پہلا ایکٹ
(سین: لاہور میں ایک سجی ہوئی انگریری وضع کی کوٹھی۔ وقت شام کے ساڑھے سات بجے۔)
نازلی بیگم (مسٹر عبد الواحد بیرسٹر کی ناز آفریں بیٹی جو اپنے بلند خیال باپ کی تہذیب پرستی کے تصدق میں انگلستان سے تعلیم کا پنج سالہ زمانہ ختم کر کے حال ہی میں وطن کو لوٹی ہے۔ لیمپ کی شعاعیں گلابی ساٹن کے فانوس میں سے چھن چھن کر دو چٹھیوں پر پڑ رہی ہیں جو اُس کے سامنے ایک تپائی پر رکھی ہیں اور وہ خود ایک پر تکلف کوچ پر بیٹھی ہوئی اپنے جی سے باتیں کر رہی ہے): ایک دن میں دو پیغام! کسے قبول کروں اور کسے رد کروں۔ جس طرح اسلام نے مردوں کو چار چار بیبیاں کر لینے کی اجازت دی ہے کاش عورتوں کو اس سے آدھا ہی حق دیا ہوتا تاکہ میں ایک وقت میں ان دونوں کے ساتھ عقد کر سکتی۔ دونوں اپنی اپنی جگہ میری گرویدگی پر حق رکھتے ہیں۔ ایک دولت مند اور ذی و جاہت ہے، دوسرا علم و فضل اور حسن ظاہری میں اپنا جواب آپ ہے۔ محمد اسلم ویسراے کی کونسل کا ممبر ہے۔ لکھ پتی زمیندار ہے اور ملک میں ایک خاص وقعت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ محمد یوسف اعلیٰ درجہ کا شاعر ہے۔ نہایت رنگین و مرصع نثر لکھتا ہے۔ اور اخبار “کوکبِ صبح” کے ایڈیٹر و مالک ہونے کے لحاظ سے معروف اشخاص کے حلقہ میں داخل ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کی آنکھوں میں کُچھ ایسا جادُو ہے کہ جس دن پہلی مرتبہ ٹھنڈی سڑک پر میری اُس کی نگاہیں چار ہوئی ہیں تو مجھ پر نیم مدہوشی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ کاش محمد یوسف کے پاس آنریبل کی دولت ہوتی پھر تو مجھے فیصلہ کرنے میں مطلق تامل نہ ہوتا۔ لیکن اس وقت حیراں ہوں کہ کیا کروں۔ اسلم کو خشک جواب دیتے وقت سونے اور چاندی کے پہاڑ قلم کے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں اور یوسف کے خیال کا دامن خواب میں نہیں چھوٹنے پاتا۔
(بآوازِ بلند خط پڑھنے لگتی ہے)
پیاری نازلی! مُجھے تُمھارے دل دادوں کے حلقہ میں داخل ہوئے اتنی مدّت گُذر چکی ہے کہ میرے دِل کی کیفیت سے تمھیں نا واقف نہ ہونا چاہیے۔ قصہ مختصر یہ کہ میں تم پر دل سے فریفتہ ہوں اور اگرچہ جانتا ہوں کہ میں تمھارے قابل نہیں لیکن پھر بھی یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا تم میری بی بی بننا پسند کرو گی۔ میں اس سوال کا جواب طلب کرنے کے لیے آج شام کے آٹھ بجے حاضر ہوں گا۔ خدا کرے یہ جواب باصواب ہو۔
تمھارا دلداره
محمد اسلم
اس خط کی شان ہی کہے دیتی ہے کہ اس کا لکھنے والا لگی لپٹی نہیں جانتا۔ کھرا اور بے لاگ آدمی ہے جس کی متانت تحریر عاشق کی کیفیت اضطرار کا مضحکہ اڑاتی ہے لیکن اس کے پختہ کار اور صاحب دولت ہونے میں شک نہیں اور مجھے اس کے یہ دونوں وصف دِل سے پسند ہیں۔ یوسف اگرچہ ذی ثروت نہیں یا کم از کم اس وقت اس کی مالی حالت اچھی نہیں اس لیے کہ اس کی کل کائنات اس کا اخبارات ہے جس کی اشاعت ایک ہزار سے زیادہ نہیں اور خریداروں کی بد مذاقی سے کم امید ہے کہ یہ تعداد کچھ بہت زیادہ ترقی کرے گی۔ لیکن کیا دولت ایسی شے ہے جس کی محبت کے سامنے کوئی حقیقت ہو! دل میں اگر کسی کے عشق کی شمع روشن ہو تو جھونپڑی میں رہ کر بھی محلوں کا لطف آ سکتا ہے۔ لیکن اگر حریمِ سینہ میں نور محبت کا اُجالا نہ ہو تو نقره و زر، دبیقی و دیبا، طاق و رواق، خدم و حشم سب ہیچ ہیں۔ آہ یوسف! جب تیری دلربا صورت، تیری متوالی آنکھیں، تیرا جذبہ زیر تکلم میرے چشم و گوش کی از خود رفتگی کا سرمایہ بنتا ہے تو مُجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں بجز تیرے اور کسی شے کا حقیقی وجود نہیں اور تو اگر پہلو میں ہو تو کوئی ایسی مصیبت نہیں جس پر مجھے راحت و عشرت کا گمان نہ ہو۔
(دوسرا خط اُٹھا کر پڑھنے لگتی ہے۔)
میری جان میرے ایمان!
کیا کہوں کتنی دفعہ جی چاہا ہے اور بے اختیار چاہا ہے کہ ان مضامین کو سپرد قلم کروں جن سے زیاده دلربا اور دل آویز مضمون میرے دماغ کو آج تک نہیں سوجھا لیکن اس تہی دستی و بے مایگی کا بُرا ہو جس نے میرے پیمانۂ تمنا میں تلخابۂ تامل ملا ملا دیا ہے۔ درد جب حد سے گذرتا ہے تو دوا ہو جاتا ہے۔ میرا جامِ محبت بھی آخر چھلک کر رہا۔ سچے عشق کی محفل میں مسند صدارت کہیں بچھی ہوئی نظر نہیں آتی۔ یہاں شاہ و گدا سب پہلو بہ پہلو بیٹھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ میں اگرچہ فقیر ہوں لیکن تُمھاری محبت کے صدقہ میں بادشاہوں سے اونچا دماغ رکھتا ہوں اور اسی لیے اپنے پیک خیال کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ تمھارے حجلۂ ناز تک بار پا سکے۔ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ ممکن نہیں کہ تمھارے آئینۂ دل میں میری محبت کا آفتاب منعکس نہ ہو۔ اسی امکان کو پیش نظر رکھ کر میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ کیا میری غربت و تہی دستی کی پردہ پوش تمھاری الفت ہو سکتی ہے اور تم میرے مقدر کی عنان اپنے پاتھ میں لے سکتی ہو۔ اس یقین کو تمھارے دل تک کیسے پہنچاؤں کہ اگر میں زندہ ہوں تو محض اس لیے کہ تم پر اپنی ساری ہستی کو تا دم زيست نچھاور کرتا رہوں۔
تمھارا کشتۂ الفت
یوسف
کیا اس خط کو پڑھ کر بھی جس کے لفظ لفظ سے درد ٹپک رہا ہے اور حرف حرف سے ایثار آفریں محبت کی بُو آ رہی ہے، روپیہ کی کوئی وقعت دل میں رہ سکتی ہے۔ روپیہ! لا حول و لا قوۃ!! اس لفظ کے نام سے مجھے گھن آنے لگی۔ یوسف! دونوں جہان کی دولت تمھاری زلیخائی سے مجھے باز نہیں رکھ سکتی۔ (اپنی ساعد سیمیں کو جس پر ایک جواہر نگار گھڑی بندھی ہوئی ہے بلند کر کے وقت دیکھتی ہے) ارے ساڑھے سات ہو گئے! (کمرے کے تابدان کی سجی ہوئی کارنس کی طرف بڑھ کر گھنٹی بجاتی ہے) محمد اسلم کے آنے کا وقت ہو گیا اور عجب نہیں کہ یوسف بھی آتا ہو۔
(خطوں کو لفافہ میں ڈال کر جیب میں رکھ لیتی ہے۔ دروازہ کھلتا ہے اور خادمہ آتی ہے)
خادمہ سے مخاطب ہو کر: دل افروز! اگر محمد یوسف آئیں تو انھیں اس کمره میں لے آنا، اور کوئی اور صاحب آئیں تو کہہ دینا کہ آج شام بی بی کو کسی سے ملنے کی فرصت نہیں ہے۔
دل افروز: بیوی! بہت اچھا۔ لیکن اگر آنریبل محمد اسلم آئیں تو؟
نازلی بیگم (گھرک کر): دل افروز! سڑن تو نہیں ہو گئی ہو۔ کیا میں نے صاف لفظوں میں نہیں کہہ دیا کہ کسی دوسرے صاحب سے میں نہ مل سکوں گی؟
دل افروز: بہت خوب حضور۔
(دل افروز چلی جاتی ہے)