(Last Updated On: )
بات جو کہنے کو تھی سب سے ضروری رہ گئی
کیا کیا جائے غزل پہ بھی ادھوری رہ گئی
رزق سے بڑھ کر اسے کچھ اور بھی درکار تھا
کل وہ طائر اڑ گیا پنجرے میں چوری رہ گئی
تھی بہت شفاف لیکن دن کی اڑتی گرد میں
شام تک یہ زندگی رنگت میں بھوری رہ گئی
کیوں چلے آئے کھلی آنکھوں کی وحشت کاٹنے
اس گلی میں نیند کیا پوری کی پوری رہ گئی؟
بس یہی حاصل ہوا ترمیم کی ترمیم سے
حاصل و مقصود میں پہلی سی دوری رہ گئی
کس قرینے سے چھپا یا بھید لیکن کھل گیا
غالباً کوئی اشارت لاشعوری رہ گئی
٭٭٭