عون غصے میں وہاں سے آرزو کے پاس آیا آرزو وانیہ اور آصفہ کے ساتھ بیٹھی باتیں کر رہی تھی اسے اس جھگڑے کا علم نہیں تھا –
آرزو چلو میرے ساتھ عون نے اس کا ہاتھ پکڑ کر لے جاتے ہوئے کہا-
کیا ہوا عون آپ مجھے کہاں لیکر جا رہے ہیں –
عون اسے تقریبن گھیسٹتے ہوئے کالج سے باہر لایا اور اپنی گاڑی کے پاس رک گیا-
عون میرا ہاتھ چھوڑیں درد ہو رہا ہے مجھے –
عون نے بہت مضبوطی سے اس کی کلائی پکڑی تھی جس کی وجہ سے اس کی چوڑیاں ٹوٹ کر اس کی کلائی میں چھب گئی تھی اور وہاں سے خون بہہ رہا تھا-
عون ایسا ہی تھا جب بھی اسے غصے آتا تھا وہ ایسے ہی بی ہیو کرتا تھا-
میں نے کہا تھا نے اس عمیر سے بات مت کرنا میری بات تمہیں سمجھ نہیں آتی –
عون نے اسے اپنے قریب کر کے کہا-
میں اس سے بات نہیں کرتی وہ خد فری ہو رہا تھا –
آپ مجھے کیوں ڈانٹ رہے ہیں –
آرزو نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی –
اور تم نے اسے اپنے نوٹس کیوں دیئے ہاں آج کے بعد اگر کبھی وہ تمہارے سامنے بھی آئے تو مجھے بتانا آئی سمجھ-
سر نے کہا تھا اس لیئے نوٹس دیئے تھے میں نے اسے مجھے کوئی شوق نہیں ہے کسی سے بات کرنے میری غلطی نا ہو تب بھی آپ مجھ پر غصہ کرتے ہیں ابھی اتنے زور سے میرا ہاتھ پکڑا ہوا ہے آپ نے اگر اللہ نے آپ کو پتھروں سے بنایا ہے تو ہم مٹی والوں کا تھوڑا سا ہی خیال کر لیا کریں مسٹر اسٹون مین –
آرزو نے نم شکایتی معصومانہ سب لہجے ملا کے کہا –
عون نے گاڑی کا لاک کھول کر اسے اندر بٹھایا اور خد بھی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ –
مجھے ابھی ایک کلاس اٹینڈ کرنی تھی –
آرزو منہ بنا کے بولی –
کل کر لینا –
جواب بھی حاضر تھا-
آرزو نے اپنا منہ دوسری طرف کر لیا سڑیل جو یے چاہے وہی ہوگا –
آرزو کبھی شیشے کے باہر کبھی اپنی کلائی اور کبھی اس کھڑوس کو دیکھ رہی تھی جو ایسے بیٹھا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نا ہو اس کے چھرے پر اب کوئی غصہ نہیں تھا وہ سکون سے گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا-
اچانک گاڑی رکی آرزو نے الجھی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو کیا ہوا کیوں کی گھر تو ابھی نہیں آیا تھا –
پھر کچھ سمجھ آنے پر بولی –
عون مجھے گول گپے نہیں کھانے اب میرا موڈ نہیں –
تمہیں گول گپے کھلا کون رہا ہے –
عون نے فرسٹ ایڈ بوکس نکالتے ہوئے کہا –
تو پھر –
آرزو نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا-
تو پھر یے کے تمہیں چوٹ لگی ہے اپنا ہاتھ دو میں دوائی لگادیتا ہوں –
عون نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا جسے آرزو نے جھٹ سے چھڑا دیا ”
مجھے نہیں لگوانی دوائی ”
آرزو نے اپنا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے کہا-
آرزو بچی مت بنو ہاتھ آگے کرو اپنا-
عون نرمی سے بولا اب وہ غصہ نہیں کرنا چاہتہ تھا –
نہیں کہا نا مطلب نہیں –
آرزو ضدی لہجے میں بولی جس پر عون کا میٹر گھومتے گھومتے بچا –
آرزو ہاتھ آگے کرو –
اس بار عون کی آواز میں غصہ پلس روب تھا آرزو ڈر گئی
دے رہی ہوں ہاتھ اتنا چلا کیوں رہے ہیں آرزو نے جلدی سے اپنا ہاتھ آگے کر دیا –
جس پر عون مسکرا دیا –
صحیح کہتے ہیں لوگ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے –
عون نے اس کا ہاتھ پکڑا اور روئی سے خون صاف کرنے لگا –
نہیں نہیں عون یے جلنے والی دوائی مت لگائیں اس سے بہت جلن ہوتی ہے آپ ایسے ہی پٹی کردیں –
آرزو نے اسے ڈیٹول کی شیشی اٹھاتے دیکھا تو جھٹ سے بولی –
اس سے لگانے سے زخم جلدی ٹھیک ہوتا ہے اس لیئے چپ کر کے بیٹھو –
میں نہیں لگانے دوں گی ہر بار وہ نہیں ہوگا جو آپ چاہیں گے اگر پھر بھی آپ نے لگایا تو میں داھڑیں مار کر روئوں گی –
آرزو نے بچوں کی طرح کہا-
عون کو پتا تھا وہ ایسے نہیں مانے گی اس لیئے اس نے کچھ سوچ کر کہا-
آرزو تمہیں پتا ہے جب تم ہنستی ہو نا تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے ،،،،،،
عون اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بول رہا تھا اور آرزو خوشی اور حیرت سے اس کی بات سن رہی تھی اسے یقین نہیں آ رہا تھا اس کا سڑیل شوہر کبھی اس کے بارے میں بھی سوچتا بھی ہے ”
جیسے،،،،،،،
آرزو نے بھی اس کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا –
اس کا دھیان نا پا کر عون نے بڑی ہوشیاری سے اس کے زخم پر ڈیٹول لگا دیا اور اسے پتا ہی نا چلا
عون بتائیں نا جیسے کیا
آرزو اسے خاموش دیکھ کر پھر سے بولی –
جیسے یے کے پٹی ہو گئی –
عون نے اس کا ہاتھ چھوڑ کر کہا-
مطلب آپ مجھے بے وقوف بنا رہے تھے اور آپ نے مجھے وہ جلنے والی دوائی بھی لگا دی ”
آرزو نے صدمے سے پوچھا –
ہممممم
عون نے نیازی سے کہا
اب مجھے گول گپے کھانے ہیں –
آرزو نے فرمائش کی –
عون نے اسے گھورا اور گاڑی سے اتر گیا گول گپے لانے کے لیئے محترمہ نے فرمائش جو کی تھی –
عون نے گول گپے لیئے پئسے دے کر وہ گاڑی کی طرف جانے لگا تب ہی ایک فقیر بابا اس کے سامنے آئے –
عون نے کچھ پئسے والٹ سے نکالے اور ان کی طرف بڑھائے
فقیر بابا نے نفی میں سر ہلایا اور جانچتی نظروں سے اسے دیکھتے رہے عون کو کچھ عجیب لگا لگتا ہے کوئی زہنی مریض ہیں –
اس نے سوچا اور جانے لگا-
اس کی قدر کرنا ”
اسے پیچھے سے فقیر بابا کی آواز آئی وہ ان کی طرف مڑا اور سوالیا نظروں سے انہیں دیکھا –
کیا مطلب بابا کس کی قدر
عون نے الجھتے ہوئے پوچھا –
اس کی جو تیری زندگی ہے پر تو نہیں جانتا ایک دن وہ بہت دور چلی جائے گی میں تمہارے لیئے دعا کروں گا –
بابا بول کر چلے گئے –
اور عون ان کی باتوں میں الجھ گیا
کیا بول رہے تھے یے بابا میری زندگی مجھ سے دور چلی جائی گی کیا میں مرنے والا ہوں ”
اسے بابا کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آئی
لگتا ہے اس بابا کی طرح میرا دماغ بھی خراب ہو جائے گا ان کا تو کام ہے ایسی باتیں کر کے لوگوں کو پریشان کرنا –
عون نے بیزاری سے سوچا اور گاڑی کی طرف چلا گیا-
اتنی دیر لگا دی آپنی آپ جلدی نہیں آ سکتے تھے –
آرزو نے گول گپے لیتے ہوئے کہا –
عون نے کوئی بھی جواب نہیں دیا وہ اب بھی اس بابا کے بارے میں سوچ رہا تھا –
عون اپ کو پتا ہے کل دادو نے مجھے ہماری بچپن کی تصوریں دکھائیں تھی میں اتنی کیوٹ تھی کے کیا بتائوں میرا دل کر رہا تھا میں تصویر میں اندر چلی جائوں اور اس کیوٹ بچی یعنی کی میں خد کو اٹھا لوں اور اتنی کسیاں دوں ہائے کتنی پیاری تھی میں اب بھی ہوں ہے نا عون میں اب بھی پیاری ہوں نا-
آرزو گول گپے کھاتے ہوئے بول رہی تھی –
آرزو کم سے کم کھاتے وقت تو چپ کر کے بیٹھو بول بول کے سر میں درد کر دیتی ہو –
عون نے بےزار کن لہجے میں کہا-
میں تو بولتی رہوں گی جب تک زندہ ہوں باقی مجھے چپ کرنے کے لیئے آپ کو میرے مرنے کی دعا کرنی ہوگی –
آرزو نے شرارت سے کہا-
میرے پاس اتنا وقت نہیں کے تمہارے لیئے فضول دعائیں کرتا رہوں –
عون نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا-
آپ کے پاس میرے لیئے وقت ہوتا ہی کہاں ہے ہمارے ایسے نصیب کہاں کے عون صاحب ہمارے بارے میں کچھ سوچیں یا بات کریں –
آرزو ڈرامائی انداز میں بولی –
عون خاموش رہا باقی کا سفر بھی ایسے ہی گزرا آرزو بولتی رہی اور وہ خاموش –
♡♡♡♡♡♡♡
آرزو آرزو عون چلا رہا تھا وہ اس سے دور جا رہی تھی ہنستی ہوئی باتیں کرتی ہوئی پر وہ عون سے دور جا رہی تھی عون اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا اور وہ اس سے دور جاتی جا رہی تھی وہ پاگلوں کی طرح اسے پکار رہا تھا وہ چلا رہا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے آرزو پہاڑی سے نیچی گر گئی –
آرزو عون نے چلا کر اس کا نام پکارا اور جلدی سے اٹھ گیا اس نے ادھر اودھر دیکھا تو وہ اپنے کمرے میں سو رہا تھا اس نے خواب دیکھا تھا شاید بہت ڈرائونا خواب ایسے ہی جواب اسے بہت دنوں سے آ رہے تھے جس میں آرزو اس سے دور جا رہی تھی –
اس نے سائیڈ ٹیبل سے جگ اور گلاس اٹھایا اور پانی گلاس میں انڈیل کر جگ واپس رکھا اور ایک ہی گھونٹ میں پانی پی گیا –
سارا دن میرا سر کھاتی ہے بول بول کر اور رات کو خوابوں میں پریشان کرتی ہے پتا نہیں کسی جرم کی سزا ہے یے –
عون نے غصے سے سوچا اور پھر سے سونے کے لیئے لیٹ گیا پر اب نیند کہاں آنی تھی —-
¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤
آج آرزو حیدر کے ساتھ کالج آئی تھی عون صبح ہی کہیں چلا گیا تھا –
حیدر بند کرو انہیں کتنے بکواز گانے سنتے ہو نا تم –
آرزو منہ بنا کر بولی اور ہاتھ بڑھا کر ٹیپ بند کر دیا-
مجھے اچھے لگتے ہیں اور زیادہ بکواز نہیں کرو میرا موڈ بہت خراب ہے اٹھا کے گاڑی سے نیچے پٹک دوں گا-
حیدر نے پھر سے گانا چلایا اور ہاتھ اٹھا کر اسے وارن کیا-
ہووووو آرزو نے منہ کھول دیا اور حیرانی سے حیدر کو دیکھنے لگی
حیدر نے بھی اسے دیکھا اسے پتا تھا اب کیا ہونے والا ہے –
آرزو نے چپل اتاری اور کس کس کے اس پر نشانے لگائے
مجھے گاڑی سے پٹکو گے موڈ خراب ہے تمہارا ہاں وہ اسے مارتے ہوئے بول رہی تھی –
قسم سے مزاق کر رہا تھا میرے ہونے والے بچوں کی توبا اب جو تمہیں کچھ کہوں –
حیدر ہاتھ جوڑتے ہوئے بول رہا تھا اسے دیکھ کر آرزو ہنسنے لگی
ہاہاہا اب لگ رہے ہو نا اصلی والے حیدر
آرزو نے چپل پہنتے ہوئے کہا-
کیا یار کبھی مزاق ہی نہیں کرنے دیتی ہو
میرا بھی دل چاہتا میں عون بھائی کی طرح سب کو ڈرا کے رکھوں ان کی طرح غصہ کروں پر میں جب بھی ایسا کرتا ہوں مجھے جوتوں کا تحفہ ملتا ہے _
حیدر معصومانہ انداز میں بول رہا تھا-
اور آرزو ہنس رہی تھی
تم جو ہو نا ویسے ہی اچھے ہو سب کے لیئے ایک عون ہی کافی ہے تم حیدر ہو اور حیدر عون سے الگ ہے –
آرزو اسے سمجھاتے ہوئے بولی-
آرزو تمہیں شرم نہیں آتی اپنے سے چھ مہینے بڑے بھائی کو چپل سے مارتے ہوئے –
حیدر نے اسے شرم دلاتے ہوئے کہا-
تمہیں غلط فھمی ہوئی ہے میں تم سے چھ مہینے چھوٹی نہیں بڑی ہوں –
جی نہیں میں بڑا ہوں –
نہیں میں بڑی ہوں مجھے پتا ہے-
تمہیں نہیں پتا مجھے پتا ہے میری امی نے بتایا اور چاچی تو ہے نہیں اس لیئے تمہیں ٹھیک سے نہیں پتا –
حیدر بنا سوچے سمجھے بولا اس نے انجانے میں ہی آرزو کا دل دکھا دیا تھا –
آرزو نے کوئی جواب نہیں دیا –
حیدر نے گاڑی روکی وہ چپ چاپ اتر گئی حیدر کو حیرانی ہوئی کے ہمیشہ خد کو صحیح ثابت کرنے کے لیئے بحث کرنے والی خاموشی سے کیسے چلی گئی –
چلو کالج کی کوئی ٹینشن ہوگی پر یار بندا بائے ہی بول دیتا ہے-
حیدر منہ ہی منہ میں بڑبڑانے لگا اور گاڑی بھگا کے لے گیا-
وانی کیا ہوا تجھے تیری طبیعت ٹھیک ہے نا آرزو جب کلاس میں پھچی تو وانیہ دیکھ کر کہا
وانیہ کو بخار ہو گیا ہے آرزو میں بول رہی ہوں اسے اپنے بھائی یا پاپا کو کال کر کے بلا لے پر مان ہی نہیں رہی –
آصفہ نے آرزو کو بتایا-
ہا وانی وجدان بھائی یا انکل میں سے کسی کو بلا لو نا یا پھر ہم دونوں تجھے تیرے گھر پھینک آئیں-
آرزو آج مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے کے تجھ سے لڑ سکوں بابا یا بھائی میں سے کسی کو بلا تو لوں بٹ بھائی یونیورسٹی گئے ہوگے بابا آفس اب میں اپنی وجہ سے انہیں کیسے پریشان کروں –
وانیہ پریشانی سے بولی-
پاگل اور اگر تو بے ہوش ہو گئے تو پھر تجھے اٹھائے گا کون لا سیل دے اپنا میں انکل کو کال کرتی ہوں
آرزو نے اس کا سیل اٹھاتے ہوئے کہا –
آرزو نہیں یار بابا پریشان ہو جائیں گے مجھے ایک چھینک بھی آئے تو انہیں برداشت نہیں –
وانیہ اسے روک رہی تھی –
اور اس کے الفاظ آرزو کا دل دکھا رہے تھے –
پر وانی تجھے پتا ہے میں مر بھی جائوں گی نا تو بابا کو کوئی فرق نہیں پڑے گا –
آرزو نے دکھ سے سوچا-
آرزو نے انکل سے بات کر لی تھی اور وہ آ رہے تھے –
وانی تیرے پاپا تجھ سے کتنی محبت کرتے ہیں نا کاش میرے بابا بھی مجھ سے محبت کرتے –
آرزو نے حسرت سے کہا-
آرزو ایسا نہیں بولتے یار تیرے پاپا بھی تجھ سے بہت پیار کرتے ہیں بس ظاھر نہیں کرتے –
وانیہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی –
ہا بہت پیار کرتے ہیں اسی لیئے تو جہاں میں ہوتی ہوں وہاں سے چلے جاتے ہیں –
آرزو نے دکھی لہجے میں کہا–
تب ہی وانیہ کے پاپا آئے –
کیا ہوا بچے اگر بخار تھا تو کالج نا آتی نا چلو اب میں تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے چلوں زیادہ تکلیف تو نہیں ہے نا-
انہوں نے بہت فکرمندی سے کہا ان کے ایک ایک لفظ میں اپنی بیٹی کے لیئے محبت تھی –
زیادہ نہیں ہے پاپا بس ہلکا سا بخار ہے آپ پریشان نا ہو –
وانیہ نے اپنے پاپا کو تسلی دی –
وہ وانیہ کو لیکر چلے گئے –
آرزو بس انہیں دیکھتی رہی وہ جیلس نہیں ہو رہی تھی –
وہ بس چاہتی تھی کے اسے بھی اس کے بابا کا پیار ملے اک چھوٹی اور معمولی سی خواہش تھی اس کی
ماں تو اللہ نے چھین لی تھی اور باپ خد ہی دور ہو گیا تھا اس کی بھی کیا زندگی تھی وہ جب بھی چپ ہوتی تھی یے سوچیں اسے اندر سے کھوکھلا کر دیتی تھیں
اس لیئے اس نے بے وجا بولنا شروع کیا بات بات پر بحث کرنا ضد کرنا سب کو تنگ کرنا وہ اس سب میں مصروف رہنا چاہتی تھی تاکے وہ اپنی تلخ حقیقت کو بھول سکے اس کے لیئے بہت مشکل تھا اپنے باپ کی بے رخی سہنا اسے جب جب اپنے باپ کی ضرورت پڑی اس کے پاس کوئی نہیں تھا دادی بھلے ہی بہت پیار کرتی تھی پر ماں باپ کا مرتبہ تو الگ ہے نا ان کے جیسی محبت کوئی نہیں کر سکتا-
تائی اور تائو کے پاس تو اپنے بچوں کے لیئے ہی وقت نہیں ہوتا تھا –
تائو ہمیشہ اپنے بزنس میں بزی رہتے تھے اور تائی اپنے این جی اوز میں –
وہ بچپن سے اپنے باپ کی محبت کے لیئے ترستی آئی تھی ان کی آنکھوں میں اپنے لیئے بیزاری نہیں فکر دیکھنا چاہتی تھی پر اس کی یے خواھش کبھی پوری ہوگی یا نہیں وہ نہیں جانتی تھی ———
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...