ماضی
نواز اس بار گھر آيا تو باپ کو بے حد پريشان ديکھا۔ بظاہر سب سے باتيں کرتے وہ اپنی ذہنی کشمکش کو خود سے چھپا رہا تھا مگر نواز بے حد زيرک نگاہ رکھتا تھا۔
رات ميں کھانا کھا کر وہ باپ کولئے چھت پر ٹہلنے کے ارادے سے آيا۔
“کيا بات ہے ابا ۔۔ ميں جب سے شہر سے آيا ہوں آپ بے حد پريشان لگ رہے ہيں۔ کوئ مسئلہ ہے۔ پيسے چاہئيے۔ يا کوئ اور بات؟” چند ايک ادھر ادھر کی باتيں کرنے کے بعد وہ اصل موضوع پر آيا۔
“ارے نہيں پت۔ ايسا کچھ نہيں۔ بس ويسے ہی” محمد بخش نے حتی المقدور خود کو چھپانے کی کوشش کی۔
“نہيں ابا۔۔ کچھ تو ہے۔ کيا ملکوں کے ساتھ کوئ بات ہوئ ہے؟” اس نے ہوا ميں تير پھينکا۔
“بيٹا۔ وہ تيری وکالت کی ڈگری کے بارے ميں جان گۓ ہيں۔ کی مجھے حويلی بلا کر بہت دھمکياں لگا رہے تھے” کل سے اب تک انہيں لگ رہا تھا ان کی جان سولی پر ٹنگی ہے۔ آخر کچھ سوچ کر نواز کو اپنا ہمراز بنايا۔
“تو کيا ابا انکے ڈر سے ہم اپنے مستقبل۔ اپنی خواہشوں سب کا گلہ گھونٹ ديں۔” نواز نے افسوس سے سر ہلايا۔
“ارے نہيں پت ۔۔ ميں يہ کب کہہ رہا ہوں۔ کوئ صورت ہو سکتی ہے اس مسئلے سے نکلنے کی؟”
“ہاں ۔ اور وہ يہ کہ آپ سب بھی شہر شفٹ ہوجائيں۔ بچوں کو تو ميں کچھ عرصے تک لے جاؤں گا۔ نائل بھی جوان ہورہا ہے۔ ماشاءاللہ سے بارہويں ميں پہنچ گيا ہے۔ اب اسکا مستقبل بننے کا وقت آيا ہے۔ اور يہ لمحے اسکے لئے بہت قميتی ہيں۔
ميں چاہتا ہوں کہ باقی بچوں کی تعليم بھی اب شہر ميں ہی پوری ہو۔ تو پھر آپ سب کو يہاں رہ کر کيا کرنا ہے۔ يہاں سے بيچيں سب اور وہيں چليں۔ کم از کم وہاں ايسے خدا تو نہيں ہوتے” نواز نے اپنی پليننگ بتائ۔
پچھلے سال ہی انہوں نے نائل اور يماما کا نکاح کيا تھا۔
حالانکہ نواز اسکے حق ميں نہيں تھا۔ وہ ان بچپن کی منگنيوں اور نکاح کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ مگر يہاں اسکی چل نہيں سکی۔
معاملہ بيٹی کا تھا۔ اور نائل ہر طرح سے ايک اچھا بچہ تھا۔ پڑھائ سے محبت کرنے والا خاموش طبع اور ذمہ دار۔
نواز کو ايک بيٹی کے باپ کی حيثيت سے سب خوبياں نائل ميں نظر آئيں۔ لہذا وہ کوئ اعتراض نہيں کرسکا۔
نائل جتنا خاموش طبع تھا يماما اتنی ہی باتونی اور لڑنے بھڑنے والی۔
سب نے يہی سوچا کہ مختلف عادتيں ہيں دونوں ايک دوسرے کے ساتھ اچھی زندگی گزاريں گے۔ کبھی کبھی ايک جيسی عادتوں والوں ميں زيادہ اختلاف بڑھتے ہيں۔
نائل بھی رضامند تھا۔
اپنی نٹ کھٹ سی يہ کزن اسے بہت عزيز تھی۔ اور اب تو رشتہ بدلنے کی وجہ سے عزيز تر ہوگئ تھی۔
“نہيں بيٹے ايک دم سے يہ سب کيسے چھوڑ کر نکل جائيں اور تمہارے خيال ميں يہ ملک ہميں اتنی آسانی سے يہاں سے نکلنے ديں گے” محمد بخش نے ہميشہ والا راگ الاپا۔
“تو کيا ہم ساری زندگی پڑھ لکھ کر بھی ان کی جوتياں چٹخاتے رہيں گے” وہ ناگواری سے بولا۔
“کچھ سوچتے ہيں” محمد بخش نے فی الحال بيٹے کا غصہ ديکھ کر خاموش رہنا مناسب سمجھا۔
__________________________
نائل اگلے دن دوپہر ميں گھر پر موجود تھا۔
مہک کسی سيمينار ميں گئ ہوئيں تھيں۔ شمس بھی گھر پر موجود نہين تھے۔
نائل کو سکون سے يماما کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع مل گيا۔
جس وقت وہ گھر آيا۔
يماما لاؤنج ميں بيٹھی چاۓ پی رہی تھی۔ ٹی وی پر کوئ ٹاک شو لگا ہوا تھا۔ مگر وہ اپنی ہی سوچوں ميں مگن تھی کہ نائل کے آنے کی خبر نہيں ہوسکی۔
وہ کپ ہاتھ ميں پکڑے کسی گہری سوچ ميں گم تھی۔ جب اسکے ہاتھ سے کپ پکڑتے ہوۓ نائل نے پينا شروع کرديا۔
وہ اس اچانک حملے پر ہڑبڑائ۔
“افف آپ۔۔” نائل کو ديکھ کر جان ميں جان آئ۔
“اکيلے اکيلے چاۓ سے لطف اندوز ہوا جارہا ہے” وہ مزے سے اسکے کپ سے چاۓ پينے لگا۔
“ميں اور بنا ليتی ہوں۔۔ آپ يہ رہنے ديں” وہ جلدی سے اٹھنے لگی کہ نائل جو اس کے ساتھ رکھے صوفے پر بيٹھا تھا۔
اس کا ہاتھ پکڑ کر بيٹھنے رہنے کا اشارہ کيا۔
“رہنے دو۔ جو مزہ اس چاۓ ميں ہے وہ الگ سے چاۓ پينے ميں کہاں” اسکی بات پر يماما کا دل زور سے دھڑکا۔
“آپ کا کک اندر موجود ہے” يماما نے اسے يوں بے تکلف ہونے پر تنبيہہ کی۔
“ميں اب کک سے ڈروں گا؟” نائل نے بدمزہ ہو کر اسے دیکھا۔ جو اس وقت اسی کے دئيے گۓ کپڑوں ميں سے ايک گرين اور پنک کامبينيشن کا جديد تراش خراش کا سوٹ پہنے اپنے کندھوں سے ذرا سا نيچے آتے بالوں کو پونی ميں باندھے ہميشہ کی طرح نائل کو اپنے دل کے قريب محسوس ہوئ۔
“کيا پتہ کسی کے عہدے کو چيلنج نہيں کرنا چاہئيے” يماما نے نائل کے دبے ہاتھ ميں موجود اپنے ہاتھ کو ہولے سے چھڑانا چاہا۔
مگر نائل کی مضبوط گرفت نے اسے يہ کرنے نہيں ديا۔
I tried,
tried to make it on my own
Did my best to get along,
I tried
It’s no use,
every winning streak just ends
Only days become the trend without you
Cause only you can make me.
Only you can make me happy,
I’d lie
if I told you how I felt
Not a word I think would help
My love it burns
You know
I’m supposed to be with you
I’m a madman and a fool
to be so, to be so…
Cause only you can make me.
Only you can make me happy,
I don’t even recognize myself
Don’t wanna be with anybody else
It’s hard to live like this
I couldn’t have it any other way
Wouldn’t wanna live another day
Without you
Cause only you can make me.
Only you can make me happy
يکدم اسکا ہاتھ تھامے نائل کی گمبھير آواز ميں پڑھی جانے والی نظم يماما کے دل کے تاروں کو چھو گئ۔
نظم پڑھتے اسکی نگاہيں مسلسل اسکے چہرے کا احاطہ کئے ہوۓ تھيں۔ جہاں کبھی وہ پلکوں کی جھالر گراتی کبھی اٹھاتی اسے ديکھ رہی تھی۔
“يہی سب ميں بھی محسوس کرتی تھی” اسکے چپ ہونے پر يماما کی بھيگی آواز پر نائل کا دل کيا اسے خود ميں چھپا لے۔
نائل کھڑا ہوا اور اس کا ہاتھ تھامے اسے بھی کھڑا کرکے سيڑھيوں کی جانب رخ کيا۔
” تم نے ميرا۔۔۔۔ بلکہ ہمارا روم ديکھا ہے ابھی تک؟” نائل نے سيڑھيوں کی جانب بڑھتے سوال کيا۔
يماما معمول کی طرح اسکے ساتھ کھيچتی چلی جارہی تھی۔
“نہيں۔۔” آنسو پيتی وہ اپنے لہجے کو بشاش رکھنے کی کوشش کررہی تھی۔
“چلو دکھاؤن” يماما کو لئے اب وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ رہا تھا۔
سادہ سا کمرہ تھا۔ بيڈ کی بجاۓ ميٹرس کارپٹ پر رکھ کر اسے بيڈ بنايا گيا تھا۔ ميٹرس کے دونوں اطراف ٹيبل رکھے ہوۓ تھے۔
اسکے دائيں جانب کتابوں کا بڑا سا لکڑی کا خوبصورت ريک بنا ہوا تھا۔ جس ميں بے شمار کتابيں موجود تھيں۔
ميٹرس کے بالکل سامنے صوفہ کم بيڈ پڑا ہوا تھا۔
بائيں جانب ٹريڈ مل موجود تھی۔ کمرہ کافی کشادہ تھا۔
ايک جانب سے راہداری سی بنائ گئ تھی جس کے آمنے سامنے وارڈروب تھی اور اسکے سرے پر واش روم تھا۔
نائل نے يماما کو کاؤچ پر بيٹھنے کا اشارہ کيا۔
“بيڈ کيوں نہيں رکھا آپ نے؟” يماما کو بس بيڈ کی کمی محسوس ہورہی تھی۔ باقی سب تو بے حد نفيس تھا۔
“بس ويسے ہی۔ مجھے يہ سیٹنگ بڑی ان فارمل سی لگتی ہے۔” وہ يماما کا دھيان بٹانے ميں کامياب ہوگيا تھا۔
سائيڈ ٹيبلز پر ايک شيشے کا جار رکھا ہوا تھا جس ميں خشک ميوہ جات تھے۔
نائل وہ اٹھا کر يماما کے قريب صوفے پر بيٹھا۔
جار کو کھول کر بڑے ادب سے جار اسکی جانب بڑھايا۔
يماما چہرے پر مسکراہٹ لئے اسے ديکھ رہی تھی۔
“آپ اپنے روم ميں پہلی بار آئ ہيں۔ تھوڑی سی خاطر کرنی تو بنتی ہے نا” شرير سی چمک آنکھون ميں لئے وہ يماما کو ديکھ رہا تھا۔
يماما نے ہاتھ بڑھا کر جار ميں سے ميوے لينے چاہے۔ جب نائل نے جان بوجھ کر وہ جار پيچھے کيا۔
يماما نے لمحہ بھر کو حيرت سے اسکی يہ حرکت نوٹ کی۔
پھر دوبارہ ہاتھ بڑھا کر لينے چاہے۔
اس نے دوبارہ وہی حرکت کی۔
اب کی بار يماما نے ہاتھ کھينچ ليا۔
“ان رومينٹک لڑکی۔ يوں منہ پھلانے کی بجاۓ اچھا ہوتا کہتیيں۔ آپ اپنے ہاتھوں سے کھلائيں” نائل کی بات پر وہ ہولے سے مسکرائ۔
“ميرے ہاتھ سلامت ہين ابھی۔ دينے ہيں تو ديں۔ نہيں تو ميں يہ جار توڑ دوں گی اب” وہ اپنے مخصوص اکھڑ انداز ميں بولی۔
“ميں ديکھنا چاہتا تھا کہ اب بھی بچپن کی طرح مار دھاڑ والی يماما ہو۔ يا کچھ بہتری ہے۔ مگر يہاں مستقبل اب بھی تاريک ہے” وہ مايوسی سے بولا۔
اب کی بار شرافت سے جار اسکے سامنے کيا۔
يماما نے کچھ جھجھک کے چند ميوے نکالے
“تو پھر کسی روشن مستقبل کرنے والی سے شادی کرليتے۔ جو آپکی زندگی ميں ٹيوب لائٹيں جلا ديتی۔مرد کو تو ويسے بھی چار کی چھوٹ ہے” يماما مزے سے اس پر طنز کرنے لگی۔
“کاش۔۔۔ مگر وہ کيا ہے کہ مجھے اس اندھير نگری ميں ہی زندگی گزارنی تھی” نائل مسلسل اسے چڑا رہا تھا۔
“آپ کو ميرے بارے ميں کيسے پتہ چلا کہ ميں زندہ ہوں؟” يماما نے پھر سے وہی سوال کيا۔
نائل بھی اب کی بار سنجيدگی سے اسے بتانے ہی والا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئ۔
“کم ان” نائل جو يماما کے قريب بيٹھا تھا اٹھ کر اپنے ميٹرس پر آگيا۔
دروازہ کھول کر مہک اندر آئيں۔
“السلام عليکم ممی” نائل يکدم ان کی جانب بڑھا۔
انہيں ساتھ لگا کر ماتھے پر پيار کيا۔
“کب آۓ؟” وہ يماما کے پاس بيٹھتے ہوۓ پوچھنے لگيں۔
“بس کچھ دير پہلے۔ کنزہ کو اپنی بکس دکھانے لايا تھا” نائل نے فورا يماما کی موجودگی کی وضاحت دی۔
مہک نے بڑے معنی خيز انداز ميں يماما کو ديکھا۔
“بہت اچھی بات ہے۔۔ اپنی لائبريری بھی دکھاؤنا” مہک خو شی سے بوليں۔
نائل کا يوں يماما کو اہميت دينا انہيں بہت اچھا لگا۔ انہيں لگا شايد اب ان کا بيٹا اپنی مری ہوئ منکوحہ کی يادوں سے نکل کر زندگی کو کسی اور کے ساتھ گزارنے کی خواہش کرے۔
وہ تو کب سے چاہتی تھيں کہ نائل اپنی نئ زندگی جلد شروع کرے مگر وہ تھا کہ اس جانب آتا ہی نہيں تھا۔
مہک کو پہلے بھی محسوس ہوا تھا کہ جيسے نائل کی آنکھوں ميں کنزہ (يماما) کے لئے پسنديدگی ہو۔ مگر اس لمحے انہيں لگا ان کا شک يقين ميں بدل گيا ہو۔
وہ بے حد مطمئن اور خوش ہوئيں۔
_________________
فاران اگلے دن اس لڑکی کے بتاۓ ہوۓ پتے پر موجود تھا۔
اس لڑکی نے اپنا نام سيمی بتايا تھا۔
فاران کو اس نے ايک ريسٹورينٹ ميں آنے کا کہا تھا۔
فاران مقررہ وقت پر وہاں پہنچ چکا تھا۔
کچھ دير بعد سيمی بھی اسے آتی ہوئ دکھائ دی۔
ٹيبل کی جانب آئ۔ فاران اپنی کرسی سے کھڑا ہوا۔
“کيسی ہيں؟”سلام دعا کے بعد حال چال پوچھا۔
“جی ميں ٹھيک” وہ محتاط نظروں سے ادھر ادھر ديکھتی بيٹھ گئ۔
فاران اس کا ايک ايک انداز نوٹ کررہا تھا۔
“کيا ليں گی” فاران نے حق ميزبانی نبھايا۔
“بس کافی” وہ بھی مختصر بولی۔
فاران نے ويٹر کو آواز دے کر دو کپ کافی کا کہا۔
“جی۔۔ تو بتائيے” فاران نے اب اسے اس راز سے پردہ ہٹانے کا کہا۔ جس راز کو جاننے کےلئے وہ يہاں آيا تھا۔
“وہاج اور سرتاج دونوں بھائ اور انکے بيٹے۔ خاص کر وقار کا بہت سے پرائيوٹ کلينکس کے ڈاکٹروں کے ساتھ کانٹيکٹ ہے” فاران غور سے اسے سن رہاتھا۔
“اور ان ڈاکٹروں کی مدد سے يہ غريب اور نادار مريضوں کو چھوٹی موٹی بيماری کو بھی لمبا چوڑا کرکے بتاتے ہيں۔ پھر زبرستی انہيں اپنے ہاسپٹلز ميں رکھ کر آپريشنز سجيسٹ کرتے ہيں۔ اور اس آپريشن کے دوران لوگون کی کڈنی نکال ليتے ہيں۔ اور پھر مہنگے داموں انہيں بارڈر پار سے آنے والے عملے اور جاسوسوں کی مدد سے انہيں مختلف ملکوں ميں بيچتے ہيں” سيمی کا انکشاف فاران کو بھونچکا کرگيا۔
“ميرے پاس تقريبا نو ايسے مريض ہيں۔ جن کا گردہ يہ منحوس لوگ مہنگے داموں بيچتے ہيں۔ وہ سب گواہی ديں گے۔ اسکے علاوہ کچھ فوٹيجز بھی موجود ہيں” وہ انکشاف در انکشاف کئے جارہی تی۔
“آپ کو کيسے معلوم ہوا يہ سب؟” فاران نے حيرت سے نکل کر سوال کيا۔
“آپ آم کھائيں پيڑ نہ گنيں” وہ بھی مزے سے بولی۔
“مگر۔۔”
“اگر ۔۔ مگر کرتے رہے تو کل کو وہ کسی بھی وقت ہمارے ہاتھوں سے نکل سکتے ہيں۔ جتنا گھيرا تنگ کريں گے۔ ان کے لئے نکلنا اتنا ہی مشکل ہوجاۓ گا”
“ديکھيں فاران۔۔مجھے اس سب سے کوئ فائدہ نہيں ملے گا۔ سواۓ اس کے کہ ميں ايک غدار کو جيل بھجواؤں گی۔بس مجھے اور کوئ لالچ نہيں” اس سے پہلے کے فاران جواب ميں کچھ کہتا۔ ويٹرکافی رکھ گيا۔
کچھ دير دونوں خاموش ہی رہے۔
“ميرے پاس وہ فوٹيجز اس سی ڈی مين ہيں” سيمی نے ايک پيکٹ اسکی جانب بڑھايا۔
جسے فاران نے فورا سے پہلے تھام ليا۔
“اميد کرتی ہون۔ يہ سب آپکے کيس کو اور بھی مضبوط بناۓ گا” وہ صاف گوئ سے بولی۔
“ان شاءاللہ” فاران نے بھی صدق دل سے کہا۔
کچھ دير باتيں کرنے کے بعد وہ دونوں اپنے اپنے رستے نکل پڑے۔
سيمی جيسے ہی گاڑی ميں بيٹھی۔ اسکے موبائل کی بيل بجی۔
“ہيلو” فون کان سے لگايا۔
“کام ہوگيا؟” دوسری جانب سے پوچھا گيا۔
“ہاں ہوگيا۔” اس نے تسلی دلائ۔
“زيادہ پوچھ گچھ تو نہيں کی؟” پھر سوال۔
“نہيں ميں نے اس انداز ميں بات کو گھمايا کہ وہ زيادہ کچھ کہہ نہين سکا” گاڑی سٹارٹ کرتے اس نے بتايا۔
“گڈ۔۔ مجھے تمہاری صلاحيتوں پر پورا يقين ہے اسی لئے تمہيں اس کام کے لئے چنا تھا” دوسری جانب سے ستائشی کلمات سننے کو ملے۔
“اوکے رات ميں ملتے ہيں” الوداعی کلمات ادا کرکے فون بند کر ديا گيا۔
____________________