“یار جلدی چلو نا حیا!” ہادیہ کی جھنجلائی ہوئی آواز پر وہ مسکراتے ہوئے سینڈلز پہننے لگی
“آگئی نا چلو اب ایک تو تمہیں غصہ بہت آتا ہے” وہ مسکراتے ہوئے اسکے ساتھ باہر نکل آئی
“سنو اگر مجھے جاب نہیں ملی تو؟” حیا نے ڈرے سہمے لہجے میں کہا
“مایوسیوں کی باتیں نہیں کرو جانی سب ٹھیک ہوگا ان شاء اللہ” ہادیہ نے اسکو پیار سے تسلی دی اور واقعی اپنی واحد دوست کی تسلی کر وہ کچھ مطمئن ہوگئی اور دونوں گاڑی میں بیٹھ کر حیدر پبلکس کی جانب رواں دواں ہوگئیں
****************
عمر صاحب اور قدسیہ بیگم کی پانچ اولاد تھیں تین بیٹے فرحان ارمان اور سلمان جبکہ دو بیٹیاں انیسہ اور بریرہ تھیں عمر صاحب اور قدسیہ بیگم نے بچوں کی شادی اپنی پسند سے کردی جسپر سب نے تابعداری سے سر جھکا کر ماں باپ کا مان رکھا اور واقعی سب اپنی اپنی ازدواجی زندگی میں خوش باش تھے سلمان صاحب نے اپنی والدہ کی پسند پر شائستہ بیگم سے شادی کر تو لی لیکن اپنے دل میں انکو وہ مقام نہیں دے پائے جو ایک محبت کرنے والا شوہر دیتا ہے اور دیتے بھی کیوں انکے دل میں انکی یونی فیلو تھی جس سے ماں باپ نے سختی سے شادی سے انکار کردیا اسکی بے باکی اور اسٹیٹس دیکھ کر اور نہایت ہی معصوم اور ملنسار طبیعت کی مالک شائستہ سے انکی شادی کروائی
ساس سسر نے اولادوں کو اکٹھا اور یکجا رکھنے کیلئے اوپر نیچے تین پورشن والا گھر لیا جسمیں سب اوپر نیچے رہتے تھے اور تینوں کھانے کے اوقات میں ایک ساتھ جمع ہوکر کھانا کھانے کا لطف اٹھاتے
فرحان صاحب کی تین اولادیں شہریار زینب اور سمرہ تھے۔۔ارمان صاحب کی چار اولادیں سمیہ حسن حسین اور فائقہ تھیں جبکہ سلمان صاحب کی چار بیٹیاں حیا، زنیرہ ،شہیرہ اور ایمان تھیں حیا کی پیدائش کی پانچ سال بعد ہی تایا نے سلمان صاحب سے شہریار کیلئے حیا کو مانگ لیا اور یوں اسکی بچپن میں ہی منگنی ہوگئی جبکہ شہریار کو تایا نے پڑھائی کیلئے اپنے بچپن کے دوست کے گھر لندن بھیج دیا
شائستہ بیگم نے اپنی ملنسار طبیعت اور نرم مزاجی سے ساس سسر کا دل جیت لیا تھا اور ساس سسر بھی انکو سر آنکھوں پر بٹھاتے تھی ایک تو سب سے چھوٹی بہو اوپر سے انتہائی خدمت گزار اور یہ سب بڑی دونوں بہوؤں پر گراں گزرتا تھا وہ بظاہر بہت خوش مزاجی سے ملتیں لیکن اندر ایک آگ بھڑکتی تھی
سلمان صاحب بھی بیوی سے خوش رہنے لگے لیکن یکے بعد دیگرے چار بیٹیوں کی پیدائش پر وہ شائستہ کو قصور وار ٹہرا کر ان سے متنفر ہوگئے ساس سسر کے لاکھ سمجھانے کی باوجود وہ گھر بار چھوڑ کر امریکہ چلے گئے اور وہاں اپنی پسند سے شادی کرلی
حیا اس وقت فقط پندرہ سال کی تھی جب اس نے اپنی ننھی سی گڑیا ایمان کی پیدائش پر باپ کے منہ سے زہر اگلتے الفاظ سنے
“پھر بیٹی مسلسل چار لڑکیاں دی جارہی ہو دماغ تو نہیں خراب ہوگیا ہے شائستہ بیگم آپ اس بچی کو ہسپتال میں ہی کسی کو دے دیں میں چار چار کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا” وہ غصے میں کہ کر ٹہلنے لگے۔
“کیسی باتیں کر رہے ہیں سلمان یہ ہماری لخت جگر ہے میں کسی کو نہیں دونگی آپ کو بوجھ لگتی ہیں مجھے نہیں یہ سب میرے جگر کا ٹکڑا ہیں آپ نہ سنبھالیں انکی ذمہ داری میں خود اپنی بیٹیوں کی ذمہ داری اٹھاوئنگی لیکن خدارا مجھ سے میرے بچوں کو جدا مت کریں۔” وہ یہ کہ کر رونے لگیں جبکہ سلمان صاحب ہونٹ بھینچ کر رہ گئے کیونکہ کمرے کے دروازے پر عمر اور قدسیہ بیگم کھڑی تھیں اور بہت رنج سے انکو دیکھ رہی تھیں۔۔۔حیا کے اندر مزید سکت نہ تھی یہ اسکا باپ تھا جو اس سے بہت پیار کرتا تھا اسکے لاڈ اٹھا اٹھا کر نہیں تھکتا تھا اور آج باپ کے منہ سے الفاظ سن کر اسکو لگا کہ سر سے آسمان کا سایہ اٹھ گیا اور وہ تپتی دھوپ میں کھڑی ہے وہ بھاگتی ہوئے ہسپتال کے کالیڈور میں چھپ گئی اور جتنا رو سکتی تھی رو گئی
سلمان صاحب ایک ہفتہ بعد امریکہ چلے گئے قدسیہ بیگم اور عمر نے بہت روکنا چاہا پر وہ نہ رکے نتیجہ میں قدسیہ بیگم۔بیٹے کی جدائی پر بستر سے لگ گئیں اور عمر صاحب ڈھے سے گئے تب فقط پندرہ سالہ لڑکی کے دل میں باپ کی نفرت کا بیچ پیدا ہونے لگا اور اس نے اپنی ننھی بہن جسکو اسکا باپ دھتکار چکا تھا اسکو سینے سے لگالیا
سلمان صاحب کے جانے بعد حالات نے وہ رخ پلٹا کی حیا کے پاؤں سے زمین بھی کھسکنے لگی دونوں تائی طنز پہ طنز اور تایا کی خونخوار نظروں سے شائستہ کے ساتھ ساتھ حیا جیسی حساس لڑکی بھی اندر تک کٹ کر رہ جاتی تھی لیکن کزنز کے حوصلوں کی وجہ سے وہ اس گھر سے جڑی ہوئی تھی جو ہر وقت ان سب کے ساتھ رہتے اور خوب محفلیں جماتے اگرچہ انکی ماؤں کو پسند نہیں تھا لیکن ماؤں سے زیادہ بچے اپنے دادا دادی سے زیادہ اٹیچ تھے اس بنا پر انکے دل میں کبھی بھی اپنی چچی اور چاروں کزنز کیلئے کوئی برائی کوئی کدورت نہیں آئی
شائستہ بیگم اسکول میں ٹیچنگ کر کے بچوں کا پڑھائی اور خرچ سنبھالنے لگیں
حیا سے ماں کی تھکاوٹ زدہ زندگی نہیں دیکھی جاتی تھی اسلئیے پڑھائی کو خیر آباد کہ کر اپنی بہنوں کی پڑھائی
کا بوجھ اٹھانے کی ٹھان لی اور دادا دادی اور ماں کے لاکھ منع کرنے کے باوجود گھر میں ٹیوشن پڑھانے لگی
ہادیہ اسکی بچپن کی ساتھی جو اسکی سب کچھ لگتی تھی اسکی دکھ سکھ میں شریک اس کی سب سے بہترین دوست بہن تھی انٹر کے بعد ہادیہ نہیں چاہتی تھی کہ حیا گھر پر بیٹھ جائے اسلئیے اس نے اسکو پرائیوٹ پڑھنے کا مشورہ دیا اور لاکھ دھمکیوں کے ساتھ حیا کو ماننی پڑی اور وہ پرائیوٹ پڑھنے لگی
“یار ہادیہ میں سوچ رہی ہوں کہ کوئی جاب کرلوں اب تو ڈگری بھی مل گئی ہے” ہادیہ کا آنا اس گھر میں اکثر و بیشتر لگا رہتا تھا
“بہت ہی اچھا سوچ رہی ہو بڑا مزہ آئیگا یار ہم دونوں صبح نکل جایا کریں گی اور شام کو آئسکریم کھا کر آئیں گی” ہادیہ نے مزے لے لے کر بولا تو حیا اسکو دیکھنے لگی
“دو سینگ نکل آئے ہیں کیا؟” حیا کے مسلسل دیکھنے پر وہ سر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ہنستے ہوئے بولی
“نہیں تم کیوں جاب کروگی” حیا اپنی حیرانی چھپا نہ سکی اور اپنے دیکھنے کی وجہ بتائی
“ابے جاب صرف پیسوں کیلئے تو نہیں کرتے نا سویٹی وہ کیا ہے نا زندگی میں کچھ الگ سا بھی ہونا چاہئیے اور خوب جمے گی جب مل بیٹھیں گے دیوانے دو” وہ حیا کی کندھے پر مکا مارتے ہوئے بولی
“اور کیا پتہ کوئی ہینڈسم سا ہیرو ہی مل جائے” وہ آنکھ دباتے ہوئے بولی تو حیا بھی مسکراہٹ چھپا نہ سکی وہ ہادیہ کے ساتھ مل کر اپنی ساری ٹینشنز بھول جایا کرتی تھی
” تو پھر کل چلتے ہیں انٹرویو کیلئے” ہادیہ فائینل ڈیسیژن لیتے ہوئے بولی
“پر جائیں گے کہاں؟” حیا حیرانی سے اسکو دیکھنے لگی
” ہار وہ اپنے ہے نا اللہ بھلا کرے کیا نام تھا انکا۔۔۔۔ہاں عثمان بھائی پاپا کے دوست کے بیٹے وہ کچھ دن پہلے پاپا کے پاس آئے تھے انکو اپنے آفس کیلئے چاہئیے ہم وہاں ٹرائی کریں گے اچھا ہے پاپا تو وہاں منع بھی نہیں کریں گے” وہ حیا کو مطمئن کرتے ہوئے بولی اور حیا نے محبت سے اسکے کندھے پر سر رکھ دیا اور گلوگیر لہجے میں بولی “تم بہت اچھی ہو ہادیہ”
“اچھا اچھا اب یہ جذباتی سین نہیں ہورہا اب دیر ہورہی ہے میں چلتی ہوں کل صبح لینے آونگی اور ہاں خدا کیلئے حیا کھانا کھالینا ایک تو تم کھانا اسکپ کردیتی ہو نا تو بہت غصہ آتا ہے مجھے” وہ اسکو آنکھیں دکھاتے ہوئے بولی
“کھالوں گی تم فکر نہیں کرو” وہ مسکراتے ہوئے اٹھتے ہوئے بولی اور دونوں گلے لگ گئیں اور حیا ہادیہ کے جانے کے بعد آنے والی زندگی کے بابت سوچنے لگی
******* ******* ****
“عثمان بیٹا اچھے سے جان پہچان کر کوئی لڑکی رکھنا” ارسلان صاحب نے ناشتہ کی ٹیبل پر کہا
“جی بابا آپ بالکل پریشان نہ ہوں آخر کو اتنے بڑے بزنس مین کا بیٹا ہوں” عثمان نے بشاشت سے کہا جسپر میز پر بیٹھے موجود سارے ذی روح مسکرا دیئے
“صرف آپ نہیں میں بھی ہوں” اریشہ جو کہ عثمان سے چھ سال چھوٹی اور میڈیکل کی طالبہ تھی چڑتے ہوئے کہا آخر کو وہ اپنے بابا کی لاڈلی تھی
” تم بیٹا نہیں بیٹی ہو” عثمان نے اسکو اور چڑایا
“ایک ہی بات ہے” وہ کہتے ہوئے ناشتہ کرنے لگی
“ارے واہ ایک بات کیسے ہے تم لڑکا میں لڑکی تو تم بیٹا کب سے ہوگئی” عثمان آج اسکو تپانے کے موڈ میں تھا
“بابا دیکھیں نا انکو” وہ روہانسے انداز میں ارسلان صاحب سے لاڈ سے بولی
“عثمان مت تنگ کرو اسکو میری لاڈلی بیٹی ہے” ارسلان صاحب کے کہنے پر وہ کھل اٹھی
“دیکھو بابا نے بھی بیٹی کہا” وہ باز آنے والا نہیں تھا
“آپ چپ کرکے ناشتہ کریں” وہ اسکو ڈپٹتے ہوئے بولے جسپر وہ ہنس دیا اور مزید تنگ کرنے کا پلین آگے کیلئے سوچ کر اٹھنے لگا۔
“اچھا بابا دادو ماما میں چلتا ہوں” وہ مسکراتے ہوئے بولا
“فی امان اللہ بیٹا خیر سے جاؤ خیر سے آؤ” دادی اپنے مخصوص انداز میں بولیں جسپر عثمان جھک گیا اور دادی نے ماتھے پر بوسہ دیا یہ انکی عادت تھی رخصت کرنے کی
“میرے خیال میں میں بھی یہاں موجود ہوں” اریشہ ناراضگی سے بولی کہ اسکا نام جو نہیں لیا گیا تھا
“چلو جل ککڑی اللہ حافظ” وہ اسکے سر پر چپت لگاتے ہوئے بولا اور باہر کی جانب چل دیا
******* ******** ********
” یار کب سے بیٹھے ہیں کب آئیں گے یہ تمہارے عثمان بھائی” حیا کوفت سے بولی وہ انٹرویو کیلئے آدھے گھنٹے سے بیٹھے ہوئے تھے لیکن ابھی تک عثمان نہیں آئے تھے
“یار صبر تو کرو آجائیں گے” ہادیہ نے اطمینان سے کہا
“یار ہادیہ اگر کچھ نہ ہوا تو” وہ ڈرتے ڈرتے بولی
“تم تو چپ کرکے بیٹھو ہر وقت مایوسیوں کی باتیں کرتی رہتی ہو” ہادیہ اسکو ڈپٹتے ہوئے بولی
” تم نے محرومیاں کب دیکھی ہیں” وہ صرف سوچ کر رہ گئی اتنے میں عثمان آگیا اور ہادیہ کو دیکھ کر آفس جاکر انٹرکام پر ہادیہ کو بلوایا
” السلام علیکم” ہادیہ نے مسکراتے ہوئے سلام کیا
“وعلیکم السلام خیریت اور یہ؟” وہ بھی جوابا مسکرایا اور حیا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے استفہامیہ انداز میں ابرو اچکائے اور حیا تو جو کہ اندر اندر ہی سہم رہی تھی
“اوہ یہ نا میری بیسٹ فرینڈ ہے اسکو جاب چائیے اور آپ شرافت سے دے دیں” ہادیہ کا یہ انداز دیکھ کر وہ
وہ مسکرادیا
“اور اگر نہ دوں تو؟” وہ ہادیہ کو بھی اریشہ کی طرح تنگ کرتا اور خیال رکھتا تھا
” تو کچھ نہیں بس میں ارسلان انکل کو بول دوں گی کہ۔۔۔آگے وہ سوچ میں پڑگئی
“کہ؟” وہ مسکراتے ہوئے بولا
“عثمان بھائی دیکھیں تنگ نہیں کریں ویسے ہی باہر آدھے گھنٹے سے بیٹھے ہیں یہ نہ ہوا کہ کوئی جوس شوس ہی پلادیں ” وہ اسکو شرمندہ کرنا چاہ رہی تھی
“اوہ اچھا ایک منٹ ذرا رکو مجھے کال کر لیتی گڑیا ” عثمان کہتے ہوئے انٹرکام کر کے جوس منگوانے لگا پھر حیا کی طرف متوجہ ہوا اور اسکی کوالیفیکیشن وغیرہ کے بارے میں پوچھتے ہوئے اسکو سیکٹری رکھ لیا
“اب خوش؟” وہ ہادیہ کی طرف متوجہ ہوا
” ہاں اور میں” وہ اپنی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولی
” تم کیا تم بھی جاب کروگی؟” وہ حیرانگی سے بولا
” ہاں کچھ چینج لانے کیلئے” وہ بے پرواہی سے بولی
“کوئی ضرورت نہیں چپ چاپ گھر پہ بیٹھو اور اگر آنا چاہو تو آسکتی ہو لیکن آپکیلئے کوئی جاب نہیں سوری” وہ اسکو برہمی سے کہتا ہوا آخر میں مسکرادیا
“اچھا میں حیا کے ساتھ آجایا کروں گی”
“مس حیا آپ کل سے جوائن کرلیں” وہ کافی دیر خاموش سے بیٹھی حیا سے مخاطب ہوا اور حیا خود کو زیر مخاطب ہوتے دیکھ کر گڑبڑا گئی
” جی ٹھیک” وہ سہمی آواز میں بولی جسپر عثمان نے پہلی بار اسکو غور سے دیکھا جو جھکی نظروں کے ساتھ کافی نروس بیٹھی تھی
“یہ میں کیا سن رہا ہوں حیا!؟” بڑے تایا کی گرجناک آواز پر تو وہ کانپ کر رہ گئی
“کک کیا؟” وہ ہکلاتے ہوئے بولی
“تم جاب کر رہی ہو؟ کس کی اجازت سے اتنی خود مختار ہوگئی ہو کہ اپنے فیصلے خود کروگی؟” وہ اسپر غصہ ہوتے ہوئے بولے جسپر حیا تو کیا تینوں بہنیں سر تا پیر سلگ گئیں لیکن تایا کہ سامنے بولنے کی ہمت صرف حیا میں تھی
” جی میں جاب کر رہی ہوں اور دادا دادو سے اجازت لے چکی ہوں اور جہاں تک رہی خود مختاری کی تو آپکی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ جس کے سر پر باپ کا سایہ نہ ہو اور کوئی سر پرست نہ ہو تو وہ خود مختار ہی ہوتے ہیں” وہ ٹھنڈے لہجے میں بولتی ہوئے کھانے کی میز سے ادھورا کھانا چھوڑ کہ چلی گئی کیونکہ وہ سب کہ سامنے کمزور نہیں بننا چاہتی تھی۔ سارے کزنز کو اپنی اس کزنز اور بہن سے خاص محبت تھی وہ ہر ایک کا خیال جو رکھتی تھی اور دادا میں تو اسکی جان بستی تھی اسی لئے کھانا ادھورا چھوڑ جانے پر وہ افسوس سے بند دروازے کو دیکھتے رہے
“دیکھ رہے ہیں آپ کیسی زبان چل گئی ہے ابھی جاب ملے چوبیس گھنٹے بھی نہیں ہوئے اور محترمہ کے پر نکل آئے ہیں یہ سب آپکی ڈھیل کا نتیجہ ہے” وہ غصہ میں دادا سی کہنے لگے جو بے بسی سے اپنی جوان بیٹے کو دیکھ رہے تھے
کھانے کا ماحول خراب ہوجانے پر ایک ایک کر کے سب اٹھ گئے یہ اس گھر میں تقریبا روز رات کا معمول تھا تایا چاہے چھوٹے ہوں یا بڑے کسی بھی بات پر مضمون بنا کر کبھی حیا کبھی شائستہ تو کبھی انکی بیٹیوں کو بے عزت کرتے اور کھانے کا ماحول خراب ہوجاتا
ایسا نہیں تھا کہ گھر کے بچے اور بچیاں انکی بے عزتی سے خوش تھے بلکہ ان میں سے کوئی بھی بولنے کی ہمت نہیں کر پاتا تھا ورنہ ہمدردی اور محبت انکو بہت تھی خصوصا اپنی چھوٹی چچی سے۔
******** ******** ******
“حیا آپی” ایمان اسکو گم صم دیکھ کر مخاطب ہوئی
“ہوں” حیا نے سر اٹھا کر اپنی ننھی بہن کو دیکھا
“آپ اداس ہیں” ایمان نے معصومیت سے پوچھا
“نہیں میری جان آپ اپنا ہوم ورک کرو” وہ پیار سے اس کے بال سہلاتے ہوئے بولی
“آپکو تایا ابو نے ڈانٹا تھا نا” اسکی سوئی وہیں اٹکی ہوئی تھی وہ اسکو دیکھ کر رہ گئی اب اس چھوٹی بچی کو کیا جواب دیتی
“مجھے وہ بالکل بھی اچھے نہیں لگتے” ایمان کے انداز پر حیا ششدہ رہ گئی
“نہیں گڑیا ایسے نہیں بولتے وہ بڑے ہیں نا ہم سے اس لئے ڈانٹتے ہیں” وہ اسکو سمجھاتے ہوئے بولی حیا نہیں چاہتی تھی کہ ایمان کے معصوم اور پاکیزہ ذہن میں کسی کی بھی نفرت آئے
“تو جب بڑے ہوجاتے ہیں تو ڈانٹتے ہیں” اسکے سوال پر حیا مسکرا کر رہ گئی
اتنے میں دروازہ ڈھک سے کھلا اور نو جوان پارٹی اندر داخل ہوئی حیا ان سب کو دیکھ کر مسکرادی جانتی تھی سب اسکو ہنسانے آئے ہیں لیکن اسکے اندر کا دکھ تو کوئی نہیں جانتا تھا نا
“حیا چلو ہم سب باہر جارہے ہیں” سمرہ اس کو اٹھاتے ہوئے بولی
“اسوقت؟” وہ حیرانی سے بولی
“ہاں تو کونسی آدھی رات ہوگئی ہے نو ہی تو بجے ہیں ویسے بھی کل ہفتہ ہے چھٹی ہے چلو فورا” زینب نے کہا
“تم لوگ کی ہے پر میری نہیں ہے مجھے آفس جانا ہے” وہ جانا نہیں چاہتی تھی
” آپی چلیں نا پلیز ہم جلدی آجائیں گے” ایمان کے کہنے پر وہ ان سب کو بے بسی سے دیکھتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی
پورچ میں پہنچ کر سب جیسے تیسے گاڑی میں بیٹھے اور پارک کی طرف گاڑی روانہ کی
“حسین بھائی تیز چلائیں نا گاڑی اتنی مر مر کے کیوں چلا رہے ہیں” فائقہ کی جھنجھلائی آواز پر زنیرہ سے توجہ ہٹا کر گاڑی کی اسپیڈ بڑھادی
“ویسے میں ایک بات سوچ رہی تھی” سمرہ نے ہر سوچ انداز میں کہا
” تم ہر وقت سوچتی کیوں رہتی ہو کسی دادے ابا کی طرح” حسن کو اسکو چڑانے میں بہت مزہ آتا تھا دونوں کی منگنی ہو چکی تھی
“آپ کو تو بس مجھ سے ہی چڑ ہے” وہ منہ بناتے ہوئے بولی
“سوچ لو سومی ابھی سے چڑ ہے آگے کیا ہوگا” حسین بیک مرر سے اسکو دیکھتے ہوئے بولا ساتھ ہی ایک نظر ساتھ بیٹھی زنیرہ پر ڈالی جو اسی کو دیکھ رہی تھی اور حسین کے دیکھنے پر فورا نظریں پھیر لیں
وہ ہونٹ بھینچ کر رہ گیا
“افوہ اب بتا بھی دو کیا سوچ رہی تھی؟” زینب چڑتے ہوئے بولی
“اب کیا بھول بھی گئی” وہ منہ بسورتے ہوئے بولی جسپر حسن کا جاندار قہقہہ گونجا
” حسن بھائی آپ بھی نا اب میرے پیٹ میں درد ہوتا رہیگا” شہیرہ نے کہا تو سمرہ ایک دم سے بولی
“ہاں یاد آگیا” وہ چہکتے ہوئے بولی جسپر حسن نے “شکر ہے” کہ کر سر جھٹکا
” میں سوچ رہی تھی کہ کیوں نہ ہم اگلے ہفتے فارم ہاؤس کا پروگرام بنائیں” وہ مسکراتے ہوئے بولی
“ہاں کیوں نہیں میں تو راضی ہوں” شہیرہ نے خوش ہوتے ہوئے بولا
سوائے حیا کہ سب نے ہاں میں ہاں ملائی
“حیا آپی آپ بھی بولیں نا” زینب بولی جسپر وہ چونکہ غالبا وہ کسی گہری سوچ میں تھی
“ہاں ٹھیک” اس نے بلا سوچے سمجھے کہ دیا
“واؤ بہت مزہ آئیگا ہم ہادیہ کو بھی لے لیں گے” سمرہ بولی ہادیہ سے ان سب کی اچھی خاصی دوستی تھی
اور سب مستیاں کرتے ایک دوسرے کو چھیڑتے پارک پہنچے
****** ******* ********
زنیرہ کچھ دیر کیلئے موقع پا کر اکیلی بیٹھی تھی
“کیا ہوا ناراض ہو؟” پیچھے سے حسین کی آواز پر جلدی سے اس نے آنسو پوچھے اور پلٹتے ہوئے بولی
“نہیں”
“زنیرہ تم رو رہی ہو؟” اسکو دکھ ہی تو پہنچا تھا
“آپکو کیا فرق پڑتا ہے” وہ بھیگی آواز میں بولی
“تم مجھے کہ رہی ہو مجھے کیا فرق پڑتا ہے حالانکہ سب سے زیادہ مجھے فرق پڑتا ہے” وہ حیرانی سے بولا اور ہاتھ اٹھا کر اسکے گال سے آنسو صاف کئے
“کیوں رو رہی ہو زونی مجھے تکلیف ہو رہی ہے” حسین اسکو روتا دیکھ کر بے بسی سے بولا
“کچھ نہیں ہوا مجھے آپ مجھے اکیلا چھوڑ دیں پلیز ” وہ چٹختے ہوئے بولی اسکے انداز پر حسین حیرانی سے دیکھ رہا تھا
“چھوڑ دوں اکیلا؟” وہ مسکراتے ہوئے بولا اور زنیرہ کو ایک دم لگا جیسے وہ چھوڑ دیگا تڑپ کر سر اٹھایا
“جب پتہ ہے نہیں رہ سکتی میرے بغیر پھر کیوں بولتی ہو؟” وہ مسکراتے ہوئے بولا
“اب بتاؤ کیا ہوا ہے؟” وہ اسکو قریبی بینچ پر بٹھاتے ہوئے بولا
“تایا نے آپی کو سب کے سامنے ڈانٹا کوئی بھی کچھ بھی نہیں کہ سکا آپ بھی نہیں آپ تو بڑے تھے حسین کچھ تو بولتے۔۔دادا بھی اپنے بیٹے کو کچھ نہیں بولتے بس سب ہمارا تماشہ دیکھتے ہیں” وہ کہتے ہوئے رودی جبکہ حسین لب بھینچ گیا
” زونی میں ابھی اتنا بڑا نہیں ہوا ہوں کہ کچھ بول سکوں اور وہ میرے باپ نہیں تھے” وہ ہلکی آواز میں بولا
“جب آپکے باپ بولتے ہیں تب کونسا آپ کچھ کہتے ہیں؟” اسکے لہجے میں تلخی آئی
“زنیرہ میں ابھی کچھ نہیں کہ سکتا جانی کیا تم ان دونوں کا غصہ نہیں جانتی تھی اور دادا اسی لئے نہیں بولتے کہ وہ بوڑھے ہو چکے ہیں جوان بیٹے کو کچھ کہیں تو وہ گھر سے ہی نہ نکال دیں” وہ اسکو سمجھاتے ہوئے بولا
“اچھا اب موڈ ٹھیک کرو مجھے بالکل بھی یہ موڈ اچھا نہیں لگ رہا تمہارا” وہ اپنا کندھا اسکے کندھے سے ملا کر بولا
“ٹھیک۔ہوں میں” بھیگی آواز میں بولی
“خاک ٹھیک ہو؟” وہ بھی برہم سے بولا جسپر زنیرہ مسکرادی
“آپ دونوں ادھر بیٹھے ہیں ہم کب سے ڈھونڈ رہے ہیں” زینب ان دونوں کو ڈھونڈتی ہوئی ادھر آئی تو حسین مسکرادیا
“میں ناراض حسینہ کو منانے آیا تھا” وہ اسکے کندھے پر بازو پھیلاتے ہوئے بولا جسکو زنیرہ نے فورا جھٹک دیا چونکہ ساری نوجوان پارٹی کو ان دونوں کی آپس کی محبت س واقف تھی اسی لئے حسین کو اپنا اظہار چھپانے کی ضرورت نہیں تھی
“فضول باتیں نہیں کریں میں کب ناراض تھی” زنیرہ جھینپتے ہوئے بولی
“ہاں آپ تو اپنے عشق کی داستان سنا رہی تھیں” وہ بھی باز نہ آیا
“افففف” وہ اٹھ کر جانے لگی تب حسین نے ہاتھ تھام لیا زینب اور زنیرہ دونوں نے حسین کی طرف استفہامیہ انداز میں دیکھا
“ناراض نہیں تھی حسینہ تو ہو؟” وہ شرارتی انداز میں بولا جسپر زینب زور سے ہنسی اور زونیرہ فورا بھاگ گئی بھاگتے ہوئے اپنے پیچھے دونوں کی ہنسی کی آواز سنی اور خود بھی مسکرادی
***** ****** ***** *****
“آج محترمہ پارک گئی تھیں” ہادیہ نے رات بارہ بجے کال کی تھی اور لطیف سا طنز کیا دونوں رات کو بات کئے بنا نہیں سوتی تھیں جب تک ایک دوسرے کو پورے دن کی داستان نہ سنادیں سکون نہیں ملتا تھا
“یار یہ لوگ زبردستی لے گئے تھے” وہ ہنستے ہوئے بولی اسکے طنز کے پیچھے وجہ اچھی طرح جانتی تھی ہادیہ کے ہزار بولنے کے باوجود وہ نہیں جاتی تھی اور کزنز کے ساتھ چلی جاتی جو کہ ہادیہ کو اچھا نہیں لگتا تھا
“ہاں ٹھیک” ہادیہ نے فقط اتنا کہا
“یار ہادیہ ناراض تو نہیں ہو اچھا اب تمہارے ساتھ چلوں گی نا” وہ مناتے ہوئے بولی ہادیہ کی ناراضگی اس سے برداشت نہیں ہوتی تھی
“پکا؟” ہادیہ خوش ہوتے ہوئے بولی
“پکا” جانتی تھی کہ تایا سے ڈانٹ پڑے گی لیکن دوست کو ناراض نہیں کر سکتی تھی جو دکھ سکھ میں اس کی ساتھی تھی
“اچھا سنو تم کل میرے ڈرائیور کے ساتھ آفس چلی جانا میں تھوڑا لیٹ آونگی مجھے اسائنمنٹ جمع کروانے جانا ہے” ہادیہ اصل بات کی طرف آتے ہوئے بولی
“یار کل پہلا دن ہے میں اکیلے جاؤنگا تو مر ہی جاونگی” وہ روہانسی انداز میں بولی
“کیوں بھئی میرے عثمان بھائی اتنے اچھے ہیں” وہ لاڈ سے بولی چونکہ ہادیہ کا کوئی بھائی نہیں تھا تو وہ عثمان کو دل و جان سے بھائی مانتی تھی
“نہیں ایسی بات نہیں۔۔۔(خاموشی) پلیز تم جلدی آنا ” وہ پریشانی سے بولی
“ارے بابا تم فکر نہ کرو میں آجاونگی اب تم سوجاو میں صبح ڈرائیور بھجوادوں گی۔۔۔اور ہاں کھانا کھایا تھا؟” روز کا سوال پوچھا گیا جسپر حیا نے لب بھینچ لئے
” کل بتاونگی اوکے بائے لو یو” جواب سنے بغیر فون کاٹ دیا جبکہ ہادیہ اچھی طرح جانتی تھی کہ اس نے کھانا نہیں کھایا اسی لئے زنیرہ کو کال کر کے کھانا لے جانے کو کہا
“آپی اب شرافت سے کھالیں اس سے پہلے کہ ہادیہ آپی مجھے اور ڈانٹیں” وہ بولی اور اسکے انداز پر حیا کی ہنسی نکل گئی
“پاگل ہے وہ بالکل” وہ ہنستے ہوئے بولی اور ٹرے اسکے ہاتھ سے لے لی
“پاگل نہیں وہ بہت محبت کرتی ہیں آپ سے آپی میری دعا ہے آپ دونوں کی دوستی ایسی ہی ہمیشہ بر قرار رہے” وہ صدق دل سے بولی جس پر حیا نے آمین کہا اور کھانا کھانے لگی
****** ******* ******* ***
“تم ادھر کیا کر رہی ہو؟” زنیرہ حیا کو کھانا کھلا کر واپس کچن میں برتن دھونے آئی تائی نے سخت لہجے میں بولا
“میں برتن دھو رہی ہوں” زنیرہ نے ایسے کہا گویا کیا آپ کی آنکھیں خراب ہیں جو دکھ نہیں رہا
“مہرانی صاحبہ کو کھانا کھلا کر آئی ہونگی آپ گھر پر تو ایسے رہا جاتا ہے جیسے بادشاہ کے محل میں ہوں ایک وقت کھانا لگتا ہے ایک ہی وقت کھایا کرو تم لوگ تم لوگوں کے باپ کا گھر نہیں جو دل چاہے جب دل چاہے کرو” زنیرہ کا دل چاہا کہ اپنا سر پیٹ لے یا انکا
“تم ادھر کیا کرہے ہو؟” تائی کے کہنے پر زنیرہ نے جھٹکے سے سر اٹھایا اور حسین کو سامنے دیکھ کر آنکھوں میں نمی آگئی
“پانے پینے آیا تھا” حسین نے قدرے سخت لہجے میں کہا
“جلدی پیو اور چلو اوپر” تائی کہتے ہوئے چلی گئیں
زنیرہ بھی انکے پیچھے جانے لگی کہ حسین نے ہاتھ پکڑ کر روکا
“زونی” پیار بھری گھمبیر آواز پر جھکا سر مزید جھک گیا
“تم ہر بات پہ مجھ سے کیوں ناراض ہوجاتی ہو میں نے بھیجا تھا انکو کہ جاکر زنیرہ کو ڈانٹیں؟” وہ جھنجھلا کر بولا زنیرہ واپس جانے لگی
“زنیرہ میری بات سنو” حسین نے واپس سے اسکا راستہ روکا
“آپ پلیز مجھے اکیلا چھوڑدیں” وہ اسکو سائڈ پر دھکا دیتے ہوئے کمرے کی طرف منہ پر ہاتھ رکھ کر بھاگ گئی مبادا کوئے اسکی سسکی نہ سن لے
پھر حسین نے جتنی بھی کالز کیں اس نے نہیں اٹھائیں نہ کوئی میسج کا جواب دیا اور حسین ساری رات سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا تھا کہ اس کی کیا غلطی تھی؟
***** ****** ******* ****
” ناشتہ کی ٹیبل آج صرف دادا اور حیا بیٹھے تھے باقی سب کی چھٹی تھی اور اسکو آفس جانا تھا
“حیا بیٹا جاوگی کیسے؟” دادا نے پیار سے پوچھا
“ہادیہ نے ڈرائیور بھیجا ہے اسمیں” وہ مسکراتے ہوئے بولے
“بڑی پیاری بچی ہے اللہ اسکے نصیب اچھے کرے” ہادیہ سے وہ واقعی بہت خوش رہتے تھے
اور حیا اور ہادیہ میں فرق نہیں کرتے تھے
“آمین” حیا نے مسکراتے ہوئے بولا اور ناشتہ کرنے لگی اور دادا بغور اسکا چہرہ دیکھنے لگے
“ایسے کیا دیکھ رہے ہیں” مسلسل اپنی طرف دیکھتا پاکر حیا نے پوچھا
“دیکھ رہا ہوں کہ وہ ننھی سی بچی کتنی بڑی ہوگئی ہے کہ اب دادا کے پاس بھی نہیں آتی نہ دادا کے گود میں سر رکھ کر روتی ہے نہ کوئی شکایت کرتی نہ لڑتی ہے” دادا افسردگی سے بولے جسپر حیا مسکرادی لیکن آنکھوں میں آئی نمی کو چھپانے کیلئے سر جھکادیا
“نہیں دادا ایسی بات نہیں اب میں زندگی سمجھ گئی ہوں اور لوگوں کے رویوں کی عادی ہوگئی ہوں مجھے اب کوئی فرق نہیں پڑتا میں اپنا دل سخت کر چکی ہوں” وہ گلوگیر لہجے میں بولی
“سب جھوٹ کی رہی ہو بچپن سے پالا ہے تمہیں بہت اچھی طرح واقف ہوں تم سے چھپ کر روتی ہو شکایت تکیہ کر سر رکھ کر کرتی ہو اب دادا دادی کی ضرورت نہیں نا” وہ بھی بالکل بچوں کی طرح ناراض ہوئے جسپر حیا کی ہنسی نکل گئی
“اچھا آج آجاونگی ابھی دیر ہورہی ہے کل چھٹی ہے نا ڈھیر ساری باتیں کریں گے” وہ دادا کے سر پر بوسہ دے کر پورچ میں آگئی جبکہ دادا مسکرادئیے
***** **** ***** *** *****
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...