راکنگ چیئیر پر بیٹھے گن ماتھے سے ٹکائے اسکی پرسوچ نظریں بار بار بیڈ پر لیٹی انا پر چلی جاتی۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس وقت کیا سوچ رہا تھا اسکے چہرے سے اندازہ لگانا مشکل تھا۔۔۔۔۔۔ اسکا چہرہ کسی بھی تاثر سے عاری تھا۔۔۔۔۔۔۔ وہ انا کو ہی گھور رہا تھا جب انا بیدار ہونا شروع ہوئی۔۔۔۔۔۔۔ ایک پراسرار مسکراہٹ اسکے چہرے پر در آئی اور وہ اٹھ کر انا کے بلکل پاس جاکر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔ وہ چاہتا تھا کہ جب انا اٹھے تو سب سے پہلے اسی کو دیکھے۔۔۔۔
دھیرے دھیرے انا کی آنکھیں کھلنا شروع ہوئی۔۔۔۔۔۔ اسکے سر میں درد سا اٹھا۔۔۔۔۔۔۔۔ جسے اس نے نظرانداز کیا۔۔۔۔۔۔ آنکھیں خالی پن لیے ارد گرد کا جائزہ لینے لگی جب وہ رستم پر جاٹکی۔۔۔۔۔ انا کے وجود میں کرنٹ سا دوڑ گیا۔۔۔۔۔ اسکی آنکھوں میں خوف پھیلنا شروع ہوگیا تھا۔۔ وہ جھٹکے سے اٹھتی رستم سے دوری بنائے پیچھے کو ہوگئی۔۔۔۔۔۔ انا کی یہ حرکت رستم کو بلکل پسند نہیں آئی اور انا کی کلائی کھینچے رستم نے اسے اپنے سینے سے لگالیا
انا اسکی گرفت میں مچلنے لگ گئی جس پر رستم مسکراہ دیا
’’پرنسز!!‘‘ رستم نے اسے نرم لہجے میں ٹوکا مگر انا تگ و دو کرتی رہی
’’پرنسز!!‘‘ اب کی بار لہجہ سرد تھا۔۔۔۔۔ انا نے خوف سے آنکھیں پھیلائے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔۔۔ جس نے اپنی گن انا کی نظروں کے سامنے لہرائی اور اسے کچھ بھی کرنے سے روکا۔۔۔۔۔ اسکا انداز وارننگ لیے ہوئے تھا
انا نے اپنے لب کچلنا شروع کردیے جب کے اب کی مزمت چھوڑ دی تھی۔۔۔۔۔ رستم کو اسکا سرنڈر کرنا بہت اچھا لگا۔۔۔۔۔ وہ ایسا ہی تھا سب کو کنٹرول میں رکھنے والا۔۔۔۔۔۔۔ وہ کسی انسان کو بھی اپنے برابر آنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔۔۔۔۔ پھر چاہے وہ اس کے ماں باپ ہوں، بہن ہوں، دوست ہوں ، بہادر خان یا اسکی پرنسز۔۔۔۔۔ وہ ہر انسان کو اسکی جگہ پر رکھتا تھا
وہ لوگوں پر حکومت کرنے کے لیے پیدا ہوا تھا کسی کی غلامی کرنے نہیں۔۔۔۔۔
انا کا دم گھٹنے لگ گیا ۔۔۔۔۔۔ اسے رستم کی نزدیکی اسکی قربت سے وحشت ہورہی تھی
’’میں نے تمہیں بہت مس کیا پرنسز۔۔۔ بہت زیادہ۔۔۔۔۔ جانتی ہوں جب تم چلی گئی تھی مجھے چھوڑ کر کیسے گزارے میں نے وہ دن۔۔۔۔۔۔ مجھے سکون نہیں مل رہا تھا۔۔۔۔۔۔ مگر اب تم ہوں میرے پاس میرے قریب۔۔۔۔۔ اور مجھے میرا سکون مل گیا ہے پرنسز۔۔۔۔ تم میرا سکون ہوں۔۔۔۔۔ کیا تم نے مجھے مس کیا پرنسز۔۔۔۔۔ جیسے میں نے کیا؟‘‘ رستم خمار آلود لہجے میں بولا۔۔۔۔۔۔ مگر انا تو کچھ بھی کہنے کے قابل نہیں تھی۔۔۔۔ اسکی زبان کو تو تالا لگ چکا تھا
’’بولو پرنسز بتاؤں مس کیا مجھے؟‘‘ اسکا سر اپنے سینے پر ٹکائے اسکے بالوں پر ہاتھ پھیرتے رستم نے دوبارہ پوچھا مگر انا خاموش رہی
’’میں نے کچھ ہوچھا ہے پرنسز مجھے اسکا جواب دوں‘‘ اسکے بالوں کو مٹھی میں دبوچتے وہ سختی سے غرایا تو انا کی چیخ نکل گئی
’’ہ۔۔ہاں کیا۔۔۔ببب۔۔۔بہت زیادہ‘‘ انا اٹک اٹک کر بولی۔۔۔۔ رستم اسکے جواب پر مسکراہ دیا
’’آئیندہ سے کچھ پوچھو تو پہلی بار میں ہی جواب دے دینا۔۔۔۔۔ مجھے مجبور مت کرنا کہ میں تمہیں کوئی تکلیف دوں۔۔۔۔۔ جو کہوں مان لینا اوکے!!‘‘ مسکراتے لب مگر سرد نگاہوں سے اسنے وارن کیا تو انا نے سر اثبات میں ہلادیا۔۔۔۔۔۔ اسے بس کسی بھی طرح رستم سے دور ہونا تھا
’’تھینکیو پرنسز۔۔۔۔۔ تھینکیو سو مچ۔۔۔۔۔ مجھے میری لائف کا سب سے قیمتی تحفہ دینے کے لیے۔۔۔۔۔۔ مجھے میرا وارث دینے کے لیے‘‘ رستم بولا تو انا کا رنگ سفید ہوگیا
’’کیا ہوا ۔۔۔۔۔۔ یہی سوچ رہی ہوں نا کہ مجھے کیسے پتا چلا؟‘‘ اسکے سفید پڑتے چہرے کو دیکھ کر رستم ہنسا
’’تمہیں کیا لگا کہ تم بھاگ جاؤ گی تو میں تمہیں ڈھونڈ نہیں پاؤں گا۔۔۔۔۔۔ تم بچ جاؤں گی مجھ سے۔۔۔۔۔۔ نہیں انا بہت بڑی غلطی کی تم نے مجھسے دور جاکر اور اسکی سزا تو میں تمہیں ضرور دوں گا۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔‘‘ اسکے دونوں کندھوں کو مضبوطی سے پکڑ کر دھاڑا۔۔۔۔۔۔ اسکی انگلیاں انا کو اپنے کندھوں میں پیوست ہوتی محسوس ہوئی۔۔۔۔۔۔ تکلیف حد سے بڑھ گئی تھی
’’مگر ابھی تمہیں صرف وہی کرنا ہے جو میں کہوں۔۔۔۔۔۔ سمجھی‘‘ پسٹل اسکے ہونٹوں پر رکھے رستم بولا
’’کک۔۔۔کیا کرنا ہے؟‘‘ انا کا حلق تک خشک ہوگیا تھا۔۔۔ رستم مسکرایا
’’ابھی ہم باہر جارہے ہیں۔۔۔۔۔۔ وہاں میں جو بھی بولو جو بھی کہوں تمہیں بس میری ہاں میں ہاں ملانی ہے سمجھی‘‘ اب گن ہونٹوں سے ماتھے پر آرکی تھی۔۔۔۔ اور ساتھ ہی انا کی سانسیں بھی اٹک گئی تھی۔۔۔۔ اسکا سر اپنے آپ ہی اثبات میں ہل گیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زرقہ کب سے ادھر ادھر چکر کاٹ رہی تھی۔۔۔ وہ بیچینی میں اپنے تمام ناخن بھی دانتوں کی مدد لیتے ہوئے تراش چکی تھی۔۔ اور لیفٹ سے رائٹ اور رائٹ سے لیفٹ چکر لگاتی اور ایک نظر بہادر خان کو گھورتی جو کمرے کے دروازے کے باہر کھڑا تھا جہاں اندر اسکا بھائی اور اسکی جان سے عزیز دوست تھی۔۔۔۔ باہر کا ماحول اندر کمرے سے بھی زیادہ ٹینشن زدہ تھا۔۔۔۔۔ نوید شیخ اور انکی بیوی دونوں پریشان سے صوفہ پر بیٹھے تھے زرقہ بھی کچھ نہیں بول رہی تھی
تھوڑی دیر میں کمرے کا دروازہ کھلا اور رستم انا کو اپنے ساتھ لگائے باہر آیا۔۔۔۔۔ اسکے چہرے پر ایک مطمئن مسکراہٹ تھی
انا کو کمر سے تھامے وہ اپنے باپ کے بلکل سامنے والے صوفہ پر بیٹھ گیا تھا۔۔۔ انا کو اس نے ابھی اپنے ساتھ لگائے ہوا تھا
وہ نوید شیخ کو دیکھ کر مسکرایا۔۔۔۔۔ چڑا دینے والی مسکراہٹ
’’یہ کیا بدتمیزی ہے رستم؟‘‘ اپنے غصے پر قابو پاتے انہوں نے رستم سے سخت لہجے میں پوچھا۔۔۔۔۔۔۔ وہ صاف دیکھ رہے تھے کہ انا بےسکون ہے
’’یہ بدتمیزی نہیں، میری ہونے والی بیوی آپ کی ہونے والی بہو اور بہت جلد اس خاندان کو اس کا وارث دینے والی میری محبت ہے‘‘ انا کا ماتھا چومتے وہ بولا
تو دونوں میاں بیوی کا منہ کھل گیا۔۔۔۔۔ جبکہ انا اور زرقہ اپنی جگہ چور بن گئی
’’کیا بکواس کررہے ہوں رستم!!!‘‘ اسکی بات کا مطلب سمجھ کر وہ دھاڑے
’’بکواس نہیں حقیقت۔۔۔۔ آپ کو مبارک ہوں ڈیڈڈڈ۔۔۔۔۔ آپ دادا بننے والے ہے‘‘ ڈیڈ لفظ پر اچھا خاصہ زور ڈال کر وہ بولا
’’مگر تمہاری تو ابھی شادی۔۔۔۔۔۔۔‘‘ اب کی بار ہمدہ بیگم بولی
’’یہ گناہ ہے رستم!!‘‘ وہ آنکھیں بڑی کیے بولی
’’اوہ پلیز مام۔۔۔۔۔ اب جب ہم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ شادی کرنے والے ہیں تو کیسا گناہ اور کہاں کا ثواب‘‘ وہ انکی بات کا مزاق اڑاتے بولے
’’پھر بھی رستم۔۔۔۔۔۔‘‘ ہمدہ بیگم نے کچھ بولنا چاہا جب رستم نے ہاتھ اٹھا کر انہیں کچھ بھی بولنے سے روک دیا
’’میں یہاں آپ کو صرف یہ بتانے آیا ہوں کہ میں اور انا پاکستان آج واپس جارہے ہیں اور دو دن بعد ہماری انگیجمنٹ ہے اور نیکسٹ منتھ شادی۔۔۔۔۔۔۔ امید ہے آپ سب آئے گے اور نا بھی آے تو مجھے کوئی مسئلہ نہیں‘‘ رستم نے اپنا سارا پلان انہیں بتایا
’’کیا انا بھی ایسا چاہتی ہے؟‘‘ نوید صاحب نے کھوجتے لہجے میں پوچھا۔۔۔۔۔ انہیں اتنا تو شک تھا کہ کچھ غلط ہے
’’بتاؤں انا کہ تم بھی راضی ہوں‘‘ اسکے ہاتھ پر دباؤ ڈالتے رستم نے اسے نظروں سے وارنگ دی
’’جج۔۔۔۔جی‘‘ وہ تھوک نگلتی بامشکل بولی اور نظریں جھکا گئی
’’آہ لگتا ہے میری پرنسز شرماگئی‘‘ رستم اسکے ہاتھ پر مزید دباؤ ڈالتے بولا تو انا کی آنکھیں بھیگ گئی، مگر نظریں زمین پر ہی گڑھی رہی
’’ٹھیک جیسے تمہاری مرضی۔۔۔۔۔ چلیے بیگم‘‘ نوید صاحب اپنی جگہ سے اٹھتے بولے اور ہمدہ کو بھی ساتھ آنے کو کہاں
انا جو اتنی دیر سے نظریں جھکائے بیٹھی ان کے جاتے ہی سر اٹھایا۔۔۔۔۔۔ اسکے گال آنسوؤں سے بھیگے ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔۔ اسنے بھیگی آنکھوں سے اپنے سامنے بیٹھی زرقہ کو دیکھا۔۔۔۔ زرقہ کا دل کٹ گیا تھا اسکی حالت دیکھ کر
’’زرقہ کی طرف مت دیکھو انا وہ تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتی” ٹانگ پر ٹانگ جمائے صوفہ پر بیٹھا۔۔۔۔ اپنے دونوں بازوں پھیلائے وہ ساتھ بیٹھی انا سے بولا جو امید بھری نظروں سے زرقہ کو دیکھ رہی تھی
’’اب ہمارے جانے کا وقت ہوگیا ہے پرنسز۔۔۔چلو چلے” اسکا ہاتھ سختی سے تھامے وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔۔انا بھی بےبسی کی مورت بنے اس کے پیچھے چل دی
“ویسے زرقہ!!!” رستم رکا تو ناچار سی انا بھی رک گئی
’’تمہارا بہت بہت شکریہ۔۔۔۔۔ مجھے میری پرنسز کا نمبر دینے کے لیے۔۔۔ اور نا صرف نمبر دینے کے لیے بلکہ مجھے اسکا تمام شیڈیول بھی دینے کے لیے۔۔۔۔ یو نو اگر تم نہیں ہوتی تو اس رات پرنسز میرے پاس نہیں ہوتی اور آج ہم ایک نہیں ہوتے” وہ شیریں لہجے وہاں دھماکہ۔کر گیا تھا۔۔۔۔
انا نے حیران کن نظروں سے زرقہ کو دیکھا جو نظریں چرا گئی۔۔۔۔ پس اسے یقین دلانے کو کافی تھا کہ وہ دوستی کے معمالے میں بدقسمت ثابت ہوئی ہے
’’اتنا بڑا دھوکہ‘‘ وہ صرف سوچ سکی۔۔۔۔۔ رستم نے اسکا ہاتھ تھاما اور دروازہ عبور کرگیا جبکہ بہادر خان بھی اسکے پیچھے تھا
زرقہ کی آنکھیں بھیگ گئی۔۔۔۔ کیا کیا نہیں دیکھا تھا اسنے انا کی شکایتی آنکھوں میں دیکھ، تکلیف، بےاعتباری۔۔۔۔۔ اسے خود سے نفرت ہونے لگ گئی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پورا راستہ انا نے خاموشی سے طے کیا تھا وہ کچھ بھی نہیں بولی تھی۔۔۔۔ رستم پرسکون تھا۔۔۔۔۔۔ اسکا صرف ایک ہی مقصد تھا انا کو خود کی ذات تک محدود رکھنا۔۔۔۔۔ اب اسکی پرنسز صرف اسکی تھی۔۔۔۔۔۔ اس پر کسی کا بھی کوئی حق نہیں تھا اسکی بہن کا بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔ اب وہ صرف اسکی رہے گی، اسکی دنیا صرف اس تک محدود رہے گی۔۔۔۔۔ صرف اس تک۔۔۔۔۔۔۔ یہ سوچ ہی اس کے دل و دماغ کو سکون دینے کو کافی تھی
’’تم خوش ہوں؟‘‘ وہی آواز اسکے اندر سے ابھری
’’ہاں بہت زیادہ‘‘ ایک نظر سوتی انا کو دیکھ کر وہ خود سے بڑبڑایا
’’کیا وہ خوش ہے؟‘‘ آواز کا اشارہ کس طرف تھا وہ جانتا تھا
’’وہ خوش رہنا سیکھ لے گی۔۔۔ اسے آجائے گا میرے ساتھ زندگی گزارنا۔۔۔۔۔۔۔ ویسے بھی وہ اب صرف میری ہے‘‘ رستم پرسکون تھا
’’بےوقوفی مت کروں۔۔۔۔‘‘ اس آواز نے ڈپٹا
’’بےوقوفی کیسی؟‘‘ رستم حیران ہوا
’’تمہیں کیسے یقین کہ وہ تمہاری ہے؟‘‘ وہ آواز پھر سے بولی
’’میں اسے اپنا بنا لوں گا۔۔۔۔۔۔۔ اسے اتنی محبت، اتنی توجہ دوں گا، اسکے ہر دکھ، ہر تکلیف کا مداوا کروں گا میں۔۔۔۔۔۔ دیکھنا بہت جلد وہ میری محبت، میری سنگت میں سب کچھ بھلا دے گی اور پھر وہ صرف میری ہوکر رہے گی‘‘ رستم میٹھی مسکان لیے بولا
’’ہاہاہاہا‘‘ وہ آواز اس پر ہنسی
’’بےوقوف مت بنو رستم محبت کبھی اسے تمہارا نہیں بنائے گی۔۔۔۔۔ اگر تم اسے محبت دوں گے تو وہ تمہارا مقابلہ کرے گی۔۔۔۔۔۔۔ تمہارے سامنے ضد کرے گی۔۔۔۔۔ وہ تمہیں اپنا غلام بنالے گی‘‘ وہ آواز پھنکاری
’’تو پھر میں کیا کروں؟‘‘ رستم پریشان ہوا
’’اس کے دل میں اپنی محبت کی جگہ اپنا خوف اور ڈر پیدا کروں۔۔۔۔۔۔ ایسے وہ ہمیشہ کے لیے تمہاری ہوجائے گی صرف تمہاری۔۔۔۔۔۔۔ اسے اپنے نیچے رکھو رستم اپنے برابر نہیں۔۔۔۔۔ برابر رکھو گے تو بہت جلد وہ تم سے اوپر چلی جائے گی‘‘ وہ آواز بولی تو رستم بےچین ہوا۔۔۔۔۔۔۔ اسنے ایک نظر اسکے کندھے پر سر رکھ کر سوئی انا کو دیکھا۔۔۔۔۔۔۔ اسکا معصوم چہرہ رستم کو اس کے ساتھ کچھ بھی برا کرنے سے روک رہا تھا۔۔۔۔۔
’’مگر۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ رستم بےچین ہوا
’’مگر کیا رستم۔۔۔۔۔۔۔ بھولو مت تمہاری ماں نے بھی تمہارے باپ سے محبت کی تھی ۔۔۔۔۔۔ آج اسکا انجام دیکھ رہے ہوں تم۔۔۔۔۔۔ وہ جگہ جو تمہاری ماں کی ہونی چاہیے تھی وہ آج کسی اور عورت کی ہے۔۔۔۔۔۔۔ اور تمہارا باپ۔۔۔۔۔ وہ کونسا شرمندہ ہے۔۔۔۔۔۔ اور اگر تمہارے ساتھ بھی یہی ہوا۔۔۔۔۔ تمہاری پرنسز نے بھی کل کو تمہیں کسی اور کے لیے چھوڑ دیا تو؟‘‘ اس آواز نے رستم کو ورغلایا
’’اسکی پرنسز کسی اور کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔‘‘ رستم نے مٹھیاں بھینچ لی۔۔۔۔۔۔ یہ سوچ ہی بہت دردناک تھی اس کے لیے
’’نہیں پرنسز میں تمہیں کسی اور کا نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔۔ تم صرف میری ہوں۔۔۔۔۔ صرف اور صرف میری‘‘ رستم اسکے چہرے پر نظریں گاڑھے وہ خود سے بولا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اٹھ جاؤ پرنسز گھر آگیا ہے!!‘‘ اسکا گال ہولے سے تھپتھپاتے وہ بولا تو انا پڑبڑا کر اٹھی
وہ کیسے اتنی دیر تک سوتی رہی اسے یقین نہیں ہوا
’’آؤ‘‘ اپنا ہاتھ اسکے سامنے پھیلائے رستم بولا تو انا نے کپکپاتے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ میں رکھ دیا
رستم اسے محبت سے تھامے اندر داخل ہوا۔۔۔۔۔۔۔ سب نوکروں نے مسکرا کر انہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔ انا نے دیکھا کہ وہ سب نئے تھے۔۔۔۔۔ ان میں سے کوئی بھی پرانا نہیں تھا۔۔۔۔۔
انا اپنی سوچوں میں گم تھی اسے معلوم بھی نہیں ہوا کہ کب رستم اسے تہہ خانے کی جانب لے گیا
’’ہہ۔۔ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟‘‘ انا گھبرائی آواز میں بولی
’’بتاتا ہوں‘‘ رستم کا لہجہ اچانک ہی سرد ہوگیا
وہ ایک دروازے کے سامنے کھڑے تھے جسے رستم اب کھول رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ انا کو وہاں اپنی موت نظر آرہی تھی
’’ررر۔۔۔۔۔رستم!!‘‘ انا نے اسے پکارا
’’ششش۔۔۔۔‘‘ اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھے رستم نے اسے چپ کروادیا
رستم اسے اپنے ساتھ لگائے کمرے میں داخل ہوا تھا۔۔۔۔۔ انا سامنے فرش پر موجود وجود کو دیکھنے لگی۔۔۔۔ وہ شائد پہچاننے کی کوشش میں تھی۔۔۔ جب کمرا روشنی میں نہاگیا۔۔۔۔ انا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی
’’ڈاکٹر کنول!!‘‘ وہ بڑبڑائی
’’گڈ ایوینگ ڈاکٹر صاحبہ کیسی ہے آپ؟‘‘ رستم مسکرا کر اسکے سامنے جاکھڑا ہوا
’’دیکھیے تو آپ سے ملنے کون آیا ہے‘‘ اب وہ انا کی جانب دیکھتے بولا
’’آپ نے تو میری پرنسز کو مجھ سے دور کردیا تھا مگر دیکھیے میں اسے واپس لےآؤ۔۔۔۔ اب وہ میرے پاس رہے گی کبھی نا دور جانے کو‘‘ رستم ہنستے ہوئے بولا تو انا کو وہ پاگل لگا
انا تو بس ڈاکٹر کنول کو دیکھے جارہی تھی جن کی حالت ان کے ساتھ ہوئے ظلم کو بیان کررہی تھی۔۔۔ انا نے تکلیف سے آنکھیں میچ لی تھی۔۔۔
’’بہادر خان!!‘‘ رستم بولا تو وہ فورا حاضر ہوا
ڈاکٹر کنول کی آنکھوں میں اسے دیکھ کر خوف در آیا جبکہ بہادر خان کی آنکھوں میں شیطانی چمک۔۔۔۔۔۔ انا کی نگاہوں سے یہ سب کچھ بچ نہیں پایا پل بھر میں وہ سارا معاملہ سمجھ چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بھی تو اس تکلیف سے گزری تھی تو کیسے نا سمجھتی۔۔۔۔۔۔۔
’’بہادر خان شروع کروں!!‘‘ رستم نے بےتاثر لہجے میں حکم دیا تو بہادر خان قدم اٹھاتا ڈاکٹر کنول کی جانب بڑھا جو خوف سے اپنا وجود پیچھے گھسیٹنے لگی۔۔۔۔۔ بہادر خان ان کے پیروں کی جانب جارکا۔۔۔۔۔۔اور وہاں لگا بٹن دبایا۔۔۔۔۔۔۔۔ اگلے ہی لمحے کمرے کی چھت پر بنا چھپا ہوا دروازہ کھلا اور وہاں لگے پائپ سے پانی کی کچھ بوندیں ڈاکٹر پر گرنے لگی۔۔۔۔۔ مگر اگلے ہی لمحے ڈاکٹر کی چیخیں بلند ہوئی۔۔۔۔۔۔ وہ تیزاب تھا جو ان کے جسم کو جھلسا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
’’رر۔۔۔۔رستم نہیں۔۔۔۔۔۔ رستم اسے روکے۔۔۔۔۔۔ وہ مر جائے گی رستم پلیز۔۔۔۔۔۔۔ رستم روک دے۔۔۔۔۔‘‘ انا نے رستم کی منتیں کرنا شروع کردی
’’اب تمہیں معلوم ہوگا پرنسز کے مجھ سے الجھنے والوں کا میں کیا حال کرتا ہوں‘‘ رستم سرد لہجے میں پھنکارا
’’رستم نہیں۔۔۔۔۔ رستم پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔ انہیں چھوڑ دے رستم۔۔۔۔۔۔ میں وعدہ کرتی ہوں رستم کبھی چھوڑ کرنہیں جاؤ گی۔۔۔۔۔۔ رستم!!‘‘
ڈاکٹر کنول کی چیخیں اور انا کی فریادیں دونوں رستم کو سکون دے رہی تھی
رستم نے ایک ہاتھ بلند کیا تو بہادر خان نے بٹن دبایا جس سے تیزاب گرنا بند ہوگیا
’’کیا کہاں تم نے پرنسز دوبارہ کہنا؟‘‘ رستم اب انا کی طرف متوجہ ہوا جس کی طبیعت خراب ہوگئی تھی
’’میں۔۔۔ میں وعدہ کرتی ہوں رستم کبھی نہیں جاؤ گی۔۔۔۔۔۔ کہی نہیں جاؤ گی انہیں چھوڑ دوں‘‘ انا نے ہاتھ جوڑے تو رستم مسکرایا
’’پرنسز۔۔۔۔۔۔۔ میں تمہاری بات مان لیتا اگر مجھے تم پر یقین ہوتا ۔۔۔۔۔۔ مگر مجھے تم پر یقین نہیں‘‘ رستم کا لہجہ پھر سے سخت ہوگیا تھا
’’بہادر خان!!‘‘ رستم بولا تو ایک بار پھر سے ڈاکٹر کنول کی چیخیں گونج اٹھی۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر کنول کے سامنے انکی بیٹی کا چہرہ گھومنے لگا۔۔۔۔۔ آخری بار جب انہوں نے اسے دیکھا تو اس نے اپنی پسندیدہ باربی ڈول کی ڈیمانڈ کی تھی۔۔۔۔۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ شام میں لے آئی گی مگر وہ شام کبھی نہیں آئی۔۔۔۔۔۔۔۔ یکدم انکی آواز دب کررہ گئی
انا کا دل گھبرانے لگا۔۔۔۔۔۔ تیزاب کی سمیل سے اسے سانس لینے میں دشواری ہونے لگی۔۔۔۔ وہ رستم کے ہاتھ کو جھٹکتی منہ پر ہاتھ رکھے فورا کمرے سے باہر بھاگی
سیڑھیوں تک پہنچتے ہی اس سے برداشت نہیں ہوا اور وہ وہی الٹیاں کرنے لگ گئی۔۔۔۔۔
’’پرنسز!!‘‘ رستم فورا اسکے پیچھے بھاگا اور اسکی پیٹھ سہلانے لگا۔ ’’سس۔۔۔۔۔سانس نہیں آرہا‘‘ وہ ہلکی آواز میں بولی
’’پرنسز!!‘‘ رستم نے اسکا چہرہ تھپتھپایا
’’ماسٹر!!‘‘ بہادر خان پیچھے سے بولا
’’کیا ہے؟‘‘ رستم پھنکارا
’’وہ ڈاکٹر مر گئی ہے‘‘ بہادر خان بولا تو انا کی حالت مزید خراب ہوگئی
’’تو میں کیا کروں۔۔۔۔۔ جاؤں کسی کچرے میں پھینک دوں اسے‘‘ رستم دھاڑا اور انا کو باہوں میں اٹھائے باہر بھاگا
۔۔۔۔۔۔
’’ڈاکٹر ڈاکٹر!!!‘‘ ہسپتال میں اینٹر ہوتے رستم دھاڑا
’’میری بیوی ڈاکٹر!!‘‘ رستم پھر سے چلایا۔۔۔۔۔ اسے لگا وہ پاگل ہوجائے گا
’’سر انہیں فورا یہاں لٹائے‘‘ دو تین نرسز وینٹیلیٹر لیکر آئی تو رستم نے اسے اس پر لٹا دیا۔۔۔۔۔
انا کو فورا آئی۔سی۔یو میں لیجایا گیا تھا۔
تقریبا آدھے گھنٹے بعد ڈاکٹر باہر نکلی تھی۔۔۔۔۔
’’مائی وائف؟‘‘ رستم نے تیز سانس والے لہجے میں پوچھا
’’ڈونٹ وری آپکی وائف اور بےبی دونوں ٹھیک ہے‘‘ ڈاکٹر سکون سے بولی تو رستم کو سانس آیا
’’اسے کیا ہوا تھا؟‘‘ رستم نے پوچھا
’’پینیک اٹیک‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا
’’دیکھیے مسٹر شیخ آپ کی وائف ایک تو ایکسپیکٹ کررہی ہے دوسرا وہ کمزور بھی بہت ہے ۔۔۔۔۔۔۔ آپ پلیز انکی ڈائٹ امپروو کرے اور انہیں کسی بھی ٹینشن والی بات سے دور رکھے۔۔۔۔۔ ورنہ آپکا بچہ اور بیوی دونوں ۔۔۔۔۔۔۔ آپ سمجھ رہے ہے نا؟‘‘ ڈاکٹر بولی تو رستم نے سر اثبات میں ہلادیا
۔۔۔۔۔۔۔۔
پوری رات ہوسپٹل میں رہنے کے بعد وہ اسے گھر لے آیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ انا ابھی بھی پورے ہوش میں نہیں تھی
رستم کو اسکی حالت تکلیف دے رہی تھی مگر اب اسے سکون تھا کہ انا اسی کے پاس رہے گی
’’نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔۔ چھوڑ دوں ۔۔اسے۔۔۔اسے چھوڑ دوں۔۔۔۔۔۔۔ نہیں‘‘ انا نیند سے بیدار ہوتی چلانے لگی۔۔۔۔۔۔۔ رستم جو اپنے گیلے بال تولیے سے خشک کررہا تھا۔۔۔۔۔ فورا تولیہ بیڈ پر اچھالتے وہ انا کی جانب بھاگا
’’پرنسز۔۔۔۔پرنسز کیا ہوا ہے؟‘‘ رستم نے اسکے دونوں بازو کو پکڑا
’’ااا۔۔۔اسے چھوڑ دوں رستم۔۔۔۔ مت مارو۔۔۔۔۔۔ نہیں کروں۔۔۔۔۔۔ جو کہوں گے کروں گی۔۔۔۔ اسے مت ماروں رستم۔۔۔۔۔۔ پلیز‘‘ وہ اونچا اونچا رونے لگی
’’ششش۔۔۔چپ۔۔۔بس چپ کرجاؤں کچھ نہیں ہوا‘‘ اسے اپنے سینے سے لگائے رستم بولا
تھوڑی دیر تک انا کو چپ کروانے کے بعد اس نے انٹرکام سے انا کے لیے سوپ منگوایا
’’پرنسز۔۔۔۔۔ یہ لو سوپ پیو‘‘ چمچ اسکے منی کی جانب لیجاتے وہ بولا
انا نے کسی بھی مزحمت کے بنا سوپ پی لیا
وہ دونوں گھٹنے سینے سے لگائے، بازو گھٹنوں کے گرد پھیلائے اس لمحے کو سوچ رہی تھی جب رستم باؤل ٹیبل پر رکھنے کے بعد اسکے سامنے آبیٹھا
’’پرنسز!!‘‘ رستم نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھا تو انا ڈر کر پیچھے ہٹی
’’تم نے دیکھا نا پرنسز جو ہوا۔۔۔۔۔۔ میں کیا کرتا ہوں ان کے ساتھ جو مجھ سے دشمنی موڑ لیتے ہیں۔۔۔۔۔ دیکھا نا؟‘‘ اسکے دونوں ہاتھوں کو مضبوط گرفت میں تھامے رستم نے پوچھا تو انا کا سر اثبات میں ہلا
’’ویری گڈ اب ایک بات یاد رکھنا پرنسز۔۔۔۔۔۔۔ کبھی بھی مجھ سے دشمنی کرنے کا مت سوچنا۔۔۔۔۔ اب کی بار تمہاری پہلی غلطی سمجھ کر معاف کررہا ہوں۔۔۔۔۔ مگر آئیندہ سے اگر تم نے مجھے چھوڑنے کا سوچا تو ڈاکٹر کی جگہ تم ہوگی سمجھی‘‘ اسکا گال تھپتھپاتے رستم نے پوچھا تو انا نے ڈر کے مارے سر ہاں میں ہلادیا
’’گڈ گرل۔۔۔۔۔۔۔ ویری گڈ گرل۔۔۔۔۔ ہمیشہ ایسے ہی رہنا‘‘ رستم اسکا گال سہلاتے بولا
اسکا چھونا انا کو کراہیت میں مبتلا کررہا تھا۔۔۔۔۔۔ مگر وہ خاموش رہی
’’مم۔۔۔مجھے نیند آرہی ہے‘‘ انا بولی تو رستم مسکرا دیا
’’ٹھیک ہے آرام کروں ویسے بھی کل ہماری منگنی ہے تو میں چاہتا ہوں کہ میری پرنسز سب سے اچھی لگی۔۔۔۔ چلو اب سمائل کروں‘‘ رستم بولا تو انا جبرا مسکرادی
’’ڈیٹس لائک مائی پرنسز!!‘‘ اسکے بیڈ پر لٹاتا اس پر لحاف اوڑھتے وہ بولا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔۔۔۔ جبکہ بہت جلد انا بھی نیند کی وادی میں گم ہوگئی۔
……..
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...