاتیاتی صدر ہیں۔
شجرۂ نسب مسعود حسین خاں
مورثِ اعلیٰ حسین خاں
احمد حسین خاں
محمد حسین خاں
غلام حسین خاں
فدا حسین خاں
مظفر حسین خاں
عابد حسین خاں
ذاکر حسین خاں
زاہد حسین خاں
یوسف حسین خاں
جعفر حسین خاں
محمود حسین خاں
مسعود حسین خاں
(1919-2010)
پیدائش اور بچپن
مسعود حسین خاں کے دادا فدا حسین خاں ریاستِ حیدرآباد (دکن) میں وکالت کے پیشے میں غیر معمولی کامیابی کی وجہ سے کافی ثروت مند ہو گئے تھے۔ انھوں نے حیدرآباد کے بیگم بازار میں زمین خرید کر ایک شان دار دو منزلہ عمارت تعمیر کرائی تھی، لیکن قائم گنج میں بھی انھوں نے اپنے والد غلام حسین خاں (عرف جھمّن خاں ) کی نگرانی میں اپنی کمائی ہوئی دولت سے 1900میں ایک پختہ حویلی تعمیر کرائی تھی جسے وہاں کے لوگ ’جھمّن خاں کا محل‘ کہتے تھے۔ مسعود حسین خاں کی پیدائش 28جنوری 1919کو اسی ’محل‘ یا حویلی کے ’’زنانے حصے کی بائیں طرف والی کوٹھری میں ہوئی تھی۔ ‘‘(3)یہ حویلی قائم گنج کے محلہ موال خیل میں آج بھی واقع ہے۔ غلام حسین خاں کا آبائی مکان محلہ شکل خیل میں واقع تھا جو اب کھنڈر بن چکا ہے۔
مسعود حسین خاں کے والدِ ماجد مظفر حسین خاں اپریل 1921میں محض 28سال کی عمر میں وفات پا گئے تھے۔ اس وقت مسعود حسین خاں صرف دو سال اور دو مہینے کے تھے۔ انھیں اپنی یتیمی کا احساس تمام عمر رہا۔ وہ اپنے والد کی پانچ اولادوں میں سے تیسری اولاد تھے۔ ان کے بڑے بھائی امتیاز حسین خاں عثمانیہ یونیورسٹی (حیدرآباد) کے شعبۂ کامرس کے صدر تھے۔ بعد ازاں وہ سکندرآباد کالج کے پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے، لیکن عمر نے وفا نہ کی اور دورانِ ملازمت ہی تقریباً 54سال کی عمر میں مارچ 1966میں حرکتِ قلب بند ہو جانے کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ امتیاز حسین خاں سے چھوٹی (مسعود حسین خاں سے بڑی) ایک بہن خدیجہ بیگم تھیں جو 76سال کی عمر کو پہنچ کر علی گڑھ میں (جہاں وہ اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ سکونت پذیر تھیں ) دسمبر 1989میں انتقال کر گئیں۔ مسعود حسین خاں سے چھوٹی ایک بہن رفیعہ بیگم تھیں جو بچپن ہی میں (اپنے والد کی زندگی میں ) فوت ہو گئی تھیں۔ ان سے چھوٹے ایک بھائی شاہد حسین خاں تھے جو اپنے والد کی وفات کے بعد پیدا ہوئے تھے لیکن وہ بھی بچپن ہی میں فوت ہو گئے تھے۔
مظفر حسین خاں کے انتقال (1921)کے بعد مسعود حسین خاں کی والدہ فاطمہ بیگم بچوں کو لے کر اپنے میکے پتورہ (قائم گنج کی ایک بستی) آ گئیں، لیکن تین سال بعد اپریل 1924میں ان کا بھی انتقال ہو گیا۔ اس وقت مسعود حسین خاں کی عمر پانچ سال اور دو مہینے تھی۔ ان کی پرورش و پرداخت اب پورے طور پر ننہال میں ہونے لگی جو ایک ’’بھرا پُرا خاندان‘‘ تھا، لیکن والدین کی کمی انھیں بری طرح ستاتی رہتی تھی۔ عمر کے آخری پڑاؤ میں جب انھوں نے اپنی آخری نظم ’’سخنِ واپسیں ‘‘ لکھی، تب بھی اس غم نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا اور ان سے یہ شعر کہلوائے:
دوا سے کچھ نہ ہوا اور دعا سے کچھ نہ ملا
بشر نے کچھ نہ دیا اور خدا سے کچھ نہ ملا
زوال میرا مقدر بنا کے چھوڑ دیا
مجھے خیال و حدیثِ بقا سے کچھ نہ ملا
میں درد و داغِ یتیمی میں یوں رہا محصور
پدر سے کچھ نہ ملا مامتا سے کچھ نہ ملا(4)
قائم گنج کے محلہ موال خیل (جہاں مسعود حسین خاں کا آبائی مکان ہے) سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ایک بستی پتورہ تھی جہاں آفریدی پٹھانوں کا ایک دوسرا خاندان آباد تھا۔ مسعود حسین خاں کے نانا جانِ عالم خاں (عرف ننھے میاں ) پتورہ کے متمول ترین شخص تھے، بلکہ وہاں کے ’رئیسِ اعظم‘ سمجھے جاتے تھے۔ ان کے گھر میں جو ’بڑا گھر‘ کہلاتا تھا خوش حالی اور فارغ البالی کا دور دورہ تھا۔ انھوں نے زیادہ تعلیم نہیں پائی تھی اور اپنا سارا وقت جائداد کی دیکھ بھال کے علاوہ فراغت و آسودہ حالی اور عیش کوشی میں گزار تے تھے۔ جانِ عالم خاں کے نصف درجن سے زائد بچے پیدا ہوئے، لیکن چھے اولادیں (چار بیٹے اور دو بیٹیاں ) نسلی اعتبار سے بار آور ثابت ہوئیں۔ مسعود حسین خاں کی والدہ فاطمہ بیگم جانِ عالم خاں کی سب سے بڑی اولاد تھیں۔ مسعودحسین خاں کے چار ماموؤں میں سب سے بڑے ماموں سلطان عالم خاں کو سیاست سے گہری دل چسپی تھی۔ انھوں نے یوپی کی سیاست میں خوب نام پیدا کیا اور سمپورنانند (1891-1969)کی کانگریسی وزارت میں نائب وزیر کے عہدے تک پہنچے۔ دوسرے ماموں قدوس عالم خاں (جو مسعود حسین خاں کے خسر بنے) قائم گنج میں خاندانی جائداد، باغات اور فارم وغیرہ کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ تیسرے ماموں غلام ربانی تاباں (1914-1993)اردو کے ممتاز شاعر تھے۔ اگرچہ انھوں نے وکالت کا پیشہ اختیار کیا تھا، لیکن اس میں انھیں زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ مسعود حسین خاں کے چوتھے ماموں خورشید عالم خاں (1919-2013)تھے جو مسعود حسین خاں ہی کے ہم عمر تھے اور بچپن میں ایک ہی ساتھ کھیلے کودے تھے۔ وہ ملک کی سیاست سے گہرا تعلق رکھتے تھے اور انڈین نیشنل کانگریس کے سینیر لیڈر تھے اور پارلیمنٹ کے رکن رہ چکے تھے۔ وہ مرکزی کابینہ میں مختلف محکموں کے وزیر رہنے کے علاوہ کئی ریاستوں کے گورنر بھی رہے تھے۔
جیسا کہ مذکور ہوا، مسعود حسین خاں کے والد کا جب انتقال ہو گیا تو ان کی والدہ اپنے بچوں کو لے کر اپنے میکے پتورہ چلی آئیں اور مستقل طور پر وہیں رہنے لگیں۔ مسعود حسین خاں ننہال میں اپنی والدہ کے زیرِ عاطفت صرف تین سال ہی رہنے پائے تھے کہ ان کی والدہ کا بھی انتقال ہو گیا۔ اس وقت ان کی عمر صرف پانچ سال اور دو مہینے تھی۔ ننہال میں ان کی بڑی ممانی (بیگم سلطان عالم خاں ) نے ان کی دیکھ بھال اور پرورش کی۔ وہاں انھیں ہر طرح کا عیش و آرام تھا۔ ان کی نانی ان سے بے حد محبت کرتی تھیں اور نہایت شفقت سے پیش آتی تھیں۔ کھانے پینے کی چیزوں میں ان کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا تھا۔ متمول زمیں دار گھرانے میں ہر چیز کی فراوانی تھی۔ اگر کمی تھی تو صرف ماں باپ کے پیار کی۔ مسعود حسین خاں نے اپنے بچپن کی تلخ و شیریں یادوں کو اپنی خود نوشت سوانح حیات ’ورودِ مسعود‘(1988)میں محفوظ کر دیا ہے جس میں نہ صرف قائم گنج کے اس زمانے کے پٹھانوں کے قصے اور ان کے شخصی خاکے اور مرقعے نظر آتے ہیں، بلکہ اس دور کی تہذیب و روایات، رسم و رواج، رہن سہن اور گھریلو زندگی کی جھلکیاں بھی صاف دکھائی دیتی ہیں۔
تعلیم اور ذہنی تربیت
مسعود حسین خاں کا تعلیمی سلسلہ ننہال (پتورہ) کے میونسپل اسکول سے شروع ہوتا ہے، لیکن یہاں کی پڑھائی لکھائی کا معیار انتہائی ناقص اور غیر تشفی بخش تھا۔ اسکول کی حالت بھی نہایت خستہ تھی، اس لیے ان کے بڑے چچا ڈاکٹر ذاکر حسین (1897-1969)نے، جو 1926میں جرمنی سے ڈاکٹریٹ کی سند لے کر لوٹے تھے اور جامعۂ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر (شیخ الجامعہ) مقرر ہوئے تھے، انھیں تعلیم کی غرض سے جامعہ بلا لیا۔ جامعہ اس وقت تک دہلی منتقل ہو چکی تھی اور قرول باغ کے ایک کرایے کی عمارت میں اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھی۔
مسعود حسین خاں نے جامعۂ ملیہ اسکول کے دار الاقامہ (بورڈنگ ہاؤس) میں رہ کر آٹھویں جماعت تک 1933) تک(تعلیم پائی۔ یہاں ان کی ملاقات اخلاق الرحمن قدوائی سے ہوئی جو بعد میں ترقی کر کے گورنر کے عہدے تک پہنچے۔ وہ مسعود حسین خاں کے روم فیلو تھے اور اکثر فوڈ مانیٹر بنا دیے جاتے تھے۔ یہاں انھیں اور بھی کئی اچھے ساتھی اور اساتذہ ملے جنھوں نے ان کی کردار سازی اور ذہنی تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ یہاں ان کی شخصیت کو نکھرنے کا خوب موقع ملا۔ یہیں ان کے اندر قومی بیداری کا احساس پیدا ہوا۔ یہیں وہ غالب (1797-1869)، حالی(1837-1914)، اقبال (1877-1938)سے روشناس ہوئے، یہیں انھوں نے گاندھی جی (1869-1948)اور محمد علی جوہر(1878-1931)کو دیکھا، اور یہیں سے وہ اکتوبر 1932میں جامعہ کے ایک استاد سید نذیر نیازی کے ساتھ پہلی بار کشمیر کی سیر کے لیے روانہ ہوئے اور لاہور میں قیام کر کے علامہ اقبال سے ان کے دولت کدے پر ملاقات کی۔ اس وقت ان کی عمر 13سال اور چند مہینے تھی۔
جامعہ ہی کی ذہنی تربیت اور یہاں کی علمی و ادبی فضا کی وجہ سے مسعود حسین خاں کے اندر اردو زبان و ادب سے گہرا شغف پیدا ہوا جس نے آگے چل کر انھیں ایک بلند پایہ ادیب و انشا پرداز اور شاعر بنا دیا۔ انھوں نے پہلا شعر کشمیر کے 1932کے سفر کے دوران میں کہا جب وہ جامعۂ ملیہ اسکول کے طالب علم تھے۔ گویا جامعہ کے شش سالہ (1927-33) قیام نے ان کی کایا ہی پلٹ دی، ورنہ قائم گنج سے جب وہ یہاں آئے تھے تو ایک ’’کندۂ نا تراش‘‘ تھے جس کا اعتراف انھوں نے ’ورودِ مسعود‘ میں خود کیا ہے۔
جامعہ اسکول سے آٹھواں درجہ پاس کرنے کے بعد مسعود حسین خاں 1933میں اپنے سب سے چھوٹے چچا محمود حسین خاں (1907-1975)کے ساتھ ڈھاکہ آ گئے۔ ان کے آئندہ کے تعلیمی مراحل یہیں طے ہوئے۔ محمود حسین خاں جب جرمنی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر وطن واپس لوٹے تو ان کا تقرر ڈھاکہ یونیورسٹی میں ’جدید تاریخ‘(Modern History) کے ریڈر کی حیثیت سے ہو گیا، چنانچہ وہ اپنے بھتیجے مسعود حسین خاں کو بھی مزید تحصیلِ علم کے لیے اپنے ساتھ ڈھاکہ لے گئے۔ وہاں ان کا داخلہ ارمنی ٹولہ گورنمنٹ ہائی اسکول کی نویں جماعت میں ہو گیا۔ یہاں کا پورا ماحول بنگالی زبان و ادب میں ڈوبا ہوا تھا۔ گویا ایک طرح سے وہ غالب اور اقبال کے ماحول سے نکل کر ٹیگور (1861-1941)اور نذرل(1899-1976)کے ماحول میں آ گئے تھے۔ اسکول میں انھی کے ’’گانے اور ترانے‘‘ گائے جاتے تھے۔ رابندر سنگیت کا بھی ہر طرف چرچا تھا۔ غرض کہ مسعود حسین خاں کے لیے یہ ایک بالکل اجنبی ماحول تھا، لیکن رفتہ رفتہ ماحول کی اجنبیت ختم ہوتی گئی اور یہاں کی سحر آگیں فضا انھیں راس آ گئی۔ یہیں ان کے اندر ایک شاعر اور گیت نگار نے جنم لیا جو آگے چل کر ’’روپ بنگال‘‘ جیسی شعری تخلیق کا خالق بنا جس میں یہیں کی فضا، یہیں کے ماحول اور یہیں کی مٹی کی خوشبو پائی جاتی ہے۔
مسعود حسین خاں نے 1935میں میٹرک کا امتحان امتیاز کے ساتھ پاس کرنے کے بعد رمنہ کے علاقے میں واقع گورنمنٹ انٹر کالج میں داخلہ لیا جس کا شمار ڈھاکہ کے بہترین کالجوں میں ہوتا تھا۔ انٹر میڈیٹ کا امتحان بھی انھوں نے، باوجود اپنی علالت کے، 1937میں فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ اس کے بعد انھوں نے ڈھاکہ کو خیرباد کہہ دیا، اور بنگال میں اپنے چہار سالہ (1933-37)قیام کی یادوں کے ساتھ دہلی واپس آ کر اینگلو عربک کالج میں بی اے میں داخلہ لے لیا۔
اجمیری گیٹ (دہلی) کے قریب واقع یہ وہی اینگلو عربک کالج تھا جہاں کبھی غازی الدین حیدر کا مدرسہ واقع تھا، لیکن بعد میں یہ دہلی کالج کے نام سے مشہور ہوا۔ پھر مسز اندرا گاندھی (1917-1984)کی وزارتِ عظمیٰ کے زمانے میں اس کا نام بدل کر ذاکر حسین کالج کر دیا گیا۔ مسعود حسین خاں نے اسی کالج سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ بی اے کی تعلیم کے دو سال انھوں نے اپنے بڑے چچا ڈاکٹر ذاکر حسین (جو اس زمانے میں جامعۂ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر تھے) کے یہاں رہ کر گزارے جس سے انھیں پہلی بار اپنے چچا کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
اینگلو عربک کالج سے 1939میں بی اے کرنے کے بعد مسعود حسین خاں علی گڑھ آ گئے اور یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ میں ایم اے میں داخلہ لیا اور آفتاب ہوسٹل کو اپنی قیام گاہ بنایا، لیکن چند دنوں بعد ہی تاریخ کو چھوڑ کر ایم اے (اردو) میں داخلہ لے لیا۔ شعبۂ اردو میں ان کی ملاقات رشید احمد صدیقی (1892-1977)اور آل احمد سرور (1911-2002) سے ہوئی۔ یہ دونوں اساتذہ ایم اے کی کلاسیں پڑھاتے تھے۔ دوسرے اساتذہ میں ابواللیث صدیقی، معین احسن جذبی اور محمد عزیر تھے۔ مسعود حسین خاں رشید احمد صدیقی سے بہ حیثیتِ ادیب و مزاح نگار پہلے سے واقف تھے۔ البتہ آل احمد سرور ان کے لیے نئے تھے۔ انھوں نے ’ورودِ مسعود‘ میں اپنے دونوں اساتذہ کے بارے میں کھل کر اظہارِ خیال کیا ہے۔ آل احمد سرور کے بارے میں ان کی ر ائے تھی کہ وہ نہایت ’’لگن اور تیاری‘‘ کے ساتھ پڑھاتے تھے۔ وہ چوں کہ انگریزی میں بھی ایم اے تھے، اس لیے اپنے لکچرز کو ’’پر مغز‘‘ بنانے کے لیے اکثر انگریزی ادب کے حوالے بھی دیتے تھے۔ ان کا حافظہ بھی بہت اچھا تھا، اس لیے لکچر کے دوران اشعار خوب کوٹ (Quote)کرتے تھے۔ رشید احمد صدیقی کے بارے میں مسعود حسین خاں لکھتے ہیں کہ ان کے پڑھانے کا انداز ذرا مختلف تھا۔ انگریزی ادب سے ان کی واقفیت زیادہ نہ تھی، لیکن فارسی شعر و ادب کا ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ وہ پڑھاتے وقت ’’ذاتی تاثرات‘‘ اور ’’وجدان‘‘ سے کام لیتے تھے۔ اس کے علی الرغم سرور صاحب کا علم ’’کتابی و اکتسابی‘‘ تھا۔ مسعود حسین خاں نے علی گڑھ میں ان دونوں اساتذہ سے بھرپور استفادہ کیا۔
مسعود حسین خاں نے 1941میں ایم اے (اردو) کا امتحان اول درجے میں امتیاز کے ساتھ پاس کیا۔ ان کا علی گڑھ میں ایم اے کا دوسالہ (1939-41)دور، جیسا کہ انھوں نے خود اعتراف کیا ہے، ’’ذہنی ریاضت اور ادبی تربیت‘‘ کا دور تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی ادبی اٹھان اور ان کے شعری مزاج کی تربیت کا یہی زمانہ تھا۔ اسی زمانے میں انھوں نے ایم اے کی ضرورت کے تحت پریم چند (1880-1936)کی افسانہ نگاری پر مقالہ لکھا جس کی توقع سے زیادہ پذیرائی ہوئی۔ ان کی ہندی دانی کی بنیاد بھی اسی زمانے میں پڑی۔ اردو ادب کا بالاستیعاب مطالعہ بھی انھوں نے انھی دو سالوں میں کیا۔ رشید احمد صدیقی جیسے انشا پرداز کی صحبتوں سے فیض اٹھانے کے مواقع تو انھیں ہر وقت حاصل تھے۔ علاوہ ازیں ادبی مباحثے، علمی مذاکرے اور شعر و شاعری کا چرچا علی گڑھ میں عام بات تھی۔ باہر سے آنے والے ادیبوں اور شاعروں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہوتی تھی جن سے استفادے کا موقع انھیں برابر ملتا رہتا تھا۔ علی گڑھ کے ماحول میں اپنی ذہنی اور ادبی تربیت کے بارے میں وہ لکھتے ہیں :
’’میں اب اردو زبان کے رموز و نکات سے آشنا ہونے لگا تھا۔ الفاظ کے طلسمِ معنی کو سمجھنے اور ان میں احساس کی بھری ہوئی بجلیوں سے متاثر ہونے کی صلاحیت پیدا ہو گئی تھی… اس طرح میرا شغف شعر اور مطالعۂ شعر سے بڑھتا گیا… میری علی گڑھ میں تربیتِ شعر نہ ہوتی تو سخن وری تو کجا شاید سخن فہمی کی بھی نوبت نہ آتی… اس زمانے میں سخن فہمی اور سخن وری کے لیے علی گڑھ سے بہتر کوئی محفل نہیں تھی۔ اختر انصاری، مجاز، سردار جعفری، جذبی، جاں نثار اختر، اختر الایمان، راز مراد آبادی، شکیل بدایونی، مسعود علی ذوقی بزم پر چھائے ہوئے تھے۔ ان میں میرا ربط ضبط زیادہ تر اختر انصاری اور جذبی سے رہا۔ دونوں شعبۂ اردو میں میرے رفیقِ کار رہے۔‘‘(5)
مسعود حسین خاں لسانیات کی اعلیٰ تعلیم کے لیے 1950میں سفر یورپ پر روانہ ہوئے اور سب سے پہلے لندن پہنچے۔ وہاں انھوں نے اسکول آف اورینٹل اینڈ ایفریکن اسٹڈیز کے شعبۂ لسانیات میں داخلہ لیا۔ اس زمانے میں مشہور ماہرِ صوتیات اور لسانیات کے دبستانِ لندن (London School of Linguistics)کے بانی جے. آر. فرتھ(1890-1960)اس شعبے کے پروفیسر اور صدر تھے۔ مسعود حسین خاں نے ان سے خاطر خواہ کسبِ فیض کیا۔ فرتھ(Firth) کے عروضی نظریۂ صوتیات (Theory of Prosodic Phonology)سے وہ اس حد تک متاثر ہوئے کہ انھوں نے ان کے اس نظریے کا اطلاق اردو صوتیات پر کیا۔ لندن میں ایک سال گزارنے کے بعد وہ فرانس گئے اور پیرس یونیورسٹی کے صوتیات کے ادارے Institute de Phonetiqueمیں داخلہ لیا اور دو سال کی محنتِ شاقہ کے بعد اپنا تحقیقی مقالہ پیرس یونیورسٹی کے سپرد کر دیا جس پر انھیں 1953میں ڈی. لٹ (D.Lit)کی ڈگری تفویض ہوئی۔ ہندوستان واپس آنے پر انھوں نے اپنا یہ تحقیقی مقالہ A Phonetic and Phonological Study of the Word in Urduکے نام سے شائع کیا۔ اس مقالے کا راقم السطور نے اردو میں ترجمہ کیا جو ’اردو لفظ کا صوتیاتی اور تجز صوتیاتی مطالعہ‘ کے نام سے شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے 1986میں شائع ہوا۔
شادی اور اولادیں
مسعود حسین خاں کی شادی ان کی ماموں زاد بہن نجمہ بیگم سے قائم گنج میں 3 فروری 1948کو ہوئی۔ نجمہ، مسعود حسین خاں کے دوسرے ماموں (منجھلے ماموں ) قدوس عالم خاں کی بڑی بیٹی تھیں۔ ان کی والدہ کا تعلق علی گڑھ کے شروانی پٹھان خاندان سے تھا۔
مسعود حسین خاں اور نجمہ دونوں شادی سے پہلے ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح سے جانتے تھے، کیوں کہ مسعود حسین خاں کا بچپن اپنے ننہال ہی میں گذرا تھا اور اس کے بعد بھی، دورانِ تعلیم، ان کا دہلی سے وہاں برابر آنا جانا رہتا تھا۔ وہ ’’نور جہانی خط و خال‘‘ کی نجمہ کو جو عمر میں ان سے 12سال چھوٹی تھیں، پسند کرنے لگے تھے۔ چنانچہ دونوں خاندانوں کے بزرگوں کے درمیان ’’اتفاقِ رائے‘‘ سے یہ شادی طے ہو گئی۔ شادی کے 40سال بعد جب مسعود حسین خاں نے اپنی خود نوشت ’ورودِ مسعود‘(1988)لکھی تو نجمہ کا ذکر ان الفاظ میں کیا:
’’میں اس اعتبار سے خوش قسمت رہا کہ مجھے ایک محبت اور خدمت کرنے والی رفیقۂ حیات ملی، جس نے ’ممتا‘ کی کمی کو بہت کچھ دل سے بھلا دیا۔ وہ مجھ سے عمر میں 12برس چھوٹی تھی۔ جب 1948میں وہ میرے گھر میں دلہن بن کر آئی تو اس وقت سترہ برس کی بھولی بھالی لڑکی تھی۔ آتے ہی اس پر خانہ داری کا بوجھ پڑ گیا۔ اپنی والدہ کی تربیت کی وجہ سے وہ اس پُر آشوب دور سے خوش اسلوبی سے گذری۔ کم عمری کی وجہ سے اس سے کبھی کبھی کوتاہیاں ہو جاتی تھیں۔ میں بعض اوقات چھوٹی چھوٹی باتوں پر برافروختہ ہو جاتا۔ غصے سے زیادہ ضد ہوتی، لیکن داد دیتا ہوں اس وفا کی دیوی کے صبر و تحمل کی۔ وہ ہر بار یہی کہتی کہ میری ماں نے رخصت کرتے وقت نصیحت کی تھی کہ بیٹی! جس گھر میں جا س مقالے کا راقم السطور نے ا رہی ہو کیسے ہی نامساعد حالات کیوں نہ ہوں، وہاں سے چار کے کندھوں ہی پر نکلنا۔ اس مہر وفا کی دیوی کے صبر و تحمل نے بالآخر کام کیا اور یہ کندۂ نا تراش پٹھان بچہ رفتہ رفتہ را م ہوتا گیا…عمر کے ساتھ ساتھ ہم دونوں کی محبت، رفاقت سے مل کر دو آتشہ ہو گئی۔ اب من تو شدم تو من شدی کا مقام ہے۔ وہ یقیناً میری نصف بہتر ہے اور مَیں اس کا نصف کم تر۔ ‘‘(6)
مسعود حسین خاں اور نجمہ کے پانچ اولادیں ہوئیں ایک بیٹا اور چار بیٹیاں۔ ان سب نے اعلیٰ تعلیم پائی۔ ان کے اکلوتے بیٹے جاوید حسین خاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر تھے، لیکن انھوں نے اپنے ریٹائرمنٹ سے قبل ہی ملازمت سے رضاکارانہ سبک دوشی (VRS)لے لی تھی۔ جاوید حسین ایک بیٹے کے باپ ہیں، لیکن ان کا بیٹا امریکہ میں اپنی ماں کے ساتھ رہتا ہے اور ابھی زیرِ تعلیم ہے۔ مسعود حسین خاں نے اس کا نام آفتاب حسین خاں رکھا تھا۔ (7)اسے شاید نہیں معلوم کہ وہ نویں پیڑھی میں اپنے مورثِ اعلیٰ حسین خاں کی نسل سے ہے۔
مسعود حسین خاں کی چار بیٹیوں میں سب سے بڑی فریدہ ہیں جو ڈاکٹر عبدالرشید سے منسوب ہوئیں۔ دوسری بیٹی نادرہ، ناصر محمد خاں سے منسوب ہوئیں۔ تیسری بیٹی شاہدہ کی شادی ڈاکٹر شارق عالم خاں آفریدی سے ہوئی جو نیوجرسی( امریکہ) میں سکونت پذیر ہیں۔ سب سے چھوٹی بیٹی زیبا کے شوہر محمد عمران خاں جامعۂ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی (نئی دہلی) میں پروفیسر ہیں۔ مسعود حسین خاں کی ان چاروں بیٹیوں نے اعلیٰ تعلیم پائی ہے اور اب اپنے اپنے گھروں میں مسرور و مطمئن ہیں اور آسودہ حال زندگی گزار رہی ہیں۔ ان بیٹیوں نے اپنے والدین کا ہمیشہ خیال رکھا اور ان کی اطاعت و فرماں برداری اور خدمت گزاری میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔
ملازمت اور منصبی ذمہ داریاں
مسعود حسین خاں نے 1941میں ایم اے (اردو)کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد انھیں تلاشِ معاش کی فکر دامن گیر ہوئی۔ موسمِ گرما کی تعطیلات کا زمانہ انھوں نے بے کاری کے عالم میں قائم گنج میں گزارا۔ چوں کہ اردو میں ایم اے کی اس وقت کوئی قدر و منزلت نہ تھی، اس لیے انھوں نے فلسفہ (Philosophy)میں، جسے وہ ’’اردو سے بھی زیادہ بے مصرف مضمون‘‘ سمجھے تھے، دوسرا ایم اے کرنے کا ارادہ کر لیا، لیکن فلسفے سے چوں کہ ان کی پرانی دل چسپی تھی، اس لیے کچھ اس شوق کو پورا کرنے کے لیے بھی انھوں نے اسی سال دہلی جا کر ہندو کالج میں ایم اے (فلسفہ) میں داخلہ لے لیاتھا، لیکن سرمیں کیا سمایا کہ اس کے پہلے سال کی کلاسوں میں شرکت کرنے کے باوجود امتحان نہ دینے کا فیصلہ کر لیا اور واپس قائم گنج آ گئے۔ اسی زمانے میں ان کی طبیعت شعر گوئی کی جانب مائل ہوئی۔ یہ 1942کا بے کاری کا زمانہ تھا جو انھوں نے قائم گنج میں رہ کر کھانے پینے اور صحت بنانے میں گزارا۔ نجمہ بیگم کے لیے ’’کشش‘‘ انھوں نے اسی زمانے میں محسوس کی جو پانچ سال بعد ان کی رفیقۂ حیات بنیں۔ ان سے راہ و رسم کا ذکر مسعود حسین خاں نے اپنی خود نوشت میں نہایت سچائی سے کیا ہے۔ (دیکھیے ’ورودِ مسعود‘ کا چھٹا باب ’’کچھ غمِ جاناں، کچھ غمِ دوراں ‘‘، ص95-109)۔
مارچ 1943میں مسعود حسین خاں کا تقرر آل انڈیا ریڈیو، دہلی میں پروگرام اسسٹنٹ کی حیثیت سے ہو گیا جس کے لیے کئی ماہ قبل انھوں نے درخواست دے رکھی تھی۔ آل انڈیا ریڈیو میں انھیں ہندوستانی (اردو+ہندی) ٹاکس کا انچارچ بنایا گیا تھا۔ یہاں ان کی ملاقات ن م راشد(1910-1975)اور میرا جی (1912-1949)سے ہوئی۔ راشد آل انڈیا ریڈیو میں ان سے اونچے عہدے، پروگرام ایگزیکیٹو Programme Executive))کے عہدے پر فائز تھے۔ مسعود حسین خاں کو ریڈیو کی ملازمت قطعی راس نہ آئی اور محض چھے ماہ کے اندر ہی وہ ستمبر 1943میں ملازمت سے مستعفی ہو گئے اور علی گڑھ آکر رشید احمد صدیقی سے ملے، اور ان کے مشورے سے اردو میں ریسرچ میں داخلہ لے لیا۔ ان کی تحقیق کا موضوع تھا ’’اردو زبان کی ابتدا اور ارتقا‘‘، اور نگراں تھے آل احمد سرور۔ خوش آیند بات یہ ہوئی کہ مسعود حسین خاں کے ریسرچ میں داخلہ لیتے ہی شعبۂ اردو میں ایک جونیر لکچرر کی گنجائش پیدا ہو گئی جس پر نومبر 1943میں ان کا عارضی طور پر تقرر ہو گیا۔ دس سال تک اس شعبے میں بہ حیثیت لکچرر کام کرنے کے بعد وہ اسی شعبے میں 1954میں ریڈر مقرر ہوئے۔ ریڈر کی حیثیت سے آٹھ سال تک (1954-62)کام کرنے کے بعد جب انھیں اس بات کا اندازہ ہوا کہ علی گڑھ میں ترقی کی راہیں مسدود ہیں تو انھوں نے وہاں سے باہر نکلنے کا تہیہ کر لیا، چنانچہ خوش قسمتی سے 1962میں ان کا تقرر عثمانیہ یونیورسٹی (حیدرآباد) کے شعبۂ اردو میں پروفیسر کی حیثیت سے ہو گیا۔ وہ اس شعبے کے صدر بھی مقرر ہوئے۔ عثمانیہ یونیورسٹی میں انھوں نے چھے سال (1962-68)گزارے اور درس و تدریس کے علاوہ کئی قابلِ قدر علمی کارنامے بھی انجام دیے جن میں قدیم اردو متون (بہ شمولِ دکنی متون) کی تدوین، ’دکنی اردو کی لغت‘ کی اشاعت اور تحقیقی مجلے ’قدیم اردو‘ کا اجرا خاص ہیں۔
بیسویں صدی کے وسط میں ہندوستان میں لسانیات کے فروغ کے ساتھ ساتھ جب یہاں کی جامعات میں لسانیات کے شعبے قائم ہونا شروع ہوئے تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی 1968میں لسانیات (Linguistics)کا نیا شعبہ قائم ہوا۔ مسعود حسین خاں کا اس شعبے کے پروفیسر اور صدر کی حیثیت سے اگست 1968میں تقرر عمل میں آیا جہاں سے وہ 30ستمبر 1977کو سبک دوش ہوئے۔ وہ اس عہدے کے لیے ہر لحاظ سے موزوں ترین شخص تھے۔ انھوں نے یورپ اور امریکہ کی دانش گاہوں میں قیام کر کے لسانیاتِ جدید(Modern Linguistics) کی تربیت حاصل کی تھی۔ علاوہ ازیں وہ 1954میں راک فیلر فاؤنڈیشن (امریکہ) کی مالی امداد سے منعقد ہونے والے دکن کالج، پونا کے مختصر مدتی سرمااور طویل مدتی گرما اسکولوں میں لسانیات کا درس دینے پر مامور ہوئے تھے۔ ان اسکولوں کا انعقاد تقریباً دس سال تک مختلف مراکز پر ہوتا رہا۔ مسعود حسین خاں نے ٹریوینڈرم (کیرالہ) کے لسانیات کے سمر اسکول میں استاد کی حیثیت سے آخری بار 1964میں شرکت کی تھی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ لسانیات کی تعمیر و ترقی اور شیرازہ بندی میں ان کی خدمات لائقِ ستائش ہیں۔
مسعود حسین خاں 3نومبر 1973کو جامعۂ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی) کے وائس چانسلر کے عہدے پر فائز ہوئے اور 15 اگست 1978کو اس عہدے سے مستعفی ہو کر علی گڑھ آ گئے۔ اس عہدے کی پنج سالہ مدتِ کار پوری ہونے میں صرف ڈھائی مہینے باقی رہ گئے تھے کہ وہاں کے ناگفتہ بہ حالات نے انھیں اپنے عہدے سے مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا۔ علی گڑھ آنے پر انھیں یہاں کے شعبۂ لسانیات میں دو سال کے لیے دوبارہ تقرری (Reappointment)مل گئی۔ اس کے بعد وہ اس شعبے میں ایک سال تک وزٹنگ پروفیسر بھی رہے۔ ستمبر 1981میں ان کا شعبۂ لسانیات سے تعلق بالکل ختم ہو گیا۔ اسی سال ان کا تقرر اقبال انسٹی ٹیوٹ، کشمیر یونیورسٹی (سری نگر) میں وزٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے ہو گیا جہاں انھوں نے اقبال کا جم کر مطالعہ کیا اور درس بھی دیا۔ علاوہ ازیں ایک تنقیدی کتاب ’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘ بھی تصنیف کی جس پر انھیں ساہتیہ اکادمی کا 1984کا اردو ایوارڈ ملا۔ کشمیر سے واپسی پر انھیں ترقیِ اردو بیورو (اب نیشنل کونسل فار پروموشن آف اردو لینگویج[NCPUL]، نئی دہلی کی اردو-اردو لغت کا چیف ایڈیٹر مقرر کیا گیا۔ انھوں نے علی گڑھ ہی میں رہ کر تدوینِ لغت کا یہ کام شروع کیا جو 1985تک جاری رہا۔
اعزازات و انعامات اور علمی اسفار
جس زمانے میں مسعود حسین خاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں ریڈر تھے، اسی زمانے (1958)میں وہ امریکہ کی ایسوسی ایشن آف ایشین اسٹڈیز (Association of Asian Studies) کی سینیر فیلوشپ کے اعزاز سے سرفراز ہوئے جس کے تحت انھوں نے وہاں کی ٹیکسس یونیورسٹی (آسٹن) اور ہارورڈ یونیورسٹی میں قیام کے دوران میں لسانیات اور اس کی شاخ اسلوبیات (Stylistics)میں اعلیٰ تربیت حاصل کی۔ آسٹن میں اپنے قیام کے دوران میں انھوں نے مشہور ماہرِ اسلوبیات اور نقاد آر کی بالڈ اے.ہل (1902-1992)کے لکچرز میں شرکت کی اور ہارورڈ یونیورسٹی میں ممتاز ادبی نقاد آئی.اے.رچرڈز(1893-1979)سے استفادہ کیا۔ اگلے سال (1959)ان کا تقرر یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، برکلے کے ڈپارٹمنٹ آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیز میں وزٹنگ ایسوسی ایٹ پروفیسر (Visiting Associate Professor)کی حیثیت سے ہو گیا جہاں انھوں نے علمی کاموں میں منہمک رہنے کے علاوہ اردو اور ہندی کی تدریس کے فرائض بھی انجام دیے۔ برکلے میں ایک سال گزارنے کے بعد 1960 میں وہ وطن واپس آ گئے۔
مسعود حسین خاں نے اکتوبر 1969تا مئی1975انجمن ترقیِ اردو (ہند) کے قائم مقام سکریٹری کی حیثیت سے کام کیا۔ علاوہ ازیں وہ اس انجمن کی مجلسِ عام کے حیاتیاتی رکن (Life Member)بھی رہے۔ وہ 1978میں نیشنل کونسل فار پروموشن آف اردو لینگویج(NCPUL)، نئی دہلی کے وائس چیرمین (نائب صدر) کے عہدے پر فائز ہوئے۔ وہ اس کونسل کی (جس کا نام پہلے ترقیِ اردو بیورو تھا) لسانیات کی اصطلاحات کمیٹی کے صدر بھی رہے۔ مسعود حسین خاں گیان پیٹھ ایوارڈ کے انتخابی بورڈ کے دس سال تک (1974-84) صدر رہے۔ علاوہ ازیں وہ 1970تا 1972علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسٹاف ایسو سی ایشن کے صدر بھی رہے۔
مسعود حسین خاں، رشید احمد صدیقی کی تحریک پر پہلی بار 1973میں جامعۂ اردو، علی گڑھ کے شیخ الجامعہ(وائس چانسلر) منتخب ہوئے۔ انھوں نے تقریباً 25سال تک اس ادارے کی اعزازی خدمات انجام دیں۔ اس دوران میں جامعۂ اردو کا نہ صرف وقار بلند ہوا، بلکہ اس کی توسیع و ترقی کے امکانات بھی روشن ہوئے۔ وہ 1987میں شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایمے ریٹس پروفیسر (Emeritus Professor)کے اعزاز سے سرفراز ہوئے۔ یہ اعزاز ملنے پر انھوں نے 13جنوری 1988کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اپنا خطبہ بہ عنوان ’’اردو زبان: تاریخ، تشکیل، تقدیر‘‘ پیش کیا جس کی صدارت یونیورسٹی کے وائس چانسلر سید ہاشم علی نے فرمائی۔ اس خطبے کو سننے کے لیے کثیر تعداد میں اساتذہ و طلبہ آرٹس فیکلٹی لاؤنج میں جمع ہوئے۔ مسعود حسین خاں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس (علی گڑھ) کے صدر بھی منتخب ہوئے اور تا دمِ آخر اس عہدے سے سرفراز رہے۔ یہ وہ با وقار عہدہ ہے جس پر کبھی سرسید احمد خاں (1817-1898)فائز ہوئے تھے۔
اعزازات کے علاوہ مسعود حسین خاں کئی انعامات سے بھی سرفراز ہوئے۔ انھیں اتر پردیش اردو اکادمی کے انعامات پہلی بار 1957میں ’دو نیم‘(مجموعۂ کلام) پر، دوسری بار 1970میں ’ابراہیم نامہ‘(مرتبہ) پر، اور تیسری بار 1974میں ’اردو کا المیہ‘ پر ملے۔ ’اردو کا المیہ‘ مسعود حسین خاں کے تحریر کردہ ہفت روزہ ’ہماری زبان‘ (انجمن ترقیِ اردو[ہند])کے اداریوں اور اسی ہفت روزہ میں ’میرا صفحہ‘ (کالم) کے تحت شائع شدہ ان کے مضامین کا مجموعہ ہے جسے راقم السطور نے مرتب کر کے شعبۂ لسانیات (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) کی جانب سے 1973میں شائع کیا۔ مسعود حسین خاں کو ان کی مجموعی علمی و ادبی خدمات پر 1982میں اتر پردیش اردو اکادمی کا خصوصی انعام بھی ملا۔ ساہتیہ اکادمی (حکومتِ ہند) نے ان کی تنقیدی کتاب ’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘ پر انھیں 1984کا اردو ایوارڈ پیش کیا۔ وہ 1986میں کراچی (پاکستان) کے نیاز فتح پوری ایوارڈ سے بھی سرفراز ہوئے۔ اس سلسلے میں منعقدہ جلسے میں مسعود حسین خاں نے اپنا گراں قدر خطبہ بہ عنوان ’’نیاز فتح پوری کا اسلوبِ نگارش‘‘ پیش کیا جو بعد میں رسالہ ’نگارِ پاکستان‘(کراچی) کے شمارہ نمبر 2، بابت فروری1987میں شائع ہوا۔ مسعود حسین خاں کے اعزاز میں غالب انسٹی ٹیوٹ (نئی دہلی) کی جانب سے علی گڑھ میں 20فروری 2010کو ایک تہنیتی جلسے کا انعقاد کیا گیا جس میں مقررین نے ان کی علمی، ادبی، تحقیقی اور لسانی خدمات کی ستائش کی۔ اس جلسے میں مسعود حسین خاں کی شخصیت اور علمی خدمات پر غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے شائع شدہ ایک کتاب کی رسمِ اجرا بھی عمل میں آئی اور انھیں انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے ایک سپاس نامہ بھی پیش کیا گیا۔ اردو زبان و ادب کی بیش بہا خدمات کے لیے مسعود حسین خاں دہلی اردو اکادمی کے سب سے بڑے اعزاز ’کل ہند بہادر شاہ ظفر ایوارڈ‘ سے بھی سرفراز ہوئے۔ یہ ایوارڈ مارچ 2010میں دہلی میں منعقدہ ایک پر وقار تقریب میں دہلی کی وزیرِ اعلیٰ مسز شیلا دکشت نے، جو اردو اکادمی، دہلی کی صدر (Chairperson)بھی تھیں، اپنے دستِ مبارک سے انھیں پیش کیا۔ اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ نے فرمایا کہ ’’اردو ایک خوب صورت اور شیریں زبان ہے، ہر قیمت پر اس کا تحفظ لازمی ہے۔ ‘‘ علاوہ ازیں غالب انسٹی ٹیوٹ (نئی دہلی) نے مسعود حسین خاں کو ان کی ادبی خدمات کے لیے 1999میں ’غالب ایوارڈ‘ بھی دیا۔ ان کی خدمت میں مجلسِ فروغِ اردو ادب، دوحہ (قطر) کا با وقار عالمی فروغِ اردو ادب ایوارڈ‘ بھی پیش کیا گیا۔
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے، مسعود حسین خاں نے لسانیات کی اعلیٰ تعلیم و تربیت کے لیے 1950میں پہلے لندن، پھر 1951میں فرانس کا سفر کیا جہاں وہ دو سال تک مقیم رہے۔ وہ علمی استفادے اور اردو، ہندی کی تدریس کی غرض سے 1958میں امریکہ بھی گئے اور دو سال تک وہاں قیام کیا۔ انھوں نے مرکزی وزارتِ فروغِ انسانی وسائل اور وزارتِ خارجہ (حکومتِ ہند) کے ایک خیر سگالی و ثقافتی وفد کے رکن کی حیثیت سے 1986میں پاکستان کا دورہ کیا۔ اس وفد کے لیڈر معروف اردو ادیب و شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ (1909-1992)تھے۔ اس سفر کے دوران مسعود حسین خاں کو موہن جوداڑو کے قدیم آثار دیکھنے کا بھی موقع ملا۔ وہ ایک سرکاری ڈیلی گیٹ کی حیثیت سے 1976میں ڈھاکہ گئے۔ انھوں نے 1976ہی میں حکومتِ ہند کے سرکاری حج ڈیلی گیشن کے رکن کی حیثیت سے سعودی عرب کا بھی دورہ کیا اور حج و زیارت کی سعادت حاصل کی۔ عالمی اسلامی تعلیمی کانفرنس کے سلسلے میں انھوں نے 1977میں سعودی عرب کا دوسرا دورہ کیا۔ اس کے بعد ایک علمی سیمینار میں شرکت کی غرض سے وہ 1984میں اردن گئے۔
مسعود حسین خاں 1996میں اپنی اہلیہ نجمہ کے ساتھ نجی دورے پر آخری بار امریکہ گئے اور اپنی بیٹی شاہدہ اور داماد ڈاکٹر شارق عالم خاں آفریدی کے یہاں نیوجرسی میں چند ماہ قیام کرنے کے بعد وطن واپس آ گئے۔
صحت و تندرستی، علالت اور وفات
مسعود حسین خاں بنیادی طور پر ایک عملی انسان تھے۔ انھوں نے تمام عمر علمی و ادبی کاموں میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ وہ جہاں بھی رہے سرگرمِ عمل رہے۔ وہ اپنی فعال زندگی میں اپنی صحت کی جانب سے کبھی غافل نہ ہوئے۔ پابندیِ وقت کے ساتھ ٹہلنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ راقم السطور نے انھیں اکثر علی الصبح نقوی پارک(یونیورسٹی سے متصل پارک) کی جانب تیز تیز قدموں سے ٹہلتے ہوئے دیکھا ہے، لیکن وہ اکثر شام کو بھی ٹہلنے نکل جاتے تھے اور اپنی رہائش گاہ ’جاوید منزل‘ (واقع جامعۂ اردو روڈ، دودھ پور) سے میڈیکل کالج کی جانب ٹہلتے ہوئے کافی دور تک نکل جاتے تھے۔ ان کے ہاتھ میں بید (چھڑی) ضرور ہوتی تھی اور سر پر مغربی طرز کی کیپ (Cap)۔ گرمیوں میں وہ پینٹ اور شرٹ میں ملبوس ہوتے تھے، لیکن سردی شروع ہوتے ہی وہ بند گلے کا کوٹ یا اووَر کوٹ پہن کر گھر سے نکلتے تھے۔ اکثر گرم شروانی، پتلی مہری کا پاجامہ اور دو پلی ٹوپی زیبِ تن کیے ہوتے تھے۔ آنکھوں پر عینک ضرور ہوتی تھی۔
کھانے پینے میں وہ بے حد احتیاط برتتے تھے۔ جن چیزوں میں فیٹ (Fat)کا عنصر ہوتا تھا ان سے وہ احتراز کرتے تھے۔ مرغن غذائیں انھیں مرغوب نہ تھیں۔ و ہ ایسی غذائیں کھانا پسند کرتے تھے جن میں فَیٹ کے بجائے پروٹین کی مقدار زیادہ ہوتی تھی۔ مچھلی وہ بہت شوق سے تناول فرماتے تھے۔ موسم کے تازہ پھل کھانے کے تو وہ عادی تھے۔ اکثر وہ اپنی پسند کے پھل خود بازار سے خرید کر لاتے تھے۔ سنترے کا جوس (عرق) بھی انھیں بے حد مرغوب تھا۔ کبھی کبھی عمدہ قسم کی آئس کریم سے بھی شوق فرماتے تھے۔ انھوں نے ’بنتِ عنب‘ کو کبھی منہ نہیں لگایا (مغربی ممالک میں قیام کے دوران میں بھی نہیں !) سگریٹ، سگار، تمباکو یا پان کی لت انھوں نے کبھی نہیں ڈالی۔ ہاں، اپنے ملنے جلنے والوں کے ساتھ بیٹھ کر چائے یا کافی نوش فرمانے سے انھیں پرہیز نہ تھا، لیکن ان کی چائے میں شکر ندارد ہوتی تھی اور دودھ بہ قدرِ اشکِ بلبل ہوتا تھا۔ وہ اکثر شام کو ٹہلتے ہوئے راقم السطور کے غریب خانے پر تشریف لاتے تھے۔ جب انھیں چائے پیش کی جاتی تو فرماتے، ’’چائے میں دودھ ڈالنے کا اختیار مجھے ملنا چاہیے، ‘‘ اور خود دودھ دانی لے کر اپنی چائے کے کپ میں حسبِ ضرورت دودھ ڈال لیتے تھے۔ کافی (Coffee)بھی انھیں بے حد مرغوب تھی۔ اکثر سردیوں میں وہ کافی پینا (اور پلانا بھی) پسند کرتے تھے۔
مسعود حسین خاں جسمانی طور پر دراز قد، قوی الجثہ اور بھاری بھرکم ڈیل ڈول والے آفریدی پٹھان تھے۔ ان کی رنگت گوری اور سرخی مائل تھی۔ پیشانی چوڑی اور ناک نقشہ خوبصورت تھا۔ وہ جس محفل یا مجلس میں ہوتے، سب میں نمایاں نظر آتے اور دور سے پہچان لیے جاتے۔ وہ جلدی جلدی قدم اٹھا کر تیز چلنے کے عادی تھے۔ ان کے ساتھ چلنے والا اکثر ان کے پیچھے رہ جاتا تھا۔ وقت کی ان کے نزدیک بے حد قد ر تھی۔ وقت سے سونا، وقت سے جاگنا، وقت سے ٹہلنا، وقت سے کھانا پینا اور ہر کام اپنے معمول کے مطابق وقت پر کرنا ان کی عادت بن گئی تھی جس کے ساتھ وہ کوئی سمجھوتا نہیں کر سکتے تھے۔
مسعود حسین خاں نے اپنی صحت و تندرستی کا ہمیشہ خیال رکھا اور اس معاملے میں وہ ہمیشہ محتاط رہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کھانسی یا زکام جیسے عام عارضے سے بھی ہمیشہ محفوظ رہے۔ بہت کم سننے میں آیا کہ وہ علیل ہیں۔ وہ ڈائی بیٹک(Diabetic)ضرور تھے، اسی لیے انھیں شکر اور میٹھی چیزوں سے پرہیز تھا۔ آشوبِ چشم کے بھی وہ شکار رہے تھے اور آنکھ کی جراحی (Eye Surgery) کے مرحلے سے گذر چکے تھے۔ افسوس کہ آخری زمانے میں ان کی بینائی بہت کمزور ہو گئی تھی اور انھوں نے لکھنا پڑھنا تقریباً بند کر دیا تھا۔
انتقال سے تقریباً 15سال قبل (غالباً 1995میں )، مسعود حسین خاں کو ایک موذی مرض پارکنسنس(Parkinson’s Disease)نے آ گھیرا تھا جس کا اثر روز بروز بڑھتا گیا تھا۔ انھیں خود بھی اس کا علم تھا، چنانچہ ایک جگہ انھوں نے لکھا ہے کہ ’’امریکہ سے واپسی پر 1996سے پارکنسنس کا علاج جاری [ہے]، انفعالیت بڑھتی جا رہی ہے اور اس کے ساتھ مایوسی بھی …‘‘(8)انھیں اس بات کا بھی علم تھا کہ اس مرض کا کوئی علاج نہیں ہے۔ انھوں نے ’ورودِ مسعود‘ کے دوسرے ایڈیشن (جو شائع نہ ہوسکا) کے لیے جو آخری باب ’’علی گڑھ تا خدا گڑھ‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا اور جس کا ذیلی عنوان ’’رخصت اے بزمِ جہاں …‘‘ قائم کیا تھا، اس میں اِس بیماری کا تفصیل سے ذکر ملتا ہے۔ انھوں نے نہایت کرب کے عالم میں ذیل کی سطور سپردِ قلم کی تھیں :
’’پارکنسنس(Parkinson’s)کی بیماری نے مجھے اپنی مٹتی ہوئی زندگی کا تماشا دیکھنے کی فرصت فراہم کی ہے۔ اب مَیں اپنی عمر کا 86واں سال مکمل کر رہا ہوں اور اکیسویں صدی میں داخل ہو چکا ہوں۔ پارکنسنس قلب کی بیماری سے بالکل مختلف بیماری ہے۔ اس کی آماجگاہ انسان کا دماغ ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس تا حال لا علاج مرض میں بتدریج مرنے کو کس شے سے تشبیہ دوں … اس بیماری کے رومانی عذاب کا اندازہ صرف وہ لوگ جانتے ہیں جو دماغ اور اعصاب کی بتدریج موت کا تجربہ رکھتے ہیں، بشرطیکہ وہ نیستی کے خوف پر فتح پا چکے ہوں۔ یہ مرض انسان سے اعلیٰ ترین جرأت کا خواست گار ہے۔ مریض کو اچھی طرح سے علم ہوتا ہے کہ اس مرض کا تا حال کوئی علاج دریافت نہیں ہوسکا ہے۔ اب تک اس کی ساری دوائیں تخفیفِ شدتِ مرض کی ہیں، شفا کی نہیں۔ اس کا آدھا علاج مریض خود کرتا ہے۔ دوا اور غذا کی احتیاط، ایک منظم طرزِ حیات، ترکِ کام و دہن کی لذت۔ اس کے مریض کو ان سے زیادہ شعر و موسیقی میں سکون ملتا ہے…‘‘(9)
اس تحریر کے آخر میں مسعود حسین خاں نے اپنا یہ شعر درج کیا تھا:
تو نے مٹی سے بنایا تھا مجھے
ڈھیر مٹی کا ہوا چاہتا ہوں
ان کے جسم میں اس مرض کے Symptomsبدستور جاری رہے اور مرض میں بتدریج شدت پیدا ہوتی گئی، چنانچہ رفتہ رفتہ دماغ نے کام کرنا بند کر دیا اور ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہو گئی اور آخری زمانے میں تو وہ اپنے اہلِ خانہ کو بھی پہچاننے سے قاصر تھے۔ جب ان کی حالت کافی بگڑنے لگی تو انھیں یونیورسٹی کے جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج ہسپتال میں داخل کیا گیا جہاں وہ کئی روز تک کوما (Coma)میں رہے۔ مرض میں افاقہ نہ ہونے کی صورت میں انھیں گھر لایا گیا جہاں انھوں نے 15اور 16اکتوبر 2010کی درمیانی شب میں ایک بج کر دس منٹ پر اس جہانِ فانی کو خیرباد کہا۔ اسی روز (16اکتوبر2010) بعد نمازِ ظہر منٹوئی (یونیورسٹی قبرستان) میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 91 سال، 8ماہ، اور 18دن تھی۔
سیرت و شخصیت اور مزاج کی افتاد
مسعود حسین خاں طبعاً خوش مزاج واقع ہوئے تھے۔ ان کی تحریر و تقریر میں مزاح کی چاشنی پائی جاتی تھی اور کبھی کبھی طنز کے نشتر بھی۔ وہ شوخیِ گفتار کے دھنی تھے اور باتوں ہی باتوں میں ایسے پُر لطف جملے، فقرے اور ترکیبیں استعمال کر جاتے تھے جن سے ان کا مخاطَب محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اس کی چند مثالیں ان کے خطوط سے پیش کی جاتی ہیں جو انھوں نے اپنے دوستوں اور خوردوں کو لکھے تھے:
مسعود حسین خاں (جو آفریدی پٹھان تھے) 1973میں جامعۂ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی) کے وائس چانسلر کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ جامعہ والے وائس چانسلر کو ’شیخ الجامعہ‘ کہتے ہیں۔ ظہیر احمد صدیقی نے انھیں شیخ الجامعہ بننے پر مبارک باد کا خط لکھا۔ مسعود حسین خاں نے انھیں جواب میں لکھا: ’’عنایت نامہ ملا۔ جی ہاں، ’شیخ‘ بنا دیا گیا ہوں۔ یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک پٹھان کو شیخ کا منصب عطا کیا گیا ہے۔ ‘‘(10)
مرزا خلیل احمد بیگ نے جب خط لکھ کر مسعود حسین خاں کو جامعۂ ملیہ اسلامیہ کا وائس چانسلر بننے کی مبارک باد دی تو جواب میں انھوں نے لکھا : ’’تہنیت کا شکریہ …دوستوں سے کہتا ہوں کہ میں نے اردو میں ایک نئے محاورے کا اضافہ کیا ہے لوگ کہتے ہیں ’اوکھلی میں سر دینا‘، میں نے اوکھلا میں سر دیا ہے۔ ‘‘(11)جامعۂ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں اوکھلا کے علاقے میں واقع ہے۔ محاورے سے قطع نظر، مسعود حسین خاں نے یہاں لفظِ ’اوکھلا‘ کا ذو معنی استعمال کیا ہے۔ ’اوکھلی‘ چوں کہ اسمِ مؤنث ہے اور کنایۃً صفتِ تصغیر سے متصف ہے، اس لیے انھوں نے اس کی مذکر شکل ’’اوکھلا‘‘ (یعنی اوکھلی سے بڑی چیز) کا استعمال کر کے مزاح کا حسن پیدا کیا ہے۔
مسعود حسین خاں نے غالب اکادمی (نئی دہلی) میں لغت نویسی کے مسائل پر ایک خطبہ دیا تھا جس میں یہ کہا تھا کہ ’’ہ‘‘ (ہائے ہوز)اور ’’ھ‘‘(ہائے مخلوط) کا امتیاز سب سے پہلے مولوی عبدالحق نے متعین کیا تھا۔ اس خطبے کے بعد رشید حسن خاں نے انھیں خط لکھ کر ہائے مخلوط والے حروف (بھ، پھ، تھ، وغیرہ) کے سلسلے میں بعض نئی معلومات فراہم کی تھیں۔ مسعود حسین خاں کو اس خطبے کے دوران میں رشید حسن خاں کہیں نظر نہیں آئے تھے (حالاں کہ وہ وہاں موجود تھے)۔ مسعود حسین خاں نے رشید حسن خاں کو ان کے خط کا جواب دیتے ہوئے لکھا: ’’حروفِ مخلوط (بھ، پھ وغیرہ) کے سلسلے میں نئی معلومات کا شکریہ … لیکن یہ تو بتائیے آپ خطبے کے دن تھے کہاں ؟ مجھے تو آپ کہیں نظر نہیں آئے۔ شاید مجمع میں ہائے مخلوط بن کر خلط ملط ہو گئے تھے۔ ‘‘(12)
مسعود حسین خاں نے خلیق انجم کو ایک خط میں لکھا: ’’معلوم نہیں آپ کے علم میں ہے کہ نہیں، پریم چند کے سپوت امرت رائے نے … اردو بے چاری کے خلاف اپنی تازہ تصنیف A House Dividedمیں زہر اگلا ہے۔ یہ تصنیف دیدۂ عبرت نگاہ سے دیکھنے کے قابل ہے … اردو والے اردو کے ’کفن‘ میں لپٹے رہتے ہیں اور انھیں پتا بھی نہیں چلتا کہ انگریزی کے وسیلے سے ہمارے خلاف بات سات سمندر پار جا رہی ہے۔ ‘‘(13) غالباً یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ ’کفن‘ پریم چند کے ایک اردو افسانے کا نام بھی ہے۔ یہاں لفظِ کفن کے ذو معنی استعمال سے گہرا طنز پیدا کیا گیا ہے۔
کبیر احمد جائسی نے مسعود حسین خاں کو موسمِ سرما میں سری نگر (کشمیر) سے ایک خط لکھا جس میں علاوہ اور باتوں کے وہاں کی سردی کا بھی ذکر تھا۔ مسعود حسین خاں نے جب اس خط کا جواب دیا تو لکھا: ’’یہاں بھی کل بارش ہو جانے سے ہوا میں سردی اور سرد مہری دونوں بڑھ گئی ہیں۔ ‘‘(14)
گیان چند جین کے نام اپنے ایک خط میں مسعود حسین خاں نے ’’آشنا‘‘، ’’آشنائی‘‘ اور ’’داشتہ‘‘ جیسے الفاظ کے استعمال سے مزاح کی چاشنی پیدا کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ’’آپ کی فرستادہ گراں قدر تصانیف ’اردو ادب میں ہندی ادب کا اثر‘ اور ’ذکر و فکر‘ دست بدست موصول ہوئیں۔ دونوں سے میں عرصۂ دراز سے آشنا تھا۔ اب ’داشتہ‘ بن جانے کے بعد ان سے ’آشنائی‘ کا درجہ حاصل ہو جائے گا۔ ‘‘ (15)
مسعود حسین خاں کی شخصیت کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ وہ نہایت خندہ رو واقع ہوئے تھے۔ دمِ گفتگو ان کا چہرہ متبسم رہتا تھا۔ وہ جب بھی کسی سے بے تکلفانہ انداز میں ہم کلام ہوتے تھے تو ہنس مکھ نظر آتے تھے۔ حلم و بردباری اگرچہ ان کا شیوہ تھی، تاہم ’پٹھانی جلال‘ انھیں ورثے میں ملا تھا جس کی جھلک کبھی کبھی دیکھنے کو مل جاتی تھی۔ اشخاص کی پسند و ناپسند کا ان کا اپنا پیمانہ تھا۔ اگر وہ کسی کو ناپسند کرتے تھے تو اس کی کچھ وجوہات ہوتی تھیں جن سے وہ سمجھوتا نہیں کر سکتے تھے۔ وہ کسی شخص سے بلا وجہ ناراض نہیں ہوتے تھے۔ ناراضگی کی وجہ عموماً اس شخص کی سرکشی و نافرمانی یا قبیح و ناپسندیدہ حرکات ہوتی تھیں۔ ایسی صورت میں مصالحت کے تمام دروازے بند ہو جاتے تھے اور وہ شخص سماجی و سیاسی یا ادبی اعتبار سے خواہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو، اسے وہ یک قلم Write off کر کے ہمیشہ کے لیے بھول جاتے تھے۔ اپنے ایک شاگرد سے ناراضگی کا حال بیان کرتے ہوئے انھوں نے ’ورودِ مسعود‘ میں لکھا ہے کہ ’’عرصہ ہوا میں ان سے دست بردار ہو چکا ہوں۔ ‘‘(16)اسی طرح جب وہ اپنے ایک اور شاگرد سے ناراض ہوئے تو ان کے بارے میں لکھا کہ ان سے ’’مصالحت کی کوئی شکل ممکن نہیں۔ ‘‘(17)
مستثنیات سے قطع نظر، مسعود حسین خاں اپنے شاگردوں سے ہمیشہ محبت و شفقت سے پیش آتے تھے اور ان سے غایت درجہ ہم دردی رکھتے تھے۔ وہ ان کی ہر ممکن مدد کے لیے بھی ہمیشہ تیار رہتے تھے۔ یہ انھیں کا طفیل ہے کہ ان کے شاگردوں نے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اپنی عملی زندگی میں بے مثال کامیابیاں حاصل کیں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے شاگردوں نے ان کے تئیں اپنے دل میں ہمیشہ عزت و احترام کا جذبہ رکھا۔
مسعود حسین خاں کی سیرت و شخصیت کا ایک نمایاں پہلو یہ تھا کہ ان کے اندر اعلیٰ اخلاقی قدروں کا پاس تھا۔ علاوہ ازیں شرافت، حلم و بردباری، عزتِ نفس، خود داری، نیکی، ایمان داری، سچائی، دیانت داری، حق گوئی، اصول پسندی، نرم خوئی، خوش مزاجی اور شائستگی یہ سب قدریں ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھیں۔ (18)
مسعود حسین خاں کی اصول پسندی اور دیانت داری کے ایک واقعے کا ذکر عبد اللطیف اعظمی نے ان پر لکھے ہوئے اپنے ایک مضمون میں نہایت صاف گوئی سے کیا ہے۔ عبد اللطیف اعظمی جامعۂ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی) میں وائس چانسلر کے پی اے (P.A.)کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ جب مسعود حسین خاں کا تقرر جامعۂ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر کی حیثیت سے ہو گیا تو انھوں نے علی گڑھ جا کر ان سے تحریری رضا مندی لی، اور دریافت کیا کہ ’’آپ کب اور کس ٹرین سے دہلی تشریف لا رہے ہیں تاکہ مَیں کار لے کر اسٹیشن پر آپ کا استقبال کروں۔ ‘‘ عبد اللطیف اعظمی کو مسعود حسین خاں کا جواب سن کر سخت حیرت ہوئی، کیوں کہ انھوں نے فرمایا کہ ’’جب تک مَیں اپنے عہدے کا چارج نہ لے لوں، اس وقت تک جامعہ کی کار کیوں کر استعمال کر سکتا ہوں ؟‘‘(19)عبد اللطیف اعظمی لکھتے ہیں کہ ’’یہ جواب میرے لیے حیرت کا باعث اور غیر متوقع اس لیے تھا کہ مَیں نے اپنے طویل تجربے میں دیکھا تھا کہ اچھے اچھے لوگ یونیورسٹی کی کار کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ مسعود صاحب تو بہرحال منتخب شیخ الجامعہ تھے اور اس ذمہ داری کو قبول کر لینے کے بعد میرے خیال میں جامعہ کی کار کو استعمال کرنے کے مستحق اور حق دار تھے۔ خوشی کی بات ہے کہ ان کی یہ احتیاط آخر تک قائم رہی۔ ‘‘(20)
مسعود حسین خاں نے جامعۂ ملیہ اسلامیہ کی و ائس چانسلر شپ سے، اپنی پنج سالہ مدتِ کار ختم ہونے سے ڈھائی ماہ پیشتر استعفیٰ دے دیا تھا، کیوں کہ اساتذہ کے مختلف گروپوں نے حالات ہی ایسے پیدا کر دیے تھے۔ عبد اللطیف اعظمی نے وہاں کے حالات کا بڑی باریک بینی سے تجزیہ کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’’مسعود صاحب ہر طرح کامیاب ہوتے اگر ان میں دو خامیاں نہ ہوتیں : ایک ضرورت سے زیادہ ایمان داری اور دوسرے ان کی ’پٹھانیت‘۔ ان دونوں وجہوں سے وہ حالات سے سمجھوتا نہیں کر سکتے تھے۔ ‘‘(21)
جامعہ میں مسعود حسین خاں کو بہ حیثیت وائس چانسلر جس نا کامیابی کا سامنا کرنا پڑا تھا اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ خالص علمی و ادبی انسان تھے، اور ان کا سروکار ہمیشہ علم و ادب اور تحقیق و تدوین ہی سے رہا تھا۔ انتظامی امور سے انھیں نہ تو کوئی دل چسپی تھی اور نہ اس کا کوئی تجربہ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ نا مناسب جگہ پر پہنچ گئے تھے۔ انھوں نے ’ورودِ مسعود‘ میں خود اس امر کا اعتراف کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’انتظامی امور میری سرشت سے بعید تھے۔ ‘‘(22)
انھوں نے آگے چل کر لکھا:
’’بنیادی طور پر میرے ذہن کی افتاد انتظامی کے بجائے تعلیمی ہے۔ ‘‘(23)
’ورودِ مسعود‘ ہی میں ایک اور جگہ انھوں نے اس امر کا اظہار اپنے مخصوص انداز میں یوں کیا ہے:
’’اب دفتر، کار اور بنگلے کی سہولت تھی۔ پانچ اسٹار ہوٹلوں میں سرکاری ضیافتوں میں شرکت، اونچی کرسی والوں سے ملاقاتیں، یہ سب کچھ تو تھا لیکن ہمیشہ یہ احساس رہا کہ میاں مسعود! نہ یہ تمھارا صحیح مقام ہے اور نہ منصب۔ ‘‘(24)
مسعود حسین خاں طبعاً کم آمیز اور خلوت پسند واقع ہوئے تھے۔ ان کے دوستوں اور ملنے والوں کا حلقہ ہمیشہ بہت محدود رہا۔ کسی زمانے میں ان کے ملنے والوں میں محمد عمر الدین، ظفر احمد صدیقی، اختر انصاری، معین احسن جذبی وغیرہ تھے۔ رشید احمد صدیقی سے انھیں والہانہ لگاؤ تھا۔ ان کے یہاں وہ پابندی سے جایا کرتے تھے۔ آل احمد سرور کے یہاں بھی وہ اکثر جاتے تھے۔ مختار الدین احمد (1924-2010)سے بھی ان کے دوستانہ مراسم تھے اور ان دونوں کا ایک دوسرے کے یہاں آنا جانا تھا۔ ریاض الرحمن خاں شروانی(شعبۂ عربی) کو بھی میں نے ان کے یہاں اکثر دیکھا ہے۔ ظہیر احمد صدیقی(شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی) جب دہلی سے علی گڑھ منتقل ہوئے تو وہ بھی ان کے حلقۂ احباب میں شامل ہو گئے۔ ان کے علاوہ عبدالستار دلوی ممبئی سے اور سلیمان اطہر جاوید حیدرآبادسے جب بھی کسی کام سے علی گڑھ آتے تو مسعود حسین خاں سے ملنے ان کے دولت کدے پر ضرور حاضر ہوتے۔ اولاد احمد صدیقی (آل احمد سرور کے برادرِ خورد) سے بھی مسعود حسین خاں کے دوستانہ مراسم تھے اور ایک دوسرے کے یہاں اکثر آنا جانا تھا۔ ان کے علی گڑھ کے بعض پرانے شاگرد بھی ان سے ملنے اکثر ان کے گھر آ جایا کرتے تھے جن سے وہ اسی خلوص سے ملتے تھے۔ ان کے پرانے شاگردوں میں عبدالغفار شکیل اور عبد العظیم (1933-2014)کے نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔ آخری زمانے میں آخر الذکر سے ان کے شدید اختلافات پیدا ہو گئے تھے جن کا ذکر انھوں نے اپنی خود نوشت ’ورودِ مسعود‘ میں بھی کیا ہے۔
مسعود حسین خاں ذہنی طور پر عقلیت پسند واقع ہوئے تھے۔ مذہب سے ان کی دوری کی بنیادی وجہ یہی تھی۔ راقم السطور کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے فرمایا تھا کہ وہ فکر کا کوئی ’’سانچہ‘‘ نہیں رکھتے ’’اور نہ مذہب کا!‘‘(دیکھیے انٹرویو ’’مسعود حسین کا نظریۂ شعر اور شعری محرکات و اکتسابات[ایک گفتگو کی یاد داشت]، ‘‘ مشمولہ ’ادبی تنقید کے لسانی مضمرات از مرزا خلیل احمد بیگ، ص 201)۔ انھوں نے ’ورودِ مسعود‘ میں بھی ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’میں کسی منظم مذہب کا پابند نہیں ہوں ‘‘(ص203)۔ مسعود حسین خاں اگرچہ ’’عملی مسلمان‘‘ (سوائے جامعۂ ملیہ اسلامیہ اسکول کے زمانے کے) کبھی نہیں رہے، لیکن وہ اسلام اور اسلامی اقدار کو بے حد ’’عزیز‘‘ رکھتے تھے۔ وہ اگرچہ ماہِ صیام کے روزے نہیں رکھتے تھے، لیکن ان کا احترام ضرور کرتے تھے۔
یہاں یہ عرض کرنا بے جا نہ ہو گا کہ مسعود حسین خاں اگرچہ ’’مذہبی انسان‘‘ نہیں تھے، لیکن وہ اشتراکی بھی نہیں تھے۔ انھوں نے کئی موقعوں پر کمیونسٹ آئیڈیالوجی کی سخت تنقید کی ہے۔ وہ کمیونسٹوں کے حلقے سے ہمیشہ دور رہے۔ ان کا یہی رویّہ ترقی پسند ادبی تحریک کے ساتھ بھی رہا تھا۔ اپنی شعری اٹھان کے زمانے میں انھوں نے ترقی پسند ادبی تحریک کا کوئی ’’نوٹِس‘‘ نہیں لیا۔ انھوں نے متذکرہ انٹرویو کے دوران میں راقم السطور کے ایک سوال کے جواب میں اس تحریک کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا تھا:
’’میں اس تحریک کے ماخذ اور مولد دونوں کی جانب اپنے لیے کشش نہیں رکھتا تھا۔ مجھے نہ تو مارکس کی فکر، اور نہ اسٹالن کی آمریت متاثر کر سکی۔ ‘‘(دیکھیے محولۂ بالا انٹرویو، ص 200)
مسعود حسین خاں کسی زمانے میں اقبال (1877-1938)کی فکر کے بہت قائل تھے، لیکن رفتہ رفتہ اس کے ’’ناقد‘‘ بن گئے۔ اس کے باوجود وہ اقبال کی شاعرانہ عظمت کے ہمیشہ قائل رہے۔ وہ اقبال کے ساتھ غالب (1797-1869) اور ٹیگور (1861 -1941)کے بھی ’’دلدادہ‘‘ تھے۔ غالب کے یہاں انھوں نے کسی فکر کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی، لیکن غالب کی فلسفیانہ بصیرت سے وہ کبھی کبھی ’’چونک‘‘ ضرور جاتے تھے (ایضاً، ص201)۔ انھوں نے کلاسیکی شعرا میں سب سے زیادہ مطالعہ غالب کا کیا تھا جو ان کے ’’رگ و پے‘‘ میں بس گیا تھا۔ غالب کے ساتھ انھوں نے اقبال کا بھی ’’بھرپور‘‘ مطالعہ کیا تھا۔ وہ اقبال کو غالب کے ساتھ اردو کے عظیم ترین شاعروں میں شمار کرتے تھے۔ (ایضاً، ص205)
مسعود حسین خاں کے لیے اقبال کی فکر ہمیشہ ’’جاذبِ نظر‘‘ رہی تھی، لیکن اقبال کی سیاسی فکر سے انھیں ’’سخت تکلیف‘‘ پہنچی تھی۔ اس کا اظہار انھوں نے متذکرہ انٹرویو کے دوران میں ان الفاظ میں کیا تھا:
’’1940میں مسلم لیگ کا تقسیمِ ملک کا ریزولیوشن پاس ہو جانے کے بعد اور اقبال کا آخری عمر میں قائدِ اعظم جناح کی تحریک سے خود کو وابستہ کرنے کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کی جانب جو Write off کا دونوں قائدین کا رویہ رہا ہے، اس سے مجھے سخت تکلیف رہی ہے۔ ‘‘(ایضاً، ص205)
مسعود حسین خاں کے اِس بیان سے ان کے ذ ہن کی تربیت اور افتاد کا بہ خوبی اندازہ کیا جا سکتاہے۔ ان کی ذہنی تربیت جامعۂ ملیہ اسلامیہ کے نیشنلسٹ ماحول اور قوم پرستی کی فضا میں ہوئی تھی، لہٰذا ان کا ذہن جناح اور اقبال کی سیاسی فکر سے کیوں کر ہم آہنگ ہوسکتا تھا!
٭٭
حواشی
۱ دیکھیے مسعود حسین خاں کی خود نوشت سوانح حیات ’ورودِ مسعود‘ (پٹنہ: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، 1988)، ص7۔
۲ مسعود حسین خاں کے خاندانی حالات کے لیے دیکھیے ان کی محولۂ بالا خود نوشت سوانح حیات ’ورودِ مسعود‘ کا پہلا باب، ص 7-36۔
۳ مسعود حسین خاں، ’ورودِ مسعود‘، ص9۔
۴ مسعود حسین خاں، ’’سخنِ واپسیں ‘‘، مطبوعہ ماہنامہ ’سب رس‘ (حیدرآباد)، بابت مارچ 2007، ص22۔
۵ مسعود حسین خاں، ’ورودِ مسعود‘، ص 91-93۔
۶ ایضاً، ص 297-98۔
۷ اِس بات کا ذکر مسعود حسین خاں نے راقم السطور سے ایک نجی گفتگو کے دوران میں کیا تھا۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’اس کی ماں نے اس کا نام (آدِتیہ)رکھا تھا، ‘‘ لیکن انھوں نے(مسعود حسین خاں نے) اس لفظ کا ترجمہ ’آفتاب‘ کر کے اپنے اکلوتے پوتے کا نام آفتاب حسین خاں رکھ دیا۔
۸ بحوالہ مرزا خلیل احمد بیگ، ’’پروفیسر مسعود حسین خاں : ماہ و سال کے آئینے میں ‘‘، مطبوعہ ماہنامہ ’شاعر‘(ممبئی)، جلد 80، شمارہ 9، بابت ستمبر2009، ص13۔ (دیکھیے اس توقیت نامے کے آخر میں مسعود حسین خاں کے قلم سے اضافہ)۔
۹ مسعود حسین خاں، ’’علی گڑھ تا خدا گڑھ: رخصت اے بزمِ جہاں …‘‘، [’ورودِ مسعود‘ کا آخری باب برائے طبعِ دوم]، مطبوعہ ماہنامہ ’شاعر‘(ممبئی) جلد 80، شمارہ 9، بابت ستمبر2009، ص14۔
۱۰ مسعود حسین کا خط بنام ظہیر احمد صدیقی، مشمولہ ’نذرِ مسعود‘، مرتبہ مرزا خلیل احمد بیگ (علی گڑھ: تعلیمی مرکز، 1989)، ص403۔
۱۱ مسعود حسین خاں کا خط بنام مرزا خلیل احمد بیگ، مشمولہ نذرِ مسعود‘، ص427-28۔
۱۲ مسعود حسین خاں کا خط بنام رشید حسن خاں، مشمولہ ’نذرِ مسعود‘، ص 227۔
۱۳ مسعود حسین خاں کا خط بنام خلیق انجم، مشمولہ ’نذرِ مسعود‘، ص415-16۔
۱۴ مسعود حسین خاں کا خط بنام کبیر احمد جائسی، مشمولہ ’نذرِ مسعود‘، ص 441۔
۱۵ مسعود حسین خاں کا خط بنام گیان چند جین، مطبوعہ ماہنامہ’ کتاب نما‘ (نئی دہلی)، جلد 32، شمارہ 10، بابت اکتوبر1992(گوشۂ مسعود حسین خاں )، ص 71۔
۱۶ مسعود حسین خاں، ’ورودِ مسعود‘، ص 159۔
۱۷ ایضاً، ص 257۔ انھی شا گرد کے بارے میں مسعود حسین خاں نے مزید لکھا کہ’’ اندیشہ ہے کہ اپنے ریٹائرمنٹ تک وہ شعبے کو مکمل طور پر تباہ کر جائیں گے۔ ‘‘(ایضاً، ص258)۔
۱۸ مسعود حسین خاں اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں : ’’میری اقدارِ عالیہ کا سب سے بڑا اصول دیانت داری ہے، دو سروں سے اور خود اپنے سے… یہی میرا رویہ سچ اور حق کے بارے میں رہا۔ ‘‘دیکھیے مسعود حسین خاں کا مضمون ’’جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے‘‘، مطبوعہ پندرہ روزہ ’آواز‘ (نئی دہلی)، جلد 52، شمارہ 1، بابت یکم تا 15جنوری1987۔
۱۹ دیکھیے عبد اللطیف اعظمی، ’’پروفیسر مسعود حسین خاں : بہ حیثیتِ شیخ الجامعہ، جامعۂ ملیہ اسلامیہ ‘‘، مشمولہ ’نذرِ مسعود‘، ص 55۔
۲۰ عبد اللطیف اعظمی، محولۂ بالا مضمون، مشمولہ ’نذرِمسعود‘، ص 55-56۔
۲۱ ایضاً، ص 58۔
۲۲ مسعود حسین خاں، ’ورودِ مسعود‘، ص 222۔
۲۳ ایضاً، ص242۔
۲۴ ایضاً، ص243۔