اِس طرح رُوٹھا ہے مجھ سے لوٹ کر آیا نہیں ایک عرصہ ہو گیا اُس شخص کو دیکھا نہیں
پوچھتے ہو بات کیا تم اُس بتِ مغرور کی اَپنی کہتا ہے کسی کی بات وہ سُنتا نہیں
بات تو اِیسی نہیں کوئی بھی میرے نام میں آپ کی نِسبت سے ہے پہچان خاص و عام میں
یوں تو پیتے تھے مگر بہکے نہ تھے پہلے کبھی آپ کی آنکھوں سے کُچھ ٹپکی ہے شاید جام میں
بات تو اِیسی نہیں کوئی بھی میرے نام میں آپ کی نِسبت سے ہے پہچان خاص و عام میں
مُجھ پہ محفل میں اُٹھی جو ہر طرف سے اُنگلیاں ہو نہ ہو تاثیر ہے یہ آپ کے اِلزام میں
بات تو اِیسی نہیں کوئی بھی میرے نام میں آپ کی نِسبت سے ہے پہچان خاص و عام میں
بھولنے سے بیشتر ہی اُڑ گیا قاصد کا رَنگ جانے اِیسی بات کیا تھی آپ کے پیغام میں
بات تو اِیسی نہیں کوئی بھی میرے نام میں آپ کی نِسبت سے ہے پہچان خاص و عام میں
میری ہر صبحو میں ہے بس آپ کے آرض کا رنگ آپ کے گیسوں کی رنگت ہے میری ہر شام میں
بات تو اِیسی نہیں کوئی بھی میرے نام میں آپ کی نِسبت سے ہے پہچان خاص و عام میں
پیار جیسی چیز ملتی ہے مقدر سے بشیرؔ ہم نے تو بکتے نہیں دیکھا اِسے نیلام میں
بات تو اِیسی نہیں کوئی بھی میرے نام میں آپ کی نِسبت سے ہے پہچان خاص و عام میں